بسم اللہ الرحمن الرحیمالحمد للہپہلی قسم : ایک قسم تووہ ہے کہ جس کے پاس اللہ تعالی کی نازل کردہ کتاب ہے جیساکہ یہودی اورعیسائی اورمسلمان ہیں ۔یہودی اورعیسایوں کی کتاب میں جو کچھ نازل کیاگیااس پران کےعمل نہ کرنے اوراللہ تعالی کے علاوہ ان کاانسان کورب بنالینے اوران کےعہدکے لمباہونے کی بناپران کی وہ کتا بیں جوکہ اللہ تعالی نے ان کے انبیا ء پرناز ل فر ما ئیں تھیں گم ہو گئیں تو ا ن کے پادریوں اور درویشوں نے ان کے لۓ اپنی طرف سے کتابیں لکھیں جن کے متعلق ان کاگما ن ہے کہ یہ اللہ تعا لی کی طر ف سے ناز ل کر د ہ ہیں ۔حا لا نکہ یہ کتا بیں جوکہ انہوں نے خود لکھیں ہیں اللہ تعا لی کی طر ف سے نہیں بلکہ یہ باطل لوگوں کی طر ف سےمنسو ب کی گئیں اور غا لی قسم کے لوگوں کی تحر یف ہے ۔اور مسلمانوں کی کتاب قرآن کریم ہے جوکہ کتب الہیہ میں عہدکے لحاظ سے آخری اور ان میں سب سےزیادہ موثوق کتاب ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نےخود لے رکھی ہے اورکسی انسان کےذمہ نہیں لگائی ۔اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشادہے :{ بیشک ہم نےہی اس ذکر کونازل کیاہے اورہم ہی اس کی حفاظت بھی کرنے والےہیں } الحجر ( 9 )لھذا یہ کتاب سینوں اورسطروں میں محفوظ ہے اس لیےکہ یہ آخری کتاب ہے اللہ تعالی نے جس کے ضمن میں ساری بشریت اورانسانیت کی ھدایت رکھی ہے ،اورقیامت تک کے لۓ اسے لوگوں پرحجت بنایا ہے اور اس کا باقی رہنالکھ دیا ہے اور ہرزمانے میں اس کےلۓ ایسےلوگ پیدافرمائے جوکہ اس کے حروف اورحدودکی حفاظت کرتے ہیں اور اس کی شریعت پرعمل پیرا ہونے کے ساتھ اس پر ایمان بھی رکھتے ہیں ۔اس کتاب عظیم قرآن مجیدکے متعلق مزید تفصیل آ گے چندسطور کے بعدآ رہی ہے -اسی کتاب کاصفحہ ( 113 - 119 - 143 - 137 - ) بھی دیکھیں ۔اور دوسری قسم : یہ وہ قسم ہے جن کے پاس کوئی ایسی کتاب نہیں جو کہ اللہ تعالی کی طر ف سے ناز ل کی گئی ہواگر چہ ان کے پاس ایسی کتاب پائی جاتی ہے جوکہ نسل در نسل ان کے پاس آرہی ہے اور یہ کتاب ان کے دین کے دعوے داروں کی طرف منسوب کی جاتی ہے مثلام ہندو اور مجوسی اور بوذی اور کنفو شیسیین اور اسی طرح محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سےقبل عرب بھی ۔اور ہرایک قوم اور امت کے لۓ اس کی دنیا وی مصلحتوں کے حساب سےعلم وعمل ہو تاہے اور یہی وہ ھدایت عامہ ہے جسے اللہ تعالی نے ہرانسان کے لۓ بنایا ہے بلکہ اس میں انسان کے علاوہ حیوان بھی شامل ہیں جس طرح کہ حیوان اور جانورکو جواس کے نفع مندہواس کی راہ دکھائی ہے مثلا کھانا پینا اورجواس کے لۓ نقصان دہ ہے اس کا بھی اسے بتایاگیاہےاوراللہ تعالی نےاس کےاندرنفع مندکی محبت اورنقصان دہ کا بغض پیدا کردیاہے۔اللہ سبحانہ وتعالی کاارشادہے ۔{ اپنے بہت ہی بلند وبالا رب کی پا کیزگی بیان کر، جس نے پیدکیااورصحیح سالم بنایا } الا علی / ( 1 - 3)اور موسی علیہ السلام نے فرعون کوکہاتھا:{ ہمارارب وہ ہے جس نے ہرایک کو اس کی خاص صورت عنایت فرمائی اورپھراس کوھدایت سےنوازا } / طہ / ( 50 )اور ابراہیم خلیل علیہ السلام نے فرمایاتھا :{ جس نے مجھے پیدافر مایا وہی مجھے ھدایت دیتاہے } /الشعراء/ (87 )دیکھیں کتاب : الدین الصحیح فیمن بدل دین المسیح جلد نمر (4) صفحہ نمبر(97)اور ہراس عقل وا لے کوجس میں تھوڑا سابھی غورفکرکر نے کاما دہ پایا جاتا یہ معلوم ہے کہ اہل ملل کے نفع مند علوم مکمل پائے جاتے ہیں اوراعمال صالحہ کے لحاظ سے وہ کامل ہیں جوکہ اہل ملل نہیں تو جتنے بھی اہل ملل میں سے غیرمسلموں کے پاس بھلائی کے کام ہیں مسلمانوں کے پاس وہ اعمال اس سے بہتراوراچھے اندازمیں موجود ہیں اورمسلمانوں کے پاس اہل ادیان میں سے سب سے اچھے اوربھلائی کےکام مکمل اور اکمل پائے جاتے ہیں جو کہ کسی اور کے پاس اوراہل ادیان میں سے بھی کسی کے ہاں نہیں ہیں ۔اوراس لۓ کہ علوم اور اعمال کی دوقسمیں ہیں :پہلی قسم : جوکہ عقل سے حاصلی ہوتے ہیں ۔مثلا : علم طب ، اور علم حساب اور صنعت وحرفت ، تواہل ملل کے ہاں یہ اموراسی طرح ہیں جس طرح کہ دو سروں کے پاس ہیں بلکہ وہ ان علوم میں کامل ہیں ۔لیکن وہ جوکہ صرف عقل سے ہی نہیں حاصلی ہوتے مثلاعلوم الہیہ اور علوم دیانات تواہل ادیان کے ساتھ خاص ہیں اوراس امور میں سے ہیں جن پرعقلی دلائل قائم کرنے ممکن نہیں ، اور رسولوں نے مخلوق کوراہ دکھایااورانہیں اس پرعقل کی دلالت کی راہنمائی فرمائی جو عقلی شرعی دلائل ہیں ۔دوسری قسم : وہ علوم جن کا علم صرف اور صرف رسولوں کے بتانے سے ہو -تویہ ایسے علوم ہیں جو کہ عقل سے حاصل نہیں ہو سکتے مثلا اللہ تعالی کے متعلق اور اس کے اسما ء وصفات اورآخرت میں اس کے لۓ نعمتیں جواطاعت اور فرمانبرداری کر ے اور اس کے لۓ عذاب جوکہ نافرمانی اور گناہ کرتاہے اس کے متعلق خبریں بتانا اور شرع کا بیان کرنا ۔اوراسی طرح سابقہ انبیاء کی ان کے امت کے ساتھ واقعات کی خبریں وغیرہ بتانا ۔دیکھیں مجوع فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ ۔جلدنمبر۔(4) صفحہ نمبر (210)۔(211)یہ مضمون کتاب : محمدبن عبداللہ بن صالح السحیم کی کتاب : اسلامی اصول اور اس کی مبادیات سےلیاگیاہے ۔واللہ اعلم .تحریرشیخ محمد صالح المنجدنشر و ااشاعت ۔ عبدالمومن سلفی
اپنی زبان منتخب کریں
جمعرات، 4 فروری، 2016
۔دنیامیں موجود ادیان کی کتنی قسمیں ہیں
سورة الكهف كا مكامل ترجمه ، خادم عبدالمومن سلفي
سورة الکهف
شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
سب تعریف الله کے لیے جس نے اپنے بندہ پر کتاب اتاری اور اس میں ذرا بھی کجی نہیں رکھی (۱) ٹھیک اتاری تاکہ اس سخت عذاب سے ڈراوے جو اس کے ہاں ہے اورایمان داروں کو خوشخبری دے جو اچھے کام کرتے ہیں کہ ان کے لیے اچھا بدلہ ہے (۲) جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے (۳) اور انہیں بھی ڈرائے جو کہتے ہیں کہ الله اولاد رکھتا ہے (۴) ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ ان کے باپ دادا کے پاس تھی کیسی سخت بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے وہ لوگ بالکل جھوٹ کہتے ہیں (۵) پھر شایدتو ان کے پیچھے افسوس سے اپنی جان ہلاک کر دے گا اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائے (۶) جو کچھ زمین پر ہے بے شک ہم نے اسے زمین کی زینت بنا دیا ہے تاکہ ہم انہیں آزمائیں کہ ان میں کون اچھے کام کرتا ہے (۷) اورجو کچھ اس پر ہے بے شک ہم سب کو چٹیل میدان کر دیں گے (۸) کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور کتبہ والے ہماری نشانیوں والے عجیب چیز تھے (۹) جب کہ چند جوان اس غار میں آ بیٹھے پھر کہا اے ہمارے رب ہم پر اپنی طرف سے رحمت نازل فرما اور ہمارے اس کام کے لیے کامیابی کا سامان کر دے (۱۰) پھر ہم نے کئی سال تک غار میں ان کے کان بند کر دیے (۱۱) پھر ہم نے انہیں اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ دونوں جماعتوں میں سے کس نے یاد رکھی ہے جتنی مدت وہ رہے (۱۲) ہم تمہیں ان کا صحیح حال سناتے ہیں بے شک وہ کئی جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے انہیں اور زيادہ ہدایت دی (۱۳) اورہم نے ان کے دل مضبوط کر دیے جب وہ یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے کہ ہمارا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے ہم اس کے سوا کسی معبود کو ہرگز نہ پکاریں گے ورنہ ہم نے بڑی ہی بیجا بات کہی (۱۴) یہ ہماری قوم ہے انہوں نے الله کے سوا اورمعبود بنا لیے ہیں ان پر کوئی کھلی دلیل کیوں نہیں لاتے پھر اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جس نے الله پر جھوٹ باندھا (۱۵) اور جب تم ان سے الگ ہو گئے ہواور الله کے سوا جنہیں وہ معبود بناتے ہیں تب غار میں چل کر پناہ لو تم پر تمہارا رب اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارے لیے تمہارےاس کام میں آرام کا سامان کر دے گا (۱۶) اور تو سورج کو دیکھے گا جب وہ نکلتا ہے تو ان کے غار کے دائیں طرف سے ہٹا ہوا رہتا ہے اور جب ڈوبتا ہے تو ان کی بائیں طرف سے کتراتا ہو گزر جاتا ہے وہ اس کے میدان میں ہیں یہ الله کی نشانیوں میں سے ہے جسے الله ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے وہ گمراہ کر دے پھر اس کے لیے تمہیں کوئی بھی کارساز پر لانے والا نہیں ملے گا (۱۷) اور تو انہیں جاگتا ہوا خیال کرے گا حالانکہ وہ سو رہے ہیں اورہم انہیں دائیں بائیں پلٹتے رہتے ہیں اور ان کا کتا چوکھٹ کی جگہ اپنے دونوں بازو پھیلائے بیٹھا ہے اگر تم انہیں جھانک کر دیکھو تو الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہو اورالبتہ تم پر ان کی دہشت چھا جائے (۱۸) اوراسی طرح ہم نے انہیں جگا دیا تاکہ ایک دوسرے سے پوچھیں ان میں سے ایک نے کہا تم کتنی دیر ٹہرے ہو انہوں نے کہا ہم ایک دن یا دن سے کم ٹھیرے ہیں کہا تمہارا رب خوب جانتا ہے جتنی دیر تم ٹھہرے ہو اب اپنے میں سے ایک کو یہ اپنا روپیہ دے کر اس شہر میں بھیجو پھر دیکھے کون سا کھانا ستھرا ہے پھر تمہارے پاس اس میں سے کھانا لائے اور نرمی سے جائے اور تمہارے متعلق کسی کو نہ بتائے (۱۹) بے شک وہ لوگ اگر تمہاری اطلاع پائیں گے تو تمہیں سنگسار کر دیں گےیا اپنے دین میں لوٹا لیں گے پھر تم کبھی فلاح نہیں پا سکو گے (۲۰) اور اسی طرح ہم نے ان کی خبر ظاہر کر دی تاکہ لوگ سمجھ لیں کہ الله کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میں کوئی شک نہیں جبکہ لوگ ان کے معاملہ میں جھگڑ رہے تھے پھر کہا ان پر ایک عمارت بنا دو انکا رب ان کا حال خوب جانتا ہے ان لوگوں نے کہا جو اپنے معاملے میں غالب آ گئے تھے کہ ہم ان پر ضرور ایک مسجد بنائیں گے (۲۱) بعض کہیں گے تین ہیں چوتھا ان کا کتا ہے اور بعض اٹکل پچو سے کہیں گے پانچ ہیں چھٹا ان کا کتا ہے اور بعض کہیں گے سات ہیں آٹھواں ان کا کتا ہے کہہ دو ان کی گنتی میرا رب ہی خوب جانتا ہے ان کا اصلی حال تو بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں سو تو ان کے بارے میں سرسری گفتگو کے سوا جھگڑا نہ کرو ان میں سے کسی سےبھی انکا حال دریافت نہ کر (۲۲) اورکسی چیز کے متعلق یہ ہر گز نہ کہو کہ میں کل اسے کر ہی دوں گا (۲۳) مگر یہ کہ الله چاہے اور اپنے رب کو یاد کر لے جب بھول جائے اور کہہ دو امید ہے کہ میرا رب مجھے اس سے بھی بہتر راستہ دکھائے (۲۴) اور وہ اپنے غار میں تین سو سے زائد نو برس رہے ہیں (۲۵) کہہ دو الله بہتر جانتا ہے کہ کتنی مدت رہے تمام آسمانوں اور زمین کا علم غیب اسی کو ہے کیا عجیب دیکھتا اور سنتا ہے ان کا الله کے سوا کوئی بھی مددگار نہیں اور نہ ہی وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک کرتا ہے (۲۶) اور اپنے رب کی کتاب سے جو تیری طرف وحی کی گئی ہے پڑھا کرو اس کی باتوں کوکوئی بدلنے والا نہیں ہے اور تو اس کے سوا کوئی پناہ کی جگہ نہیں پائے گا (۲۷) تو ان لوگو ں کی صحبت میں رہ جو صبح اور شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اسی کی رضا مندی چاہتے ہیں اور تو اپنی آنکھوں کو ان سے نہ ہٹا کہ دنیا کی زندگی کی زینت تلاش کرنے لگ جائے اور اس شخص کا کہنا نہ مان جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیاہے اور اپنی خواہش کے تابع ہو گیا ہے اور ا سکا معاملہ حد سے گزر ا ہوا ہے (۲۸) اور کہہ دو سچی بات تمہارے رب کی طرف سے ہے پھر جو چاہے مان لے اور جو چاہے انکار کر دے بے شک ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کر رکھی ہے انہیں اس کی قناتیں گھیر لیں گی اور اگر فریاد کریں گے تو ایسے پانی سے فریاد رسی کیے جائیں گے جو تانبے کی طرح پگھلا ہوا ہو گا مونہوں کو جھلس دے گا کیا ہی برا پانی ہو گا او رکیا ہی بری آرام گاہ ہو گی (۲۹) بے شک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے ہم بھی اس کا اجر ضائع نہیں کریں گے جس نے اچھے کام کیے (۳۰) وہی لوگ ہیں جن کے لیے ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی انہیں وہاں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور باریک اور موٹے ریشم کا سبز لباس پہنیں گے وہاں تختوں پر تکیے لگانے والے ہوں گے کیا ہی اچھا بدلہ ہے اور کیا ہی اچھی آرام گا ہے (۳۱) اور انہیں دو شحصوں کی مثال سنا دو ان دونوں میں سے ایک لیے ہم نے انگور کے دو باغ تیار کیے اور ان کے گرد اگرد کھجوریں لگائیں اوران دونو ں کے درمیان کھیتی بھی لگا رکھی تھی (۳۲) دونوں باغ اپنے پھل لاتے ہیں اور پھل لانے میں کچھ کمی نہیں کرتے اور ان دونوں کے درمیان ہم نے ایک نہر بھی جاری کردی ہے (۳۳) اور اسے پھل مل گیا پھر اس نے اپنے ساتھی سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ میں تجھ سے مال میں بھی زيادہ ہوں اور جماعت کے لحاظ سے بھی زیادہ معزز ہوں (۳۴) اور اپنے باغ میں داخل ہوا ایسے حال میں کہ وہ اپنی جان پر ظلم کرنے والا تھا کہا میں نہیں خیال کرتا کہ یہ باغ کبھی برباد ہو گا (۳۵) اورمیں قیامت کو ہونے والی خیال نہیں کرتا اور البتہ اگر میں اپنے رب کے ہاں لوٹایا بھی گیا تو اس سے بھی بہتر جگہ پاؤں گا (۳۶) اسے اس کے ساتھی نے گفتگو کے دوران میں کہا کیا تو اس کا منکر ہو گیا ہے جس نے تجھے مٹی سے پھر نطفہ سے بنایا پھر تجھے پورا آدمی بنا دیا (۳۷) لیکن میرا تو الله ہی رب ہے اور میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کروں گا (۳۸) اور جب تو اپنے باغ میں آیا تھا تو نے کیوں نہ کہا جو الله چاہے تو ہوتا ہے اور الله کی مدد کے سوا کوئی طاقت نہیں اگر تو مجھے دیکھتا ہے کہ میں تجھ سے مال اور اولاد میں کم ہوں (۳۹) پھر امید ہے کہ میرا رب مجھے تیرے باغ سے بہتر دے اور اس پر لو کا ایک جھونکا آسمان سے بھیج دے پھر وہ چٹیل میدان ہوجائے (۴۰) یا اس کا پانی خشک ہوجائے پھر تو اسے ہرگز تلاش کرکے نہ لاسکے گا (۴۱) اور اس کا پھل سمیٹ لیا گیا پھر وہ اپنے ہاتھ ہی ملتا رہ گیا اس پر جو اس نے اس باغ میں خرچ کیا تھا اور وہ اپنی چھتریوں پر گرا پڑا تھا اور کہا کاش میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا (۴۲) اور اس کی کوئی جماعت نہ تھی جو الله کےسوا اس کی مدد کرتے اور نہ وہ خود ہی بدلہ لے سکا (۴۳) یہاں سب اختیار الله سچے ہی کا ہے اسی کا انعام بہتر ہے اور اسی کا دیاہوا بدلہ اچھا ہے (۴۴) اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بیان کرو مثل ایک پانی کے ہے جسے ہم نے آسمان سے برسایا پھر زمین کی روئیدگی پانی کے ساتھ مل گئی پھر وہ ریزہ ریز ہ ہو گئی کہ اسے ہوا ئیں اڑاتی پھرتی ہیں اور الله ہر چیز پر قدرت رکنے والا ہے (۴۵) مال اور اولاد تو دنیا کی زندگی کی رونق ہیں اور تیرے رب کے ہاں باقی رہنے والی نیکیاں ثواب اور آخرت کی امید کے لحاظ سے بہتر ہیں (۴۶) اورجس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تو زمین کو صاف میدان دیکھے گا اور سب کو جمع کریں گے اور ان میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑیں گے (۴۷) اور سب تیرے رب کے سامنے صف باندھ کر پیش کیے جائیں گے البتہ تحقیق تم ہمارے پاس آئے ہو جیسا ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا بلکہ تم نے خیال کیا تھا کہ ہم تمہارے لیے کوئی وعدہ مقرر نہ کریں گے (۴۸) اور اعمال نامہ رکھ دیا جائے گا پھر مجرموں کو دیکھے گا اس چیز سے ڈرنے والے ہوں گے جو اس میں ہے اور کہیں گے افسوس ہم پر یہ کیسا اعمال نامہ ہے کہ اس نے کوئی چھوٹی یا بڑی بات نہیں چھوڑی مگر سب کو محفوظ کیا ہوا ہے اورجو کچھ انہوں نے کیا تھا سب کو موجود پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا (۴۹) اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو تو سوائے ابلیس کے سب نے سجدہ کیا وہ جنوں میں سے تھا سو اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی پھر کیا تم مجھے چھوڑ کر اسے اور اس کی اولاد کو کارساز بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں بے انصافوں کو برا بدل ملا (۵۰) نہ تو آسمان اور زمین کے بناتے وقت اور نہ انہیں بناتے وقت میں نے انہیں بلایا اورمیں گمراہ کرنے والوں کو اپنا مددگار بنانے والا نہ تھا (۵۱) اورجس دن فرمائے گا میرے شریکوں کو پکارو جنہیں تم مانتے تھے پھر وہ انہیں پکاریں گے سو وہ انہیں جواب نہیں دیں گے اور ہم نے ان کے درمیان ہلاکت کی جگہ بنا دی ہے (۵۲) اور گناہگار آگ کو دیکھیں گے اور سمجھیں گے کہ وہ اس میں گرنے والے ہیں اور اس سے بچنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے (۵۳) اور البتہ تحقیق ہم نے اس قرآن میں ان لوگوں کے لیے ہر ایک مثال کو کئی طرح سے بیان کیا ہے اور انسان بڑا ہی جھگڑالو ہے (۵۴) اور جب ان کے پاس ہدایت آئی تو انہیں ایمان لانے اور اپنے رب سے معافی مانگنے سے کوئی چیز مانع نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ انہیں پہلی امتوں کا سا معاملہ پیش آئے یا عذاب ان کے سامنے آجائے (۵۵) اور ہم رسولوں کو صرف خوشخبری دینے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجتے ہیں اور کافر نا حق جھگڑا کرتے ہیں تاکہ ا س سے سچی بات کو ٹلا دیں اور انہوں نے میری آیتوں کو اور جس سے انہیں ڈرایا گیا ہے مذاق بنا لیا ہے (۵۶) اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جسے اس کے رب کی آیتوں سے نصیحت کی جائے پھر ان سے منہ پھیر لے اور جو کچھ اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے بھول جائے بے شک ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں کہ اسے نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں گرانی ہے اور اگر تو انہیں ہدایت کی طرف بلائے تو بھی وہ ہر گز کبھی راہ پر نہ آئیں گے (۵۷) اور تیرا رب بڑا بخنشے والا رحمت والا ہے اگر ان کے کیے پر انہیں پکڑنا چاہتا تو فوراً ہی عذاب بھیج دیتا بلکہ ان کے لیے ایک معیاد مقرر ہے اس کے سوا کوئی پناہ کی جگہ نہیں پائیں گے (۵۸) اور یہ بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کیا ہے جب انہوں نے ظلم کیا تھا اور ہم نے ان کی ہلاکت کا بھی ایک وقت مقرر کیا تھا (۵۹) اورجب موسیٰ نے اپنے جوان سے کہا کہ میں نہ ہٹوں گا یہاں تک کہ دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ پر پہنچ جاؤں یا سالہا سال چلتا جاؤں (۶۰) پھر جب وہ دو دریاؤں کے جمع ہونے کی جگہ پر پہنچے دونوں اپنی مچھلی کو بھول گئے پھر مچھلی نے دریا میں سرنگ کی طرح کا راستہ بنا لیا (۶۱) پھر جب وہ دونوں آگے بڑھ گئے تو اپنے جوان سے کہا کہ ہمارا ناشہ لے آ۔ البتہ تحقیق ہم نے اس سفر میں تکلیف اٹھائی ہے (۶۲) کہا کیا تو نے دیکھا جب ہم اس پتھر کے پاس ٹھرے تومیں مچھلی کو وہیں بھول آیا اور مجھے شیطان ہی نے بھلایا ہے کہ اس کا ذکر کروں اور اس نے اپنی راہ سمندر میں عجیب طرح سے بنا لی (۶۳) کہا یہی ہے جو ہم چاہتے تھے پھر اپنے قدموں کے نشان دیکھتے ہی الٹے پھرے (۶۴) پھر ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ کو پایا جسے ہم نے اپنے ہاں سے رحمت دی تھی اوراسے ہم نے اپنے پاس سے ایک علم سکھایا تھا (۶۵) اسے موسیٰ نے کہا کیا میں تیرے ساتھ رہوں اس شرط پر کہ تو مجھے سکھائے اس میں سے جو تجھے ہدایت کا طریقہ سکھایا گیا ہے (۶۶) کہا بے شک تو میرے ساتھ ہر گز صبر نہیں کر سکے گا (۶۷) اورتو صبر کیسے کرے گا اس بات پر جو تیری سمجھ میں نہیں آئے گی (۶۸) کہا انشاالله تو مجھے صابر ہی پائے گا اور میں کسی بات میں بھی تیری مخالفت نہیں کروں گا (۶۹) کہا پس اگر تو میرے ساتھ رہے تو مجھ سے کسی بات کا سوال نہ کر یہاں تک کہ میں تیرے سامنے اس کا ذکر کروں پس دونوں چلے (۷۰) یہاں تک کہ جب کشتی میں سوار ہوئے تو اسے پھاڑ دیا کہا کیا تو نے اس لیے پھاڑا ہے کہ کشتی کے لوگوں کو غرق کر دے البتہ تو نے خطرناک بات کی ہے (۷۱) کہا کیا میں نے تجھے نہیں کہا تھا کہ تو میرے ساتھ صبر نہیں کر سکے گا (۷۲) کہا میرے بھول جانے پر گرفت نہ کر اورمیرے معاملہ میں سختی نہ کر (۷۳) پھر دونوں چلے یہاں تک کہ انہیں ایک لڑکا ملا تو اسے مار ڈالا کہا تو نے ایک بے گناہ کو ناحق مار ڈالا البتہ تو نے برُی بات کی (۷۴) کہا کیا میں نے تجھے نہیں کہا تھا کہ تو میرے ساتھ صبر نہیں کر سکے گا (۷۵) کہا اگراس کے بعدمیں آپ سے کسی چیز کا سوال کروں تو مجھے ساتھ نہ رکھیں آپ میری طرف سے معذوری تک پہنچ جائیں گے (۷۶) پھر ودنوں چلے یہاں تک کہ جب ایک گاؤں والوں پر گزرے توان سے کھانا مانگا انہوں نے مہمان نوازی سے انکار کر دیا پھر انہوں نے وہاں ایک دیوار پائی جو گرنےہی والی تھی تب اسے سیدھا کر دیا کہا اگر آپ چاہتے تو اس کام پر کوئی اجرت ہی لے لیتے (۷۷) کہا اب میرے اور تیرے درمیان جدائی ہے اب میں تجھے ان باتوں کا راز بتاتا ہوں جن پر تو صبر نہ کر سکا (۷۸) جو کشتی تھی سو وہ محتاج لوگوں کی تھی جو دریا میں مزدوری کرتے تھے پھر میں نے اس میں عیب کر دینا چاہا اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک کشتی کو زبردستی پکڑ رہا تھا (۷۹) اور رہا لڑکا سو اس کے ماں باپ ایمان دار تھے سو ہم ڈرے کہ انہیں بھی سر کشی اور کفر میں مبتلا نہ کرے (۸۰) پھر ہم نے چاہا کہ ان کا رب اس کے بدلہ میں انہیں ایسی اولاد دے جو پاکیزگی میں اس سے بہتر اور محبت میں اس سے بڑھ کر ہو (۸۱) اور جو دیوار تھی سو وہ اس شہر کے دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان کا خزانہ تھا اور ان کا باپ نیک آدمی تھا پس تیرے رب نے چاہا کہ وہ جوان ہو کر اپنا خزانہ تیرے رب کی مہربانی سے نکالیں اور یہ کام میں نے اپنے ارادے سے نہیں کیا یہ حقیقت ہے اس کی جس پر تو صبر نہیں کر سکا (۸۲) اور آپ سے ذوالقرنین کا حال پوچھتے ہیں کہہ دو کہ اب میں تمہیں اس کا حال سناتا ہوں (۸۳) ہم نے اسے زمین میں حکمرانی دی تھی اور اسے ہر طرح کا سازو سامان دیا تھا (۸۴) تو اس نے ایک ساز و سامان تیار کیا (۸۵) یہاں تک کہ جب سورج ڈوبنے کی جگہ پہنچا تو اسے ایک گرم چشمے میں ڈوبتا ہوا پایا اور وہاں ایک قوم بھی پائی ہم نے کہااے ذوالقرنین یا انھیں سزا دے اور یا ان سے نیک سلوک کر (۸۶) کہا جو ان میں ظالم ہے اسے تو ہم سزا ہی دیں گے پھر وہ اپنے رب کے ہاں لوٹایا جائے گا پھر وہ اسے اوربھی سخت سزا دے گا (۸۷) اور جو کوئی ایمان لائے گا اور نیکی کرے گا تو اسے نیک بدلہ ملے گا اور ہم بھی اپنے معاملے میں اسے آسان ہی حکم دیں گے (۸۸) پھر اس نے ایک ساز و سامان تیار کیا (۸۹) یہاں تک کہ جب سورج نکلنے کی جگہ پہنچا تو اس نے سورج کو ایک ایسی قوم پر نکلتے ہوئے پایا کہ جس کے لیے ہم نے سورج کے ادھر کوئی آڑ نہیں رکھی تھی (۹۰) اسی طرح ہی ہے اور اس کے حال کی پوری خبر ہمارےہی پاس ہے (۹۱) پھر اس نے ایک ساز و سامان تیار کیا (۹۲) یہاں تک کہ جب دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا ان دونوں سے اس طرف ایک ایسی قوم کو دیکھا جو بات نہیں سمجھ سکتی تھی (۹۳) انہوں نے کہا کہ اے ذوالقرنین بے شک یاجوج ماجوج اس ملک میں فساد کرنے والے ہیں پھر کیا ہم آپ کے لیے کچھ محصول مقرر کر دیں اس شرط پر کہ آپ ہمارےاور ان کے درمیان ایک دیوار بنا دیں (۹۴) کہا جو میرے رب نے قدرت دی ہے کافی ہے سو طاقت سے میری مدد کرو کہ میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنا دوں (۹۵) مجھے لوہے کے تختے لا دو یہاں تک کہ جب دونوں سروں کے بیچ کو برابر کر دیا تو کہا کہ دھونکو یہاں تک کہ جب اسے آگ کر دیا تو کہا کہ تم میرے پاس تانبا لاؤ تاکہ اس پر ڈال دوں (۹۶) پھر وہ نہ اس پر چڑھ سکتے تھے اور نہ اس میں نقب لگا سکتے تھے (۹۷) کہا یہ میرے رب کی رحمت ہے پھر جب میرے رب کا وعدہ آئے گا تو اسے ریزہ ریزہ کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ سچا ہے (۹۸) اور ہم چھوڑدیں گے بعض ان کے اس دن بعض میں گھسیں گے اور صورمیں پھونکا جائے گا پھر ہم ان سب کو جمع کر یں گے (۹۹) اور ہم دوزخ کو اس دن کافروں کے سامنے پیش کریں گے (۱۰۰) جن کی آنکھوں پر ہماری یاد سے پردہ پڑا ہوا تھا اور وہ سن بھی نہ سکتے تھے (۱۰۱) پھر کافر کیا خیال کرتے ہیں کہ میرے سوا میرےبندوں کو اپنا کارساز بنا لیں گے بے شک ہم نے کافروں کے لیے دوزخ کو مہمانی بنایاہے (۱۰۲) کہہ دو کیا میں تمہیں بتاؤں جو اعمال کے لحاظ سے بالکل خسارے میں ہیں (۱۰۳) وہ جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں کھوئی گئی اور وہ خیال کرتے ہیں کہ بے شک وہ اچھے کام کر رہے ہیں (۱۰۴) یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی نشانیوں کا اور اس کے روبرو جانے کا انکار کیا ہے پھر ان کے سارے اعمال ضائع ہو گئے سو ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن قائم نہیں کریں گے (۱۰۵) یہ سزا ا ن کی جہنم ہے ا سلیے کہ انہوں نے کفر کیا اور میری آیتوں اور میرے رسولوں کا مذاق بنایا تھا (۱۰۶) بے شک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کئے ان کی مہمانی کے لیے فردوس کے باغ ہوں گے (۱۰۷) ان میں ہمیشہ رہیں گے وہاں سے جگہ بدلنی نہ چاہیں گے (۱۰۸) کہہ دو اگر میرے رب کی باتیں لکھنےکے لئے سمندر سیاہی بن جائے تو میرے رب کی باتیں ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہو جائے اور اگرچہ اس کی مدد کے لیے ہم ایسا ہی اور سمندر لائیں (۱۰۹) کہہ دو کہ میں بھی تمہارے جیسا آدمی ہی ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے پھر جو کوئی اپنے رب سے ملنے کی امید رکھے تو اسے چاہیئے کہ اچھے کام کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے (۱۱۰)
شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
سب تعریف الله کے لیے جس نے اپنے بندہ پر کتاب اتاری اور اس میں ذرا بھی کجی نہیں رکھی (۱) ٹھیک اتاری تاکہ اس سخت عذاب سے ڈراوے جو اس کے ہاں ہے اورایمان داروں کو خوشخبری دے جو اچھے کام کرتے ہیں کہ ان کے لیے اچھا بدلہ ہے (۲) جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے (۳) اور انہیں بھی ڈرائے جو کہتے ہیں کہ الله اولاد رکھتا ہے (۴) ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ ان کے باپ دادا کے پاس تھی کیسی سخت بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے وہ لوگ بالکل جھوٹ کہتے ہیں (۵) پھر شایدتو ان کے پیچھے افسوس سے اپنی جان ہلاک کر دے گا اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائے (۶) جو کچھ زمین پر ہے بے شک ہم نے اسے زمین کی زینت بنا دیا ہے تاکہ ہم انہیں آزمائیں کہ ان میں کون اچھے کام کرتا ہے (۷) اورجو کچھ اس پر ہے بے شک ہم سب کو چٹیل میدان کر دیں گے (۸) کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور کتبہ والے ہماری نشانیوں والے عجیب چیز تھے (۹) جب کہ چند جوان اس غار میں آ بیٹھے پھر کہا اے ہمارے رب ہم پر اپنی طرف سے رحمت نازل فرما اور ہمارے اس کام کے لیے کامیابی کا سامان کر دے (۱۰) پھر ہم نے کئی سال تک غار میں ان کے کان بند کر دیے (۱۱) پھر ہم نے انہیں اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ دونوں جماعتوں میں سے کس نے یاد رکھی ہے جتنی مدت وہ رہے (۱۲) ہم تمہیں ان کا صحیح حال سناتے ہیں بے شک وہ کئی جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے انہیں اور زيادہ ہدایت دی (۱۳) اورہم نے ان کے دل مضبوط کر دیے جب وہ یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے کہ ہمارا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے ہم اس کے سوا کسی معبود کو ہرگز نہ پکاریں گے ورنہ ہم نے بڑی ہی بیجا بات کہی (۱۴) یہ ہماری قوم ہے انہوں نے الله کے سوا اورمعبود بنا لیے ہیں ان پر کوئی کھلی دلیل کیوں نہیں لاتے پھر اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جس نے الله پر جھوٹ باندھا (۱۵) اور جب تم ان سے الگ ہو گئے ہواور الله کے سوا جنہیں وہ معبود بناتے ہیں تب غار میں چل کر پناہ لو تم پر تمہارا رب اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارے لیے تمہارےاس کام میں آرام کا سامان کر دے گا (۱۶) اور تو سورج کو دیکھے گا جب وہ نکلتا ہے تو ان کے غار کے دائیں طرف سے ہٹا ہوا رہتا ہے اور جب ڈوبتا ہے تو ان کی بائیں طرف سے کتراتا ہو گزر جاتا ہے وہ اس کے میدان میں ہیں یہ الله کی نشانیوں میں سے ہے جسے الله ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے وہ گمراہ کر دے پھر اس کے لیے تمہیں کوئی بھی کارساز پر لانے والا نہیں ملے گا (۱۷) اور تو انہیں جاگتا ہوا خیال کرے گا حالانکہ وہ سو رہے ہیں اورہم انہیں دائیں بائیں پلٹتے رہتے ہیں اور ان کا کتا چوکھٹ کی جگہ اپنے دونوں بازو پھیلائے بیٹھا ہے اگر تم انہیں جھانک کر دیکھو تو الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہو اورالبتہ تم پر ان کی دہشت چھا جائے (۱۸) اوراسی طرح ہم نے انہیں جگا دیا تاکہ ایک دوسرے سے پوچھیں ان میں سے ایک نے کہا تم کتنی دیر ٹہرے ہو انہوں نے کہا ہم ایک دن یا دن سے کم ٹھیرے ہیں کہا تمہارا رب خوب جانتا ہے جتنی دیر تم ٹھہرے ہو اب اپنے میں سے ایک کو یہ اپنا روپیہ دے کر اس شہر میں بھیجو پھر دیکھے کون سا کھانا ستھرا ہے پھر تمہارے پاس اس میں سے کھانا لائے اور نرمی سے جائے اور تمہارے متعلق کسی کو نہ بتائے (۱۹) بے شک وہ لوگ اگر تمہاری اطلاع پائیں گے تو تمہیں سنگسار کر دیں گےیا اپنے دین میں لوٹا لیں گے پھر تم کبھی فلاح نہیں پا سکو گے (۲۰) اور اسی طرح ہم نے ان کی خبر ظاہر کر دی تاکہ لوگ سمجھ لیں کہ الله کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میں کوئی شک نہیں جبکہ لوگ ان کے معاملہ میں جھگڑ رہے تھے پھر کہا ان پر ایک عمارت بنا دو انکا رب ان کا حال خوب جانتا ہے ان لوگوں نے کہا جو اپنے معاملے میں غالب آ گئے تھے کہ ہم ان پر ضرور ایک مسجد بنائیں گے (۲۱) بعض کہیں گے تین ہیں چوتھا ان کا کتا ہے اور بعض اٹکل پچو سے کہیں گے پانچ ہیں چھٹا ان کا کتا ہے اور بعض کہیں گے سات ہیں آٹھواں ان کا کتا ہے کہہ دو ان کی گنتی میرا رب ہی خوب جانتا ہے ان کا اصلی حال تو بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں سو تو ان کے بارے میں سرسری گفتگو کے سوا جھگڑا نہ کرو ان میں سے کسی سےبھی انکا حال دریافت نہ کر (۲۲) اورکسی چیز کے متعلق یہ ہر گز نہ کہو کہ میں کل اسے کر ہی دوں گا (۲۳) مگر یہ کہ الله چاہے اور اپنے رب کو یاد کر لے جب بھول جائے اور کہہ دو امید ہے کہ میرا رب مجھے اس سے بھی بہتر راستہ دکھائے (۲۴) اور وہ اپنے غار میں تین سو سے زائد نو برس رہے ہیں (۲۵) کہہ دو الله بہتر جانتا ہے کہ کتنی مدت رہے تمام آسمانوں اور زمین کا علم غیب اسی کو ہے کیا عجیب دیکھتا اور سنتا ہے ان کا الله کے سوا کوئی بھی مددگار نہیں اور نہ ہی وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک کرتا ہے (۲۶) اور اپنے رب کی کتاب سے جو تیری طرف وحی کی گئی ہے پڑھا کرو اس کی باتوں کوکوئی بدلنے والا نہیں ہے اور تو اس کے سوا کوئی پناہ کی جگہ نہیں پائے گا (۲۷) تو ان لوگو ں کی صحبت میں رہ جو صبح اور شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اسی کی رضا مندی چاہتے ہیں اور تو اپنی آنکھوں کو ان سے نہ ہٹا کہ دنیا کی زندگی کی زینت تلاش کرنے لگ جائے اور اس شخص کا کہنا نہ مان جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیاہے اور اپنی خواہش کے تابع ہو گیا ہے اور ا سکا معاملہ حد سے گزر ا ہوا ہے (۲۸) اور کہہ دو سچی بات تمہارے رب کی طرف سے ہے پھر جو چاہے مان لے اور جو چاہے انکار کر دے بے شک ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کر رکھی ہے انہیں اس کی قناتیں گھیر لیں گی اور اگر فریاد کریں گے تو ایسے پانی سے فریاد رسی کیے جائیں گے جو تانبے کی طرح پگھلا ہوا ہو گا مونہوں کو جھلس دے گا کیا ہی برا پانی ہو گا او رکیا ہی بری آرام گاہ ہو گی (۲۹) بے شک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے ہم بھی اس کا اجر ضائع نہیں کریں گے جس نے اچھے کام کیے (۳۰) وہی لوگ ہیں جن کے لیے ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی انہیں وہاں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور باریک اور موٹے ریشم کا سبز لباس پہنیں گے وہاں تختوں پر تکیے لگانے والے ہوں گے کیا ہی اچھا بدلہ ہے اور کیا ہی اچھی آرام گا ہے (۳۱) اور انہیں دو شحصوں کی مثال سنا دو ان دونوں میں سے ایک لیے ہم نے انگور کے دو باغ تیار کیے اور ان کے گرد اگرد کھجوریں لگائیں اوران دونو ں کے درمیان کھیتی بھی لگا رکھی تھی (۳۲) دونوں باغ اپنے پھل لاتے ہیں اور پھل لانے میں کچھ کمی نہیں کرتے اور ان دونوں کے درمیان ہم نے ایک نہر بھی جاری کردی ہے (۳۳) اور اسے پھل مل گیا پھر اس نے اپنے ساتھی سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ میں تجھ سے مال میں بھی زيادہ ہوں اور جماعت کے لحاظ سے بھی زیادہ معزز ہوں (۳۴) اور اپنے باغ میں داخل ہوا ایسے حال میں کہ وہ اپنی جان پر ظلم کرنے والا تھا کہا میں نہیں خیال کرتا کہ یہ باغ کبھی برباد ہو گا (۳۵) اورمیں قیامت کو ہونے والی خیال نہیں کرتا اور البتہ اگر میں اپنے رب کے ہاں لوٹایا بھی گیا تو اس سے بھی بہتر جگہ پاؤں گا (۳۶) اسے اس کے ساتھی نے گفتگو کے دوران میں کہا کیا تو اس کا منکر ہو گیا ہے جس نے تجھے مٹی سے پھر نطفہ سے بنایا پھر تجھے پورا آدمی بنا دیا (۳۷) لیکن میرا تو الله ہی رب ہے اور میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کروں گا (۳۸) اور جب تو اپنے باغ میں آیا تھا تو نے کیوں نہ کہا جو الله چاہے تو ہوتا ہے اور الله کی مدد کے سوا کوئی طاقت نہیں اگر تو مجھے دیکھتا ہے کہ میں تجھ سے مال اور اولاد میں کم ہوں (۳۹) پھر امید ہے کہ میرا رب مجھے تیرے باغ سے بہتر دے اور اس پر لو کا ایک جھونکا آسمان سے بھیج دے پھر وہ چٹیل میدان ہوجائے (۴۰) یا اس کا پانی خشک ہوجائے پھر تو اسے ہرگز تلاش کرکے نہ لاسکے گا (۴۱) اور اس کا پھل سمیٹ لیا گیا پھر وہ اپنے ہاتھ ہی ملتا رہ گیا اس پر جو اس نے اس باغ میں خرچ کیا تھا اور وہ اپنی چھتریوں پر گرا پڑا تھا اور کہا کاش میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا (۴۲) اور اس کی کوئی جماعت نہ تھی جو الله کےسوا اس کی مدد کرتے اور نہ وہ خود ہی بدلہ لے سکا (۴۳) یہاں سب اختیار الله سچے ہی کا ہے اسی کا انعام بہتر ہے اور اسی کا دیاہوا بدلہ اچھا ہے (۴۴) اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بیان کرو مثل ایک پانی کے ہے جسے ہم نے آسمان سے برسایا پھر زمین کی روئیدگی پانی کے ساتھ مل گئی پھر وہ ریزہ ریز ہ ہو گئی کہ اسے ہوا ئیں اڑاتی پھرتی ہیں اور الله ہر چیز پر قدرت رکنے والا ہے (۴۵) مال اور اولاد تو دنیا کی زندگی کی رونق ہیں اور تیرے رب کے ہاں باقی رہنے والی نیکیاں ثواب اور آخرت کی امید کے لحاظ سے بہتر ہیں (۴۶) اورجس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تو زمین کو صاف میدان دیکھے گا اور سب کو جمع کریں گے اور ان میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑیں گے (۴۷) اور سب تیرے رب کے سامنے صف باندھ کر پیش کیے جائیں گے البتہ تحقیق تم ہمارے پاس آئے ہو جیسا ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا بلکہ تم نے خیال کیا تھا کہ ہم تمہارے لیے کوئی وعدہ مقرر نہ کریں گے (۴۸) اور اعمال نامہ رکھ دیا جائے گا پھر مجرموں کو دیکھے گا اس چیز سے ڈرنے والے ہوں گے جو اس میں ہے اور کہیں گے افسوس ہم پر یہ کیسا اعمال نامہ ہے کہ اس نے کوئی چھوٹی یا بڑی بات نہیں چھوڑی مگر سب کو محفوظ کیا ہوا ہے اورجو کچھ انہوں نے کیا تھا سب کو موجود پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا (۴۹) اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو تو سوائے ابلیس کے سب نے سجدہ کیا وہ جنوں میں سے تھا سو اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی پھر کیا تم مجھے چھوڑ کر اسے اور اس کی اولاد کو کارساز بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں بے انصافوں کو برا بدل ملا (۵۰) نہ تو آسمان اور زمین کے بناتے وقت اور نہ انہیں بناتے وقت میں نے انہیں بلایا اورمیں گمراہ کرنے والوں کو اپنا مددگار بنانے والا نہ تھا (۵۱) اورجس دن فرمائے گا میرے شریکوں کو پکارو جنہیں تم مانتے تھے پھر وہ انہیں پکاریں گے سو وہ انہیں جواب نہیں دیں گے اور ہم نے ان کے درمیان ہلاکت کی جگہ بنا دی ہے (۵۲) اور گناہگار آگ کو دیکھیں گے اور سمجھیں گے کہ وہ اس میں گرنے والے ہیں اور اس سے بچنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے (۵۳) اور البتہ تحقیق ہم نے اس قرآن میں ان لوگوں کے لیے ہر ایک مثال کو کئی طرح سے بیان کیا ہے اور انسان بڑا ہی جھگڑالو ہے (۵۴) اور جب ان کے پاس ہدایت آئی تو انہیں ایمان لانے اور اپنے رب سے معافی مانگنے سے کوئی چیز مانع نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ انہیں پہلی امتوں کا سا معاملہ پیش آئے یا عذاب ان کے سامنے آجائے (۵۵) اور ہم رسولوں کو صرف خوشخبری دینے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجتے ہیں اور کافر نا حق جھگڑا کرتے ہیں تاکہ ا س سے سچی بات کو ٹلا دیں اور انہوں نے میری آیتوں کو اور جس سے انہیں ڈرایا گیا ہے مذاق بنا لیا ہے (۵۶) اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جسے اس کے رب کی آیتوں سے نصیحت کی جائے پھر ان سے منہ پھیر لے اور جو کچھ اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے بھول جائے بے شک ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں کہ اسے نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں گرانی ہے اور اگر تو انہیں ہدایت کی طرف بلائے تو بھی وہ ہر گز کبھی راہ پر نہ آئیں گے (۵۷) اور تیرا رب بڑا بخنشے والا رحمت والا ہے اگر ان کے کیے پر انہیں پکڑنا چاہتا تو فوراً ہی عذاب بھیج دیتا بلکہ ان کے لیے ایک معیاد مقرر ہے اس کے سوا کوئی پناہ کی جگہ نہیں پائیں گے (۵۸) اور یہ بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کیا ہے جب انہوں نے ظلم کیا تھا اور ہم نے ان کی ہلاکت کا بھی ایک وقت مقرر کیا تھا (۵۹) اورجب موسیٰ نے اپنے جوان سے کہا کہ میں نہ ہٹوں گا یہاں تک کہ دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ پر پہنچ جاؤں یا سالہا سال چلتا جاؤں (۶۰) پھر جب وہ دو دریاؤں کے جمع ہونے کی جگہ پر پہنچے دونوں اپنی مچھلی کو بھول گئے پھر مچھلی نے دریا میں سرنگ کی طرح کا راستہ بنا لیا (۶۱) پھر جب وہ دونوں آگے بڑھ گئے تو اپنے جوان سے کہا کہ ہمارا ناشہ لے آ۔ البتہ تحقیق ہم نے اس سفر میں تکلیف اٹھائی ہے (۶۲) کہا کیا تو نے دیکھا جب ہم اس پتھر کے پاس ٹھرے تومیں مچھلی کو وہیں بھول آیا اور مجھے شیطان ہی نے بھلایا ہے کہ اس کا ذکر کروں اور اس نے اپنی راہ سمندر میں عجیب طرح سے بنا لی (۶۳) کہا یہی ہے جو ہم چاہتے تھے پھر اپنے قدموں کے نشان دیکھتے ہی الٹے پھرے (۶۴) پھر ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ کو پایا جسے ہم نے اپنے ہاں سے رحمت دی تھی اوراسے ہم نے اپنے پاس سے ایک علم سکھایا تھا (۶۵) اسے موسیٰ نے کہا کیا میں تیرے ساتھ رہوں اس شرط پر کہ تو مجھے سکھائے اس میں سے جو تجھے ہدایت کا طریقہ سکھایا گیا ہے (۶۶) کہا بے شک تو میرے ساتھ ہر گز صبر نہیں کر سکے گا (۶۷) اورتو صبر کیسے کرے گا اس بات پر جو تیری سمجھ میں نہیں آئے گی (۶۸) کہا انشاالله تو مجھے صابر ہی پائے گا اور میں کسی بات میں بھی تیری مخالفت نہیں کروں گا (۶۹) کہا پس اگر تو میرے ساتھ رہے تو مجھ سے کسی بات کا سوال نہ کر یہاں تک کہ میں تیرے سامنے اس کا ذکر کروں پس دونوں چلے (۷۰) یہاں تک کہ جب کشتی میں سوار ہوئے تو اسے پھاڑ دیا کہا کیا تو نے اس لیے پھاڑا ہے کہ کشتی کے لوگوں کو غرق کر دے البتہ تو نے خطرناک بات کی ہے (۷۱) کہا کیا میں نے تجھے نہیں کہا تھا کہ تو میرے ساتھ صبر نہیں کر سکے گا (۷۲) کہا میرے بھول جانے پر گرفت نہ کر اورمیرے معاملہ میں سختی نہ کر (۷۳) پھر دونوں چلے یہاں تک کہ انہیں ایک لڑکا ملا تو اسے مار ڈالا کہا تو نے ایک بے گناہ کو ناحق مار ڈالا البتہ تو نے برُی بات کی (۷۴) کہا کیا میں نے تجھے نہیں کہا تھا کہ تو میرے ساتھ صبر نہیں کر سکے گا (۷۵) کہا اگراس کے بعدمیں آپ سے کسی چیز کا سوال کروں تو مجھے ساتھ نہ رکھیں آپ میری طرف سے معذوری تک پہنچ جائیں گے (۷۶) پھر ودنوں چلے یہاں تک کہ جب ایک گاؤں والوں پر گزرے توان سے کھانا مانگا انہوں نے مہمان نوازی سے انکار کر دیا پھر انہوں نے وہاں ایک دیوار پائی جو گرنےہی والی تھی تب اسے سیدھا کر دیا کہا اگر آپ چاہتے تو اس کام پر کوئی اجرت ہی لے لیتے (۷۷) کہا اب میرے اور تیرے درمیان جدائی ہے اب میں تجھے ان باتوں کا راز بتاتا ہوں جن پر تو صبر نہ کر سکا (۷۸) جو کشتی تھی سو وہ محتاج لوگوں کی تھی جو دریا میں مزدوری کرتے تھے پھر میں نے اس میں عیب کر دینا چاہا اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک کشتی کو زبردستی پکڑ رہا تھا (۷۹) اور رہا لڑکا سو اس کے ماں باپ ایمان دار تھے سو ہم ڈرے کہ انہیں بھی سر کشی اور کفر میں مبتلا نہ کرے (۸۰) پھر ہم نے چاہا کہ ان کا رب اس کے بدلہ میں انہیں ایسی اولاد دے جو پاکیزگی میں اس سے بہتر اور محبت میں اس سے بڑھ کر ہو (۸۱) اور جو دیوار تھی سو وہ اس شہر کے دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان کا خزانہ تھا اور ان کا باپ نیک آدمی تھا پس تیرے رب نے چاہا کہ وہ جوان ہو کر اپنا خزانہ تیرے رب کی مہربانی سے نکالیں اور یہ کام میں نے اپنے ارادے سے نہیں کیا یہ حقیقت ہے اس کی جس پر تو صبر نہیں کر سکا (۸۲) اور آپ سے ذوالقرنین کا حال پوچھتے ہیں کہہ دو کہ اب میں تمہیں اس کا حال سناتا ہوں (۸۳) ہم نے اسے زمین میں حکمرانی دی تھی اور اسے ہر طرح کا سازو سامان دیا تھا (۸۴) تو اس نے ایک ساز و سامان تیار کیا (۸۵) یہاں تک کہ جب سورج ڈوبنے کی جگہ پہنچا تو اسے ایک گرم چشمے میں ڈوبتا ہوا پایا اور وہاں ایک قوم بھی پائی ہم نے کہااے ذوالقرنین یا انھیں سزا دے اور یا ان سے نیک سلوک کر (۸۶) کہا جو ان میں ظالم ہے اسے تو ہم سزا ہی دیں گے پھر وہ اپنے رب کے ہاں لوٹایا جائے گا پھر وہ اسے اوربھی سخت سزا دے گا (۸۷) اور جو کوئی ایمان لائے گا اور نیکی کرے گا تو اسے نیک بدلہ ملے گا اور ہم بھی اپنے معاملے میں اسے آسان ہی حکم دیں گے (۸۸) پھر اس نے ایک ساز و سامان تیار کیا (۸۹) یہاں تک کہ جب سورج نکلنے کی جگہ پہنچا تو اس نے سورج کو ایک ایسی قوم پر نکلتے ہوئے پایا کہ جس کے لیے ہم نے سورج کے ادھر کوئی آڑ نہیں رکھی تھی (۹۰) اسی طرح ہی ہے اور اس کے حال کی پوری خبر ہمارےہی پاس ہے (۹۱) پھر اس نے ایک ساز و سامان تیار کیا (۹۲) یہاں تک کہ جب دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا ان دونوں سے اس طرف ایک ایسی قوم کو دیکھا جو بات نہیں سمجھ سکتی تھی (۹۳) انہوں نے کہا کہ اے ذوالقرنین بے شک یاجوج ماجوج اس ملک میں فساد کرنے والے ہیں پھر کیا ہم آپ کے لیے کچھ محصول مقرر کر دیں اس شرط پر کہ آپ ہمارےاور ان کے درمیان ایک دیوار بنا دیں (۹۴) کہا جو میرے رب نے قدرت دی ہے کافی ہے سو طاقت سے میری مدد کرو کہ میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنا دوں (۹۵) مجھے لوہے کے تختے لا دو یہاں تک کہ جب دونوں سروں کے بیچ کو برابر کر دیا تو کہا کہ دھونکو یہاں تک کہ جب اسے آگ کر دیا تو کہا کہ تم میرے پاس تانبا لاؤ تاکہ اس پر ڈال دوں (۹۶) پھر وہ نہ اس پر چڑھ سکتے تھے اور نہ اس میں نقب لگا سکتے تھے (۹۷) کہا یہ میرے رب کی رحمت ہے پھر جب میرے رب کا وعدہ آئے گا تو اسے ریزہ ریزہ کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ سچا ہے (۹۸) اور ہم چھوڑدیں گے بعض ان کے اس دن بعض میں گھسیں گے اور صورمیں پھونکا جائے گا پھر ہم ان سب کو جمع کر یں گے (۹۹) اور ہم دوزخ کو اس دن کافروں کے سامنے پیش کریں گے (۱۰۰) جن کی آنکھوں پر ہماری یاد سے پردہ پڑا ہوا تھا اور وہ سن بھی نہ سکتے تھے (۱۰۱) پھر کافر کیا خیال کرتے ہیں کہ میرے سوا میرےبندوں کو اپنا کارساز بنا لیں گے بے شک ہم نے کافروں کے لیے دوزخ کو مہمانی بنایاہے (۱۰۲) کہہ دو کیا میں تمہیں بتاؤں جو اعمال کے لحاظ سے بالکل خسارے میں ہیں (۱۰۳) وہ جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں کھوئی گئی اور وہ خیال کرتے ہیں کہ بے شک وہ اچھے کام کر رہے ہیں (۱۰۴) یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی نشانیوں کا اور اس کے روبرو جانے کا انکار کیا ہے پھر ان کے سارے اعمال ضائع ہو گئے سو ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن قائم نہیں کریں گے (۱۰۵) یہ سزا ا ن کی جہنم ہے ا سلیے کہ انہوں نے کفر کیا اور میری آیتوں اور میرے رسولوں کا مذاق بنایا تھا (۱۰۶) بے شک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کئے ان کی مہمانی کے لیے فردوس کے باغ ہوں گے (۱۰۷) ان میں ہمیشہ رہیں گے وہاں سے جگہ بدلنی نہ چاہیں گے (۱۰۸) کہہ دو اگر میرے رب کی باتیں لکھنےکے لئے سمندر سیاہی بن جائے تو میرے رب کی باتیں ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہو جائے اور اگرچہ اس کی مدد کے لیے ہم ایسا ہی اور سمندر لائیں (۱۰۹) کہہ دو کہ میں بھی تمہارے جیسا آدمی ہی ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے پھر جو کوئی اپنے رب سے ملنے کی امید رکھے تو اسے چاہیئے کہ اچھے کام کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے (۱۱۰)
منگل، 2 فروری، 2016
ٹخنوں سے نيچے كپڑا ركھنے كى حرمت كے دلائل
یهان کشمیر مین جو لوگ ( دراز) وغیره استعمام کرتی هین وه تو مجبوری هین اور اس وقت الله بهی ماف کرتا هہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے بہت سارى احاديث ميں ٹخنوں سے نيچے كپڑا ركھنے سے منع فرمايا ہے ان احاديث ميں سے چند ايك احاديث درج ذيل ہيں:
صحيح بخارى ميں ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" چادر كا جو حصہ ٹخنوں سے نيچے ہے وہ آگ ميں ہے "
www.mominsalafi.blogspot.com
www.talashhaq.blogspot.com
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5787 ).
اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان اس طرح ہے:
" روز قيات اللہ تعالى تين قسم كے افراد كى جانب نہ تو ديكھے گا اور نہ ہى انہيں پاك كريگا، اور انہيں دردناك عذاب ہو گا، ان ميں ايك تو ٹخنوں سے نيچے كپڑا ركھنے والا ہے، اور دوسرا احسان جتلانے والا، اور تيرا اپنا سامان جھوٹى قسم سے فروخت كرنے والا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 106 ).
اور ايك حديث ميں فرمان نبوى اس طرح ہے:
" قميص اور پگڑى اور تہ بند ميں اسبال ہے، جس نے بھى اس سے كچھ بھى تكبر كے ساتھ لٹكا كر كھينچا اللہ تعالى روز قيامت اس كى جانب نہيں ديكھےگا "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4085 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 5334 ) صحيح سند كے ساتھ مروى ہے.
اور ايك حديث ميں نبىكريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ٹخنوں سے نيچے چادر لٹكانے والے كى طرف اللہ تعالى نہيں ديكھےگا "
نسائى كتاب الزينۃ باب اسبال الازار حديث نمبر ( 5332 ).
اور حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ميرى يا اپنى پنڈلى كے عضل ( گوشت والا حصہ ) كو پكڑ كر فرمايا:
" چادر كى يہ جگہ ہے، اگر تم انكار كرو تو پھر اس سے نيچے، اور اگر اس سے بھى انكار كرو تو پھر چادر كو ٹخنوں ميں كوئى حق نہيں ہے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1783 ) ترمذى نے اسے حسن صحيح كہا ہے.
اوپر جتنى بھى احاديث گزرى ہيں وہ ٹخنوں سے كپڑا نيچے ركھنے كى ممانعت ميں عام ہيں، چاہے اس كا مقصد تكبر ہو يا نہ ہو، ليكن اگر مقصد تكبر ہو تو بلا شك گناہ اور جرم زيادہ ہو گا، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے اپنى چادر تكبر سے نيچے ركھ كر كھينچى تو اللہ تعالى اس كى جانب نہيں ديكھےگا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5788 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2087 ).
اور ايك حديث ميں ہے جابر بن سليم رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے فرمايا:
" تم چادر ٹخنوں سے نيچے ركھنے بچا كرو، كيونكہ يہ چيز تكبر ميں سے ہے، اور اللہ تعالى تكبر كو پسند نہيں كرتا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2722 ) اسے ترمذى نے صحيح قرار ديا ہے.
پھر يہ بھى ہے كہ انسان اپنے آپ كو تكبر سے برى نہيں كر سكتا چاہے وہ اس كا دعوى بھى كرے تو بھى اس سے قبول نہيں كيا جائيگا كيونكہ يہ اس كا خود اپنى جانب سے تزكيہ نفس ہے، ليكن جس كے متعلق اس كى گواہى وحى نے دى تو وہ ٹھيك ہے، جيسا كہ حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے بھى اپنا كپڑا تكبر سے كھينچا اور لٹكايا تو اللہ تعالى روز قيامت اسے ديكھے گا بھى نہيں "
تو ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: ميرى چادر ڈھيلى ہو جاتى ہے، ليكن ميں اس كا خيال ركھتا ہوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:
" يقينا تم ان ميں سے نہيں جو اسے بطور تكبر كرتے ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5784 ).
ٹخنوں سے نيچے كپڑا اور چادر يا سلوار وغيرہ ركھنا چاہے وہ تكبر كى بنا پر نہ بھى ہو يہ بھى منع ہے، اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:
ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" مسلمان كا لباس نصف پنڈلى تك ہے، نصف پنڈلى اور ٹخنوں كے درميان ہونے ميں كوئى حرج نہيں، اور جو ٹخنوں سے نيچے ہو وہ آگ ميں ہے، اور جس نے بھى اپنا كپڑا تكبر سے كھينچا اللہ تعالى اس كى جانب ديكھے گا بھى نہيں "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4093 ) اس كى سند صحيح ہے.
دونوں حديثوں ميں مختلف عمل بيان ہوا ہے، اور اس كى سزا بھى مختلف بيان كى گئى ہے.
اور امام احمد نے عبد الرحمن بن يعقوب سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں ميں نے ابو سعيد رضى اللہ تعالى عنہ سے دريافت كيا: كيا آپ نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے چادر كے متعلق كچھ سنا ہے ؟
تو انہوں نے فرمايا: جى ہاں سنا ہے، تم بھى اسے معلوم كر لو، ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:
" مومن كا لباس اس كى آدھى پنڈليوں تك ہے، اور اس كے ٹخنوں اور نصف پنڈليوں كے درميان ركھنےميں كوئى حرج نہيں، اور جو ٹخنوں سے نيچے ہو وہ آگ ميں ہے، آپ نے يہ تين بار فرمايا "
اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس سے گزار تو ميرى چادر ڈھيلى ہو كر نيچے ہوئى ہوئى تھى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
" اے عبد اللہ اپنى چادر اوپر اٹھاؤ، تو ميں نے اسے اوپر كر ليا، پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اور زيادہ كرو، تو ميں نے اور اوپر كر لى.
اس كے بعد ميں ہميشہ اس كا خيال ركھتا ہوں، لوگوں ميں سے كسى نے دريافت كيا: كہاں تك ؟ تو عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كہنے لگے: آدھى پنڈليوں تك "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2086 ) كتاب الكبائر للذھبى ( 131 - 132 ).
تو اسبال جس طرح مردوں ميں ہے اسى طرح عورتوں ميں بھى ہو گا، جس كى دليل ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى درج ذيل حديث ہے:
ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى اپنا كپڑا تكبر كے ساتھ كھينچا اللہ تعالى اس كى جانب نہيں ديكھےگا "
تو ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: تو پھر عورتيں اپنے چادروں كا كيا كريں ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" وہ ايك بالشت نيچے لٹكا ليا كريں "
ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا كہنے لگيں: اس طرح تو عورتوں كے پاؤں نظر آيا كرينگے.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" وہ ايك ہاتھ نيچے لٹكا ليا كريں، اس سے زيادہ نہيں "
سنن نسائى كتاب الزينۃ باب ذيول النساء.
اور ہو سكتا ہے تكبر كرنے والے كو آخرت سے قبل اس كى سزا دنيا ميں بھى مل جائے، جيسا كہ درج ذيل حديث ميں بيان ہوا ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ايك شخص تكبر كے ساتھ اتراتا ہوا اپنى دو چادروں ميں چلا جا رہا تھا اور اسے اپنا آپ بڑا پسند اور اچھا لگا، تو اللہ تعالى نے اسے زمين ميں دھنسا ديا، تو وہ قيامت تك اس ميں دھنستا ہى چلا جائيگا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2088 ).
واللہ
پیر، 1 فروری، 2016
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان (حفظہ اللہ) کے مختصر حالات زندگی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
· نام:
صالح بن فوزان بن عبداللہ آل فوزان
· نسب:
آپ کا تعلق اہل شماسیہ الوداعین میں قبیلۂ دواسر سے ہے۔
·------------------------------------------
www.mominsalafi.blogspot.com
------------------------------------------
· تعلیم:
بچپن ہی میں آپ کے والد صاحب کا انتقال ہوگیا پس آپ نے اپنے خاندان میں پرورش پائی۔ آپ نے قرآن کریم اور ابتدائی قرات وکتابت اپنے شہر کے امامِ مسجد سے حاصل کی۔
پھر 1369ھ میں اپنے شہر شماسیہ میں کھلنے والے گورنمنٹ اسکول میں داخل ہوئے اور اپنی ابتدائی تعلیم کی تکمیل بریدہ میں واقع مدرسہ فیصلیہ سے 1371ھ میں کی۔ پھر بریدہ ہی میں 1373ھ میں معھد العلمی کھلنے پر اس میں داخل ہوئے جس سے 1377ھ میں فراغت حاصل کی۔ اس کے بعد ریاض یونیورسٹی میں کلیۃ الشریعۃ میں داخل ہوئے اور 1381ھ میں اس سے فراغت حاصل کی ۔
· اعلی تعلیم:
اعلی تعلیم میں آپ نے فقہ میں ماسٹرز کیا اور اسی فقہ میں آپ نے ڈاکٹریٹ کیا اور یہ دونوں مراحل آپ نے کلیۃ الشریعۃ ، ریاض یونیورسٹی سے مکمل کئے۔
· مناصب:
1372ھ میں بریدہ میں معھد العلمی میں داخلہ سے قبل آپ ابتدائیہ میں مدرس مقرر ہوئے۔کلیۃ الشریعۃ ریاض یونیورسٹی سے فراغت کے بعد خود ریاض یونیورسٹی کے معھد العلمی میں مدرس مقرر ہوئے۔پھر کلیۃ الشریعۃ میں مدرس ہوئے اور پھر دراسات علیا کے شعبۂ اصول دین میں مدرس مقرر ہوئے۔اس کے بعد قضاء (کورٹ وعدالت) کی معھدالعالی میں مدرس ہونے کے بعد 1396ھ میں وہاں مدیر بھی مقرر ہوئے ۔ پھر آخر میں وہاں اداراتی سیشن ختم ہونے پر دوبارہ تدریس کے فرائض منصبی سنبھالے۔ اس کے علاوہ آپ کبار علماء کمیٹی کے 1407ھ میں رکن بنے اور ساتھ ہی 1411ھ میں فتوی وریسرچ کی مستقل کمیٹی کے رکن بنے۔اور آپ اب تک مکہ مکرمہ میں واقع مجمع الفقہی جو کہ رابطہ العالم الاسلامی کے تحت ہے کے رکن ہیں۔ اس کے علاوہ حج میں داعیان پر مقرر نگرانوں کی کمیٹی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ آپ جامع الامیر متعب بن عبدالعزیز، ملز ریاض میں امام، خطیب ومدرس ہیں اور سعودی عرب ریڈیو سے نشر ہونے والے دینی سوال وجواب کے مشہور پروگرام "نور علی الدرب" میں بھی اسی طرح شرکت فرماتے رہتے ہیں جیسا کے علمی مجلات، رسائل، ریسرچ وفتاوی نویسی میں باقاعدہ مشارکت فرماتے ہیں۔ ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی سطح پر لکھے جانے والے بہت سے رسائل کی نگرانی کرتے ہیں اور ان کے سامنے بہت سے طالبعلموں نے علمی حلقات، دروس اور مجالس میں زانوئےتلمذ طے کئے ہیں۔
· مشائخ:
آپ نےبہت سے مشہور علماء کرام وقضاۃ کرام سے حصول علم کیا جن میں سب سے نمایاں اور مشہور سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز (رحمہ اللہ) ہیں۔ سماحۃ الشیخ بڑے اور اہم امور میں آپ پر بہت اعتماد کیا کرتے تھے اور اپنی تالیف کردہ بعض کتب مراجعت اور رائے حاصل کرنے کے لئے آپ کے حوالے کیا کرتے تھے۔الشیخ عبداللہ بن حمید (رحمہ اللہ) بھی آپ کے مشائخ میں سے ہیں آپ کثرت سے ان کے دروس میں شرکت فرماتے تھے جبکہ آپ بریدہ کے معھد العلمی میں زیر تعلیم تھے۔اسی طرح مفسر قرآن الشیخ محمد امین الشنقیطی (رحمہ اللہ) اور شیخ عبدالرزاق العفیفی- رحمہ اللہ- بھی آپ کے مشائخ میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ کے آبائی شہر کی مسجد کے امام حمود بن سلیمان التلال جو بعد میں ضربہ شہر (جو قصیم میں ہے) کے قاضی بھی مقرر ہوئے تھے، آپ نے یہاں ابتدائی قرات اور کتابت سیکھی پھر شیخ ابراہیم بن ضیف اللہ الیوسف سے بھی اس وقت تعلیم حاصل کی جب وہ مدرسہ شماسیہ میں مدرس تھے۔ آپ کے دیگر مشائخ کرام یہ ہیں: الشیخ صالح بن عبدالرحمن السکیتی، الشیخ صالح بن ابراہیم البلیھی، الشیخ محمد بن سبیل، الشیخ عبداللہ بن صالح الخلیفی، الشیخ ابراہیم بن عبید العبدالمحسن، الشیخ حمود بن عقلاء الشعیبی، الشیخ صالح العلی الناصر ۔
· تالیفات:
آپ کی بہت سے تالیفات ہیں جن میں نمایاں یہ ہیں:
1- التحقيقات المرضية في المباحث الفرضية في المواريث، جو آپ کا ماسٹرز میں رسالہ تھا۔ (ایک جلد)
2- أحكام الأطعمة في الشريعة الإسلامية،جو کہ آپ کا ڈاکٹریٹ میں رسالہ تھا، (ایک جلد)
3- الإرشاد إلى صحيح الاعتقاد، (ایک جلد)
4- شرح العقيدة الواسطية، (ایک جلد)
5- البيان فيما أخطأ فيه بعض الكتاب، (دوجلدیں)
6- مجموع محاضرات في العقيدة والدعوة، (چار جلدیں)
7- الخطب المنبرية في المناسبات العصرية، (چھ جلدیں)
8- من أعلام المجددين في الإسلام
9- مباحث فقهية في مواضيع مختلفة
10- مجموع فتاوى في العقيدة والفقه, (پانچ جلدیں)
11- نقد كتاب الحلال والحرام في الإسلام، رد على يوسف القرضاوي.
12- الملخص في شرح كتـاب التوحيد، للشيخ محمد بن عبدالوهاب – شرح مدرسي-
13- إعانة المستفيد شرح كتاب التوحيد, (دوجلدیں)
14- التعقـيب على ما ذكـره الخطيب في حق الشيخ محمـد بن عبدالوهاب
15- الملخص الفقهي، (دوجلدیں)
16- إتحاف أهل الإيمان بدروس شهر رمضان
17- الضياء اللامع مع الأحاديث القدسية الجوامع
18- بيان ما يفعله الحاج والمعتمر
19- كتاب عقيدة التوحيد– (اس کتاب کی اصل وزارۃ معارف کے مرحلہ ثانویہ کے سلیبس میں مقرر ہے)
20- فتاوى ومقالات جو مجلة الدعوة میں نشر ہوئے
21- دروس من القرآن الكريم
22- الأجوبـة المفيدة عن أسئلة المناهج الجديدة
23- البدع والمحدثات وما لا أصل له
24- مجالس شهر رمضان المبارك
25- عقيدة التوحيد
26- أضواء من فتاوى ابن تيمية
27- بحوث فقهية في قضايا عصرية
28- شرح كتاب كشف الشبهات
29- فقه وفتاوى البيوع
30- زاد المستقنع
31- شرح مسائل الجاهلية
32- حكم الاحتفال بذكرى المولد النبوي
33- المنتقى
34- لمحة عن الفرق
35- الإيمان بالملائكة وأثره في حياة الأمة
36- مجمل عقيدة السلف الصالح
37- البيان بالدليل لما في نصيحة الرفاعي ومقدمة البوطي من الكذب الواضح والتضليل
38- حقيقة التصوف
39- من مشكلات الشباب
40- وجوب التحاكم إلى ما أنزله الله
41- الفرق بين البيع والربا
42- مسائل في الإيمان
43- التعليقات المختصرة على متن العقيدة الطحاوية
44- تدبر القرآن
45- وجوب التثبت في الأخبار واحترام العلماء
46- من أصول عقيدة أهل السنة والجماعة
47- دور المرأة في تربية الأسرة
48- معنى لا إله إلا الله
اس کے علاوہ بھی آپ کی بہت سے کتابین تحت طبع ہیں۔
· شیخ کے محاضرات:
a.شرح لمعة الاعتقاد (12 کیسٹیں)
a. شرح نونية ابن القيم (64 کیسٹیں)
a.شرح العقيدة السفارينية للإمام السفاريني (15 کیسٹیں)
a.شرح منظومة الآداب (16 کیسٹیں)
a.شرح عمدة الأحكام (11 کیسٹیں)
a.شرح الأصول الثلاثة (10 کیسٹیں)
a.شرح العقيدة الطحاوية (14 کیسٹیں)
a.اللقاء الأسبوعی المفتوح (12 کیسٹیں)
a.شرح رسائل من مجموعة التوحيد (9 کیسٹیں)
a.شرح كشف الشبهات (9 کیسٹیں)
a.شرح العقيدة الواسطية (31 کیسٹیں)
a.شرح مسائل الجاهلية (14 کیسٹیں)
a.شرح نواقض الإسلام (5 کیسٹیں)
a.شرح بلوغ المرام (168 کیسٹیں)
a.شرح زاد المستقنع (69 کیسٹیں)
a.شرح قرة عيون الموحدين (60 کیسٹیں)
a.شرح العدة الثاني (43 کیسٹیں)
اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت سے محاضرات اور خطبات ہیں۔ امت کے نوجوانوں کو صحیح دعوت سے متعارف کروانے اور ہر قسم کی گمراہی کی رد میں آپ کی گرانقدر خدمات ہیں جن کے ذریعہ بدعتیوں اور گمراہوں کا قلع قمع ہوا اور بہت سوں کو راہ حق وصواب کی جانب ہدایت ہوئی۔ اللہ تعالی آپ کو جزائےخیر دے، اور آپ کے اعمال کو خالصتاً لوجہ اللہ بنادے اور آپ کے میزان حسنات میں انہیں جگہ دے۔
· شیخ کا فون نمبر:
(ریاض کے کوڈ 01 کے ساتھ) 4588570/4787840/4767420/01
· ویب سائٹ:
www.alfawzan.af.org.sa
والصلاة والسلام على نبينا محمد وآله وصحبه أجمعين
· نام:
صالح بن فوزان بن عبداللہ آل فوزان
· نسب:
آپ کا تعلق اہل شماسیہ الوداعین میں قبیلۂ دواسر سے ہے۔
·------------------------------------------
www.mominsalafi.blogspot.com
------------------------------------------
· تعلیم:
بچپن ہی میں آپ کے والد صاحب کا انتقال ہوگیا پس آپ نے اپنے خاندان میں پرورش پائی۔ آپ نے قرآن کریم اور ابتدائی قرات وکتابت اپنے شہر کے امامِ مسجد سے حاصل کی۔
پھر 1369ھ میں اپنے شہر شماسیہ میں کھلنے والے گورنمنٹ اسکول میں داخل ہوئے اور اپنی ابتدائی تعلیم کی تکمیل بریدہ میں واقع مدرسہ فیصلیہ سے 1371ھ میں کی۔ پھر بریدہ ہی میں 1373ھ میں معھد العلمی کھلنے پر اس میں داخل ہوئے جس سے 1377ھ میں فراغت حاصل کی۔ اس کے بعد ریاض یونیورسٹی میں کلیۃ الشریعۃ میں داخل ہوئے اور 1381ھ میں اس سے فراغت حاصل کی ۔
· اعلی تعلیم:
اعلی تعلیم میں آپ نے فقہ میں ماسٹرز کیا اور اسی فقہ میں آپ نے ڈاکٹریٹ کیا اور یہ دونوں مراحل آپ نے کلیۃ الشریعۃ ، ریاض یونیورسٹی سے مکمل کئے۔
· مناصب:
1372ھ میں بریدہ میں معھد العلمی میں داخلہ سے قبل آپ ابتدائیہ میں مدرس مقرر ہوئے۔کلیۃ الشریعۃ ریاض یونیورسٹی سے فراغت کے بعد خود ریاض یونیورسٹی کے معھد العلمی میں مدرس مقرر ہوئے۔پھر کلیۃ الشریعۃ میں مدرس ہوئے اور پھر دراسات علیا کے شعبۂ اصول دین میں مدرس مقرر ہوئے۔اس کے بعد قضاء (کورٹ وعدالت) کی معھدالعالی میں مدرس ہونے کے بعد 1396ھ میں وہاں مدیر بھی مقرر ہوئے ۔ پھر آخر میں وہاں اداراتی سیشن ختم ہونے پر دوبارہ تدریس کے فرائض منصبی سنبھالے۔ اس کے علاوہ آپ کبار علماء کمیٹی کے 1407ھ میں رکن بنے اور ساتھ ہی 1411ھ میں فتوی وریسرچ کی مستقل کمیٹی کے رکن بنے۔اور آپ اب تک مکہ مکرمہ میں واقع مجمع الفقہی جو کہ رابطہ العالم الاسلامی کے تحت ہے کے رکن ہیں۔ اس کے علاوہ حج میں داعیان پر مقرر نگرانوں کی کمیٹی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ آپ جامع الامیر متعب بن عبدالعزیز، ملز ریاض میں امام، خطیب ومدرس ہیں اور سعودی عرب ریڈیو سے نشر ہونے والے دینی سوال وجواب کے مشہور پروگرام "نور علی الدرب" میں بھی اسی طرح شرکت فرماتے رہتے ہیں جیسا کے علمی مجلات، رسائل، ریسرچ وفتاوی نویسی میں باقاعدہ مشارکت فرماتے ہیں۔ ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی سطح پر لکھے جانے والے بہت سے رسائل کی نگرانی کرتے ہیں اور ان کے سامنے بہت سے طالبعلموں نے علمی حلقات، دروس اور مجالس میں زانوئےتلمذ طے کئے ہیں۔
· مشائخ:
آپ نےبہت سے مشہور علماء کرام وقضاۃ کرام سے حصول علم کیا جن میں سب سے نمایاں اور مشہور سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز (رحمہ اللہ) ہیں۔ سماحۃ الشیخ بڑے اور اہم امور میں آپ پر بہت اعتماد کیا کرتے تھے اور اپنی تالیف کردہ بعض کتب مراجعت اور رائے حاصل کرنے کے لئے آپ کے حوالے کیا کرتے تھے۔الشیخ عبداللہ بن حمید (رحمہ اللہ) بھی آپ کے مشائخ میں سے ہیں آپ کثرت سے ان کے دروس میں شرکت فرماتے تھے جبکہ آپ بریدہ کے معھد العلمی میں زیر تعلیم تھے۔اسی طرح مفسر قرآن الشیخ محمد امین الشنقیطی (رحمہ اللہ) اور شیخ عبدالرزاق العفیفی- رحمہ اللہ- بھی آپ کے مشائخ میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ کے آبائی شہر کی مسجد کے امام حمود بن سلیمان التلال جو بعد میں ضربہ شہر (جو قصیم میں ہے) کے قاضی بھی مقرر ہوئے تھے، آپ نے یہاں ابتدائی قرات اور کتابت سیکھی پھر شیخ ابراہیم بن ضیف اللہ الیوسف سے بھی اس وقت تعلیم حاصل کی جب وہ مدرسہ شماسیہ میں مدرس تھے۔ آپ کے دیگر مشائخ کرام یہ ہیں: الشیخ صالح بن عبدالرحمن السکیتی، الشیخ صالح بن ابراہیم البلیھی، الشیخ محمد بن سبیل، الشیخ عبداللہ بن صالح الخلیفی، الشیخ ابراہیم بن عبید العبدالمحسن، الشیخ حمود بن عقلاء الشعیبی، الشیخ صالح العلی الناصر ۔
· تالیفات:
آپ کی بہت سے تالیفات ہیں جن میں نمایاں یہ ہیں:
1- التحقيقات المرضية في المباحث الفرضية في المواريث، جو آپ کا ماسٹرز میں رسالہ تھا۔ (ایک جلد)
2- أحكام الأطعمة في الشريعة الإسلامية،جو کہ آپ کا ڈاکٹریٹ میں رسالہ تھا، (ایک جلد)
3- الإرشاد إلى صحيح الاعتقاد، (ایک جلد)
4- شرح العقيدة الواسطية، (ایک جلد)
5- البيان فيما أخطأ فيه بعض الكتاب، (دوجلدیں)
6- مجموع محاضرات في العقيدة والدعوة، (چار جلدیں)
7- الخطب المنبرية في المناسبات العصرية، (چھ جلدیں)
8- من أعلام المجددين في الإسلام
9- مباحث فقهية في مواضيع مختلفة
10- مجموع فتاوى في العقيدة والفقه, (پانچ جلدیں)
11- نقد كتاب الحلال والحرام في الإسلام، رد على يوسف القرضاوي.
12- الملخص في شرح كتـاب التوحيد، للشيخ محمد بن عبدالوهاب – شرح مدرسي-
13- إعانة المستفيد شرح كتاب التوحيد, (دوجلدیں)
14- التعقـيب على ما ذكـره الخطيب في حق الشيخ محمـد بن عبدالوهاب
15- الملخص الفقهي، (دوجلدیں)
16- إتحاف أهل الإيمان بدروس شهر رمضان
17- الضياء اللامع مع الأحاديث القدسية الجوامع
18- بيان ما يفعله الحاج والمعتمر
19- كتاب عقيدة التوحيد– (اس کتاب کی اصل وزارۃ معارف کے مرحلہ ثانویہ کے سلیبس میں مقرر ہے)
20- فتاوى ومقالات جو مجلة الدعوة میں نشر ہوئے
21- دروس من القرآن الكريم
22- الأجوبـة المفيدة عن أسئلة المناهج الجديدة
23- البدع والمحدثات وما لا أصل له
24- مجالس شهر رمضان المبارك
25- عقيدة التوحيد
26- أضواء من فتاوى ابن تيمية
27- بحوث فقهية في قضايا عصرية
28- شرح كتاب كشف الشبهات
29- فقه وفتاوى البيوع
30- زاد المستقنع
31- شرح مسائل الجاهلية
32- حكم الاحتفال بذكرى المولد النبوي
33- المنتقى
34- لمحة عن الفرق
35- الإيمان بالملائكة وأثره في حياة الأمة
36- مجمل عقيدة السلف الصالح
37- البيان بالدليل لما في نصيحة الرفاعي ومقدمة البوطي من الكذب الواضح والتضليل
38- حقيقة التصوف
39- من مشكلات الشباب
40- وجوب التحاكم إلى ما أنزله الله
41- الفرق بين البيع والربا
42- مسائل في الإيمان
43- التعليقات المختصرة على متن العقيدة الطحاوية
44- تدبر القرآن
45- وجوب التثبت في الأخبار واحترام العلماء
46- من أصول عقيدة أهل السنة والجماعة
47- دور المرأة في تربية الأسرة
48- معنى لا إله إلا الله
اس کے علاوہ بھی آپ کی بہت سے کتابین تحت طبع ہیں۔
· شیخ کے محاضرات:
a.شرح لمعة الاعتقاد (12 کیسٹیں)
a. شرح نونية ابن القيم (64 کیسٹیں)
a.شرح العقيدة السفارينية للإمام السفاريني (15 کیسٹیں)
a.شرح منظومة الآداب (16 کیسٹیں)
a.شرح عمدة الأحكام (11 کیسٹیں)
a.شرح الأصول الثلاثة (10 کیسٹیں)
a.شرح العقيدة الطحاوية (14 کیسٹیں)
a.اللقاء الأسبوعی المفتوح (12 کیسٹیں)
a.شرح رسائل من مجموعة التوحيد (9 کیسٹیں)
a.شرح كشف الشبهات (9 کیسٹیں)
a.شرح العقيدة الواسطية (31 کیسٹیں)
a.شرح مسائل الجاهلية (14 کیسٹیں)
a.شرح نواقض الإسلام (5 کیسٹیں)
a.شرح بلوغ المرام (168 کیسٹیں)
a.شرح زاد المستقنع (69 کیسٹیں)
a.شرح قرة عيون الموحدين (60 کیسٹیں)
a.شرح العدة الثاني (43 کیسٹیں)
اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت سے محاضرات اور خطبات ہیں۔ امت کے نوجوانوں کو صحیح دعوت سے متعارف کروانے اور ہر قسم کی گمراہی کی رد میں آپ کی گرانقدر خدمات ہیں جن کے ذریعہ بدعتیوں اور گمراہوں کا قلع قمع ہوا اور بہت سوں کو راہ حق وصواب کی جانب ہدایت ہوئی۔ اللہ تعالی آپ کو جزائےخیر دے، اور آپ کے اعمال کو خالصتاً لوجہ اللہ بنادے اور آپ کے میزان حسنات میں انہیں جگہ دے۔
· شیخ کا فون نمبر:
(ریاض کے کوڈ 01 کے ساتھ) 4588570/4787840/4767420/01
· ویب سائٹ:
www.alfawzan.af.org.sa
والصلاة والسلام على نبينا محمد وآله وصحبه أجمعين
اتوار، 31 جنوری، 2016
صحیح بخاری میں شک کرنے والے کارد
الحمد للہ
امام بخاری رحمہ اللہ تعالی کی وفات ( 256 ھـ ) میں یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ( 245 ) سال بعد ہوئ ، اورجیسا کہ آپ کے شیعۃ دوست کا گمان ہے اس طرح نہیں ، لیکن بات یہ ہے کہ جب جھوٹ اپنی اصلی جگہ سے نکلے تواس پرتعجب کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔
اس کا یہ معنی بھی نہیں کہ اس سے یہ ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تعالی بلاواسطہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کریں قطعی طور پریہ مراد نہیں ہے ہم نے صرف اسے وضاحت کے لیے ذکر کیا ہے
www.mominsalafi.blogspot.com
www.talashhaq.blogspor.com ۔
اب رہا یہ مسئلہ کہ ہم صحیح بخاری پر اعتماد کس طرح کر سکتے ہیں امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نےتونبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہی نہیں کی تو اس کا جواب یہ ہے کہ :
امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اپنی صحیح بخاری میں بلاواسطہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایات بیان نہیں کیں بلکہ اپنے ثقہ شیوخ اوراساتذہ سے روایات بیان کی ہیں جو کہ حفظ و ضبط اور امانت کے اعلی درجہ پرفائز تھے اور اسی طرح کے سب روای صحابہ کرام تک پہنچتے ہیں جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایات بیان کرتے ہیں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اورامام بخاری کے درمیان کم از کم راویوں کی تعداد تین ہے ۔
اورپھرصحیح بخاری پر ہمارا اعتماد اس لیے ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے جن راویوں سے روایات نقل کی ہیں وہ اعلی درجہ کے ثقہ ہیں ، امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے ان کے اختیارمیں انتہائ قسم کی چھان بین کی اور پھران سے روایت نقل کی ہے ، اس کے باوجود امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اس وقت تک کوئ حدیث بھی صحیح بخاری میں درج نہیں کی جب تک کہ غسل کرکے دو رکعتیں پڑھ کر اللہ تعالی سے اس حدیث میں استخارہ نہیں کرلیا ، تواستخارہ کرنے کے بعد وہ حدیث لکھتے تھے ۔
تواس کتاب کو لکھنے میں ایک لمبی مدت صرف ہوئ جو کہ سولہ سال پرمحیط ہے ، اور امت اسلامیہ نے اس کتاب کوقبول کیا اوراسے صحیح کا درجہ دیا اور سب کا اس کے صحیح ہونے اجماع ہے اور پھربات یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اس امت محمدیہ کوضلال اور گمراہی اکٹھا ہونے سے بچایا ہوا ہے ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی نے شرح مسلم کے مقدمہ میں فرمایا ہے کہ :
علماء کرام رحمہم اللہ تعالی کا اس پراتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعدکتابوں میں سب سے صحیح کتاب صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہے ، اور امت نے اسے قبول کیا ہے اوران دونوں میں صحیح ترین کتا ب صحیح بخاری ہے جس میں صحیح مسلم سے زیادہ فوائد پاۓ جاتے ہیں ۔ انتھی ۔
اگرآپ اس شیعی اوریاپھررافضی سے ان اقوال کے بارہ میں سوال کریں جوکہ اس کے بڑے بڑے علماء علی بن ابی طالب رضي اللہ تعالی عنہ اور باقر اور جعفر صادق رحمہم اللہ اورآل بیت وغیرہ سے نقل کرتے ہیں کہ آیا کہ انہوں نے یہ اقوال ان سے بلاواسطہ سنے ہیں یا کہ وہ یہ اقوال سندوں کے ساتھ نقل کرتے ہیں ؟ تو اس کا جواب واضح ہے ۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تعالی اور ان گمراہ لوگوں کی سندوں میں بہت بڑافرق پایا جاتا ہے ان گمراہ لوگوں کی سندوں میں آپ کوئی بھی ایسا راوی نہیں پائيں گے جس کی روایت پراعتماد کیا جاسکے بلکہ ان کے سب کے سب راوی آپ کو ضعفاء اور کذابوں اور جرح کیے گۓ رارویوں کی کتابوں میں ملیں گے ۔
اوریہ رافضی جو دعوی پھیلا رہا ہے سنت نبویہ میں طعن کا پیش خیمہ ہے جو کہ ان کے مذھب کوباطل اور ان کے عقیدے کوفاسد قرار دیتی ہے ، تو اس طرح کی گمراہیوں کے علاوہ ان کے پاس کوئ اورچارہ ہی نہیں ، لیکن یہ بہت دور کی بات ہے کہ اس میں وہ کامیاب ہوجائيں کیونکہ حق توواضح ہے اورباطل مضطرب اورپریشان ہورہا ہے ۔
پھرہم سائل کویہ نصیحت بھی کرتے ہیں _اللہ تعالی آپ کوتوفیق دے - کہ آپ یہ کوشش کریں کہ آپ اس قسم کے لوگوں سے دوستی لگائيں جو اھل سنت و اھل حدیث ہوں اور بدعتیوں سے لگاؤ نہ رکھیں اور نہ ہی ان اپنے حلقہ احباب میں شامل کریں ، ان لوگوں سے دوستیاں لگانے سے علماء کرام نے بچنے کوکہا ہے اس لیے کہ اس وقت کسی کا پیچھا ہی نہیں چھوڑتے جب تک کہ مختلف قسم کے حیلوں اورملمع سازی کے ذریعے اسے گمراہ کرکےحق سے دور نہ کردیں۔
ہم اللہ تعالی سے اپنے اورآپ کے لیے سنت پرچلنے اور بدعت اوربدعتیوں سے دوررہنے کی توفیق طلب کرتے ہیں ۔
واللہ تعالی اعلم .
امام بخاری رحمہ اللہ تعالی کی وفات ( 256 ھـ ) میں یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ( 245 ) سال بعد ہوئ ، اورجیسا کہ آپ کے شیعۃ دوست کا گمان ہے اس طرح نہیں ، لیکن بات یہ ہے کہ جب جھوٹ اپنی اصلی جگہ سے نکلے تواس پرتعجب کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔
اس کا یہ معنی بھی نہیں کہ اس سے یہ ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تعالی بلاواسطہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کریں قطعی طور پریہ مراد نہیں ہے ہم نے صرف اسے وضاحت کے لیے ذکر کیا ہے
www.mominsalafi.blogspot.com
www.talashhaq.blogspor.com ۔
اب رہا یہ مسئلہ کہ ہم صحیح بخاری پر اعتماد کس طرح کر سکتے ہیں امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نےتونبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہی نہیں کی تو اس کا جواب یہ ہے کہ :
امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اپنی صحیح بخاری میں بلاواسطہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایات بیان نہیں کیں بلکہ اپنے ثقہ شیوخ اوراساتذہ سے روایات بیان کی ہیں جو کہ حفظ و ضبط اور امانت کے اعلی درجہ پرفائز تھے اور اسی طرح کے سب روای صحابہ کرام تک پہنچتے ہیں جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایات بیان کرتے ہیں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اورامام بخاری کے درمیان کم از کم راویوں کی تعداد تین ہے ۔
اورپھرصحیح بخاری پر ہمارا اعتماد اس لیے ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے جن راویوں سے روایات نقل کی ہیں وہ اعلی درجہ کے ثقہ ہیں ، امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے ان کے اختیارمیں انتہائ قسم کی چھان بین کی اور پھران سے روایت نقل کی ہے ، اس کے باوجود امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اس وقت تک کوئ حدیث بھی صحیح بخاری میں درج نہیں کی جب تک کہ غسل کرکے دو رکعتیں پڑھ کر اللہ تعالی سے اس حدیث میں استخارہ نہیں کرلیا ، تواستخارہ کرنے کے بعد وہ حدیث لکھتے تھے ۔
تواس کتاب کو لکھنے میں ایک لمبی مدت صرف ہوئ جو کہ سولہ سال پرمحیط ہے ، اور امت اسلامیہ نے اس کتاب کوقبول کیا اوراسے صحیح کا درجہ دیا اور سب کا اس کے صحیح ہونے اجماع ہے اور پھربات یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اس امت محمدیہ کوضلال اور گمراہی اکٹھا ہونے سے بچایا ہوا ہے ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی نے شرح مسلم کے مقدمہ میں فرمایا ہے کہ :
علماء کرام رحمہم اللہ تعالی کا اس پراتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعدکتابوں میں سب سے صحیح کتاب صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہے ، اور امت نے اسے قبول کیا ہے اوران دونوں میں صحیح ترین کتا ب صحیح بخاری ہے جس میں صحیح مسلم سے زیادہ فوائد پاۓ جاتے ہیں ۔ انتھی ۔
اگرآپ اس شیعی اوریاپھررافضی سے ان اقوال کے بارہ میں سوال کریں جوکہ اس کے بڑے بڑے علماء علی بن ابی طالب رضي اللہ تعالی عنہ اور باقر اور جعفر صادق رحمہم اللہ اورآل بیت وغیرہ سے نقل کرتے ہیں کہ آیا کہ انہوں نے یہ اقوال ان سے بلاواسطہ سنے ہیں یا کہ وہ یہ اقوال سندوں کے ساتھ نقل کرتے ہیں ؟ تو اس کا جواب واضح ہے ۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تعالی اور ان گمراہ لوگوں کی سندوں میں بہت بڑافرق پایا جاتا ہے ان گمراہ لوگوں کی سندوں میں آپ کوئی بھی ایسا راوی نہیں پائيں گے جس کی روایت پراعتماد کیا جاسکے بلکہ ان کے سب کے سب راوی آپ کو ضعفاء اور کذابوں اور جرح کیے گۓ رارویوں کی کتابوں میں ملیں گے ۔
اوریہ رافضی جو دعوی پھیلا رہا ہے سنت نبویہ میں طعن کا پیش خیمہ ہے جو کہ ان کے مذھب کوباطل اور ان کے عقیدے کوفاسد قرار دیتی ہے ، تو اس طرح کی گمراہیوں کے علاوہ ان کے پاس کوئ اورچارہ ہی نہیں ، لیکن یہ بہت دور کی بات ہے کہ اس میں وہ کامیاب ہوجائيں کیونکہ حق توواضح ہے اورباطل مضطرب اورپریشان ہورہا ہے ۔
پھرہم سائل کویہ نصیحت بھی کرتے ہیں _اللہ تعالی آپ کوتوفیق دے - کہ آپ یہ کوشش کریں کہ آپ اس قسم کے لوگوں سے دوستی لگائيں جو اھل سنت و اھل حدیث ہوں اور بدعتیوں سے لگاؤ نہ رکھیں اور نہ ہی ان اپنے حلقہ احباب میں شامل کریں ، ان لوگوں سے دوستیاں لگانے سے علماء کرام نے بچنے کوکہا ہے اس لیے کہ اس وقت کسی کا پیچھا ہی نہیں چھوڑتے جب تک کہ مختلف قسم کے حیلوں اورملمع سازی کے ذریعے اسے گمراہ کرکےحق سے دور نہ کردیں۔
ہم اللہ تعالی سے اپنے اورآپ کے لیے سنت پرچلنے اور بدعت اوربدعتیوں سے دوررہنے کی توفیق طلب کرتے ہیں ۔
واللہ تعالی اعلم .
نماز تراویح کی رکعات از صالح المنجد
سوال یہ ہے کہ آیا تروایح گیارہ رکعات ہیں یا بیس ؟ کیونکہ سنت تو گیارہ رکعت ہی ہیں ، اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی بھی اپنی کتاب " القیام والتراویح " میں اسے گیارہ رکعت ہی قرار دیتے ہیں ۔
-----------------------------------------
www.mominsalafi.blogspot.com
-----------------------------------------
الحمد للہ
ہمارے خیال میں مسلمان کو اجتھادی مسائل میں اس طرح کا معاملہ نہيں کرنا چاہیے کہ وہ اہل علم کے مابین اجتھادی مسائل کو ایک حساس مسئلہ بنا کراسے آپس میں تفرقہ اورمسلمانوں کے مابین فتنہ کا باعث بناتا پھرے ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی دس رکعت ادا کرنے کےبعد بیٹھ کروترکا انتظار کرنے اورامام کے ساتھ نماز تراویح مکمل نہ والے شخص کے بارہ میں کہتے ہیں کہ :
ہمیں بہت ہی افسوس ہوتا ہے کہ امت مسلمہ میں لوگ ایسے مسائل میں اختلاف کرنے لگے ہیں جن میں اختلاف جائز ہے ، بلکہ اس اختلاف کو وہ دلوں میں نفرت اوراختلاف کا سبب بنانے لگے ہیں ، حالانکہ امت میں اختلاف تو صحابہ کرام کے دور سے موجود ہے لیکن اس کے باوجود ان کے دلوں میں اختلاف پیدا نہیں ہوا بلکہ ان سب کے دل متفق تھے ۔
اس لیے خاص کرنوجوانوں اورہرملتزم شخص پر واجب ہے کہ وہ یکمشت ہوں اورسب ایک دوسرے کی مدد کریں کیونکہ ان کے دشمن بہت زيادہ ہیں جوان کے خلاف تدبیروں میں مصروف ہیں ۔
دیکھیں : الشرح الممتع ( 4 / 225 ) ۔
اس مسئلہ میں دونوں گروہ ہی غلو کا شکار ہیں ، پہلے گروہ نے گیارہ رکعت سے زيادہ ادا کرنے کومنکر اوربدعت قرار دیا ہے اوردوسرا گروہ صرف گیارہ رکعت ادا کرنے والوں کو اجماع کا مخالف قرار دیتے ہیں ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ شيخ الافاضل ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی اس کی کیا توجیہ کرتے ہیں :
ان کا کہنا ہے کہ :
ہم کہیں گے گہ : ہمیں افراط وتفریط اورغلو زيب نہيں دیتا ، کیونکہ بعض لوگ تراویح کی تعداد میں سنت پر التزام کرنے میں غلو سے کام لیتے اورکہتےہیں : سنت میں موجود عدد سے زيادہ پڑھنی جائز نہيں ، اوروہ گیارہ رکعت سے زيادہ ادا کرنے والوں کوگنہگار اورنافرمان قرار دیتے اور ان کی سخت مخالفت کرتے ہیں ۔
بلاشک وشبہ یہ غلط ہے ، اسے گنہگار اورنافرمان کیسے قرار دیا جاسکتا ہے حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز کے بارہ میں سوال کيا گيا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( دو دو ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں پر تعداد کی تحدید نہیں کی ، اوریہ معلوم ہونا چاہیے کہ جس شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھااسے تعداد کا علم نہیں تھا ، کیونکہ جسے نماز کی کیفیت کا ہی علم نہ ہواس کاعدد سے جاہل ہونا زيادہ اولی ہے ، اورپھر وہ شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں میں سے بھی نہیں تھا کہ ہم یہ کہیں کہ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں ہونے والے ہرکام کا علم ہو ۔
لھذا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تعداد کی تحدید کیے بغیر نماز کی کیفیت بیان کی ہے تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ اس معاملہ میں وسعت ہے ، اورانسان کے لیے جائزہے کہ وہ سو رکعت پڑھنے کے بعد وتر ادا کرے ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ :
( نمازاس طرح ادا کرو جس طرح مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے ) ۔
یہ حدیث عموم پر محمول نہيں حتی کہ ان کے ہاں بھی یہ عموم پر نہیں ہے ، اسی لیے وہ بھی انسان پر یہ واجب قرار نہیں دیتے کہ وہ کبھی پانچ اورکبھی سات اورکبھی نو وتر ادا کریں ، اگر ہم اس حدیث کے عموم کو لیں تو ہم یہ کہيں گے کہ :
کبھی پانچ کبھی سات اور کبھی نو وتر ادا کرنے واجب ہیں ، لیکن ایسا نہیں بلکہ اس حدیث " نماز اس طرح ادا کرو جس طرح مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے" کا معنی اورمراد یہ ہے کہ نماز کی کیفیت وہی رکھو لیکن تعداد کے بارہ میں نہیں لیکن جہاں پر تعداد کی تحدید بالنص موجود ہو ۔
بہر حال انسان کو چاہیے کہ وہ کسی وسعت والے معاملے میں لوگوں پر تشدد سے کام نہ لے ، حتی کہ ہم نے اس مسئلہ میں تشدد کرنے والے بھائیوں کو دیکھا ہے کہ وہ گیارہ رکعت سے زيادہ آئمہ کو بدعتی قرار دیتے اورمسجد نے نکل جاتے ہیں جس کے باعث وہ اس اجر سے محروم ہوجاتے ہیں جس کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ :
( جو بھی امام کے ساتھ اس کے جانے تک قیام کرے اسے رات بھر قیام کا اجروثواب حاصل ہوتا ہے ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 806 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن ترمذی ( 646 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
کچھ لوگ دس رکعت ادا کرنے کے بعد بیٹھ جاتے ہیں جس کی بنا پر صفوں میں خلا پیدا ہوتا اورصفیں ٹوٹ جاتی ہیں ، اوربعض اوقات تو یہ لوگ باتیں بھی کرتے ہیں جس کی بنا پر نمازی تنگ ہوتے ہیں ۔
ہمیں اس میں شک نہيں کہ ہمارے یہ بھائي خیر اوربھلائي ہی چاہتے ہيں اوروہ مجتھد ہیں لیکن ہر مجتھد کا اجتھاد صحیح ہی نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات وہ اجتھاد میں غلطی بھی کربیٹھتا ہے ۔
اوردوسرا گروہ : سنت کا التزام کرنے والوں کے برعکس یہ گروہ گیارہ رکعت ادا کرنے والوں کوغلط قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اجماع کی مخالفت کررہے ہیں ، اوردلیل میں یہ آیت پیش کرتے ہيں :
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ جوشخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہوجانے کے بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے اورتمام مومنوں کی راہ چھوڑکر چلے ، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہوا اوردوزخ میں ڈال دیں گے ، وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے } النساء ( 115 )
آپ سے پہلے جتنے بھی تھے انہيں تئيس رکعت کے علاوہ کسی کا علم نہیں تھا ، اوروہ انہیں بہت زیادہ منکر قرار دیتے ہیں ، لھذا یہ گروہ بھی خطاء اورغلطی پر ہے ۔
دیکھیں الشرح الممتع ( 4 / 73 - 75 ) ۔
نماز تراویح میں آٹھ رکعت سے زيادہ کے عدم جواز کے قائلین کے پاس مندرجہ ذيل حدیث دلیل ہے :
ابوسلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں میں نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ کی رمضان میں نماز کیسی تھی ؟
توعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کہنے لگيں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اورغیررمضان میں گیارہ رکعت سے زيادہ ادا نہيں کرتے تھے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم چاررکعت ادا کرتے تھے آپ ان کی طول اورحسن کےبارہ میں کچھ نہ پوچھیں ، پھر چار رکعت ادا کرتے آپ ان کے حسن اورطول کے متعلق نہ پوچھیں ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت ادا کرتے ، تومیں نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ وترادا کرنے سے قبل سوتے ہیں ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن دل نہيں سوتا ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1909 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 738 )
ان کا کہنا ہے کہ یہ حدیث رمضان اورغیررمضان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کی ہمیشگی پر دلالت کرتی ہے ۔
علماء کرام نے اس حدیث کے استدلال کورد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہے اور فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا ۔
رات کی نماز کی رکعات کی تعداد مقیدنہ ہونے کے دلائل میں سب سے واضح دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے :
ابن عمر رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارہ میں سوال کیا تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( رات کی نماز دو دو رکعت ہے اورجب تم میں سےکوئي ایک صبح ہونے خدشہ محسوس کرے تو اپنی نماز کے لیے ایک رکعت وتر ادا کرلے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 946 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 749 ) ۔
اس مسئلہ میں علماء کرام کے اقوال پر نظر دوڑانے سے آپ کو یہ علم ہوگا کہ اس میں وسعت ہے اورگیارہ رکعت سے زيادہ ادا کرنے میں کوئي حرج نہيں ، ذیل میں ہم معتبرعلماء کرام کے اقوال پیش کرتے ہیں :
آئمہ احناف میں سے امام سرخسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
ہمارے ہاں وتر کے علاوہ بیس رکعات ہیں ۔
دیکھیں : المبسوط ( 2 / 145 ) ۔
اورابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
ابوعبداللہ ( یعنی امام احمد ) رحمہ اللہ تعالی کے ہاں بیس رکعت ہی مختار ہيں ، امام ثوری ، ابوحنیفہ ، امام شافعی ، کا بھی یہی کہنا ہے ، اورامام مالک رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں کہ چھتیس رکعت ہیں ۔
دیکھیں : المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 1 / 457 ) ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
علماء کرام کے اجماع میں نماز تراویح سنت ہیں ، اورہمارے مذہب میں یہ دس سلام م کے ساتھ دو دو رکعت کرکے بیس رکعات ہیں ، ان کی ادائيگي باجماعت اورانفرادی دونوں صورتوں میں ہی جائز ہیں ۔
دیکھیں : المجموع للنووی ( 4 / 31 ) ۔
نماز تراویح کی رکعات میں مذاہب اربعہ یہی ہے اورسب کا یہی کہنا ہے کہ نماز تراویح گیارہ رکعت سے زيادہ ہے ،اورگيارہ رکعت سے زيادہ کے مندرجہ ذیل اسباب ہوسکتے ہیں :
1 - ان کے خیال میں حدیث عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا اس تعداد کی تحدید کی متقاضی نہيں ہے ۔
2 - بہت سے سلف رحمہ اللہ تعالی سے گیارہ رکعات سے زيادہ ثابت ہیں
دیکھیں : المغنی لابن قدامہ ( 2 / 604 ) اورالمجموع ( 4 / 32 )
3 - نبی صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات ادا کرتے تھے اوریہ رکعات بہت لمبی لمبی ہوتی جو کہ رات کے اکثر حصہ میں پڑھی جاتی تھیں ، بلکہ جن راتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو نماز تراویح کی جماعت کروائي تھی اتنی لمبی کردیں کہ صحابہ کرام طلوع فجر سے صرف اتنا پہلے فارغ ہوئے کہ انہيں خدشہ پیدا ہوگيا کہ ان کی سحری ہی نہ رہ جائے ۔
صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نماز ادا کرنا پسند کرتے تھے اوراسے لمبا نہيں کرتے تھے ، توعلماء کرام نے کا خیال کیا کہ جب امام مقتدیوں کو اس حدتک نماز لمبی پڑھائے تو انہيں مشقت ہوگی ، اورہوسکتا ہے کہ وہ اس سے نفرت ہی کرنے لگیں ، لھذا علماء کرام نے یہ کہا کہ امام کو رکعات زيادہ کرلینی چاہیے اور قرآت کم کرے ۔
حاصل یہ ہوا کہ :
جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ہی گیارہ رکعت ادا کی اورسنت پر عمل کیا تو یہ بہتر اوراچھا اورسنت پر عمل ہے ، اورجس نے قرآت ہلکی کرکے رکعات زيادہ کرلیں اس نے بھی اچھا کیا لیکن سنت پر عمل نہيں ہوا ، اس لیے ایک دوسرے پر اعتراض نہيں کرنا چاہیے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اگرکوئي نماز تراویح امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ، اورامام احمد رحمہم اللہ کے مسلک کے مطابق بیس رکعت یا امام مالک رحمہ اللہ تعالی کے مسلک کے مطابق چھتیس رکعات ادا کرے یا گیارہ رکعت ادا کرے تو اس نے اچھا کیا ، جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے عدم توقیف کی بنا پر تصریح کی ہے ، تورکعات کی کمی اورزيادتی قیام لمبا یا چھوٹا ہونے کے اعتبار سے ہوگي ۔
دیکھیں : الاختیارات ( 64 ) ۔
امام سیوطی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
ان صحیح اورحسن احادیث جن میں رمضان المبارک کے قیام کی ترغیب وارد ہے ان میں تعداد کی تخصیص نہیں ، اورنہ ہی یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح بیس رکعت ادا کی تھیں ، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی راتیں بھی نماز تروایح کی جماعت کروائی ان میں رکعات کی تعداد بیان نہیں کی گئي ، اورچوتھی رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز تراویح سے اس لیے پیچھے رہے کہ کہيں یہ فرض نہ ہوجائيں اورلوگ اس کی ادائيگي سے عاجز ہوجائيں ۔
ابن حجر ھیثمی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
یہ صحیح نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےنماز تراویح بیس رکعات ادا کی تھیں ، اورجویہ حدیث بیان کی جاتی ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیس رکعت ادا کیا کرتے تھے "
یہ حدیث شدید قسم کی ضعیف ہے ۔
دیکھیں : الموسوعۃ الفقھیۃ ( 27 / 142 - 145 ) ۔
اس کے بعد ہم سائل سے یہ کہيں گے کہ آپ نماز تراویح کی بیس رکعات سے تعجب نہ کریں ، کیونکہ کئي نسلوں سے آئمہ کرام بھی گزرے وہ بھی ایسا ہی کرتے رہے اور ہر ایک میں خیر وبھلائي ہے ۔سنت وہی ہے جواوپر بیان کیا چکا ہے ۔
واللہ اعلم .
-----------------------------------------
www.mominsalafi.blogspot.com
-----------------------------------------
الحمد للہ
ہمارے خیال میں مسلمان کو اجتھادی مسائل میں اس طرح کا معاملہ نہيں کرنا چاہیے کہ وہ اہل علم کے مابین اجتھادی مسائل کو ایک حساس مسئلہ بنا کراسے آپس میں تفرقہ اورمسلمانوں کے مابین فتنہ کا باعث بناتا پھرے ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی دس رکعت ادا کرنے کےبعد بیٹھ کروترکا انتظار کرنے اورامام کے ساتھ نماز تراویح مکمل نہ والے شخص کے بارہ میں کہتے ہیں کہ :
ہمیں بہت ہی افسوس ہوتا ہے کہ امت مسلمہ میں لوگ ایسے مسائل میں اختلاف کرنے لگے ہیں جن میں اختلاف جائز ہے ، بلکہ اس اختلاف کو وہ دلوں میں نفرت اوراختلاف کا سبب بنانے لگے ہیں ، حالانکہ امت میں اختلاف تو صحابہ کرام کے دور سے موجود ہے لیکن اس کے باوجود ان کے دلوں میں اختلاف پیدا نہیں ہوا بلکہ ان سب کے دل متفق تھے ۔
اس لیے خاص کرنوجوانوں اورہرملتزم شخص پر واجب ہے کہ وہ یکمشت ہوں اورسب ایک دوسرے کی مدد کریں کیونکہ ان کے دشمن بہت زيادہ ہیں جوان کے خلاف تدبیروں میں مصروف ہیں ۔
دیکھیں : الشرح الممتع ( 4 / 225 ) ۔
اس مسئلہ میں دونوں گروہ ہی غلو کا شکار ہیں ، پہلے گروہ نے گیارہ رکعت سے زيادہ ادا کرنے کومنکر اوربدعت قرار دیا ہے اوردوسرا گروہ صرف گیارہ رکعت ادا کرنے والوں کو اجماع کا مخالف قرار دیتے ہیں ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ شيخ الافاضل ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی اس کی کیا توجیہ کرتے ہیں :
ان کا کہنا ہے کہ :
ہم کہیں گے گہ : ہمیں افراط وتفریط اورغلو زيب نہيں دیتا ، کیونکہ بعض لوگ تراویح کی تعداد میں سنت پر التزام کرنے میں غلو سے کام لیتے اورکہتےہیں : سنت میں موجود عدد سے زيادہ پڑھنی جائز نہيں ، اوروہ گیارہ رکعت سے زيادہ ادا کرنے والوں کوگنہگار اورنافرمان قرار دیتے اور ان کی سخت مخالفت کرتے ہیں ۔
بلاشک وشبہ یہ غلط ہے ، اسے گنہگار اورنافرمان کیسے قرار دیا جاسکتا ہے حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز کے بارہ میں سوال کيا گيا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( دو دو ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں پر تعداد کی تحدید نہیں کی ، اوریہ معلوم ہونا چاہیے کہ جس شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھااسے تعداد کا علم نہیں تھا ، کیونکہ جسے نماز کی کیفیت کا ہی علم نہ ہواس کاعدد سے جاہل ہونا زيادہ اولی ہے ، اورپھر وہ شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں میں سے بھی نہیں تھا کہ ہم یہ کہیں کہ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں ہونے والے ہرکام کا علم ہو ۔
لھذا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تعداد کی تحدید کیے بغیر نماز کی کیفیت بیان کی ہے تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ اس معاملہ میں وسعت ہے ، اورانسان کے لیے جائزہے کہ وہ سو رکعت پڑھنے کے بعد وتر ادا کرے ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ :
( نمازاس طرح ادا کرو جس طرح مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے ) ۔
یہ حدیث عموم پر محمول نہيں حتی کہ ان کے ہاں بھی یہ عموم پر نہیں ہے ، اسی لیے وہ بھی انسان پر یہ واجب قرار نہیں دیتے کہ وہ کبھی پانچ اورکبھی سات اورکبھی نو وتر ادا کریں ، اگر ہم اس حدیث کے عموم کو لیں تو ہم یہ کہيں گے کہ :
کبھی پانچ کبھی سات اور کبھی نو وتر ادا کرنے واجب ہیں ، لیکن ایسا نہیں بلکہ اس حدیث " نماز اس طرح ادا کرو جس طرح مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے" کا معنی اورمراد یہ ہے کہ نماز کی کیفیت وہی رکھو لیکن تعداد کے بارہ میں نہیں لیکن جہاں پر تعداد کی تحدید بالنص موجود ہو ۔
بہر حال انسان کو چاہیے کہ وہ کسی وسعت والے معاملے میں لوگوں پر تشدد سے کام نہ لے ، حتی کہ ہم نے اس مسئلہ میں تشدد کرنے والے بھائیوں کو دیکھا ہے کہ وہ گیارہ رکعت سے زيادہ آئمہ کو بدعتی قرار دیتے اورمسجد نے نکل جاتے ہیں جس کے باعث وہ اس اجر سے محروم ہوجاتے ہیں جس کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ :
( جو بھی امام کے ساتھ اس کے جانے تک قیام کرے اسے رات بھر قیام کا اجروثواب حاصل ہوتا ہے ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 806 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن ترمذی ( 646 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
کچھ لوگ دس رکعت ادا کرنے کے بعد بیٹھ جاتے ہیں جس کی بنا پر صفوں میں خلا پیدا ہوتا اورصفیں ٹوٹ جاتی ہیں ، اوربعض اوقات تو یہ لوگ باتیں بھی کرتے ہیں جس کی بنا پر نمازی تنگ ہوتے ہیں ۔
ہمیں اس میں شک نہيں کہ ہمارے یہ بھائي خیر اوربھلائي ہی چاہتے ہيں اوروہ مجتھد ہیں لیکن ہر مجتھد کا اجتھاد صحیح ہی نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات وہ اجتھاد میں غلطی بھی کربیٹھتا ہے ۔
اوردوسرا گروہ : سنت کا التزام کرنے والوں کے برعکس یہ گروہ گیارہ رکعت ادا کرنے والوں کوغلط قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اجماع کی مخالفت کررہے ہیں ، اوردلیل میں یہ آیت پیش کرتے ہيں :
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ جوشخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہوجانے کے بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے اورتمام مومنوں کی راہ چھوڑکر چلے ، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہوا اوردوزخ میں ڈال دیں گے ، وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے } النساء ( 115 )
آپ سے پہلے جتنے بھی تھے انہيں تئيس رکعت کے علاوہ کسی کا علم نہیں تھا ، اوروہ انہیں بہت زیادہ منکر قرار دیتے ہیں ، لھذا یہ گروہ بھی خطاء اورغلطی پر ہے ۔
دیکھیں الشرح الممتع ( 4 / 73 - 75 ) ۔
نماز تراویح میں آٹھ رکعت سے زيادہ کے عدم جواز کے قائلین کے پاس مندرجہ ذيل حدیث دلیل ہے :
ابوسلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں میں نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ کی رمضان میں نماز کیسی تھی ؟
توعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کہنے لگيں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اورغیررمضان میں گیارہ رکعت سے زيادہ ادا نہيں کرتے تھے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم چاررکعت ادا کرتے تھے آپ ان کی طول اورحسن کےبارہ میں کچھ نہ پوچھیں ، پھر چار رکعت ادا کرتے آپ ان کے حسن اورطول کے متعلق نہ پوچھیں ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت ادا کرتے ، تومیں نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ وترادا کرنے سے قبل سوتے ہیں ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن دل نہيں سوتا ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1909 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 738 )
ان کا کہنا ہے کہ یہ حدیث رمضان اورغیررمضان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کی ہمیشگی پر دلالت کرتی ہے ۔
علماء کرام نے اس حدیث کے استدلال کورد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہے اور فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا ۔
رات کی نماز کی رکعات کی تعداد مقیدنہ ہونے کے دلائل میں سب سے واضح دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے :
ابن عمر رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارہ میں سوال کیا تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( رات کی نماز دو دو رکعت ہے اورجب تم میں سےکوئي ایک صبح ہونے خدشہ محسوس کرے تو اپنی نماز کے لیے ایک رکعت وتر ادا کرلے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 946 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 749 ) ۔
اس مسئلہ میں علماء کرام کے اقوال پر نظر دوڑانے سے آپ کو یہ علم ہوگا کہ اس میں وسعت ہے اورگیارہ رکعت سے زيادہ ادا کرنے میں کوئي حرج نہيں ، ذیل میں ہم معتبرعلماء کرام کے اقوال پیش کرتے ہیں :
آئمہ احناف میں سے امام سرخسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
ہمارے ہاں وتر کے علاوہ بیس رکعات ہیں ۔
دیکھیں : المبسوط ( 2 / 145 ) ۔
اورابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
ابوعبداللہ ( یعنی امام احمد ) رحمہ اللہ تعالی کے ہاں بیس رکعت ہی مختار ہيں ، امام ثوری ، ابوحنیفہ ، امام شافعی ، کا بھی یہی کہنا ہے ، اورامام مالک رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں کہ چھتیس رکعت ہیں ۔
دیکھیں : المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 1 / 457 ) ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
علماء کرام کے اجماع میں نماز تراویح سنت ہیں ، اورہمارے مذہب میں یہ دس سلام م کے ساتھ دو دو رکعت کرکے بیس رکعات ہیں ، ان کی ادائيگي باجماعت اورانفرادی دونوں صورتوں میں ہی جائز ہیں ۔
دیکھیں : المجموع للنووی ( 4 / 31 ) ۔
نماز تراویح کی رکعات میں مذاہب اربعہ یہی ہے اورسب کا یہی کہنا ہے کہ نماز تراویح گیارہ رکعت سے زيادہ ہے ،اورگيارہ رکعت سے زيادہ کے مندرجہ ذیل اسباب ہوسکتے ہیں :
1 - ان کے خیال میں حدیث عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا اس تعداد کی تحدید کی متقاضی نہيں ہے ۔
2 - بہت سے سلف رحمہ اللہ تعالی سے گیارہ رکعات سے زيادہ ثابت ہیں
دیکھیں : المغنی لابن قدامہ ( 2 / 604 ) اورالمجموع ( 4 / 32 )
3 - نبی صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات ادا کرتے تھے اوریہ رکعات بہت لمبی لمبی ہوتی جو کہ رات کے اکثر حصہ میں پڑھی جاتی تھیں ، بلکہ جن راتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو نماز تراویح کی جماعت کروائي تھی اتنی لمبی کردیں کہ صحابہ کرام طلوع فجر سے صرف اتنا پہلے فارغ ہوئے کہ انہيں خدشہ پیدا ہوگيا کہ ان کی سحری ہی نہ رہ جائے ۔
صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نماز ادا کرنا پسند کرتے تھے اوراسے لمبا نہيں کرتے تھے ، توعلماء کرام نے کا خیال کیا کہ جب امام مقتدیوں کو اس حدتک نماز لمبی پڑھائے تو انہيں مشقت ہوگی ، اورہوسکتا ہے کہ وہ اس سے نفرت ہی کرنے لگیں ، لھذا علماء کرام نے یہ کہا کہ امام کو رکعات زيادہ کرلینی چاہیے اور قرآت کم کرے ۔
حاصل یہ ہوا کہ :
جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ہی گیارہ رکعت ادا کی اورسنت پر عمل کیا تو یہ بہتر اوراچھا اورسنت پر عمل ہے ، اورجس نے قرآت ہلکی کرکے رکعات زيادہ کرلیں اس نے بھی اچھا کیا لیکن سنت پر عمل نہيں ہوا ، اس لیے ایک دوسرے پر اعتراض نہيں کرنا چاہیے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اگرکوئي نماز تراویح امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ، اورامام احمد رحمہم اللہ کے مسلک کے مطابق بیس رکعت یا امام مالک رحمہ اللہ تعالی کے مسلک کے مطابق چھتیس رکعات ادا کرے یا گیارہ رکعت ادا کرے تو اس نے اچھا کیا ، جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے عدم توقیف کی بنا پر تصریح کی ہے ، تورکعات کی کمی اورزيادتی قیام لمبا یا چھوٹا ہونے کے اعتبار سے ہوگي ۔
دیکھیں : الاختیارات ( 64 ) ۔
امام سیوطی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
ان صحیح اورحسن احادیث جن میں رمضان المبارک کے قیام کی ترغیب وارد ہے ان میں تعداد کی تخصیص نہیں ، اورنہ ہی یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح بیس رکعت ادا کی تھیں ، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی راتیں بھی نماز تروایح کی جماعت کروائی ان میں رکعات کی تعداد بیان نہیں کی گئي ، اورچوتھی رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز تراویح سے اس لیے پیچھے رہے کہ کہيں یہ فرض نہ ہوجائيں اورلوگ اس کی ادائيگي سے عاجز ہوجائيں ۔
ابن حجر ھیثمی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
یہ صحیح نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےنماز تراویح بیس رکعات ادا کی تھیں ، اورجویہ حدیث بیان کی جاتی ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیس رکعت ادا کیا کرتے تھے "
یہ حدیث شدید قسم کی ضعیف ہے ۔
دیکھیں : الموسوعۃ الفقھیۃ ( 27 / 142 - 145 ) ۔
اس کے بعد ہم سائل سے یہ کہيں گے کہ آپ نماز تراویح کی بیس رکعات سے تعجب نہ کریں ، کیونکہ کئي نسلوں سے آئمہ کرام بھی گزرے وہ بھی ایسا ہی کرتے رہے اور ہر ایک میں خیر وبھلائي ہے ۔سنت وہی ہے جواوپر بیان کیا چکا ہے ۔
واللہ اعلم .
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)