اپنی زبان منتخب کریں

جمعرات، 19 ستمبر، 2024

خطبہ جمعہ سیرت النبی پر پہلا موضوع 2024

 

خطبہ جمعہ      سیرت النبی پر پہلا موضوع 2024

الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، الَّذِي كَرَّمَ أَوْلِيَاءَهُ وَفَطَنَ قُلُوبَ الْمَخْلُوقَاتِ بِمَحَبَّتِهِمْ، أَشْهَدُ أَنَّ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَلَا زَوْجَةَ لَهُ وَلَا وَلَدَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا ﷺ عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَأَفْضَلُ النَّاسِ تَقْوًى وَسَخَاءً. اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَعَلَى جَمِيعِ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَجْمَعِينَ وَسَلِّمْ.
يَاأَيها الذين آ مَنُوا اتقُوا اللهَ حَق تُقَا ته ولاتموتن إلا وأنتم مُسلمُون,يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيراً وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَتَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيباً,

 يَا أ يها الذين آ منوا اتقوا الله وقولوا قَو لاً سَديداً يُصلح لَكُم أَ عما لكم وَ يَغفر لَكُم ذُ نُو بَكُم وَ مَن يُطع الله وَ رَسُولَهُ فَقَد فَازَ فَوزاً عَظيمأَمَّا بَعْدُ:

فَإِنَّ أَصْدَقَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ، وَأَحْسَنَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ، وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ، وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ

 اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰی اِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ

اَللّٰهُمّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰی اِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ [q

ربنا آتنا فى الدنيا حسنة و فى الآخرة حسنة و قنا عذاب النار ۔

ربنا افرغ علينا صبراً وثبت اقدامنا وانصرنا على القوم الکافرين۔

ربنا لا تواخذنا ان نسينا او اخطاٴنا۔ربنا ولا تحمل علينا اصراًکما حملتہ على الذين من قبلنا۔
ربنا ولا تحملنا مالا طاقة لنابہ واعف عنا واغفرلنا وارحمنآ انت مولانا فانصرناعلى القوم الکافرين۔
ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ہديتنا وھب لنا من لدنک رحمة انک انت الوھاب۔
ربنا اننا آمنا فاغفرلنا ذنوبنا وقنا عذاب النار۔
ربنا اغفر لنا ذنوبنا و اسرافنا فى امرنا وثبت اقدامنا و انصرنا على القوم الکافرين۔
ربنا فاغفر لنا ذنوبنا وکفر عنا سيئاتنا و توفنا مع الابرار
۔

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ وَالْهَرَمِ وَالْقَسْوَةِ وَالْغَفْلَةِ وَالْعَيْلَةِ وَالذِّلَّةِ وَالْمَسْكَنَةِ،
وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْفَقْرِ وَالْكُفْرِ وَالشِّرْكِ وَالْفُسُوقِ وَالشِّقَاقِ وَالنِّفَاقِ وَالسُّمْعَةِ وَالرِّيَاءِ.
وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الصَّمَمِ وَالْبَكَمِ وَالْجُنُونِ وَالْجُذَامِ وَالْبَرَصِ وَسَيِّئِ الْأَسْقَامِ.
وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ غَلَبَةِ الدَّيْنِ وَقَهْرِ الرِّجَالِ
، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ وَتَحَوُّلِ عَافِيَتِكَ وَفُجَاءَةِ نِقْمَتِكَ وَجَمِيعِ سَخَطِكَ.
وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ جَحْدِ الْبَلَاءِ وَدَرَكِ الشَّقَاءِ وَسُوءِ الْقَضَاءِ وَشَمَاتَةِ الْأَعْدَاءِ.

**
یتیمی اور اللہ کی مدد**
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی یتیمی کا ذکر قرآن مجید میں یوں کیا گیا ہے:
**
قرآن کریم:** 
"
أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَىٰ" (الضحى: 6) 
**
ترجمہ:** "کیا اللہ نے تمہیں یتیم نہیں پایا اور پھر تمہیں ٹھکانہ دیا؟"
**
تفسیر ابن کثیر میں:** 
قال ابن کثیر رحمہ اللہ: "وَجَدَكَ يَتِيمًا فَآوَىٰ: أي ضالًا في قومك فهداك، ويتيمًا لا أبًا لك فآواك." 
**ترجمہ:** "اللہ نے آپ کو یتیم پایا اور آپ کو پناہ دی۔"
### 2. **
دیانت داری اور صداقت**

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی دیانت داری اور صداقت کو قریش نے "الامین" اور "الصادق" کے لقب سے نوازا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی دیانت داری کے حوالے سے حدیث شریف ہے:
**
حدیث:** 
قالت عائشة رضي الله عنها: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُدْعَىٰ فِي قَوْمِهِ قَبْلَ النُّبُوَّةِ الصَّادِقَ الْأَمِينَ." (صحيح بخاري) 
**ترجمہ:** "حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو نبوت سے پہلے اپنی قوم میں صادق اور امین کہا جاتا تھا۔"
### 3. **
نبوت سے پہلے روحانی تفکر**
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی روحانی تفکر اور غار حرا میں غور و فکر کے بارے میں امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
**
قول امام غزالی:** 
قال الإمام الغزالي: "كَانَ تَفَكُّرُهُ فِي غَارِ حِرَاء تَهْيِئَةً لِتَلَقِّي الْوَحْيِ، وَلِكَيْ تَكُونَ قَلْبُهُ وَرُوحُهُ فِي أَعْلَىٰ مَرَاتِبِ النُّورِ." 
**
ترجمہ:** "غار حرا میں آپ کا غور و فکر وحی کے نزول کے لیے تیاری تھی تاکہ آپ کا قلب اور روح نور کی اعلیٰ منازل میں پہنچے۔"

### 4. **
پہلی وحی اور نبوت کا اعلان**
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو پہلی وحی غار حرا میں نازل ہوئی، جس کا ذکر قرآن میں ہے:
**
قرآن کریم:** 
"
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ" (العلق: 1) 
**
ترجمہ:** "پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔"
### 5. **
ابتدائی دعوت اور مشکلات**
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی دعوت کے آغاز کے بعد آپ کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، مگر آپ نے ہمیشہ صبر سے کام لیا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے صبر کرنے کا حکم دیا:
**
قرآن کریم:** 
"وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيلًا" (المزمل: 10) 
**
ترجمہ:** "اور ان کی باتوں پر صبر کرو اور انہیں خوبصورت انداز میں چھوڑ دو۔"
**
قول حضرت عمر بن خطاب:** 
قال عمر بن الخطاب رضي الله عنه: "إِنَّ فِي صَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ عَلَىٰ أَذَىٰ قُرَيْشٍ دَرْسًا عَظِيمًا لِلْمُسْلِمِينَ فِي كَيْفِيَّةِ مُوَاجَهَةِ الصِّعَابِ." 
**ترجمہ:** "حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: قریش کی اذیتوں پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا صبر مسلمانوں کے لیے ایک عظیم درس ہے کہ کیسے مشکلات کا سامنا کیا جائے۔"
### 6. **
ہجرت اور مدینہ کی اسلامی ریاست کا قیام**
جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اللہ کے حکم سے ہجرت کی، تو اللہ نے ہجرت کرنے والوں کے بارے میں فرمایا:
**
قرآن کریم:** 
"
وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً" (النحل: 41) 
**ترجمہ:** "اور جو لوگ اللہ کی راہ میں ظلم سہنے کے بعد ہجرت کر گئے، ہم انہیں دنیا میں بہترین بدلہ دیں گے۔"
## 7. **
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی شخصیت کا اثر**

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی شخصیت کی عظمت اور ان کے کردار کو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یوں بیان کیا:
**
قول امام ابن تیمیہ:** 
قال ابن تيمية رحمه الله: "كَانَتْ حَيَاةُ النَّبِيِّ ﷺ كُلُّهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَمَرْضَاتِهِ، وَهَذَا هُوَ الْمِثَالُ الْأَعْلَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ." 
**ترجمہ:** "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی زندگی مکمل طور پر اللہ کی رضا کے لیے تھی، اور یہ مسلمانوں کے لیے اعلیٰ ترین مثال ہے۔"
یہاں مزید چند اقوال اور احادیث شامل کی جا رہی ہیں جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ابتدائی زندگی اور کردار کے مختلف پہلوؤں کو مزید واضح کرتی ہیں۔

### 8. **
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی تعلیمات اور اللہ پر بھروسہ**
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ہمیشہ اللہ پر بھروسہ کرنے کی تعلیم دی، چاہے کتنی ہی مشکلات کا سامنا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی زندگی کی مشکلات اور آزمائشوں کے باوجود آپ کا اللہ پر بھروسہ کبھی کم نہیں ہوا۔
**
حدیث:** 
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ" 
(
ترمذی، حدیث نمبر2516
**
ترجمہ:** "حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا: جب تم مانگو تو اللہ سے مانگو، اور جب مدد طلب کرو تو اللہ سے مدد طلب کرو۔"
یہ حدیث ہمیں سکھاتی ہے کہ ہر حالت میں اللہ سے ہی مدد طلب کرنی چاہیے، اور یہ وہی اصول ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنی پوری زندگی میں اپنایا۔

 


### 9. **
اخلاق اور بہترین کردار**

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے اخلاق اور کردار کی گواہی قرآن مجید بھی دیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو اللہ تعالیٰ نے بہترین اخلاق کا حامل قرار دیا ہے۔
**
قرآن کریم:** 
"وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ" (القلم: 4) 
**
ترجمہ:** "اور بے شک تم عظیم اخلاق کے مالک ہو۔"
**
قول امام مالک رحمہ اللہ:** 
قال الإمام مالك رحمه الله: "كَانَ النَّبِيُّ ﷺ أَفْضَلَ النَّاسِ خُلُقًا، وَكَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ، فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يَتَخَلَّقَ بِالْأَخْلَاقِ الْفَاضِلَةِ فَلْيَتَّبِعْ خُلُقَ النَّبِيِّ." 
**
ترجمہ:** "امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا اخلاق سب سے افضل تھا اور ان کا اخلاق قرآن تھا۔ جو بھی افضل اخلاق کو اپنانا چاہے، اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے اخلاق کی پیروی کرنی چاہیے۔"

### 10. **
صبر اور مشکلات کا سامنا**

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی زندگی میں مشکلات کا سامنا کرنے اور صبر کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ مکہ میں آپ کو قریش کے سرداروں کی طرف سے بہت سی اذیتیں دی گئیں، مگر آپ نے ہمیشہ صبر کا مظاہرہ کیا۔
**
حدیث:** 
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً خَيْرًا وَأَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ
(بخاری، حدیث نمبر1469
**
ترجمہ:** "حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا: کسی کو بھی صبر سے زیادہ بہتر اور وسیع عطا نہیں دی گئی۔"
یہ حدیث ہمیں سکھاتی ہے کہ صبر ایک عظیم صفت ہے جو اللہ کی طرف سے عطا ہوتی ہے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنی پوری زندگی میں اس کا عملی مظاہرہ کیا۔

### 11. **
امت کے لیے خیر خواہی**
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ہمیشہ اپنی امت کے لیے خیر خواہی کا اظہار کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو اپنی امت کی فکر ہر وقت رہتی تھی۔
**
قول امام حسن بصری:** 
قال الحسن البصري رحمه الله: "كَانَ النَّبِيُّ ﷺ أَشَدَّ النَّاسِ حِرْصًا عَلَىٰ أُمَّتِهِ، يَسْعَىٰ فِي هِدَايَتِهِمْ وَإِخْرَاجِهِمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَىٰ النُّورِ." 
**
ترجمہ:** "امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اپنی امت کی بھلائی کے لیے سب سے زیادہ فکرمند تھے، اور وہ ہمیشہ انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔"

12. **نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی دعا اور اللہ سے تعلق**
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اللہ سے گہرا تعلق رکھتے تھے اور ہر معاملے میں اللہ سے دعا مانگتے تھے۔ آپ کی دعائیں امت کے لیے خیر و برکت کا باعث تھیں۔


**
حدیث:** 
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: "كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكْثِرُ أَنْ يَقُولَ فِي دُعَائِهِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْهُدَى وَالتُّقَى وَالْعَفَافَ وَالْغِنَى
(
مسلم، حدیث نمبر4898
**
ترجمہ:** "حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اپنی دعا میں اکثر فرماتے: اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت، تقویٰ، پاکدامنی اور بے نیازی مانگتا ہوں۔"
خلاصہ:
ان اقوال اور احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ابتدائی زندگی اور کردار امت کے لیے عملی نمونہ ہے۔ آپ کے صبر، دیانت داری، صداقت، اللہ پر بھروسہ، امت کی خیر خواہی اور دعا کے مختلف پہلوؤں میں ہم سب کے لیے بہت ساری رہنمائی موجود ہے۔

خطبات جمعہ محبت رسول اور اس کی تقاضے


ریاست مدینہ کے قیام اور اس کے اصولوں کے متعلق قرآن مجید کی آیات اور احادیث نبویﷺ کی روشنی میں دس قرآنی آیات اور دس احادیث درج ذیل ہیں:

###
قرآنی آیات:

1. **
عقیدہ توحید اور اللہ کی حاکمیت:**
   - **
آیت:** *"إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ"* (سورۃ المائدہ: 55)
   - **
ترجمہ:** "یقیناً تمہارا ولی اللہ، اس کا رسول اور وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے آگے جھکتے ہیں۔"

2. **
عدل و انصاف کا قیام:**
   - **
آیت:** *"إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ"* (سورۃ النساء: 58)
   - **
ترجمہ:** "اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حقداروں کو ادا کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو۔"

3. **
اخوت اور مساوات:**
   - **
آیت:** *"إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ"* (سورۃ الحجرات: 10)
   - **
ترجمہ:** "مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں، لہذا اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرو۔"

4. **
مساوات اور حقوق:**
   - **
آیت:** *"يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ"* (سورۃ النساء: 1)
   - **
ترجمہ:** "اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا۔"

5. **
زکوٰۃ اور صدقات:**
   - **
آیت:** *"خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا"* (سورۃ التوبہ103)
   - **
ترجمہ:** "ان کے مالوں میں سے صدقہ لو، تاکہ اس کے ذریعے انہیں پاکیزہ کر دو اور ان کا تزکیہ کرو۔"

6. **
تعلیم کی اہمیت:**
   - **
آیت:** *"قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ"* (سورۃ الزمر: 9)
   - **
ترجمہ:** "کہہ دو کہ کیا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور جو علم نہیں رکھتے، برابر ہو سکتے ہیں؟"

7. **
امن و امان:**
   - **
آیت:** *"وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ"* (سورۃ الانفال: 61)
   - **
ترجمہ:** "اور اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی اس کی طرف جھک جاؤ اور اللہ پر بھروسہ رکھو۔"

8. **
قانون کی پابندی:**
   - **
آیت:** *"وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ"* (سورۃ المائدہ: 2)
   - **
ترجمہ:** "اور نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو، اور گناہ اور ظلم کے کاموں میں مدد نہ کرو۔"

9. **
حقوق العباد:**
   - **
آیت:** *"وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ"* (سورۃ الذاریات: 19)
   - **
ترجمہ:** "اور ان کے مالوں میں سوال کرنے والوں اور محتاجوں کا حق ہے۔"

10. **
عہد اور معاہدات کی پاسداری:**
    - **
آیت:** *"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ"* (سورۃ المائدہ: 1)
    - **
ترجمہ:** "اے ایمان والو! اپنے عہدوں کو پورا کرو۔"

###
احادیث:

1. **
اخوت کا قیام:**
   - **
حدیث:** "مومنوں کی مثال آپس میں محبت کرنے، رحم کھانے اور شفقت کرنے میں ایک جسم کی طرح ہے کہ اگر جسم کا ایک حصہ تکلیف میں ہو تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔" (صحیح بخاری، حدیث نمبر6011)

2. **
عدل و انصاف:**
   - **
حدیث:** "سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ اچھا ہو، اور میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ سب سے بہتر ہوں۔" (سنن الترمذی، حدیث نمبر3895)

3. **
تعلیم کی اہمیت:**
   - **
حدیث:** "علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔" (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر224)

4. **
زکوٰۃ اور صدقات:**
   - **
حدیث:** "صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا بلکہ زیادہ ہوتا ہے۔" (صحیح مسلم، حدیث نمبر2588)

5. **
معاشرتی انصاف:**
   - **
حدیث:** "جس نے کسی مسلمان کو ایک مشکل سے نجات دلائی، اللہ قیامت کے دن اس کی ایک مشکل سے نجات دے گا۔" (صحیح مسلم، حدیث نمبر2699)

6. **
امن و امان:**
   - **
حدیث:** "مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔" (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 10)

7. **
حقوق العباد:**
   - **
حدیث:** "جو شخص اپنے بھائی کی حاجت پوری کرتا ہے، اللہ اس کی حاجت پوری کرے گا۔" (صحیح بخاری، حدیث نمبر2442)

8. **
اخوت و مساوات:**
   - **
حدیث:** "تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔" (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 13)

9. **
عہد کی پاسداری:**
   - **
حدیث:** "جس نے وعدہ کیا اور پورا نہ کیا، اس کا ایمان نہیں۔" (صحیح مسلم، حدیث نمبر1599)

10. **
حقوق العباد:**
    - **
حدیث:** "مسلمان وہ ہے جس سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، اور مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنی جان اور مال کے بارے میں بے خوف ہوں۔" (جامع الترمذی، حدیث نمبر2627)

یہ آیات اور احادیث ریاست مدینہ کے اصولوں کی تشکیل اور اس کے عملی نفاذ کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہیں، جو کہ عدل، اخوت، مساوات، اور اللہ کی حاکمیت پر مبنی ہیں۔

منگل، 17 ستمبر، 2024

احناف کا رد عید میلاد پر

 عید میلاد النبی ﷺ کا اہتمام کرنے والوں کے رد میں احناف نے کئی دلائل اور حوالہ جات پیش کیے ہیں جن کی بنیاد قرآن و سنت، صحابہ کرام کے عمل اور فقہ حنفی کی تعلیمات پر رکھی گئی ہے۔ ذیل میں احناف کے دلائل کو مستند حوالہ جات کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے:


### 1. **بدعت کا تصور**:

احناف کی فقہی کتب میں بدعت کی مختلف اقسام بیان کی گئی ہیں اور عید میلاد النبی ﷺ کو "بدعت" قرار دینے کے لیے اس اصول کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ ہر وہ عمل جو دین میں بعد میں ایجاد ہو اور جس کی اصل قرآن و سنت میں نہ ہو، اسے بدعت کہا جاتا ہے۔


- امام شاطبی اپنی کتاب *الاعتصام* میں فرماتے ہیں: 

  "بدعت ہر وہ نئی چیز ہے جو کتاب اللہ، سنت رسول اللہ ﷺ، اجماع امت یا قیاس شرعی سے ثابت نہ ہو" ۔

  

  عید میلاد کا اہتمام چونکہ نبی کریم ﷺ کے زمانے، صحابہ کرام یا تابعین کے دور میں نہیں تھا، اس لیے اسے بدعت کہا جاتا ہے۔


### 2. **صحابہ اور تابعین کا عمل**:

احناف کے ہاں صحابہ کرام اور تابعین کا عمل دین کا معیار ہے۔ چونکہ نبی کریم ﷺ کی ولادت ایک عظیم واقعہ تھی، اگر اس کا جشن منانا مسنون یا مستحب ہوتا تو صحابہ کرام لازمی طور پر اس پر عمل پیرا ہوتے۔


- امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

  "جو کام رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ نے نہیں کیا، وہ دین نہیں ہو سکتا" ۔


  اس قول کے مطابق، عید میلاد منانے کا عمل چونکہ صحابہ سے ثابت نہیں، اس لیے اسے دین کا حصہ نہیں سمجھا جا سکتا۔


### 3. **عبادت میں اضافہ**:

فقہ حنفی میں یہ اصول ہے کہ عبادت کا وہی طریقہ معتبر ہے جو شریعت میں واضح طور پر موجود ہو۔ عبادت میں کوئی نیا اضافہ کرنا بدعت کے زمرے میں آتا ہے۔


- امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

  "اگر کوئی شخص کسی ایسے عمل کو دین کا حصہ بناتا ہے جو قرآن و سنت سے ثابت نہیں، تو وہ بدعت کا مرتکب ہے" ۔


  عید میلاد منانے کا طریقہ چونکہ نبی کریم ﷺ اور ان کے صحابہ سے ثابت نہیں، اس لیے یہ عمل شریعت میں ایک نیا اضافہ ہے جو قبول نہیں۔


### 4. **شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا قول**:

اگرچہ ابن تیمیہ کا تعلق حنبلی مکتب فکر سے تھا، مگر ان کی رائے احناف میں بھی معتبر سمجھی جاتی ہے۔ انہوں نے عید میلاد کے اہتمام کو بدعت قرار دیا۔


- ابن تیمیہ اپنی کتاب *اقتضاء الصراط المستقیم* میں لکھتے ہیں:

  "عید میلاد کا منانا بدعت ہے، کیونکہ یہ عمل نہ نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے اور نہ ہی صحابہ کرام سے   ان کے مطابق، اس عمل کا کوئی شرعی ثبوت موجود نہیں اور یہ دین میں ایک غیر ضروری اضافہ ہے۔


### 5. **فقہ حنفی کی کتب میں بدعت کی مذمت**:

فقہ حنفی کی مختلف کتب میں بدعات کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد بدعت کو دین کے لئے ایک بڑا خطرہ سمجھتے تھے۔


- *الدر المختار* میں ہے:

  "ہر وہ نیا عمل جو دین میں شامل کیا جائے اور جس کا ثبوت نبی کریم ﷺ یا صحابہ کرام سے نہ ہو، وہ بدعت ہے" ۔


  عید میلاد کا اہتمام اس اصول کے مطابق بدعت ہے کیونکہ اس کا کوئی واضح ثبوت دین کے ابتدائی مصادر میں نہیں ملتا۔


### 6. **مقصد کا بگاڑ**:

احناف کے علماء کے نزدیک عید میلاد کا اہتمام بسا اوقات غیر اسلامی افعال جیسے اسراف، موسیقی، اور دیگر فضول سرگرمیوں کا باعث بنتا ہے، جو دین کی اصل روح کے منافی ہے۔


- *فتح القدیر* میں علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں:

  "دین میں نئے طریقے ایجاد کرنا اور ان کو دین سمجھ کر انجام دینا دین کے مقاصد کو نقصان پہنچاتا ہے" ۔


  عید میلاد کے اجتماعات میں اسراف اور غیر اسلامی سرگرمیوں کی وجہ سے یہ عمل نہ صرف بدعت بلکہ دین کی تعلیمات کے خلاف بھی ہے۔


### 7. **ذاتی محبت اور شرعی حکم**:

احناف کے نزدیک نبی کریم ﷺ سے محبت کا اظہار ان کی سنتوں پر عمل کرنے میں ہے، نہ کہ دین میں نئے رسم و رواج ایجاد کرنے میں۔


- امام ابو یوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

  "محبت رسول ﷺ کا اصل طریقہ ان کی سنت کی پیروی کرنا ہے" ۔


  عید میلاد منانے کا عمل اگرچہ بظاہر محبت رسول ﷺ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، مگر یہ نبی کریم ﷺ کی سنت کے خلاف ہے۔


### 8. **اہل سنت والجماعت کا طریقہ**:

احناف کے علماء اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اہل سنت والجماعت کا طریقہ ہمیشہ قرآن، سنت اور صحابہ کرام کی پیروی پر مبنی رہا ہے۔ چونکہ عید میلاد منانا صحابہ کرام یا تابعین سے ثابت نہیں، اس لیے یہ عمل اہل سنت والجماعت کے طریقے کے خلاف ہے۔


- امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے:

  "جو بات صحابہ کرام نے دین میں داخل نہیں کی، وہ ہمارے لئے بھی دین نہیں ہو سکتی" ۔


  اس قول کی روشنی میں عید میلاد النبی ﷺ کا اہتمام دین کا حصہ نہیں ہو سکتا۔


### نتیجہ:

احناف کی زبانی، عید میلاد النبی ﷺ کا اہتمام ایک بدعت ہے جو دین میں غیر ثابت شدہ اضافے کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔ اس کے خلاف دلائل قرآن و سنت، صحابہ کرام کے عمل اور فقہ حنفی کے اصولوں پر مبنی ہیں۔ احناف کے نزدیک دین میں کسی بھی نئے عمل کو شامل کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے تاکہ دین اپنی اصل شکل میں برقرار رہے۔


--- 


### حوالہ جات:

1. *الاعتصام*، امام شاطبی  

2. *الموطا*، امام مالک  

3. *فقہ حنفی*، امام ابو حنیفہ  

4. *اقتضاء الصراط المستقیم*، ابن تیمیہ  

5. *الدر المختار*، علامہ حصکفی  

6. *فتح القدیر*، علامہ ابن ہمام  

7. *کتاب الحیل*، امام ابو یوسف  

8. *فتاویٰ ہندیہ*

کتابچہ "علماء کے حقوق کا خلاصہ سمری

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

الحمدللہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ  اما بعد 

کل ہم باغ مہتاب کے ایک 

(One day workshop) پر علم کی مجلس میں اپنے استاد محترم سے درس و تدریس سماعت فرما رہے تھے کہ محترم استاد نے اس کتاب کا حوالہ دیا اور اس کو پڑھنے اور لوگوں تک پہنچانے کا ہم سے وعدہ لیا تو اس چیز کو مدنظر رکھ کر اللہ کے فضل و کرم سے اس کتاب کا خلاصہ اور{سمری} اپ کی خدمت میں حاضر کر رہا ہوں

کتابچہ "علماء کے حقوق" میں علمائے کرام کے مقام، اہمیت اور ان کے حقوق کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس کتابچہ کی بنیاد اس تصور پر رکھی گئی ہے کہ علماء، دین کے محافظ اور علم کے وارث ہیں۔ اسلامی معاشروں میں ان کی حیثیت اور کردار کو بلند مقام دیا جاتا ہے، کیونکہ وہ شریعت کی تعلیمات کو عوام تک پہنچانے، اسلامی قوانین کی تشریح کرنے اور لوگوں کو صحیح راہنمائی فراہم کرنے کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔


### علماء کا مقام اور اہمیت

کتاب میں اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ علماء کو قرآن و سنت میں ایک عظیم مقام عطا کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے علماء کو خدائی معرفت رکھنے والے اور خشیت الٰہی کے حامل افراد کے طور پر ذکر کیا ہے۔ اسی طرح احادیث میں بھی علماء کی فضیلت پر زور دیا گیا ہے، جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ "علماء انبیاء کے وارث ہیں"۔ ان کا کردار معاشرے کی روحانی اور فکری رہنمائی میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔


### علمائے کرام کے حقوق

کتاب میں علمائے کرام کے حقوق کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، جنہیں عوام الناس اور حکمرانوں کی طرف سے پورا کیا جانا چاہئے۔ ان حقوق کو چند اہم نقاط میں بیان کیا گیا ہے:


1. **احترام اور عزت**: علماء کو ان کی علمیت اور دینی خدمات کی بنیاد پر عزت اور احترام دیا جانا چاہئے۔ یہ معاشرتی طور پر ان کا حق ہے کہ ان کی بات کو غور سے سنا جائے اور ان کی تعلیمات پر عمل کیا جائے۔


2. **معاشرتی اور مالی معاونت**: علمائے کرام کا ایک اہم حق یہ ہے کہ ان کی معاشی ضروریات کا خیال رکھا جائے، تاکہ وہ بغیر کسی مالی تنگی کے دین کی خدمت کر سکیں۔ معاشرہ اور حکمران دونوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ علماء کو معاشی معاونت فراہم کریں۔


3. **آزادیٔ اظہار**: علماء کو آزادانہ طور پر دین کی تعلیمات کو بیان کرنے کا حق حاصل ہونا چاہئے، بغیر کسی خوف یا جبر کے۔ یہ ان کا حق ہے کہ وہ سچائی کو بیان کریں اور دین کے خلاف ہونے والی کسی بھی گمراہی کو روکنے کے لئے کھل کر بات کریں۔


4. **تعلیم و تدریس کے مواقع**: علماء کا حق ہے کہ ان کو علم حاصل کرنے اور دوسروں کو علم دینے کے لئے بھرپور مواقع فراہم کیے جائیں۔ مدارس، مساجد اور دیگر تعلیمی اداروں کو ان کی دسترس میں رکھا جائے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھا سکیں۔


### علماء کی ذمہ داریاں

حقوق کے ساتھ ساتھ علماء پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جنہیں کتاب میں بیان کیا گیا ہے۔ ان میں سرفہرست:


1. **اخلاص**: علماء کو اپنی نیتوں کو خالص رکھنا چاہئے اور علم کو صرف اللہ کی رضا کے لئے سیکھنا اور سکھانا چاہئے۔


2. **عمل اور کردار**: علماء کو اپنے علم کے مطابق عمل کرنا چاہئے تاکہ ان کی باتوں اور عمل میں تضاد نہ ہو۔ وہ لوگوں کے لئے نمونہ ہونے چاہئیں۔


3. **نرمی اور حکمت**: دین کی تبلیغ کرتے وقت نرمی اور حکمت سے کام لینا چاہئے۔ سختی اور شدت پسندی سے بچنا چاہئے تاکہ لوگ دین کی طرف راغب ہوں۔


### موجودہ دور میں علماء کا کردار

کتاب میں موجودہ دور کے چیلنجز کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ علماء کو کس طرح ان چیلنجز کا سامنا کرنا چاہئے۔ عصر حاضر میں دین کے خلاف اٹھنے والے مختلف نظریات اور گمراہیوں کو روکنے کے لئے علماء کو بھرپور تیاری اور آگاہی ہونی چاہئے۔ اس مقصد کے لئے انہیں جدید علوم سے بھی واقفیت حاصل کرنی چاہئے تاکہ وہ دینی مسائل کا حل عصر حاضر کی ضروریات کے مطابق پیش کر سکیں۔


### معاشرے کے لئے پیغام

آخر میں، کتاب میں عوام الناس کے لئے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ وہ علماء کے ساتھ تعاون کریں، ان کی باتوں کو سنیں اور ان کی رہنمائی میں زندگی گزاریں۔ علماء معاشرے کی اصلاح کے لئے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے بغیر معاشرے کا دینی اور اخلاقی زوال یقینی ہے۔


### خلاصہ

"علماء کے حقوق" ایک ایسی تحریر ہے جو علماء کی اہمیت، ان کے حقوق اور ان کی ذمہ داریوں کو بیان کرتی ہے۔ اس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ علماء کو معاشرتی، مالی اور تعلیمی سطح پر بھرپور معاونت فراہم کی جائے اور انہیں عزت دی جائے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے انجام دے سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ علماء کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرنا چاہئے اور اخلاص، علم اور عمل کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دینا چاہئے۔ اس طرح علماء اور عوام کے درمیان ایک مثالی تعلق قائم ہو سکتا ہے جو اسلام کے اصولوں پر مبنی معاشرہ کے قیام میں مددگار ثابت ہوگا۔