وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حائضہ عورت کے قرآن مجید کی تلاوت کے بارے میں اکتوبر ٩٥ء کے مجلّۃ الدعوۃ میں تفصیلاً لکھا گیا ہے کہ شریعت میں ایسی کوئی دلیل موجود نہیں جس میں حائضہ عورت کو قرآن مجید پڑھنے سے روکا گیا ہو ۔
رہا قرآن مجید کو چھونے کا مسئلہ تو اس کے متعلق اہل علم کی آراء مختلف ہیں۔ عدل و انصاف کے ترازو جس بات کو ترجیح ملتی ہے وہ یہ ہے کہ عورت کو ایسی حالت میں بال وجہ قرآن مجید کو نہ چھونا چاہئے لیکن پڑھنے اور پڑھانے کے سلسلہ میں اگر چھو بھی لیتی ہے توا س میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ قرآن مجید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین میں کوئی ایسی دلیل نہیں جو اس کی حرمت پر دال ہو۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں حائضہ ہوتی تھیں۔ وہ قرآن مجید پڑھتی پڑھاتی بھی تھی لیکن کہیں بھی ان کو یہ تعلیم نہیں دی گئی کہ وہ ایسی حالت میں قرآن مجید کو چھو نہیں سکتیں۔ اس وقت اس مسئلہ کے بیان کی ضرورت بھی تھی لیکن ضرورت کے باوجود شارع علیہ السلام کی اس پر خاموشی اس کے جواز کے دلیل ہے۔ قرآن مجید کی جس آیت سے استدلال کرتے ہیں وہ استدلال درست نہیں ہے کیونکہ یہ آیت قرآن مجید کے چھونے کے بارے میں نہیں ہے۔
اس آیت کے سیاق و سباق کا غور سے مطالعہ کریں تو بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ قرآن مجید کے متعلق نہیں بلکہ لوحِ محفوظ کے متعلق کہی گئی ہے۔ ( لایمسه،) کی ضمیر کا مرجع ( فی کتاب مکنون ) ہے۔ اور ( لا یمسه) سے مراد فرشتے ہیں ۔
تو اس آیت کا معنی ہے کہ لوح محفو خ کو فرشتوں کے سوا کوئی نہیں چھوتا۔''
(المطھرون)سے مراد فرشتے ہیں ۔ اس بات پر عبداللہ بن عباس، انس بن مالک کے علاوہ تابعین کی بہت بڑی جماعت متفق ہے۔
احناف کی تفسیر روح المعانی میں ہے:
" إن المراد بالمطهرين الملائكة مروى من عدة طرق عن ابن عباس وكذا أخرجه جماعة عن أنس وقتادة وابن جبير و مجاهد و أبى العالية وغيرهم –"
ابن کثیر میں بھی اس معنی کی عبارت موجود ہے کہ مطہرین سے مراد فرشتے ہیں ۔ یہ عبداللہ بن عباس سے کئی اسناد کے ساتھ مروی ہے اور انس رضی اللہ عنہ سے بھی ایک جماعت نے اس کو روایت کیا ہے۔ تفسیر رازی میں ہے ۔ الضمیر عائد الی الکتاب علی الصحیح کہ لا یمسہ، کی کتاب ( لوح محفوظ ) کی طرف راجع ہے۔
اشرف الحواشی میں ہے کہ بعض نے اس ضمیر کو قرآن مجید کیلئے مانا ہے اور یہ استدلال کیا ہے کہ بے وضو ہونے کی حالت میں اسے چھونا جائز نہیں ہے مگر یہ استدلال صحیح نہیں ہے اور قرآن مجید کو بے وضو چھونا جائز ہے گو بہتر یہ ہے کہ وضو کر لیا جائے۔
قرآن مجید کو چھونے کے متعلق جو صحیح حدیث کے الفاظ ہیں ( لا یمسه، إلا طاهر) '' طاہر کے سواء قرآن کو کوئی نہ چھوئے۔'' ا س طاہر کی تفسیر صحیح بخاری شریف کی حدیث میں موجود ہے۔ جس کے راوی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ یہ جبنی تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر دور سے گزر گئے، غسل کے بعد واپس آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کہا ( ألمؤمن لا ینجس ) کہ مومن نجس ہوتا ہی نہیں ہے۔
اس حدیث سے ظاہر ہے کہ ( إلا طاهر ) سے مراد الا مومن ہے ۔ یعنی قرآن مجید کو مومن کے سوا دوسرا نہ چھوئے۔ اور یہ بات مسلم ہے کہ حیض کی حالت میں عورت مومنہ ہی رہتی ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مجھے مسجد سے مصلیٰ پکڑاؤ ۔ انہوں نے کہا کہ میں حائضہ ہوں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا :
(( إن حيضتك ليست فى يدك)) (رواه مسلم , مشكوة المصابيح باب الحيض)
'' بے شک تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں ہے ۔''
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ اس مسئلہ کی نص کی حیثیت رکھتے ہیں کہ حیض کی نجاست ہاتھ کے اندر نہیں ہے۔ بلکہ حیض کی حالت میں ہاتھ پاک ہی رہتا ہے ۔
اس ساری وضاحت کے باوجود اگر مسلمان عورت زیادہ تعظیم اور احترام کے پیش نظر قرآن مجید کو بغیر چھونے کے اگر پڑھ سکتی ہے یا کوئی صاف ستھرا کپڑا قرآن مجید کو پکڑنے اور اوراق اُلٹانے کیلئے استعمال کر لے تو بہت بہتر اور اچھا ہے ۔ اس سے علماء کے اختلاف سے بھی نکل جائے گی ۔ ایسی صورت میں امام نووی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔" جائز بلا خلاف" ( شرح المہذب ٢۲/٣۳۷۲٧٢) کہ اس کے جواز میں کسی کو اختلاف نہیں ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں