جمعرات، 1 اگست، 2019

قربانی اور عیدالاضحی کے اہم مسائل ، کتاب وسنت کی روشنی میں


بسم اللہ الرحمن الرحیم 

قربانی اور عیدالاضحی کے اہم مسائل ، کتاب وسنت کی روشنی میں

الحمد للہ رب العالمین والصلاةوالسلام علی أشرف الا نبیاء والمرسلین وعلی آلہ وصحبہ أجمعین وبعد ،،،،،،،،
قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے . نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ہمیشہ اس کا اہتمام فرمایا اور اپنی امت کو بھی اس کا اہتمام کرنے کا حکم دیا . قرآن وسنت میں اس کے متعلق مختلف دلائل موجود ہیں . ارشاد باری تعالی ہے ( فصل لربک وانحر ) ٫٫پس آپ اپنے رب کیلئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے،،

حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ٫٫اس دن ہم پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ نماز عید ادا کرتے ہیں پھر واپس آکر قربانی کرتے ہیں ، جس شخص نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت کو پالیا ،،.

( صحیح بخاری حدیث نمبر ٥٥٤٥ ،مسلم حدیث نمبر ١٥٥٣) .



نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سنت ابراہیمی پر مداومت اور ہمیشگی فرمائی ہے . جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں :٫٫ کان النی صلی اللہ علیہ وسلم یضحی بکبشین وأنا أضحی بکبشین ،، یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو مینڈھے ذبح کیاکرتے تھے اور میں بھی دو مینڈھے ذبح کرتا ہوں . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو بھی تاکید فرمائی کہ وہ ہر سال قربانی کی سنت ادا کریں، جیسا کہ مخنف بن سلیم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے لوگو ! ہر سال ہر گھر والے پر قربانی ہے

(صحیح سنن الترمذی ٩٣٢ ، صحیح النسائی ٨٨٦٣ ).



اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرنے والوں پر شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :٫٫ من کان لہ سعة فلم یضح فلایقربن مصلانا ،، ترجمہ : ٫٫جو آسودہ حال ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے،،

(صحیح سنن ابن ماجہ ١٩٩٢) 

بلکہ صحابہ کرام قربانی کے جانور پالتے تھے جیسا کہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا : ٫٫ کنا نسمن الضحیة بالمدینة وکان المسلمون یسمنون ،، ہم مدینہ طیبہ میں قربانی کے جانور کی پرورش کرکے فربہ کرتے تھے اور دیگر مسلمان بھی اسی طرح انھیں پال کر موٹا کرتے تھے .

(صحیح البخاری ،االأضاح} 

٭جو شخص قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اسے چاہئے کہ ذوالحجہ کا چاند نظر آجانے کے بعد اپنے بالوں اور ناخنوں کو کاٹنے اور تراشنے سے باز رہے . جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم کا ارشاد ہے آپ نے فرمایا : ٫٫ ذا رأیتم ہلال ذی الحجة وأراد أحدکم أن یضحے فلیمسک عن شعرہ وظفرہ ،، جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تمھارا ارادہ قربانی کرنے کا ہو تو اپنے بالوں اور ناخونوں کو کاٹنے اور تراشنے سے باز رہو .لیکن کسی قربانی کا ارادہ رکھنے والے شخص نے اپنے بالوں یا ناخونوں کو کاٹ لیا تو اس پر کوئی فدیہ نہیں البتہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی سے استغفار کرنا چاہئے ۔

٭ میت کو بھی قربانی میں شریک کرنا جائز ہے جیسا کہ امام مسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کی ہے جسکا ترجمہ یہ ہے ٫٫ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگوں والا مینڈھا لانے کا حکم دیا جس کے ہاتھ ، پاؤں، پیٹ اور آنکھیں سیاہ ہوں . چنانچہ وہ آپ کے پاس لایا گیا تاکہ آپ اس کی قربانی کریں . پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : اے عائشہ ! چھری لاؤ . پھر آپ نے فرمایا : اسکو پتھر پر تیز کرو . انھوں نے حکم کی تعمیل کی . پھر آپ نے چھری کو تھاما اور مینڈھے کو ذبح کرنے کیلئے لٹا دیا پھر آپ نے فرمایا : ٫٫ اللہ کے نام کے ساتھ ، اے اللہ ! محمد ، آل محمد اور امت محمد کی طرف سے قبول فرما،،.

( مسلم حدسث نمبر ١٩٨٧ }

٭ قربانی کے لئے دو دانتا جانور ہونا چاہئے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ٫٫لاتذبحوا لا مسنة لا أن یعسر علیکم فتذبحوا جذعة من الضأن،، یعنی صرف دو دانتا جانور کی قربانی کرو اگر ایسا جانور نہ مل سکے تو جذعہ ( دو دانت سے کم عمر کا دنبہ ) ذبح کرلو . ( صحیح مسلم حدیث نمبر ١٩٦٣) حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ (جذعہ) کی عمر کے بارے میں رقمطراز ہیں : جمہور کے قول کے مطابق بھیڑ میں سے (جذعہ) وہ ہے جس نے اپنی عمر کا ایک سال مکمل کرلیا ہو . ( فتح الباری ٥١٠) 

٭خصی اور غیر خصی دونوں قسم کے جانور کی قربانی کرنا سنت مطہرہ سے ثابت ہے .

(تفصیلات کیلئے دیکھئے ، ارواء الغلیل ٢٥١٤، سنن ابو داؤد حدیث نمبر ٢٧٩٣ }

٭ قربانی کا جانور موٹا ، تازہ ، خوبصورت اور ہر قسم کے عیب سے پاک ہونا چاہئے . وہ جانور جن کی قربانی جائز نہیں . اس کی تفصیلات مندرجہ ذیل حدیث سے معلوم ہوتی ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ٫٫ ہم جانور کی آنکھیں اور کان اچھی طرح دیکھ لیں اور ایسا جانور نہ ذبح کریں جس کا کان اوپر یا نیچے سے کٹا ہو ، جس کے کان لمبائی میں کٹے ہوں یا جس کے کان میں گول سوراخ ہو،، .

( سنن ترمذی ١ ٢٨٣۔ ابوداؤد حدیث نمبر ٨٢٠٤) 

نیز حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا : کس جانور کی قربانی سے بچا جائے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے اشارہ کرکے کہا کہ چار قسم کے جانور وں کی قربانی منع ہے (١) لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو (٢) کانا جانور جس کا کانا پن ظاہر ہو (٣) بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو (٤) لاغر جانور جس کی ہڈیوں میں بالکل گودا نہ ہو ،،.

( موطا ٢/ ٥٨٢ ، ترمذی ١ ٢٨٣ ، ابن ماجہ حدیث نمبر ٣١٤٤ وغیرہ ) .

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کے جانوروں میں معمولی عیب کی معافی ہے لیکن جن جانوروں میں ان عیوب سے بڑا عیب ہوگا ان کی قربانی جائز نہیں ہوگی. 

٭قربانی کا وقت نماز عید کے بعد شروع ہوتا ہے . اور ١٣ ذوالحجہ کو غروب آفتاب تک رہتا ہے اس لئے کہ ١١، ١٢، ١٣ ذوالحجہ کو ایام تشریق کہتے ہیں اور حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ٫٫ کل أیام تشریق ذبح ،، کہ سارے ایام تشریق ذبح کے دن ہیں . (فتح الباری ١٠ ١١ ) 

٭ ایک بکرے یا بھیڑ میں ایک سے زیادہ آدمی حصہ دار نہیں ہو سکتے البتہ گائے میں سات آدمی اور اونٹ میں دس آدمی حصہ دار ہو سکتے ہیں . اگر کوئی ایک سے زائد حصے رکھنا چاہے یا اکیلا ہی قربانی کرنا چاہے تو اس کی مرضی ہے . حدیث ملاحظہ فرمائیں. عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال : کنا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی سفر فحضر الضحی فاشترکنا فی الجزور عن عشرة والبقرة عن سبعة ،، ترجمہ: ٫٫سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ۖ کے ساتھ کسی سفر میں تھے کہ عیدالاضحی آگئی . تو ہم نے اونٹ میں دس اور گائے میں سات آدمیوں نے شرکت کی ،،.

( صحیح ترمذی ٢/٨٩. وصحیح ابن ماجہ ٢/ ٢٠٠}



٭قربانی کے جانور کو ذبح کرنا اس کی قیمت صدقہ کرنے سے افضل ہے کیونکہ اس میں سنت کا احیاء ، اظہار اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اسوہ حسنہ کی اتباع ہے . 

٭ قربانی کا گوشت غرباء ومساکین پر صدقہ کرنا ، دوست واحباب اور عزیز و اقارب کو تحفہ دینا اور خود بھی جتنی ضرورت ہو کھانا جائزہے . اور اگر کچھ دنوں کیلئے بچاکر رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ٫٫ کلوا وادخروا وتصدقوا،، کھائو ذخیرہ کرو اور صدقہ کرو . 

(مسلم حدیث نمبر١٩٧١ کتاب الاضاحی}

٭ عید کے دن غسل کرنا مستحب ہے .

٭عید گاہ میں عید کی دو رکعت نماز کے علاوہ نہ پہلے نفل ہیں اور نہ ہی بعد میں .

٭عید کی نماز کیلئے عید گاہ میں عورتیں بھی ضرور شرکت کریں . حتی کہ ایام ماہواری والی عورتیں بھی جائیں لیکن وہ نماز کی جگہ سے الگ رہیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک رہیں . 


٭ نماز عیدین کا طریقہ 

عیدین کی نماز میں بارہ تکبیریں ہیں . پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے سات اور دوسری رکعت میں قرأت سے پہلے پانچ تکبیریں کہنی مسنون ہیں(ابوداؤدحدیث نمبر ١١٥٠ و ابن ماجہ حدیث ١٢٨٠ وغیرہ)

٭ اگر بارش وغیرہ ہو تو نماز عید مسجد میں ادا کی جاسکتی ہے . جیسا کہ عمر رضی اللہ عنہ سے بیہقی ٣/ ٣١٠ میں روایت موجود ہے . 

٭ نماز عید کیلئے آتے جاتے ہوئے راستہ بدل لینا بھی سنت ہے . 

٭ نماز عید الاضحی کی ادائیگی سے پہلے کچھ نہ کھانا مستحب ہے .

٭ عید گاہ کو جاتے ہوئے بلند آواز سے تکبیریں کہنا سنت ہے . مسنون تکبیر کے الفاظ یہ ہیں :
 اللہ أکبر اللہ اکبر' لالہ لااللہ واللہ أکبر ' اللہ أکبر وللہ الحمد. 

٭ اگر عید کے دن جمعہ آجائے توجمعہ کی رخصت ہے (چاہے جمعہ کی نماز پڑھے یا ظہر ).

٭٩ ذی الحجہ ( یوم عرفہ )کے روزے کی فضیلت : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یوم عرفہ (نو ذی الحجہ ) کے روزے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : یکفر السنة الماضیة والباقیة،، یعنی عرفہ کے دن کا روزہ اگلے اور پچھلے دو سال کے گناہ معاف کردے گا .

(صحیح مسلم حدیث نمبر ١١٦٢ }

٭ اللہ تعالی نے ماہ ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کو سارے سال کے دوسرے دنوں کے مقابلے میں اعلی ' افضل اور برتر قرار دیا ہے . اور نبی کریم ۖ کا ارشاد ہے جس کا ترجمہ یوں ہے ٫٫ ان دس دنوں میں کئے ہوئے نیک اعمال بارگاہ الہی میں سال کے باقی سارے دنوں میں کئے ہوئے نیک اعمال سے زیادہ فضیلت والے اور محبوب ہیں . صحابہ کرام نے عرض کیا ٫ یارسول اللہ ! جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ؟ آپ نے فرمایا : جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں . ہاں مگر وہ شخص جو اپنی جان ومال کے ساتھ راہ جہاد میں نکلے اور کچھ واپس لیکر نہ آئے . ( یعنی اپنی جان و مال اسی راہ میں قربان کردے ). 

٭ان ایام میں کثرت سے تہلیل،تکبیراور تحمید کہنا چاہئے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جسکا ترجمہ یہ ہے٫٫ کوئی دن بارگاہ الہی میں ان دس دنوں سیزیادہ عظمت والا نہیں ٫ اور نہ ہی کسی دن کا اچھا عمل اللہ تعالی کو ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب ہے پس تم ان میں کثرت سے لاالہ الااللہ ، اللہ اکبر اور الحمد للہکہو .

(مسند احمد حدیث نمبر ٥٤٤٦ }

ہر مسلمان مرد اور عورت کو چاہئے کہ ان افضل ایام کو اللہ کی اطاعت اور اس کے ذکر وشکر میں گزارے . احکام وواجبات کو بجا لائے ٫ ممنوعہ چیزوں سے بچے اور ان ایام کو حصول اجرو ثواب کیلئے غنیمت سمجھے . وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم .

اسم المقالة : قربانی اور عیدالاضحی کے اہم مسائل ​

تحرير المقالة: شیخ عبد السلام بن عبد الحمید { الخبر }
ناشر : عبد المؤمن سلفی  {7051677550}      

اتوار، 21 جولائی، 2019

نماز کی سنتیں

نماز کی زبان سے ادا ہونے والی سنتیں گیارہ ہیں، جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
1- تکبیرِ تحریمہ کے بعد دعائے استفتاح پڑھنا: " سُبْحَانَكَ الَّلهُمَّ وَبِحَمْدِكَ ، وَتَبَارَكَ اسْمُكَ ، وَتَعَالَى جَدُّكَ ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ "
2- تعوذ پڑھنا۔
3- بسم اللہ پڑھنا۔
4- آمین کہنا۔
5- سورہ فاتحہ کے بعد کوئی بھی سورت پڑھنا۔
6- امام کا جہری نمازوں میں بلند آواز سے قراءت کرنا۔
7- مقتدی کے علاوہ دیگر [یعنی :امام اور منفرد]نمازیوں کا " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ " کے بعد: " مِلْءَ السَّمَاوَاتِ ، وَمِلْءَ الْأَرْضِ ، وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ " کہنا، (ان الفاظ کے کہنے کے بارے میں صحیح موقف یہی ہے کہ مقتدی کیلئے بھی سنت ہے)
8- رکوع کی ایک سے زائد تسبیحات، یعنی دوسری ، تیسری اور اسکے بعد والی تسبیحات سنت ہیں۔
9- سجدے کی ایک سے زائد تسبیحات۔
10- دو سجدوں کے درمیان ایک سے زائد بار " رَبِّ اغْفِرْ لِيْ"پڑھنا۔
11- آخری تشہد میں آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر درود ، اور برکت کی دعا کرنا، اور اسکے بعد دعا مانگنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فعلی سنتیں، جنہیں کیفیات بھی کہا جاتا ہے۔
1- تکبیرِ تحریمہ کیساتھ رفع الیدین کرنا۔
2- رکوع میں جاتے وقت رفع الیدین کرنا۔
3- رکوع سے اٹھنے وقت رفع الیدین کرنا۔
4- رفع الیدین کرنے کے بعد دونوں ہاتھوں کو چھوڑنا۔
5- دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے اوپر رکھنا۔
6- اپنی نظریں سجدہ کی جگہ رکھنا۔
7- قیام کی حالت میں دونوں قدموں کے درمیان مناسب فاصلہ رکھنا۔
8- رکوع کی حالت میں ہاتھوں کی انگلیاں کھول کر گھٹنے کو پکڑنا، اور کمر کو سیدھا کرتے ہوئے سر کو کمر کے برابر رکھنا۔
9- اعضائے سجدہ کو براہِ راست زمین پر لگانا، اور سجدہ کی جگہ کو چھونا، گھٹنوں کو براہِ راست زمین پر لگانا مکروہ ہے۔ [براہِ راست لگانے سے مراد یہ ہے کہ درمیان میں کپڑا بھی حائل نہ ہو، اسی لئے گھٹنے کو ننگا کرنا مکروہ کہا گیا ہے۔ مترجم]
10- [سجدہ کی حالت میں] بازؤوں کو پہلؤوں سے ، پیٹ کو ران سے، ران کو پنڈلیوں سے، اور دونوں گھٹنوں میں فاصلہ رکھنا، دونوں قدموں کو کھڑا رکھنا، دونوں قدموں کی انگلیوں کے اندرونی حصہ کو زمین پر لگانا، دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابر انگلیاں ملا کر رکھنا۔
11- دونوں سجدوں کے درمیان ، اور پہلے تشہد میں بایاں پاؤں بچھا کر اس کے اوپر بیٹھنا، اور دوسرے تشہد میں تورّک [بایاں پاؤں دائیں پاؤں کے نیچے سے آگے نکال کر بیٹھنا] ۔
12- دوسجدوں کے درمیاں بیٹھتے ہوئے اپنی ہتھیلیوں کو ران پر انگلیاں ملا کر رکھنا، اسی طرح تشہد میں بھی، جبکہ تشہد میں دائیں ہاتھ کی چھنگلی، اور چوتھی انگلی کو بند کرکے، درمیانی انگلی اور انگوٹھے کے ذریعے حلقہ بنائے، اور شہادت والی انگلی سے ذکرِ الہی کے وقت اشارہ کرے۔
13- سلام پھیرتے ہوئے دائیں بائیں منہ پھیرنا۔
بعض اشیاء میں فقہائے کرام کے ہاں اختلاف بھی پایا جاسکتا ہے، چنانچہ بسا اوقات کسی کے ہاں کوئی عمل واجب ہے تو دیگر فقہائے کرام کے ہاں وہ عمل مسنون بھی ہوسکتا ہے، ان باتوں کی مکمل تفصیلات فقہی کتب میں موجود ہیں۔
واللہ اعلم .

نماز کے واجبات

نماز کے آٹھ واجبات ہیں، جوکہ مندرجہ ذیل ہیں:
1- تکبیر تحریمہ کے علاوہ دیگر تکبیرات۔
2- امام اور منفرد کا " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ " کہنا۔
3- " رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ " کہنا۔
4- رکوع میں ایک بار " سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْم " کہنا۔
5- سجدہ میں ایک بار " سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى" کہنا۔
6- دو سجدوں کے درمیان " رَبِّ اغْفِرْ لِيْ" کہنا۔
7- پہلا تشہد پڑھنا ۔
8- پہلا تشہد بیٹھنا

نما میں کتنے ارکان ہیں

نماز کے ارکان، چودہ ہیں، جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
1- فرض نماز کے دوران قیام کی استطاعت رکھنے والے پر قیام کرنا۔
2- تکبیرِ تحریمہ یعنی "اللہ اکبر "کہنا۔
3- سورہ فاتحہ کی تلاوت کرنا۔
4- رکوع کرنا، رکوع کی کم از کم حالت یہ ہے کہ جھک کر اپنے گھٹنوں کو ہاتھ لگائے، اور کامل رکوع یہ ہے کہ جھکتے ہوئے کمر کو سر کے برابر سیدھی کرے۔
5- رکوع سے اٹھنا۔
6- رکوع سے اٹھ کر سیدھے کھڑے ہونا۔
7- سجدہ کرنا، کامل ترین سجدہ یہ ہے کہ پیشانی، ناک، دونوں ہتھیلیاں، دونوں گھٹنے، اور دونوں قدموں کی انگلیوں کے کنارے سجدہ کی جگہ پر اچھی طرح رکھے جائیں، اور کم از کم سجدہ یہ ہے کہ ہر عضو کا کچھ نہ کچھ حصہ زمین پر ضرور رکھا جائے۔
8- سجدہ اٹھنا۔
9- دو سجدوں کے درمیان بیٹھنا، جیسے بھی بیٹھے کفایت تو کر جائے گا، لیکن اس کیلئے سنت یہ ہے کہ اپنا بایاں پاؤں بچھا کر اسکے اوپر بیٹھے، اور دائیں پاؤں کو کھڑا کرکے قبلہ رخ کرے۔
10- پوری نماز میں اطمینان ، یعنی ہر فعلی رکن کو سکون کیساتھ ادا کرنا۔
11- آخری تشہد پڑھنا۔
12- تشہد اور دونوں طرف سلام کیلئے بیٹھنا۔
13- دونوں طرف سلام پھیرنا، سلام سے مراد یہ ہے کہ دو بار "السلام علیکم ورحمۃ اللہ" کہنا، نفل اور نمازِ جنازہ میں ایک سلام بھی کفایت کرجائے گا۔
14- مذکورہ بالا ارکان میں ترتیب کا خیال کرنا، جیسے کہ اوپر بیان ہوئی ہیں، چنانچہ اگر کوئی رکوع سے قبل جان بوجھ کر سجدہ کر لے تو نماز باطل ہوجائے گی، اور اگر بھول کر سجدہ کر لے تو واپس جا کر پہلے رکوع کرے، اور بعد میں سجدہ کریگا

جمعرات، 18 جولائی، 2019

والدين

تحریر: حافظ شیر محمد
اللہ تعالی فرماتا ہے: وَاعبدواللہ ولا تشرکو ا بہ شیٔاً وبالوالدین احسانا
اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور (اپنے)والدین سے احسان (نیک سلوک) کرو(النساء:۳۶)
 ارشاد باری تعالیٰ ہے: ووصیناالإنسان بوالدیہ احسانا    
اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھاحسان (نیک سلوک) کا حکم دیا ہے (العنکبوت:۸)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
میں نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ اللہ کے نزدیک کون سا کام سب سے زیادہ پسندیدہ ہے؟ فرمایا: نماز اپنے (اول) وقت پر پڑھنا(میں نے)پوچھا: پھر کون سا عمل (پسندیدہ) ہے ؟ فرمایا: والدین سے نیکی کرنا، پوچھا: پھر کیا ہے؟فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد کرنا(صحیح البخاری: ۵۲۷و صحیح مسلم:۸۵)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وان جاھداک علی ان تشرک بی مالیس لک بہ علم فلا تطعھما وسا حبھما فی الدنیا معروفا
اگر وہ(تیرے والدین) میرے ساتھ شرک کرنے کے لئے جس کا تیرے پاس علم نہیں تجھے مجبور کریں، تو ان کی اطاعت نہ کر اور دنیا میں ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہ۔(لقمان:۱۵)

اس آیت سے تین مسئلے معلوم ہوئے:

۱: شرک کرنا حرام ہے۔
۲: اللہ اور رسول ﷺ کی نافرمانی میں والدین کی کوئی اطاعت نہیں ہے۔
۳: جو بات کتاب و سنت کے خلاف نہیں ہے اُس میں والدین کی اطاعت کرنی چاہیئے۔

نبی ﷺ نے عبداللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہما کو حکم دیا تھا کہ :
‘‘اطع أباک مادام حیاً ولا تعصہ’’
جب تک تمہارا باپ زندہ ہے اُس کی اطاعت کرو اور اُس کی نافرمانی نہ کرنا(مسند احمد ۲؍۱۲۵ح ۲۵۳۸و سندہ صحیح)  

ان تمام دلائل کے خلاف منکرِ حدیث پرویز صاحب والدین کے حقوق کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
 “تیسرا افسانہ: ماں باپ کی اطاعت فرض ہے۔اسی سلسلہ میں ایک افسانہ یہ بھی ہے کہ ماں باپ کی اطاعت فرض ہے”(عالمگیر افسانے ص ۱۷ مطبوعہ ادارہ طلوع اسلام گلبرگ لاہور  )  
 پرویز کی اس بات کا باطل ہونا ہر مسلمان پر واضح ہے و الحمدللہ۔

تنبیہ: کتاب و سنت کی مخالف میں والدین ہوں یا حکمران یا کوئی بھی، کسی کی اطاعت نہیں کرنی چاہیئے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘‘لاطاعۃ فی معصیۃ اللہ، إنما الطاعۃ فی المعروف’’
اللہ کی نافرمانی میں (کسی کی ) کوئی اطاعت نہیں ہے۔ اطاعت تو معروف(کتاب و سنت کے مطابق) میں ہے(صحیح مسلم : ۸۴۰ادار السلام: ۴۷۶۵و صحیح البخاری: ۷۲۵۷)

ایک روایت میں آیا ہے کہ: ‘‘ رضی الرب فی رضی الوالدو وسخط الرب فی سخط الوالد’’
رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضی، والد کی ناراضی میں ہے( الترمذی: ۱۸۹۹ و سندہ صحیح، ابن حبان ، الموارد: ۲۰۲۶، الحاکم فی المستدرک ۴؍۱۵۶،۱۵۱ح۷۲۴۹وصححہ علی شرط مسلم و وافقہ الذہبی)

ایک آدمی نے رسول ﷺ سے پوچھا کہ: میں کس کے ساتھ اچھا برتاؤ کروں؟ فرمایا: اپنی ماں کےساتھ، پوچھا: پھر کس کے ساتھ؟فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ، پوچھا: پھر کس کے ساتھ؟ فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ، اس نے پوچھا: پھر کس کے ساتھ؟ آپ نے فرمایا: پھر اپنے باپ کے ساتھ(صحیح البخاری: ۵۹۷۱و صحیح مسلم:۲۵۴۸)

جاہمہ السلمی رضی اللہ عنہ کو آپ ﷺ نے حکم دیا کہ :‘‘فالزمھافإن الجنۃ تحت رجلیھا’’
پس اپنی ماں کی خدمت لازم پکڑو، کیونکہ جنت اُن کے قدموں کے نیچے ہے(سنن النسائی ۶؍۱۱ح۳۱۰۶و اسنادہ صحیح)

ماں باپ کی، معروف(کتاب و سنت کے مطابق باتوں) میں نافرمانی کبیرہ گناہ ہے۔ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سے کبیرہ گناہوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا::
‘‘الإ شراک باللہ و عقوق الوالدین و قتل النفس وشھادۃ الزور’’ اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی (بے گناہ) انسان کو قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا(البخاری:۲۶۵۳مسلم:۸۸)

ابی بن مالک العامری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
‘‘من أدرک والدیہ أوأحدھما ثم دخل النار من بعد ذلک فأبعدہ اللہ وأسحقہ’’
جو شخص اپنے والدین یا ان میں سے ایک (والد یا والدہ) کو (زندہ) پائے پھر اس کے بعد(ان کی خدمت نہ کرنے کی وجہ سے ) جہنم میں داخل ہو جائے تو اللہ نے اسے اپنی رحمت سے دور کر دیا اور وہ اس پر ناراض ہے۔(مسند احمد۴؍۳۴۴ح۱۹۲۳۶وسندہ صحیح)

