اپنی زبان منتخب کریں

ہفتہ، 9 جنوری، 2016

جماعت ضروري هين ،، خادم عبدالمومن سلفي ،،،،


الحمد للہ:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حذیفہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم جاہلیت میں شر کے ساتھ تھے تو اللہ تعالی نے ہمیں یہ خیر عنائت فرمائی، تو کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہوگا؟ آپ نے فرمایا: (ہاں) حذیفہ نے کہا: تو کیا اُس شر کے بعد خیر ہوگی؟ آپ نے فرمایا: (ہاں، لیکن ساتھ میں کچھ دھواں بھی ہوگا) میں نے کہا: دھوئیں سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: (ایسی قوم جو میری راہنمائی سے ہٹ کر ہدایات دینگے اور میری سنت سے ہٹ کر طریقے وضع کرینگے، انکی کچھ باتوں کو تم پہچان لوگے اور کچھ تمہارے لئے اوپری ہونگی) حذیفہ نے کہا: یا رسول اللہ! کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہوگا؟ آپ نے فرمایا: (ہاں! وہ جہنم کے دروازوں پر بلانے والے ہونگے، جو بھی انکی بات مان لے گا اسے وہ جہنم میں ڈال دینگے) حذیفہ نے کہا: یا رسول اللہ ! ہمیں انکی صفات بتلادیں۔ آپ نے فرمایا: (وہ ہماری ہی نسل سے ہونگے، اور ہماری ہی زبان بولیں گے) یعنی عرب میں سے ہونگے، میں نے کہا: یا رسول اللہ! اس وقت کے بارے میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: (مسلمانوں کی جماعت اور انکے امام کو لازمی پکڑنا) میں نے کہا: اگر اس وقت کوئی جماعت نہ ہو اور نہ ہی کوئی امام ہو؟ آپ نے فرمایا: (تو پھر ان تمام فرقوں سے الگ تھلگ ہوجانا، چاہے تمہیں موت کے آنے تک درختوں کی جڑیں چبانی پڑیں، تم ان سے الگ ہی رہنا) بخاری و مسلم
اس عظیم حدیث میں ہمیں بتلایا گیا ہے کہ ایک مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہے، اور ان کے ساتھ تعاون کرے، چاہے یہ جماعت کسی بھی جگہ جزیرہ عرب میں یا مصر، شام، عراق، امریکہ، یورپ یا کسی اور جگہ ۔
چنانچہ جب کسی مسلمان کو ایسی جماعت ملے جو حق کی طرف بلاتی ہو، تو انکی مدد کرے اور انکے شانہ بشانہ چلے، اور انکی ہمت باندھے، اور حق و بصیرت پر قائم رہنے کی تلقین کرے، اور اگر اسے کوئی جماعت نظر ہی نہ آئے تو حق پر اکیلا ہی ڈٹ جائے، وہ اکیلا ہی جماعت ہوگا، جیسے کہ ابن مسعود رضی اللہ نے عمرو بن میمون سے کہا تھا: "جماعت اسے کہتے ہیں جو حق کے مطابق ہو، چاہے تم اکیلے ہی کیوں نہ ہو"
اس لئے ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ تلاشِ حق کیلئے سرگرداں رہے، اور جیسے ہی یورپ، امریکہ یا کسی بھی جگہ پر حق یعنی کتاب و سنت اور صحیح عقیدہ کی دعوت دینے والے اسلامی مرکز ، یا جماعت کے متعلق علم ہو تو ان کے ساتھ مل جائے اور حق سیکھے ، پھر اہل حق میں شامل ہوکر اس پر ڈٹ جائے۔
ایک مسلمان کیلئے یہی واجب ہے، چنانچہ اگر اسے کوئی جماعت، حکومت ایسی نظر نہیں آتی جو حق کی طرف دعوت دے تو اکیلا ہی حق پر کاربند رہے اور اس پر ثابت قدم ہوجائے، اس وقت وہ اکیلا ہی جماعت ہوگا، جیسے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے عمرو بن میمون کیلئے کہا تھا۔
اور آجکل الحمد للہ ایسی بہت سی جماعتیں پائی جاتی ہیں جو حق کی طرف دعوت دیتی ہیں، جیسے کہ جزیرہ عرب میں ۔۔۔، یمن، خلیج، مصر، شام، افریقہ، یورپ، امریکہ، ہندوستان، پاکستان وغیرہ ساری دنیا میں ایسی جماعتیں اور اسلامی مراکز موجود ہیں جو حق کی دعوت دیتی ہیں اور حق کی خوشخبری لوگوں تک پہنچاتی ہیں، اور مخالفتِ حق سے خبردار کرتی ہیں۔
چنانچہ حق کے متلاشی مسلمان کوچاہئے کہ ان جماعتوں کے بارے میں کھوج لگائے، اور جب کوئی جماعت، یا ایسا مرکز ملے جو قرآن کی دعوت دے، اور سنت رسول اللہ کی طرف بلائے تو ان کے پیچھے چل پڑے، اور انہی کا ہو کر رہ جائے، مثال کے طور پر مصر اور سوڈان میں انصار السنہ، اور جمعیت اہل حدیث پاکستان اور ہندوستان میں، اور بھی ان کے علاوہ جماعتیں ہیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت دیتے ہیں، صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں، اور اللہ کے ساتھ کسی قبر والے یا کسی اور کو نہیں پکارتے.

یہ اقتباس : " مجموع فتاوى ومقالات" از سماحة الشيخ العلامۃ عبد العزيز بن عبد الله بن باز رحمه الله . 8/ 179" سے لیا گیا ہے۔

اسد الدين اويس كا بيان سعودي،،،،،،،،،،،،،،،

ل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے شیخ باقر النمر اور دیگر 47 افراد کو سعودی حکومت کی طرف سے دہشت گردی کے نام پر قتل کر دینے کو تعجب خیز قرار دیا، انہوں نے کہا کہ آل سعود کی یہ حرکت قومی سطح پر مسلمانوں کے مسلکی اختلافات کو بھڑکانا ہے، اسد الدین اویسی نے کہا کہ کچھ لوگ اسے شیعہ و سنی جنگ کی شکل دینے میں لگے ہوئے ہیں اور سعودی عرب کے حکمران بھی بظاہر سنی رہنما بننے کے لئے دھونگ رچائے نظر آ رہے ہیں، اگر ہم آل سعود کے نظام حکومت کو ذاتی شیشے اتار کر دیکھیں تو حقیقت کچھ اور نظر آئے گی، انہوں نے کہا کہ شیخ باقر النمر کے ساتھ سعودی حکومت نے شیخ عمر کو بھی شہید کیا، شیخ عمر سعودی عرب کے سنی عالم دین تھے، جن کو مغربی میڈیا نے جان بوجھ کر نظر انداز کیا، شیخ عمر کا قصور یہ تھا کہ وہ روضہ رسول اللہ (ص) پر سلام، درود و نعت پڑھتے تھے، جس کی وجہ سے انہیں کئی بار سعودی حکومت نے گرفتار کر کے جیل بھیج دیا اور آخر میں دہشت گردی کے نام پر ان کی گردن ہی کاٹ دی گئی، اب اگر اس کے بعد بھی کوئی یہ کہے کہ یہ شیعہ سنی جنگ ہے تو وہ سراسر غلط بیانی ہے۔
 آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے کہا کہ اصل میں یہ جنگ آل سعود کے وہابی فکر سے تصادم ہے، اب جو بھی سعودی حکومت کے خلاف آواز اٹھائے گا اس کا مسلک چاہے کچھ بھی ہو اس کی سزا آل سعود نے موت ہی رکھی ہے، انہوں نے کہا کہ ہمیں سعودی حکومت کی ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے نہ کہ اسے شیعہ سنی کی جنگ کی شکل دینی چاہیے، انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کی حکومت اس سانحہ کو شیعہ سنی کی شکل دے کر دنیا کے سنی ممالک کی صدارت کرنا چاہتی ہے جو اب ممکن نہیں ہے، اسد الدین اویسی نے کہا کہ طالبان کو سب سے پہلے سعودی عرب نے ہی تسلیم کیا تھا، انہوں نے کہا کہ دنیا جانتی ہے کہ دہشت گرد تنظیم ’’آئی ایس آئی ایس‘‘ کی سوچ و سمجھ سعودی حکومت کے وہابی نظریہ سے ہی میل کھاتی ہے، آئی ایس آئی ایس کے لئے سعودی عرب سے بڑی معاونت و فنڈنگ ہوتی ہے۔ ایسے میں سعودی عرب کا دہشت گردی کے خلاف بات کرنا اچھا نہیں لگتا ہے۔

خبر کا کوڈ: 511422

مسلمان اپنی اور غیرون کی نظر مین


الحمد للہ:

مسلمان وہ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کواللہ تعالی کے سپرد کر دیا اوراس کی شریعت کو قائم اوراپنے رب سبحانہ وتعالی کی کتاب اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پرعمل کیا ہے ، اورانہوں نے وہی کام کیے ہیں جن کا انہیں اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیا اورانہوں نے محرمات کوترک کردیا ۔
توجب یہ کچھ پایا جاۓ توپھر ان کے دشمن ان کی طرف ہیبت ووحشت اوراکبار اعزاز کی نظر سے دیکھتے ہیں ، اس کا سبب یہ ہے کہ وہ اس کوجانتے ہیں کہ مسلمانوں کا دین اسلام پرتمسک اورالتزام انہیں اللہ تعالی کے ہاں رفعت وبلندی عطا کرتا اور بندوں اورملکوں پران کی حکومت قا‏ئم کرتا ہے ۔
تواس اعتبار سے اعداء اسلام ان کی طرف ہیبت اور احترام اوران سے خوف کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔
لیکن جب ان میں دینی کمزوری آجاۓ اور اس کا تمسک کمزور پڑ جاۓ اوران میں بدعات اورنۓ نۓ کام پیدا ہو جائيں تودشمنان دین انہیں حقارت و ذلت اورکمینگی کی نظرسے دیکھنا شروع کردیتے ہیں ، دشمنان دین کے دلوں سے مسلمانوں کی ہیبت وخوف جاتا رہتا ہے ۔
اورمسلمان اپنی نظرمیں اس طرح ایک دوسرے کودیکھیں کہ وہ ایک دوسرے کے حالات سے واقفیت اوران کے درمیان واقع ہونے والے خلل وضعف کودیکھتے ہوۓحتی الوسعہ اس کا علاج کریں تا کہ ان کی کھوئ ہوئ‏ عزت واپس آسکے ۔
 تاکہ ان کا دشمن اگران کے حالات جاننے کی کوشش کرے توان سے خوفزدہ ہو، اورمسلمانوں کوچاہیۓ کہ وہ اپنی اصلاح کریں اس لیے کہ اللہ تعالی انہیں قوت دینے والااوران کی مدد ونصرت کرنے والا ہے ۔. 
شیخ عبداللہ بن جبرین
خادم .،عبدالمومن سلفی

IslamQA - Create NewQ - islamqa.info

جمعہ، 8 جنوری، 2016

امير جماعت پاکستان کا بیان .، خاص خبر

السلام علیکم.
تحقیق ...خادم عبدالمومن کشمیری.
www.mominsalafi.wordpress.com
www.mominsalafi.BlogSpot.com
 مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے امیر سینیٹر ساجد میر نے کہا ہے کہ سرزمین حرمین کیخلاف ہونیوالی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ جائے گا، پاکستان کو چاہیے کہ وہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی کے تناظر میں ثالث کا کردار ادا کرے۔ علامہ ساجد میر کی اپیل پر ملک بھر میں ” یوم تحفظ حرمین شریفین“ منایا گیا، مساجد میں خطبات جمعہ کے دوران سعودی عرب کیساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا۔ جامعہ ابراہیمیہ میں جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے علامہ ساجد میر نے کہا کہ مشکل حالات میں اختلافات اور مسائل کا پرامن طریقے سے حل کیا جانا امتِ مسلمہ کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کیخلاف بننے والا اتحاد عربی ہو یا عجمی ساتھ دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ تمام مسلمانوں میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی پر تشویش پائی جاتی ہے، اس صورتحال میں دہشتگرد اور فرقہ پرست عناصر مسلم امہ کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہمیں مشکل کی اس گھڑی میں مسلمانوں کے اتحاد کے لیے تمام اختلافات کا پُرامن حل نکالنا ہو گا، سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کم کرنے مسئلہ کا کوئی سیاسی حل نکل نکالنا چاہیے۔ علاوہ ازیں علامہ ساجد میر نے 10 جنوری بروز اتوار کو لاہور مرکزی دفتر میں پارٹی کی مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کر لیا ہے، جس میں ملکی وبین الاقوامی صورتحال کا جائزہ لینے کیساتھ ساتھ سعودی عرب اور ایران کی کشیدگی پر غور اور آئندہ کا لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔
اسلامک نیوز پاکستان.
خبر کا کوڈ: 511190

جمعرات، 7 جنوری، 2016

قبول عمل كي شرط ،، عبدالمومن سلفي

الحمدللہ
حمدوثنا کےبعد :
کوئی بھی عمل اس وقت تک عبادت نہیں بنتاجب تک کہ اس میں دوچیزیں نہ پائی جائیں ۔
اوروہ دوچیزیں یہ ہےکہ کمال محبت اورکمال تذلل ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :
{ اوروہ لوگ جومومن ہیں وہ اللہ تعالی کی محبت میں بہت سخت ہوتےہیں }البقرۃ /(165)
اوراللہ تبارک وتعالی نےارشادفرمایاہے :
{ یقیناجولوگ اپنےرب کی ہیبت سےڈرتےہیں }المومنون /(57)
اوراللہ تعالی نےاپنےاس فرمان میں اسےجمع کردیاہے :
{ بیشک یہ لوگ نیک کاموں کی طرف جلدی کرتےتھےاورہمارےسامنےعاجزی کرنےوالےتھے }الانبیاء /(90)
توجب اس چیزکاعلم ہوگیاتویہ بھی علم ہوناچاہئےکہ عبادت صرف موحدمسلمان کی ہی قبول ہوتی ہے ۔
جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی کافرمان ہے :
{ اورانہوں نےجوعمل کئےتھےہم ہےان کی طرف انہیں پراگندہ ذروں کی طرح کردیا } الفرقان /(23)
عائشہ رضی اللہ تعالی عنہابیان کرتی ہیں کہ میں نےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کوکہا کہ دورجاہلیت میں ابن جدعان صلہ رحمی کیاکرتااورمسکینوں کوکھاناکھلاتاتھا توکیااسےیہ کام آئےگا ؟ تورسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: اسےیہ کوئی نفع نہیں دےگا کیونکہ اس نےایک دن بھی یہ نہیں کہاکہ اےمیرے رب قیامت کےدن میری غلطیاں معاف کردے ۔
صحیح مسلم حدیث نمبر ۔(214)
یعنی وہ بعث ونشوراورقیامت پرایمان نہیں رکھتاتھااورنہ ہی وہ اس لئےعمل کرتارہا کہ وہ اللہ تعالی کےسامنے پیش ہوگا ۔
پھریہ کہ مسلمان کی عبادت اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک کہ اس میں بنیادی طورپردوشرطیں نہ ہوں ۔
اول : اللہ تعالی کےلئےاخلاص نیت :
وہ اس طرح کہ بندےکےسارےاقوال وافعال اوراعمال ظاہری اورباطنی سب کےسب اللہ تعالی کی رضااورخوشنودی کےلئےہوں کسی اورکےلئےنہیں ۔
دوم : کہ وہ کام اورعبادت اس طریقےاورشریعت کےمطابق ہوجس کااللہ تعالی نےحکم دیاہے ۔
اوروہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےمتابعت اورپیروی واتباع سےہوگاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےجوکہاہےوہ کیاجائےاورجس سےروکاہےاس سےرک جائےاوران کی مخالفت نہ کی جائےاورنہ ہی کوئی ایسی نئی عبادت یاطریقہ ایجادکرلیاجائےجوکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےثابت نہ ہو ۔
اوران دونوں شرطوں کی دلیل اللہ تعالی کایہ فرمان ہے:
{ توجسے بھی اپنےرب سےملنےکی امیدہےاسےچاہئےکہ وہ نیک اعمال کرےاوراپنےرب کی عبادت میں کسی کوبھی شریک نہ کرے } ا کہف ۔/(110)
ابن کثیررحمہ اللہ تعالی کاقول ہے:
{ توجسے بھی اپنےرب سےملنےکی امیدہے } یعنی اس کےثواب اوراچھی جزااوربدلے کی { اسےچاہئےکہ وہ نیک اعمال کرے } یعنی جوکہ اللہ تعالی کی شریعت کےموافق ہوں { اوراپنےرب کی عبادت میں کسی کوبھی شریک نہ کرے } اوروہ اس سےصرف اللہ تعالی وحدہ لاشریک کاچہرہ اور رضاچاہتاہو۔
توقبول عمل کےیہ دوضروری ارکان ہیں کہ وہ اللہ تعالی کےلئےخالص اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کےمطابق ہوناچاہئے ۔ا ھـ
انسان جتنازیادہ اپنےرب اوراس کےاسماءاورصفات کاعلم رکھتاہوگااتناہی اس میں اخلاص زیادہ ہوگااورجتنازیادہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی سنت کاعلم رکھتاہوگا اس میں اتنی ہی اتباع اورفرماں برداری زیادہ ہوگی ۔
دنیاوآخرت میں کامیابی وکامرانی کاحصول بھی اخلاص اورمتابعت وفرماں برداری سےہی ہےہم اللہ تعالی سےدعاگوہیں کہ وہ ہمیں دنیاوآخرت کی کامیابی نصیب فرمائے۔آمین ۔
واللہ

بدھ، 6 جنوری، 2016

خون لینا اور خون دینا

السلام. عليكم
خون. كا لين دين.

جسے خون دیا جارہا ہےیہ وہ شخص ہے جومرض کی وجہ سے یا زخمی ہونے کی وجہ سے موت وحیات کی کشمکش میں ہے اوراسے خون کی ضرورت ہے ، اس میں اصل اوردلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :
{ تم پر مردہ اور( بہاہوا ) خون اورخنزیر کا گوشت اورہر وہ چيزجس پر اللہ تعالی کے علاوہ کسی اورکا نام پکارا گيا ہوحرام ہے ، پھر جومجبورہو جائے اوروہ حد سے تجاوز کرنے والا اورزيادتی کرنے والا نہ ہو اس پر ان کے کھانے میں کوئي حرج نہیں } البقرۃ ( 173 ) ۔
اورایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی کا فرمان کچھ اس طرح ہے :
( پس جو شخص شدت کی بھوک میں بے قرار ہوجائے بشرطیکہ کسی گناہ کی طرف ان کا میلان نہ ہو تویقینا اللہ تعالی معاف کرنے والا مہربان ہے ) المائدۃ ( 3 ) ۔
اورایک آيت میں اللہ سبحانہ وتعالی نےاس طرح فرمایا :
{ حالانکہ اللہ تعالی نے ان سب جانوروں کی تفصیل بیان کردی ہےجن کو تم پر حرام کیا ہے ، مگر وہ بھی جب تم کوسخت ضرورت پڑ جائے توحلال ہے } الانعام ( 119 ) ۔
اس آیت سے وجہ استدلال یہ ہے کہ اس سے یہ علم ہوتا ہے کہ جب کسی مريض یا زخمی کی شفایابی متوقف ہوجائے یا کسی اورشخص کے انتقال خون سے اس کی زندگي بچائي جاسکتی ہووہ اس طرح کہ کوئي ایسی چيز ( غذا یا مباح ادویات ) نہ پائي جائے جواس کی شفایابی کے قائم مقام ہویا اس کی زندگی بچا سکے تواس حالت میں اسے خون لگانا جائز ہے ۔
اورحقیقت میں ایسا کرنا غذا دینے میں شمار ہوگا نہ کہ علاج اوردواء میں ( اورضرورت کے وقت حرام غذا کا استعمال کرنا بھی جائز ہے مثلا کسی مجبور اورلاچار کے لیے مردار کھانا ) ۔
دوم : جس سے خون منتقل کیا جائے : یعنی جس سے خون لیا جارہا ہے وہ شخص ہے جس پرکوئي ظاہری ضرر اورنقصان تومرتب نہيں ہوتا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( نہ توخود نقصان اٹھاؤ اورنہ ہی کسی دوسرے کو نقصان دو ) ۔
سوم : انتقال خون کے مطالبے میں مسلمان ڈاکٹر کی بات کوتسلیم کیا جائے گا ، اوراگر مسلمان ڈاکٹر ملنا مشکل ہوتو پھرغیر مسلم چاہے وہ یھودی ہویا عیسائي ( یا اس کے علاوہ کوئي اور ) پرہمیں اعتماد کرنے میں کوئي مانع نظر نہيں آتا لیکن شرط یہ ہے کہ اسے طب میں ماہر ہونا چاہیے اورلوگوں کے ہاں بھی وہ ڈاکٹر بھروسے والا اورثقہ ہو اس کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے :
صحیح بخاری میں ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنودیل کے ایک شخص کواجرت پر حاصل کیا جوکہ راستے کا ماہر تھا اوردین قريش پر ہی قائم تھا ، خریت اسے کہتےہیں جوراستے جانتا اورراہنمائي کا ماہرہو ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2104 ) ۔
دیکھیں : فتاوی الشیخ محمد بن ابراھیم ۔
اوراس موضوع میں کبارعلماء کرام کمیٹی کا ایک فتوی بھی ہے جسے ہم ذیل میں ذکر کرتے ہیں :
اول :
ضرورت کےوقت انسان اتنے خون کا عطیہ دے سکتا ہے جس سے اسے کوئي نقصان نہ ہو تا کہ مسلمان ضرورتمندکی جان بچائي جاسکے ۔
دوم :
اسلامی بلڈ بینک قائم کرنا جائز ہے جہاں پرلوگوں سے خون کے عطیات وصول کرکے محفوظ کیا جائے تا کہ بوقت ضرورت مسلمان لوگوں کی جان بچائي جاسکے ، لیکن شرط یہ ہے کہ بلڈ بینک مریضوں اوران کے اولیاء سے خون کی قیمت نہ وصول کریں ، اورنہ ہی اسے تجارت بنائيں کہ اس سے کمائي شروع کردیں ، کیونکہ اس میں عام مسلمانوں کی مصلحت اورفائدہ ہے ۔ .

مرجع : کتاب الاضطرار الی الاطعمۃ والادویۃ المحرمۃ للطریفی صفحہ نمبر ( 169 ) ۔
اپ کا خادم عبدالمومن سلفی