اپنی زبان منتخب کریں

اتوار، 13 جولائی، 2025

رزق کے بارے میں اللہ کا قانون

نور التفسیر 
**آیت:**  
> **إِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا**  
(سورۃ بنی اسرائیل: 30)
### ترجمہ:
> **بے شک آپ کا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ بے شک وہ اپنے بندوں کو خوب جاننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔**

---

### سلفی منہج پر مبنی جامع تفسیر:

سلف صالحین (صحابہ، تابعین اور ائمہ سلف) کے منہج کے مطابق اس آیت کی تفسیر درج ذیل نکات پر مشتمل ہے:

1. **اللہ کی مطلق حاکمیت اور مشیت:**
    * رزق کی کشادگی اور تنگی کا اختیار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ یہ اس کی مطلق مشیت اور حکمت پر منحصر ہے۔
    * "جس کے لیے چاہتا ہے" (لِمَن يَشَاءُ) کا لفظ اس حقیقت کی واضح دلیل ہے کہ یہ فیصلہ محض اللہ کی مرضی اور اس کی ناقابلِ تغیر تقدیر پر ہے۔ کوئی دوسرا اس میں دخل انداز نہیں ہو سکتا۔
    * یہ عقیدہ توحید الربوبیت (اللہ کی ربوبیت کی یکتائی) کا اہم جزو ہے۔

2. **حکمتوں سے بھرا ہوا فیصلہ:**
    * رزق میں کمی یا زیادتی کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ کسی سے ناراض ہے یا کسی کو پسند کرتا ہے۔ یہ اس کی بے پناہ حکمتوں پر مبنی ہوتا ہے۔
    * کبھی رزق کی فراخی آزمائش بن جاتی ہے (تاکہ دیکھے کہ بندہ شکر کرتا ہے یا نافرمانی) اور کبھی تنگی آزمائش بن جاتی ہے (تاکہ دیکھے کہ بندہ صبر کرتا ہے یا ناشکری)۔
    * کبھی اللہ اپنے نیک بندے کو آزمائش کے لیے رزق میں تنگی میں ڈال دیتا ہے تاکہ اس کا درجہ بلند کرے اور گناہ معاف کرے۔ کبھی کسی فاسق کو رزق کی فراخی دے دیتا ہے تاکہ وہ مزید غرور میں پڑ جائے اور اس کی تباہی تیار ہو۔

3. **اللہ کا مکمل علم و بصیرت:**
    * آیت کے اختتام پر اللہ کی دو صفات بیان کی گئی ہیں: **خَبِيرًا** (خبر رکھنے والا، پوری طرح جاننے والا) اور **بَصِيرًا** (دیکھنے والا، باخبر)۔
    * یہ تاکید کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ہر بندے کی حقیقت، اس کی ضروریات، اس کے دل کے حالات، اس کی صلاحیتوں، اس کے اعمال کی نیتوں اور اس کی آزمائشوں کے تقاضوں کو پوری طرح جانتا اور دیکھتا ہے۔
    * وہی جانتا ہے کہ کس کے لیے رزق کی فراخی بہتر ہے اور کس کے لیے تنگی۔ اس کا علم کامل اور اس کا فیصلہ صائب ہے۔

4. **سلف صالحین کی تفاسیر سے اقتباس:**
    * **ابن کثیر رحمہ اللہ** اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:  
        > "یعنی اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ فرما دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے، اپنی حکمت اور مصلحت کے مطابق، نہ کسی کے ظلم یا ناانصافی کی وجہ سے... اور وہ اپنے بندوں کے حالات سے پوری طرح باخبر ہے، ان کے ظاہر و باطن کو جانتا ہے، وہی جانتا ہے کہ کون رزق کی کشادگی کا مستحق ہے اور کون تنگی کا۔" (تفسیر ابن کثیر)
    * **شیخ عبدالرحمن السعدی رحمہ اللہ** فرماتے ہیں:  
        > "اللہ تعالیٰ ہی رزق دینے والا، کشادہ کرنے والا اور تنگ کرنے والا ہے۔ یہ اس کی مشیت، حکمت اور عدل پر مبنی ہے... اور وہ اپنے بندوں کو خوب جاننے والا ہے، ان کے حالات، ان کی ضروریات، ان کی استعداد اور ان کی نیتوں کو جانتا ہے۔ وہ ان کے دلوں کو دیکھنے والا ہے۔" (تفسیر السعدی)

5. **عملی رہنمائی اور سبق:**
    * **توکل:** بندے کو چاہیے کہ وہ رزق کے معاملے میں پوری طرح اللہ پر بھروسہ رکھے۔ اسباب اختیار کرنے کے باوجود یہ یقین رکھے کہ نفع و نقصان، فراخی و تنگی صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
    * **شکر:** اگر اللہ نے رزق میں فراخی دی ہے تو اس کا شکر ادا کرے (زبان، دل اور عمل سے)۔ شکر کرنے سے رزق میں برکت ہوتی اور مزید بڑھتا ہے۔
    * **صبر:** اگر رزق میں تنگی ہو تو صبر کرے، ناشکری نہ کرے اور اللہ سے گناہوں کی معافی مانگے۔ صبر کرنے والوں کے لیے بہترین بدلہ ہے۔
    * **حرام سے بچنا:** یہ عقیدہ رکھے کہ حلال رزق میں تنگی بھی حرام رزق کی فراخی سے بہتر ہے۔ اللہ کی تقسیم پر راضی رہنا ایمان کی علامت ہے۔
    * **اسباب اختیار کرنا:** توکل کا مطلب اسباب کو ترک کرنا نہیں ہے۔ حلال ذرائع سے رزق کمانا اور جدوجہد کرنا سنت ہے، لیکن نتیجہ اللہ پر چھوڑ دینا ایمان ہے۔

### خلاصہ:
یہ آیت اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، اس کی مطلق مشیت، اس کی کامل حکمت اور اس کے وسیع علم و بصیرت کی گواہی دیتی ہے۔ یہ بندے کو اس بات کی تعلیم دیتی ہے کہ وہ رزق کے معاملے میں اللہ پر مکمل بھروسہ رکھے، اس کی تقسیم پر راضی رہے، فراخی پر شکر گزار رہے اور تنگی پر صبر کرے۔ یہ سب کچھ اس علم کامل کی بنیاد پر ہوتا ہے جو اللہ کو اپنے بندوں کے ظاہر و باطن کے بارے میں حاصل ہے۔ یہی سلف صالحین کا منہج اور عقیدہ ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس آیت کے مفہوم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے

جمعرات، 26 جون، 2025

درس نمبر: 8 سورت: التین

 

کتاب کا نام: نور القرآن – مختصر و جامع دروس از سلف صالحین (سورۃ الضحیٰ تا الناس)

منہج: اقوالِ صحابہ، تابعین، ائمہ اربعہ، ابن تیمیہ، ابن قیم رحمہم اللہ کے اقتباسات کے ساتھ

درس نمبر: 8

 سورت: التین

📌 آیات: 8

📍 نزول: مکی

🔎 مرکزی موضوع: انسانی عظمت، فطرت، انحطاط اور جزا

سورۃ التین – مکمل درس

آیت 1

وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ

لفظی ترجمہ:

وَ = قسم ہے

التِّينِ = انجیر کی

وَالزَّيْتُونِ = اور زیتون کی

سادہ ترجمہ:

قسم ہے انجیر اور زیتون کی۔

تفسیر:

انجیر اور زیتون دو معروف پھل ہیں۔ بعض مفسرین کے نزدیک یہ دو علاقے شام و فلسطین کی علامت ہیں جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہور ہوا۔

اقوالِ سلف:

🔹 قتادہ رحمہ اللہ:

«التين والزيتون هما الشجرتان المعروفتان، فيهما منافع عظيمة.»

"انجیر اور زیتون دو معروف درخت ہیں، جن میں عظیم فائدے ہیں۔"

🔹 ابن عباس رضی اللہ عنہ:

«التين: مسجد دمشق، والزيتون: مسجد بيت المقدس.»

"انجیر سے مراد دمشق کی مسجد، اور زیتون سے مراد بیت المقدس کی مسجد ہے۔"

نکات:

1. قرآن مجید میں قسم سے بات کی اہمیت اجاگر کی جاتی ہے۔

2. اللہ کی تخلیق میں حکمت اور نشانیاں ہیں۔

3. انبیاء کرام سے نسبت رکھنے والے علاقے محترم ہیں۔

آیت 2

وَطُورِ سِينِينَ

لفظی ترجمہ:

وَ = اور

طُورِ = پہاڑ

سِينِينَ = سینا (مقدس مقام)

سادہ ترجمہ:

اور طورِ سینا کی قسم۔

تفسیر:

یہ وہ پہاڑ ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے براہ راست کلام سے نوازا۔

اقوالِ سلف:

🔹 مجاہد رحمہ اللہ:

«هو الجبل الذي كلم الله عليه موسى عليه السلام.»

"یہ وہ پہاڑ ہے جس پر اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بات کی۔"

🔹 عکرمه رحمہ اللہ:

«سِينِينَ: معناه المبارك.»

"سینین کا مطلب ہے: بابرکت۔"

نکات:

1. اللہ کی تجلی کے مقام کی قسم بھی ذکر ہے۔

2. وحی کے عظیم لمحات کی یاد دہانی۔

3. نبوت کے مراکز اہمیت کے حامل ہیں۔

آیت 3

وَهَٰذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ

لفظی ترجمہ:

وَ = اور

هَٰذَا = یہ

الْبَلَدِ = شہر

الْأَمِينِ = امن والا

سادہ ترجمہ:

اور اس امن والے شہر (مکہ) کی قسم۔

تفسیر:

یہ مکہ مکرمہ کی طرف اشارہ ہے، جو اللہ کے حضور امن والا اور نبی اکرم ﷺ کا مولد ہے۔

اقوالِ سلف:

🔹 ابن عباس رضی اللہ عنہ:

«البلد الأمين: مكة.»

"البلد الأمین سے مراد مکہ ہے۔"

🔹 ابن کثیر رحمہ اللہ:

«لشرفه وحرمة من دخله.»

"اس کے شرف اور اس میں داخل ہونے والوں کے امن کی بنا پر قسم کھائی گئی۔"

نکات:

1. مکہ کی حرمت اللہ تعالیٰ کے نزدیک عظیم ہے۔

2. شہرِ مکہ نبی ﷺ کی بعثت کی جگہ ہے۔

3. مکہ اہلِ ایمان کے لیے امن و سلامتی کا مرکز ہے۔

آیت 4

لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ

لفظی ترجمہ:

لَقَدْ = یقیناً

خَلَقْنَا = ہم نے پیدا کیا

الْإِنسَانَ = انسان کو

فِي = میں

أَحْسَنِ = بہترین

تَقْوِيمٍ = ساخت

سادہ ترجمہ:

یقیناً ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا کیا۔

اقوالِ سلف:

🔹 ابن عباس رضی اللہ عنہ:

«سويًّا، معتدلًا، حسن الصورة.»

"یعنی متوازن، خوبصورت اور متقیم قامت والا۔"

🔹 ابن قیم رحمہ اللہ:

«جسمه وخلقه وروحه في أحسن تقويم.»

"اس کا جسم، ساخت اور روح بہترین انداز پر ہے۔"

نکات:

1. انسان اللہ کی بہترین تخلیق ہے۔

2. انسان کی ساخت جسمانی و روحانی دونوں لحاظ سے عظیم ہے۔

3. اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا۔

آیت 5

ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ

لفظی ترجمہ:

ثُمَّ = پھر

رَدَدْنَاهُ = ہم نے اسے لوٹا دیا

أَسْفَلَ = سب سے نیچے

سَافِلِينَ = نیچوں میں

سادہ ترجمہ:

پھر ہم نے اسے سب سے نیچے درجے میں لوٹا دیا۔

اقوالِ سلف:

🔹 مجاہد رحمہ اللہ:

«في النار بعد الكِبَر والعجز عن الطاعة.»

"بڑھاپے اور عبادت سے عاجز ہونے کے بعد وہ آگ میں لوٹا دیا گیا۔"

🔹 حسن بصری رحمہ اللہ:

«ردّ إلى الجهل بعد العلم، وإلى العجز بعد القوة.»

"علم کے بعد جہالت، اور طاقت کے بعد کمزوری کی طرف لوٹا دیا گیا۔"

 

نکات:

1. انسان اگر گمراہی میں جائے تو پستی میں جا گرتا ہے۔

2. اصل شرف ایمان اور عمل میں ہے، نہ کہ صرف تخلیق میں۔

3. دینی انحراف تباہی کا سبب ہے۔

آیت 6

إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ

لفظی ترجمہ:

إِلَّا = سوائے

الَّذِينَ = ان لوگوں کے

آمَنُوا = ایمان لائے

وَعَمِلُوا = اور عمل کیے

الصَّالِحَاتِ = نیک اعمال

فَلَهُمْ = تو ان کے لیے

أَجْرٌ = اجر ہے

غَيْرُ = نہیں

مَمْنُونٍ = منقطع/ختم ہونے والا

سادہ ترجمہ:

سوائے ان کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے، ان کے لیے ختم نہ ہونے والا اجر ہے۔

اقوالِ سلف:

🔹 ابن عباس رضی اللہ عنہ:

«غير ممنون: غير منقوص ولا منقطع.»

"یعنی نہ گھٹنے والا اور نہ ختم ہونے والا۔"

🔹 سعید بن جبیر رحمہ اللہ:

«الأجر المتواصل في الجنة.»

"یعنی جنت میں جاری و ساری اجر۔"

نکات:

1. ایمان اور عمل صالح انسان کو عروج بخشتے ہیں۔

2. دنیا و آخرت کی کامیابی کا راز ان دو چیزوں میں ہے۔

3. اللہ کا اجر دائمی اور ناقابلِ فنا ہے۔

آیت 7

فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّينِ

لفظی ترجمہ:

فَمَا = پھر کیا

يُكَذِّبُكَ = تجھے جھٹلاتا ہے

بَعْدُ = اس کے بعد

بِالدِّينِ = دین (یعنی جزا و سزا)

سادہ ترجمہ:

پھر تجھے دین (یعنی قیامت) کے بارے میں کون جھٹلا سکتا ہے؟

 

اقوالِ سلف:

🔹 ابن کثیر رحمہ اللہ:

«أي بعد هذا البيان والوضوح، من يجرؤ على التكذيب؟»

"یعنی اتنے واضح بیان کے بعد کون جرات کرے گا جھٹلانے کی؟"

نکات:

1. قیامت کا انکار عقل اور وحی دونوں کے خلاف ہے۔

2. ایمان کے لیے دلائل روشن ہیں۔

3. انکارِ دین ہٹ دھرمی کا نتیجہ ہے۔

آیت 8

أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ

لفظی ترجمہ:

أَلَيْسَ = کیا نہیں ہے

اللَّهُ = اللہ

بِأَحْكَمِ = سب سے بڑا حاکم

الْحَاكِمِينَ = فیصلہ کرنے والوں میں

سادہ ترجمہ:

کیا اللہ سب سے بڑا فیصلہ کرنے والا نہیں ہے؟

اقوالِ سلف:

🔹 شریح القاضی رحمہ اللہ:

«إن الله لا يظلم أحداً، ولا يبطل عمل عامل.»

"بیشک اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا، نہ کسی کے عمل کو ضائع کرتا ہے۔"

🔹 ابن قیم رحمہ اللہ:

«هو الذي يحكم بالعدل المطلق، لا يظلم مثقال ذرة.»

"وہی ہے جو مکمل عدل سے فیصلہ کرتا ہے، ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔"

نکات:

1. اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ عدل پر مبنی ہے۔

2. انسان کو یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ عادل ترین ہے۔

3. قیامت میں عدلِ کامل ہوگا۔