اپنی زبان منتخب کریں

ہفتہ، 30 جنوری، 2016

كھڑے ہو كر پيشاب كرنا

بسم الله الرحمان الرحيم
www.mominsalafi.blogspot.com
www.talashhaq.BlogSpot.com
الحمد للہ:
كھڑے ہو كر پيشاب كرنے ميں كوئى حرج نہيں، خاص كر ضرورت كے وقت جب كہ جگہ باپرد ہو اور پيشاب كرنے والے كى شرمگاہ كو كوئى شخص نہ ديكھے، اور نہ ہى اس پر پيشاب كے چھينٹے پڑيں، كيونكہ صحيح حديث ميں ثابت ہے كہ: حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم گندگى پھينكنے والى جگہ پر آئے اور كھڑے ہو كر پيشاب كيا "
متفق عليہ.
ليكن افضل يہى ہے كہ بيٹھ كر پيشاب كيا جائے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا غالب فعل يہى تھا، اور اس ميں پردہ بھى زيادہ ہے، اور پيشاب كے چھينٹے پڑنے كا احتمال بھى باقى نہيں رہتا "
واللہ اعلم .

ديكھيں: مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ للشيخ ابن باز ( 6 / 352 ).

ابن باز رحمه الله – عورتوں كا مردوں كے شانہ بشانہ كام كرنے کے خطرات

بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله رب العالمين ، والصلاة والسلام على رسوله الأمين، وعلى آله وصحبه أجمعين۔ أما
mominsalafi.BlogSpot.com
بعد:
بلا شبہہ مردوں کے ميدان عمل ميں عورتوں کو اترنے کی دعوت دينا جو موجب اختلاط ہے ، چاہے يہ صريح لفظوں ميں ہو يا اشارہ و کنايہ کے پيراۓ ميں ، اور يہ کہنا کہ يہ موجودہ زمانے کے تقاضوں اور معاصر تہذيب و تمدن کی ضروريات ميں سے ہے ، ايک خطرناک امر ہے ، جس کے تباہ کن اثرات ، اورخطرناک نتائج ہيں ۔ ساتھ ہی يہ ان نصوص شريعت سے بھی متصادم ہے جو عورت کو گھر ميں رہنے اور ان اعمال کو انجام دينے کا حکم ديتے ہيں جو گھر کے ساتھ خاص ہيں ۔
جو شخص اختلاط کے نتيجہ ميں پيدا ہونے والے بے شمار مفاسد کو ديکھنا چاہے تو وہ انصاف کی نگاہ اورغير جانب دار ہو کران سوسائٹيوں پر نظر ڈالے جو اس عظيم مصيبت ميں اختياراً يا اضطراراً گرفتار ہيں ، بلاشبہہ وہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر ناگواری کا احساس نماياں پائے گا ، اور عورتورں کےگھر سےباہرنکلنے اور خاندانی انتشار پر حسرت و افسوس کئے بغير نہيں رہ سکتا ۔ يہ شکوی وہ مقالہ نگاروں کی زبانی اور تمام ذرائع ابلاغ ميں واضح طور پر عام پاۓ گا ، وجہ يہ ہے کہ اس نے معاشرے کو تباہ کر ديا ہے اور اس کی بنيادوں کو ہلا کر رکھ ديا ہے ۔

ايسی صحيح اور صريح دليليں بکثرت وارد ہيں جو اجنبى عورت کے ساتھ خلوت اور اسے ديکھنے اور ان وسائل کے حرام ہونے پر دلالت کرتی ہيں جو اللہ کے حرام کردہ امور ميں پڑنے کا سبب ہيں، اختلاط کی حرمت کے ليے يہ سب قطعی دليليں ہيں؛ اس لئے کہ يہ اختلاط برے انجام تک پہںچانے والی چیز ہے۔
عورت کو اس کے دائرہ سلطنت سے نکالنا اور اس کے حيات بخش ميدان عمل سے باہر کرنا اسے اس کی فطری تقاضے اور حقیقت سے باہر کرنا ہے جس پر اللہ نے اسے پيدا کيا ہے ۔
عورت کو مردوں کے لئے خاص ميدان عمل ميں نکلنے کی دعوت دينا معاشرے کے لئے انتہائی خطرناک ہے، جس کے بڑے اثرات ميں سے اختلاط کا پايا جانا ہے، جوکہ زنا کے عظیم ترين وسیلہ ہے، اور زنا سوسائٹی کو کمزور بنا ديتا ہے اور اس کی اخلاقی و سماجی قدروں کو پامال کرديتا ہے۔
يہ بات معلوم ہے کہ اللہ نے عورت کو ايک خاص بناوٹ عطا کی ہے جو مردوں کی بناوٹ سے يکسر مختلف ہے ، جس کے ذريعہ اللہ نے اسے اس کام کے لئے تیار کيا ہے جو گھر کے کام يا اپنی ہم جنسوں کے اعمال سے متعلق ہيں ۔
اس کا مطلب يہ ہوا کہ عورت کومردوں کے ساتھ خاص ميدان عمل ميں لانا اسے اسکی خاص شکل اور طبيعت سے نکالنا ہے ۔ اس کے اندر عورت کے ساتھ ظلم اور اسکی روحانيت کو ختم کرنا اور اس کی شخصيت کو تباہ کرنا ہے، جس کا برا اثر اس کی اولاد تک جا پہنچتا ہے ، کيوں کہ وہ تربيت اور شفقت و محبت سے محروم ہوجاتے ہيں ۔ يہ کام ماں کرتی ہے جو اس سے جدا کرگئی، اور اپنے دائرہ سلطنت سے پورے طور پر بے دخل کردی گئی، جبکہ عورت اس جگہ کے علاوہ کہيں بھی راحت ، سکون و اطمينان نہيں پاسکتی۔ موجودہ ہمارے اس معاشرے کی حالت زار جو اس مصبيبت ميں گرفتار ہوچکی ہيں ميری ان باتوں پر سچی گواہ ہے۔
اسلام نے مياں بيوی ميں سے ہر ايک کے لئے الگ الگ مخصوص فرائض مقرر کئےہيں، جس کی انجام دہی ہر ايک پر واحب ہے تاکہ گھر کے اندر اور باہر معاشرے کی صحيح تشکيل ہو سکے ۔
آدمی پر نان و نقفہ اور کما نے کی ذمہ داری ہے ، عورت بچوں کی تربيت ، ان کے ساتھ شفقت ومحبت ، رضاعت ، پرورش و پرداخت اور وہ تمام کام انجام دے گی جو بچوں کی تعليم سے متعلق ہيں جيسے انکے لئے مدارس کی ادارت ، ان کا علاج و معالجہ اور تيمارداری وغيرہ وہ تمام کام جو عورتوں کے ساتھ مختص ہيں ۔ عورت کی طرف سے گھر کے فرائض کو ترک کرنے ميں گھر اور گھر کے اندر رہنے والوں کی تباہی ہے ۔ جس سے حسی اور معنوی طور پر خاندانی بکھراؤ لازم آتا ہے ۔ ايسی صورت ميں شکل وصورت كے اعتبار سے تو معاشرہ کا ڈھانچہ نظر آتا ہے مگر حقيقت اور معنويات سے خالی ہوتا ہے ۔
الله جل وعلا نے ارشاد فرمايا :   ﻣﺮﺩﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﭘﺮ ﺣﺎﻛﻢ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻛﮧ ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﻧﮯ ﺍﯾﻚ ﻛﻮ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﭘﺮ ﻓﻀﯿﻠﺖ ﺩﯼ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻛﮧ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺎﻝ ﺧﺮﭺ ﻛﺌﮯ ﮨﯿﮟ، چنانچہ اللہ کی سنت اپنے مخلوق ميں يہی ہے کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے مردوں کو عورتوں پر قوامت عطا کی ہے ، جيساکہ بہت سی آيتيں اس پر دلالت کرتی ہيں۔ اللہ سبحانہ تعالی نے عورتوں کو اپنے گھروں کو لازم پکڑنے کا حکم ديا ہے اور بناؤ سنگار کرکے باہر نکلنے سے منع کيا ہے ، اس کا مطلب يہ کہ اختلاط سے ممانعت ہے ، اختلاط کہتے ہيں کہ مردوں کا اجنبی عورتوں کے ساتھ عمل ، بيع و شراء ، سيرو تفريح يا سفر وغيرہ کے بہانے جمع ہونا؛ کيوں کہ عورتوں کا اس ميدان ميں آنا محرمات ميں وقوع کا سبب ہے ۔ اس کے اندر اللہ کے امر کی مخالفت اوراس کے حقوق کی پامالی ہے جس کی ادائيگي ايک مسلمان عورت سے شرعا مطلوب ہے ۔
قرآن و حدیث اختلاط اور ان تمام وسائل کی حرمت پر دلالت کرتی ہيں جن سے اختلاط پيدا ہو:   ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻗﺮﺍﺭ ﺳﮯ ﺭﮨﻮ (٥) ﺍﻭﺭ ﻗﺪﯾﻢ ﺟﺎﮨﻠﯿﺖ ﻛﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻛﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻨﺎ﯃ ﰷ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﻧﮧ ﻛﺮﻭ، ﺍﻭﺭ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﺩﺍ ﻛﺮﺗﯽ ﺭﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺯﻛﻮٰﺉ ﺩﯾﺘﯽ ﺭﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺍﹴ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﻛﯽ ﺍﻃﺎﻋﺖ ﮔﺰﺍﺭﯼ ﻛﺮﻭ، ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﯾﮩﯽ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺍﮮ ﻧﺒﯽ ﻛﯽ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﯿﻮ ! ﺗﻢ ﺳﮯ ﻭﮦ ( ﮨﺮ ﻗﺴﻢ ﻛﯽ ) ﮔﻨﺪﮔﯽ ﻛﻮ ﺩﻭﺭ ﻛﺮﺩﮮ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺧﻮﺏ ﭘﺎﻙ ﻛﺮﺩﮮ(33) ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺍللہ ﻛﯽ ﺟﻮ ﺁﯾﺘﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺭﺳﻮﻝ ﻛﯽ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﭘﮍﮬﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ کا ﺫﻛﺮ ﻛﺮﺗﯽ ﺭﮨﻮ، ﯾﻘﯿﻨﺎ ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﻟﻄﻒ ﻛﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺧﺒﺮﺩﺍﺭ ﮨﮯ۔ اللہ نے امھات المؤمنين کو – اس ميں تمام مؤمنہ اور مسلمہ عورتيں داخل ہيں – گھروں کو لازم پکڑنے کا حکم ديا ہے کيوں کہ اس کے اندر انکی حفاظت اور وسائل فساد سے دور رکھنا ہے؛ کيوں کہ عورت کا بلا ضرورت نکلنا تبرج اور بہت سے شر و فساد کا باعث ہے، پھر انہيں اعمال صالحہ کا حکم ديا ہے جو انہيں فحش کاموں اور منکرات سے دور رکھيں ، اور يہ نماز قائم کرکے اور زکاۃ ديکر اور اللہ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم. کی اطاعت کرکے ممکن ہے ۔ پھر ان کی رہنمائی ايسے امور کی طرف کی گئی ہے جو ان کے دنيوی اور اخروی فائدے کا ضامن ہو ۔ وہ يہ کہ قرآن کريم اور سنت نبويہ سے اپنے تعلقات ہميشہ استوار رکھيں ، جس کے اندر انکے زنگ آلود دلوں کی صفائي کا سامان ہے ، جو انہيں ہر قسم کی گندگيوں سے پاک و صاف کرتے ہيں ، اور حق و راہ صواب کی طرف رہنمائي کرتے ہيں ۔ جیساکہ الله تعالى نے فرمايا:   ﺍﮮ ﻧﺒﯽ! ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻮﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺻﺎﺣﺒﺰﺍﺩﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻛﯽ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺳﮯ ﻛﮩﮧ ﺩﻭ ﻛﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﺎﺩﺭﯾﮟ لٹکا ﻟﯿﺎ ﻛﺮﯾﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺟﻠﺪ ﺍﻥ ﻛﯽ ﺷﻨﺎﺧﺖ ﮨﻮﺟﺎﯾﺎ ﻛﺮﮮ ﮔﯽ ﭘﮭﺮ ﻧﮧ ﺳﺘﺎﺋﯽ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ اللہ ﺗﻌﺎلی ﺑﺨﺸﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﻣﮩﺮﺑﺎﻥ ﮨﮯ الله نے اپنے نبي عليه الصلاة والسلام – جو اپنے رب کی جانب سے مبلغ ہيں – کو حکم ديا کہ وہ اپنی بيويوں ، بيٹيوں اور عام مسلمان عورتوں سے کہہ ديں کہ وہ اپنی چادروں کو اپنی گريبانوں پر ڈالے رکھيں ، اور يہ چادر سے ان کے بقيہ جسم کے ڈھانپنے کو شامل ہے جب وہ کسی ضرورت کے تحت باہر نکلنے کا ارادہ کريں تاکہ بيمار دل لوگوں کی طرف سے انہيں اذيت لاحق نہ ہو ۔ جب معاملہ اس قدر اھم ہے تو عورتوں کا مردوں کے ميدان ميں اترنا اور ان کے ساتھ اختلاط کرنے کا معاملہ کس قدر قبيح ہوگا؟ اور اسی طرح ملازمت کی وجہ سے ان سے اپنی حاجت کا اظہار کرنا اور اپنی نسوانيت سے اتر کر انکے درجہ اور مرتبہ ميں اترنا اور اپنی شرم و حياء کو گںوانا تاکہ اس سے دو مختلف جنسوں ميں معنی وصورت كے اعتبار سے ہم آہنگی ہوجائے، کس قدر گناہ کا کام ہے؟
الله جل وعلا نے فرمايا :   ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﺳﮯ ﻛﮩﻮ ﻛﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﮕﺎﮨﯿﮟ ﻧﯿﭽﯽ ﺭﻛﮭﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺮﻣﮕﺎﮨﻮﮞ ﻛﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﺭﻛﮭﯿﮟ، ﯾﮩﯽ ﺍﻥ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﭘﺎﻛﯿﺰﮔﯽ ﮨﮯ، ﻟﻮﮒ ﺟﻮ ﻛﭽﮫ ﻛﺮﯾﮟ اللہ ﺗﻌﺎلی ﺳﺐ ﺳﮯ ﺧﺒﺮﺩﺍﺭ ﮨﮯ ۔(30) ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﻛﮩﻮ ﻛﮧ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﮕﺎﮨﯿﮟ ﻧﯿﭽﯽ ﺭﻛﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﺼﻤﺖ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻕ ﻧﮧ ﺁﻧﮯ ﺩﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﯾﻨﺖ ﻛﻮ ﻇﺎﮨﺮ ﻧﮧ ﻛﺮﯾﮟ ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺟﻮ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﺮﯾﺒﺎﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻭﮌﮬﻨﯿﺎﮞ ﮈﺍﻟﮯ رﮨﯿﮟ [دو آیات]۔
الله اپنے نبي عليه الصلاة والسلام کو حکم دے رہا ہے کہ وہ مومن مردوں اور مؤمنہ عورتوں تک يہ بات پہنچا ديں کہ وہ سب اپنی نگاہيں نيچی رکھيں، اور زنا سے اپنے شرمگاہوں کی حفاظت کريں، پھر اللہ نے واضح کيا کہ يہ ان کے لئے اپنی پاکدامنی کا بہت بڑا سبب ہے۔ يہ بات معلوم ہے کہ زنا سے شرمگاہوں کی حفاظت وسائل زنا سے اجتناب کے ذريعہ ممکن ہے ۔ بلا شبہہ ميدان عمل يا اس کے علاوہ ديگر جگہوں پر مرد و زن کا باہم اختلاط وقوعِ زنا کا عظيم ترين وسیلہ ہے، اور مؤمن سے ان دو مطلوبہ امر کا تحقق محال ہے جب کہ وہ اجنبی عورت کے ساتھ بحيثيت دوست يا عمل ميں مشارک پہلو بہ پہلو کام کريں ۔ لہذا عورت کا مرد کے ساتھ اس ميدان ميں اترنے، اور مرد کا اس ميدان ميں عورت کے ساتھ شامل ہونے سے غض بصر ، شرمگاہوں کی حفاظت اور اپنے نفس کی پاکدامنی اور طہارت کا حصول مستحيل ہے۔
اسی طرح اللہ نے مؤمنات کو غض بصر ، شرمگاہوں کی حفاظت اور زينت کے عدم اظہار کا حکم ديا ہے سوائے ان حصوں کے جو عام طور پر ظاہر ہوجاتے ہيں، انہيں اپنی گريبانوں پر دوپٹے ڈالنے کا حکم ديا ہے جو اس کے سر اور چہرے کے پردے کو شامل ہے ، کيوں کہ گريبان سر اور چہرے کی جگہ ہے ۔ اور عورت کے مرد کے ميدان عمل ميں اترنے اور کام ميں ان کے ساتھ اختلاط کے وقت غض بصر ، شرمگاہوں کی حفاظت اور زينت کا عدم اظہار پر عمل کيسے ممکن ہوسکتا ہے؟ اختلاط ان ممنوعات ميں پڑنے کا ضامن ہے، ايک مسلمان عورت اپنی نگاہ کو کيسے پست رکھ سکتی ہے جب وہ اجنبی مرد کے ساتھ شانہ بشانہ چل رہی ہو ، اس بہانے سے کہ وہ اس کے ساتھ عمل ميں شريک ہے يا جملہ امور ميں مردوں کے برابر ہے ۔
اسلام نے ان تمام وسائل وذرائع کو حرام قرار ديا ہے جو محرمات ميں وقوع کا باعث ہوں ۔ اسی طرح اسلام نے عورتوں پر حرام کيا ہے کہ وہ مردوں سے لچکدار لہجے ميں بات کريں تاکہ يہ ان ميں رغبت کی طرف نہ پہنچائے:   ﺍﮮ ﻧﺒﯽ ﻛﯽ ﺑﯿﻮﯾﻮ ! ﺗﻢ ﻋﺎﻡ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﻛﯽ ﻃﺮﺡ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ، ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﭘﺮﮨﯿﺰﮔﺎﺭﯼ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﻛﺮﻭ ﺗﻮ ﻧﺮﻡ ﻟﮩﺠﮯ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﻧﮧ ﻛﺮﻭ ﻛﮧ ﺟﺲ ﻛﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﮒ ﮨﻮ ﻭﮦ ﻛﻮﺋﯽ ﺑﺮﺍ ﺧﯿﺎﻝ ﻛﺮﮮ يعنی شہوت کی بيماری ، اختلاط کے ساتھ اس سے تحفظ کيوںکر ممکن ہے ؟
ظاہر ہے کہ جب وہ مردوں کے ميدان ميں اترے گی تو يقينی طور پر وہ ان سے بات کريگی اور وہ لوگ اس سے بات کريں گے، اور ضروری ہے کہ وہ ان سے نرم لہجے ميں بات کرے گي اور وہ اس سے نرم لہجے ميں باتيں کريں گے ، اور پيچھے سے شيطان اسے مزين اور خوشنما بنا کر اسے زنا کی طرف دعوت ديگا ، يہاں تک کہ وہ اس کے شکار ہوجائيں گے، اللہ حکمت والا اور جاننے والا ہے ، اسی نے عورت کو پردے کا حکم ديا ہے ۔ اور يہ اسی وجہ سے کہ لوگوں ميں اچھے برے ، پاکدامن اور زانی سبھی قسم کے لوگ ہوتے ہيں ، پردہ اللہ کے حکم سے فتنہ سے بچاتا ہے اور اس کے اسباب کے درميان رکاوٹ بن جاتا ہے، اور اس کے ذريعے مردوں اور عورتوں کے قلوب کی طہارت اور تہمت کی جگہوں سے دوری حاصل ہوتی ہے ۔ اللہ تعالی نے فرمايا :   ﺟﺐ ﺗﻢ ﻧﺒﯽ ﻛﯽ ﺑﯿﻮﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﻛﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﻃﻠﺐ ﻛﺮﻭ ﺗﻮ ﭘﺮﺩﮮ ﻛﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺳﮯ ﻃﻠﺐ ﻛﺮﻭ۔ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻛﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﰷﻣﻞ ﭘﺎﻛﯿﺰﮔﯽ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ الآيۃ
عورت کے اپنے جسم کے پردے کے بعد اس کا بہترين پردہ گھر ہے ، اسلام نے اس پر اجنبی مردوں سے ميل ملاپ کو حرام قرار ديا ہے؛ تاکہ وہ براہ راست يا بالواسطہ اپنے آپ کو فتنہ کے لئے نہ پيش کرے، اور اسے گھر کو لازم پکڑنے اور صرف مباح ضرورت کے تحت شرعی ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے گھر سے نکلنے کا حکم ديا ہے۔ اللہ نے عورت کے گھر ميں ٹھرے رہنے کو “قرار” سے تعبير کيا ہے، يہ معنی انتہائی بلند معنوں ميں سے ہے ، اس کے اندر اس کے نفس کا استقرار ، دل کی راحت اور انشراح صدر کی نعمت ہے ، اور عورت کا اپنی اس جائے قرار سے نکلنا اضطراب نفس ، دلی بے چينی ، ضيق صدر اور اپنے کو غلط انجام کے لئے پيش کرنے کا باعث ہے۔ اسلام نے اجنبی عورت کے ساتھ مطلقا خلوت اختيار کرنے سے منع کيا ہے ، خلوت يا سفر کی اجازت صرف محرم کے ساتھ دی ہے ، تاکہ فساد کے ذريعے کو ختم اور گناہ کے دروازے کو بند اور برائی کے اسباب کی بيخ کنی کی جاسکے ، اور دونوں جنسوں کو شيطان کے مکر و فريب سے بچايا جاسکے ۔ اسی لئےرسول الله صلى الله عليه وسلم سے صحيح ثابت ہے کہ آپ نے فرمايا :  میں نے اپنے بعد مردوں پر عورتوں سے زیادہ ضرر رساں اور کوئی فتنہ نہیں چھوڑا۔ اورآپ صلى الله عليه وسلم سے يہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:  دنیا سے ڈرتے رہو اور عورتوں سے ڈرتے رہو کیونکہ بنی اسرائیل کا سب سے پہلا فتنہ عورتوں ميں تھا
اختلاط کے کچھ داعیان بعض شرعی نصوص کے ظاہر سے استدلال کرتے ہيں ، جنکی حقيقت کو وہی شخص پاسکتا ہے جس کے دل کو اللہ نے منور کرديا ہو، اور اسے دين کی سمجھ عطا فرمائی ہو ، اور شرعی دلائل میں سے بعض کو بعض کے ساتھ ملا کر ديکھا ہو، اور يہ دلائل اس کے تصور ميں ايک ہی اکائی ہو جسے ايک دوسرے سے الگ نہيں کيا جاسکتا۔ ان دلائل ميں سے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ کچھ عورتوں کا بعض غزوات ميں نکلنا ہے ۔ اس کا جواب يہ ہے ان کا خروج اپنے محارم کے ساتھ بہت سارے مصالح کی بناء پر ہوا ہے جس پر وہ فساد مرتب نہيں ہوتا جس کے خطرے کا انديشہ تھا۔ يہ ان کے ايمان و تقوی اور ان پر ان کے محارم کی نگرانی اور ان کا آيت حجاب کے نزول کے بعد پردے کا التزام کرنے کی وجہ سے ہے ۔ جبکہ موجودہ زمانے کی اکثر عورتوں کی حالت اس کے برعکس ہے ۔ اور يہ بات معلوم ہے کہ عورت کا اپنے گھر سے کام کے لئے نکلنا اس حالت سے بالکل مختلف ہے جس ميں وہ رسول صلى الله عليه وسلم کے ساتھ غزوہ ميں نکليں ۔ لہذا اس کو اس پر قياس کرنا قياس مع الفارق ہے ۔ اور يہ بھی ديکھيں سلف صالح نے اسے کيسے سمجھا ہے ؟ بيشک وہ نصوص کے معانی کے سب سے زيادہ جانکار تھے ، اور کتاب اللہ اور سنت رسول صلى الله عليه وسلم کی عملی تطبيق کے زيادہ قريب تھے ، پورے زمانے ميں ان سے کيا منقول ہے ؟ کيا انہوں نے دائرہ اسی قدر وسيع کرديا ہے جيسا کہ اختلاط کے دعاۃ آواز لگا رہے ہيں ، اور کيا انہوں نے وہ سب نقل کيا ہے جو وہ اس باب ميں وہ کہتے ہيں کہ عورت مردوں کے ساتھ زندگی کے تمام ميدانوں میں کام کرے، اور باہم ايک دوسرے سے مزاحم ہو، اور ايک دوسرے سے ميل جول رکھے، يا انہوں نے يہ سمجھا کہ يہ متعين مسائل ہيں ان سے آگے نہيں بڑھا جا سکتا ۔
اور جب ہم پورے اسلامی تاريخ ميں اسلامی فتوحات اور غزوات کا جائزہ ليتے ہيں تو يہ صورت حال عام نہيں پاتے ۔ موجودہ زمانے ميں اس کو فوجی کی حيثيت سے شامل کرنے کی جو دعوت دی جارہی ہے کہ وہ مردوں کی طرح ہتھيار اٹھائے اور قتال کرے، تو يہ اس سے زيادہ کچھ نہيں کہ تفريح طبع کے نام پر فوج کے اخلاق و کردارکو تباہ و برباد کرنا ہے؛ اس لئے کہ آدمی کی طبيعت جب عورت کی طبيعت سے ملتی ہے تو ان دونوں کی طرف سے خلوت ميں وہی سب کچھ ہوتا ہے جو ہر مرد و عورت سے ہوتا ہے يعنی ايک دوسرے کی طرف ميلان ، انس و محبت اور بات چيت سے احساس لذت وغيرہ ، اور بعض چيزيں بعض کا سبب بنتی ہيں ۔ لہذا فتنہ کو بند کرنا بڑی حکمت اور دورانديشی کی بات ہے ، اور مستقبل ميں ندامت سے دور رہنے کا ضامن ہے ۔
اسلام نےجلب مصالح اورازالہ مفاسد اوران تمام ابواب کو بند کرنے پر بہت زيادہ توجہ دی ہے جو اس کا سبب بنيں ۔ ميدان عمل ميں عورتوں کا مردوں کے ساتھ اختلاط امت کے زوال اور معاشرہ کی تباہی ميں بنيادی سبب رہا ہے جيسا کہ پہلے گذرا ۔ اس لئے کہ تاريخی اعتبار سے يہ معروف ہے کہ قديم رومانی و يونانی تہذيب و تمدن وغيرہ کے زوال و پستی کے بڑے اسباب ميں سے عورتوں کا اپنے مخصوص ميدان عمل سے نکل کر مردوں کے ميدان ميں آنا اور ان کے ساتھ مزاحم ہونا ہے ، جس کے نتيجے ميں مردوں کے اخلاق ميں فساد رونما ہوا، اور انہوں نے اپنی قوم کی مادی و معنوی ترقی کے تمام کام ترک کرديئے۔ عورتوں کا گھر سے باہر مشغول ہونا مردوں کے تعطل ، امت کے خسران ، خاندان کے انتشارو انہدام اوراولاد کے اخلاق کی بربادی کا باعث ہے ، نيز اللہ نے اپنی کتاب ميں عورت پر مرد کی قوامت کی بابت جو خبر دی ہے اس کی مخالفت ميں واقع ہونے کا ذريعہ ہے ۔ اسلام اس بات کا حريص رہا ہے کہ عورت کو ان تمام امورسے دور رکھے جو اس کی طبيعت کے مخالف ہو ۔ اس لئے اس نے عام ولايت کی ذمہ داری لينے سے اسے منع کرديا ہے ، جيسے کسی ملک کی صدارت ، قضاء اور وہ تمام مناصب جس ميں عام ذمہ داری ہو ، نبی کريم صلى الله عليه وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے : وہ قوم ہرگز فلاح یاب نہیں ہوگى جس نے اپنی حکومت عورتوں کے سپرد کرديا ہو۔ اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے  ا پنے صحيح ميں روايت کيا ہے ، عورت کے لئے يہ دروازہ کھولنا کہ وہ مردوں کے ميدان ميں اترے ، يہ اس چيز کے مخالف ہے جس کا اسلام نے اسکی سعادت اور استقرار کے تعلق سے ارادہ کيا ہے ۔ اسلام عورت کو اس کے مخصوص دائرہ کار سے نکال کر فوج ميں بھرتی کرنے کے مخالف ہے ۔ مختلف تجارب -خاص کر مخلوط سوسائٹی- نے يہ ثابت کرديا ہے کہ مرد و زن فطری اور طبيعی طور سے يکساں نہيں ہيں، چہ جائيکہ ان امور ميں جو کتاب و سنت ميں واضح طور پر دونوں کی طبيعتوں اور واجبات کے اختلاف کے تعلق سے وارد ہيں ۔ جو لوگ مساوات مرد و زن کا نعرہ بلند کر رہے ہيں وہ ان دونوں کے درميان بنيادی فرق سے جاہل ہيں يا جاہل بن رہے ہيں ۔
ہم نے اختلاط کی تحريم اور مردوں کے کام ميں عورتوں کے اشتراک کی حرمت پر جو شرعی دليليں اور موجودہ صورت حال کا تذکرہ کيا ہے، وہ طالب حق کے لئے کافی اور اطمینان بخش ہیں، مگر بعض لوگوں کی حالت کے پيش نظر کہ وہ کلام اللہ اور کلام رسول ۔صلى الله عليه وسلم اور کلام علماء مسلمين سے زيادہ مشرق و مغرب کے علماء و دانشوروں کے کلام کو اھميت ديتے ہيں ، ہم نے مناسب سمجھا کہ مشرق و مغرب کے ان مفکرين کے اعترافات کو ان کے لئے نقل کرديں جو اختلاط کے مفاسد اور نقصانات سے متعلق ہيں ، شايد کہ وہ مطمئن ہوسکيں، اور يہ جان سکيں کہ ان کے دين عظيم نے اختلاط کی ممانعت کے تعلق سے جو کچھ پيش کيا ہے اس ميں عورتوں کی عين کرامت اور انہيں نقصان پہںچانے والے وسائل، نيز عزت و آبرو کی پامالی سے عورت کی صيانت و حفاظت کی ضمانت ہے۔
انگريز مقالہ نگار لیڈی کوک نے لکھا ہے کہ  اختلاط کو مرد حضرات پسند کرتے ہيں ، اور اسی بناء پر عورت ايسی چيز کی طرف راغب ہوئی جو اس کی فطرت کے مخالف ہے ، اور کثرت اختلاط کی وجہ سے اولادِ زنا کی کثرت ہوگی، يہيں پر عورت عظيم مصيبت ميں گرفتار ہوتی ہے، مزيد کہا کہ اپنی عورتوں کو مردوں سے دور رکھو اور انہيں اس مخفی مکر و فريب کے انجام سے باخبر کرو، جو ان کے گھات ميں بیٹھا ہوا ہے۔
جرمن دانشور شوپنهاور نے کہا: اختلاط ہی سے ہمارے احوال کی ترتيب و انتظام ميں عظيم خلل واقع ہے جس نے عورت کو مردوں کے ساتھ ان کے عالی مرتبت اور بلند شان والے امور میں شرکت کی دعوت دی، اور اس پر اپنے گھٹیا خواہشوں کے ساتھ سربلند ہونے کو آسان بنا ديا ہے جس نے جديد تہذيب و تمدن کو اپنے مضبوط حکمرانی اور حقیر رائے سے برباد کرديا ہے۔
لارڈ بيرون نے کہا:  اے قاری! اگر تم قديم يونان ميں عورت کی حالت پر غور کرو تو تم اسے اسکی طبيعت کے مخالف مصنوعی حالت پر پاؤگے۔ اور تم ميری اس بات سے اتفاق کروگے کہ عورت کو امور منزليہ ميں مشغول کرنا واجب ہے، اور اس ميں اسکی بہتر غذاء اور بہتر لباس کا خيال رکھا جائے، اور غيروں کے ساتھ اختلاط سے اسے بچايا جائے۔
اور سامویل سمايلس نامی انگريز نے کہا کہ جو نظام عورت کو کارخانوں ميں مشغول کرنے کی بات کرتے ہيں ، اس سے ملک کے لئے کتنا ہی سرمايہ کيوں نہ حاصل ہو اس کا نتيجہ گھريلو زندگی کی عمارت کو منہدم کرنے والا رہا ہے ، کيوں کہ اس نے گھر کے ڈھانچے پر حملہ کيا ہے ، خاندان کی بنيادوں کو متزلزل کيا ہے، اجتماعی روابط کو پارہ پارہ کرديا ہے، اور اس نے شوہر سے بيوی اور اولاد سے اس کے اقارب کو چھين ليا ہے، لہذا اس خاص نوع سے عورت کی اخلاقی گراوٹ کے علاوہ کچھ فائدہ حاصل نہيں ہوا، کيوں کہ عورت کا حقيقی وظيفہ امور منزليہ کو انجام دينا ہے ۔ جيسے گھر کی تنظيم و ترتيب، اولاد کی تربيت اور گھر کی ضرورتوں کی تکميل کے ساتھ وسائل معيشت ميں ميانہ روی اختيار کرنا ، مگر فيکٹريوں نے اسے ان تمام واجبات کی انجام دہی سے روک ديا ہے اس طور پر کہ گھر خالی ہوچکے ہيں اور اولاد بغير تربیت کے جوان ہورہی ہے، اور انہيں بے توجہی کے خانے ميں ڈالا جارہا ہے ، زوجيت کی محبت بجھ چکی ہے ، اور عورت آدمی کی خوش اسلوب بيوی اور محبت کی ساتھی بننے کے بجاۓ اس کے کام اور مشقتوں کی ساتھی بن چکی ہے ۔ وہ ان تاثيرات کے خطرہ سے دوچار رہتی ہے جو اکثراس کی فکری اور اخلاقی جوہر کو ختم کرديتی ہے جس پر فضل و شرف کے حفاظت کی بنياد ہے۔
ڈاکٹر ايدايلين نے کہا :  امريکہ ميں عائلی مشکلات کا سبب  اور سوسائٹی ميں جرائم کی کثرت کی وجہ يہ ہے کہ عورت نے کنبہ کی آمدنی بڑھانے کے لئے اپنے گھر کو چھوڑ ديا ہے، چنانچہ آمدنی تو بڑھ گئی ہے مگر اخلاق زوال پذير ہوگئے۔ پھر اس نے کہا کہ تجربات نے يہ ثابت کرديا ہے کہ عورت کی گھر واپسی ہی جديد نسل کو زوال اور پستی سے بچانے کا واحد ذريعہ ہے ۔
امريکی کانگريس کے ايک ممبر نے کہا کہ عورت حقيقت ميں ملک کی خدمت کرسکتی ہے جبکہ وہ اس گھر ميں باقی رہے جو خاندان کی بنياد ہے۔
ايک دوسرے ممبر نے کہا کہ جب اللہ نے عورت کو توليدی خصوصيت سے ممتاز کيا تواس پر يہ بوجھ نہيں ڈالا کہ اسے چھوڑ کرباہر کام کرنے کے لئے جاۓ ، بلکہ اس کا کام يہی مقرر کيا کہ وہ ان بچوں کی ديکھ بھال کے لئے گھر ميں باقی رہے ۔
اور شوپنهاور نے کہا کہ اس عورت کو بغير نگران کے مطلق اور کامل آزادی دے دو، پھر تم مجھ سے ايک سال بعد ملو، تاکہ اس کا نتيجہ ديکھو ، تم مت بھولو کہ ميرے ساتھ شرافت ، عفت و ادب کے تم وارث بنوگے۔ اور جب ميں مرجاؤں تو تم حقيقت کی روشنی ميں کہو: کہ ميں نے غلط بات کہی يا درست ۔ ان تمام اقوال کو ڈاکٹر مصطفی حسنى سباعى رحمه الله نے اپنی كتاب “المرأة بين الفقه والقانون” میں ذکر کيا ہے۔
اگر ہم ان تمام باتوں کو شمار کريں جو مغرب کے انصاف پسند حضرات نے اختلاط کے مفاسد کے تعلق سے کہی ہيں جو عورت کے مردوں کے ميدان عمل ميں اترنے کا نتيجہ ہے، تو يہ مقالہ طويل ہوجائے گا، ليکن مفيد اشارہ طویل عبارت سے موازنہ کے لئے کافی ہوتا ہے ۔
خلاصہ کلام يہ کہ عورت کا اپنے گھر ميں استقرار اور اپنے دينی واجبات کی ادائيگی کے بعد تدبير منزل کے واجبات کو ادا کرنا يہی اس کی طبيعت ،فطرت اور جسمانی بناوٹ کے عين مناسب ہے ، اسی ميں اسکی ، معاشرہ اور اولاد کی بہتری ہے ، اگر اس کے پاس زائد وقت ہے تو ممکن ہے کہ اسے عورتوں کے ميدان ميں مشغول کيا جاۓ ، جيسے عورتوں کو تعليم دينا ، انکا علاج و معالجہ اور تيمارداری وغيرہ جيسے نسوانی کام جو عورتوں کے درميان ہو، جيسا کہ اوپر اشارہ کيا جا چکا ہے ، اس ميں انکی مشغوليت ہونی چاہئے اور اس ميں مردوں کے ساتھ معاشرہ کے اعمال ميں تعاون اور اس کی ترقی کے اسباب ہيں ، ہر ايک اپنے مخصوص دائرہ کار ميں رہ کر کام کرے۔ يہاں ہميں امھات المؤمنين رضي الله عنهن اور انکے نقش قدم پر چلنے والوں کے کردار کو نہيں بھولنا چاہئے، اور جو انہوں نے امت کی تعليم ، توجيہ و ارشاد اور اللہ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم کی طرف سے تبليغ کا فريضہ انجام ديا ۔ اللہ انہيں اس کا بہتر بدلہ عطا فرماۓ ، اور مسلمانوں ميں ان جيسی مثالی خواتين کی کثرت فرماۓ جو حجاب و پردہ کا التزام کريں ، اور مردوں کے ساتھ اختلاط سے بچيں ۔
اللہ سے دعاء ہے کہ وہ ہم سبھی کو اپنے واجبات کی بصيرت عطا فرمائے، اور ايسے طريقے کے مطابق اسے انجام دينے کی توفيق دے جس سے اللہ خوش ہو، اور سبھی لوگوں کو فتنہ کے وسائل ، فساد کے اسباب اور شيطانی چالوں سے محفظ رکھے ۔ وہ بے انتہا سخی وکريم ہے۔ وصلى الله على عبده ورسوله نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
(ابن باز کے فتوے – ( جلد کا نمبر 1، صفحہ 418

جمعہ، 29 جنوری، 2016

سورة ابفرقان كا اردو ترجمه ، عبدالمومن سلفي

سورة الفُرقان
شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
وہ بڑی برکت والا ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل کیا تاکہ تمام جہان کے لیےڈرانے والا ہو (۱) وہ جس کی آسمانوں اور زمین میں سلطنت ہے اور اس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا ہے اور نہ کوئی سلطنت میں اس کا شریک ہے اور اس نے ہر چیز کو پیدا کر کے اندازہ پر قائم کر دیا (۲) اور انہوں نے الله کے سوا ایسے معبود بنا رکھے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے حالانکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں اور وہ اپنی ذات کے لیے نقصان اور نفع کے مالک نہیں اور موت اور زندگی اور دوبارہ اٹھنے کے بھی مالک نہیں (۳) اور کافر کہتے ہیں کہ یہ تو محض جھوٹ ہے جسے اس نے بنا لیا ہے اور دوسرے لوگوں نے اس میں ا س کی مدد کی ہے پس وہ بڑے ظلم اور جھوٹ پر اتر آئے ہیں (۴) اور کہتے ہیں کہ پہلوں کی کہانیاں ہیں کہ جنہیں اس نے لکھ رکھا ہے پس وہی اس پر صبح اور شام پڑھی جاتی ہیں (۵) کہہ دو کہ اسے تو اس نے نازل کیا ہے جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتیں جانتا ہے بے شک وہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے (۶) اور کہتے ہیں اس رسول کو کیا ہوگیا کہ کھاناکھاتا اور بازاروں میں پھرتا ہے اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا گیا کہ اس کے ساتھ وہ بھی ڈرانے والا ہوتا (۷) یا اس کے پاس کوئی خزانہ آجاتا یا اس کے لیے باغ ہوتا جس میں سےکھاتا اور بے انصافوں نے کہا کہ تم تو بس ایک ایسے شخص کے تابع ہوگئے جس پر جادو کیا گیا ہے (۸) دیکھو تو تمہارے لیے کیسی مثالیں بیان کرتے ہیں پس وہ ایسے گمراہ ہو ئے کہ راستہ بھی نہیں پا سکتے (۹) بڑی برکت ہے اس کی جو چاہے تو تیرے لیے اس سے بہتر باغ بنا دے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں اور تیرے لیے محل بنا دے (۱۰) بلکہ انہوں نے تو قیامت کو جھوٹ سمجھ لیا ہے اور ہم نے اس کے لیے آگ تیار کی ہے جو قیامت کو جھٹلاتا ہے (۱۱) جب وہ انہیں دور سے دیکھے گی تو اس کے جوش و خروش کی آواز سنیں گے (۱۲) اور جب وہ اس کے کسی تنگ مکان میں جکڑکر ڈال دیے جائیں گے تو وہاں موت کو پکاریں گے (۱۳) آج ایک موت کو نہ پکارو اور بہت سی موتوں کو پکارو (۱۴) کہہ دو کیا بہتر ہے یا وہ بہشت جس کا پرہیز گارو ں کے لیے وعدہ کیا گیا ہے جو ان کا بدلہ اور ٹھکانہ ہوگی (۱۵) وہاں انہیں جو چاہیں گے ملے گا وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے یہ وعدہ تیرے رب کے ذمہ ہے جو قابل درخواست ہے (۱۶) اورجس دن انہیں اور ان کے معبودوں کو جمع کرے گا جنھیں وہ الله کے سوا پوجتے تھے تو فرمائے گا کیا تم ہی نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یا وہ خود راستہ بھول گئے تھے (۱۷) کہیں گے تو پاک ہے ہمیں یہ کب لایق تھا کہ تیرے سوا کسی اور کو کارساز بناتے لیکن تو نے انہیں اور ان کے باپ دادا کو یہاں تک آسودگی دی تھی کہ وہ یاد کرنا بھول گئے اور یہ لوگ تباہ ہونے والے تھے (۱۸) سو تمہارے معبودوں نے تمہاری باتو ں میں تمہیں جھٹلا دیا سو تم نہ تو ٹال سکتے ہو اور نہ مدد دے سکتے ہو اور جو تم میں سے ظلم کرے گا ہم اسے بڑا عذاب چکھائیں گے (۱۹) اور ہم نے تجھ سے پہلے جتنے پیغمبر بھیجے وہ کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے اورہم نے تمہیں ایک دوسرے کے لیے آزمائش بنایا کیا تم ثابت قدم رہتے ہو اور تیرا رب سب کچھ دیکھنے والا ہے (۲۰) اور ان لوگوں نے کہا جو ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے کہ ہمارے پاس فرشتے کیوں نہ بھیجے گئے یا ہم اپنے رب کو دیکھ لیتے البتہ انہوں نے اپنے آپ کو بہت بڑاسمجھ لیا ہے اور بہت بڑی سرکشی کی ہے (۲۱) جس دن فرشتوں کو دیکھیں گے اس دن مجرموں کے لیے کوئی خوشی نہیں ہو گی اورکہیں گے آڑ کر دی جائے (۲۲) اور جو عمل انہوں نے کیے تھے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے پھر انہیں اڑتی ہوئی خاک کر دیں گے (۲۳) اس دن بہشتیوں کا ٹھکانا بہتر ہوگا اور دوپہر کی آرام گاہ بھی عمدہ ہو گی (۲۴) اور جس دن آسمان بادل سے پھٹ جائے گا اور فرشتے بکثرت اتارے جائیں گے (۲۵) اس دن حقیقی حکومت رحمنٰ ہی کی ہوگی اور وہ دن کافروں پر بڑا سخت ہوگا (۲۶) اور اس دن ظالم اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کھائے گا کہے گا اے کاش میں بھی رسول کے ساتھ راہ چلتا (۲۷) ہائے میری شامت کاش میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا (۲۸) اسی نے تو نصیحت کے آنے کےبعد مجھے بہکا دیا اور شیطان تو انسان کو رسوا کرنے والا ہی ہے (۲۹) اور رسول کہے گا اے میرے رب بےشک میری قوم نے اس قرآن کو نظر انداز کر رکھا تھا (۳۰) اور ہم اسی مجرموں کو ہر ایک نبی کا دشمن بناتے رہے ہیں اور ہدایت کرنے اور مدد کرنے کے لیے تیرا رب کافی ہے (۳۱) اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر یکبارگی قرآن کیوں نازل نہیں کیا گیا اسی طرح اتارا گیا تاکہ ہم اس سے تیرے دل کو اطمینان دیں اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھ سنایا (۳۲) اور جو انوکھی بات تیرے سامنے لائیں گے ہم بھی تمہیں اس کا بہت ٹھیک جواب اوربہت عمدہ حل بتائیں (۳۳) جو لوگ مونہوں کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈالیں جائیں گے یہی برے درجے والے ہیں اور بہت ہی بڑے گمراہ ہیں (۳۴) اور البتہ تحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور ہم نے اس کے ساتھ اس کے بھائی ہارون کو وزیر بنایا (۳۵) پھر ہم نے کہا تم دونو ان لوگوں کی طرف جاؤ جنہو ں نے ہماری آیتیں جھٹلائی ہیں پھر ہم نے انہیں جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا (۳۶) اور نوح کی قوم کوبھی جب انہو ں نے رسولوں کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں غرق کر دیا اور ہم نے انہیں لوگوں کے لیے نشانی بنا دیا اور ہم نے ظالموں کے لیے دردناک عذاب تیار کیا ہے (۳۷) اور عاد اور ثمود اورکنوئیں والوں کو بھی اوربہت سے دور جو ان کے درمیان تھے (۳۸) اور ہم نے ہر ایک کو مثالیں دے کر سمجھایا تھا اور سب کو ہم نے ہلاک کر دیا (۳۹) اور یہ اس بستی پر بھی گزرے ہیں جس پر بری طرح پتھر برسائے گئے سو کیا یہ لوگ اسے دیکھتے نہیں رہتے بلکہ یہ لوگ مر کر زندہ ہونے کی امید ہی نہیں رکھتے (۴۰) اور جب یہ لوگ تمہیں دیکھتے ہیں تو بس تم سے مذاق کرنے لگتے ہیں کیا یہی ہے جسےالله نے رسول بنا کر بھیجا (۴۱) اس نے تو ہمیں ہمارے معبودوں سے ہٹا ہی دیا ہوتا اگر ہم ان پر قائم نہ رہتے اور انہیں جلدی معلوم ہوجائے گا جب عذاب دیکھیں گے کہ کون شخص گمراہ تھا (۴۲) کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنا خدا اپنی خوہشات نفسانی کو بنا رکھا ہے پھر کیا تو اس کا ذمہ دار ہو سکتا ہے (۴۳) یا تو خیال کرتا ہے کہ اکثر ان میں سے سنتے یا سمجھتے ہیں یہ تو محض چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں (۴۴) کیا تو نے اپنے رب کی طرف نہیں دیکھا کہ اس نے سایہ کو کیسے پھیلایا ہے اور اگر چاہتا تو اسے ٹھہرا رکھتا پھر ہم نے سورج کو اس کا سبب بنا دیا ہے (۴۵) پھر ہم اسے آہستہ آہستہ اپنی طرف سمیٹتے ہیں (۴۶) اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے رات کو اوڑھنا اور نیند کو راحت بنا دیا اور دن چلنے پھرنے کے لیے بنایا (۴۷) اوروہی تو ہے جو اپنی رحمت سے پہلے خوشخبری لانے والی ہوائیں چلاتا ہے اور ہم نے آسمان سے پاک پانی نازل فرمایا (۴۸) تاکہ ہم اس سے مرے ہوئے شہر کو زندہ کریں اور اسے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں، چارپایوں اوربہت سے آدمیوں کوپلائیں (۴۹) اور ہم نے اسے لوگوں میں بانٹ دیا ہے تاکہ نصیحت حاصل کریں پس بہت سے آدمی ناشکری کیے بغیر نہ رہے (۵۰) اور اگر ہم چاہتے تو ہر گاؤں میں ایک ڈرانے والا بھیج دیتے (۵۱) پس کافروں کا کہا نہ مان اس کے ساتھ بڑے زور سے ان کا مقابلہ کر (۵۲) اور وہی ہے جس نے دو دریاؤں کو آپس میں ملا دیا یہ میٹھا خوشگوار ہے او ریہ کھاری کڑوا ہے اوران دونوں میں ایک پردہ اور مستحکم آڑ بنا دی (۵۳) اوروہی ہے جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا پھر ا س کے لیے رشتہ نسب اور دامادی قائم کیا اور تیرا رب ہر چیز پر قادر ہے (۵۴) اور وہ الله کے سوا ایسے کو پوجتے ہیں جو انہیں نہ نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور کافر اپنے رب کی طرف پیٹھ پھیرنے والا ہے (۵۵) اور ہم نےتمہیں محض خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے (۵۶) کہہ دو میں اس پر تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتا مگر جو شخص اپنے رب کی طرف راستہ معلوم کرنا چاہے (۵۷) اورتم اس زندہ خدا پر بھروسہ رکھو جو کبھی نہ مرے گا اور اس کی تسبیح اورحمد کرتے رہو اور وہ اپنے بندوں کے گناہوں سے کافی خبردار ہے (۵۸) جس نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے چھ دن میں بنایا پھر عرش پر قائم ہوا وہ رحمنٰ ہے پس ا س کی شان کسی خبردار سے پوچھو (۵۹) اورجب ان سے کہا جاتا ہے کہ رحمنٰ کو سجدہ کرو توکہتے ہیں رحمنٰ کیا ہے کیا ہم اسے سجدہ کریں جس کے لیے تو کہہ دے اور اس سے انہیں اور زیادہ نفرت ہوتی ہے (۶۰) بڑا برکت والا ہے وہ جس نے آسمان میں ستارے بنائے اور اس میں چراغ اور چمکتا ہوا چاند بھی بنایا (۶۱) اور وہی ہے جس نے رات اور دن یکے بعد دیگرے آنے والے بنائے یہ اس کے لیے ہے جو سمجھنا چاہے یا شکر کرنا چاہے (۶۲) اور رحمنٰ کے بندے وہ ہیں جو زمین پردبے پاؤں چلتے ہیں اورجب ان سے بے سمجھ لوگ بات کریں تو کہتے ہیں سلام ہے (۶۳) اور وہ لوگ جو اپنے رب کے سامنے سجدہ میں اور کھڑے ہوکر رات گزارتے ہیں (۶۴) اور وہ لوگ جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ہم سے دوزخ کا عذاب دور کر دے بے شک اس کا عذاب پوری تباہی ہے (۶۵) بے شک وہ برا ٹھکانا اوربڑی قیام گاہ ہے (۶۶) اوروہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچی نہیں کرتے اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان کا خرچ ان دونوں کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے (۶۷) اوروہ جو الله کے سوا کسی اور معبود کونہیں پکارتے اور اس شخص کوناحق قتل نہیں کرتے جسے الله نے حرام کر دیا ہے اور زنا نہیں کرتے اور جس شخص نے یہ کیا وہ گناہ میں جا پڑا (۶۸) قیامت کے دن اسے دگنا عذاب ہو گا اس میں ذلیل ہو کر پڑا رہے گا (۶۹) مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک کام کیے سو انہیں الله برائیوں کی جگہ بھلائیاں بدل دے گا اور الله بخشنے والا مہربان ہے (۷۰) اور جس نے توبہ کی اور نیک کام کیے تو وہ الله کی طرف رجوع کرتا ہے (۷۱) اور جو بے ہودہ باتوں میں شامل نہیں ہوتے اور جب بیہودہ باتوں کے پاس سے گزریں تو شریفانہ طور سے گزرتے ہیں (۷۲) اور وہ لوگ جب انہیں ان کے رب کی آیتوں سے سمجھایا جاتا ہے تو ان پر بہرے اندھے ہو کر نہیں گرتے (۷۳) اور وہ جو کہتے ہیں کہ ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا دے (۷۴) یہی لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کے بدلہ میں جنت کے بالا خانے دیے جائیں گے اور ان کا وہاں دعا اور سلام سے استقبال کیا جائے گا (۷۵) اس میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے ٹھیرنے اور رہنے کی خوب جگہ ہے (۷۶) کہہ دو میرا رب تمہاری پروا نہیں کرتا اگرتم اسے نہ پکارو سو تم جھٹلا توچکے ہو پھر اب تو اس کا وبال پڑ کر رہے گا (۷۷

بدھ، 27 جنوری، 2016

السلامي حقوق ،

mominsalafi.BlogSpot.com
الحمدللہ
اسلامی حقوق توبہت سےہیں ان میں اہم یہ ہیں :
اللہ تعالی کاحق :
اللہ تعالی کی اپنےبندوں پربےشمارنعمتیں ہیں اورہرنعمت پراللہ تعالی کاشکرواجب ہےتواللہ تعالی کےاپنےبندوں پربہت سےحقوق ہیں جن میں بہت ہی اہمیت کےحامل ذکرکئےجاتےہیں :
1۔توحید : توحیدیہ ہےکہ اللہ تعالی کواس کی ذات وصفات اوراس کےاسماءوافعال میں یکتاواکیلاماناجائےاوریہ اعتقاد رکھاجائےکہ بیشک اللہ وحدہ ہی رب اورمالک اورسارےمعاملات میں تصرف کرنےوالااور رزق دینےوالاوہی ہےجس کےہاتھ میں بادشاہی ہے اوروہ ہرچیزپرقادرہےجیساکہ اللہ تبارک وتعالی کافرمان ہے :
{ بابرکت ہےوہ ذات جس کےہاتھ میں بادشاہی ہےاوروہ ہرچیزپرقادر ہے } الملک ۔/(1)
2۔ عبادت : اورعبادت یہ ہےکہ اس اللہ وحدہ ہی کی عبادت کی جائےکیونکہ وہ ان کارب اوران کاخالق اور رازق ہے ۔
اوراس طرح ہےکہ عبادت کی ساری کی ساری انواع واقسام صرف اورصرف اللہ وحدہ لاشریک کےلئےہی خاص کی جائیں مثلادعااورذکراورمددواستعانہ اوراستغاثہ اوراسی کے سامنےتذلیل وخضوع اختیارکیاجائےاوراسی سےامیدرکھی جائےاوراسی سےڈراورخوف کھایاجائےاوراسی کےلئےہی نذرونیازبھی دی جائےاورذبح وغیرہ بھی اسی کےنام کاہووغیرہ ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :
{ اورتم اللہ ہی کی عبادت کرواوراس کےساتھ کسی کوبھی شریک نہ ٹھراؤ }النساء/(32)
3۔شکر : ساری مخلوق پراللہ تعالی ہی نعمتیں اوراحسان کرنےوالاہےاس لئےان کےذمہ ان نعمتوں پراللہ تعالی کااپنی زبانوں اوردلوں اوراعضاءکےساتھ شکرکرناواجب اورضروری ہےاوروہ شکراللہ تعالی کی ان نعمتوں پراس کی حمد وتعریف اوران نعمتوں کواللہ تعالی کی اطاعت وفرمانبرداری اوران اشیاءمیں صرف کرناچاہئےجوکہ اللہ تعالی نےحلال قراردی ہیں ۔
فرمان باری تعالی ہے :
{ توتم میراذکرکرومیں تمہیں یادکروں گااورمیراشکرکرواورناشکری سےبچو }البقرۃ / (152)
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاحق :
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پوری کی پوری بشریت کےلئےبہت ہی بڑی نعمت ہےاللہ تعالی نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کواس لئےمبعوث کیاتاکہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالیں اوران کےلئےوہ اشیاءبیان کریں جن میں ان کی دنیاوآخرت کی سعادت ہے ۔
والدین کاحق :
اسلام خاندان کوبہت ہی اہمیت دیتاہےاوراس کےدرمیان محبت واحترام کی تاکیدکرتاہےاوراس خاندان کی اساس اوربنیاد والدین ہیں اسی لئےاللہ تعالی کےہاں سب سےمحبوب اورافضل عمل والدین سےنیکی کرناقرارپایا ۔
تووالدین سےنیکی ان کی اطاعت وفرمانبرداری اوران کااحترام اوران کےسامنے تواضع اوران کےلئےاحسان کرکےہوگی اوریہ کہ ان پرخرچ کیاجائےاوران کےلئےدعاکی جائے اوران کےرشتہ داروں سےصلہ رحمی کی جائےاوران کےدوست واحباب کی عزت واحترام کیاجائے ۔
اللہ تبارک وتعالی کافرمان ہے :
{ اورتیرے رب نےفیصلہ کردیاہےکہ اس کی عبادت کےعلاوہ کسی کی عبادت نہ کرواور والدین کےساتھ احسان اوراچھاسلوک کرو }الاسراء /(23)
اوران حقوق میں والدہ کاحق سب سےزیادہ اورعظیم ہےکیونکہ والدہ ہی ہےجس نے اس کاحمل اٹھایااورپھروہی ہےجس نےاسےجنااوروہی ہےجس نےاسےدودھ پلایا ۔
( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس ایک شخص آکرپوچھنےلگااےاللہ تعالی کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سےسب سےزیادہ میرےحسن سلوک اورصحبت کاکون مستحق ہے ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاتیری والدہ اس نےپھرپوچھااس کےبعدکون ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : تیری والدہ اس نےپھرپوچھااس کےبعدکون ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : تیری والدہ ، اس نےپھرپوچھااس کےبعدکون ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : تیراوالد، ) صحیح بخاری اورمسلم اورلفظ بخاری کےہیں (الادب / 78)
مسلمان کےمسلمان پرحقوق :
سب مومن ایک دوسرےکےبھائی ہیں وہ ایک ایسی متعاون اورمضبوط امت ہیں جس طرح کہ دیوارہوجوکہ بعض بعض کومضبوط کرے ۔
وہ ایک دوسرےسےرحم دلی کےساتھ پیش آتےاورآپس میں نرمی کابرتاؤاورایک دوسرے سےمحبت کرتےہیں تا کہ اس عمارت کی حفاظت ہوسکےاوریہ ایک ایسی اخوت وبھائی چارہ ہےجس کےاللہ تعالی نےایک مسلمان کےدوسرےمسلمان پرحقوق مقررکیئےہیں ۔
انہیں حقوق میں سےمحبت وبھائی چارہ اورایک دوسرےکونصیحت اورایک دوسرےکی تکلیف رفع کرنی اورپردہ پوشی کرنی اورحق میں ایک دوسرےکی مددونصرت کرنی اورپڑوسی اورمہمان کی عزت واحترام کرنابھی شامل ہے ۔
اورانہیں حقوق میں سےسلام کاجواب دینااوربیمارکی تیمارداری کرنااورکسی کی دعوت قبول کرنااورچھینک لینےوالاجب الحمدللہ کہےتواس کےجواب میں یرحمک اللہ کہنا اورمرنےوالےکےجنازےمیں شرکت کرنا ۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :
( مسلمان کےمسلمان پرپانچ حق ہیں سلام کاجواب دیناچھینک کہنےوالےکوجواب دینااوردعوت قبول کرنااورمریض کی تیمارداری کرنااورجنازےکےساتھ چلنا )
صحیح مسلم حدیث نمبر ۔(2625)
پڑوسی کاحق :
اسلام پڑوسی کےحق کوبہت اہمیت دیتاہےچاہےوہ پڑوسی مسلمان یاغیرمسلم ان مصلحتوں کی بناپرجس سےامت ایک جسم اوربدن کی طرح ہوجاتی ہے ۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے :
( جبریل علیہ السلام مجھےباربارپڑوسی کےمتعلق وصیت کرتےر ہےحتی کہ مجھےیہ خیال ہونےلگا کہ اسےوارث بنادیاجائےگا ) صحیح بخاری اورمسلم ۔
اوراسلام میں پڑوسی کےلئےمقررکردہ حقوق میں سےیہ بھی ہےکہ وہ اسےوہ سلام کرنے میں پہل کرےاورجب وہ بیمارہوتواس کی تیمارداری کرےاورمصیبت میں اس کی تعزیت کرےاورخوشی اورفرحت کےوقت اسےمبارکباددےاوراس کی چھوٹی موٹی غلطیوں سے درگزرکرےاوراس کی پردہ پوشی کرےاوراس کی تکلیفوں پرصبرسےکام لےاوراسےہدیہ دے اوراگراسےضرورت ہوتواسےقرضہ بھی دےاوراس کی حرمت والی چیزوں سےآنکھیں نیچی رکھےاوراسےاس کےدین ودنیاکےنفع مندچیزوں کی راہنمائي کرے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے :
( اللہ تعالی کےہاں دوستوں میں سب سےبہتراوراچھاوہ ہےجواپنےدوستوں کےلئے اچھاہواوراللہ تعالی کےہاں سب سےاچھاپڑوسی وہ ہےجواپنےپڑوسیوں کےلئےاچھاہو )۔
امام بخاری نےاسےادب المفردمیں نقل کیاہےحدیث نمبر ۔(115)
اوراللہ تعالی نےپڑوسی کےحقوق کےمتعلق ارشادفرمایاہے :
{ اوراللہ تعالی کی عبادت کرواوراس کےساتھ کسی کوبھی شریک نہ ٹھراؤاورماں باپ کےساتھ اچھاسلوک واحسان کرواور رشتہ داروں سےاوریتیموں سےاورمسکینوں سے اورقرابت دارہمسایہ سےاوراوراجنبی ہمسایہ سےاورپہلوکےساتھ سے }النساء /(36)
اوراسلام نےپڑوسی کوتکلیف دینےاوراس کےساتھ براسلوک کرنےسےمنع فرمایاہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاہےکہ ایساکرناجنت سےمحرومی کاسبب ہے :
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
( جس کاپڑوسی اس کی تکلیفوں اورشرسےمحفوظ نہیں ہوتاوہ جنت میں داخل نہیں ہوگا ) ۔ صحیح بخاری اورمسلم ۔
اوراسلام نےمصلحت کوپوراکرنےکےلئےرعایاپراس کےوالی اوروالی پررعایاکےحقوق بھی مقررکیےہیں اوراسی طرح خاوندکےحقوق بیوی پراوربیوی کےحقوق خاوندپرمقررکئےہیں اوراس کےعلاوہ بھی بہت سےاسلام نےعادل حقوق واجب کئےہیں ۔
واللہ اعلم .

الشیخ محمدبن ابراہیم التویجری کی کتاب : اصول الدین الاسلامی سےلیاگیا

وہ اعمال جوانسان کواسلام سے خارج کردیتے ہیں

الحمد للہ
 فضیلۃ الشیخ عبدالعزیزبن عبداللہ بن بازرحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :
اے مسلمان آپ کویہ علم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالی نےسب بندوں پراسلام میں داخل ہونا اوراس پرعمل کرنااورجوچیز اس کےمخالف ہواس سے بچناواجب قراردیاہے اوراپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کواسی چیز کی دعوت دینے کےلئے مبعوث فرمایا ۔
اوراللہ تعالی نےیہ بتایاہےکہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرےگاوہ ھدایت یافتہ ہے اورجواس سے اعراض کرےوہ گمراہ ہوااوربہت سی آیات میں مرتد ہونے والے اسباب اورہرقسم کےشرک اورکفرسےڈرایاگیا ہے ۔
علماءکرام رحمہ اللہ تعالی نےمرتدکےحکم میں ذ کرکیا ہے کہ :
مسلمان اپنےدین سےبہت سارے نواقض کی وجہ سےمرتد ہوسکتا ہے جس کی بناپر اس کامال اورخون حلال ہوجاتا اور وہ دائرہ اسلام سےخارج ہوجاتاہے ان میں سےسب سے خطرناک اورا کثرطور پروقوع ہونےوالےدس نواقض ہیں جنہیں محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ تعالی اوردوسرےاہل علم رحمہم اللہ نےذ کرکیاہے ۔
ان دس نواقض کوذ یل میں اختصار کےساتھ پیش کیاجاتاہے تا کہ آپ بھی اس سے بچیں اوردوسروں کو بھی اس سےبچائیں ان سےسلامتی اورعافیت کی امیدکرتےہوئے اورتھوڑی بہت وضاحت کےساتھ جوکہ ہم ذیل میں ذ کرکریں گے ۔
پہلا : اللہ تعالی کی عبادت میں شرک ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کاارشاد ہے :
{ بیشک اللہ تعالی قطعی طور پرنہیں بخشےگا کہ اس کے ساتھ شریک مقررکیاجائے اورشرک کےعلاوہ باقی گناہ جسےچاہےبخش دے } النساء /( 116 )
اوراللہ وحدہ لاشریک کافرمان ہے :
{ یقین مانوکہ جوشخص اللہ تعالی کےساتھ شرک کرتا ہے اللہ تعالی نےاس پرجنت حرام کردی ہےاوراس کاٹھکانہ جہنم ہی ہےاورگنہگاروں کی مددکرنےوالاکوئی نہیں ہوگا } المائدۃ /( 72 )
اوراس میں سےمردوں کو پکارنا اوران سےاستغاثہ اورمددمانگنا اوران کےلئےنذرونیاز اور ذ بح کرناجس طرح کہ کوئی جن یاقبروالےکےلئےذ بح کرے ۔
دوسرا :
جس نےاللہ تعالی اوراپنے درمیان کوئی واسطے اوروسیلے بنائےجنہیں وہ پکارے اوران سےشفاعت طلب کرے اوران پرتوکل اور بھروسہ کرےتواس نےبالاجماع کفرکاارتکاب کیا۔
تیسرا :
جومشرکوں کوکافرنہ سمجھے اورنہ ہی انہیں کافرکہے یاان کےکفرمیں شک کرے یاان کےمذھب کوصحیح کہے وہ بھی کافر ہے۔
چوتھا :
جویہ اعتقادرکھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اورکاطریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےطریقےسےبہتر اورا کمل ہےیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےعلاوہ کسی اورکا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےحکم سے افضل ہے ، مثلاجوطاغوت کےحکم کونبی صلی اللہ علیہ وسلم کےحکم پرفضیلت دےتووہ کافر ہے ۔
پانچواں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جولائےہیں اس میں سےکسی چیزسےکوئی بغض رکھےاگرچہ وہ اس پرعمل ہی کیوں نہ کرتاہووہ کافر ہے ۔
اس لئےکہ اللہ تبارک وتعالی کافرمان ہے :
{ یہ اس لئے کہ وہ اللہ تعالی کی نازل کردہ چیز سےناخوش ہوئےتواللہ تعالی نےان کے اعمال ضائع کردئے } محمد ۔/( 9 )
چھٹا :
جس نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےدین کامذاق اوراستہزاء کیایااس کےثواب یاعقاب اورسزا کومذاق کیاتواس نے بھی کفرکاارتکاب کیا ۔
اس کی دلیل اللہ تبارک وتعالی کایہ فرمان ہے :
{ کہہ دیجئے ! کہ اللہ تعالی اوراس کی آیات اوراس کارسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کےلئےرہ گئےہیں ؟ تم بہانےنہ بناؤیقیناتم اپنےایمان کےبعد کافرہوگئےہو } التوبۃ ۔/(65۔66)
ساتواں :
جادو : اوراسی جادومیں سےکسی کوکسی کی طرف مائل کرنااورکسی سے پھیردینا۔
جوکوئی اس جادوکوکرےیااس کےکرنے پرراضی ہواس نےکفرکیا ۔
اس کی دلیل اللہ تعالی کایہ فرمان ہے :
{ وہ دونوں بھی کسی شخص کواس وقت تک نہیں سکھاتےتھےجب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم توایک آزمائش توکفرنہ کر } البقرۃ /(102)
آٹھواں :
مسلمانوں کےخلاف مشرکوں کی مدد اورتعاون کرنا ۔
اس کی دلیل اللہ تعالی کایہ فرمان ہے :
{ تم میں سےجو بھی ان میں سےکسی سےدوستی کرےگا وہ بےشک انہی میں سے ہے بیشک اللہ تعالی ظالموں کوہرگز راہ راست نہیں دکھاتا } المائدۃ /( 51 )
نواں :
جویہ اعتقاد رکھے کہ بعض لوگوں کوشریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم سےنکلنا چائز ہے جس طرح کہ خضر کوموسی علیہ السلام کی شریعت سےنکلناجائزتھاتووہ بھی کافر ہے ۔
اس لئے کہ اللہ تبارک وتعالی کافرمان ہے :
{ جوشخص اسلام کےسوا کوئی اوردین تلاش کرےگااس کاوہ دین قبول نہیں کیا جائےگااوروہ آخرت میں نقصان اٹھانےوالوں میں سےہوگا } آل عمران ۔/( 85 )
دسواں :
اللہ تعالی کےدین سےاعراض برتنانہ تواس کاعلم حاصل کرنااورنہ ہی اس پرعمل کرنا۔
اس کی دلیل اللہ تعالی کایہ فرمان ہے :
{ اس سےبڑھ کرظالم کون ہوگاجسےاللہ تعالی کی آیتوں کاوعظ کیاگیا پھر بھی اس نےان سےمنہ پھیرلیا( یقین مانو ) ہم بھی مجرموں سےانتقام لینےوالےہیں } السجدۃ۔/( 22 )
اوریہ نواقض مذاق یاحقیقی طور پرپائےجانےکےدرمیان کوئی فرق نہیں صرف وہ شخص جس پرجبرکیاگیا ہے وہ اس سےخارج تویہ سب بڑے خطرناک اوروقوع کےلحاظ سے ا کثرہیں تومسلمان کےلئےضروری ہے کہ وہ ان سےبچ کراور ڈرکرر ہے ۔
ہم اللہ تعالی کےغضب کوواجب کرنےوالی اشیاء اوراس کےسخت قسم کےدردناک عذاب کوواجب کرنےوالی اشیاء سے پناہ طلب کرتےہیں ۔
اللہ تعالی اپنی مخلوق میں سب سےبہتراورافضل شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی آل اوران کےصحابہ رضی اللہ تعالی عنہم پررحمتیں نازل فرمائےآمین ۔
ابن بازرحمہ اللہ تعالی کی کلام ختم ہوئی ۔
چوتھی قسم میں یہ بھی داخل ہے کہ :
جس نےیہ اعتقاد رکھا کہ قوانین وضعیہ اورنظام جسے لوگ بناتے ہیں وہ شریعت اسلامیہ سےبہتر اورافضل ہیں یا یہ قوانین اورنظام شریعت اسلامیہ کےمساوی وبرابر ہیں یہ انکانافذ کرنااوران کےساتھ حکم کرناجائز ہے ۔
اگرچہ اس کایہ اعتقاد ہوکہ شریعت اسلامیہ اس سےافضل ہے یااسلامی نظام بیسویں صدی میں اس قابل نہیں کہ اس کی تطبیق کی جائےیا یہ کہ اسلامی نظام مسلمانوں کےترقی پذیر ہونےکاسبب ہے یایہ کہ صرف بندے اوراس کےرب کےدرمیان تعلق ہے اوراس کازندگی کے دوسرے شعبوں میں اس کا کو‏ئی دخل نہیں(وہ بھی کافر ہے )۔
اوراسی طرح چوتھی قسم ( ناقض ) میں یہ بھی داخل ہے کہ :
عصرحاضرمیں اللہ تعالی کی مقررکردہ چوری کی سزاہاتھ کاٹنا اورشادی شدہ زانی کی سزارجم کرنااس موجودہ دورمیں نافذ کرنامناسب نہیں ۔( وہ بھی کافر ہے )
اوراسی طرح چوتھی قسم ( ناقض ) میں یہ بھی داخل ہے کہ :
ہروہ شخص جس نےیہ اعتقاد رکھا کہ معاملات یا حدود یاان دونوں کےعلاوہ شریعت اسلامیہ کےبغیرکسی اورکاحکم بھی نافذ کیاجاسکتا ہے اگرچہ اس کایہ اعتقاد نہ ہو کہ یہ شریعت اسلامیہ کےحکم سےافضل ہیں ۔
کیونکہ اس نےبالاجماع اس چیزکوجائزقراردیا ہےجسےاللہ تعالی نےحرام کیاتھاتوجو بھی اللہ تعالی کی حرام کردہ اشیاءکوجن کادین میں بالضرورۃ علم ہے جائز اورحلال قراردیا مثلازنی اورشراب اورسود اورشریعت الہی کےعلاوہ کسی اورکی تحکیم تووہ مسلمانوں کے اجماع سے کافر ہے ۔
ہم اللہ تعالی سےدعاگوہیں کہ وہ سب کواس بات کی توفیق دے جس میں اس کی رضاوخوشنودی ہے اوریہ کہ ہمیں اورسب مسلمانوں کوصراط مستقیم کی ھدایت نصیب فرمائےبیشک وہ سننےوالا اورقریب ہے اورہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اورانکی آل اورصحابہ اکرام رضی اللہ تعالی عنہم پررحمتیں نازل فرمائے ۔ آمین ۔
واللہ اعلم

کیا فرض نمازوں کے بعد دعا کرنے سے ممانعت کی کوئی دلیل ہے؟

الحمد للہ:

ہمارے علم کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام سے  ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہے جس میں  اُن سے فرض نماز کے بعد رفع الیدین کرنا ثابت ہوتا ہو؛  چنانچہ  ہمیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا عمل بدعت ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : (جس نے ایسا عمل کیا جس کے بارے میں ہمارا حکم نہیں  تھا ، تو وہ رد ہے) اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح  مسلم میں (3243) نمبر حدیث کے تحت ذکر کیا ہے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جس شخص نے ہمارے دین میں  ایسا  کام ایجاد کیا، جو اس میں نہیں تھا، تو وہ رد ہے) اس حدیث کی صحت پر سب محدثین کا اتفاق ہے۔
البتہ نماز کے بعد ہاتھ اٹھائے بغیر  دعا کرنا ، اجتماعی دعا کی بجائے  انفرادی دعا کرنے  میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام سے پہلے اور سلام کے بعد بھی دعائیں کی ہیں۔
اسی طرح نفل نماز کے بعد  دعا کرنے کا حکم ہے، کیونکہ  اس بارے میں ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ  اس صورت میں ہاتھ اٹھا کر بھی دعا کی جا سکتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا  قبولیتِ دعا کے اسباب میں سے ہے، چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ  ہر نفل نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر  دعا کرتے تھے، اس لیے یہ عمل بھی دائمی  نہیں ہونا چاہیے، بلکہ  ضرورت کے وقت  ایسا کرنا مناسب ہے،  کیونکہ  خیر و بھلائی  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا ، اور آپ کے منہج پر چلنے سے ہی حاصل ہوگی، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ} بیشک تمہارے  لیے رسول اللہ [صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل] بہترین نمونہ ہے۔[الأحزاب : 21

فرض كي دعا كي ضعيف احاديث

پہلی حدیث: جسے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کیا گیا ہے۔
اسے ابن سنی نے "عمل الیوم واللیلہ" صفحہ: 137 میں  بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں مجھے احمد بن حسن  بن ادیبویہ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں  ہمیں ابو یعقوب اسحاق بن خالد بن یزید بالسی  نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں ہمیں عبد العزیز بن عبد الرحمن بالسی نے  انہوں نے خصیف سے، اور انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بیان کی۔
اور یہ  روایت انتہائی ضعیف ہے، جس کی وجہ عبد العزیز بن عبد الرحمن ہے، اس کے بارے میں ائمہ کرام کے اقوال درج ذیل ہیں:
امام احمد:  "اس کی احادیث مٹا دو، یہ سب جھوٹ ہیں" یا انہوں نے کہا: "خود ساختہ ہیں"
ابن حبان : "اسے کسی صورت میں بھی حجت نہیں بنایا جاسکتا "
مزید کیلئے دیکھیں: " العلل " (5419)  اسی طرح : " لسان الميزان " (5267)
دوسری حدیث : جسے عبد اللہ بن زیبر  سے روایت کیا گیا ہے
 اسے طبرانی نے "معجم الکبیر"(14/266) میں روایت کیا ہے، اس کی سند یہ ہے:  ہمیں حدیث بیان کی سلیمان بن  حسن عطار نے، وہ کہتے ہیں ہمیں حدیث بیان کی ابو کامل  جحدری نے، وہ کہتے ہیں ہمیں  حدیث بیان کی فضیل بن سلیمان نے وہ کہتے ہیں  کہ ہمیں حدیث بیان کی محمد بن ابی یحیی ۔۔۔
 یہ سند بھی دو وجوہات کی بنا پر ضعیف ہے:
1-             محمد بن ابی یحیی اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے درمیان  انقطاع ہے، کیونکہ غالب گمان یہی ہے کہ محمد نے ابن زبیر سے سنا ہی نہیں ہےاس لیے کہ محمد بن ابی یحیی کی وفات 144 ھ میں ہے، اور عبد اللہ بن زبیر کی وفات 72 ھ میں ہے۔
 یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجر  نے "التهذيب" (5/310) میں یہ کہا ہے کہ : محمد بن ابی یحیی  کی ایک روایت کی نسبت عبد اللہ  بن زبیر  یا کسی اور صحابی سے کی جاتی ہے، پھر ابن حجر نے یہ بالجزم کہا ہے کہ  محمد بن ابی یحیی  تابعین سے ہی روایت  کرتا ہے، پھر  کچھ تابعین کے نام ذکر بھی کیے۔
 اس سے یہ بات مزید پختہ ہو جاتی ہے کہ سند میں انقطاع ہے، اور کچھ راویوں نے درمیان میں سے راوی کو گرا دیا ہے۔
 یہی وجہ ہے کہ شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ کہتے ہیں:
 "اس حدیث کی سند میں محمد بن ابی یحیی اسلمی اور  عبد اللہ بن زبیر کے درمیان انقطاع ہے" انتہی
"تصحیح الدعاء " (ص/440)
 2-             فضیل بن سلیمان کو بہت سے ائمہ کرام نے ضعیف قرار دیا ہے، مثلاً:  ابن معین، عبد الرحمن بن مہدی، نسائی، اور دیگر ائمہ کرام۔
 انکی گفتگو جاننے کیلئے  دیکھیں: "تهذيب التهذيب" (4/481)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے اپنی کتاب "تقريب التهذيب" (5462) میں علمائے کرام کی گفتگو کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے اسے ضعیف ہی لکھا ہے، چنانچہ کہا: " صدوق له خطأ كثير " [یہ راوی صدوق ہے لیکن اس کی غلطیاں بہت زیادہ ہیں] انتہی
اور فضیل بھی  سلیمان  کی کچھ روایات کو امام بخاری کی جانب سے اپنی صحیح  میں  جگہ دینا ، اس کے ثقہ ہونے کی دلیل نہیں ہے، کیونکہ امام بخاری اس کی روایات کو خوب چھان پھٹک کر ، دیگر روایوں کی طرف سے شواہد کی موجودگی میں قبول کرتے تھے۔
 دیکھیں:  "منهج الإمام البخاري في تصحيح الأحاديث وتعليليها" از: ابو بکر کافی(ص/154)
تیسری حدیث:
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے سلام پھیرنے کے بعد  اپنے دونوں ہاتھ  اٹھائے، آپ اس وقت  قبلہ رخ تھے، پھر آپ نے فرمایا: (یا اللہ! ولید بن ولید، عیاش بن ابی ربیعہ، سلمہ بن ہشام، اور لاچار کمزور مسلمانوں کو مشرکین کے چنگل سے آزاد فرما)
اس روایت کو ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر: (3/1048) میں اس سند کیساتھ  نقل کیا ہے:  ابن ابی حاتم کہتے ہیں مجھے میرے والد  نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں مجھے ابو معمر المنقری نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ مجھے عبد الوارث نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں مجھے علی بن زید نے بیان کیا، انہوں نے سعید بن مسیب سے اور انہوں نے ابو ہریرہ سے یہ روایت نقل کی۔
شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ کہتے ہیں:
 "اس حدیث کا مرکزی راوی  علی بن زید بن جدعان ہے، جس کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے، اور اگر اس حدیث کو صحیح مان بھی لیا جائے تو یہ ایک وقتی اور عارضی عمل تھا،  آپکا مستقل طریقہ کار نہیں تھا،  [یہ بات واضح ہے کہ ]دونوں میں فرق  ہوتا ہے" انتہی
"تصحیح الدعاء" (ص/443)
چوتھی حدیث:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (رات کی نماز دو ، دو رکعت ہے، ہر دو رکعتوں میں  تشہد بیٹھو، اپنی مسکینی، اور  تنگی کا اظہار  ہاتھ اٹھا کر کرو، اور کہو: یا اللہ! مجھے بخش دے، جو شخص ایسا نہیں کریگا، اس کی نماز  ناقص ہے) سنن ابو داود (1296)
حدیث کی سند  ضعیف ہے، اس میں عبد اللہ  بن نافع  راوی ہے، جس کے بارے میں علی بن مدینی  کہتے ہیں: "یہ راوی مجہول ہے"
حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب (3682) میں بھی یہی کہا ہے۔
اسی راوی کی وجہ سے  البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو  ضعیف ابو داود میں  ضعیف قرار دیا ہے۔
 مزید تفصیل کیلئے دیکھیں: " ضعیف ابو داود – اصل [اصل  سے مراد "الام" ہے]" (2/52