خلاصہ: والدین کےساتھ حسنِ سلوک اور معروف میں ان کی اطاعت فرض ہے۔ا پنے رب کو راضی کرنے کے لئے اپنے والدین سے محبت کریں، جہاد اگر فرض عین نہ ہو تو والدین کے لئے چھوڑا جا سکتا ہے۔ وما علینا إلا البلاغ

ما معنى البرِ والدين

وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاهُمَا فَلا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ۝ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا [الإسراء:24] ومثل قوله سبحانه:وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا [النساء:36]، ومثل قوله جل وعلا: أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ [لقمان:14] في آيات كثيرات فيها الحث على بر الوالدين، وفيها الأمر بذلك.
وقد صح عن رسول الله ﷺ ما يدل على هذا المعنى أيضاً، فسئل عليه الصلاة والسلام قيل: يا رسول الله! أي العمل أفضل؟ قال: الصلاة على وقتها. قيل: ثم أي؟ قال: بر الوالدين. قيل: ثم أي؟ قال: الجهاد في سبيل الله، وفي الصحيحين عن أبي بكرة الثقفي  عن النبي ﷺ أنه قال : ألا أنبئكم بأكبر الكبائر -كررها ثلاثاً- قالوا: بلى يا رسول الله! قال: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وكان متكئاً فجلس، فقال: ألا وقول الزور ألا وشهادة الزور.
فبين عليه الصلاة والسلام أن من أكبر الكبائر العقوق للوالدين؛ فبرهما من أهم الواجبات ومن أعظم الفرائض، وعقوقهما من أقبح الكبائر والسيئات.
وفي الحديث الآخر: رضا الله في رضا الوالدين وسخط الله في سخط الوالدين، فالواجب على كل مسلم وعلى كل مسلمة بر الوالدين والإحسان إليهما والرفق بهما والأدب معهما في القول والعمل، ومن ذلك أن ينفق عليهما إذا كانا فقيرين وهو يستطيع النفقة، ومن ذلك مخاطبتهما بالتي هي أحسن بالكلام الطيب والأسلوب الحسن وخفض الصوت، وعدم رفع الصوت عليهما، ومن ذلك السمع والطاعة لهما في المعروف إذا أمراه بشيء لا يخالف شرع الله وهو يستطيعه لا يضره ذلك، يطيعهما بالكلام الطيب والفعل الطيب.
ومن ذلك أن لا يحبس أولاده عن زيارة والديه، إذا رغب الوالد أو الوالدة في زيارة أولاده يزوروه، أن يمكن الأولاد من زيارة الوالدين فليس له أن يمنع أولاده ذكوراً كانوا أو إناثاً من زيارة أمه أو أبيه، إلا أن يكون هناك ضرر لأن الوالد يأمرهما بمعاصي يأمر أولاده بمعاصي الله، أو الوالدة هذا له منع ذلك؛ لأن طاعة الله مقدمة، أما إذا كان ليس هناك ضرر في أن يزوروه والوالد يحسن إليهم والوالدة كذلك ولا يترتب على الزيارة معصية لله فليس له أن يمنع أولاده من زيارة أبويه، بل هذا من برهما أن يمكن أولاده يزوروهم ويأنسوا بهم ويتمتعوا بالاجتماع بهم.
المقصود: أن من بر الوالدين أن تسمح لأولادك بزيارتهما حتى يستمتعا بأولادك ويجتمعا بهما ويأنسا بهما، وربما ترتب على ذلك مصالح كثيرة، لكن إذا كان الوالدان يأمران أولادك بمعاصي الله أو يحصل منهما على الأولاد ضرر بضرب أو غيره من غير علة فلك أن تمنع، لقول النبي ﷺ: لا ضرر ولا ضرار، أما أن تمنع أولادك من والديك من دون حق ومن دون سبب هذا لا يجوز، والله المستعان. نعم.
المقدم: الله المستعان، جزاكم الله خيراً. 

Featured Post

آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت بتاۓ.... طالبہ طس بنت قیوم

 الحمد للہ. ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں : یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ...