اتوار، 15 مارچ، 2020

بدعات کا پوسٹ ماٹم


بدعات کا پوسٹ ماٹم
تالف: عبدالمومن سلفی
نشرواشاعت :مقامی دارلھدی کنزر
IMG_20200126_205249.jpg
سرخی شامل کریں

ماہ شعبان اسلامی سن ہجری کا آٹھواں مہینہ ہے، اس کی فضیلت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نفلی روزے کثرت سے رکھا کرتے تھے،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ : لَا يُفْطِرُ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ : لَا يَصُومُ. فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ إِلَّا رَمَضَانَ، وَمَا رَأَيْتُهُ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ"(بخاری: 1969) یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم لگاتار روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے اب آپ روزے نہیں چھوڑیں گے اور آپ لگاتار روزے چھوڑتے جاتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے اب آپ روزے نہیں رکھیں گے اور میں نے کبھی آپ کو سوائے رمضان کے پورا مہینہ روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا اور میں نے آپ کو شعبان سے زیادہ کسی مہینہ میں(نفلی) روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا. ایک حدیث میں اس کی حکمت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں" قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ أَرَكَ تَصُومُ شَهْرًا مِنَ الشُّهُورِ مَا تَصُومُ مِنْ شَعْبَانَ. قَالَ : " ذَلِكَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ، وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيهِ الْأَعْمَالُ إِلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ، فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ ".(نسائی:2357) یعنی میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے آپ کو اتنے روزے رکھتے ہوئے کسی مہینہ میں نہیں دیکھا جتنے آپ شعبان میں روزے رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا یہ وہ مہینہ ہے جس سے لوگ غافل ہیں جو رجب اور رمضان کے درمیان ہے اس میں اعمال اللہ رب العالمین کے دربار میں پیش کئے جاتے ہیں پس میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال روزے کی حالت میں پیش کئے جائیں. البتہ امت کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے سے منع فرما دیا چنانچہ ابوداؤد میں ایک روایت ہے " إِذَا انْتَصَفَ شَعْبَانُ فَلَا تَصُومُوا " (أبو داود :2337) یعنی جب شعبان آدھا ہو جائے تو تم روزہ مت رکھو، البتہ سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہر سوموار یا جمعرات کا روزہ ہے تو اس کی اجازت ہے. واللہ اعلم بالصواب
اس تفصیل سے یہ بات تو طے ہے کہ روزے کے لئے پندرہ شعبان کو خاص کرنے کی کوئی خصوصیت اور دلیل نہیں ہے بلکہ شعبان کے مہینہ میں بلا کسی تاریخ کی قید اور اہتمام کے بغیر، پندرہ شعبان تک روزے رکھے جا سکتے ہیں یا صرف ایام بیض (13/14/15 تاریخ) کے روزے رکھے جائیں تو یہ بھی سنت سے ثابت ہے پندرہ شعبان کی الگ سے کوئی خصوصیت صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہے.
پندرہ شعبان کی رات میں کی جانے والی بدعات ]
اس رات میں بہت ساری بدعات نکال لی گئی ہیں ان میں سے بعض کو مندرجہ ذیل سطور میں بیان کیا جا رہا ہے:
(1)[پندرہ شعبان کو برات کی رات سمجھنا :]اس رات کے متعلق مسلمانوں میں بعض ضعیف اور موضوع روایات کی بنیاد پر عام رجحان پایا جاتا ہے کہ یہ بخشش اور جہنم سے آزادی کی رات ہے اس لئے بڑے اہتمام کے ساتھ جوق در جوق شب بیداری کی جاتی ہے اور ہجوم کی شکل میں قبرستانوں کی زیارت کی جاتی ہے، بڑے زور و شور کے ساتھ گھروں اور قبرستانوں میں چراغاں کیا جاتا ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح احادیث میں صرف اتنا ہے کہ اللہ تعالی اس رات میں مشرک اور کینہ توز کے علاوہ سب کو معاف کر دیتا ہے چنانچہ حدیث میں ہے "عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : " إِنَّ اللَّهَ لَيَطَّلِعُ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَيَغْفِرُ لِجَمِيعِ خَلْقِهِ إِلَّا لِمُشْرِكٍ أَوْ مُشَاحِنٍ "(إبن ماجہ :1390)حضرت ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نصف شعبان کی رات جلوہ افروز ہوتا ہے پس اپنی ساری مخلوق کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک اور کینہ پرور کے، اس روایت میں زیادہ سے زیادہ اس رات اللہ کی عام بخشش کا ذکر ہے جو اس میں کی جانے والی کسی خاص عبادت سے مشروط نہیں ہے اور نا ہی اس بنیاد پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح روایات کے مطابق کبھی بھی خصوصیت کے ساتھ رت جگا کیا اور نا ہی صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس کی ترغیب دلائی، شیطان کی چالیں بھی عجیب ہیں اس نے اس رات میں جس کی عبادت کا ثبوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت بھی نہیں مصنوعی عبادتوں میں لگا کر مسلمانوں کو ان راتوں سے غافل کر دیا جن میں اللہ اپنے بندے کو آواز لگا لگا کر پکارتا ہے حدیث میں ہے "عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ، يَقُولُ : مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ ؟ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ ؟ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ ؟ " حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ ہمارا رب آسمان دنیا پر ہر رات نزول فرماتا ہے جب آخری تہائی رات باقی رہ جاتی ہے اور اعلان کرتا ہے، ہے کوئی مجھے پکارنے والا میں اس کی پکار سنوں؟ ہے کوئی مجھ سے سوال کرنے والا میں اس کو عطا کروں؟ ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اس کو بخش دوں؟ چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ آج کا جاہل اور بدعتی مسلمان اسی رات کی عبادت کو اپنے لئے کافی سمجھتا ہے حتی کہ اس کو فرائض کی بھی پرواہ نہیں ہے اور جہاں تک قبرستان کی زیارت کی بات ہے تو اس رات میں خصوصی زیارت پر دلالت کرنے والی روایات درجہ صحت کو نہیں پہنچتی جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلا شعبان کی راتوں کی قید کے حسب موقع قبرستان کی زیارت کو جاتے تھے اور ہمیں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی إتباع میں زیارت قبور کرنا چاہیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كُلَّمَا كَانَ لَيْلَتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَخْرُجُ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ إِلَى الْبَقِيعِ، فَيَقُولُ : " السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَأَتَاكُمْ مَا تُوعَدُونَ غَدًا مُؤَجَّلُونَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ " (مسلم :974) یعنی جب کبھی نبی صلی کی باری ان کے یہاں ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری پہر میں جنت البقیع چلے جاتے، پس وہاں آپ" دعا کہتے" السلام علیکم دار قوم مؤمنين.......، اس حدیث سے معلوم ہو رہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات میں زیارتِ قبور کی عام عادت تھی اس میں شعبان کی کوئی خصوصیت نہیں ہے یہاں بھی شیطان کی ہوشیاری ملاحظہ فرمائیں کہ اس نے اہل بدعت کو کس طرح ہر رات کی سنت نبی سے ثابت شدہ زیارت قبور اور نفع بخش دعا سے محروم کردیا اور صرف ایک رات کی بدعات و خرافات سے لبریز مزعومہ عبادت میں مست کر دیا جو سنت نبی کے خلاف ہونے کے باعث سراسر خسارے کا سبب ہے! فانا للہ و انا الیہ راجعون
(4)چراغاں کرنا:
پندرہ شعبان کے موقع پر بعض لوگ گھروں، مسجدوں اور قبرستانوں میں چراغاں کرتے ہیں، یہ بھی اسلامی طریقے کے خلاف ہے اور ہندوؤں کے تہوار دیوالی کی نقل اور مشابہت ہے۔ مشہور حنفی عالم بدرالدین عینی رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ: چراغاں کی رسم کا آغاز یحییٰ بن خالد برمکی سے ہوا ہے، جو اصلاً آتش پرست تھا، جب وہ اسلام لایا تو اپنے ساتھ یہ آگ اور چراغ کی روشنی بھی لایا، جو بعد میں مسلم سوسائٹی میں داخل ہوگئی اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اس کو مذہبی رنگ دے دیاگیا۔ (عمدة القاری 11/117) اسی طرح غیرمسلموں کے ساتھ میل جول کی وجہ سے یہ رسم ہم نے اسلام میں داخل کرلی اور غیروں کی نقالی کرنے لگے، جب کہ غیروں کی نقل ومشابہت پر سخت وعید آئی ہے جس کو اوپر بیان کردیاگیا۔
(5)حلوہ پکانا:
اس موقع پر بعض لوگ حلوہ پکاکر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے نام کی نیاز لگاتے ہیں؛ حالاں کہ اس رات کا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے یہ نا تو آپ کی ولادت کا دن ہے اور ناہی آپ کی وفات کا بلکہ آپ کی شہادت شوال کے مہینہ میں واقع جنگ احد میں ہوئی ہے اور پھر شہداء یا کسی بھی ولی کی نیاز لگانا حرام ہے جس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس رات حلوہ پکانے کا بھی کوئی ثبوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ہے ہمیشہ یاد رکھیں کوئی بھی کام جس کو دین سمجھ کر کیا جا رہا ہے اس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہونا ضروری ہے ورنہ وہ مردود ہے۔ آیات کریمہ، احادیث شریفہ، صحابہٴ کرام کے آثار، تابعین
و تبع تابعین کے اقوال اور بزرگانِ دین کے عمل میں کہیں اس کا تذکرہ اور ثبوت نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ شیطان نے یہ سوچا کہ اس رات میں مشرک اور کینہ توز کے علاوہ اللہ تعالیٰ لا تعداد لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے تو شیطان سے یہ بات کیسے برداشت ہوگی؛ اس لیے اس نے مسلمانوں کو غیر اللہ کی نیاز میں لگا کر مشرکین کی صف میں کھڑا کردیا اور ان خرافات میں پھنسا کر سنّت طریقے سے دور کردیا بلکہ اللہ کے مومن بندوں سے کینہ و حسد میں مبتلا کردیا، إنا لله وإنا إليه راجعون.
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک جب شہید ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلوہ نوش فرمایاتھا، یہ بات بالکل من گھڑت اور بے اصل ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک غزوہ احد میں شہید ہوئے تھے، اور غزوہ احد ماہِ شوال میں پیش آیا تھا، جب کہ حلوہ شعبان میں پکایا جاتا ہے، دانت ٹوٹنے کی تکلیف ماہِ شوال میں اور حلوہ کھایا گیا دس مہینے بعد شعبان میں، کس قدر بے ہودہ اور باطل خیال ہے!
(6) گھروں کی صفائی ستھرائی اور روحوں کی حاضری کا عقیدہ رکھنا:
اس رات میں گھروں کی لپائی پوتائی اور نئے کپڑوں کی تبدیلی کا اہتمام بھی بعض لوگ کیا کرتے ہیں، نیز گھروں میں اگربتی جلاتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس رات میں مردوں کی روحیں گھروں میں آتی ہیں، لہذا ان کے استقبال میں ایسا کیا کرتے ہیں۔ یہ عقیدہ بالکل فاسد اور مردود ہے، یہ عقیدہ رکھنا جائز نہیں؛کیوں کہ کوئی بھی انسان مرنے کے بعد اس دنیا میں نہیں آتا ہے مومن ہے تب بھی اور مشرک، کافر ہے تب بھی چنانچہ ترمذی حدیث نمبر 1071 میں اس کی وضاحت موجود ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب میت کو قبر میں داخل کردیا جاتا ہے تو دو فرشتے آتے ہیں اور اس سے سوال جواب کرتے ہیں اگر بندہ مومن ہوتا ہے تو ان کے جوابات صحیح صحیح دیتا ہے اور اس کی قبر کو کشادہ کردیا جاتا ہے اور فرشتے اس سے کہتے ہیں کہ تو سو جا اس دلہن کی طرح جس کے گھر کے افراد میں سب سے زیادہ محبوب اس کو جگاتا ہے یہاں تک کہ اللہ اس کو قیامت کے دن اٹھائے گا اور اگر بندہ منافق ہوتا ہے تو وہ ان کے سوالات کے جواب میں کہتا ہے ہائے! ہائے میں نہیں جانتا، اس کی قبر کو تنگ کردیا جاتا یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ اس کو اٹھائے گا. اس سے معلوم ہوا کہ بندہ مومن ہو یا کافر و مشرک یا منافق کسی بھی صورت میں وہ دنیا میں نہیں آتا، لگتا ہے یہ عقیدہ بھی ہندوؤں کے باطل عقیدے آوا گبن سے جاہل مسلمانوں میں در آیا ہے! غرض یہ کہ اس قبیل کی تمام رسمیں خرافات اور بے اصل ہیں، جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں؛ لہٰذا ان سب چیزوں سے احتراز لازم ہے، ہماری کامیابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع میں ہی مضمر ہے.

آخری بات: تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے والے پر یہ بات مخفی نا ہوگی کہ پندرہ شعبان کی بدعات بھی رجب اور محرم کی بدعات کی طرح روافض و شیعوں کی دین ہے، ان کے یہاں یہ رات بہت متبرک اور پاکیزہ تصور کی جاتی ہے کیونکہ یہ ان کے امام غائب کی پیدائش کی تاریخ ہے، چنانچہ ایک شیعہ مصنف لکھتا ہے "پندرہ شعبان إمام مہدی آخر الزماں علیہ السلام کا روز ولادت شیعوں کو ایسا قد آور آئینہ عطا کرتا ہے جب وہ اس میں دیکھتا ہے اسے اپنے مذہب کی تمام خصوصیات کا عکس اس میں واضح طور پر نمایاں نظر آتا ہے اسی لئے وہ اس بات کی بھرپور کوشش کرتا ہے کہ وہ اس نور کو ہمیشہ زندہ رکھے اور اس خوشی کو ہمیشہ تازہ رکھے........ اس بنا پر ضروری ہے کہ امام علیہ السلام کا روز ولادت (پندرہ شعبان) نہایت احترام و تزک و احتشام کے ساتھ منایا جائے کیونکہ یہ خوشی مذہب کی ابدیت کی دلیل ہے جہاں تمام امیدیں مستقبل میں عملی ہو جائیں گی یہی سبب ہے کہ شیعہ اپنے اور انسانی معاشرے کے گرد نور کا دائرہ دیکھ رہے ہیں اور اسی دائرہ میں مہدویت کا اعتقاد "تعمیری اور زندگی اور زندگی کو متحرک بنانے والا" أمام مہدی علیہ السلام کا اسم گرامی جد و جہد اور اس سمت لے جانے والی ہر تحریک کو کامیابی کی منزل تک پہنچانے والا اور "انتظار" تحریک کو آگے بڑھانے کا آلہ اور متحرک وسیلہ ہے یہ باتیں اس وقت اور زیادہ اہم ہوجاتی ہیں جب ہم دیکھتے ہیں دنیا کا عظیم ترین آخری انقلاب الہی قوانین الہی ہدایت اور الہی رہبر کے زیر سایہ رونما ہوگا " (نور کائنات : 8) یہ عبارت شیعہ حضرات کی اس تاریخ سے ان کی والہانہ محبت و عقیدت کو صاف بیان کر رہی ہے ممکن ہے رجب کے کونڈوں کی طرح اصل مقصد کو صیغہ راز میں رکھ کر پندرہ شعبان کی فضیلت کو من گھڑت اور بناوٹی احادیث کے ذریعے بڑا چڑھا کر بیان کیا ہو اور مسلم معاشرے میں اس کو پھیلا دیا ہو؟ بہرحال معاملہ جو بھی ہو ایک سچے مسلمان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی إتباع میں صرف اتنی ہی بات کرنی چاہیے جتنی اس کے نبی نے کی ہے جس کی وضاحت اوپر ہو چکی ہے اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین

بدھ، 4 مارچ، 2020

کامیاب استاد

بسم الله الرحمن الرحيم وبه نستعين
        *اساتذہ سے سرزد ہونے والی غلطیاں*
*ازقلم:عبیداللہ بن شفیق الرحمٰن اعظمی محمدی مہسلہ*
*.........................................................*
       درس وتدریس سے بہتر کوئی مشغلہ نہیں اور استاد سے بہتر کسی کا مرتبہ نہیں ہے، لیکن ضروری ہے کہ استاد مخلص ہو، باعمل ہو، بااخلاق اور باکردار ہو، معصوم تو نہیں لیکن غلطیوں اور گناہوں سے دور رہنے والا ہو، اس لیے کہ اگر استاد میں خامی اور غلطی ہوگی تو بچوں کی تربیت پر اس کا بڑا گہرا اثر پڑے گا، آئیے آج دیکھتے ہیں کہ بعض اساتذہ سے کیا کیا غلطیاں سرزد ہوتی ہیں-
1) بغیر مطالعہ کے پڑھانا-
2) کلاس میں لیٹ جانا، اور وقت سے پہلے نکل آنا-
3) تعلیم اور تدریس چھوڑ کر کلاس میں موبائل استعمال کرنا، مطالعہ کرنا، اخبار چاٹنا، سونا، مضمون لکھنا وغیرہ-
4) طلبہ کے سوالات کا جواب نہ دینا، یا سوال کرنے پر ناراض ہونا-
5) انصاف نہ کرنا، کسی طالب کے ساتھ امتیازی سلوک کرنا-
6) طلبہ کی حاضری نہ لینا-
7) امتحان کے سوالات بہت مشکل بنانا-
8) مارنے میں اعتدال نہ برتنا، جانوروں کی طرح پیٹنا-
9) اسباق صحیح سے نہ سننا-
10) طلبہ کو گالی دینا-
11) غريب، یتیم کمزور سمجھ کر ظلم ڈھانا، کسی کو حقیر سمجھنا-
12) نام بگاڑنا-
13) کلاس روم میں داخل ہوتے وقت سلام نہ کرنا الٹا بچوں کو بطور استقبال کھڑے کرانا-
14) امتحان کا پیپر بتا دینا-
15) کورس اور نصاب مکمل نہ کرنا-
16) طلبہ سے مشکل کام کرانا-
17) مدرسے کے اصول و ضوابط کی پابندی نہ کرنا-
18) مدرسے سے غائب رہنا، اپنا زیادہ وقت تقریر اور تبلیغ میں لگانا-
19) بچوں میں برائی دیکھنے کے باوجود خاموش رہنا-
20) جس فن میں مہارت نہ ہو پھر بھی زبردستی تدریس کے لیے اس کتاب کو طلب کرنا-
21) بچوں کی تعلیم پر زیادہ توجہ نہ دینا اور باہر ٹیوشن خوب پڑھانا-
22) اچانک بیچ سال میں موٹی تنخواہ کے واسطے مستعفی ہوجانا-
23) نمازوں میں سستی کرنا-
24) طلبہ پر اپنا رعب جمانا، طلبہ کے سامنے ہمیشہ اپنی بڑائی بیان کرنا-
25) مدرسے کے خادموں اور عاملوں کے ساتھ بدسلوکی کرنا-
26) اپنی گھنٹی ختم ہو جانے کے باوجود بھی کلاس سے نہ نکلنا اور دوسرے کا وقت چاٹ جانا-
27) امتحان ہال میں ہنگامہ کرنا، شور مچانا، چیخنا چلانا-
28) صفائی کا خیال نہ رکھنا، گندے خراب کپڑے پہن کر کلاس میں پڑھانے آنا-
29) بچوں سے محبت کرنے میں غلو کرنا-
30) ناجائز طریقے سے بچوں سے پیسے کھانا-
31) بچوں کے سامنے منشیات کا استعمال کرنا-
32) داڑھی چھیلنا کترنا یا کاٹنا-
       یہ چھوٹی بڑی کچھ غلطیاں ہیں جو عام طور پر مدارس کے اساتذہ سے سرزد ہوتی ہیں، اساتذہ کو چاہیے کہ ان غلطیوں سے اور تمام غلطیوں سے بچیں، اساتذہ مثالی بنیں، طلبہ کے لیے آئیڈیل اور نمونہ بنیں، خوش اخلاق بنیں، اس لیے کہ طلبہ اپنے اساتذہ کو دیکھ کر بہت کچھ سیکھتے ہیں اور اپنے اساتذہ کی نقالی کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر قسم کے گناہ سے بچائے اور ہم سب کو معاف فرمائے اور اساتذہ کی خدمات کو قبول فرمائے آمین-   
═════ ❁✿❁ ══════
21 /02/2020

جمعرات، 6 فروری، 2020

صبح شام کے اذکار

الحمد للہ:
"وضو کے بغیر صبح اور شام کے اذکار پڑھنا جائز ہے؛ کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہر حالت میں اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔)
اللہ تعالی عمل کی توفیق دے، اور درود و سلام ہوں ہمارے نبی محمد، آپ کی آل اور تمام صحابہ کرام پر۔" انتہی
دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات و فتاوی
الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز۔۔۔ الشیخ عبد اللہ بن غدیان۔۔۔ الشیخ صالح الفوزان۔۔۔ الشیخ عبد العزیز آل الشیخ۔۔۔ الشیخ بکر ابو زید۔
"فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء" (24/233)

جمعرات، 1 اگست، 2019

قربانی اور عیدالاضحی کے اہم مسائل ، کتاب وسنت کی روشنی میں


بسم اللہ الرحمن الرحیم 

قربانی اور عیدالاضحی کے اہم مسائل ، کتاب وسنت کی روشنی میں

الحمد للہ رب العالمین والصلاةوالسلام علی أشرف الا نبیاء والمرسلین وعلی آلہ وصحبہ أجمعین وبعد ،،،،،،،،
قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے . نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ہمیشہ اس کا اہتمام فرمایا اور اپنی امت کو بھی اس کا اہتمام کرنے کا حکم دیا . قرآن وسنت میں اس کے متعلق مختلف دلائل موجود ہیں . ارشاد باری تعالی ہے ( فصل لربک وانحر ) ٫٫پس آپ اپنے رب کیلئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے،،

حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ٫٫اس دن ہم پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ نماز عید ادا کرتے ہیں پھر واپس آکر قربانی کرتے ہیں ، جس شخص نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت کو پالیا ،،.

( صحیح بخاری حدیث نمبر ٥٥٤٥ ،مسلم حدیث نمبر ١٥٥٣) .



نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سنت ابراہیمی پر مداومت اور ہمیشگی فرمائی ہے . جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں :٫٫ کان النی صلی اللہ علیہ وسلم یضحی بکبشین وأنا أضحی بکبشین ،، یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو مینڈھے ذبح کیاکرتے تھے اور میں بھی دو مینڈھے ذبح کرتا ہوں . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو بھی تاکید فرمائی کہ وہ ہر سال قربانی کی سنت ادا کریں، جیسا کہ مخنف بن سلیم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے لوگو ! ہر سال ہر گھر والے پر قربانی ہے

(صحیح سنن الترمذی ٩٣٢ ، صحیح النسائی ٨٨٦٣ ).



اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرنے والوں پر شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :٫٫ من کان لہ سعة فلم یضح فلایقربن مصلانا ،، ترجمہ : ٫٫جو آسودہ حال ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے،،

(صحیح سنن ابن ماجہ ١٩٩٢) 

بلکہ صحابہ کرام قربانی کے جانور پالتے تھے جیسا کہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا : ٫٫ کنا نسمن الضحیة بالمدینة وکان المسلمون یسمنون ،، ہم مدینہ طیبہ میں قربانی کے جانور کی پرورش کرکے فربہ کرتے تھے اور دیگر مسلمان بھی اسی طرح انھیں پال کر موٹا کرتے تھے .

(صحیح البخاری ،االأضاح} 

٭جو شخص قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اسے چاہئے کہ ذوالحجہ کا چاند نظر آجانے کے بعد اپنے بالوں اور ناخنوں کو کاٹنے اور تراشنے سے باز رہے . جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم کا ارشاد ہے آپ نے فرمایا : ٫٫ ذا رأیتم ہلال ذی الحجة وأراد أحدکم أن یضحے فلیمسک عن شعرہ وظفرہ ،، جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تمھارا ارادہ قربانی کرنے کا ہو تو اپنے بالوں اور ناخونوں کو کاٹنے اور تراشنے سے باز رہو .لیکن کسی قربانی کا ارادہ رکھنے والے شخص نے اپنے بالوں یا ناخونوں کو کاٹ لیا تو اس پر کوئی فدیہ نہیں البتہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی سے استغفار کرنا چاہئے ۔

٭ میت کو بھی قربانی میں شریک کرنا جائز ہے جیسا کہ امام مسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کی ہے جسکا ترجمہ یہ ہے ٫٫ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگوں والا مینڈھا لانے کا حکم دیا جس کے ہاتھ ، پاؤں، پیٹ اور آنکھیں سیاہ ہوں . چنانچہ وہ آپ کے پاس لایا گیا تاکہ آپ اس کی قربانی کریں . پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : اے عائشہ ! چھری لاؤ . پھر آپ نے فرمایا : اسکو پتھر پر تیز کرو . انھوں نے حکم کی تعمیل کی . پھر آپ نے چھری کو تھاما اور مینڈھے کو ذبح کرنے کیلئے لٹا دیا پھر آپ نے فرمایا : ٫٫ اللہ کے نام کے ساتھ ، اے اللہ ! محمد ، آل محمد اور امت محمد کی طرف سے قبول فرما،،.

( مسلم حدسث نمبر ١٩٨٧ }

٭ قربانی کے لئے دو دانتا جانور ہونا چاہئے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ٫٫لاتذبحوا لا مسنة لا أن یعسر علیکم فتذبحوا جذعة من الضأن،، یعنی صرف دو دانتا جانور کی قربانی کرو اگر ایسا جانور نہ مل سکے تو جذعہ ( دو دانت سے کم عمر کا دنبہ ) ذبح کرلو . ( صحیح مسلم حدیث نمبر ١٩٦٣) حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ (جذعہ) کی عمر کے بارے میں رقمطراز ہیں : جمہور کے قول کے مطابق بھیڑ میں سے (جذعہ) وہ ہے جس نے اپنی عمر کا ایک سال مکمل کرلیا ہو . ( فتح الباری ٥١٠) 

٭خصی اور غیر خصی دونوں قسم کے جانور کی قربانی کرنا سنت مطہرہ سے ثابت ہے .

(تفصیلات کیلئے دیکھئے ، ارواء الغلیل ٢٥١٤، سنن ابو داؤد حدیث نمبر ٢٧٩٣ }

٭ قربانی کا جانور موٹا ، تازہ ، خوبصورت اور ہر قسم کے عیب سے پاک ہونا چاہئے . وہ جانور جن کی قربانی جائز نہیں . اس کی تفصیلات مندرجہ ذیل حدیث سے معلوم ہوتی ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ٫٫ ہم جانور کی آنکھیں اور کان اچھی طرح دیکھ لیں اور ایسا جانور نہ ذبح کریں جس کا کان اوپر یا نیچے سے کٹا ہو ، جس کے کان لمبائی میں کٹے ہوں یا جس کے کان میں گول سوراخ ہو،، .

( سنن ترمذی ١ ٢٨٣۔ ابوداؤد حدیث نمبر ٨٢٠٤) 

نیز حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا : کس جانور کی قربانی سے بچا جائے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے اشارہ کرکے کہا کہ چار قسم کے جانور وں کی قربانی منع ہے (١) لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو (٢) کانا جانور جس کا کانا پن ظاہر ہو (٣) بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو (٤) لاغر جانور جس کی ہڈیوں میں بالکل گودا نہ ہو ،،.

( موطا ٢/ ٥٨٢ ، ترمذی ١ ٢٨٣ ، ابن ماجہ حدیث نمبر ٣١٤٤ وغیرہ ) .

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کے جانوروں میں معمولی عیب کی معافی ہے لیکن جن جانوروں میں ان عیوب سے بڑا عیب ہوگا ان کی قربانی جائز نہیں ہوگی. 

٭قربانی کا وقت نماز عید کے بعد شروع ہوتا ہے . اور ١٣ ذوالحجہ کو غروب آفتاب تک رہتا ہے اس لئے کہ ١١، ١٢، ١٣ ذوالحجہ کو ایام تشریق کہتے ہیں اور حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ٫٫ کل أیام تشریق ذبح ،، کہ سارے ایام تشریق ذبح کے دن ہیں . (فتح الباری ١٠ ١١ ) 

٭ ایک بکرے یا بھیڑ میں ایک سے زیادہ آدمی حصہ دار نہیں ہو سکتے البتہ گائے میں سات آدمی اور اونٹ میں دس آدمی حصہ دار ہو سکتے ہیں . اگر کوئی ایک سے زائد حصے رکھنا چاہے یا اکیلا ہی قربانی کرنا چاہے تو اس کی مرضی ہے . حدیث ملاحظہ فرمائیں. عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال : کنا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی سفر فحضر الضحی فاشترکنا فی الجزور عن عشرة والبقرة عن سبعة ،، ترجمہ: ٫٫سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ۖ کے ساتھ کسی سفر میں تھے کہ عیدالاضحی آگئی . تو ہم نے اونٹ میں دس اور گائے میں سات آدمیوں نے شرکت کی ،،.

( صحیح ترمذی ٢/٨٩. وصحیح ابن ماجہ ٢/ ٢٠٠}



٭قربانی کے جانور کو ذبح کرنا اس کی قیمت صدقہ کرنے سے افضل ہے کیونکہ اس میں سنت کا احیاء ، اظہار اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اسوہ حسنہ کی اتباع ہے . 

٭ قربانی کا گوشت غرباء ومساکین پر صدقہ کرنا ، دوست واحباب اور عزیز و اقارب کو تحفہ دینا اور خود بھی جتنی ضرورت ہو کھانا جائزہے . اور اگر کچھ دنوں کیلئے بچاکر رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ٫٫ کلوا وادخروا وتصدقوا،، کھائو ذخیرہ کرو اور صدقہ کرو . 

(مسلم حدیث نمبر١٩٧١ کتاب الاضاحی}

٭ عید کے دن غسل کرنا مستحب ہے .

٭عید گاہ میں عید کی دو رکعت نماز کے علاوہ نہ پہلے نفل ہیں اور نہ ہی بعد میں .

٭عید کی نماز کیلئے عید گاہ میں عورتیں بھی ضرور شرکت کریں . حتی کہ ایام ماہواری والی عورتیں بھی جائیں لیکن وہ نماز کی جگہ سے الگ رہیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک رہیں . 


٭ نماز عیدین کا طریقہ 

عیدین کی نماز میں بارہ تکبیریں ہیں . پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے سات اور دوسری رکعت میں قرأت سے پہلے پانچ تکبیریں کہنی مسنون ہیں(ابوداؤدحدیث نمبر ١١٥٠ و ابن ماجہ حدیث ١٢٨٠ وغیرہ)

٭ اگر بارش وغیرہ ہو تو نماز عید مسجد میں ادا کی جاسکتی ہے . جیسا کہ عمر رضی اللہ عنہ سے بیہقی ٣/ ٣١٠ میں روایت موجود ہے . 

٭ نماز عید کیلئے آتے جاتے ہوئے راستہ بدل لینا بھی سنت ہے . 

٭ نماز عید الاضحی کی ادائیگی سے پہلے کچھ نہ کھانا مستحب ہے .

٭ عید گاہ کو جاتے ہوئے بلند آواز سے تکبیریں کہنا سنت ہے . مسنون تکبیر کے الفاظ یہ ہیں :
 اللہ أکبر اللہ اکبر' لالہ لااللہ واللہ أکبر ' اللہ أکبر وللہ الحمد. 

٭ اگر عید کے دن جمعہ آجائے توجمعہ کی رخصت ہے (چاہے جمعہ کی نماز پڑھے یا ظہر ).

٭٩ ذی الحجہ ( یوم عرفہ )کے روزے کی فضیلت : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یوم عرفہ (نو ذی الحجہ ) کے روزے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : یکفر السنة الماضیة والباقیة،، یعنی عرفہ کے دن کا روزہ اگلے اور پچھلے دو سال کے گناہ معاف کردے گا .

(صحیح مسلم حدیث نمبر ١١٦٢ }

٭ اللہ تعالی نے ماہ ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کو سارے سال کے دوسرے دنوں کے مقابلے میں اعلی ' افضل اور برتر قرار دیا ہے . اور نبی کریم ۖ کا ارشاد ہے جس کا ترجمہ یوں ہے ٫٫ ان دس دنوں میں کئے ہوئے نیک اعمال بارگاہ الہی میں سال کے باقی سارے دنوں میں کئے ہوئے نیک اعمال سے زیادہ فضیلت والے اور محبوب ہیں . صحابہ کرام نے عرض کیا ٫ یارسول اللہ ! جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ؟ آپ نے فرمایا : جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں . ہاں مگر وہ شخص جو اپنی جان ومال کے ساتھ راہ جہاد میں نکلے اور کچھ واپس لیکر نہ آئے . ( یعنی اپنی جان و مال اسی راہ میں قربان کردے ). 

٭ان ایام میں کثرت سے تہلیل،تکبیراور تحمید کہنا چاہئے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جسکا ترجمہ یہ ہے٫٫ کوئی دن بارگاہ الہی میں ان دس دنوں سیزیادہ عظمت والا نہیں ٫ اور نہ ہی کسی دن کا اچھا عمل اللہ تعالی کو ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب ہے پس تم ان میں کثرت سے لاالہ الااللہ ، اللہ اکبر اور الحمد للہکہو .

(مسند احمد حدیث نمبر ٥٤٤٦ }

ہر مسلمان مرد اور عورت کو چاہئے کہ ان افضل ایام کو اللہ کی اطاعت اور اس کے ذکر وشکر میں گزارے . احکام وواجبات کو بجا لائے ٫ ممنوعہ چیزوں سے بچے اور ان ایام کو حصول اجرو ثواب کیلئے غنیمت سمجھے . وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم .

اسم المقالة : قربانی اور عیدالاضحی کے اہم مسائل ​

تحرير المقالة: شیخ عبد السلام بن عبد الحمید { الخبر }
ناشر : عبد المؤمن سلفی  {7051677550}      

اتوار، 21 جولائی، 2019

نماز کی سنتیں

نماز کی زبان سے ادا ہونے والی سنتیں گیارہ ہیں، جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
1- تکبیرِ تحریمہ کے بعد دعائے استفتاح پڑھنا: " سُبْحَانَكَ الَّلهُمَّ وَبِحَمْدِكَ ، وَتَبَارَكَ اسْمُكَ ، وَتَعَالَى جَدُّكَ ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ "
2- تعوذ پڑھنا۔
3- بسم اللہ پڑھنا۔
4- آمین کہنا۔
5- سورہ فاتحہ کے بعد کوئی بھی سورت پڑھنا۔
6- امام کا جہری نمازوں میں بلند آواز سے قراءت کرنا۔
7- مقتدی کے علاوہ دیگر [یعنی :امام اور منفرد]نمازیوں کا " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ " کے بعد: " مِلْءَ السَّمَاوَاتِ ، وَمِلْءَ الْأَرْضِ ، وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ " کہنا، (ان الفاظ کے کہنے کے بارے میں صحیح موقف یہی ہے کہ مقتدی کیلئے بھی سنت ہے)
8- رکوع کی ایک سے زائد تسبیحات، یعنی دوسری ، تیسری اور اسکے بعد والی تسبیحات سنت ہیں۔
9- سجدے کی ایک سے زائد تسبیحات۔
10- دو سجدوں کے درمیان ایک سے زائد بار " رَبِّ اغْفِرْ لِيْ"پڑھنا۔
11- آخری تشہد میں آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر درود ، اور برکت کی دعا کرنا، اور اسکے بعد دعا مانگنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فعلی سنتیں، جنہیں کیفیات بھی کہا جاتا ہے۔
1- تکبیرِ تحریمہ کیساتھ رفع الیدین کرنا۔
2- رکوع میں جاتے وقت رفع الیدین کرنا۔
3- رکوع سے اٹھنے وقت رفع الیدین کرنا۔
4- رفع الیدین کرنے کے بعد دونوں ہاتھوں کو چھوڑنا۔
5- دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے اوپر رکھنا۔
6- اپنی نظریں سجدہ کی جگہ رکھنا۔
7- قیام کی حالت میں دونوں قدموں کے درمیان مناسب فاصلہ رکھنا۔
8- رکوع کی حالت میں ہاتھوں کی انگلیاں کھول کر گھٹنے کو پکڑنا، اور کمر کو سیدھا کرتے ہوئے سر کو کمر کے برابر رکھنا۔
9- اعضائے سجدہ کو براہِ راست زمین پر لگانا، اور سجدہ کی جگہ کو چھونا، گھٹنوں کو براہِ راست زمین پر لگانا مکروہ ہے۔ [براہِ راست لگانے سے مراد یہ ہے کہ درمیان میں کپڑا بھی حائل نہ ہو، اسی لئے گھٹنے کو ننگا کرنا مکروہ کہا گیا ہے۔ مترجم]
10- [سجدہ کی حالت میں] بازؤوں کو پہلؤوں سے ، پیٹ کو ران سے، ران کو پنڈلیوں سے، اور دونوں گھٹنوں میں فاصلہ رکھنا، دونوں قدموں کو کھڑا رکھنا، دونوں قدموں کی انگلیوں کے اندرونی حصہ کو زمین پر لگانا، دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابر انگلیاں ملا کر رکھنا۔
11- دونوں سجدوں کے درمیان ، اور پہلے تشہد میں بایاں پاؤں بچھا کر اس کے اوپر بیٹھنا، اور دوسرے تشہد میں تورّک [بایاں پاؤں دائیں پاؤں کے نیچے سے آگے نکال کر بیٹھنا] ۔
12- دوسجدوں کے درمیاں بیٹھتے ہوئے اپنی ہتھیلیوں کو ران پر انگلیاں ملا کر رکھنا، اسی طرح تشہد میں بھی، جبکہ تشہد میں دائیں ہاتھ کی چھنگلی، اور چوتھی انگلی کو بند کرکے، درمیانی انگلی اور انگوٹھے کے ذریعے حلقہ بنائے، اور شہادت والی انگلی سے ذکرِ الہی کے وقت اشارہ کرے۔
13- سلام پھیرتے ہوئے دائیں بائیں منہ پھیرنا۔
بعض اشیاء میں فقہائے کرام کے ہاں اختلاف بھی پایا جاسکتا ہے، چنانچہ بسا اوقات کسی کے ہاں کوئی عمل واجب ہے تو دیگر فقہائے کرام کے ہاں وہ عمل مسنون بھی ہوسکتا ہے، ان باتوں کی مکمل تفصیلات فقہی کتب میں موجود ہیں۔
واللہ اعلم .

نماز کے واجبات

نماز کے آٹھ واجبات ہیں، جوکہ مندرجہ ذیل ہیں:
1- تکبیر تحریمہ کے علاوہ دیگر تکبیرات۔
2- امام اور منفرد کا " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ " کہنا۔
3- " رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ " کہنا۔
4- رکوع میں ایک بار " سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْم " کہنا۔
5- سجدہ میں ایک بار " سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى" کہنا۔
6- دو سجدوں کے درمیان " رَبِّ اغْفِرْ لِيْ" کہنا۔
7- پہلا تشہد پڑھنا ۔
8- پہلا تشہد بیٹھنا

نما میں کتنے ارکان ہیں

نماز کے ارکان، چودہ ہیں، جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
1- فرض نماز کے دوران قیام کی استطاعت رکھنے والے پر قیام کرنا۔
2- تکبیرِ تحریمہ یعنی "اللہ اکبر "کہنا۔
3- سورہ فاتحہ کی تلاوت کرنا۔
4- رکوع کرنا، رکوع کی کم از کم حالت یہ ہے کہ جھک کر اپنے گھٹنوں کو ہاتھ لگائے، اور کامل رکوع یہ ہے کہ جھکتے ہوئے کمر کو سر کے برابر سیدھی کرے۔
5- رکوع سے اٹھنا۔
6- رکوع سے اٹھ کر سیدھے کھڑے ہونا۔
7- سجدہ کرنا، کامل ترین سجدہ یہ ہے کہ پیشانی، ناک، دونوں ہتھیلیاں، دونوں گھٹنے، اور دونوں قدموں کی انگلیوں کے کنارے سجدہ کی جگہ پر اچھی طرح رکھے جائیں، اور کم از کم سجدہ یہ ہے کہ ہر عضو کا کچھ نہ کچھ حصہ زمین پر ضرور رکھا جائے۔
8- سجدہ اٹھنا۔
9- دو سجدوں کے درمیان بیٹھنا، جیسے بھی بیٹھے کفایت تو کر جائے گا، لیکن اس کیلئے سنت یہ ہے کہ اپنا بایاں پاؤں بچھا کر اسکے اوپر بیٹھے، اور دائیں پاؤں کو کھڑا کرکے قبلہ رخ کرے۔
10- پوری نماز میں اطمینان ، یعنی ہر فعلی رکن کو سکون کیساتھ ادا کرنا۔
11- آخری تشہد پڑھنا۔
12- تشہد اور دونوں طرف سلام کیلئے بیٹھنا۔
13- دونوں طرف سلام پھیرنا، سلام سے مراد یہ ہے کہ دو بار "السلام علیکم ورحمۃ اللہ" کہنا، نفل اور نمازِ جنازہ میں ایک سلام بھی کفایت کرجائے گا۔
14- مذکورہ بالا ارکان میں ترتیب کا خیال کرنا، جیسے کہ اوپر بیان ہوئی ہیں، چنانچہ اگر کوئی رکوع سے قبل جان بوجھ کر سجدہ کر لے تو نماز باطل ہوجائے گی، اور اگر بھول کر سجدہ کر لے تو واپس جا کر پہلے رکوع کرے، اور بعد میں سجدہ کریگا

Featured Post

آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت بتاۓ.... طالبہ طس بنت قیوم

 الحمد للہ. ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں : یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ...