انسان کی آخرت کب شروع ہوتی ہے
دنیا کی یہ زندگی انسان کی امتحان گاہ ہے، اس دنیاوی زندگی کاخاتمہ ہوتے ہی اس کی آخرت یعنی جزا وسزا کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، ملاحظہ فرمائیں اس بارے میں قرآن اور حدیث کا بیان:
الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰہهُمُ الْمَلٰۗہِٕكَةُ ظَالِمِيْٓ اَنْفُسِهِمْ ۠فَاَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوْۗءٍ ۭ بَلٰٓى اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۢ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 28 فَادْخُلُوْٓا اَبْوَابَ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۭ فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِيْنَ 29
’’جب فرشتے ان لوگوں کی روح قبض کرتے ہیں جو اپنے آپ پر ظلم کر رہے تھے، تو فورا سیدھے ہو جاتے ہیں ( اور کہتے
ہیں ) کہ ہم تو کوئی برائی نہیں کرتے تھے۔( فرشتے کہتے ہیں ) کیوں نہیں ( ضرور ) اللہ باخبر ہے اس سے جو تم کر رہے تھے۔پس داخل ہو جاؤجہنم کے دروازوں میں جہاں تم کو ہمیشہ رہنا ہے، بڑا ہی برا ٹھکانہ ہے متکبرین کے لئے ‘‘۔
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِيَ اِلَيَّ وَلَمْ يُوْحَ اِلَيْهِ شَيْءٌ وَّمَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ ۭ وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِيْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ الْمَلٰۗہِٕكَةُ بَاسِطُوْٓا اَيْدِيْهِمْ ۚ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭ اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ اٰيٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ 93
’’اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹا بہتان گھڑے یا کہے کہ مجھ پر وحی نازل کی گئی ہے، حالانکہ اس پر کسی بھی چیز کی وحی نہیں کی گئی اور جو کہے کہ میں بھی ویسی ہی چیز اتار سکتا ہوں جیسی کہ اللہ نے اتاری ہے اورکاش تم دیکھ سکو کہ جب یہ ظالم موت کی سختیوں میں ہوں، اور فرشتے ہاتھ بڑھاکر (کہتے ہیں) نکالو تم اپنی جانوں کو آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا، اسوجہ سے کہ جوتم اللہ کے بارے میں نا حق کہتے تھے اور تم اس کی آیات سے استکبار کیا کرتے تھے‘‘۔
مِمَّا خَطِيْۗـــٰٔــتِهِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا ڏ فَلَمْ يَجِدُوْا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْصَارًا 25
(قوم نوح ؑ کے لئے فرمایا) ’’اپنی خطاوں کی وجہ سے ڈبو دئے گئے پس جہنم میں داخل کردئے گئے، پھر انہیں اللہ کے علاوہ کوئی مدد گار نہ مل سکا ‘‘
الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰہهُمُ الْمَلٰۗہِٕكَةُ طَيِّبِيْنَ ۙ يَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَيْكُمُ ۙ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 32
’’ جب فرشتے پاک ( نیک ) لوگوں کی روح قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں: سلامتی ہو تم پر، داخل ہو جاو جنت میں اپنے اعمال کی وجہ سے ‘‘۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1603
سلیمان بن حرب حماد بن زید ایوب، ابن ابی ملیکہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں، میری باری کے دن میرے سینہ سے ٹیک لگائے ہوئے فوت ہوئے ہمارا دستور تھا کہ جب آپ بیمار ہوتے تو ہم آپ کے لئے دعائیں پڑھ کر شفا طلب کرتے، چنانچہ میں نے یہ کام شروع کردیا رسول اکرم نے آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں، اور فرمایا، کہ فی الرفیق الاعلیٰ، فی الرفیق الاعلیٰ، اتنے میں عبدالرحمن آ گئے ان کے ہاتھ میں ہری مسواک تھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھا، میں جان گئی اور فورا ان سے لے کر چبایا اور نرم کرکے آپ کے ہاتھ میں دیدی، آپ نے اچھی طرح دانتوں میں مسواک کی، پھر وہ مسواک آپ مجھے دینے لگے تو وہ آپ کے ہاتھ سے گر پڑی،اللہ کا فضل دیکھو، کہ اس نے ( آپ ﷺ کے) دنیا کے آخری دن اور آخرت کے پہلے دن میں میرا لعاب دہن آپ کے لعاب دہن سے ملا دیا۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1610
سلیمان بن حرب، حماد، ثابت، انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض کی زیادتی سے بیہوش ہو گئے فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے روتے ہوئے کہا افسوس میرے والد کو بہت تکلیف ہے، آپ نے فرمایا، آج کے بعد پھر نہیں ہوگی، پھر جب آپ کی وفات ہوگئی تو فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا یہ کہہ کر روئیں کہ اے میرے والد، آپ اللہ کے بلاوے پر اس کے پاس چلے گئے، اے میرے والد جنت الفردوس میں جو آپ کا ہمیشہ کا ٹھکانہ ہے، ہائے میرے ابا جان میں آپ کی وفات کی خبر جبریل کو سناتی ہوں، جب آپ کو دفن کیا جا چکا تو فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا تو لوگوں نے کیسے گوارہ کرلیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹی میں چھپا دو۔
قرآن و حدیث کے بیان سے ثابت ہوا کہ انسان کی روح قبض ہوتے ہیں اسکی دنیاوی زندگی ختم اور آخرت شروع ہو جاتی ہے۔ اگر نیک ہے تو اس کی روح جنت میں داخل کردی جاتی ہے اور جزا کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔اس کے برعکس اگر وہ بدکاروں میں سے ہے تو اس کی روح جہنم میں داخل کردی جاتی ہے جہاں سزا کا معاملہ شروع ہو جاتا ہے۔
دنیا کی یہ زندگی انسان کی امتحان گاہ ہے، اس دنیاوی زندگی کاخاتمہ ہوتے ہی اس کی آخرت یعنی جزا وسزا کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، ملاحظہ فرمائیں اس بارے میں قرآن اور حدیث کا بیان:
الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰہهُمُ الْمَلٰۗہِٕكَةُ ظَالِمِيْٓ اَنْفُسِهِمْ ۠فَاَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوْۗءٍ ۭ بَلٰٓى اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۢ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 28 فَادْخُلُوْٓا اَبْوَابَ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۭ فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِيْنَ 29
’’جب فرشتے ان لوگوں کی روح قبض کرتے ہیں جو اپنے آپ پر ظلم کر رہے تھے، تو فورا سیدھے ہو جاتے ہیں ( اور کہتے
ہیں ) کہ ہم تو کوئی برائی نہیں کرتے تھے۔( فرشتے کہتے ہیں ) کیوں نہیں ( ضرور ) اللہ باخبر ہے اس سے جو تم کر رہے تھے۔پس داخل ہو جاؤجہنم کے دروازوں میں جہاں تم کو ہمیشہ رہنا ہے، بڑا ہی برا ٹھکانہ ہے متکبرین کے لئے ‘‘۔
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِيَ اِلَيَّ وَلَمْ يُوْحَ اِلَيْهِ شَيْءٌ وَّمَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ ۭ وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِيْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ الْمَلٰۗہِٕكَةُ بَاسِطُوْٓا اَيْدِيْهِمْ ۚ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭ اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ اٰيٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ 93
’’اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹا بہتان گھڑے یا کہے کہ مجھ پر وحی نازل کی گئی ہے، حالانکہ اس پر کسی بھی چیز کی وحی نہیں کی گئی اور جو کہے کہ میں بھی ویسی ہی چیز اتار سکتا ہوں جیسی کہ اللہ نے اتاری ہے اورکاش تم دیکھ سکو کہ جب یہ ظالم موت کی سختیوں میں ہوں، اور فرشتے ہاتھ بڑھاکر (کہتے ہیں) نکالو تم اپنی جانوں کو آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا، اسوجہ سے کہ جوتم اللہ کے بارے میں نا حق کہتے تھے اور تم اس کی آیات سے استکبار کیا کرتے تھے‘‘۔
مِمَّا خَطِيْۗـــٰٔــتِهِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا ڏ فَلَمْ يَجِدُوْا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْصَارًا 25
(قوم نوح ؑ کے لئے فرمایا) ’’اپنی خطاوں کی وجہ سے ڈبو دئے گئے پس جہنم میں داخل کردئے گئے، پھر انہیں اللہ کے علاوہ کوئی مدد گار نہ مل سکا ‘‘
الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰہهُمُ الْمَلٰۗہِٕكَةُ طَيِّبِيْنَ ۙ يَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَيْكُمُ ۙ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 32
’’ جب فرشتے پاک ( نیک ) لوگوں کی روح قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں: سلامتی ہو تم پر، داخل ہو جاو جنت میں اپنے اعمال کی وجہ سے ‘‘۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1603
سلیمان بن حرب حماد بن زید ایوب، ابن ابی ملیکہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں، میری باری کے دن میرے سینہ سے ٹیک لگائے ہوئے فوت ہوئے ہمارا دستور تھا کہ جب آپ بیمار ہوتے تو ہم آپ کے لئے دعائیں پڑھ کر شفا طلب کرتے، چنانچہ میں نے یہ کام شروع کردیا رسول اکرم نے آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں، اور فرمایا، کہ فی الرفیق الاعلیٰ، فی الرفیق الاعلیٰ، اتنے میں عبدالرحمن آ گئے ان کے ہاتھ میں ہری مسواک تھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھا، میں جان گئی اور فورا ان سے لے کر چبایا اور نرم کرکے آپ کے ہاتھ میں دیدی، آپ نے اچھی طرح دانتوں میں مسواک کی، پھر وہ مسواک آپ مجھے دینے لگے تو وہ آپ کے ہاتھ سے گر پڑی،اللہ کا فضل دیکھو، کہ اس نے ( آپ ﷺ کے) دنیا کے آخری دن اور آخرت کے پہلے دن میں میرا لعاب دہن آپ کے لعاب دہن سے ملا دیا۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1610
سلیمان بن حرب، حماد، ثابت، انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض کی زیادتی سے بیہوش ہو گئے فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے روتے ہوئے کہا افسوس میرے والد کو بہت تکلیف ہے، آپ نے فرمایا، آج کے بعد پھر نہیں ہوگی، پھر جب آپ کی وفات ہوگئی تو فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا یہ کہہ کر روئیں کہ اے میرے والد، آپ اللہ کے بلاوے پر اس کے پاس چلے گئے، اے میرے والد جنت الفردوس میں جو آپ کا ہمیشہ کا ٹھکانہ ہے، ہائے میرے ابا جان میں آپ کی وفات کی خبر جبریل کو سناتی ہوں، جب آپ کو دفن کیا جا چکا تو فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا تو لوگوں نے کیسے گوارہ کرلیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹی میں چھپا دو۔
قرآن و حدیث کے بیان سے ثابت ہوا کہ انسان کی روح قبض ہوتے ہیں اسکی دنیاوی زندگی ختم اور آخرت شروع ہو جاتی ہے۔ اگر نیک ہے تو اس کی روح جنت میں داخل کردی جاتی ہے اور جزا کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔اس کے برعکس اگر وہ بدکاروں میں سے ہے تو اس کی روح جہنم میں داخل کردی جاتی ہے جہاں سزا کا معاملہ شروع ہو جاتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں