اتوار، 28 فروری، 2016

عذاب قبر قیامت تک


  سوال : جب فرشتے انسان سے قبر میں سوال سے فارغ ہو جائیں گے تو کیا فاجر اور گناہ گار اپنی قبر میں قیامت تک عذاب سے دو چار ہو گا ؟ اور کیا ایسے ہی مومن آدمی نعمتوں میں قیامت تک رہے گا یا کہ صرف ایک آدھ دن ایسا ہو گا اور پھر اس کے بعد جسم بوسیدہ ہو جائے گا ؟
اور کیا کوئی ایسی دلیل ہے کہ انسان اپنی قبر میں ایک دوسری زندگی میں منتقل ہو جاتا ہے جو کہ قیامت تک رہے گی ؟ )
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

    جواب - انسان کی زندگی کی تین اقسام ہیں :

 1دنیاوی زندگی جو کہ موت سے ختم ہو جاتی ہے ۔

2- برزخی زندگی جو کہ موت کے بعد قیامت تک ہے ۔

3- آخروی زندگی جو کہ لوگوں کے قبروں سے نکلنے کے بعد جنت کی طرف جانا اللہ تعالی سے ہم اس کا فضل مانگتے ہیں اور پا پھر آگ کی طرف جانا اس سے اللہ تعالی اپنی پناہ میں رکھے ۔

برزخی زندگی جو کہ انسان کی موت کے بعد سے لے کر دوبارہ اٹھنے تک ہے اگرچہ وہ قبر میں جائے یا اسے وحشی جانور کھا جائیں یا پھر وہ جل جائے اس زندگی کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ جب میت کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو اپنے گھر والوں کے پاؤں کی آہٹ سنتی ہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے ۔

تو یہ زندگی یا تو نعمتوں والی ہو گی اور یا پھر آگ سے بھر پور اور قبر بھی یا تو جنت کے باغات میں سے ایک باغ اور یا پھر آگ کے گڑہوں میں سے ایک گڑھا ہو گی ۔

اور اس زندگی میں عذاب اور نعمتوں کی دلیل فرعون کے متعلق اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :

( آگ کے سامنے یہ ہر صبح اور شام لآئے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی ( فرمان ہو گا ) فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو ) غافر / 46

ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : آل فرعون اور کفار میں سے جو بھی اس جیسا ہو ان کی روحیں صبح اور شام آگ کی طرف لے جائی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ تمہارا گھر ہے ۔

ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اہل سنت کے استدلال کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ برزخی زندگی میں قبر کے اندر عذاب ہوتا ہے ۔ تفسیر ابن کثیر ( 4/ 82)

امام قرطبی کا فرمان ہے کہ : بعض اہل علم نے اس آیت سے عذاب قبر پر استلال کیا ہے :

( آگ کے سامنے یہ ہر صبح اور شام لآئے جاتے ہیں )

اور اسی طرح مجاہد اور عکرمہ اور مقاتل اور محمد بن کعب رحمہم اللہ سب نے یہی کہا کہ یہ آیت عذاب قبر پر دلالت کرتی ہے کیا آپ یہ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالی نے آخرت کے عذاب کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ:

( اور جس دن قیامت قائم ہو گی (فرمان ہو گا ) فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو ) تفسیر قرطبی (15/ 319)

اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

( تم میں جب کوئی فوت ہوتا ہے تو اس پر صبح اور شام اس کا ٹھکانہ پیش کیا جاتا ہے تو جو شخص جنتی ہو اسے جنت کا اور جو جہنمی ہو اسے جہنم کا ٹھکانہ پیش کیا جاتا ہے )

صحیح بخاری (بدء الخلق حدیث نمبر 3001) صحیح مسلم (الجنۃ وصفۃ نعیمہا حدیث نمبر 2866)

عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ان کے پاس ایک یہودی عورت آئی تو اس نے عذاب قبر کا ذکر کیا اور عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہنے لگی کہ اللہ تعالی آپ کو عذاب قبر سے محفوظ رکھے تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر کے متعلق سوال کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں عذاب قبر ہے عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ اس کے بعد میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر نماز کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگتے دیکھا ۔

صحیح البخاری ( الجنائز حدیث نمبر 1283) صحیح مسلم ( الکسوف حدیث نمبر 903)

مندرجہ بالا آیات اور احادیث سے عذاب قبر کا ثبوت ملتا ہے اور ان سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کو عذاب مسلسل مل رہا ہے ۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی عذاب قبر کے متعلق فرماتے ہیں کہ :

اگر انسان کافر ہے اللہ تعالی اس سے بچا کے رکھے تو وہ کبھی بھی نعمتوں کو نہیں پا سکتا اور اسے مسلسل عذاب ہو گا لیکن اگر وہ مومن اور گنہگار ہے تو اسے قبر میں عذاب اس کے گناہ کے حساب سے ہو گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسے اس برزخ سے جو کہ اس کی موت اور قیامت تک ہے گناہوں کا عذاب کم ہو تو اس وقت منقطع ہو گا ۔

اھ شرع الممتع جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 253

 
سوال: كيا تبليغي جماعت صحيح جماعت هي ؟
جوابايك سوال  آيا تها.             تبليغي جماعت كا.             اس كا مختصر جواب.         --------------------------
شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
تبلیغی جماعت کے یہاں عقیدے کے مسائل میں بصیرت نام کی کوئی چیز نہیں۔۔۔
شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
تبلیغی جماعت کتاب اللہ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جس چیز پر ہمارے سلف صالحین گامزن تھے  اس منہج پر قائم نہیں۔
شیخ عبدالرزاق عفیفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
درحقیقت یہ لوگ بدعتی ہیں، صحیح راہ سے ہٹے ہوئے اور صوفیہ کے طرق پر چلنے والے ہیں۔
الشيخ ربيع المدخلي, کتب,  -------------------------- ترجمه : بروهي. نشر اشاعت.                            عبدالمومن سلفي:

جمعہ، 26 فروری، 2016

اس وقت جوبندر اورخنزیر ہیں کیایہ مسخ شدہ بشرہیں


  سوال :آپ مجھے بندروں کے بارہ میں بتا سکتے ہیں کہ کیا یہ وہی بشرہیں جنہیں اللہ تعالی کے احکام میں معصیت کی بناپرجانوروں میں مسخ کر دیا گیا تھا ؟
اوراگرمعاملہ کچھ ایسا ہی ہے تووہ کون سی قومیں ہیں ؟آپ مجھے بندروں کے بارہ میں بتا سکتے ہیں کہ کیا یہ وہی بشرہیں جنہیں اللہ تعالی کے احکام میں معصیت کی بناپرجانوروں میں مسخ کر دیا گیا تھا ؟
اوراگرمعاملہ کچھ ایسا ہی ہے تووہ کون سی قومیں ہیں ؟

 جواب :انسان کی ظاہری شکل کے بدلنے کومسخ کہا جاتا ہے ، اللہ تبارک وتعالی نے ہیں قرآن مجید میں کئ ایک مقام پریہ خبر دی ہے کہ اس نے بنی اسرائیل میں سےکچھ کی شکلوں کومسخ کرکے اللہ تعالی کی معصیت کرنے بطورسزا بندر بنا دیا تھا ، تواللہ تعالی بنی اسرائیل کومخاطب کرتے ہوۓ فرماتے ہیں :

{ اوریقینا تمہیں ان لوگوں کا بھی علم ہوگا جوتم میں سے ہفتہ کے بارہ میں حد سے تجاوز کرگۓ تھے اور ہم نے بھی کہہ دیا کہ تم ذلیل بندر بن جاؤ ، اسے ہم نے پہلے اوربعد والوں کے لیے عبرت اور پرہیزگاروں کے لیے وعظ ونصحیت کا سبب بنادیا } البقرۃ ( 65 - 66 ) ۔

اوراللہ تعالی نے ان کے قصہ کوسورۃ الاعراف میں ذراتفصیل کے ساتھ ذکر کرتے ہوۓ فرمایا جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

{ اورآپ ان لوگوں سے اس بستی والوں کا جوکہ دریا ۓ ( شور) کے قریب آباد تھے اس وقت کا حال دریافت کریں جب کہ وہ ہفتہ کے بارہ میں حد سے تجاوز کررہے تھے جب ان کے پاس ہفتہ والے دن تو ان کی مچھلیاں ظاہرہو ہو کران کے سامنے آتی تھیں ، اور جب ہفتہ کا دن نہ ہوتا تو ان کے سامنے نہ آتی تھی ، ہم ان کی اس طرح آزمائش کرتے تھے اس کی وجہ ان کا فسق تھا ۔

اورجب کہ ان میں سے ایک جماعت نے یوں کہا کہ تم ایسے لوگوں کی کیوں نصیحت کرتے ہوجن کو اللہ بالکل ہلاک کرنے والا ہے یا ان کوسخت سزا دینے والا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے رب کے روبرو عذرکرنے کے لیے اور اس لیے کہ شائد وہ ڈر جائيں ۔

توجب وہ اس چیزکوبھول گۓ جوانہیں سمجھایا جاتا تھا تو ہم نے ان لوگوں کوتوبچا لیا جو اس بری عادت سے منع کیا کرتے تھے اور ان لوگوں کوجو زیادتی کرتے تھے ان کے فسق کی وجہ سے ایک سخت عزاب میں پکڑ لیا ۔

یعنی جب وہ اس کام میں حد سے تجاوز کرگۓ جس سے منع کیا جاتاتھا تو ہم نے انہیں کہہ دیا کہ تم ذلیل بندر بن جاؤ } الاعراف ( 163 - 166 ) ۔

اور اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ آپ کہہ دیجۓ اے یھودیو اور نصرانیو ! تم ہم سے صرف اس وجہ سے دشمنیاں کررہے ہوکہ ہم اللہ تعالی پر اور جوکچھ ہماری جانب نازل کیا گيا ہے اور جوکچھ اس سے پہلے اتارا گيا ہے اس پر ایمان لاۓ ہیں اور اس لۓ بھی کہ تم میں اکثر لوگ فاسق ہیں ۔

کہہ دیجۓ کہ کیا میں تمہیں بتاؤں ؟ کہ اللہ تعالی کے نزدیک اس سے بھی زيادہ برا اجر پانے والے کون ہیں ؟ وہ ہیں جس اللہ تعالی نے لعنت کی اور اس پر وہ غصہ ہوا اوران میں کچھ کوبندر اورکچھ کوخنزیر بنا دیا ، اورجنہوں نے طاغوت کی پرستش کی ، یہی وہ لوگ ہیں جو بدترین درجے والے ہیں اوریہی سیدھے راہ سے زیادہ بھٹکنے والے ہیں } المائدۃ ( 59 – 60 ) ۔

انہوں نے اللہ تعالی کےحرام کردہ کاموں کا ارتکاب کیا تو اللہ تعالی نے اس کی سزامیں انہیں مسخ کردیا ، اورپھریہ سزا صرف بنی اسرائیل کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہیں بتایا ہے کہ اس وقت تک قیامت قائم ہی نہیں ہوگي جب تک کہ اس امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی مسخ نہ ہوجاۓ ، اور جولوگ تقدیر کی تکذیب اورشراب نوشی کرتےاورگانے سنتے ہیں ان کے بارہ اسی کی وعید آئ ہے اللہ تعالی ہمیں اس سے محفوظ رکھے آمین یا رب العالمین ۔

عبداللہ بن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( قیامت سے قبل مسخ اورزمین میں دھنسنا پتھروں کی بارش ہوگی ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 4059 ) اور صحیح ابن ماجہ ( 3280 ) ۔

خسف زمین شق ہواور اس میں کوئ شخص یا گھر یا کوئ شہر دھنس جاۓ تواسے خسف کہا جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے قارون اوراس کے گھرکو زمین میں دھنسادیا تھا ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ تو ہم اسے اوراس کے گھرکو زمین میں دھنسا دیا } القصص ( 81 ) ۔

اورقذف پتھروں سے مارنے کوکہتے ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالی نے قوم لوط کے ساتھ کیا ، اللہ تعالی نے اس کے بارہ میں فرمایا :

{ اور ہم نے ان پر کنکروالے پتھر برساۓ } الحجر( 74 ) ۔

امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے ابن عمررضي اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتےہوۓ سنا :

( اس امت میں اہل قدر ( یعنی تقدیر کی تکذیب کرنے والوں میں ) زمین میں دھنسا یا پھر مسخ شکلوں کا بگڑنا ہوگا ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 2152 ) صحیح ترمذی ( 1748 ) ۔

اورامام ترمذي نےہی عمران بن حصین رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( اس امت میں زمین میں دھنسنااورشکلوں کا بگڑنا ( مسخ ) اورپتھروں کی بارش ہوگی ، تومسلمانوں میں سے ایک شخص نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ کب ہوگا ؟

تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب ناچنے والیاں اورموسیقی کا ظہوراور شراب نوشی ہونے لگے گی ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 2212 ) صحیح ترمذی حدیث نمبر ( 1801 ) ۔

اس حدیث میں لفظ القینات کا معنی مغنیات یعنی گانے والی کنجریاں ہیں ۔

تویہ احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ اس امت میں بھی کچھ معصیت اورگناہوں کی سزا مسخ یعنی شکلوں کا بگاڑ ہوگا ، تومسلمان کواللہ تعالی کے حرام کردہ کاموں کے ارتکاب سے پرہیزکرنا اوربچنا چاہیے ، اس شخص کے لیے تو ہلاکت ہی ہلاکت ہے جو اللہ تعالی کے غضب اورانتقام کو دعوت دیتا ہے ، اللہ تعالی ہم سب کو اپنی سزا کے اسباب سے بچا کررکھے آمین یارب العالمین ۔

اور اس وقت موجود بندراور خنزیر یہ ان میں سے نہیں جو کہ پہلی امتوں میں سے مسخ کيۓ گۓ تھے اس لیے کہ اللہ تعالی جسے مسخ کردے اس کی نسل ہی نہیں چلاتا ، بلکہ وہ اسے مسخ کرنے کے بعد بلاک کردیتا ہے اور اس کی آگے نسل نہیں بناتا ۔

امام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے اپنی صحیح میں عبداللہ بن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ بندر اور خنزیر وہی انہیں میں سے ہیں جنہیں مسخ کیا گيا تھا ؟

تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( بلاشبہ اللہ عزوجل مسخ کیۓ گۓ کی نسل نہیں بناتا اور نہ ہی اس کی کوئ‏ اولاد ہوتی ہے ، اوربلاشبہ بندراور خنزیرتو پہلے ہی موجود تھے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2663 ) ۔ عقب کا معنی اولاد ہے

امام نووی رحمہ اللہ تعالی شرح مسلم میں کہتے ہیں کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان :

( اوربلاشبہ بندراور خنزیرتو پہلے ہی موجود تھے )

یعنی بنی اسرائیل کے مسخ ہونے سے قبل ہی بندر اور خنزیر موجود تھے ، تویہ اس پردلالت کرتی ہے کہ یہ مسخ سے نہیں ہیں ۔ ا ھـ

اوراللہ تعالی ہی زيادہ علم رکھتا ہے اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ عیہ وسلم پررحمتیں نازل فرماۓ آمین یارب العالمین ۔

واللہ تعالی اعلم  .
 

اخری صحابی کون ہے گروپ منہج السلف


   سوال   ؛؛؛؛  اخری  صحابی کون ہے    گروپ  منہج السلف  ?

 

جواب؛؛  سب سے آخری صحابی جو دنیا سے رخصت ہوئے انکا نام عمر بن واصلہؓ ہے انکی وفات سن100ہجری میں ہوئی۔ حوالہ ذخیرہ اسلامی معلومات ص62 بحوالہ  مشکوۃ،نسائی

اپ کا  خادم عبدالمومن سلفی ؛


 

كيا موزوں پر مسح كرنا افضل ہے يا كہ پاؤں دھونے


لحمد للہ:

جمہور علماء كرام ( جن ميں ابو حنيفہ، مالك اور شافعى رحمہم اللہ شامل ہيں ) كا كہنا ہے كہ پاؤں دھونے افضل ہيں، كيونكہ پاؤں دھونا اصل ہے تو اس طرح افضل بھى يہى ہوگا.

ديكھيں: المجموعا للنووى ( 1 / 502 ).

اور امام احمد كہتے ہيں كہ موزوں پر مسح كرنا افضل ہے، اور انہوں درج ذيل دلائل سے استدلال كيا ہے:

1 - يہ زيادہ آسان ہے، كيونكہ حديث ميں ہے:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو جب بھى دو امروں ميں اختيار ديا گيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سب سے زيادہ آسان كو ليا، جبكہ وہ گناہ نہ ہوتا، اور اگر وہ گناہ ہوتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم لوگوں ميں اس سے سب سے زيادہ دور بھاگنے والے ہوتے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3560 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2327)

2 - يہ رخصت ہے، اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا بھى فرمان ہے:

" جس طرح اللہ تعالى اپنى معصيت كرنے كو ناپسند فرماتا ہے، اسى طرح اسے يہ پسند ہے كہ اس كى رخصتوں پر عمل كيا جائے "

مسند احمد حديث نمبر ( 5832 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے ارواء الغليل ( 564 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

3 - موزوں پر مسح كرنے ميں ان بدعتيوں كى مخالفت ہوتى ہے جو مسح كرنے كے منكر ہيں، مثلا خوارج اور رافضى شيعہ.

پاؤں دھونے اور موزوں پر مسح كرنے ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے بہت سارى احاديث مروى ہيں، جن كى بنا پر بعض علماء كرام يہ كہتے ہيں كہ: دھونا اور مسح كرنا برابر ہے، اور ابن منذر رحمہ اللہ نے بھى يہى اختيار كيا ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ اور ان كے شاگرد ابن القيم رحمہما اللہ نے بھى يہى اختيار كيا ہے كہ:

ہر ايك ميں افضل يہى ہے كہ وہ اس پر عمل كرے جو اس كى حالت كے موافق ہو، چنانچہ اگر تو اس نے موزے پہن ركھے ہوں تو اس كے ليے مسح كرنا افضل ہے، اور اگر اس كے پاؤں ننگے ہيں تو دھونا افضل ہے، اور پھر موزے تو پہنے ہى اس ليے جاتے ہيں كہ ان پر مسح كيا جائے.

اس كى دليل مغيرہ بن شعبہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ہے جب انہوں نے وضوء ميں پاؤں دھونے كے ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے موزے اتارنا چاہے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں فرمايا تھا:

" رہنے دو، كيونكہ ميں نے يہ موزے طہارت كے بعد پہنے تھے، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان پر مسح كيا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 206 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 274 ).

يہ حديث اس كى دليل ہے كہ موزے پہننے والے كے حق ميں مسح كرنا افضل ہے.

اس كى دليل ترمذى شريف كى درج ذيل حديث بھى ہے:

صفوان بن عسال رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہميں حكم ديا كرتے كہ جب ہم سفر ميں ہوں تو اپنے موزے تين رات اور تين نہ اتارا كريں، پيشاب پاخانہ اور نيند كى بنا پر نہيں بلكہ جنابت كى وجہ سے اتار ديں "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 96 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ارواء الغليل ( 104 ) ميں اس حديث كو حسن قرار ديا ہے.

چنانچہ مسح كرنے كا حكم افضليت پر دلالت كرتا ہے، ليكن يہ اس كے حق ميں افضل ہے جس نے موزے پہن ركھے ہوں.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اور فيصلہ كن بات يہ ہے كہ:

دونوں كے حق ميں افضل يہ ہے كہ جو اس كے قدم كى حالت كے موافق ہو، چنانچہ ننگے پاؤں والے كے حق ميں دھونا افضل ہے، وہ موزے نہ تلاش كرتا پھرے تا كہ اس پر مسح كر سكے، جس طرح كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاؤں جب ننگے ہوتے تو آپ دھوتے، اور جب موزے پہن ركھے ہوتے تو ان پر مسح كرتے " انتہى.

ماخوذ از: الانصاف ( 1 / 378 ).

اور زاد المعاد ميں ابن قيم رحمہ اللہ لكھتے ہيں:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے قدموں كى حالت كے مخالف تكلف نہيں كرتے تھے، بلكہ جب موزے پہنے ہوتے تو انہيں اتارتے نہيں تھے بلكہ ان پر مسح كرتے، اور اگر پاؤں ننگے ہوتے تو اپنے پاؤں دھو ليتے، اور موزے نہيں پہنتے تھے كہ اس پر مسح كريں.

مسح كرنا يا دھونے كى افضليت كے مسئلہ ميں يہ سب سے بہتر اور عدل و انصاف والا قول ہے، ہمارے شيخ ( يعنى شيخ الاسلام ابن تيميہ ) كا يہى قول ہے " انتہى.

ديكھيں: زاد المعاد ( 1 / 199 ).

واللہ اعلم .
 

اللہ تعالی عرش پر مستوی اور اپنے علم کے ساتھ وہ ہمارے قریب ہے


الحمدللہ

کتاب وسنت اور امت کے سلف سے یہ ثابت ہے کہ اللہ تعالی اپنے آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے اور وہ بلند و بالا اور ہر چیز کے اوپر ہے اس کے اوپر کوئی چیز نہیں ۔

فرمان باری تعالی ہے :

< اللہ تعالی وہ ہے جس نے آسمان وزمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان سب کو چھ دنوں میں پیدا کر دیا پھر عرش پر مستوی ہوا تمہارے لۓ اس کے سوا کوئی مدد گار اور سفارشی نہیں کیا پھر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے >

ارشاد باری تعالی ہے :

< بلاشبہ تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہوا وہ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے >

< تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل کو بلند کرتا ہے >

فرمان باری تعالی ہے :

وہی پہلے ہے اور وہی پیچھے ، وہی ظاہر ہے اور وہی مخفی ہے >

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ( اور ظاہر ہے تیرے اوپر کوئی چیز نہیں )

اس معنی میں آیات اور احادیث ہیں اس کے باوجود اللہ تعالی نے خبر دی ہے کہ وہ اپنے بندوں کے ساتھ ہے وہ جہاں بھی ہوں ۔

فرمان باری تعالی ہے :

< کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ اللہ تعالی آسمانوں اور زمین کی ہر چیز سے واقف ہے تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر اللہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ ہی پانچ کی مگر وہ ان کا چھٹا ہوتا ہے اور نہ اس سے کم اور نہ زیادہ کی مگر وہ جہاں بھی ہوں وہ ساتھ ہوتا ہے >

بلکہ اللہ تعالی نے اپنے عرش پر بلند ہونے اور بندوں کے ساتھ اپنی معیت کو ایک ہی آیت میں اکٹھا ذکر کیا ہے ۔ فرمان بار تعالی ہے:

< وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہو گیا وہ اس چیز کو جانتا ہے جو زمین میں جائے اور جو اس سے نکلے اور جو آسمان سے نیچے آۓ اور جو کچھ چڑھ کر اس میں جائے اور جہاں کہیں بھی تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے >

تو اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ وہ مخلوق کے ساتھ خلط ملط ہے بلکہ وہ اپنے بندوں کے ساتھ علم کے اعتبار سے ہے اور اس کے عرش پر ہونے کے باوجود ان کے اعمال میں سے اس پر کوئی چیز مخفی نہیں ۔

اللہ تعالی کا یہ فرمان کہ : < اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں >

تو اکثر مفسرین نے اس کی تفسیر میں یہ کہا ہے کہ : اللہ تعالی کا یہ قریب ان فرشتوں کے ساتھ ہے جن کے ذمہ ان کے اعمال کی حفاظت لگائی گئ ہے اور جس نے اس کی تفسیر اللہ تعالی کہ قرب کی ہے وہ اس اللہ تعالی کے علم کے ساتھ قریب ہے جس طرح کی معیت میں ہے ۔

اہل سنت والجماعت کا مذہب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کو اس کی مخلوق پر بلندی اور معیت کو ثابت کرتے ہیں اور مخلوق میں حلول سے اللہ تعالی کو پاک قرار دیتے ہیں ۔ لیکن معطلۃ یعنی جہمیہ اور ان کے پیروکار اللہ تعالی کی مخلوق پر اس کے علو اور اس کے عرش پر مستوی ہونے کا انکار کرتے اور وہ یہ کہتے کہ اللہ تعالی ہر جگہ پر ہے ۔

ہم اللہ تعالی سے مسلمانوں کی ہدایت کے طلبگار ہیں ۔ .

 مقا لات الشیخ عبدالرحمن البراک


جادو اور اس کی اقسام


الحمدللہ

سب تعریفیں اللہ تعالی کے لۓ ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل اور ان کے صحابہ اور جو ان کے طریقہ پر چلنے والے ہیں ان پر درود و سلام کے بعد !

جادو کرنا بہت بڑا جرم اور کفر کی ایک قسم ہے جس میں پہلی امتوں کے لوگ اور دور جاہلیت میں بھی اور اس امت کے لوگ پہلے بھی اور آج کے دور میں بھی مبتلا رہے ہیں ۔

جہالت کی کثرت اور قلت علم اور قلت ایمان اور حرام کاموں سے باز رکھنے والوں کا غلبہ قلیل ہونے کی بناء پر جادو کرنے والے اور شعبدہ بازوں کی کثرت ہو چکی ہے اور یہ لوگ ملک میں لوگوں کے مال کے لالچ میں اور ان پر کتمان حقیقت کے لۓ ملک میں پھیلتے ہیں اس کے علاوہ دوسرے اسباب بھی ہیں :

تو جب علم ظاہر ہو جائے اور ایمان کی کثرت ہو اور اسلامی طاقت قوی ہو جائے تو اس قسم کے خبیث لوگ کم اور سمٹ جاتے ہیں اور ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل ہو جاتے ہیں تا کہ ایسی جگہ تلاش کر سکیں جہاں پر یہ اپنے باطل کو رواج دیں اور فساد اور شعبدہ بازی کو دکھا سکیں ۔

اور قرآن مجید اور سنت نبوی نے جادو کی اقسام اور ان کا حکم بیان کیا ہے ۔

جادو کو جادو اس لۓ کہا جاتا ہے کہ اس کے اسباب مخفی (چھپے ) ہوتے ہیں اور اس لۓ کہ جادوگر ایسی پوشیدہ اشیاء سے کام لیتے ہیں جن کی بناء پر لوگوں پر خیال اثر عمل اور حقیقت کو چھپانے اور ان کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہو سکیں اور انہیں نقصان پہنچا کر ان کے مال وغیرہ کو چھین سکیں اور ایسے طریقے استعمال کرتے ہیں جو کہ عام طور پر سمجھ میں نہیں آ سکتے اور اسی لۓ رات کے آخری حصہ کو سحر کہتے ہیں کیونکہ اس میں لوگ غفلت میں اور حرکت میں کمی ہوتی ہے اور پھپھڑے کو بھی سحر کہتے ہیں کیونکہ یہ جسم کے اندر چھپا ہوا ہوتا ہے ۔

اور اس کا شرعی طور پر معنی یہ ہے کہ جو جادوگر لوگوں پر خلط ملط کرتے ہیں اور انہیں تخیل پیش کرتے ہیں تو اسے دیکھنے والا حقیقت تصور کرتا ہے حالانکہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا – جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

" کہنے لگے اے موسی یا تو تو پہلے ڈال یا ہم پہلے ڈالنے والے بن جائیں جواب دیا کہ نہیں تم ہی پہلے ڈالو اب تو موسی علیہ السلام کو یہ خیال گزرنے لگا کہ ان کی رسیاں اور لکڑیاں ان کے جادو کے زور سے بھاگ دوڑ رہی ہیں پس موسی نے اپنے دل میں ڈر محسوس کیا ہم نے فرمایا خوف نہ کر یقینا تو ہی غالب اور برتر رہے گا اور تیرے دائیں ہاتھ میں جو ہے اسے ڈال دے کہ ان کی تمام کاریگری کو وہ نگل جائے انہوں نے جو کچھ بنایا ہے صرف یہ جادوگروں کے کرتب ہیں اور جادوگر کہیں سے بھی آۓ کامیاب نہیں ہوتا " – طہ 65 - 69

اور بعض اوقات جادوگر ایسی گرہیں لگا کر جادو کرتے ہیں کہ ان گرہوں میں پھونکیں مارتے ہیں – جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے :

" اور گرہیں ( لگا کر ان ) میں پھونک مارنے والیوں کی شر سے " الفلق 4

اور کبھی دوسرے اعمال کے ساتھ جادو کرتے ہیں جن تک پہنچنے کے لۓ شیطانوں کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور ایسا عمل کرتے ہیں کہ جس سے انسان کی عقل میں تغیر آ جاتا ہے اور بعض اوقات یہ عمل مرض کا باعث بنتے ہیں اور یا پھر بعض اوقات خاوند اور بیوی کے درمیان جدائی کا سبب بنتا ہے جس کی بنا پر اس کی بیوی اس کے سامنے قبیح الشکل ہو جاتی ہے جس سے وہ اسے ناپسند کرنا شروع کر دیتا ہے اور اسی طرح بیوی کے ساتھ بھی جادوگر یہی عمل کرتا ہے تو وہ اپنے خاوند سے نفرت اور بغض کرنے لگتی ہے – اور یہ عمل نص قرآنی کے مطابق صریحا کفر ہے ۔

جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اور اس چیز کے پیچھے لگ گۓ جسے شیاطین سلیمان ( علیہ السلام ) کی حکومت میں پڑھتے تھے سلیمان (علیہ السلام ) نے تو کفر نہیں کیا – لیکن شیطانوں نے کفر کیا تھا وہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے " البقرہ / 102

تو اللہ تعالی نے ان کا کفر یہ بیان کیا کہ وہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے - اور اس کے بعد اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :

" اور بابل میں ہاروت اور ماروت دو فرشتوں پر جو اتارا تھا وہ دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں تو کفر نہ کر " – البقرہ / 102

پھر اس کے بعد اللہ تعالی نے فرمایا :

" پھر لوگ ان سے وہ سیکھتے جس سے خاوند اور بیوی کے درمیان جدائی ڈال دیں اور دراصل وہ اللہ تعالی کی مرضی کے بغیر کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے البقرہ 102

یعنی یہ جادو اور جو اس سے شر واقع ہو رہا ہے تو یہ سب اللہ تعالی کی تقدیر مسبق اور اس کی مشیت سے ہے تو ہمارا رب جل وعلی مغلوب نہیں ہو سکتا اور نہ اس کی بادشاہی میں اس کے ارادہ کے بغیر کچھ ہوسکتا ہے بلکہ نہ تو اس دنیا میں اور نہ ہی آخرت میں کسی چیز کا وقوع ہو سکتا ہے سواۓ اس کے جو تقدیر میں پہلے سے لکھا گیا ہے جس بلیغ حکمت کے تحت اللہ سبحانہ وتعالی نے چاہا تو یہ جادو کے ساتھ آزماۓ جاتے ہیں اور ان کی مرض کے ساتھ آزمائش ہوتی ہے اور وہ قتل کے ساتھ آزماۓ جاتے ہیں – وغیرہ – اور اللہ تعالی جو فیصلہ اور تقدیر بناتا ہے اس میں کوئی اللہ کی بلیغ حکمت ہے اور جو چیز بھی لوگوں کے لۓ مشروع کی گئی اس میں کوئی حکمت ہے – تو اسی لۓ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

" اور دراصل وہ اللہ تعالی کی مرضی کے بغیر کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے " البقرہ 102-

یعنی اس کی کونی اور قدری اجازت کے ساتھ نہ کہ شرعی اجازت کے ساتھ – شرع تو اس سے روکتی اور منع اور اسے ان پر حرام کرتی ہے لیکن اس تقدیری اجازت کے ساتھ جو کہ اللہ تعالی کے علم اور تقدیر سابق جو کہ پہلے گذر چکی ہے کہ فلاں مرد اور فلان عورت سے جادو کا وقوع ہو گا اور یہ جادو فلاں مرد پر اور فلان عورت پر ہو گا جس طرح کہ یہ تقدیر بھی لکھی جا چکی ہے کہ فلاں آدمی قتل کیا جائے گا اور فلاں کو یہ بیماری ہو گی اور اس ملک میں مرے گا اور اسے اتنا رزق ملے گا اور یہ غنی ہو گا یا فقیر تو یہ سب اللہ تعالی کی مشیت اور تقدیر سے ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

" بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک ( مقررہ ) اندازے پر پیدا کیا ہے " القمر 49

اور فرمان باری تعالی ہے :

" نہ کو‏ئی مصیبت دنیا میں آتی ہے اور نہ ہی تمہاری جانوں میں مگر اس سے پہلےکہ ہم اس کو پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے اور یہ کام اللہ تعالی پر آسان ہے " الحدید 22

تو یہ شر جو کہ جادوگروں اور دوسرے لوگوں سے واقع ہو رہا ہے اس سے تمہارا رب جاہل نہیں بلکہ یہ سب اس کے علم میں ہے اللہ سبحانہ وتعالی پر کوئی چیز مخفی نہیں /

جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

" بے شک اللہ تعالی ہر چیز پر علم رکھنے والا ہے " الانفال 75

" تا کہ تم جان لو کہ اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے اور اللہ تعالی نے ہر چیز کو علم کے اعتبار سے گھیر رکھا ہے " – الطلاق 12

تو وہ ہر چیز کو جانتا ہے اور اس کی بادشاہی میں اس کا وقوع نہیں ہو سکتا جسے اللہ سبحانہ وتعالی نہ چاہے لیکن جس چیز میں وہ فیصلہ کرتا ہے اور اس کی تقدیر میں جس کے اندر لوگ واقع ہوتے ہیں اس کی حکمت بالغہ اور اچھی غایات ہیں کسی کو عزت اور کسی کو ذلت اور کسی کی حکومت چھین لینا اور کسی کو دے دینا اور بیماری اور صحت اور جادو وغیرہ ۔

اور وہ سارے امور جن کا بندوں میں وقوع ہو رہا ہے اس کی مشیت اور تقدیر سابق سے ہیں اور یہ جادوگر ایسی اشیاء اور افعال کرتے ہیں جو کہ تخیلاتی ہوتی ہیں جیسا کہ اس کا بیان اس فرمان ربانی کے تحت پہلے گذر چکا ہے :

" کہنے لگے اے موسی یا تو تو پہلے ڈال یا ہم پہلے ڈالنے والے بن جائیں جواب دیا کہ نہیں تم ہی پہلے ڈالو اب تو موسی علیہ السلام کو یہ خیال گزرنے لگا کہ ان کی رسیاں اور لکڑیاں ان کے جادو کے زور سے بھاگ دوڑ رہی ہیں " طہ 65- 66-

دیکھنے والے کو یہ لاٹھی اور رسیاں وادی میں چلتے ہوۓ سانپ محسوس ہو رہے تھے اور وہ یہاں رسیاں اور لاٹھیاں تھیں جنہیں جادوگروں نے ان اشیاء اور افعال کی بناء پر جو کہ انہوں نے حقائق کو بدلنے کے لۓ سیکھے اور لوگوں کے سامنے ظاہر نہیں کۓ ان کی بناء پر خیال میں ڈال دیا کہ یہ سانپ ہیں ۔

ارشاد باری تعالی ہے "

موسی (علیہ السلام) کو یہ خیال گزرنے لگا کہ ان کی رسیاں اور لکڑیاں ان کے جادو کے زور سے بھاگ دوڑ رہی ہیں " طہ 66

اور اللہ تعالی نے سورت اعراف میں فرمایا ہے :

" کہنے لگے تم ہی ڈالو پس جب انہوں نے ڈالا تو لوگوں کی نظر بندی کر دی اور ان پر ہیبت غالب کر دی اور ایک طرح کا بہت بڑا جادو دکھلایا " الاعراف 116

اور وہ حقیقت میں تبدیل نہیں ہوۓ بلکہ وہ رسیاں اور لاٹھیاں تھیں لیکن جادو کی بناء پرلوگوں کی آنکھوں میں تبدیلی آئی تھی تو انہوں نے اسے جادوگروں کی کتمان حقیقت کے سبب سے سانپ سمجھ لیا اور بعض لوگ اس کا نام تقمیر رکھتے ہیں وہ یہ کہ جادوگر ایسا عمل کرتا ہے جس کی حقیقت کا انسان کو شعور نہیں ہوتا کہ وہ کیا ہے تو اس کی نظر حقیقت کو نہیں پا سکتی تو بعض اوقات اس کی دوکان یا گھر سے کوئی لے لی جاتی ہے تو اسے کوئی علم نہیں ہوتا یعنی وہ واقعہ اس کی نظروں میں بدل چکا ہے تو اس کی آنکھوں کو جادو کر دیا گیا ہے اور ان اشیاء کو جسے جادوگر استعمال کرتا ہے اور آنکھیں اس حقیقت کو جس پر وہ دیکھ نہیں پاتیں تو یہ جادو ہے جسے اللہ تعالی نے عظیم کے نام سے تعبیر کیا ہے کہ وہ بہت بڑا جادو ہے ۔

سورت اعراف میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :

" پس جب انہوں نے ڈالا تو لوگوں کی نظر بندی کر دی اور ان پر ہیبت غالب کر دی اور ایک طرح کا بہت بڑا جادو دکھلایا " الاعراف 116 .

کتاب ۔۔۔ مجموع فتاوی ومقالات متنوعہ
تالیف۔۔۔ فضیلۃ الشیخ علامہ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ ت

 

Featured Post

آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت بتاۓ.... طالبہ طس بنت قیوم

 الحمد للہ. ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں : یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ...