الحمد للہ:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حذیفہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم جاہلیت میں شر کے ساتھ تھے تو اللہ تعالی نے ہمیں یہ خیر عنائت فرمائی، تو کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہوگا؟ آپ نے فرمایا: (ہاں) حذیفہ نے کہا: تو کیا اُس شر کے بعد خیر ہوگی؟ آپ نے فرمایا: (ہاں، لیکن ساتھ میں کچھ دھواں بھی ہوگا) میں نے کہا: دھوئیں سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: (ایسی قوم جو میری راہنمائی سے ہٹ کر ہدایات دینگے اور میری سنت سے ہٹ کر طریقے وضع کرینگے، انکی کچھ باتوں کو تم پہچان لوگے اور کچھ تمہارے لئے اوپری ہونگی) حذیفہ نے کہا: یا رسول اللہ! کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہوگا؟ آپ نے فرمایا: (ہاں! وہ جہنم کے دروازوں پر بلانے والے ہونگے، جو بھی انکی بات مان لے گا اسے وہ جہنم میں ڈال دینگے) حذیفہ نے کہا: یا رسول اللہ ! ہمیں انکی صفات بتلادیں۔ آپ نے فرمایا: (وہ ہماری ہی نسل سے ہونگے، اور ہماری ہی زبان بولیں گے) یعنی عرب میں سے ہونگے، میں نے کہا: یا رسول اللہ! اس وقت کے بارے میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: (مسلمانوں کی جماعت اور انکے امام کو لازمی پکڑنا) میں نے کہا: اگر اس وقت کوئی جماعت نہ ہو اور نہ ہی کوئی امام ہو؟ آپ نے فرمایا: (تو پھر ان تمام فرقوں سے الگ تھلگ ہوجانا، چاہے تمہیں موت کے آنے تک درختوں کی جڑیں چبانی پڑیں، تم ان سے الگ ہی رہنا) بخاری و مسلم
اس عظیم حدیث میں ہمیں بتلایا گیا ہے کہ ایک مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہے، اور ان کے ساتھ تعاون کرے، چاہے یہ جماعت کسی بھی جگہ جزیرہ عرب میں یا مصر، شام، عراق، امریکہ، یورپ یا کسی اور جگہ ۔
چنانچہ جب کسی مسلمان کو ایسی جماعت ملے جو حق کی طرف بلاتی ہو، تو انکی مدد کرے اور انکے شانہ بشانہ چلے، اور انکی ہمت باندھے، اور حق و بصیرت پر قائم رہنے کی تلقین کرے، اور اگر اسے کوئی جماعت نظر ہی نہ آئے تو حق پر اکیلا ہی ڈٹ جائے، وہ اکیلا ہی جماعت ہوگا، جیسے کہ ابن مسعود رضی اللہ نے عمرو بن میمون سے کہا تھا: "جماعت اسے کہتے ہیں جو حق کے مطابق ہو، چاہے تم اکیلے ہی کیوں نہ ہو"
اس لئے ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ تلاشِ حق کیلئے سرگرداں رہے، اور جیسے ہی یورپ، امریکہ یا کسی بھی جگہ پر حق یعنی کتاب و سنت اور صحیح عقیدہ کی دعوت دینے والے اسلامی مرکز ، یا جماعت کے متعلق علم ہو تو ان کے ساتھ مل جائے اور حق سیکھے ، پھر اہل حق میں شامل ہوکر اس پر ڈٹ جائے۔
ایک مسلمان کیلئے یہی واجب ہے، چنانچہ اگر اسے کوئی جماعت، حکومت ایسی نظر نہیں آتی جو حق کی طرف دعوت دے تو اکیلا ہی حق پر کاربند رہے اور اس پر ثابت قدم ہوجائے، اس وقت وہ اکیلا ہی جماعت ہوگا، جیسے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے عمرو بن میمون کیلئے کہا تھا۔
اور آجکل الحمد للہ ایسی بہت سی جماعتیں پائی جاتی ہیں جو حق کی طرف دعوت دیتی ہیں، جیسے کہ جزیرہ عرب میں ۔۔۔، یمن، خلیج، مصر، شام، افریقہ، یورپ، امریکہ، ہندوستان، پاکستان وغیرہ ساری دنیا میں ایسی جماعتیں اور اسلامی مراکز موجود ہیں جو حق کی دعوت دیتی ہیں اور حق کی خوشخبری لوگوں تک پہنچاتی ہیں، اور مخالفتِ حق سے خبردار کرتی ہیں۔
چنانچہ حق کے متلاشی مسلمان کوچاہئے کہ ان جماعتوں کے بارے میں کھوج لگائے، اور جب کوئی جماعت، یا ایسا مرکز ملے جو قرآن کی دعوت دے، اور سنت رسول اللہ کی طرف بلائے تو ان کے پیچھے چل پڑے، اور انہی کا ہو کر رہ جائے، مثال کے طور پر مصر اور سوڈان میں انصار السنہ، اور جمعیت اہل حدیث پاکستان اور ہندوستان میں، اور بھی ان کے علاوہ جماعتیں ہیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت دیتے ہیں، صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں، اور اللہ کے ساتھ کسی قبر والے یا کسی اور کو نہیں پکارتے.
یہ اقتباس : " مجموع فتاوى ومقالات" از سماحة الشيخ العلامۃ عبد العزيز بن عبد الله بن باز رحمه الله . 8/ 179" سے لیا گیا ہے۔