ہفتہ، 4 دسمبر، 2021

دعا و اذکار 1


دعا اور ذکر کی تعریف:لغوی معنی:… دعا لغت میں پکار اور طلب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ شرعی معنی: … اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اور اس سے امید رکھتے ہوئے کسی ضرورت کے لیے سوال کرنا؛ (مثلاً) عمل کے قبول ہونے کے لیے، یا بخشش کے لیے؛ یا فائدہ کے حصول کے لیے؛ یا برائی کے ختم ہونے کے لیے ؛ یا خطرات سے بچنے کے لیے؛ یا عذاب دور کرنے کے لیے؛ یا دنیا و آخرت میں اجر کے حصول کے لیے۔ دعا کی حقیقت:اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی کم مائیگی اور ضرورت مندی کا اظہار؛ ہر قسم کی ذاتی قوت و طاقت سے برأت عبودیت کی نشانی ہے۔اور انسان کا اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی پستی کا شعور ؛ اس کی حمد و ثنا اور سخاوت و کریمی کا اظہار یہ حقیقت میں دعا ہے۔ ذکرکا مفہوم: غفلت اور نسیان سے گلو خلاصی۔ غفلت:… انسان کے کسی چیز کو اپنے ارادہ اور اختیار سے چھوڑ دینے کو کہتے ہیں ۔نسیان:… انسان کے کسی چیز کو بغیر ارادہ و اختیار کے چھوڑ دینے کو کہتے ہیں ۔
دعا اور ذکر کی تعریف:لغوی معنی:… دعا لغت میں پکار اور طلب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ شرعی معنی: … اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اور اس سے امید رکھتے ہوئے کسی ضرورت کے لیے سوال کرنا؛ (مثلاً) عمل کے قبول ہونے کے لیے، یا بخشش کے لیے؛ یا فائدہ کے حصول کے لیے؛ یا برائی کے ختم ہونے کے لیے ؛ یا خطرات سے بچنے کے لیے؛ یا عذاب دور کرنے کے لیے؛ یا دنیا و آخرت میں اجر کے حصول کے لیے۔ دعا کی حقیقت:اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی کم مائیگی اور ضرورت مندی کا اظہار؛ ہر قسم کی ذاتی قوت و طاقت سے برأت عبودیت کی نشانی ہے۔اور انسان کا اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی پستی کا شعور ؛ اس کی حمد و ثنا اور سخاوت و کریمی کا اظہار یہ حقیقت میں دعا ہے۔ ذکرکا مفہوم: غفلت اور نسیان سے گلو خلاصی۔ غفلت:… انسان کے کسی چیز کو اپنے ارادہ اور اختیار سے چھوڑ دینے کو کہتے ہیں ۔نسیان:… انسان کے کسی چیز کو بغیر ارادہ و اختیار کے چھوڑ دینے کو کہتے ہیں ۔
رکھنا، اورہر اس چیز سے اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا جو کہ اس کے لائق نہیں ہے۔ پھر اس کی بھی دو قسمیں ہیں :اوّل:… ذکر کرنے والا اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف کوبیان کرے۔ ذکر کی یہ قسم احادیث میں مذکور ہے جیسے : سبحان اللهِ، والحمدُ للّٰه ، لا إله إلا اللّٰه ، واللّٰهُ أكبرُدوم:… اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور ان کے احکام کی خبر ہونا۔ جیسا کہ : اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ اپنے بندے کی توبہ سے خوش ہوتا ہے جو کہ گم سواری ملنے پر خوش ہوتا ہے۔ وہ اپنے بندوں کی آوازوں کو سنتاہے۔اور ان کی حرکتوں کو دیکھتاہے۔اور ان کے اعمال میں سے کوئی چھپی ہوئی چیز بھی اللہ تعالیٰ پر مخفی نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ان کے والدین سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ [یہ بحث کچھ تصرف کے ساتھ کتاب ’’شروط الدعا وموانع الإجابۃ‘‘ اورشیخ سعید قحطانی کی کتاب ’’ الدعاء من الکتاب و السنۃ ‘‘ سے استفادہ کرتے ہوئے لکھی گئی ہے۔

 

ہفتہ، 13 فروری، 2021

اسلام اور ایمان میں فرق

 اسلام اور ایمان میں کیا فرق ہے؟ اس بارے میں علمائے کرام نے عقائد کی کتب میں بہت تفصیلات ذکر کی ہیں، ان تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب یہ لفظ الگ الگ ذکر ہوں تو پھر ہر ایک کا مطلب پورا دین اسلام  ہوتا ہے، تو اس وقت لفظ اسلام ہو یا ایمان ان میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔

اور اگر یہ دونوں الفاظ ایک ہی سیاق  اور جملے میں مذکور ہوں تو پھر ایمان سے  باطنی یا روحانی اعمال مراد لیے جاتے ہیں، جیسے کہ قلبی عبادات، مثلاً: اللہ تعالی پر ایمان، اللہ تعالی سے محبت، خوف، امید، اور اللہ تعالی کے لیے اخلاص وغیرہ۔

اور اسلام سے مراد ظاہری اعمال ہوتے ہیں   کہ  بسا اوقات جن کے ساتھ قلبی ایمان کبھی ہوتا ہے، اور کبھی نہیں ہوتا،تو  دوسری صورت میں  ان ظاہری اعمال کو کرنے والا یا تو منافق ہوتا ہے یا پھر منافق تو نہیں ہوتا لیکن اس کا ایمان کمزور  ہوتا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"لفظ "ایمان" کو بسا اوقات اسلام یا عمل صالح کے ساتھ ملا کر ذکر نہیں کیا جاتا  بلکہ وہ بالکل الگ تھلگ ہوتا ہے، اور بسا اوقات لفظ "ایمان" کو اسلام کے ساتھ ملا کر ذکر کیا جاتا ہے جیسے کہ حدیث جبریل علیہ السلام میں ہے کہ: (اسلام کیا ہے؟۔۔۔ اور ایمان کیا ہے؟۔۔۔) اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ)
ترجمہ: بیشک مسلمان مرد   اور مسلمان خواتین، اور مومن مرد اور مومن خواتین [الأحزاب:35]

اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا:
(قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ)
ترجمہ: خانہ بدوشوں نے کہا: ہم ایمان لے آئے، آپ کہہ دیں کہ: تم ایمان نہیں لائے، تاہم تم کہو: ہم اسلام  لے آئے ہیں، ابھی تو ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔ [الحجرات:14]

نیز فرمایا:
(فَأَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ . فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ)
ترجمہ: تو ہم نے ان میں سے جو بھی مومن تھے انہیں وہاں سے نکال دیا، تو ہمیں اس میں مسلمانوں کے ایک گھرانے کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ [الذاريات:36]

تو ان آیات میں جب ایمان کو اسلام کے ساتھ ذکر فرمایا  تو :

اسلام سے مراد ظاہری اعمال لیے، مثلاً: شہادتین کا اقرار، نماز، زکاۃ، روزہ، حج وغیرہ

اور ایمان سے مراد قلبی امور لیے ، مثلاً: اللہ تعالی پر ایمان، فرشتوں، کتابوں، رسولوں اور آخرت کے دن پر ایمان۔

تاہم جب ایمان کا لفظ اکیلا ذکر کیا جائے تو اس میں اسلام اور اعمال صالحہ سب شامل ہوتے ہیں، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ایمان کے درجات بیان کرنے والی حدیث میں فرمان ہے: (ایمان کے ستر سے زائد درجات ہیں، ان میں سب سے اعلی درجہ لا الہ الا اللہ کہنا، اور سب سے چھوٹا درجہ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ہے)

تو یہی طریقہ کار دیگر تمام احادیث کے ساتھ اپنایا جائے گا جن میں نیکی کے کاموں کو ایمان کا حصہ بتلایا گیا ہے" اختصار کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا
"مجموع الفتاوى" (7/13-15)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جب [لفظ ایمان اور اسلام] دونوں اکٹھے  ذکر ہوں تو پھر اسلام سے مراد  ظاہری اعمال مراد لیے جاتے ہیں جس میں زبان سے ادا ہونے والے کلمات، اور اعضا سے ہونے والے اعمال شامل ہیں اور یہ کلمات اور اعمال کامل ایمان والا مومن یا کمزور ایمان والا مومن  بھی کر سکتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
(قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ)
ترجمہ: خانہ بدوشوں نے کہا: ہم ایمان لے آئے، آپ کہہ دیں کہ: تم ایمان نہیں لائے، تاہم تم کہو: ہم اسلام  لے آئے ہیں، ابھی تو ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔ [الحجرات:14]

اور اسی طرح منافق  شخص ہے کہ اسے ظاہری طور پر تو مسلمان کہا جاتا ہے لیکن وہ باطنی طور پر کافر ہے۔

اور ایمان سے مراد باطنی  یا قلبی امور لیے جاتے ہیں اور یہ کام صرف وہی شخص کرتا ہے جو حقیقی مومن ہو، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (2) الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (3) أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ
ترجمہ: حقیقی مومن تو وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات پڑھی جائیں تو انہیں ایمان میں بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب ہی پر بھروسا رکھتے ہیں۔ [2] وہ لوگ جو نماز قائم کرتے ہیں اور اس میں سے جو ہم نے انہیں دیا، خرچ کرتے ہیں  [3] یہی لوگ سچے مومن ہیں، انہی کے لیے ان کے رب کے پاس بہت سے درجے اور بڑی بخشش اور با عزت رزق ہے۔ [الأنفال: 2 - 4]
تو اس اعتبار سے ایمان کا درجہ اعلی ہو گا، لہذا ہر مومن مسلمان ہے لیکن ہر مسلمان مومن نہیں ہے" ختم شد
"مجموع فتاوى ورسائل ابن عثیمین" (4/92)

اب سوال میں مذکور آیت کا مفہوم اس توجیہ کے موافق ہے کہ لوط علیہ السلام کے گھر والوں کو ایک بار ایمان سے موصوف کیا گیا تو دوسری بار اسلام سے ۔

تو یہاں پر اسلام سے مراد ظاہری امور مراد ہیں اور ایمان سے مراد قلبی اور حقیقی ایمان مراد ہے، لہذا جب اللہ تعالی نے لوط علیہ السلام کے تمام گھرانے والوں کا ذکر کیا تو انہیں ظاہری اعتبار سے اسلام کے ساتھ موصوف فرمایا ؛ کیونکہ لوط علیہ السلام کی بیوی بھی آپ کے گھرانے میں شامل تھی اور وہ ظاہری طور پر مسلمان تھی، لیکن حقیقت میں کافر تھی، اسی وجہ سے جب اللہ تعالی نے عذاب سے بچنے والے اور نجات پا جانے والے لوگوں کا ذکر فرمایا تو انہیں ایمان سے موصوف فرمایا اور کہا:
(فَأَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ . فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ)
ترجمہ: تو ہم نے ان میں سے جو بھی مومن تھے انہیں وہاں سے نکال دیا، تو ہمیں اس میں مسلمانوں کے ایک گھرانے کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ [الذاريات:36]

اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"لوط علیہ السلام کی بیوی باطنی طور پر منافق اور کافر تھی، تاہم اپنے خاوند کے ساتھ ظاہری طور پر مسلمان تھی، یہی وجہ ہے کہ اسے بھی قوم لوط کے ساتھ عذاب سے دوچار کیا گیا، تو یہی حال  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ موجود منافقین کا ہے کہ وہ ظاہری طور پر آپ تو صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مسلمان تھے  لیکن باطن میں مومن نہیں تھے" ختم شد
"جامع المسائل" (6/221)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ مزید کہتے ہیں کہ:
"کچھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ ایمان اور اسلام دونوں ایک ہی چیزیں ہیں، اور ان آیتوں کو باہمی طور پر متعارض قرار دیا۔

حالانکہ معاملہ ایسے نہیں ہے، بلکہ یہ آیت پہلی آیت کے ساتھ موافقت رکھتی ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے یہ بتلایا کہ اللہ تعالی نے وہاں پر جو بھی مومن تھا اسے نکال لیا اور مسلمانوں کا وہاں ایک ہی گھر پایا؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوط علیہ السلام کی بیوی لوط علیہ السلام کے گھرانے میں موجود تھی لیکن وہ ان لوگوں میں شامل نہیں جنہیں نکال لیا گیا اور نجات پا گئے تھے، بلکہ وہ عذاب میں مبتلا ہونے والے اور پیچھے رہ جانے والوں میں شامل تھی۔ لوط علیہ السلام کی بیوی ظاہری طور پر تو اپنے خاوند کے ساتھ تھی لیکن باطنی طور پر وہ اپنی قوم کے دین پر تھی، اور اپنے خاوند کو دھوکا دے رہی  تھی کہ اس نے اپنی قوم کو آنیوالے مہمانوں کے بارے میں مطلع کر دیا، جیسے کہ اس چیز کا ذکر اللہ تعالی نے یوں فرمایا کہ:
( ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا )
ترجمہ:  [ التحريم:10]

اور جس خیانت کا ذکر اللہ تعالی نے فرمایا ہے یہ ان دونوں عورتوں کی جانب سے دینی خیانت تھی پاکدامنی سے متعلق نہیں تھی۔ بہ ہر حال مقصود یہ ہے کہ لوط علیہ السلام کی بیوی مومن نہیں تھی، نہ ہی وہ ان لوگوں میں شامل تھی جنہیں عذاب سے نکال کر نجات دے دی گئی، لہذا وہ اللہ تعالی کے اس فرمان : (فَأَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ)  تو ہم نے ان میں سے جو بھی مومن تھے انہیں وہاں سے نکال دیا [الذاريات:36]میں شامل نہیں ہے، اور چونکہ وہ ظاہری طور پر مسلمان تھی اس لیے وہ  اللہ تعالی کے فرمان : (فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ) تو ہمیں اس میں مسلمانوں کے ایک گھرانے کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ [الذاريات:36]  میں شامل ہے۔

یہاں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ  قرآن کریم کسی بھی چیز کو بیان کرنے میں انتہائی باریکی اختیار کرتا ہے کہ جب لوگوں کو عذاب سے بچانے کا ذکر  کیا تو وہاں پر مومنین کا لفظ بولا،  لیکن جب وجود اور عدم وجود کی بات آئی تو وہاں مسلمین کا لفظ بولا" ختم شد
"مجموع الفتاوى " (7/472-474)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے لوط علیہ السلام کے واقعے میں فرمایا:
(فَأَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ . فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ)
ترجمہ: تو ہم نے ان میں سے جو بھی مومن تھے انہیں وہاں سے نکال دیا، تو ہمیں اس میں کوئی ایک گھر کے سوا  مسلمانوں کا کوئی گھر نہ ملا۔ [الذاريات:36]
اللہ تعالی نے یہاں پر مومنین اور مسلمین میں فرق کیا ہے؛ کیونکہ اس بستی میں ظاہری طور پر یہی ایک گھرانہ تھا جو اسلامی تھا[مکمل ایمانی نہیں تھا]؛ کیونکہ اس گھرانے میں لوط علیہ السلام کی بیوی بھی تھی جس نے لوط علیہ السلام کو ظاہری اسلام دکھا کر دھوکا دیا ہوا تھا، حالانکہ وہ اندر سے کافر تھی، چنانچہ جن لوگوں کو نکالا گیا اور نجات دی گئی تو وہ لوگ ہی حقیقی مومن تھے کہ جن کے دلوں میں حقیقی طور پر ایمان داخل ہو چکا تھا۔" ختم شد
"مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین" (1/47-49)
واللہ اعلم.

پیر، 14 ستمبر، 2020

زبان کا معاملہ بہت سنگین ہے ...

 ⛔ - زبان کا معاملہ بہت سنگین ہے ...


✍️ شيخ الاسلام امام شمس الدین ابن قيّم الجوزية - رحمه الله تعالى - فرماتے ہیں :


 ❐ ”ومن العجب أنّ الإنسان يهون عليه التحفظ والاحتراز من أكل الحرام والظلم والزنا والسرقة وشرب الخمر ومن النظر المحرّم وغير ذلك، ويصعب عليه التحفظ من حركة لسانه!


👈 "حیران کن امر یہ ہے کہ انسان کیلیے حرام خوری، ظلم، زنا، چوری، شراب نوشی اور بدنظری وغیرہ سے بچاؤ اور پرہیز نسبتاً آسان ہے۔ جبکہ زبان کی حرکت سے بچاؤ انتہائی مشکل ہے۔ 


 ❐ حتى ترى الرجلَ يشار إليه بالدين والزهد والعبادة،‏..، وهو يتكلّم بالكلمات من سخط الله، لا يُلقي لها بالًا، يزِلّ بالكلمة الواحدة منها أبعد مما بين المشرق والمغرب.


👈 یہاں تک کہ آپ دیکھیں گے کہ ایک شخص دینداری اور زہد و عبادت کے حوالے سے معروف ہوتا ہے، مگر وہ بغیر سوچے سمجھے ﷲ کی ناراضی پر مشتمل ایسے کلمات بول دیتا ہے، کہ ان میں سے ایک ایک کلمہ اسے مشرق سے مغرب تک پھسلا دیتا ہے۔


 ❐ وكم ترى من رجل متورعِّ عن الفواحش والظلم، ولسانه يفري في أعراض الأحياء والأموات، ولا يبالي ما يقول.“


👈 اور آپ کتنے ہی فواحش و ظلم کے قریب سے بھی نہ پھٹکنے والے پرہیز گاروں کو دیکھیں گے، جن کی زبانیں زندوں اور مردوں کی عزتوں پر دراز رہتی ہیں، انہیں اپنے بولنے کا کچھ پاس نہیں ہوتا۔"


📚 - |[ الداء والدواء : 366/1 ]|

www.hdkunzer.blogspot.com

جمعرات، 20 اگست، 2020

تعویذ لٹکانا کیسا ہے؟

 

اقوال ابن قیم رحمہ اللہ۔

 انسان کے لئے دو پردے ھیں-ایک اسکے اور اسکے رب کے درمیان ھے۔

اور دوسرا اسکے اور لوگوں کے درمیان ھے۔جس نے رب کے ساتھ

پردے کو چاک کیا تو اللہ تعالی اس پردے کو چاک کر دے گا۔جو

اسکے اور لوگوں کے درمیان ھے۔

بندے کا ایک رب ھےجس سے لا محالہ وہ ملاقات کرنے والا ھے

اور اسکا ایک گھر ھے جس میں عنقریب منتقل ہونے والا ھے۔

اگر ایساھےتو پھر اسے چاہیے کہ ملاقات سے پہلے اپنے رب کو

راضی کرلے اور جس گھر میں رہنا ھے اسکی تزئین و آرائش

کی فکر کرے۔

"وقت کا ضیاع موت سے شدید تر ھے۔وہ اس لئے کہ وقت کا

ضیاع بندے کو رب اور آخرت سے غافل کر دیتا ھے۔جبکہ موت

اسے دنیااور اس میں رھنے والوں سے دور کرتی ھے"

"اس شخص کو دانا اور بینا کیسے کہا جا سکتا ھے ۔جس نے

دنیا کی چند لزتوں کے لئے جنت کو فروحت کر دیا"۔

"بندوں سے ڈرنے والا ان سے دور بھاگتا ھے جبکہ رب سے ڈرنے

والا اسکا مزید قرب حاصل کرتا ھے"۔

"گناہ انسان کے لئے زحم کی مانند ھے ۔کبھی کبھی زحم جان

لیوا بھی بن جاتا ھے"۔

"اگر عمل کے بغیر علم کا حصول قابل نفع ھوتا تو اللہ تعالی

یہودیوں کے احبار کی مزمت نہ کرتا اور اگر اخلاص کے بغیر

عمل نافع ھوتاتو اللہ تعالی منافقین کی مزمت نہ کرتا"

بدھ، 19 اگست، 2020

خطبہ الجمعہ موضوع ( ماہ محرم میں مروجہ بدعات و رسومات}

 خطبہ الجمعہ        موضوع -----------------۔{        ماہ محرم میں مروجہ بدعات و رسومات}

ان الحمدللہ نحمدہ ونستعینہ ، ونستفرہ ، ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات أعمالنا ، من یھدہ اللہ فلا مضل لہ، ومن یضلل فلا ھادی لہ، وأشھد ان لا الہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ، وأشھد أن محمدا عبدہ ورسولہ

أما بعد: فان خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدی ھدی محمدﷺ وشر الامور محدثاتھا وکل بدعۃ ضلالہ وکل ضلالۃ فی النار۔    قال تعالی۔۔إِنَّ عِدَّةَ الشُّهورِ‌ عِندَ اللَّهِ اثنا عَشَرَ‌ شَهرً‌ا فى كِتـٰبِ اللَّهِ يَومَ خَلَقَ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَر‌ضَ مِنها أَر‌بَعَةٌ حُرُ‌مٌ ۚ ذ‌ٰلِكَ الدّينُ القَيِّمُ ۚ فَلا تَظلِموا فيهِنَّ أَنفُسَكُم

عاشوراءمحرم کے روزے کی فضیلت

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ان رسول اللہ ا قدم المدینة فوجد الیھود صیاما یوم عاشوراءفقال لھم رسول اللہ ا ما ھذا الیوم الذی تصومونہ؟ فقالوا ھذا یوم عظیم انجی اللہ فیہ موسی و قومہ و غرق فرعون و قومہ فصامہ موسی شکرا فنحن نصومہ فقال رسول اللہ ا فنحن احق و اولی بموسی منکم، فصامہ رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم وأمر بصیامہ۔

”نبی کریم ا مدینہ تشریف لائے تو یہود کو عاشورا ء ( دس محرم ) کا روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ آپ نے ان سے کہا :یہ کونسا دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو۔ انہوں نے کہا: یہ بڑا عظیم دن ہے۔ اللہ نے اس دن موسی ں اور ان کی قوم کو نجات دی۔ فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیاتو موسی ں نے شکرانے کے طورپر روزہ رکھا ۔ اس لےے ہم بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں ۔ تو نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہم تم سے زیادہ حق رکھتے ہیں اور موسی  عليه السلام کے زیادہ قریب ہیں۔ لہذا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور روزہ رکھنے کا حکم فرمایا“۔( صحیح مسلم – مسند احمد) بالخصوص یوم عاشوراءکی فضیلت بتلاتے ہوئے فرمایا : یکفر السنة الماضیة پچھلے ایک سال کے گناہوں کو مٹادیتاہے۔ ( صحیح مسلم)

لیکن بعد میں نبی کریم صلى الله عليه وسلم کوخبر ملی کہ یہود اب بھی اس دن کی تعظیم میں روزہ رکھتے ہیں تو نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : لئن بقیت الی قابل لأصومن التاسع ”اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو میں ضرور 9 تاریخ کاروزہ رکھوںگا“(صحیح مسلم 1134) لیکن آئندہ محرم سے پہلے ہی آپ صلى الله عليه وسلم اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔

حدیث لئن بقیت الی قابل کے راوی عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول مصنف عبد الرزاق اور بیہقی میں موجود ہے جس سے یہی مفہوم بنتا ہے کہ 9اور 10 محرم دونوں روزے رکھنے چاہئیں۔

(1)  10 محرم کا روزہ آپ صلى الله عليه وسلم  نے سیدنا موسی علیہ السلام کے نجات پانے کی خوشی میں رکھاتھا اور صحیح حدیث میں واضح طورپر اعلان کیا فنحن أحق و أولی بموسی منکم اور اس امر سے آپ کی دستبرداری مروی نہیںلہذا اس اعتبار سے10محرم کا روزہ بہر حال مسنون ہے۔

(2)  کسی دن کی تاریخی حیثیت کو بدلا نہیں جاسکتا بصورت دیگر اس کی مقررہ فضیلت و ثواب سے محروم ہونا لازم آتاہے ۔

قابل عمل صورت :

عاشوراءمحرم کے روزے سے فیضیاب ہونے والے کے ليے درج ذیل صورت قابل عمل ہے ۔ عاشوراء( دس محرم کے روزے سے پہلے 9 محرم کا روزہ ۔ یہ افضل صورت ہے یا 10 محرم کے ساتھ 11 محرم کا روزہ یا 9۔ 10 اور 11 محرم پے در پے تین روزے رکھ ليے جائیں۔

ماہ محرم میں مروجہ بدعات و رسومات

واقعہ کربلا نبی کریم ا کی وفات اور دین محمدی کی تکمیل کے تقریباً 50 سال بعد پیش آیا۔ یہ ایک تاریخی سانحہ ہے لیکن واقعہ شہادت حسین رضی اللہ عنہ کی وجہ سے شیطان کو بدعتوں اور ضلالتوں کے پھیلانے کا موقع مل گیا، چنانچہ کچھ لوگ ماہ محرم کا چاند نظر آتے ہی اور بالخصوص دس محرم میں نام نہاد محبت کی بنیاد پر سیاہ کپڑے زیب تن کرتے ہیں ۔ سیاہ جھنڈے بلند کرتے ہیں ۔نوحہ و ماتم کرتے ہیں ۔ تعزیے اور تابوت بناتے ہیں۔ منہ پیٹتے اور روتے چلاتے ہیں۔ بھوکے پیاسے رہتے ہیں۔ ننگے پاں پھرتے ہیں۔ گرمی ہو یا سردی، جوتا نہیں پہنتے۔ نوحہ اور مرثیے پڑھتے ہیں۔ عورتیں بدن سے زیورات اتاردیتی ہیں۔ ماتمی جلوس نکالے جاتے ہیں ۔ زنجیروں اور چھریوں سے خود کو زخمی کیا جاتاہے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور دیگر شہداءکی نیاز کا شربت بنایا جاتاہے۔ پانی کی سبیلیں لگائی جاتی ہیں۔ ( حالانکہ اس دن روزہ رکھنانبی کا مسنون اور افضل عمل ہے ) عاشوراءمحرم کے دوران شادی و خوشی کی تقاریب نہ کرنا( جبکہ شریعت محمدی میں اس کی کوئی ممانعت نہیں ورنہ باقی سارا سال بھی دیگر جید صحابہ کی شہادت کے سوگ مناتے گزرجائے گا)، شہادت کا سوگ ہر سال منانا، یہی نہیں بلکہ عظیم صحابہ و اسلاف کو گالیاں دینا، طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا اور دیگر مختلف قسم کی خود ساختہ خرافات ، ان صحابہ واسلاف کی طرف منسوب کرنا اور ان بے گناہ لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لینا جو دین اسلام کے اولین راوی ہیں، جن کے بغیر دین اسلام کا کوئی شعبہ مکمل نہیں ہوتا، جنہیں واقعات کربلاسے دور و نزدیک کا بھی کوئی تعلق نہیںتھا۔پھر واقعہ کربلا کی جو کتابیں پڑھی جاتیں ہیں ، وہ زیادہ تر اکاذیب و اباطیل کامجموعہ ہیں جن کا مقصد فتنہ و فساد کے نئے دروازے کھولنا اور امت میں پھوٹ ڈالناہے ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ تمام بدعات و خرافات ایک خاص مذہب کی ترویج و تبلیغ اور اس کو سہارا دینے کے لےے ایک سوچی سمجھی پلاننگ کا نتیجہ ہیں جن کی ادائیگی میں امن عامہ قائم نہیں رہ سکتا جیسا کہ سب جانتے ہیں ، اسلام امن و آشتی کا دین ہے ۔ دیکھا دیکھی، ہمارے اہل سنت بھائیوںنے بھی اس نسبت سے ایسے کام شروع کردےے جن کا شریعت اسلامیہ میں کوئی وجود نہیں ، جو سراسر بدعات و ضلالت پر مبنی امور ہیں، جن کی دین اسلام قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ یہ حضرات اپنے زعم میں اس مہینے کا احترام کرتے ہوئے اس کی تقدیس و احترام کو پامال کر دیتے ہیں اور ثواب حاصل کرنے کے بجائے گناہوں کا بوجھ اپنے اوپر مسلط کر لیتے ہیں اور گنہگار بن کر اللہ اور اس کے رسول ا کے نافرمانوں کی لسٹ میںاپنا نام درج کروالیتے ہیں ۔

ماہ محرم الحرام میں عام دستور و رواج کے مطابق شہادت حسین رضی اللہ عنہ اور واقعات کربلا کے حوالہ سے ، بازاروں دوکانوں ، ریڈیو، ٹی وی اور دیگر مجالس میں لوگوں کے سامنے مکذوبہ، موضوعہ اور ضعیف من گھڑت خود ساختہ داستانیں اور قصے بڑی رنگ آمیزی سے بیان کئے جاتے ہیں جس میں وہ خود بھی روتے ہیں اور سننے والوں کو بھی رلاتے ہیں۔سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ جو لوگ کربلا کا فسانہ اور شہید مظلوم کی خود ساختہ داستانیں اور ان پر پانی بند ہونے کے جھوٹے قصے لوگوںکو سنتے سناتے ہیں، وہی محرم کے مہینے شربت کے مٹکے اور قسم قسم کے گانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ شہادت تو ایک انمول اعزاز کو کہتے ہیں جس پر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ فائز ہوئے۔ شہید زندہ ہوتا ہے نہ کہ مردہ ۔

ہمارے بہت سے سنی بھائی ،بہن رافضی حضرات کی دیکھا دیکھی بھی اور کچھ ان کے وسیع پروپیگنڈے کے شکار ہوکر بھی درج ذیل بدعات کا ارتکاب کرتے ہیں ۔

1۔ مجالس شہادت:جن میں سنی عوام گریہ وزاری کا وہی منظر پیش کرتے ہیں جو مجالس روافض سے زیادہ مختلف نہیں ہوتا ۔

2۔ ویڈیو،ٹی وی اور دیگر مجالس میں سنے گئے نوحے اور مرثیے پڑھتے ہیں ۔

3۔ محرم کی دس تاریخ کو چولہے اوندھے کردےے جاتے ہیں ۔

4۔ نو بیاہی عورتیں یوم عاشوراءاپنے اپنے میکے میں گزارتی ہیں۔

5 ۔ زیورات کا پہننا شہادت حسینصکے غم میں ترک کردیتی ہیں ۔

اس کے علاوہ توہم پرست لوگوں نے اور بھی بہت سے باطل خیال قائم کر لےے ہیں ۔ مثلا مہینہ کے پہلے دس دنوں میں اگر کوئی اپنی بیوی سے ہم بستری کرے گا تو اولاد منحوس ہوگی یا ناقص العقل ہوگی ۔ شادی ہوتو مبارک نہ ہوگی ۔ کچھ اس قسم کا خیا ل عرب کے جاہل لوگوں کا تھا۔ ماہ شوال کو منحوس سمجھتے اور اس میں شادی نہیں کرتے تھے۔ نبی کریم ا نے ان کے اس خیال باطل کو توڑنے کے لےے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے شادی ماہ شوال میں کی اور رخصتی بھی اسی مہینے میں ہوئی ۔ اسلام میں اس قسم کی مشقتوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ دوسری طرف ایسے حضرات کو عاشوراءمحرم کے دوران شادیاں بھی کرنی چاہئیں اسلام میں کسی بھی شخص کی موت یا شہادت پر تین دن سے زیادہ کا سوگ نہیں ‘ما سوائے بیوہ عورتوں کے ‘ وہ اپنے خاوندوںکی اموات و شہادت پر چار ماہ دس دن سوگ کے لےے زیب  و زینت کو ترک کرتی ہیں لیکن اس سوگ کا ہر سال اعادہ نہیں کرتیں ۔

ماہ محرم کے حوالہ سے ایک اور کام جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ہے ، کجیاں ، ٹھوٹھیاں بھرناہے، معلوم نہیں اس چیز کا شہادت حسین صسے کیا تعلق و رشتہ ہے ۔ دس محرم کا سورج طلوع ہوتے ہی عورتیں اور مرد ان کجیوں میں لسی یا دودھ ڈالتے ہیں۔ ٹھوٹھیوں میں حلوہ یا کھیر بھرتے ہیں اور بچوں میں بانٹنا شروع کردیتے ہیں۔ کچھ حضرات مٹی کے کچے پیالے لے کر ان میں کھیر ڈال کر بانٹتے ہیں۔ کچھ حلیم کی دیگیں پکا کر تقسیم کرتے ہیں۔

ماہ محرم میں ایک اور خلاف شرع کام یہ کیا جاتا ہے کہ محرم کے آغاز سے ہی قبروں کی لیپا پوتی کا کام شروع ہوجاتا ہے۔ جوں جوں10 محرم قریب آتا جاتا ہے قبرستانوں میں رونق کے اندر اضافہ ہوجاتاہے۔ 10محرم کا سورج طلوع ہوتے ہی لوگ جوان بہو، بیٹیوں کو لے کر قبرستانوں کی جانب نکل پڑتے ہیں۔ پھولوں اور اگربتیوںکے سٹال لگائے جاتے ہیں۔ قبروں کی لیپا پوتی کی جاتی ہے۔ ان پر مرد و زن اکٹھے مٹی ڈالتے ہیں جس سے کئی ایک غیر شرعی قباحتیں لازم آتی ہیں مثلاً بے پردگی،محرم کے بغیر گھر سے نکلنا وغیرہ۔ پھر مٹی ڈالنے کے بعد قبر پر کھڑے ہوکر شیرینی تقسیم کی جاتی ہے۔ اور کہا جاتا ہے اگر کوئی مٹی ڈالنے کے بعد شیرینی تقسیم نہ کرے تو قبر والے پر بوجھ رہتاہے ۔

یہ سب من گھڑت اور بدعات و خرافات پر مبنی افعال ہیں ۔ قبروں کی زیارت کا حکم تو نبی صلى الله عليه وسلم نے اس ليے دیا ہے کہ اس سے آخرت کی یاد تازہ ہوتی رہے،اگر وہاںپر اس قدر پر رونق سما ںپیدا کیا جائے تو بلا شبہ یہ شرعی مقصد فوت ہوجاتاہے ۔اور شریعت اسلامیہ نے قبروں کی زیارت کے ليے کوئی خاص دن بھی مقرر نہیں کیا لہذا کسی خاص دن زیارت کو مقید کردینا بھی شریعت اسلامیہ کے منافی عمل ہے ۔ خستہ قبر کو درست تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لےے کوئی دن مقرر کرنا یا انہیں پختہ کرنے کی کسی صورت اجازت نہیں ۔ دنیا میں جنت البقیع بہترین قبرستان ہے ۔ دور نبوی ا یا دور صحابہ رضی اللہ عنہم میں کبھی وہاں دس محرم کو اس طرح میلہ نہیں لگایا گیا اور نہ مٹی اور پھول ڈالنے کا اہتمام کیا گیا۔

رسومات محرم پر سلف علمائے کرام کا تبصرہ :

1۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی  فرماتے ہیں :

” اے بنی آدم تم نے اسلام کو بدل ڈالنے والی بہت سی رسمیں اپنا رکھی ہیں مثلا تم دسویں محرم کو باطل قسم کے اجتماع کرتے ہو ۔ کئی لوگوں نے اس دن کو نوحہ و ماتم کا دن بنالیا ہے حالانکہ اللہ تعالی کی مشیت سے حادثے ہمیشہ رونما ہوتے ہی رہتے ہیں ۔ سیدنا حسین ص اس دن ( مظلوم شہید کے طورپر ) قتل کئے گئے تو وہ کونسا دن ہے جس میں کوئی نہ کوئی اللہ کا نیک بندہ فوت نہیں ہوا ( لیکن تعجب کی بات ہے کہ ) انہوں نے اس سانحہ شہادت مظلومانہ کو کھیل کود کی چیز بنالیا ۔ تم نے ماتم کو عید کے تہوار کی طرح بنالیا ۔ گویا اس دن زیادہ کھانا پینا فرض ہے اور نمازوں کا تمہیں کوئی خیال نہیں جو فرض عین ہے ۔ ان کو تم نے ضائع کردیا ۔ یہ لوگ انہیں من گھڑت کاموں میں مشغول رہتے ہیں ۔ نمازوں کی توفیق ان کو ملتی ہی نہیں“ ۔

( بحوالہ تفہیمات الالہیہ ۱تفہیم ۹۶ ۸۸۲ طبع حیدر آباد سندھ ۰۷۹۱ء)

2 ۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ ۴۵۳ھ کے واقعات میں ماتمی جلوسوں کے سلسلہ میں لکھتے ہیں:

”یہ ( ماتمی مجالس وغیرہ) کی رسمیں اسلام میں ان کی کوئی ضرورت نہیں واقع  اگریہ اچھی چیز ہوتی تو خیر القرون اور اس امت کے ابتدائی اور بہتر لوگ اس کو ضرور کرتے ۔ وہ اس کے سب سے زیادہ اہل تھے ۔ ( بات یہ ہے ) کہ اہل سنت ( سنت نبوی کی ) اقتداءکرتے ہیں ۔ اپنی طرف سے بدعتیں نہیں گھڑتے ۔ “( البدایہ والنہایہ ۱۱ ۱۷۲ )

شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ نے اپنی کتاب صراط مستقیم صفحہ ۹۵ پر تحریر فرمایا ہے:

”( فارسی عبارت کا خلاصہ یہ ہے ) پاک و ہند میں تعزیہ سازی کی جو بدعت رائج ہے یہ شرک تک پہنچادیتی ہے کیونکہ تعزیہ میں سیدنا حسین ص کی قبر کی شبیہ بنائی جاتی ہے اور پھر اس کو سجدہ کیا جاتا ہے اور وہ سب کچھ کیا جاتا ہے جو بت پرست اپنے بتوں کے ساتھ کرتے ہیں ۔ اور ان معانی میں یہ پورے طورپر بت پرستی ہے ۔ ( اعاذنا اللہ منہ ) “

3۔ احمد رضا خان صاحب بریلوی ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں ۔

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و خلفائے مرسلین مسئلہ ذیل کے بارے میں 1۔ بعض اہل سنت و جماعت عشرہ محرم میں نہ تو دن بھر روٹی پکاتے ہیں اور نہ جھاڑو دیتے ہیں اور کہتے ہیں بعد دفن تعزیہ روٹی پکائی جائے گی۔ 2۔ ان دس دنوں میں کپڑے نہیں بدلتے ۔ 3۔ ماہ محرم میں کوئی شادی بیاہ نہیں کرتے 4۔ ان ایام میں سوائے امام حسن ص اور امام حسین صکے کسی کی نیاز فاتحہ نہیں دلاتے ۔ یہ جائز ہے یا ناجائز۔ ( بینوو توجروا )

جواب : پہلی تینوں باتیں سوگ ہیں سوگ حرام ہے اور چوتھی بات جہالت ہے ۔ واللہ تعالی اعلم  ( حوالہ احکام شریعت مسئلہ نمبر150۔ محرم الحرام ( 1328ھ)

دعوت فکر

مکرم و محترم قارئین ! یہ قانون فطرت ہے کہ ہر ایک چیز کو فنا ہونا ہے اور ہر ایک متنفس کو موت کا منظر دیکھنا ہے، اس سے کسی کو انکار نہیں خواہ کوئی نبی ہو یا ولی ۔

لیکن بعض اموات ایسی ہولناک اور پریشان کن ہوتی ہیں کہ جن کے حزن و ملال کی داستان الفاظ سے نہیں بیان کی جاسکتی اور ایسے اندوہناک حادثات کے احساس و شعور کو تعبیر کرنے سے زبان و قلم عاجز ہوتے ہیں ۔ صرف ایک ہی حکم ہے جس سے ان احساسات کی تعبیر ممکن ہے اور وہ یہ کلمہ ہے جسے مسلمان اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں ایسے موقعوں پر بار بار دہراتے ہیں ۔ اور وہ یہ ہے انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ یعنی اس صدمہ کے احساسات کو تعبیر کرنے اور اس کے اثرات کو زائل کرنے کے لےاللہ جل شانہ نے ایک نسخہ کیمیا بتایا ہے جس میں انسانی زندگی کی حقیقت مضمر ہے کہ انسان کی آمد و رفت تمام کچھ اللہ ہی کے لےے ہے ۔ لیکن افسوس! بعض نفس پرست لوگوں نے اللہ کے اس بتائے ہوے نسخے کو چھوڑکر اپنے زخموں کی مرہم کرنے کے لےے نئے نئے طریقے ایجاد کرلےے ہیں ۔ ان متفرق طریقوں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ بعض لوگ محبت اور غلو عقیدت یا مکر و فریب اور دھوکہ دہی کی وجہ سے سینہ کوبی اور ماتم وغیرہ شروع کردیتے ہیں او راپنے جسم اور جسم کے بالو ں کو نوچنا اور اپنے گریبانوں کو چاک کرنا اپنا علاج سمجھتے ہیں اور بآواز بلند نوحہ کرنے اور آوازکسنے واویلا کرنے میں اپنی شفا تصور کرتے ہیں حالانکہ یہ تمام چیزیں اسلام میں ممنوع اور حرام ہیں لیکن اس کے باوجود بھی بعض لوگ انہی میں اپنی شفا سمجھتے ہیں ۔ اور اس کو اپنے ليے باعث افتخار اور خاص شعار سمجھتے ہیں ۔در حقیقت یہ سب کچھ اسلام سے دوری اور پہلوتہی کا نتیجہ ہے اور پھر اس انسان پر جس کی موت بھی شہادت کی موت ہو اور اس پر متزاد یہ کہ اس کو دنیا ہی میں جنت کی بشارت مل چکی ہو اور بشارت بھی اس درجہ کی کہ کسی اور کے نصیب بھی نہ ہو اور پھر اس انسان پر جس نے اپنی تمام زندگی خرافات کے قلع قمع کرنے میں گزاری ہو اور مرتے دم بھی زبان پر ان کے خلاف ہی الفاظ ہوں اس کی موت پر ایسا کرنا کسی منصف مزاج انسان کے نزدیک اس کے ساتھ محبت والفت کا طریقہ نہیں ہوسکتا بلکہ عدل و انصاف کے منافی اور اس پر زیادتی ہے ۔ جبکہ ان سے محبت کا تقاضا تو یہ ہے ہم وہ کام کریں جو وہ کرتے تھے ۔ بقول شاعر

لو کنت صادقا فی حبہ لاطعتہ  ان المحب لمن یحب مطیع

اگر تجھے اپنے محبوب سے سچی محبت ہوتی تو اس کی باتیں مانتا کیونکہ محبت کرنے والا اپنے محبوب کا اطاعت گزار ہوتاہے ۔

محترم قارئین ! اگر ہماری محبت واقعی سچی اور مبنی بر خلوص ہے تو چاہےے کہ ان کی باتیں مانی جائیں ۔ وہ کام کےے جائیں جو وہ پسند کرتے تھے۔ نماز سیدنا حسین ص کی محبوب ترین چیز تھی ۔ انہوںنے ساری زندگی باقاعدگی سے نماز ادا کی ۔ نماز ترک کرنا تو در کنار کبھی نماز کی ادائیگی میں ذرا سی سستی و کاہلی کا مظاہرہ بھی نہیں کیا نہ کسی سے دھوکہ کیا ،انہوں نے داڑھی بھی سنت کے مطابق رکھی ہوی تھی۔سیدنا حسین ص تقوی کے اعلی معیار پر فائز تھے ۔ خشیت الہی ان میں کوٹ کوٹ کر بھر ی ہوی تھی غرض یہ کہ انہوں نے زندگی بھر اللہ اور اس کے رسول ا کی اطاعت کی کبھی خلاف ورزی اور نافرمانی کا سوچا بھی نہیں لیکن ہم تمام کاموں سے عاری ہیں ہماری زندگیاں روز مرہ کے معمولات بالکل ان کی زندگی کے بر عکس ہیں اور یہاں ہم ایک دوسرے پر فتوے لگاتے ہیں اور ان کی محبت کے کھوکھلے دعوے کرتے ہیں ۔ ان کی محبت میں بڑے بڑے عظیم و بزرگ صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے سے باز نہیں آتے حالانکہ سیدنا حسینص نے بذات خود اپنی پوری زندگی صحابہ رضی اللہ عنہم تو درکنار ،کسی عام آدمی سے بھی ہتک آمیز سلوک نہیں کیا ۔ ایک طرف تو اتنے بڑے بڑے دعوے اور دوسری طرف زندگیوں میں اتنا تفاوت ‘یہ کہاں کا انصاف ہے ؟ ہم ہیں کہ اس قسم کی رسومات ، بدعات خرافات و اختراعات میں اپنا وقت مال اور وسائل برباد کر رہے ہیں جبکہ دین اسلام کے دشمن تو ہر وقت اسلام اور اس کے ماننے والوں کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کے لےے طرح طرح کی سازشوں میں مصروف ہیں ۔ ہوناتو یہ چاہےے کہ ہم سب اتحاد و یگانگت کی ایسی مثال پیش کریں کہ دشمن پر ہماری دھاگ بیٹھ جائے لیکن ہم میں ان جذبات کا تا حال فقدان ہے ۔

 

پیر، 13 جولائی، 2020

اسم کی قسمیں درس 4


---------------------------اسم کی قسمیں-------------------------
اسم کی کئی لحاظ سے مختلف قسمیں ہیں.
معنوں کے لحاظ سے اسم کی قسمیں.
معنوں کےلحاظ سےاسم کی دو قسمیں ہیں
(١). اسم معرفہ ( ٢ ). اسم نکرہ
(١) اسم معرفہ
اس اسم کو کہتے ہیں جو کسی خاص شخص، خاص جگہ یا خاص چیز وغیرہ کا نام ہو۔اسم معرفہ کو اسم خاص بھی کہا جاتا ہے۔
مثلا:- سید علی گیلانی، مولانا عمرفاروق، دہلی،آسٹریلیا،مسجدالحرام،راجستھان وغیرہ۔
(٢ ) اسم نکرہ
اس اسم کو کہتے ہیں جو کسی عام شخص، عام جگہ، عام چیز ،کے نام کو ظاہر کرے۔اسم نکرہ کو اسم عام بھی کہا جاتا ہے۔
مثلاً:- قلم، طالب علم ،ڈاکٹر، گائے، دریا، پہاڑ ،چاقو، گھڑی، مدرسہ، مسجد وغیرہ۔
جنس کے لحاظ سے اسم کی دو قسمیں ہیں
(١) مذکر (٢ ) مونث
(١) مذکر
مذکر وہ اسم ہے جو نر کے لیے بولا جائے۔ یعنی نر جنس والے اسم کو مزکر کہتے ہیں۔
مثلاً:- مرد، بادشاہ ،بیٹا ،نوکر ،ہاتھی، نانا، لوہار، اونٹ وغیرہ۔
(٢ )مونث
مونث وہ اسم ہے جو مادہ کے لئے بولا جائے۔یعنی مادہ جنس والے اسم کو مونث کہتے ہیں۔
مثلاً:- عورت، بہن، بیٹی، نوکرانی، نانی لوہارن، اونٹنی،وغیرہ
گنتی کے لحاظ سے اسم کی دو قسمیں ہیں
(١) واحد ( ٢) جمع
(١) واحد
معہد وہ اسم ہے جو کسی اسم کے صرف ایک عدد کو ظاہر کرے۔
مثلاً:- مکان ،طوطا، دوا، مدرسہ، مسجد ،وغیرہ
(٢) جمع
جمع وہ اسم ہے جو کسی اسم کے ایک سے زیادہ تعداد کو ظاہر کرے۔
مثلاً:- مکانات تخائف، ادویہ ، مدارس ،مساجد، وغیرہ
جمع الجمع
جمع الجمع اس اسم کو کہتے ہیں جو جمع کا جمع ہو۔
مثلاً:- ادویات، مکانات،صحابیات ،وغیرہ
اسم جمع:-اسم جمع وہ اسم ہے جو کسی گروہ یا مجموعہ کو ظاہر کرے۔اسم جمع واحد بولاجاتاھے جمع نہیں۔
مثلاً:- فوج، ریوڑ وغیرہ
بناوٹ کے لحاظ سے اسم کی تین قسمیں ہیں
(١اسم جامد (٢اسم مصدر (٣اسم مشتق
(١).-اسم جامد
اسم جامد وہ اسم ہے جو نہ کسی کام کا نام ہو، نہ خود کسی مصدر سے بنا ہو اور نہ ہی اس سے اور کلمے بن سکتے ہوں ۔
مثلا:- پتھر ،چونا ،میز، کتاب ،قلم وغیرہ۔
(٢ ).-اسم مصدر
اسم مصدر وہ اسم ہے جو کسی کام کے نام کو زمانہ کے تعلق کے بغیر ظاہر کرے. ایسے اسم خود کسی کلمے سے نہیں بنتے ہیں لیکن ان سے بہت سے کلمے بنتے ہیں۔ان اسموں کے آخر میں ‘نا’ ہوتا ہے.
مثلا:- لکھنا ،سمجھنا ،سکھانا ،تیرنا، اڑنا ،دھونا، کھانا، پینا وغیرہ
(٣).– اسم مشتق
اسم مشتق وہ اسم ہے جو کسی مصدر سے بنا ہو۔مثلا پکڑنا سے پکڑ، پکڑنے والا وغیرہ۔لکھنے سے لکھائی، لکھنے والا ،لکھا ہوا وغیرہ۔
آئیے مثالوں سے سمجھتے ہیں
(١ )حامد، دوات ،درخت ،میز
(٢) جانا، نکلنا، پڑھنا،کھانا ،بولنا
(٣) پڑھنے والا، کھانےوالا ،بولنے والا، پڑھائی، بول
نمبر ١ میں حامد، دوات، درخت، اور میز ایسے اسم ہیں جو نہ تو کسی اور کلمے سے بنے ہیں اور نہ ہی ان سے کوئی اور کلمۂ منفرد بن سکتا ہے ایسے اسم، اسم جامد کہلاتے ہیں
نمبر ٢ میں میں جانا، نکلنا، پڑھنا، اور بولنا ایسے اسم ہیں جو خود تو کسی لفظ سے نہیں بنے مگر ان سے اور کلمے بنائے جاتے ہیں ۔مثلا۔: جانا، سے جاتا ہے،جائے گا،جانوروں ایسے اسم ہیں جن سے اور کلمے بنائے جائیں۔ایسے اسم، اسم مصدر کہلاتے ہیں
نمبر ٣ میں پڑھنے والا ،کھانے والا ،اور بولنے والا، پڑھائی اور بول ایسے اسم ہیں جو پڑھنا ،کھانا اور بولنا مصدروں سے بنے ہیں۔ایسے اسم جو مصدر سے بنائے جائیں، اسم مشتق کہلاتے ہیں۔مصدر سے فعل بھی بنائے جاتے ہیں۔
بناوٹ کے لحاظ سے اسم کی کتنی قسمیں ہیں{ کسی  ایک کو   ٹک دے دو}
تین
دو
چا

Featured Post

آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت بتاۓ.... طالبہ طس بنت قیوم

 الحمد للہ. ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں : یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ...