**آیت:**
> **إِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا**
(سورۃ بنی اسرائیل: 30)
### ترجمہ:
> **بے شک آپ کا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ بے شک وہ اپنے بندوں کو خوب جاننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔**
---
### سلفی منہج پر مبنی جامع تفسیر:
سلف صالحین (صحابہ، تابعین اور ائمہ سلف) کے منہج کے مطابق اس آیت کی تفسیر درج ذیل نکات پر مشتمل ہے:
1. **اللہ کی مطلق حاکمیت اور مشیت:**
* رزق کی کشادگی اور تنگی کا اختیار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ یہ اس کی مطلق مشیت اور حکمت پر منحصر ہے۔
* "جس کے لیے چاہتا ہے" (لِمَن يَشَاءُ) کا لفظ اس حقیقت کی واضح دلیل ہے کہ یہ فیصلہ محض اللہ کی مرضی اور اس کی ناقابلِ تغیر تقدیر پر ہے۔ کوئی دوسرا اس میں دخل انداز نہیں ہو سکتا۔
* یہ عقیدہ توحید الربوبیت (اللہ کی ربوبیت کی یکتائی) کا اہم جزو ہے۔
2. **حکمتوں سے بھرا ہوا فیصلہ:**
* رزق میں کمی یا زیادتی کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ کسی سے ناراض ہے یا کسی کو پسند کرتا ہے۔ یہ اس کی بے پناہ حکمتوں پر مبنی ہوتا ہے۔
* کبھی رزق کی فراخی آزمائش بن جاتی ہے (تاکہ دیکھے کہ بندہ شکر کرتا ہے یا نافرمانی) اور کبھی تنگی آزمائش بن جاتی ہے (تاکہ دیکھے کہ بندہ صبر کرتا ہے یا ناشکری)۔
* کبھی اللہ اپنے نیک بندے کو آزمائش کے لیے رزق میں تنگی میں ڈال دیتا ہے تاکہ اس کا درجہ بلند کرے اور گناہ معاف کرے۔ کبھی کسی فاسق کو رزق کی فراخی دے دیتا ہے تاکہ وہ مزید غرور میں پڑ جائے اور اس کی تباہی تیار ہو۔
3. **اللہ کا مکمل علم و بصیرت:**
* آیت کے اختتام پر اللہ کی دو صفات بیان کی گئی ہیں: **خَبِيرًا** (خبر رکھنے والا، پوری طرح جاننے والا) اور **بَصِيرًا** (دیکھنے والا، باخبر)۔
* یہ تاکید کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ہر بندے کی حقیقت، اس کی ضروریات، اس کے دل کے حالات، اس کی صلاحیتوں، اس کے اعمال کی نیتوں اور اس کی آزمائشوں کے تقاضوں کو پوری طرح جانتا اور دیکھتا ہے۔
* وہی جانتا ہے کہ کس کے لیے رزق کی فراخی بہتر ہے اور کس کے لیے تنگی۔ اس کا علم کامل اور اس کا فیصلہ صائب ہے۔
4. **سلف صالحین کی تفاسیر سے اقتباس:**
* **ابن کثیر رحمہ اللہ** اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:
> "یعنی اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ فرما دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے، اپنی حکمت اور مصلحت کے مطابق، نہ کسی کے ظلم یا ناانصافی کی وجہ سے... اور وہ اپنے بندوں کے حالات سے پوری طرح باخبر ہے، ان کے ظاہر و باطن کو جانتا ہے، وہی جانتا ہے کہ کون رزق کی کشادگی کا مستحق ہے اور کون تنگی کا۔" (تفسیر ابن کثیر)
* **شیخ عبدالرحمن السعدی رحمہ اللہ** فرماتے ہیں:
> "اللہ تعالیٰ ہی رزق دینے والا، کشادہ کرنے والا اور تنگ کرنے والا ہے۔ یہ اس کی مشیت، حکمت اور عدل پر مبنی ہے... اور وہ اپنے بندوں کو خوب جاننے والا ہے، ان کے حالات، ان کی ضروریات، ان کی استعداد اور ان کی نیتوں کو جانتا ہے۔ وہ ان کے دلوں کو دیکھنے والا ہے۔" (تفسیر السعدی)
5. **عملی رہنمائی اور سبق:**
* **توکل:** بندے کو چاہیے کہ وہ رزق کے معاملے میں پوری طرح اللہ پر بھروسہ رکھے۔ اسباب اختیار کرنے کے باوجود یہ یقین رکھے کہ نفع و نقصان، فراخی و تنگی صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
* **شکر:** اگر اللہ نے رزق میں فراخی دی ہے تو اس کا شکر ادا کرے (زبان، دل اور عمل سے)۔ شکر کرنے سے رزق میں برکت ہوتی اور مزید بڑھتا ہے۔
* **صبر:** اگر رزق میں تنگی ہو تو صبر کرے، ناشکری نہ کرے اور اللہ سے گناہوں کی معافی مانگے۔ صبر کرنے والوں کے لیے بہترین بدلہ ہے۔
* **حرام سے بچنا:** یہ عقیدہ رکھے کہ حلال رزق میں تنگی بھی حرام رزق کی فراخی سے بہتر ہے۔ اللہ کی تقسیم پر راضی رہنا ایمان کی علامت ہے۔
* **اسباب اختیار کرنا:** توکل کا مطلب اسباب کو ترک کرنا نہیں ہے۔ حلال ذرائع سے رزق کمانا اور جدوجہد کرنا سنت ہے، لیکن نتیجہ اللہ پر چھوڑ دینا ایمان ہے۔
### خلاصہ:
یہ آیت اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، اس کی مطلق مشیت، اس کی کامل حکمت اور اس کے وسیع علم و بصیرت کی گواہی دیتی ہے۔ یہ بندے کو اس بات کی تعلیم دیتی ہے کہ وہ رزق کے معاملے میں اللہ پر مکمل بھروسہ رکھے، اس کی تقسیم پر راضی رہے، فراخی پر شکر گزار رہے اور تنگی پر صبر کرے۔ یہ سب کچھ اس علم کامل کی بنیاد پر ہوتا ہے جو اللہ کو اپنے بندوں کے ظاہر و باطن کے بارے میں حاصل ہے۔ یہی سلف صالحین کا منہج اور عقیدہ ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس آیت کے مفہوم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے