*بلاد شام* –تاریخ وفضیلت اور موجودہ شام (سیریا) :
مقبول احمد سلفی
بلاد شام کی تاریخ
بلاد شام چارممالک پر مشتمل ہےوہ سوریہ ،لبنان،فلسطین اور اردن ہیں۔پہلی عالمی جنگ عظیم تک یہ چاروں ممالک ملک شام سے شامل تھا۔ انگریزوں اور اہل فرانس کی مکاری سے اسے ٹکڑوں میں تقسیم کردیا گیااور 1920موجودہ شام بنام سوریاوجود میں آیا۔ انگریزی میں سوریا کو سیریااور عربی میں عرب جمہوریہ سوریا کہاجاتا ہے ۔ اسے اردو میں شام کہا جاتا ہے ۔
موجودہ شام براعظم ایشیا کے انتہائی مغرب میں واقع ہے جو تین براعظموں کا سنگم ہے ۔ براعظم ایشیا، براعظم پورپ اور براعظم افریقہ ۔ اس کے مغرب میں بحر متوسط اور لبنان، جنوب مغرب میں فلسطین اور مقبوضہ فلسطین(اسرائیل)، جنوب میں اردن ،مشرق میں عراق اور شمال میں ترکی ہے ۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں جب ملک شام کی بات ہوتو اس سے چاروں ممالک(سوریا،لبنان،فلسطین،اردن) مراد ہوں گے ۔ یہاں اسی پس منظر میں تحریر ہوگی ۔بلاد شام میں فلسطین کا شہر بیت المقدس اور سوریا کا شہر دمشق تاریخی اور شرعی اعتبار سے کافی اہمیت کا حامل ہے۔
مسجد اقصی کے بےشمار فضائل ہیں،یہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور دنیا کی دوسری مسجد ہے جو کعبہ کے بعد بنائی گئی اس کے بنانے والے انبیاء ہیں ۔نبی ﷺ نےمعراج میں اس کا سفر کیا اور زیارت کے طور پر یہاں پر سفر کرنے کا حکم بھی دیا ہے ۔ یہاں پر ایک وقت کی نماز ڈھائی سو نماز کے برابر ہے ۔ یہاں پر اللہ تعالی نے بے پناہ برکت رکھی ہے اور یہ مقدس سرزمین ہے ۔
نبی ﷺ نے نبوت سے پہلے دومرتبہ ملک شام کا سفر کیا ۔ایک مرتبہ اپنے چچا کے ساتھ جو بحیرہ راہب کےواقعہ کے ساتھ معروف ہے ۔ دوسری مرتبہ حضرت خدیجہ کا مال لیکر تجارت کی غرض سے ۔
یہ شام ہمیشہ علم وفن اور نور نبوت سے منور رہا ہے ۔ یہاں بہت سارے انبیاء آئے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بھیجے کے ساتھ عراق سے شام کا سفر کیااور یہیں سے اللہ کے حکم پر سیدہ ہاجرہ اوراسماعیل علیہ السلام کو لق ودق صحرا میں چھوڑنے کے لئے سفر کیا تھا۔ آپ کے بعد اسحاق علیہ السلام ، یعقوب علیہ السلام ، ایوب علیہ السلام ، داؤد علیہ السلام ، سلیمان علیہ السلام ، الیاس علیہ السلام ، الیسع علیہ السلام ، زکریا علیہ السلام ، یحی علیہ السلام اور عیسی علیہ السلام آئے۔
نبی ﷺ نے اسامہ بن زید کو ایک لشکر دے کراس کی طرف روانگی کا حکم دیا تھا مگر عین وقت پر آپ کی بیماری کی وجہ سے یہ لشکر روانہ نہ ہوسکا ۔ آپ کی وفات کے بعد بغیر تاخیر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت اسامہ کو لشکر کے ساتھ روانہ کیااور فتح یابی سے ہمکنار ہوا۔ عہد فاروقی میں بیت المقدس فتح ہوگیا۔
اسی سرسبزوشاداب سرزمین میں امام نووی شارح صحیح مسلم ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ ، علامہ ابن القیم ، حافظ ابن عساکر اورحافظ ابن حجر عسقلانی وغیرہ جیسے علماء وفضلاء پیدا ہوئے ۔ یہاں بہت سارے انبیاء ، بہت سارے علماء ومحدثین اور بہت سارے صحابہ کرام مدفون ہیں ۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں بلاد شام کی فضیلت
قرآن وحدیث میں بہت سارے نصوص شام کی فضیلت سے متعلق ہیں ، مختصرا چند فضائل یہاں ذکر کئے جاتے ہیں ۔
(1) بابرکت سرزمین : مسجد اقصی اور اس کے ارد گرد اللہ نے برکت رکھی ہے ، اللہ کا فرمان ہے :
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (الاسراء:1)
ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو ایک رات میں مسجدحرام سے مسجد اقصی تک کہ جس کے ارد گرد ہم نے برکت رکھ دی ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں ۔یقینا اللہ تعالی ہی خوب سنے دیکھنے والا ہے ۔
اور نبی ﷺ سے پورے شام کے لئے دعائے برکت کرنا ثابت ہے ۔ آپ ﷺ نے دعا کی :
اللهمَّ بارِكْ لنا في شامِنا ، اللهمَّ بارِكْ لنا في يَمَنِنا (صحيح البخاري:7094)
ترجمہ: اے اللہ! ہمیں برکت عطا فرما ہمارے شام میں، ہمیں برکت دے ہمارے یمن میں۔
(2) ایمان والی سرزمین :
نبی ﷺ نے فرمایا:
بَينا أنا نائمٌ رأيتُ عمودَ الكتابِ احْتُمِلَ مِن تحتِ رأسي فعُمِدَ بهِ إلى الشَّامِ ، ألا وإنَّ الإيمانَ حين تقعُ الفتنُ بالشَّامِ .(صحيح الترغيب:3094)
ترجمہ: میں نے خواب میں دیکھا کہ کچھ لوگ کتاب(دین) کا ایک بنیادی حصہ لے گئے اور انہوں نے (ملک) شام کا قصد کیا۔ پس جب فتنے رونما ہوں تو ایمان شام میں ہوگا۔
(3) میدان حشر: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
ستَخرُجُ نارٌ من حَضرموتَ أو من نحوِ بحرِ حضرموتَ قبلَ يومِ القيامةِ تَحشُرُ النَّاسَ قالوا : يا ترجمہ: رسولَ اللَّهِ ، فما تأمُرُنا ؟ فقالَ : عليكُم بالشَّامِ(صحيح الترمذي:2217)
ترجمہ: قیامت سے پہلے حضرموت یا حضرموت کے سمندرکی طرف سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو اکٹھاکرے گی ، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس وقت آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں’، آپ نے فرمایا:’ تم شام چلے جانا۔
(4) اہل شام کے لئے فرشتے پربچھاتے ہیں:نبی ﷺ کا فرمان ہے :
طوبى للشامِ فقلْنا لأيٍّ ذلك يا رسولَ اللهِ قال لأن ملائكةَ الرحمنِ باسطةٌ أجنحَتَها عليْها(صحيح الترمذي:3954)
ترجمہ: مبارکبادی ہو شام کے لیے، ہم نے عرض کیا: کس چیز کی اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا:’اس بات کی کہ رحمن کے فرشتے ان کے لیے اپنے بازو بچھا تے ہیں۔
(5) نومسلموں کے ذریعہ دین کی مدد : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إذا وقعتِ الملاحِمَ، بعثَ اللَّهُ بعثًا منَ الموالي، هم أَكرَمُ العربِ فَرَسًا، وأجودُهُ سلاحًا، يؤيِّدُ اللَّهُ بِهمُ الدِّينَ(صحيح ابن ماجه:3319)
ترجمہ: جب جنگیں ہوں گی تو اللہ تعالی موالی(نومسلموں )کاایک لشکر کھڑا کرے گا۔ ان کے گھوڑے عرب کے بہترین گھوڑے ہوں گے اور ان کا اسلحہ سب سے عمدہ ہوگا۔ اللہ تعالی ان کے ذریعے سے دین کی مدد کرے گا۔
بعض روایت میں الفاظ ہیں ” اذا وقعتِ الملاحمُ بعث اللهُ من دمشقَ بعثًا من الموالي أكرمُ العربِ فرسًا وأجودُهم سلاحًا يُؤَيِّدُ اللهُ بهمُ الدِّينَ”یعنی دمشق سے نومسلموں کا ایک لشکر کھڑا کرے گا۔ اس روایت کو شیخ البانی نے فضائل الشام ودمشق میں صحیح کہا ہے ۔
(6) اہل شام کے حق پرست جماعت کو اللہ کی مدد:
قرہ بن ایاس المزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
إذا فسدَ أَهْلُ الشَّامِ فلا خيرَ فيكم : لا تَزالُ طائفةٌ من أمَّتي منصورينَ لا يضرُّهم من خذلَهُم حتَّى تقومَ السَّاعةُ(صحيح الترمذي:2192)
ترجمہ: اگر اہل شام میں فساد برپا ہوجائے تو پھر تم میں کوئی خیر نہیں ہے۔ میری امت میں ہمیشہ ایک ایسی جماعت رہے گی جس کو اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوگی اور اس کو نیچا دکھانے والے قیامت تک اس جماعت کو نقصان نہیں پہونچا سکتے ہیں۔
(7) شام ارض مقدس اور بوقت خلافت قرب قیامت کا سبب ہے:
نبی ﷺ نے فرمایا:
يا ابنَ حوالةَ، إذا رأيتَ الخلافةَ قد نزَلَت أرضَ المقدَّسةِ فقَد دنَتِ الزَّلازِلُ والبَلابلُ والأمُورُ العِظامُ، والسَّاعةُ يومَئذٍ أقرَبُ منَ النَّاسِ من يدي هذِهِ من رأسِكَ(صحيح أبي داود:2535)
ترجمہ: اے ابن حوالہ ! جب تم دیکھو کہ خلافت ارض مقدس ( شام ) تک پہنچ گئی ہے تو زلزلے آنے لگیں گے ‘ مصیبتیں ٹوٹیں گی ۔اور بھی بڑی بڑی علامتیں ظاہر ہوں گی اور قیامت اس وقت لوگوں کے اس سے زیادہ قریب ہو گی جتنا کہ میرا ہاتھ تمہارے سر پر ہے ۔
(8) نزول عیسی علیہ السلام اور قتل دجال : نبی ﷺ نے فرمایا:
ينزل عيسى بن مريم ، عند المنارة البيضاء شرقي دمشق فيدركه عند بًاب لد فيقتله(صحيح أبي داود:4321)
ترجمہ: دمشق کے مشرق میں سفید منارے کے پاس عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے ‘ پس وہ (دجال کو) اس باب لد کے پاس پائیں گے اور اس کا کام تمام کر دیں گے ۔
ان کے علاوہ اور بھی شام کے فضائل وخصوصیات ہیں مثلا یہ مومنوں کا مسکن ، بہترین بندوں کی سرزمین ، مال غنیمت اور رزق کی جگہ ہے جنہیں بخوف طوالت چھوڑ دیا گیا۔
موجودہ شام (سوریا) کے حالات
ارض مقدس بلاد شام کا ایک حصہ موجودہ شام (سوریا)اس وقت آگ وخون کی لپیٹ میں ہے ۔ یہ سلسلہ 2011 سے شروع ہوا جو رکنے کا نام نہیں لے رہاہے۔ پانچ سالوں میں ڈھائی لاکھ لوگ مرچکے ہیں ۔ ہزاروں کی تعداد میں شہری مصر،لبنان، عراق،اردن ،ترکی اور سعودی عرب میں پناہ گزین ہیں۔سوریا کے اکثر شہر خصوصا درعا، رستن،جسرالثغور،ادلب اورحمص وغیرہ میں توپوں،بموں ،ٹینکوں اور میزائلوں سے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی گئی۔ ہزاروں مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ اور اس وقت شام کا شہر حلب مسلمانوں کے خون سے بالکل شرابور ہے ۔ بچہ بچہ بلک رہاہے ، عورتیں چیخ رہی ہیں، مردوجوان آہ وبکا لگارہے ہیں ۔حلب ہی نہیں پورے شام میں ہرجانب سے یامسلمون المدد ،یا عرب المدد کی لرزتی ،کپکپاتی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔ بشار الاسدنصیری ظالم حاکم اور اس کا ظالم فوجی مسلمانوں پر ظلم کرنے کا کوئی طریقہ نہیں چھوڑاہے ۔عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی،جلتے سگریٹ سے داغنا،آگ سے جلانا،جسم میں سوراخ کرنا، ہاتھ اور پیر کاٹنا،زندہ انسان کے جسم سے چمڑی چھیلنا،کھولتا پانی جسم پر اور حلق میں ڈالنا،جسم میں کیل وکاٹے ٹھوکنا، ستانے کے لئے جسم کے مختلف حصے پر گولی داغنا ،جسم کی ہڈیا ں توڑنا، عضو تناسل کاٹنا،گدی سے زبان کھیچناوغیرہ وغیرہ حیوانیت سوز سزائیں دی جارہی ہیں ۔ اس طرح سے ایک جانور کے ساتھ بھی کرنا درندگی شمار ہوگا۔ الحفیظ والامان
اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق گذشتہ اکیس مہینوں میں 60 ہزار شامی ہلاک ہوچکے ہیں ۔ ان کے علاوہ نہ جانے کتنے لاپتہ،کتنے فرار، کتنے اسپتال میں اورکتنے اعدادوشمار سے باہر ہوں گے ۔
اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود عالمی برادری ، اقوام متحدہ اور بین الاقوامی تنظیمیں خاموش ہیں ۔ مسلم حکمراں ، مسلم تنظیمیں اور مسلم ذمہ داران بھی غفلت کی لمبی چادر تانے سورہے ہیں ۔ ہم مسلمانوں کو اپنے شامی بھائیوں کے جان ومال کے تحفظ کے لئے اسی وقت اقدام کرنا ہوگا۔ ہمیں ان کی ہرطرح سے امداد دینی ہوگی ۔ خوابیدہ ضمیرذمہ داروں کو جگانا ہوگا۔ ظالم حکمرانوں کو سبق سکھانا ہوگا۔ ظلم کو ہوادینے والوں، اتحاد کو توڑنے اور انتشار وانارکی کو پھیلانے والوں کا گلا دباہوگا۔ مظلوم بھائیوں کے لئے کثرت سے دعا کریں اور امداد کی جو صورت آپ کو نظر آئے پیش کرنے میں دریغ نہ کریں خواہ قنوت نازلہ یا دعائے نیم شبی کے ذریعہ ہی سہی۔
یااللہ !شامی مسلمان کی غیبی مدد فرما، مسلم خواتین کی عزت وآبروکی حفاظت فرما، ظالموں کو فرشتوں اور پاکباز مجاہدوں کے ذریعہ نیست ونابود کردے، رذیل اقوام جو شامی مسلمانوں کی تباہی پہ تلےہیں انہیں خاکستردے۔ اور پورے جہان کے مسلمانوں کو اپنی پناہ میں لے لے ۔ آمین یارب العالمین۔
مقبول احمد سلفی
بلاد شام کی تاریخ
بلاد شام چارممالک پر مشتمل ہےوہ سوریہ ،لبنان،فلسطین اور اردن ہیں۔پہلی عالمی جنگ عظیم تک یہ چاروں ممالک ملک شام سے شامل تھا۔ انگریزوں اور اہل فرانس کی مکاری سے اسے ٹکڑوں میں تقسیم کردیا گیااور 1920موجودہ شام بنام سوریاوجود میں آیا۔ انگریزی میں سوریا کو سیریااور عربی میں عرب جمہوریہ سوریا کہاجاتا ہے ۔ اسے اردو میں شام کہا جاتا ہے ۔
موجودہ شام براعظم ایشیا کے انتہائی مغرب میں واقع ہے جو تین براعظموں کا سنگم ہے ۔ براعظم ایشیا، براعظم پورپ اور براعظم افریقہ ۔ اس کے مغرب میں بحر متوسط اور لبنان، جنوب مغرب میں فلسطین اور مقبوضہ فلسطین(اسرائیل)، جنوب میں اردن ،مشرق میں عراق اور شمال میں ترکی ہے ۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں جب ملک شام کی بات ہوتو اس سے چاروں ممالک(سوریا،لبنان،فلسطین،اردن) مراد ہوں گے ۔ یہاں اسی پس منظر میں تحریر ہوگی ۔بلاد شام میں فلسطین کا شہر بیت المقدس اور سوریا کا شہر دمشق تاریخی اور شرعی اعتبار سے کافی اہمیت کا حامل ہے۔
مسجد اقصی کے بےشمار فضائل ہیں،یہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور دنیا کی دوسری مسجد ہے جو کعبہ کے بعد بنائی گئی اس کے بنانے والے انبیاء ہیں ۔نبی ﷺ نےمعراج میں اس کا سفر کیا اور زیارت کے طور پر یہاں پر سفر کرنے کا حکم بھی دیا ہے ۔ یہاں پر ایک وقت کی نماز ڈھائی سو نماز کے برابر ہے ۔ یہاں پر اللہ تعالی نے بے پناہ برکت رکھی ہے اور یہ مقدس سرزمین ہے ۔
نبی ﷺ نے نبوت سے پہلے دومرتبہ ملک شام کا سفر کیا ۔ایک مرتبہ اپنے چچا کے ساتھ جو بحیرہ راہب کےواقعہ کے ساتھ معروف ہے ۔ دوسری مرتبہ حضرت خدیجہ کا مال لیکر تجارت کی غرض سے ۔
یہ شام ہمیشہ علم وفن اور نور نبوت سے منور رہا ہے ۔ یہاں بہت سارے انبیاء آئے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بھیجے کے ساتھ عراق سے شام کا سفر کیااور یہیں سے اللہ کے حکم پر سیدہ ہاجرہ اوراسماعیل علیہ السلام کو لق ودق صحرا میں چھوڑنے کے لئے سفر کیا تھا۔ آپ کے بعد اسحاق علیہ السلام ، یعقوب علیہ السلام ، ایوب علیہ السلام ، داؤد علیہ السلام ، سلیمان علیہ السلام ، الیاس علیہ السلام ، الیسع علیہ السلام ، زکریا علیہ السلام ، یحی علیہ السلام اور عیسی علیہ السلام آئے۔
نبی ﷺ نے اسامہ بن زید کو ایک لشکر دے کراس کی طرف روانگی کا حکم دیا تھا مگر عین وقت پر آپ کی بیماری کی وجہ سے یہ لشکر روانہ نہ ہوسکا ۔ آپ کی وفات کے بعد بغیر تاخیر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت اسامہ کو لشکر کے ساتھ روانہ کیااور فتح یابی سے ہمکنار ہوا۔ عہد فاروقی میں بیت المقدس فتح ہوگیا۔
اسی سرسبزوشاداب سرزمین میں امام نووی شارح صحیح مسلم ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ ، علامہ ابن القیم ، حافظ ابن عساکر اورحافظ ابن حجر عسقلانی وغیرہ جیسے علماء وفضلاء پیدا ہوئے ۔ یہاں بہت سارے انبیاء ، بہت سارے علماء ومحدثین اور بہت سارے صحابہ کرام مدفون ہیں ۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں بلاد شام کی فضیلت
قرآن وحدیث میں بہت سارے نصوص شام کی فضیلت سے متعلق ہیں ، مختصرا چند فضائل یہاں ذکر کئے جاتے ہیں ۔
(1) بابرکت سرزمین : مسجد اقصی اور اس کے ارد گرد اللہ نے برکت رکھی ہے ، اللہ کا فرمان ہے :
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (الاسراء:1)
ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو ایک رات میں مسجدحرام سے مسجد اقصی تک کہ جس کے ارد گرد ہم نے برکت رکھ دی ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں ۔یقینا اللہ تعالی ہی خوب سنے دیکھنے والا ہے ۔
اور نبی ﷺ سے پورے شام کے لئے دعائے برکت کرنا ثابت ہے ۔ آپ ﷺ نے دعا کی :
اللهمَّ بارِكْ لنا في شامِنا ، اللهمَّ بارِكْ لنا في يَمَنِنا (صحيح البخاري:7094)
ترجمہ: اے اللہ! ہمیں برکت عطا فرما ہمارے شام میں، ہمیں برکت دے ہمارے یمن میں۔
(2) ایمان والی سرزمین :
نبی ﷺ نے فرمایا:
بَينا أنا نائمٌ رأيتُ عمودَ الكتابِ احْتُمِلَ مِن تحتِ رأسي فعُمِدَ بهِ إلى الشَّامِ ، ألا وإنَّ الإيمانَ حين تقعُ الفتنُ بالشَّامِ .(صحيح الترغيب:3094)
ترجمہ: میں نے خواب میں دیکھا کہ کچھ لوگ کتاب(دین) کا ایک بنیادی حصہ لے گئے اور انہوں نے (ملک) شام کا قصد کیا۔ پس جب فتنے رونما ہوں تو ایمان شام میں ہوگا۔
(3) میدان حشر: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
ستَخرُجُ نارٌ من حَضرموتَ أو من نحوِ بحرِ حضرموتَ قبلَ يومِ القيامةِ تَحشُرُ النَّاسَ قالوا : يا ترجمہ: رسولَ اللَّهِ ، فما تأمُرُنا ؟ فقالَ : عليكُم بالشَّامِ(صحيح الترمذي:2217)
ترجمہ: قیامت سے پہلے حضرموت یا حضرموت کے سمندرکی طرف سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو اکٹھاکرے گی ، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس وقت آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں’، آپ نے فرمایا:’ تم شام چلے جانا۔
(4) اہل شام کے لئے فرشتے پربچھاتے ہیں:نبی ﷺ کا فرمان ہے :
طوبى للشامِ فقلْنا لأيٍّ ذلك يا رسولَ اللهِ قال لأن ملائكةَ الرحمنِ باسطةٌ أجنحَتَها عليْها(صحيح الترمذي:3954)
ترجمہ: مبارکبادی ہو شام کے لیے، ہم نے عرض کیا: کس چیز کی اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا:’اس بات کی کہ رحمن کے فرشتے ان کے لیے اپنے بازو بچھا تے ہیں۔
(5) نومسلموں کے ذریعہ دین کی مدد : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إذا وقعتِ الملاحِمَ، بعثَ اللَّهُ بعثًا منَ الموالي، هم أَكرَمُ العربِ فَرَسًا، وأجودُهُ سلاحًا، يؤيِّدُ اللَّهُ بِهمُ الدِّينَ(صحيح ابن ماجه:3319)
ترجمہ: جب جنگیں ہوں گی تو اللہ تعالی موالی(نومسلموں )کاایک لشکر کھڑا کرے گا۔ ان کے گھوڑے عرب کے بہترین گھوڑے ہوں گے اور ان کا اسلحہ سب سے عمدہ ہوگا۔ اللہ تعالی ان کے ذریعے سے دین کی مدد کرے گا۔
بعض روایت میں الفاظ ہیں ” اذا وقعتِ الملاحمُ بعث اللهُ من دمشقَ بعثًا من الموالي أكرمُ العربِ فرسًا وأجودُهم سلاحًا يُؤَيِّدُ اللهُ بهمُ الدِّينَ”یعنی دمشق سے نومسلموں کا ایک لشکر کھڑا کرے گا۔ اس روایت کو شیخ البانی نے فضائل الشام ودمشق میں صحیح کہا ہے ۔
(6) اہل شام کے حق پرست جماعت کو اللہ کی مدد:
قرہ بن ایاس المزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
إذا فسدَ أَهْلُ الشَّامِ فلا خيرَ فيكم : لا تَزالُ طائفةٌ من أمَّتي منصورينَ لا يضرُّهم من خذلَهُم حتَّى تقومَ السَّاعةُ(صحيح الترمذي:2192)
ترجمہ: اگر اہل شام میں فساد برپا ہوجائے تو پھر تم میں کوئی خیر نہیں ہے۔ میری امت میں ہمیشہ ایک ایسی جماعت رہے گی جس کو اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوگی اور اس کو نیچا دکھانے والے قیامت تک اس جماعت کو نقصان نہیں پہونچا سکتے ہیں۔
(7) شام ارض مقدس اور بوقت خلافت قرب قیامت کا سبب ہے:
نبی ﷺ نے فرمایا:
يا ابنَ حوالةَ، إذا رأيتَ الخلافةَ قد نزَلَت أرضَ المقدَّسةِ فقَد دنَتِ الزَّلازِلُ والبَلابلُ والأمُورُ العِظامُ، والسَّاعةُ يومَئذٍ أقرَبُ منَ النَّاسِ من يدي هذِهِ من رأسِكَ(صحيح أبي داود:2535)
ترجمہ: اے ابن حوالہ ! جب تم دیکھو کہ خلافت ارض مقدس ( شام ) تک پہنچ گئی ہے تو زلزلے آنے لگیں گے ‘ مصیبتیں ٹوٹیں گی ۔اور بھی بڑی بڑی علامتیں ظاہر ہوں گی اور قیامت اس وقت لوگوں کے اس سے زیادہ قریب ہو گی جتنا کہ میرا ہاتھ تمہارے سر پر ہے ۔
(8) نزول عیسی علیہ السلام اور قتل دجال : نبی ﷺ نے فرمایا:
ينزل عيسى بن مريم ، عند المنارة البيضاء شرقي دمشق فيدركه عند بًاب لد فيقتله(صحيح أبي داود:4321)
ترجمہ: دمشق کے مشرق میں سفید منارے کے پاس عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے ‘ پس وہ (دجال کو) اس باب لد کے پاس پائیں گے اور اس کا کام تمام کر دیں گے ۔
ان کے علاوہ اور بھی شام کے فضائل وخصوصیات ہیں مثلا یہ مومنوں کا مسکن ، بہترین بندوں کی سرزمین ، مال غنیمت اور رزق کی جگہ ہے جنہیں بخوف طوالت چھوڑ دیا گیا۔
موجودہ شام (سوریا) کے حالات
ارض مقدس بلاد شام کا ایک حصہ موجودہ شام (سوریا)اس وقت آگ وخون کی لپیٹ میں ہے ۔ یہ سلسلہ 2011 سے شروع ہوا جو رکنے کا نام نہیں لے رہاہے۔ پانچ سالوں میں ڈھائی لاکھ لوگ مرچکے ہیں ۔ ہزاروں کی تعداد میں شہری مصر،لبنان، عراق،اردن ،ترکی اور سعودی عرب میں پناہ گزین ہیں۔سوریا کے اکثر شہر خصوصا درعا، رستن،جسرالثغور،ادلب اورحمص وغیرہ میں توپوں،بموں ،ٹینکوں اور میزائلوں سے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی گئی۔ ہزاروں مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ اور اس وقت شام کا شہر حلب مسلمانوں کے خون سے بالکل شرابور ہے ۔ بچہ بچہ بلک رہاہے ، عورتیں چیخ رہی ہیں، مردوجوان آہ وبکا لگارہے ہیں ۔حلب ہی نہیں پورے شام میں ہرجانب سے یامسلمون المدد ،یا عرب المدد کی لرزتی ،کپکپاتی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔ بشار الاسدنصیری ظالم حاکم اور اس کا ظالم فوجی مسلمانوں پر ظلم کرنے کا کوئی طریقہ نہیں چھوڑاہے ۔عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی،جلتے سگریٹ سے داغنا،آگ سے جلانا،جسم میں سوراخ کرنا، ہاتھ اور پیر کاٹنا،زندہ انسان کے جسم سے چمڑی چھیلنا،کھولتا پانی جسم پر اور حلق میں ڈالنا،جسم میں کیل وکاٹے ٹھوکنا، ستانے کے لئے جسم کے مختلف حصے پر گولی داغنا ،جسم کی ہڈیا ں توڑنا، عضو تناسل کاٹنا،گدی سے زبان کھیچناوغیرہ وغیرہ حیوانیت سوز سزائیں دی جارہی ہیں ۔ اس طرح سے ایک جانور کے ساتھ بھی کرنا درندگی شمار ہوگا۔ الحفیظ والامان
اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق گذشتہ اکیس مہینوں میں 60 ہزار شامی ہلاک ہوچکے ہیں ۔ ان کے علاوہ نہ جانے کتنے لاپتہ،کتنے فرار، کتنے اسپتال میں اورکتنے اعدادوشمار سے باہر ہوں گے ۔
اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود عالمی برادری ، اقوام متحدہ اور بین الاقوامی تنظیمیں خاموش ہیں ۔ مسلم حکمراں ، مسلم تنظیمیں اور مسلم ذمہ داران بھی غفلت کی لمبی چادر تانے سورہے ہیں ۔ ہم مسلمانوں کو اپنے شامی بھائیوں کے جان ومال کے تحفظ کے لئے اسی وقت اقدام کرنا ہوگا۔ ہمیں ان کی ہرطرح سے امداد دینی ہوگی ۔ خوابیدہ ضمیرذمہ داروں کو جگانا ہوگا۔ ظالم حکمرانوں کو سبق سکھانا ہوگا۔ ظلم کو ہوادینے والوں، اتحاد کو توڑنے اور انتشار وانارکی کو پھیلانے والوں کا گلا دباہوگا۔ مظلوم بھائیوں کے لئے کثرت سے دعا کریں اور امداد کی جو صورت آپ کو نظر آئے پیش کرنے میں دریغ نہ کریں خواہ قنوت نازلہ یا دعائے نیم شبی کے ذریعہ ہی سہی۔
یااللہ !شامی مسلمان کی غیبی مدد فرما، مسلم خواتین کی عزت وآبروکی حفاظت فرما، ظالموں کو فرشتوں اور پاکباز مجاہدوں کے ذریعہ نیست ونابود کردے، رذیل اقوام جو شامی مسلمانوں کی تباہی پہ تلےہیں انہیں خاکستردے۔ اور پورے جہان کے مسلمانوں کو اپنی پناہ میں لے لے ۔ آمین یارب العالمین۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں