السلام عليكم.
يه تحرير :شيخ عبدالمعيد المدني حفظ الله
نشر و اشاعت : عبدالمومن سلفي
يه تحرير ان web sites پر موجود هین
--------------------------------------------
Www.mominsalafi.blogspot.com
Www.talashhaq.blogspot.com
-------------------------------------------م
جدید خوارج کی ایک شکل
شیخ عبد المعید مدنی حفظہ اللہ
ایک فتنہ جو اس وقت جگہ جگہ موجود ہے۔ وہ سیکولر تعلیم یافتہ حضرات کا ہی ہے۔ یہ لوگ فکر و خیال کی انتہا پسندی کے اس عروج پر ہیں کہ ان کے نزدیک ہندوستان میں ایک بھی عالم نہیں ہے جس سے وہ استفادہ کر سکیں۔ یہ گروہ انتہائی درجہ کا سطحی،دین سے بے خبر، اجڈ اور خوش فہم ہے۔ یہ لوگ شخصیت پرست، ا نٹر نیٹ پرست، ٹی وی پرست ہیں۔ ان کے نزدیک نہ دین کی اہمیت ہے نہ علم کی نہ علماء کی۔ یہ [سفہاء الاحلام احداث الاسنان] کی ٹیم ہے۔ یہ اتنے جاہل ہیں کہ ان کو کوئی بھی عیار دین کے نام پر فریب دے سکتا ہے اور دے رہا ہے۔ ان کا کل دین، ایمان، علم [ربیعی سروری] مناقشے ہیں۔
ربیعی اور سروری مناقشے کیا ہیں؟ اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
ڈاکٹرربیع المدخلی ایک معتبر محدث عالم اور مصنف ہیں۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ میں انھوں نے تعلیم حاصل کی۔ چند سال انھوں نے جامعہ سلفیہ بنارس میں پڑھایا اور بقیہ عمر جامعہ اسلامیہ میں گذار دی۔ کلیۃ الحدیث کے استاذ سے لے کر الدراسات العلیاء کے صدر تک رہے اور ایک بہترین استاذ، صالح اور مخلص سلفی عالم کی حیثیت سے ان کی پہچان بنی۔ علامہ البانی، شیخ ابن باز، شیخ ابن عثیمین رحمہم اللہ اور شیخ صالح فوزان نے ان کی دعوتی اور تحریری کاموں کی بھر پور تائید و توثیق کی۔
شیخ سرور زین العابدین ایک شامی سلفی عالم ہیں۔ انھوں نے بھی جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ میں تدریس کا کام کیا ہے۔ ان دونوں علماء کے درمیان عقیدہ و منہج پر کافی قلمی مباحثے ہوئے ہیں۔ جانا یہ جاتا ہے کہ شیخ سرور اخوانی تحریکیت کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں اور خاص اخوانی حاکمیت کے نظریے کے وہ حامل ہیں۔ اس مناقشے نے اتنا طول کھینچا کہ موافقت مخالفت میں ربیعی اور سروری دو گروپ بن گئے۔ اس مناقشے نے طول یوں بھی پکڑا کہ سید قطب سارے عالم عرب میں چھائے ہوئے تھے۔ ہر حلقے میں ان کی تحریروں کی طوطی بولتی تھی۔ شیخ ربیع نے سب سے پہلے تفصیل کے ساتھ ان کی تحریروں کا جائزہ لیا اور ان کی اندر موجود کمیوں کو آشکارا کیا خاص کر ان کمیوں کا جن کا تعلق دین کے اصولی اور منہجی امور سے تھا۔ اس پر اخوانی تحریکی اور وہ سلفی جنھوں نے اخوانیت کی شراب محبت پی رکھی تھی اور ان کی تحریکیت کو قبول کر رکھا تھا اتنے سیخ پا ہوئے کہ ان کے خلاف اندر باہر ایک محاذ کھول دیا اور انھیں مطعون اور مسترد کرنے کے سارے علمی غیر علمی حربے استعمال کر ڈالے۔ اس طرح مناقشے نے مستقلاً ایک طویل مناقشت اور منافست میں بدل گئے۔ یہ مناقشہ تقریباً تیس سالوں سے چل رہا ہے اور دونوں کے طرف دار بن گئے ہیں اور کتاب، پمفلٹ، رسائل، ویب سائٹ اور انٹر نیٹ کے ذریعے یہ مناقشہ جاری ہے۔ یہ مناقشہ در اصل علماء کے درمیان تھا لیکن اسے عوامی بنا دیا گیا۔ اسے عوامی بنانے میں فتنہ پروری کا ہاتھ ہے۔ یہی مناقشہ لوگوں کے سلفی ہونے نہ ہونے کا معیار بن گیا ہے۔ جن نادانوں نے اسے معیار بنا دیا ہے اب اس معیار کے مطابق ہندوستان میں شاید کوئی سلفی عالم نہیں رہ گیا ہے۔ جہلاء، خارجی سوچ کے سفہاء الأحلام احداث الأسنان ربیعی تلوار لیے سارے اہل حدیث علماء کا سر قلم کر رہے ہیں۔
بات تو اصولی طور پر شیخ ربیع ہی کی صحیح تھی لیکن مناقشات جب طول پکڑتے ہیں اور دونوں فریق بن کر اپنے لیے طرف دار بٹور لیتے ہیں تو معاملہ [دھت تیری کی] کی بن جاتی ہے اور بات ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے تک پہونچتی ہے اور کم سے کم مناقشت میں آلودگی آجانے سے وہ عام حق و باطل کے پرکھ کا معیار نہیں رہ جاتی ہے اسے ایک خاص دائرے سے نکال کر عام معیار نہیں بنا سکتے۔ اصلا صحیح مناقشت سے صرف باطل کی صفائی مقصود ہوتی ہے۔ اس کا کام بس یہیں ختم ہو جاتا ہے۔ اس کا ایک خاص دائرہ ہوتا ہے، خاص ماحول اور خاص بو اور مزا ہوتا ہے۔ بڑی نادانی ہوگی کہ جھاڑو کو قلم بنایا جائے اور تیزاب کو شربت کہا جائے۔
خارجی ذہنیت کے حامل جو اپنی خاص پہچان بنانا چاہتے ہیں وہ ان مناقشات کو [تصنیف الناس] کا اصول بنائے ہوئے ہیں اور کم عقل بیٹھ بیٹھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ کون عالم ہے کون نہیں ہے؟ کون مسترد ہے کون مقبول ہے؟ کون اہل حدیث ہے کون اہل حدیث نہیں ہے؟ان کے لیے دین کی تعلیمات بس اتنی ہیں کہ سروری ربیعی مناقشات کو پڑھیں اور آنکھ کان بند کر لیں نہ کسی کی سننے کی ضرورت ہے نہ مزید پڑھنے کی ضرورت ہے۔ یہ سفہاء الاحلام تمام دنیا کے مسلمانوں کے متعلق حکم لگانے کا پورا پورا حق رکھتے ہیں اور اگر ان کی سوچ رویے اور حماقتوں پر کوئی خارجیت کا حکم لگا دے تو مرنے لگتے ہیں۔ اپنے بارے میں چھوئی موئی اور دوسروں کے متعلق صرف کانٹا ہی کانٹا۔ اگر یہ اتنے جری ہیں کہ دوسروں کے علم و عمل اور عقیدے کو زیرو بنا رہے ہیں تو اپنے متعلق بھی حکم سننے کا یارا رکھیں۔
جس وقت یہ مناقشہ شروع ہوا تھا شیخ ابو بکر زید نے اپنی کتاب [تصنیف الناس] لکھی۔ جس وقت یہ کتاب لکھی گئی اسی وقت یہ شکایت ان سے تھی کہ انھوں نے تخاذل اختیار کیا ہے۔ اخوانیوں نے اس کتاب کو اپنے حق میں خوب استعمال کیا لیکن اب جس طرح کم عقل ربیعی سروری مناقشے کو استعمال کر رہے ہیں کسی کو اہل حدیث کسی کو غیر اہل حدیث، کسی کو جاہل اور کسی کو عالم، کسی کو مستند کسی کو غیر مستند بنائے پھرتے ہیں اب اس کتاب کی بات حقیقت بن رہی ہے اور جہلاء اس مناقشے کو معیار بنا کر علماء کے متعلق اپنا فیصلہ فرما رہے ہیں۔ یہ رویہ اختیار کر کے ایسے لوگ خارجیت کی کئی علامتیں اپنے اندر پیدا کر چکے ہیں۔
1⃣۔ عموما اس فتنے میں مبتلا سیکولر تعلیم یافتہ ہیں یعنی دینی اصول و مبادی سے بے خبر ہیں۔ یعنی سفہاء الاحلام میں ان کا شمار ہے۔
2⃣۔ ان کی اکثریت أحداث الأسنان کی ہے یعنی کم عمر الھڑ لڑکوں کی ہے۔
3⃣۔ ان کو اپنی جانکاری پر خوش فہمی ہے یہ فتوی بازی کرنے میں بڑی تیزی دکھلاتے ہیں۔
4⃣۔ انھیں اپنے تقوی پر بھی بڑا غرور ہے۔ یہ بڑے پاکباز بنتے ہیں۔
5⃣۔ یہ بے مسئلہ کو مسئلہ بناتے ہیں۔
6⃣۔ یہ دین کی تعلیمات کے بجائے علماء کے مناقشات کی تبلیغ کرتے ہیں۔
7⃣۔ یہ فساد پھیلانے میں بڑے تیز ہیں۔ اور خاص دینی دعوت و تبلیغ میں زبردست رکاوٹ ہیں۔
ان کے اندر خارجیت کی یہ سات علامتیں موجود ہیں۔ انھیں اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہیے اور فتنہ پروری سے باز آجانا چاہیے۔ ان کے لیے بہتر ہے کہ اپنے آس پاس کے مستند علماء سے جڑ کے رہیں اور کسی کم عقل کے بھٹکانے سے بھٹکیں نہیں۔
اور سوشل میڈیا کے ذریعہ اگر ہماری یہ آواز شیخ ربیع حفظہ اللہ تک پہونچے تو ان سے گذارش ہے کہ ان کے نام سے دکان لگانے فتنہ پھیلانے اور خارجیت کی ضلالت میں پڑے لوگوں کو نصیحت کریں کہ وہ ان حرکتوں سے باز آجائیں اور فقط دین سیکھیں اور عمل کریں اور اللہ تعالی سے توبہ کریں اور مسلمانوں کو اپنی گمراہیوں اور فتنوں سے بچائیں۔
در اصل اس دور میں کم عمروں اور کم عقلوں کا مزاج ہڑ بونگی ہوتا ہے عموماً یہ سیاست بازی جتھہ بندی نیتائی اور شہرت کے رسیا ہوتے ہیں۔ ان کے اندر سنجیدگی اور وقار نام کی نہیں ہوتی۔ اس لیے سماجی اور اجتماعی نزاکتوں اور دینی ذمہ داریوں کو نظر انداز کرکے الگ ڈھرا الگ شناخت بنانے میں بڑا لطف اٹھاتے ہیں۔ اور فتنہ پھیلانے میں انھیں بڑا مزا آتا ہے۔
یہ اپنے رویہ سے دین، علم، علماء، شرافت و مروت اور حیا سب کی پامالی کرتے ہیں اور اچھا نوجوان بھی چھچھورا بن کر رہ جاتا ہے۔ یا پھر انحراف اور انعزال اس کا مقدر بن جاتا ہے اور جو خود کو نیتا بنائے پھرتا ہے وہ کم سنوں اور کم فہموں کی زندگی میں زہر بھر دیتا ہے۔ جو ان کا نیتا بنتے ہیں وہ اپنے رویے سے انتہائی درجے کے مجرم بن جاتے ہیں۔ ایسے ہی کم فہم کم عقل نیتا ہمیشہ نوجوانوں کی گمراہی اور بربادی کا سبب بنتے ہیں۔ شیخ ربیع کے نام پر سارے سفہاء الاحلام اور أحداث الأسنان سلفیت کے نادان دوست ہیں اور عقل و شرافت انھیں راست نہیں آئی. اور اپنی نیتائی کی دکان کھولے ہوئے ہیں۔ اور صرف لوگوں کے بھٹکنے کا سبب بنتے ہیں
والسلام علیکم ورحمة الله وبركاته
يه تحرير :شيخ عبدالمعيد المدني حفظ الله
نشر و اشاعت : عبدالمومن سلفي
يه تحرير ان web sites پر موجود هین
--------------------------------------------
Www.mominsalafi.blogspot.com
Www.talashhaq.blogspot.com
-------------------------------------------م
جدید خوارج کی ایک شکل
شیخ عبد المعید مدنی حفظہ اللہ
ایک فتنہ جو اس وقت جگہ جگہ موجود ہے۔ وہ سیکولر تعلیم یافتہ حضرات کا ہی ہے۔ یہ لوگ فکر و خیال کی انتہا پسندی کے اس عروج پر ہیں کہ ان کے نزدیک ہندوستان میں ایک بھی عالم نہیں ہے جس سے وہ استفادہ کر سکیں۔ یہ گروہ انتہائی درجہ کا سطحی،دین سے بے خبر، اجڈ اور خوش فہم ہے۔ یہ لوگ شخصیت پرست، ا نٹر نیٹ پرست، ٹی وی پرست ہیں۔ ان کے نزدیک نہ دین کی اہمیت ہے نہ علم کی نہ علماء کی۔ یہ [سفہاء الاحلام احداث الاسنان] کی ٹیم ہے۔ یہ اتنے جاہل ہیں کہ ان کو کوئی بھی عیار دین کے نام پر فریب دے سکتا ہے اور دے رہا ہے۔ ان کا کل دین، ایمان، علم [ربیعی سروری] مناقشے ہیں۔
ربیعی اور سروری مناقشے کیا ہیں؟ اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
ڈاکٹرربیع المدخلی ایک معتبر محدث عالم اور مصنف ہیں۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ میں انھوں نے تعلیم حاصل کی۔ چند سال انھوں نے جامعہ سلفیہ بنارس میں پڑھایا اور بقیہ عمر جامعہ اسلامیہ میں گذار دی۔ کلیۃ الحدیث کے استاذ سے لے کر الدراسات العلیاء کے صدر تک رہے اور ایک بہترین استاذ، صالح اور مخلص سلفی عالم کی حیثیت سے ان کی پہچان بنی۔ علامہ البانی، شیخ ابن باز، شیخ ابن عثیمین رحمہم اللہ اور شیخ صالح فوزان نے ان کی دعوتی اور تحریری کاموں کی بھر پور تائید و توثیق کی۔
شیخ سرور زین العابدین ایک شامی سلفی عالم ہیں۔ انھوں نے بھی جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ میں تدریس کا کام کیا ہے۔ ان دونوں علماء کے درمیان عقیدہ و منہج پر کافی قلمی مباحثے ہوئے ہیں۔ جانا یہ جاتا ہے کہ شیخ سرور اخوانی تحریکیت کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں اور خاص اخوانی حاکمیت کے نظریے کے وہ حامل ہیں۔ اس مناقشے نے اتنا طول کھینچا کہ موافقت مخالفت میں ربیعی اور سروری دو گروپ بن گئے۔ اس مناقشے نے طول یوں بھی پکڑا کہ سید قطب سارے عالم عرب میں چھائے ہوئے تھے۔ ہر حلقے میں ان کی تحریروں کی طوطی بولتی تھی۔ شیخ ربیع نے سب سے پہلے تفصیل کے ساتھ ان کی تحریروں کا جائزہ لیا اور ان کی اندر موجود کمیوں کو آشکارا کیا خاص کر ان کمیوں کا جن کا تعلق دین کے اصولی اور منہجی امور سے تھا۔ اس پر اخوانی تحریکی اور وہ سلفی جنھوں نے اخوانیت کی شراب محبت پی رکھی تھی اور ان کی تحریکیت کو قبول کر رکھا تھا اتنے سیخ پا ہوئے کہ ان کے خلاف اندر باہر ایک محاذ کھول دیا اور انھیں مطعون اور مسترد کرنے کے سارے علمی غیر علمی حربے استعمال کر ڈالے۔ اس طرح مناقشے نے مستقلاً ایک طویل مناقشت اور منافست میں بدل گئے۔ یہ مناقشہ تقریباً تیس سالوں سے چل رہا ہے اور دونوں کے طرف دار بن گئے ہیں اور کتاب، پمفلٹ، رسائل، ویب سائٹ اور انٹر نیٹ کے ذریعے یہ مناقشہ جاری ہے۔ یہ مناقشہ در اصل علماء کے درمیان تھا لیکن اسے عوامی بنا دیا گیا۔ اسے عوامی بنانے میں فتنہ پروری کا ہاتھ ہے۔ یہی مناقشہ لوگوں کے سلفی ہونے نہ ہونے کا معیار بن گیا ہے۔ جن نادانوں نے اسے معیار بنا دیا ہے اب اس معیار کے مطابق ہندوستان میں شاید کوئی سلفی عالم نہیں رہ گیا ہے۔ جہلاء، خارجی سوچ کے سفہاء الأحلام احداث الأسنان ربیعی تلوار لیے سارے اہل حدیث علماء کا سر قلم کر رہے ہیں۔
بات تو اصولی طور پر شیخ ربیع ہی کی صحیح تھی لیکن مناقشات جب طول پکڑتے ہیں اور دونوں فریق بن کر اپنے لیے طرف دار بٹور لیتے ہیں تو معاملہ [دھت تیری کی] کی بن جاتی ہے اور بات ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے تک پہونچتی ہے اور کم سے کم مناقشت میں آلودگی آجانے سے وہ عام حق و باطل کے پرکھ کا معیار نہیں رہ جاتی ہے اسے ایک خاص دائرے سے نکال کر عام معیار نہیں بنا سکتے۔ اصلا صحیح مناقشت سے صرف باطل کی صفائی مقصود ہوتی ہے۔ اس کا کام بس یہیں ختم ہو جاتا ہے۔ اس کا ایک خاص دائرہ ہوتا ہے، خاص ماحول اور خاص بو اور مزا ہوتا ہے۔ بڑی نادانی ہوگی کہ جھاڑو کو قلم بنایا جائے اور تیزاب کو شربت کہا جائے۔
خارجی ذہنیت کے حامل جو اپنی خاص پہچان بنانا چاہتے ہیں وہ ان مناقشات کو [تصنیف الناس] کا اصول بنائے ہوئے ہیں اور کم عقل بیٹھ بیٹھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ کون عالم ہے کون نہیں ہے؟ کون مسترد ہے کون مقبول ہے؟ کون اہل حدیث ہے کون اہل حدیث نہیں ہے؟ان کے لیے دین کی تعلیمات بس اتنی ہیں کہ سروری ربیعی مناقشات کو پڑھیں اور آنکھ کان بند کر لیں نہ کسی کی سننے کی ضرورت ہے نہ مزید پڑھنے کی ضرورت ہے۔ یہ سفہاء الاحلام تمام دنیا کے مسلمانوں کے متعلق حکم لگانے کا پورا پورا حق رکھتے ہیں اور اگر ان کی سوچ رویے اور حماقتوں پر کوئی خارجیت کا حکم لگا دے تو مرنے لگتے ہیں۔ اپنے بارے میں چھوئی موئی اور دوسروں کے متعلق صرف کانٹا ہی کانٹا۔ اگر یہ اتنے جری ہیں کہ دوسروں کے علم و عمل اور عقیدے کو زیرو بنا رہے ہیں تو اپنے متعلق بھی حکم سننے کا یارا رکھیں۔
جس وقت یہ مناقشہ شروع ہوا تھا شیخ ابو بکر زید نے اپنی کتاب [تصنیف الناس] لکھی۔ جس وقت یہ کتاب لکھی گئی اسی وقت یہ شکایت ان سے تھی کہ انھوں نے تخاذل اختیار کیا ہے۔ اخوانیوں نے اس کتاب کو اپنے حق میں خوب استعمال کیا لیکن اب جس طرح کم عقل ربیعی سروری مناقشے کو استعمال کر رہے ہیں کسی کو اہل حدیث کسی کو غیر اہل حدیث، کسی کو جاہل اور کسی کو عالم، کسی کو مستند کسی کو غیر مستند بنائے پھرتے ہیں اب اس کتاب کی بات حقیقت بن رہی ہے اور جہلاء اس مناقشے کو معیار بنا کر علماء کے متعلق اپنا فیصلہ فرما رہے ہیں۔ یہ رویہ اختیار کر کے ایسے لوگ خارجیت کی کئی علامتیں اپنے اندر پیدا کر چکے ہیں۔
1⃣۔ عموما اس فتنے میں مبتلا سیکولر تعلیم یافتہ ہیں یعنی دینی اصول و مبادی سے بے خبر ہیں۔ یعنی سفہاء الاحلام میں ان کا شمار ہے۔
2⃣۔ ان کی اکثریت أحداث الأسنان کی ہے یعنی کم عمر الھڑ لڑکوں کی ہے۔
3⃣۔ ان کو اپنی جانکاری پر خوش فہمی ہے یہ فتوی بازی کرنے میں بڑی تیزی دکھلاتے ہیں۔
4⃣۔ انھیں اپنے تقوی پر بھی بڑا غرور ہے۔ یہ بڑے پاکباز بنتے ہیں۔
5⃣۔ یہ بے مسئلہ کو مسئلہ بناتے ہیں۔
6⃣۔ یہ دین کی تعلیمات کے بجائے علماء کے مناقشات کی تبلیغ کرتے ہیں۔
7⃣۔ یہ فساد پھیلانے میں بڑے تیز ہیں۔ اور خاص دینی دعوت و تبلیغ میں زبردست رکاوٹ ہیں۔
ان کے اندر خارجیت کی یہ سات علامتیں موجود ہیں۔ انھیں اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہیے اور فتنہ پروری سے باز آجانا چاہیے۔ ان کے لیے بہتر ہے کہ اپنے آس پاس کے مستند علماء سے جڑ کے رہیں اور کسی کم عقل کے بھٹکانے سے بھٹکیں نہیں۔
اور سوشل میڈیا کے ذریعہ اگر ہماری یہ آواز شیخ ربیع حفظہ اللہ تک پہونچے تو ان سے گذارش ہے کہ ان کے نام سے دکان لگانے فتنہ پھیلانے اور خارجیت کی ضلالت میں پڑے لوگوں کو نصیحت کریں کہ وہ ان حرکتوں سے باز آجائیں اور فقط دین سیکھیں اور عمل کریں اور اللہ تعالی سے توبہ کریں اور مسلمانوں کو اپنی گمراہیوں اور فتنوں سے بچائیں۔
در اصل اس دور میں کم عمروں اور کم عقلوں کا مزاج ہڑ بونگی ہوتا ہے عموماً یہ سیاست بازی جتھہ بندی نیتائی اور شہرت کے رسیا ہوتے ہیں۔ ان کے اندر سنجیدگی اور وقار نام کی نہیں ہوتی۔ اس لیے سماجی اور اجتماعی نزاکتوں اور دینی ذمہ داریوں کو نظر انداز کرکے الگ ڈھرا الگ شناخت بنانے میں بڑا لطف اٹھاتے ہیں۔ اور فتنہ پھیلانے میں انھیں بڑا مزا آتا ہے۔
یہ اپنے رویہ سے دین، علم، علماء، شرافت و مروت اور حیا سب کی پامالی کرتے ہیں اور اچھا نوجوان بھی چھچھورا بن کر رہ جاتا ہے۔ یا پھر انحراف اور انعزال اس کا مقدر بن جاتا ہے اور جو خود کو نیتا بنائے پھرتا ہے وہ کم سنوں اور کم فہموں کی زندگی میں زہر بھر دیتا ہے۔ جو ان کا نیتا بنتے ہیں وہ اپنے رویے سے انتہائی درجے کے مجرم بن جاتے ہیں۔ ایسے ہی کم فہم کم عقل نیتا ہمیشہ نوجوانوں کی گمراہی اور بربادی کا سبب بنتے ہیں۔ شیخ ربیع کے نام پر سارے سفہاء الاحلام اور أحداث الأسنان سلفیت کے نادان دوست ہیں اور عقل و شرافت انھیں راست نہیں آئی. اور اپنی نیتائی کی دکان کھولے ہوئے ہیں۔ اور صرف لوگوں کے بھٹکنے کا سبب بنتے ہیں
والسلام علیکم ورحمة الله وبركاته
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں