اپنی زبان منتخب کریں

بدھ، 29 نومبر، 2017

میلاد کی شرعی حیثیت



الحمد للہ:
اول: 
سب سے پہلى بات تو يہ ہے كہ علماء كرام كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تاريخ پيدائش ميں اختلاف پايا جاتا ہے اس ميں كئى ايك اقوال ہيں جہيں ہم ذيل ميں پيش كرتے ہيں: 
چنانچہ ابن عبد البر رحمہ اللہ كى رائے ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش سوموار كے دن دو ربيع الاول كو پيدا ہوئے تھے. 
اور ابن حزم رحمہ اللہ نے آٹھ ربيع الاول كو راجح قرار ديا ہے. 
اور ايك قول ہے كہ: دس ربيع الاول كو پيدا ہوئے، جيسا كہ ابو جعفر الباقر كا قول ہے. 
اور ايك قول ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش بارہ ربيع الاول كو ہوئى، جيسا كہ ابن اسحاق كا قول ہے.
اور ايك قول ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش رمضان المبارك ميں ہوئى، جيسا كہ ابن عبد البر نے زبير بكّار سے نقل كيا ہے. 
ديكھيں: السيرۃ النبويۃ ابن كثير ( 199 - 200 ). 
ہمارے علم كے ليے علماء كا يہى اختلاف ہى كافى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت كرنے والے اس امت كے سلف علماء كرام تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش كے دن كا قطعى فيصلہ نہ كر سكے، چہ جائيكہ وہ جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم مناتے، اور پھر كئى صدياں بيت گئى ليكن مسلمان يہ جشن نہيں مناتے تھے، حتى كہ فاطميوں نے اس جشن كى ايجاد كى.
شيخ على محفوظ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" سب سے پہلے يہ جشن فاطمى خلفاء نے چوتھى صدى ہجرى ميں قاہر ميں منايا، اور انہوں نے ميلاد كى بدعت ايجاد كى جس ميں ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم، اور على رضى اللہ تعالى عنہ كى ميلاد، اور فاطمۃ الزہراء رضى اللہ تعالى عنہا كى ميلاد، اور حسن و حسين رضى اللہ تعالى عنہما، اور خليفہ حاضر كى ميلاد، منانے كى بدعت ايجاد كى، اور يہ ميلاديں اسى طرح منائى جاتى رہيں حتى كہ امير لشكر افضل نے انہيں باطل كيا. 
اور پھر بعد ميں خليفہ آمر باحكام اللہ كے دور پانچ سو چوبيس ہجرى ميں دوبارہ شروع كيا گيا حالانكہ لوگ تقريبا اسے بھول ہى چكے تھے. 
اور سب سے پہلا شخص جس نے اربل شہر ميں ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كى ايجاد كى وہ ابو سعيد ملك مظفر تھا جس نے ساتويں صدى ہجرى ميں اربل كے اندر منائى، اور پھر يہ بدعت آج تك چل رہى ہے، بلكہ لوگوں نے تو اس ميں اور بھى وسعت دے دى ہے، اور ہر وہ چيز اس ميں ايجاد كر لى ہے جو ان كى خواہش تھى، اور جن و انس كے شياطين نے انہيں جس طرف لگايا اور جو كہا انہوں وہى اس ميلاد ميں ايجاد كر ليا " انتہى 
ديكھيں: الابداع مضار الابتداع ( 251 ). 
دوم: 
سوال ميں ميلاد النبى كے قائلين كا يہ قول بيان ہوا ہے كہ: 
جو تمہيں كہے كہ ہم جو بھى كرتے ہيں اس كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم يا عہد صحابہ يا تابعين ميں پايا جانا ضرورى ہے " 
اس شخص كى يہ بات اس پر دلالت كرتى ہے كہ ايسى بات كرنے والے شخص كو تو بدعت كے معنى كا ہى علم نہيں جس بدعت سے ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بچنے كا بہت سارى احاديث ميں حكم دے ركھا ہے؛ اس قائل نے جو قاعدہ اور ضابطہ ذكر كيا ہے وہ تو ان اشياء كے ليے ہے جو اللہ كا قرب حاصل كرنے كے ليے كى جاتى ہيں يعنى اطاعت و عبادت ميں يہى ضابطہ ہو گا. 
اس ليے كسى بھى ايسى عبادت كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كرنا جائز نہيں جو ہمارے ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مشروع نہيں كى، اور يہ چيز نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جو ہميں بدعات سے منع كيا ہے اسى سے مستنبط اور مستمد ہے، اور بدعت اسے كہتے ہيں كہ: كسى ايسى چيز كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كرنے كى كوشش كى جائے جو اس نے ہمارے ليے مشروع نہيں كى، اسى ليے حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ كہا كرتے تھے: 
" ہر وہ عبادت جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرنے نے نہيں كى تم بھى اسے مت كرو " 
يعنى: جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں دين نہيں تھا، اور نہ ہى اس كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كيا جاتا تھا تو اس كے بعد بھى وہ دين نہيں بن سكتا " 
پھر سائل نے جو مثال بيان كى ہے وہ جرح و تعديل كے علم كى ہے، اس نے كہا ہے كہ يہ بدعت غير مذموم ہے، جو لوگ بدعت كى اقسام كرتے ہوئے بدعت حسنہ اور بدعت سئيہ كہتے ہيں ان كا يہى قول ہے كہ يہ بدعت حسنہ ہے، بلكہ تقسيم كرنے والے تو اس سے بھى زيادہ آگے بڑھ كر اسے پانچ قسموں ميں تقسيم كرتے ہوئے احكام تكليفيہ كى پانچ قسميں كرتے ہيں: 
وجوب، مستحب، مباح، حرام اور مكروہ عزبن عبد السلام رحمہ اللہ يہ تقسيم ذكر كيا ہے اور ان كے شاگرد القرافى نے بھى ان كى متابعت كى ہے. 
اور شاطبى رحمہ اللہ قرافى كا اس تقسيم پر راضى ہونے كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں: 
" يہ تقسيم اپنى جانب سے اختراع اور ايجاد ہے جس كى كوئى شرعى دليل نہيں، بلكہ يہ اس كا نفس متدافع ہے؛ كيونكہ بدعت كى حقيقت يہى ہے كہ اس كى كوئى شرعى دليل نہ ہو نہ تو نصوص ميں اور نہ ہى قواعد ميں، كيونكہ اگر كوئى ايسى شرعى دليل ہوتى جو وجوب يا مندوب يا مباح وغيرہ پر دلالت كرتى تو پھرى كوئى بدعت ہوتى ہى نہ، اور عمل سارے ان عمومى اعمال ميں شامل ہوتے جن كا حكم ديا گيا ہے يا پھر جن كا اختيار ديا گيا ہے، چنانچہ ان اشياء كو بدعت شمار كرنے اور يہ كہ ان اشياء كے وجوب يا مندوب يا مباح ہونے پر دلائل دلالت كرنے كو جمع كرنا دو منافى اشياء ميں جمع كرنا ہے اور يہ نہيں ہو سكتا. 
رہا مكروہ اور حرام كا مسئلہ تو ان كا ايك وجہ سے بدعت ہونا مسلم ہے، اور دوسرى وجہ سے نہيں، كيونكہ جب كسى چيز كے منع يا كراہت پر كوئى دليل دلالت كرتى ہو تو پھر اس كا بدعت ہونا ثابت نہيں ہوتا، كيونكہ ممكن ہے وہ چيز معصيت و نافرمانى ہو مثلا قتل اور چورى اور شراب نوشى وغيرہ، چنانچہ اس تقسيم ميں كبھى بھى بدعت كا تصور نہيں كيا جا سكتا، الا يہ كہ كراہت اور تحريم جس طرح اس كے باب ميں بيان ہوا ہے. 
اور قرافى نے اصحاب سے بدعت كے انكار پر اصحاب سے جو اتفاق ذكر كيا ہے وہ صحيح ہے، اور اس نے جو تقسيم كى ہے وہ صحيح نہيں، اور اس كا اختلاف سے متصادم ہونے اور اجماع كو ختم كرنے والى چيز كى معرفت كے باوجود اتفاق ذكر كرنا بہت تعجب والى چيز ہے، لگتا ہے كہ اس نے اس تقسيم ميں اپنے بغير غور و فكر كيے اپنے استاد ابن عبد السلام كى تقليد و اتباع كى ہے. 
پھر انہوں نے اس تقسيم ميں ابن عبد السلام رحمہ اللہ كا عذر بيان كيا ہے اور اسے " المصالح المرسلۃ " كا نام ديا ہے كہ يہ بدعت ہے، پھر كہتے ہيں: 
" ليكن اس تقسيم كو نقل كرنے ميں قرافى كا كوئى عذر نہيں كيونكہ انہوں نے اپنے استاد كى مراد كے علاوہ اس تقسيم كو ذكر كيا ہے، اور نہ ہى لوگوں كى مراد پر بيان كيا ہے، كيونكہ انہوں نے اس تقسيم ميں سب كى مخالفت كى ہے، تو اس طرح يہ اجماع كے مخالف ہوا " انتہى 
ديكھيں: الاعتصام ( 152 - 153 ).
ہم نصيحت كرتے ہيں كہ آپ كتاب سے اس موضوع كا مطالعہ ضرور كريں كيونكہ رد كے اعتبار سے يہ بہت ہى بہتر اور اچھا ہے اس ميں انہوں نے فائدہ مند بحث كى ہے. 
عز عبد السلام رحمہ اللہ نے بدعت واجبہ كى تقسيم كى مثال بيان كرتے ہوئے كہا ہے: 
" بدعت واجبہ كى كئى ايك مثاليں ہيں:
پہلى مثال: 
علم نحو جس سے كلام اللہ اور رسول اللہ كى كلام كا فہم آئے ميں مشغول ہونا اور سيكھنا يہ واجب ہے؛ كيونكہ شريعت كى حفاظت واجب ہے، اور اس كى حفاظت اس علم كو جانے بغير نہيں ہو سكتى، اور جو واجب جس كے بغير پورا نہ ہو وہ چيز بھى واجب ہوتى ہے. 
دوسرى مثال: 
كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں سے غريب الفاظ اور لغت كى حفاظت كرنا. 
تيسرى مثال: 
اصول فقہ كى تدوين. 
چوتھى مثال: 
جرح و تعديل ميں كلام كرنا تا كہ صحيح اور غلط ميں تميز ہو سكے، اور شرعى قواعد اس پر دلالت كرتے ہيں كہ شريعت كى حفاظت قدر متعين سے زيادہ كى حفاظت فرض كفايہ ہے، اور شريعت كى حفاظت اسى كے ساتھ ہو سكتى ہے جس كا ہم نے ذكر كيا ہے " انتہى. 
ديكھيں: قواعد الاحكام فى مصالح الانام ( 2 / 173 ). 
اور شاطبى رحمہ اللہ بھى اس كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں: 
" اور عز الدين نے جو كچھ كہا ہے: اس پر كلام وہى ہے جو اوپر بيان ہو چكى ہے، اس ميں سے واجب كى مثاليں اسى كے حساب سے ہيں كہ جو واجب جس كے بغير واجب پورا نہ ہوتا ہو تو وہ چيز بھى واجب ہے ـ جيسا اس نے كہا ہے ـ چنانچہ اس ميں يہ شرط نہيں لگائى جائيگى كہ وہ سلف ميں پائى گئى ہو، اور نہ ہى يہ كہ خاص كر اس كا اصل شريعت ميں موجود ہو؛ كيونكہ يہ تو مصالح المرسلہ كے باب ميں شامل ہے نہ كہ بدعت ميں " انتہى. 
ديكھيں: الاعتصام ( 157 - 158 ).
اور اس رد كا حاصل يہ ہوا كہ:
ان علوم كو بدعت شرعيہ مذمومہ كے وصف سے موصوف كرنا صحيح نہيں، كيونكہ دين اور سنت نبويہ كى حفاظت والى عمومى شرعى نصوص اور شرعى قواعد سے ان كى گواہى ملتى ہے اور جن ميں شرعى نصوص اور شرعى علوم ( كتاب و سنت ) كو لوگوں تك صحيح شكل ميں پہچانے كا بيان ہوا ہے اس سے بھى دليل ملتى ہے.
اور يہ بھى كہنا ممكن ہے كہ: ان علوم كو لغوى طور پر بدعت شمار كيا جا سكتا ہے، نا كہ شرعى طور پر بدعت، اور شرعى بدعت سارى مذموم ہى ہيں، ليكن لغوى بدعت ميں سے كچھ تو محمود ہيں اور كچھ مذموم.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" شرعى عرف ميں بدعت مذ موم ہى ہے، بخلاف لغوى بدعت كے، كيونكہ ہر وہ چيز جو نئى ايجاد كى گئى اور اس كى مثال نہ ہو اسے بدعت كا نام ديا جاتا ہے چاہے وہ محمود ہو يا مذموم " انتہى 
ديكھيں: فتح البارى ( 13 / 253 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے: 
" البدع يہ بدعۃ كى جمع ہے، اور بدعت ہر اس چيز كو كہتے ہيں جس كى پہلے مثال نہ ملتى ہو، لہذا لغوى طور پر يہ ہر محمود اور مذموم كو شامل ہو گى، اور اہل شرع كے عرف ميں يہ مذموم كے ساتھ مختص ہو گى، اگرچہ يہ محمود ميں وارد ہے، ليكن يہ لغوى معنى ميں ہو گى " انتہى 
ديكھيں: فتح البارى ( 13 / 340 ).
اور صحيح بخارى كتاب الاعتصام بالكتاب و السنۃ باب نمر 2حديث نمبر ( 7277 ) پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كى تعليق پر شيخ عبد الرحمن البراك حفظہ اللہ كہتے ہيں: 
" يہ تقسيم لغوى بدعت كے اعتبار سے صحيح ہے، ليكن شرع ميں ہر بدعت گمراہى ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے: 
" اور سب سے برے امور دين ميں نئے ايجاد كردہ ہيں، اور ہر بدعت گمراہى ہے " 
اور اس عموم كے باوجود يہ كہا جائز نہيں كہ كچھ بدعات واجب ہوتى ہيں يا مستحب يا مباح، بلكہ دين ميں يا تو بدعت حرام ہے يا پھر مكروہ، اور مكروہ ميں يہ بھى شامل ہے جس كے متعلق انہوں نے اسے بدعت مباح كہا ہے: يعنى عصر اور صبح كے بعد مصافحہ كرنے كے ليے مخصوص كرنا " انتہى
اور يہ معلوم ہونا ضرورى ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام كے دور ميں كسى بھى چيز كے كيے جانے كے اسباب كے پائے جانے اور موانع كے نہ ہونے كو مدنظر ركھنا چاہيے چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا ميلاد اور صحابہ كرام كى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت يہ دو ايسے سبب ہيں جو صحابہ كرام كے دور ميں پائے جاتے تھے جس كى بنا پر صحابہ كرام آپ كا جشن ميلاد منا سكتے تھے، اور پھر اس ميں كوئى ايسا مانع بھى نہيں جو انہيں ايسا كرنے سے روكتا. 
لہذا جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ كرام نے جشن ميلاد نہيں منايا تو يہ علم ہوا كہ يہ چيز مشروع نہيں، كيونكہ اگر يہ مشروع ہوتى تو صحابہ كرام اس كى طرف سب لوگوں سے آگے ہوتے اور سبقت لے جاتے. 
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: 
" اور اسى طرح بعض لوگوں نے جو بدعات ايجاد كر ركھى ہيں وہ يا تو عيسى عليہ السلام كى ميلاد كى طرح عيسائيوں كے مقابلہ ميں ہيں، يا پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبتا ور تعظيم ميں ـ اللہ سبحانہ و تعالى اس محبت اور كوشش كا تو انہيں اجروثواب دے گا نہ كہ اس بدعت پر ـ كہ انہوں نے ميلاد النبى كا جشن منانا شروع كر ديا ـ حالانكہ آپ كى تاريخ پيدائش ميں تو اختلاف پايا جاتا ہے ـ اور پھر كسى بھى سلف نے يہ ميلاد نہيں منايا، حالانكہ اس كا مقتضى موجود تھا، اور پھر اس ميں مانع بھى كوئى نہ تھا. 
اور اگر يہ يقينى خير و بھلائى ہوتى يا راجح ہوتى تو سلف رحمہ اللہ ہم سے زيادہ اس كے حقدار تھے؛ كيونكہ وہ ہم سے بھى زيادہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ محبت كرتےتھے، اور آپ كى تعظيم ہم سے بہت زيادہ كرتے تھے، اور پھر وہ خير و بھلائى پر بھى بہت زيادہ حريص تھے.
بلكہ كمال محبت اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تعظيم تو اسى ميں ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع و پيروى كى جائے، اور آپ كا حكم تسليم كيا جائے، اور ظاہرى اور باطنى طور پر بھى آپ كى سنت كا احياء كيا جائے، اور جس كے ليے آپ صلى اللہ عليہ وسلم مبعوث ہوئے اس كو نشر اور عام كيا جائے، اور اس پر قلبى لسانى اور ہاتھ كے ساتھ جھاد ہو. 
كيونكہ مہاجر و انصار جو سابقين و اولين ميں سے ہيں كا بھى يہى طريقہ رہا ہے اور ان كے بعد ان كى پيروى كرنے والے تابعين عظام كا بھى " انتہى 
ديكھيں: اقتضاء الصراط ( 294 - 295 ). 
اور يہى كلام صحيح ہے جو يہ بيان كرتى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت تو آپ كى سنت پر عمل كرنے سے ہوتى ہے، اور سنت كو سيكھنے اور اسے نشر كرنے اور اس كا دفاع كرنے ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت ہے اور صحابہ كرام كا طريقہ بھى يہى رہا ہے. 
ليكن ان بعد ميں آنے والوں نے تو اپنے آپ كو دھوكہ ديا ہوا ہے، اور اس طرح كے جشن منانے كے ساتھ شيطان انہيں دھوكہ دے رہا ہے، ان كا خيال ہے كہ وہ اس طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ اپنى محبت كا اظہار كر رہے ہيں، ليكن اس كے مقابلہ ميں وہ سنت كے احياء اور اس پر عمل پيرا ہونے اور سنت نبويہ كو نشر كرنے اور پھيلانے اور سنت كا دفاع كرنے سے بہت ہى دور ہيں. 
سوم: 
اور اس بحث كرنے والے نے جو كلام ابن كثير رحمہ اللہ كى طرف منسوب كى ہے كہ انہوں نے جشن ميلاد منانا جائز قرار ديا ہے، اس ميں صرف ہم اتنا ہى كہيں گے كہ يہ شخص ہميں يہ بتائے كہ ابن كثير رحمہ اللہ نے يہ بات كہاں كہى ہے، كيونكہ ہميں تو ابن كثير رحمہ اللہ كى يہ كلام كہيں نہيں ملى، اور ہم ابن كثير رحمہ اللہ كو اس كلام سے برى سمجھتے ہيں كہ وہ اس طرح كى بدعت كى معاونت كريں اور اس كى ترويج كا باعث بنيں ہوں. 
واللہ اعلم .
از الشيخ صالح المنجد حفظه الله.......

پیر، 17 جولائی، 2017

انسان کی آخرت کب شروع ہوتی ہے

انسان کی آخرت کب شروع ہوتی ہے
دنیا کی یہ زندگی انسان کی امتحان گاہ ہے، اس دنیاوی زندگی کاخاتمہ ہوتے ہی اس کی آخرت یعنی جزا وسزا کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، ملاحظہ فرمائیں اس بارے میں قرآن اور حدیث کا بیان:
الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰہهُمُ الْمَلٰۗہِٕكَةُ ظَالِمِيْٓ اَنْفُسِهِمْ ۠فَاَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوْۗءٍ ۭ بَلٰٓى اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۢ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 28؀ فَادْخُلُوْٓا اَبْوَابَ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۭ فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِيْنَ 29؀
’’جب فرشتے ان لوگوں کی روح قبض کرتے ہیں جو اپنے آپ پر ظلم کر رہے تھے، تو فورا سیدھے ہو جاتے ہیں ( اور کہتے
ہیں ) کہ ہم تو کوئی برائی نہیں کرتے تھے۔( فرشتے کہتے ہیں ) کیوں نہیں ( ضرور ) اللہ باخبر ہے اس سے جو تم کر رہے تھے۔پس داخل ہو جاؤجہنم کے دروازوں میں جہاں تم کو ہمیشہ رہنا ہے، بڑا ہی برا ٹھکانہ ہے متکبرین کے لئے ‘‘۔

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِيَ اِلَيَّ وَلَمْ يُوْحَ اِلَيْهِ شَيْءٌ وَّمَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ ۭ وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِيْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ الْمَلٰۗہِٕكَةُ بَاسِطُوْٓا اَيْدِيْهِمْ ۚ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭ اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ اٰيٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ 93؀
’’اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹا بہتان گھڑے یا کہے کہ مجھ پر وحی نازل کی گئی ہے، حالانکہ اس پر کسی بھی چیز کی وحی نہیں کی گئی اور جو کہے کہ میں بھی ویسی ہی چیز اتار سکتا ہوں جیسی کہ اللہ نے اتاری ہے اورکاش تم دیکھ سکو کہ جب یہ ظالم موت کی سختیوں میں ہوں، اور فرشتے ہاتھ بڑھاکر (کہتے ہیں) نکالو تم اپنی جانوں کو آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا، اسوجہ سے کہ جوتم اللہ کے بارے میں نا حق کہتے تھے اور تم اس کی آیات سے استکبار کیا کرتے تھے‘‘۔

مِمَّا خَطِيْۗـــٰٔــتِهِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا ڏ فَلَمْ يَجِدُوْا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْصَارًا 25؀
(قوم نوح ؑ کے لئے فرمایا) ’’اپنی خطاوں کی وجہ سے ڈبو دئے گئے پس جہنم میں داخل کردئے گئے، پھر انہیں اللہ کے علاوہ کوئی مدد گار نہ مل سکا ‘‘

الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰہهُمُ الْمَلٰۗہِٕكَةُ طَيِّبِيْنَ ۙ يَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَيْكُمُ ۙ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 32؀
’’ جب فرشتے پاک ( نیک ) لوگوں کی روح قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں: سلامتی ہو تم پر، داخل ہو جاو جنت میں اپنے اعمال کی وجہ سے ‘‘۔

صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1603
سلیمان بن حرب حماد بن زید ایوب، ابن ابی ملیکہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں، میری باری کے دن میرے سینہ سے ٹیک لگائے ہوئے فوت ہوئے ہمارا دستور تھا کہ جب آپ بیمار ہوتے تو ہم آپ کے لئے دعائیں پڑھ کر شفا طلب کرتے، چنانچہ میں نے یہ کام شروع کردیا رسول اکرم نے آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں، اور فرمایا، کہ فی الرفیق الاعلیٰ، فی الرفیق الاعلیٰ، اتنے میں عبدالرحمن آ گئے ان کے ہاتھ میں ہری مسواک تھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھا، میں جان گئی اور فورا ان سے لے کر چبایا اور نرم کرکے آپ کے ہاتھ میں دیدی، آپ نے اچھی طرح دانتوں میں مسواک کی، پھر وہ مسواک آپ مجھے دینے لگے تو وہ آپ کے ہاتھ سے گر پڑی،اللہ کا فضل دیکھو، کہ اس نے ( آپ ﷺ کے) دنیا کے آخری دن اور آخرت کے پہلے دن میں میرا لعاب دہن آپ کے لعاب دہن سے ملا دیا۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1610
سلیمان بن حرب، حماد، ثابت، انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض کی زیادتی سے بیہوش ہو گئے فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے روتے ہوئے کہا افسوس میرے والد کو بہت تکلیف ہے، آپ نے فرمایا، آج کے بعد پھر نہیں ہوگی، پھر جب آپ کی وفات ہوگئی تو فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا یہ کہہ کر روئیں کہ اے میرے والد، آپ اللہ کے بلاوے پر اس کے پاس چلے گئے، اے میرے والد جنت الفردوس میں جو آپ کا ہمیشہ کا ٹھکانہ ہے، ہائے میرے ابا جان میں آپ کی وفات کی خبر جبریل کو سناتی ہوں، جب آپ کو دفن کیا جا چکا تو فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا تو لوگوں نے کیسے گوارہ کرلیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹی میں چھپا دو۔
قرآن و حدیث کے بیان سے ثابت ہوا کہ انسان کی روح قبض ہوتے ہیں اسکی دنیاوی زندگی ختم اور آخرت شروع ہو جاتی ہے۔ اگر نیک ہے تو اس کی روح جنت میں داخل کردی جاتی ہے اور جزا کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔اس کے برعکس اگر وہ بدکاروں میں سے ہے تو اس کی روح جہنم میں داخل کردی جاتی ہے جہاں سزا کا معاملہ شروع ہو جاتا ہے۔

اتوار، 4 جون، 2017

دکان یا سپر مارکیٹ میں کھانے پینے کی چیزیں رمضان میں دن کے وقت فروخت کرنے کا کیا حکم ہے؟ میں روس میں رہتا ہوں اور یہاں کے اکثر لوگ روزہ نہیں رکھتے، میں نے آپ کی ویب سائٹ پر پڑھا ہے کہ رمضان میں دن کے وقت ہوٹل یا فاسٹ فوڈ کی دکان میں کھانوں کی فروخت حرام ہے؛ کیونکہ خریدار فوری طور پر اسے وہیں پر ہی کھا لیتے ہیں، میں قیمہ بھری آنتیں (ساسیج) ، روٹی یا چاول دکان میں فروخت کرتا ہوں، اور مجھے نہیں معلوم کہ خریدار اسے کب کھائے گا، تاہم مجھے غالب گمان یہی ہوتا ہے کہ وہ روزہ دار نہیں ہے، لیکن اس بات کا بھی احتمال ہے کہ وہ مغرب کے بعد کھائے گا اور ہو سکتا ہے کہ فوری یا کچھ لمحات کے بعد ہی کھا لے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب :الحمد للہ:
دکان یا سپر مارکیٹ کی اشیا فروخت کے اعتبار سے دو طرح کی ہو سکتی ہیں:
پہلی قسم:
ایسے کھانے جن کے متعلق غالب گمان ہو کہ خریدار فوری طور پر اسے کھا لے گا؛ کیونکہ اس کی بناوٹ اس طرح کی ہوتی ہے  یا اسے فوری کھانا پڑتا ہے، مثال کے طور پر: آئس کریم ، جوس، ٹھنڈا سوڈا واٹر، یا گرم مشروبات جنہیں خریدتے ہی تناول کر لیا جاتا ہے، اسی طرح ایسی میٹھی مصنوعات جنہیں بنانے کے فوری بعد کھا لیا جاتا ہے، یا اسی طرح کی دیگر کوئی بھی کھانے پینے کی چیزیں، تو انہیں رمضان میں دن کے وقت فروخت کرنا مسلمان کیلیے جائز نہیں ہے؛ کیونکہ غالب گمان یہی ہے کہ اسے خریدنے والا مسلمان یا غیر مسلم ماہِ رمضان کی حرمت پامال کرتے ہوئے  فوری کھا لے گا، [غیر مسلم  کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ] وہ بھی شرعی احکامات بجا لانے کے مخاطب ہیں، لہذا گناہ  کے کام میں کسی کی بھی معاونت کرنا جائز نہیں ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
(وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ)
ترجمہ: نیکی اور تقوی کے کاموں پر باہمی تعاون کرو، گناہ اور زیادتی کے کاموں پر باہمی تعاون مت کرو، اللہ سے ڈرو بیشک اللہ تعالی سخت عذاب والا ہے۔[ المائدة:2]
امام رملی شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
"[رمضان میں ممنوعہ کاموں کے اندر یہ بھی شامل ہے کہ ] کوئی عاقل بالغ مسلمان  رمضان میں دن کے وقت کسی عاقل بالغ کافر کو کھانا کھلائے، یا کسی غیر مسلم کو کھانا فروخت کرے اور اسے یقین ہو یا گمان ہو کہ وہ یہ کھانا دن کے وقت ہی کھائے گا، اسی کے مطابق والد رحمہ اللہ نے بھی فتوی دیا تھا؛ کیونکہ  ہر دو حالت میں مسلمان معصیت کا باعث بنتا ہے اور معصیت کیلیے معاونت فراہم کرتا ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ کافروں کو بھی شرعی فروعی مسائل پر عمل کرنے کا پابند کیا گیا ہے، اور یہی راجح موقف ہے" انتہی
"نهاية المحتاج" (3/471)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
"رمضان کے دنوں میں ہوٹل کھولنا چاہے کفار کیلیے کھولے جائیں جائز نہیں ہے، آپ میں سے کسی کو رمضان میں ہوٹل کھلا ہوا نظر آئے تو اس پر متعلقہ اداروں کو اطلاع دینا ضروری اور واجب ہے تا کہ اسے ہوٹل کھولنے سے روکا جائے، کسی بھی کافر کیلیے مسلم خطے میں رمضان میں دن کے وقت اعلانیہ کھانا پینا جائز  نہیں ہے، کافر پر بھی اس حرکت سے باز رہنا ضروری ہے" انتہی
" اللقاء الشهری" (8/ 4)  مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق۔
دائمی فتوی کمیٹی کے دوسرے ایڈیشن میں (9/36) ہے کہ: 
" رمضان میں دن کے وقت کافروں کے لئے ہوٹل کھولنا اور ان کیلیے کھانے پینے کی خدمات فراہم کرنا جائز نہیں ، کیونکہ اس میں بہت بڑی شرعی ممانعت ہے کہ کافروں کے ساتھ اللہ کی حرام کردہ چیز میں تعاون پایا جاتا ہے، اور شریعت مطہرہ میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ کفار شریعت کے اصول و فروع تمام پر عمل پیرا ہونے کے پابند ہیں، اور یہ یقینی بات ہے کہ رمضان کا روزہ اسلام کا ایک اہم ترین رکن ہے، اور کافروں پر روزہ رکھنا ضروری ہے لیکن ساتھ میں روزے کی شرط یعنی اسلام بھی قبول کریں، لہذا روزے کو اللہ نے ان پر واجب قرار دیا ہے اس کی ادائیگی ترک کرنے کیلیے غیر مسلموں کی مدد کرنا جائز نہیں ہے۔
نیز ان کی ایسی خدمت کرنا جائز نہیں جن کی بنا پر ایک مسلمان کی توہین اور تحقیر لازم آئے، مثلاً: ان کے لیے کھانا پیش کرے یا اسی طرح کی کوئی اور ملازمت اختیار کرے۔
اسلامی ملک میں آنے والے کافروں کے لیے اس بات کی پابندی ضروری ہے کہ اسلامی شعائر کی مخالفت نہ کریں، اور نہ ہی مسلمانوں کے جذبات مجروح کریں، لہذا مذکورہ کمپنی کے لیے رمضان میں دن کے وقت ہوٹل بند کرنا ضروری ہے"
شیخ بکر ابو زید       شیخ عبد العزیز آل شیخ     شیخ صالح فوزان             شیخ عبد اللہ بن غدیان     شیخ عبد العزیز بن عبداللہ بن باز  اس کے ساتھ ہے  واللہ اعلم ۔
دوسری قسم:
کھانے پینے کی ایسی چیزیں جن کے استعمال کا وقت دکاندار کو فروخت کرتے وقت چاہے دن ہو یا رات، معلوم  نہیں ہے کہ خریدار کس وقت کھائے گا، مثلاً: پیک شدہ کھانے کی چیزیں،  ٹافیاں، روٹی یا بریڈ، اسی طرح خشک اناج مثلاً: تیل ، چاول ، دالیں وغیرہ تو ہمارے علم کے مطابق عام طور پر بازار میں یہی چیزیں زیادہ فروخت ہوتی ہیں تو مسلمان ان چیزوں کو رمضان میں دن کے وقت فروخت کر سکتا ہے، اس میں کوئی گناہ نہیں ہے؛ کیونکہ:
اس حالت میں دکاندار کے ذہن میں  غالب گمان ہے کہ خریدار کافر ہونے یا بے عمل مسلمان ہونے کی وجہ سے روزے دار نہیں ہے، لیکن دکاندار کو یہ نہیں معلوم کہ  خریدار نے اسے کس لیے خریدا ہے، ممکن ہے کہ وہ فوری طور پر اسے استعمال کر لے یا کچھ عرصے بعد استعمال کرے، یا یہ بھی ممکن ہے کہ وہ چیز ہی خراب ہو جائے اور استعمال کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔
جس طرح ان چیزوں کے استعمال  کیلیے ایک عام حکم ہے یا اکثریت کا طریقہ کار ہے ، اور کوئی بھی شخص یہ حکم نہیں لگا سکتا  کہ خریدار دن میں یا رات کے فلاں وقت میں استعمال کرے گا، تو پھر ان چیزوں کا حکم بھی مطلق اور عام ہو گا۔
اور اس عام اور مطلق حکم کی وجہ سے  ان چیزوں کو فروخت کرنے کا حکم بھی جواز ہی ہو گا جو کہ ان کا اصل کے اعتبار سے حکم ہے، ان چیزوں کی خرید و فروخت گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون شمار نہیں ہو گی؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی یقینی طور پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ چیزیں گناہ یا زیادتی کے کاموں میں ہی استعمال ہوں  گی، اور چیزوں کا حکم اصل کے اعتبار سے جواز کا ہوتا ہے، اور اس اصل حکم  کو تبدیل کرنے کیلیے  قابل یقین اور معتمد  دلیل ہونا ضروری ہے۔
مندرجہ بالا قید پہلے ذکر شدہ رملی رحمہ اللہ کی گفتگو میں بھی موجود ہے: 
" کھانا فروخت کرے اور اسے یقین ہو یا گمان ہو کہ وہ یہ کھانا دن کے وقت ہی کھائے گا "
اب دوسری قسم کے کھانوں میں یہ بات پکی ہے کہ دکاندار کو نہ تو اس بات کا علم ہے کہ خریدار یہ کھانا رمضان میں دن کے وقت کھائے گا اور نہ ہی اسے اس بارے میں کوئی گمان آتا ہے، چنانچہ حرمت کا سبب ہی موجود نہیں ہے، لہذا اس کا حکم اصل کے اعتبار سے جواز ہی ہو گا۔
یہی معاملہ ہر اس خرید و فروخت کے معاملے میں کیا جائے گا کہ جس میں خریدار کاچیز کے استعمال کرنے  کی صورتوں میں شک ہو۔
جیسے کہ رملی رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
"اور جن اکثر اہل علم کی جانب جواز مع الکراہت نقل کیا گیا ہے  تو وہ ایسی صورت کے متعلق ہے جب دکاندار کو شک ہو، یقین نہ ہو" انتہی
"نهاية المحتاج" (3/471)
لہذا اکثریت نے ان صورتوں میں جو جواز کا موقف اختیار کیا ہے وہ ان صورتوں کے متعلق ہے جب دکاندار کو شک ہو، اور خریدار کے چیز لے جانے کا مقصد اور سبب معلوم نہ ہو۔
اور یہ بات بھی واضح رہے کہ شریعت اسلامیہ لوگوں پر بہت زیادہ سختی نہیں ڈالتی اور نہ ہی انہیں ایسے کام کا حکم دیتی ہے جس کی ان میں استطاعت نہ ہو، کہ ہر خریدار سے ان کی خریداری کا مقصد پہلے پوچھے ، اس میں تو واضح طور پر بہت زیادہ مشقت اور سختی ہے، اپنے آپ کو آسانی سے تنگی میں ڈالنے والی بات ہے، حالانکہ اس کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
(لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ)
ترجمہ: اللہ تعالی کسی جان کو اس کی وسعت سے بڑھ کر تکلیفی حکم نہیں دیتا، ہر جان کو اس کے اعمال کا اچھا بدلہ ملے گا اور برے اعمال کا خمیازہ اسی پر ہے۔[ البقرة:286]
اسی طرح فرمایا: 
(يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ)
ترجمہ: اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ فرماتا ہے تمہارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں فرماتا۔ [البقرة:185]
یہ بھی واضح رہے کہ  کھانے کی بیان شدہ دوسری قسم کو اس مسئلے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا جس میں انگوروں کی شراب بنانے والے کو انگور فروخت کرنا حرام ہے؛ کیونکہ شراب نوشی تو ہر حالت میں حرام ہے، انگوروں کے مالک کا غالب گمان یہی ہے کہ  خریدار خرید  کردہ  انگوروں سے  شراب ہی بنائے گا، جبکہ رمضان میں دن کے وقت غذائی اجناس فروخت کرنے والے کے ذہن میں غالب گمان یہ نہیں ہو تا کہ خریدار ان چیزوں سے ضروری طور پر اللہ تعالی کی نافرمانی ہی کرے گا۔
واللہ اعلم.

منگل، 9 مئی، 2017

رمضان المبارك كى خصوصيات كيا ہيں ؟

رمضان المبارك كى خصوصيات كيا ہيں ؟
الحمد للہ:
ماہ رمضان عربى بارہ مہينوں ميں سے ايك مہينہ ہے، اور دين اسلام ميں يہ مہينہ عظيم الشان قدر و منزلت ركھتا اور باقى سب مہينوں سے اسے بہت سارے خصائص حاصل ہيں جن ميں سے چند ايك خصوصيات ذيل ميں بيان كى جاتى ہيں:
1 - اللہ سبحانہ و تعالى نے اس ماہ مبارك كے روزے ركھنا دين اسلام كا چوتھا ركن قرار ديا ہے، جيسا كہ ارشاد بارى تعالى ہے:
{ ماہ رمضان وہ مہينہ ہے جس ميں قرآن مجيد نازل كيا گيا جو لوگوں كے ليے ہدايت كا باعث ہے اور اس ميں راہ ہدايت كى واضح نشانياں ہيں، اور فرقان ہے، اس ليے جو كوئى بھى ماہ رمضان كو پا لے تو وہ اس ماہ كے روزے ركھے }البقرۃ ( 185 ).
اور صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اسلام كى بنياد پانچ اشياء پر ہے: اس بات كى گواہى دينا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كےعلاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور يقينا محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ كے بندے اور اس كے رسول ہيں، اور نماز كى پابندى كرنا، اور زكاۃ ادا كرنا، اور رمضان المبارك كے روزے ركھنا، اور بيت اللہ كا حج كرنا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 8 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 16 ).
2 - اللہ سبحانہ و تعالى نے اس ماہ مبارك ميں قرآن مجيد نازل كيا ہے، جيسا كہ مندرجہ بالا آيت ميں فرمان بارى تعالى ہے:
{ رمضان المبارك وہ مہينہ ہے جس ميں قرآن مجيد نازل كيا گيا ہے جو كہ لوگوں كے ليے باعث ہدايت ہے اور اس ميں ہدايت كى نشانياں ہيں اور فرقان ہے }البقرۃ ( 185 ).
اور دوسرے مقام پر ارشاد ربانى ہيں:
{ يقينا ہم نے اس قرآن مجيد كو ليلۃ القدر ميں نازل كيا ہے }.
3 - اللہ سبحانہ و تعالى نے اس ماہ مبارك ميں ليلۃ القدر ركھى ہے جو كہ ايك ہزار مہينوں سے افضل و بہتر ہے، جيسا كہ درج ذيل فرمان بارى تعالى ميں ہے:
{ يقينا ہم نے اس قرآن مجيد كو ليلۃ القدر ميں نازل كيا ہے، تجھے كيا علم كہ ليلۃ القدر كيا ہے، ليلۃ القدر ايك ہزار مہينوں سے بہتر ہے، اس ميں ہر كام كے سرانجام دينے كو اپنے رب كے حكم سے فرشتے اور جبريل اترتے ہيں، يہ رات سراسر سلامتى والى ہے اور فجر كے طلوع ہونے تك رہتى ہے }القدر ( 1- 5 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
{ يقينا ہم نے اس قرآن مجيد كو بابركت رات ميں نازل كيا ہے بيشك ہم ڈرانے والے ہيں }الدخان ( 3 ).
اللہ سبحانہ و تعالى نے رمضان المبارك كو ليلۃ القدر كے ساتھ فضيلت دى ہے، اور ليلۃ القدر كى قدر و منزلت بيان كرنے كے ليے سورۃ القدر نازل ہوئى، اور بہت سارى احاديث بھى اس سلسلہ ميں وارد ہيں جن ميں سے چند ايك ذيل ميں بيان كى جاتى ہيں:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تمہارے پاس وہ بابركت مہينہ آ رہا ہے جس كے روزے اللہ نے تم پر فرض كيے ہيں، اس ميں آسمان كے دروزے كھل جاتے ہيں اور جہنم كے دروازے بند كر ديے جاتے ہيں، اور سركش شيطانوں كو زنجيروں ميں باندھ ديا جاتا ہے، اللہ كے ليے اس ميں ايك رات ہے جو ايك ہزار مہينوں سے بہتر ہے، جو بھى اس رات كى خير سے محروم ہو گيا تو وہ محروم ہے "
سنن نسائى حديث نمبر ( 2106 ) مسند احمد حديث نمبر ( 8769 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 999 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ايك دوسرى روايت ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى ليلۃ القدر كا ايمان اور اجروثواب كى نيت سے قيام كيا اس كے پچھلے سارے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1910 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 760 ).
4 - اللہ سبحانہ و تعالى نے رمضان المبارك ميں ايمان اور اجروثواب كى نيت سے روزے ركھنا اور قيام كرنے كو گناہوں كى بخشش كا سبب بنايا ہے؛ جيسا كہ صحيح بخارى اور صحيح مسلم كى درج ذيل حديث ميں بيان ہوا ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى رمضان المبارك ميں ايمان اور اجروثواب كى نيت سے روزے ركھے اس كے پچھلے سارے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2014 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 760 ).
اور ايك حديث ميں وارد ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى رمضان المبارك كا ايمان اور اجروثواب كى نيت سے قيام كيا اس كے پچھلے سارے گناہ بخش ديے جاتے ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2008 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 174 ).
مسلمانوں كا اجماع ہے كہ رمضان المبارك كى راتوں ميں قيام كرنا سنت ہے، امام نووى رحمہ اللہ نے بيان كيا ہے كہ قيام رمضان سے مراد نماز تراويح ہے يعنى نماز تراويح سے قيام الليل كا مقصد حاصل ہو جاتا ہے.
5 - اس ماہ مبارك ميں اللہ سبحانہ و تعالى جنتوں كے دروازے كھول ديتے ہيں، اور جہنم كے دروازے بند كر ديتے ہيں اور شيطانوں كو زنجيروں ميں بند كر ديا جاتا ہے، جيسا كہ درج ذيل حديث سے ثابت ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب رمضان المبارك شروع ہو جاتا ہے تو جنت كے دروازے كھول ديے جاتے ہيں، اور جہنم كے دروازے بند كر ديے جاتے اور شيطانوں كو ونجيروں ميں جكڑ ديا جاتا ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1898 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1079 ).
6 - رمضان المبارك كى ہر رات اللہ سبحانہ و تعالى كچھ لوگوں كو جہنم كى آگ سے آزاد كرتے ہيں:
ابو امامہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ہر افطارى كے وقت اللہ تعالى كے ليے كچھ آزاد ہوتے ہيں "
اسے امام احمد نے مسند احمد ( 5 / 256 ) ميں روايت كيا ہے، امام منذرى رحمہ اللہ نے اس كى سند كو لاباس كہا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 987 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور بزار نے كشف ( 962 ) ميں ابو سعيد سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ہر مسلمان كے ليے ہر دن اور رات ميں دعا قبول ہوتى ہے "
7 - جب كبيرہ گناہوں سے اجتناب كيا جائے تو رمضان المبارك كے روزے ركھنا پچھلے سب گناہوں كا كفارہ بن جاتے ہيں:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" پانچوں نمازيں اور جمعہ سے ليكر جمعہ تك اور رمضان سے رمضان تك ان كے مابين گناہوں كا كفارہ ہيں جبكہ كبيرہ گناہوں سے اجتناب كيا جائے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 233 ).
8 - رمضان المبارك كے روزے ركھنا دس مہينوں كے برابر ہيں جيسا كہ صحيح مسلم كى درج ذيل حديث دلالت كرتى ہے:
ابو ايوب انصارى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے رمضان المبارك كے روزے ركھے اور پھر اس كے بعد شوال كے چھ روزے ركھے تو گويا كہ اس نے سارا سال ہى روزے ركھے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1164 ).
اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے رمضان المبارك كے روزے ركھے تو ايك ماہ دس ماہ كے برابر ہے، اور عيد الفطر كے بعد چھ روزے ركھے تو يہ پورے سال كے روزے ہونگے "
مسند احمد حديث نمبر ( 21906 ).
9 - جو شخص رمضان المبارك ميں رات كو امام كے ساتھ قيام مكمل كرے تو اسے سارى رات كے قيام كا ثواب حاصل ہوتا ہے:
ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى امام كے ساتھ قيام كيا حتى كہ امام چلا جائے تو اس كے ليے پورى رات كا قيام لكھا جاتا ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1370 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صلاۃ التراويح صفحہ ( 15 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
10 - اس ماہ مبارك ميں عمرہ كرنا حج كے برابر ہے:
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك انصارى عورت كو فرمايا:
" تجھے ہمارے ساتھ حج كرنے سے كس چيز سے روكا ؟
اس عورت نے عرض كيا: ہمارے پاس دو ہى اونٹ تھے ايك پر اس كے شوہر نے حج كيا اور دوسرا ہمارے ليے چھوڑ گيا جس پر ہم پانى لاتے تھے.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب رمضان آئے تو تم عمرہ كر لينا، كيونكہ رمضان ميں عمرہ كرنا حج كے برابر ثواب ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1782 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1256 ).
اور صحيح مسلم كى ايك روايت ميں يہ الفاظ ہيں:
" ميرے ساتھ حج كا ثواب ہے "
ناضح كا معنى وہ اونٹ جس پر پانى لايا جائے.
11 - ماہ رمضان ميں اعتكاف كرنا مسنون ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ نے مستقل طور پر ہر رمضان ميں اعتكاف كيا تھا جيسا كہ درج ذيل حديث ميں وارد ہے:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہونے ہر رمضان كے آخرى عشرہ ميں اعتكاف كيا كرتے تھے، اور پھر ان كى بيويوں نے بھى آپ كے بعد اعتكاف كيا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1922 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1172 ).
12 - رمضان المبارك ميں قرآن مجيد كى كثرت سے تلاوت اور دور كرنا مستحب ہے، دور اس طرح ہوگا كہ قرآن مجيد كسى دوسرے شخص كو سنايا جائے، يا پھر كسى دوسرے كا سنا جائے، اس كے مستحب ہونے كى دليل درج ذيل حديث ہے:
" جبريل عليہ السلام رمضان المبارك ميں ہر رات كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مل كر قرآن مجيد كا دور كيا كرتے تھے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2308 ).
قرآن مجيد كى تلاوت كرنا مطلقا مستحب ہے، ليكن رمضان المبارك ميں زيادہ تاكيدى ہے.
13 - رمضان المبارك ميں كسى دوسرے روزے دار كا روزہ افطار كرانا مستحب ہے:
زيد بن خالد جھنى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى روزے دار كا روزہ افطار كرايا اسے روزے دار جتنا ثواب حاصل ہوگا، ليكن روزے دار كے ثواب ميں كوئى كمى نہيں ہو گى "
سنن ترمذي حديث نمبر ( 807 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1746 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 647 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے

فضائل رمضان میں ضعیف حدیث کا بیان

مندرجہ ذیل حدیث جو کہ سلمان فارسی رضي اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کی صحت کیسی ہے ؟ 
( نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں شعبان کے آخری دن خطبہ ارشاد فرمایا جس میں یہ فرمایا : لوگو تم پرعظمت اوربرکت والا مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے ، ایسا مہینہ جس میں ایک رات ایسی ہے جوہزارمہینوں سے بہتر ہے ، اس کے روزے اللہ تعالی نے فرض قرار دیے ہیں اور اس کی رات کا قیام نفل ہے ، جس نے بھی اس مہینے میں نیکی کی وہ ایسے ہے جس طرح عام دونوں میں فریضہ ادا کیا جاۓ ، اور جس نے رمضان میں فرض ادا کیا گویا کہ اس نے رمضان کے علاوہ ستر فرض ادا کیے ، یہ ایسا مہینہ ہے جس کا اول رحمت اور درمیان مغفرت اور آخری حصہ جہنم سے آزادی ہے ۔۔۔ الحدیث ) ۔
الحمد للہ 
اسے ابن خزیمہ نے صحیح ابن خزیمہ ( 3 / 191 ) حدیث نمبر ( 1887 ) انہیں الفاظ کے ساتھ روایت کرنے کے بعد یہ کہا کہ (ان صح الخبر ) کہ اگر یہ خبر صحیح ہو ۔
توبعض کتب مراجع سے ان کا لفظ ساقط ہوگيا ہے مثلا منذری کی الترغیب والترھیب ( 2 / 95 ) میں تو لوگوں نے یہ خیال کرلیاہے کہ ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے یعنی ان صح الخبر کی جگہ صح الخبر ہوگیا ہے حالانکہ ابن حزم رحمہ اللہ تعالی نے بالجزم نہیں کہا کہ صحیح ہے ۔
اورالمحاملی نے امالیہ ( 293 ) میں اور بیھقی نے شعب الایمان ( 7 / 216 )اورفضائل الاوقاف ( ص 146 ) نمبر ( 37 ) اور ابوالشیخ ابن حبان نے کتاب " الثواب " میں اور الساعاتی نے فتح الربانی ( 9 / 233 ) میں ابن حبان کی طرف منسوب کی ہے ، اور سیوطی نے اسے الدرالمنثور میں ذکرکیا اور یہ کہا ہے کہ اسے عقیلی نے روایت کیا اور اسے ضعیف کہا ہے اور الاصبھانی نے الترغیب میں نقل کیا ہے ، اور المنقی نے کنزالعمال ( 8 / 477 ) میں ان سب نے ایک ہی طریق سعید بن المسیب عن سلمان فارسی سے بیان کیا ہے ۔
تویہ حدیث دوعلتوں کی بنا پر ضعیف ہے اوروہ علتیں یہ ہیں :
1 - اس کی سند میں انقطاع ہے کیونکہ سعید بن مسیب کا سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ سے سماع ثابت نہیں ۔
2 - سند میں علی بن جدعان ہے جس کے بارہ میں ابن سعد کا کہنا ہے کہ فیہ ضعف ولا یحتج بہ ، یعنی ضعیف ہے اسے حجت نہیں بنایا جاسکتا ۔
اور اسی طرح امام احمد ، ابن معین ، امام نسائ ، ابن خزیمہ اور جوزجانی وغیرہ نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔ دیکھیں سیراعلام النبلاء ( 5 / 207 ) ۔
اس حدیث پرابوحاتم رازي نے منکر کا حکم لگایا ہے ، اورعینی نے " عمدۃ القاری ( 9 / 20 ) " میں بھی یہی حکم لگایا اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے بھی " سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ ( 2 / 262 ) حدیث نمبر ( 871 ) میں ایسا ہی حکم لگایا ہے ۔
تواس طرح اس حدیث کی سند ضعیف ہے اور اسی طرح اس کی سب کی سب متابعات بھی ضعیف ہیں جس پرمحدثين نے منکر کا حکم لگایا ہے ، اورایسے ہی اس میں ایسی عبارت پائ جاتی ہے جس کے ثبوت میں نظر ہے مثلا اسے تین حصوں میں تقسیم کرنا کہ پہلاعشرہ رحمت اوردوسرا مغفرت اورتیسرا آگ سے آزادی کا ہے ، اس کی کوئ دلیل نہیں ملتی بلکہ اللہ تعالی کا فضل وکرم وسیع ہے اوررمضان مکمل طور پر مغفرت کا ہے اورہر رات اللہ تعالی جہنم سے آزادی دیتے ہیں اوراسی طرح عید الفطر کے وقت بھی جیسا کہ احاديث صحیحہ سے اس کا ثبوت ملتا ہے ۔
اوراسی طرح حدیث میں یہ بھی ہے کہ :
(جس نے بھی اس مہینے میں نیکی کی وہ ایسے ہے جس طرح عام دونوں میں فریضہ ادا کیا جاۓ ) ۔
تواس کی کوئ دلیل نہیں بلکہ نفل تونفل ہی رہتا ہے اورفرض فرض ہی ہے چاہے رمضان ہو یا رمضان کے علاوہ کوئ اور مہینہ ۔
اورحدیث میں یہ عبارت بھی ہے کہ :
(اور جس نے رمضان میں فرض ادا کیا گویا کہ اس نے رمضان کے علاوہ ستر فرض ادا کیے ) ۔
تواس تحدید میں بھی خلاف ہے کیونکہ رمضان اورمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں نیکی دس سے لیکر سات سو تک ہے تو اس لیے روزے کے علاوہ کسی چيز کی تخصیص نہیں کیونکہ روزے کا اجر بہت زیادہ جس میں مقدار کی تحدید نہیں کی گئ جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے کہ : ابوھریرہ رضی اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللہ تعالی فرماتا ہے ( روزے کےعلاوہ ہرعمل ابن آدم کے ليۓ ہے اس لیے کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دونگا ) صحیح بخاری و صحیح مسلم ۔
تو ضعیف احادیث سے بچنا ضروری ہے اوریہ بھی ضروری ہے کہ اسے بیان کرنے سے قبل حدیث کا درجہ معلوم کرلینا چاہیۓ ، اوررمضان المبارک کی فضيلت میں احادیث کی چھان پھٹک کرکے صحیح احادیث لینی چاہیں ۔
اللہ تعالی سب کو توفیق عطا فرماۓ‌ اور روزے اورراتوں کا قیام اورسب اعمال صالحہ قبول فرماۓ ۔ آمین یا رب العالمین ۔
واللہ تعالی اعلم .

رمضان المبارك كى خصوصيات

رمضان المبارك كى خصوصيات كيا ہيں ؟
الحمد للہ:
ماہ رمضان عربى بارہ مہينوں ميں سے ايك مہينہ ہے، اور دين اسلام ميں يہ مہينہ عظيم الشان قدر و منزلت ركھتا اور باقى سب مہينوں سے اسے بہت سارے خصائص حاصل ہيں جن ميں سے چند ايك خصوصيات ذيل ميں بيان كى جاتى ہيں:
1 - اللہ سبحانہ و تعالى نے اس ماہ مبارك كے روزے ركھنا دين اسلام كا چوتھا ركن قرار ديا ہے، جيسا كہ ارشاد بارى تعالى ہے:
{ ماہ رمضان وہ مہينہ ہے جس ميں قرآن مجيد نازل كيا گيا جو لوگوں كے ليے ہدايت كا باعث ہے اور اس ميں راہ ہدايت كى واضح نشانياں ہيں، اور فرقان ہے، اس ليے جو كوئى بھى ماہ رمضان كو پا لے تو وہ اس ماہ كے روزے ركھے }البقرۃ ( 185 ).
اور صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اسلام كى بنياد پانچ اشياء پر ہے: اس بات كى گواہى دينا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كےعلاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور يقينا محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ كے بندے اور اس كے رسول ہيں، اور نماز كى پابندى كرنا، اور زكاۃ ادا كرنا، اور رمضان المبارك كے روزے ركھنا، اور بيت اللہ كا حج كرنا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 8 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 16 ).
2 - اللہ سبحانہ و تعالى نے اس ماہ مبارك ميں قرآن مجيد نازل كيا ہے، جيسا كہ مندرجہ بالا آيت ميں فرمان بارى تعالى ہے:
{ رمضان المبارك وہ مہينہ ہے جس ميں قرآن مجيد نازل كيا گيا ہے جو كہ لوگوں كے ليے باعث ہدايت ہے اور اس ميں ہدايت كى نشانياں ہيں اور فرقان ہے }البقرۃ ( 185 ).
اور دوسرے مقام پر ارشاد ربانى ہيں:
{ يقينا ہم نے اس قرآن مجيد كو ليلۃ القدر ميں نازل كيا ہے }.
3 - اللہ سبحانہ و تعالى نے اس ماہ مبارك ميں ليلۃ القدر ركھى ہے جو كہ ايك ہزار مہينوں سے افضل و بہتر ہے، جيسا كہ درج ذيل فرمان بارى تعالى ميں ہے:
{ يقينا ہم نے اس قرآن مجيد كو ليلۃ القدر ميں نازل كيا ہے، تجھے كيا علم كہ ليلۃ القدر كيا ہے، ليلۃ القدر ايك ہزار مہينوں سے بہتر ہے، اس ميں ہر كام كے سرانجام دينے كو اپنے رب كے حكم سے فرشتے اور جبريل اترتے ہيں، يہ رات سراسر سلامتى والى ہے اور فجر كے طلوع ہونے تك رہتى ہے }القدر ( 1- 5 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
{ يقينا ہم نے اس قرآن مجيد كو بابركت رات ميں نازل كيا ہے بيشك ہم ڈرانے والے ہيں }الدخان ( 3 ).
اللہ سبحانہ و تعالى نے رمضان المبارك كو ليلۃ القدر كے ساتھ فضيلت دى ہے، اور ليلۃ القدر كى قدر و منزلت بيان كرنے كے ليے سورۃ القدر نازل ہوئى، اور بہت سارى احاديث بھى اس سلسلہ ميں وارد ہيں جن ميں سے چند ايك ذيل ميں بيان كى جاتى ہيں:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تمہارے پاس وہ بابركت مہينہ آ رہا ہے جس كے روزے اللہ نے تم پر فرض كيے ہيں، اس ميں آسمان كے دروزے كھل جاتے ہيں اور جہنم كے دروازے بند كر ديے جاتے ہيں، اور سركش شيطانوں كو زنجيروں ميں باندھ ديا جاتا ہے، اللہ كے ليے اس ميں ايك رات ہے جو ايك ہزار مہينوں سے بہتر ہے، جو بھى اس رات كى خير سے محروم ہو گيا تو وہ محروم ہے "
سنن نسائى حديث نمبر ( 2106 ) مسند احمد حديث نمبر ( 8769 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 999 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ايك دوسرى روايت ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى ليلۃ القدر كا ايمان اور اجروثواب كى نيت سے قيام كيا اس كے پچھلے سارے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1910 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 760 ).
4 - اللہ سبحانہ و تعالى نے رمضان المبارك ميں ايمان اور اجروثواب كى نيت سے روزے ركھنا اور قيام كرنے كو گناہوں كى بخشش كا سبب بنايا ہے؛ جيسا كہ صحيح بخارى اور صحيح مسلم كى درج ذيل حديث ميں بيان ہوا ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى رمضان المبارك ميں ايمان اور اجروثواب كى نيت سے روزے ركھے اس كے پچھلے سارے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2014 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 760 ).
اور ايك حديث ميں وارد ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى رمضان المبارك كا ايمان اور اجروثواب كى نيت سے قيام كيا اس كے پچھلے سارے گناہ بخش ديے جاتے ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2008 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 174 ).
مسلمانوں كا اجماع ہے كہ رمضان المبارك كى راتوں ميں قيام كرنا سنت ہے، امام نووى رحمہ اللہ نے بيان كيا ہے كہ قيام رمضان سے مراد نماز تراويح ہے يعنى نماز تراويح سے قيام الليل كا مقصد حاصل ہو جاتا ہے.
5 - اس ماہ مبارك ميں اللہ سبحانہ و تعالى جنتوں كے دروازے كھول ديتے ہيں، اور جہنم كے دروازے بند كر ديتے ہيں اور شيطانوں كو زنجيروں ميں بند كر ديا جاتا ہے، جيسا كہ درج ذيل حديث سے ثابت ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب رمضان المبارك شروع ہو جاتا ہے تو جنت كے دروازے كھول ديے جاتے ہيں، اور جہنم كے دروازے بند كر ديے جاتے اور شيطانوں كو ونجيروں ميں جكڑ ديا جاتا ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1898 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1079 ).
6 - رمضان المبارك كى ہر رات اللہ سبحانہ و تعالى كچھ لوگوں كو جہنم كى آگ سے آزاد كرتے ہيں:
ابو امامہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ہر افطارى كے وقت اللہ تعالى كے ليے كچھ آزاد ہوتے ہيں "
اسے امام احمد نے مسند احمد ( 5 / 256 ) ميں روايت كيا ہے، امام منذرى رحمہ اللہ نے اس كى سند كو لاباس كہا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 987 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور بزار نے كشف ( 962 ) ميں ابو سعيد سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ہر مسلمان كے ليے ہر دن اور رات ميں دعا قبول ہوتى ہے "
7 - جب كبيرہ گناہوں سے اجتناب كيا جائے تو رمضان المبارك كے روزے ركھنا پچھلے سب گناہوں كا كفارہ بن جاتے ہيں:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" پانچوں نمازيں اور جمعہ سے ليكر جمعہ تك اور رمضان سے رمضان تك ان كے مابين گناہوں كا كفارہ ہيں جبكہ كبيرہ گناہوں سے اجتناب كيا جائے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 233 ).
8 - رمضان المبارك كے روزے ركھنا دس مہينوں كے برابر ہيں جيسا كہ صحيح مسلم كى درج ذيل حديث دلالت كرتى ہے:
ابو ايوب انصارى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے رمضان المبارك كے روزے ركھے اور پھر اس كے بعد شوال كے چھ روزے ركھے تو گويا كہ اس نے سارا سال ہى روزے ركھے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1164 ).
اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے رمضان المبارك كے روزے ركھے تو ايك ماہ دس ماہ كے برابر ہے، اور عيد الفطر كے بعد چھ روزے ركھے تو يہ پورے سال كے روزے ہونگے "
مسند احمد حديث نمبر ( 21906 ).
9 - جو شخص رمضان المبارك ميں رات كو امام كے ساتھ قيام مكمل كرے تو اسے سارى رات كے قيام كا ثواب حاصل ہوتا ہے:
ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى امام كے ساتھ قيام كيا حتى كہ امام چلا جائے تو اس كے ليے پورى رات كا قيام لكھا جاتا ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1370 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صلاۃ التراويح صفحہ ( 15 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
10 - اس ماہ مبارك ميں عمرہ كرنا حج كے برابر ہے:
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك انصارى عورت كو فرمايا:
" تجھے ہمارے ساتھ حج كرنے سے كس چيز سے روكا ؟
اس عورت نے عرض كيا: ہمارے پاس دو ہى اونٹ تھے ايك پر اس كے شوہر نے حج كيا اور دوسرا ہمارے ليے چھوڑ گيا جس پر ہم پانى لاتے تھے.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب رمضان آئے تو تم عمرہ كر لينا، كيونكہ رمضان ميں عمرہ كرنا حج كے برابر ثواب ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1782 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1256 ).
اور صحيح مسلم كى ايك روايت ميں يہ الفاظ ہيں:
" ميرے ساتھ حج كا ثواب ہے "
ناضح كا معنى وہ اونٹ جس پر پانى لايا جائے.
11 - ماہ رمضان ميں اعتكاف كرنا مسنون ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ نے مستقل طور پر ہر رمضان ميں اعتكاف كيا تھا جيسا كہ درج ذيل حديث ميں وارد ہے:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہونے ہر رمضان كے آخرى عشرہ ميں اعتكاف كيا كرتے تھے، اور پھر ان كى بيويوں نے بھى آپ كے بعد اعتكاف كيا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1922 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1172 ).
12 - رمضان المبارك ميں قرآن مجيد كى كثرت سے تلاوت اور دور كرنا مستحب ہے، دور اس طرح ہوگا كہ قرآن مجيد كسى دوسرے شخص كو سنايا جائے، يا پھر كسى دوسرے كا سنا جائے، اس كے مستحب ہونے كى دليل درج ذيل حديث ہے:
" جبريل عليہ السلام رمضان المبارك ميں ہر رات كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مل كر قرآن مجيد كا دور كيا كرتے تھے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2308 ).
قرآن مجيد كى تلاوت كرنا مطلقا مستحب ہے، ليكن رمضان المبارك ميں زيادہ تاكيدى ہے.
13 - رمضان المبارك ميں كسى دوسرے روزے دار كا روزہ افطار كرانا مستحب ہے:
زيد بن خالد جھنى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى روزے دار كا روزہ افطار كرايا اسے روزے دار جتنا ثواب حاصل ہوگا، ليكن روزے دار كے ثواب ميں كوئى كمى نہيں ہو گى "
سنن ترمذي حديث نمبر ( 807 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1746 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 647 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے