بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله رب العالمين ، والصلاة والسلام على رسوله الأمين، وعلى آله وصحبه أجمعين۔ أما
mominsalafi.BlogSpot.com
بعد:
بلا شبہہ مردوں کے ميدان عمل ميں عورتوں کو اترنے کی دعوت دينا جو موجب اختلاط ہے ، چاہے يہ صريح لفظوں ميں ہو يا اشارہ و کنايہ کے پيراۓ ميں ، اور يہ کہنا کہ يہ موجودہ زمانے کے تقاضوں اور معاصر تہذيب و تمدن کی ضروريات ميں سے ہے ، ايک خطرناک امر ہے ، جس کے تباہ کن اثرات ، اورخطرناک نتائج ہيں ۔ ساتھ ہی يہ ان نصوص شريعت سے بھی متصادم ہے جو عورت کو گھر ميں رہنے اور ان اعمال کو انجام دينے کا حکم ديتے ہيں جو گھر کے ساتھ خاص ہيں ۔
جو شخص اختلاط کے نتيجہ ميں پيدا ہونے والے بے شمار مفاسد کو ديکھنا چاہے تو وہ انصاف کی نگاہ اورغير جانب دار ہو کران سوسائٹيوں پر نظر ڈالے جو اس عظيم مصيبت ميں اختياراً يا اضطراراً گرفتار ہيں ، بلاشبہہ وہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر ناگواری کا احساس نماياں پائے گا ، اور عورتورں کےگھر سےباہرنکلنے اور خاندانی انتشار پر حسرت و افسوس کئے بغير نہيں رہ سکتا ۔ يہ شکوی وہ مقالہ نگاروں کی زبانی اور تمام ذرائع ابلاغ ميں واضح طور پر عام پاۓ گا ، وجہ يہ ہے کہ اس نے معاشرے کو تباہ کر ديا ہے اور اس کی بنيادوں کو ہلا کر رکھ ديا ہے ۔
ايسی صحيح اور صريح دليليں بکثرت وارد ہيں جو اجنبى عورت کے ساتھ خلوت اور اسے ديکھنے اور ان وسائل کے حرام ہونے پر دلالت کرتی ہيں جو اللہ کے حرام کردہ امور ميں پڑنے کا سبب ہيں، اختلاط کی حرمت کے ليے يہ سب قطعی دليليں ہيں؛ اس لئے کہ يہ اختلاط برے انجام تک پہںچانے والی چیز ہے۔
عورت کو اس کے دائرہ سلطنت سے نکالنا اور اس کے حيات بخش ميدان عمل سے باہر کرنا اسے اس کی فطری تقاضے اور حقیقت سے باہر کرنا ہے جس پر اللہ نے اسے پيدا کيا ہے ۔
عورت کو مردوں کے لئے خاص ميدان عمل ميں نکلنے کی دعوت دينا معاشرے کے لئے انتہائی خطرناک ہے، جس کے بڑے اثرات ميں سے اختلاط کا پايا جانا ہے، جوکہ زنا کے عظیم ترين وسیلہ ہے، اور زنا سوسائٹی کو کمزور بنا ديتا ہے اور اس کی اخلاقی و سماجی قدروں کو پامال کرديتا ہے۔
يہ بات معلوم ہے کہ اللہ نے عورت کو ايک خاص بناوٹ عطا کی ہے جو مردوں کی بناوٹ سے يکسر مختلف ہے ، جس کے ذريعہ اللہ نے اسے اس کام کے لئے تیار کيا ہے جو گھر کے کام يا اپنی ہم جنسوں کے اعمال سے متعلق ہيں ۔
اس کا مطلب يہ ہوا کہ عورت کومردوں کے ساتھ خاص ميدان عمل ميں لانا اسے اسکی خاص شکل اور طبيعت سے نکالنا ہے ۔ اس کے اندر عورت کے ساتھ ظلم اور اسکی روحانيت کو ختم کرنا اور اس کی شخصيت کو تباہ کرنا ہے، جس کا برا اثر اس کی اولاد تک جا پہنچتا ہے ، کيوں کہ وہ تربيت اور شفقت و محبت سے محروم ہوجاتے ہيں ۔ يہ کام ماں کرتی ہے جو اس سے جدا کرگئی، اور اپنے دائرہ سلطنت سے پورے طور پر بے دخل کردی گئی، جبکہ عورت اس جگہ کے علاوہ کہيں بھی راحت ، سکون و اطمينان نہيں پاسکتی۔ موجودہ ہمارے اس معاشرے کی حالت زار جو اس مصبيبت ميں گرفتار ہوچکی ہيں ميری ان باتوں پر سچی گواہ ہے۔
اسلام نے مياں بيوی ميں سے ہر ايک کے لئے الگ الگ مخصوص فرائض مقرر کئےہيں، جس کی انجام دہی ہر ايک پر واحب ہے تاکہ گھر کے اندر اور باہر معاشرے کی صحيح تشکيل ہو سکے ۔
آدمی پر نان و نقفہ اور کما نے کی ذمہ داری ہے ، عورت بچوں کی تربيت ، ان کے ساتھ شفقت ومحبت ، رضاعت ، پرورش و پرداخت اور وہ تمام کام انجام دے گی جو بچوں کی تعليم سے متعلق ہيں جيسے انکے لئے مدارس کی ادارت ، ان کا علاج و معالجہ اور تيمارداری وغيرہ وہ تمام کام جو عورتوں کے ساتھ مختص ہيں ۔ عورت کی طرف سے گھر کے فرائض کو ترک کرنے ميں گھر اور گھر کے اندر رہنے والوں کی تباہی ہے ۔ جس سے حسی اور معنوی طور پر خاندانی بکھراؤ لازم آتا ہے ۔ ايسی صورت ميں شکل وصورت كے اعتبار سے تو معاشرہ کا ڈھانچہ نظر آتا ہے مگر حقيقت اور معنويات سے خالی ہوتا ہے ۔
الله جل وعلا نے ارشاد فرمايا : ﻣﺮﺩﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﭘﺮ ﺣﺎﻛﻢ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻛﮧ ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﻧﮯ ﺍﯾﻚ ﻛﻮ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﭘﺮ ﻓﻀﯿﻠﺖ ﺩﯼ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻛﮧ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺎﻝ ﺧﺮﭺ ﻛﺌﮯ ﮨﯿﮟ، چنانچہ اللہ کی سنت اپنے مخلوق ميں يہی ہے کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے مردوں کو عورتوں پر قوامت عطا کی ہے ، جيساکہ بہت سی آيتيں اس پر دلالت کرتی ہيں۔ اللہ سبحانہ تعالی نے عورتوں کو اپنے گھروں کو لازم پکڑنے کا حکم ديا ہے اور بناؤ سنگار کرکے باہر نکلنے سے منع کيا ہے ، اس کا مطلب يہ کہ اختلاط سے ممانعت ہے ، اختلاط کہتے ہيں کہ مردوں کا اجنبی عورتوں کے ساتھ عمل ، بيع و شراء ، سيرو تفريح يا سفر وغيرہ کے بہانے جمع ہونا؛ کيوں کہ عورتوں کا اس ميدان ميں آنا محرمات ميں وقوع کا سبب ہے ۔ اس کے اندر اللہ کے امر کی مخالفت اوراس کے حقوق کی پامالی ہے جس کی ادائيگي ايک مسلمان عورت سے شرعا مطلوب ہے ۔
قرآن و حدیث اختلاط اور ان تمام وسائل کی حرمت پر دلالت کرتی ہيں جن سے اختلاط پيدا ہو: ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻗﺮﺍﺭ ﺳﮯ ﺭﮨﻮ (٥) ﺍﻭﺭ ﻗﺪﯾﻢ ﺟﺎﮨﻠﯿﺖ ﻛﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻛﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻨﺎ ﰷ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﻧﮧ ﻛﺮﻭ، ﺍﻭﺭ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﺩﺍ ﻛﺮﺗﯽ ﺭﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺯﻛﻮٰﺉ ﺩﯾﺘﯽ ﺭﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺍﹴ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﻛﯽ ﺍﻃﺎﻋﺖ ﮔﺰﺍﺭﯼ ﻛﺮﻭ، ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﯾﮩﯽ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺍﮮ ﻧﺒﯽ ﻛﯽ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﯿﻮ ! ﺗﻢ ﺳﮯ ﻭﮦ ( ﮨﺮ ﻗﺴﻢ ﻛﯽ ) ﮔﻨﺪﮔﯽ ﻛﻮ ﺩﻭﺭ ﻛﺮﺩﮮ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺧﻮﺏ ﭘﺎﻙ ﻛﺮﺩﮮ(33) ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺍللہ ﻛﯽ ﺟﻮ ﺁﯾﺘﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺭﺳﻮﻝ ﻛﯽ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﭘﮍﮬﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ کا ﺫﻛﺮ ﻛﺮﺗﯽ ﺭﮨﻮ، ﯾﻘﯿﻨﺎ ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﻟﻄﻒ ﻛﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺧﺒﺮﺩﺍﺭ ﮨﮯ۔ اللہ نے امھات المؤمنين کو – اس ميں تمام مؤمنہ اور مسلمہ عورتيں داخل ہيں – گھروں کو لازم پکڑنے کا حکم ديا ہے کيوں کہ اس کے اندر انکی حفاظت اور وسائل فساد سے دور رکھنا ہے؛ کيوں کہ عورت کا بلا ضرورت نکلنا تبرج اور بہت سے شر و فساد کا باعث ہے، پھر انہيں اعمال صالحہ کا حکم ديا ہے جو انہيں فحش کاموں اور منکرات سے دور رکھيں ، اور يہ نماز قائم کرکے اور زکاۃ ديکر اور اللہ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم. کی اطاعت کرکے ممکن ہے ۔ پھر ان کی رہنمائی ايسے امور کی طرف کی گئی ہے جو ان کے دنيوی اور اخروی فائدے کا ضامن ہو ۔ وہ يہ کہ قرآن کريم اور سنت نبويہ سے اپنے تعلقات ہميشہ استوار رکھيں ، جس کے اندر انکے زنگ آلود دلوں کی صفائي کا سامان ہے ، جو انہيں ہر قسم کی گندگيوں سے پاک و صاف کرتے ہيں ، اور حق و راہ صواب کی طرف رہنمائي کرتے ہيں ۔ جیساکہ الله تعالى نے فرمايا: ﺍﮮ ﻧﺒﯽ! ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻮﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺻﺎﺣﺒﺰﺍﺩﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻛﯽ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺳﮯ ﻛﮩﮧ ﺩﻭ ﻛﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﺎﺩﺭﯾﮟ لٹکا ﻟﯿﺎ ﻛﺮﯾﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺟﻠﺪ ﺍﻥ ﻛﯽ ﺷﻨﺎﺧﺖ ﮨﻮﺟﺎﯾﺎ ﻛﺮﮮ ﮔﯽ ﭘﮭﺮ ﻧﮧ ﺳﺘﺎﺋﯽ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ اللہ ﺗﻌﺎلی ﺑﺨﺸﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﻣﮩﺮﺑﺎﻥ ﮨﮯ الله نے اپنے نبي عليه الصلاة والسلام – جو اپنے رب کی جانب سے مبلغ ہيں – کو حکم ديا کہ وہ اپنی بيويوں ، بيٹيوں اور عام مسلمان عورتوں سے کہہ ديں کہ وہ اپنی چادروں کو اپنی گريبانوں پر ڈالے رکھيں ، اور يہ چادر سے ان کے بقيہ جسم کے ڈھانپنے کو شامل ہے جب وہ کسی ضرورت کے تحت باہر نکلنے کا ارادہ کريں تاکہ بيمار دل لوگوں کی طرف سے انہيں اذيت لاحق نہ ہو ۔ جب معاملہ اس قدر اھم ہے تو عورتوں کا مردوں کے ميدان ميں اترنا اور ان کے ساتھ اختلاط کرنے کا معاملہ کس قدر قبيح ہوگا؟ اور اسی طرح ملازمت کی وجہ سے ان سے اپنی حاجت کا اظہار کرنا اور اپنی نسوانيت سے اتر کر انکے درجہ اور مرتبہ ميں اترنا اور اپنی شرم و حياء کو گںوانا تاکہ اس سے دو مختلف جنسوں ميں معنی وصورت كے اعتبار سے ہم آہنگی ہوجائے، کس قدر گناہ کا کام ہے؟
الله جل وعلا نے فرمايا : ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﺳﮯ ﻛﮩﻮ ﻛﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﮕﺎﮨﯿﮟ ﻧﯿﭽﯽ ﺭﻛﮭﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺮﻣﮕﺎﮨﻮﮞ ﻛﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﺭﻛﮭﯿﮟ، ﯾﮩﯽ ﺍﻥ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﭘﺎﻛﯿﺰﮔﯽ ﮨﮯ، ﻟﻮﮒ ﺟﻮ ﻛﭽﮫ ﻛﺮﯾﮟ اللہ ﺗﻌﺎلی ﺳﺐ ﺳﮯ ﺧﺒﺮﺩﺍﺭ ﮨﮯ ۔(30) ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﻛﮩﻮ ﻛﮧ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﮕﺎﮨﯿﮟ ﻧﯿﭽﯽ ﺭﻛﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﺼﻤﺖ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻕ ﻧﮧ ﺁﻧﮯ ﺩﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﯾﻨﺖ ﻛﻮ ﻇﺎﮨﺮ ﻧﮧ ﻛﺮﯾﮟ ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺟﻮ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﺮﯾﺒﺎﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻭﮌﮬﻨﯿﺎﮞ ﮈﺍﻟﮯ رﮨﯿﮟ [دو آیات]۔
الله اپنے نبي عليه الصلاة والسلام کو حکم دے رہا ہے کہ وہ مومن مردوں اور مؤمنہ عورتوں تک يہ بات پہنچا ديں کہ وہ سب اپنی نگاہيں نيچی رکھيں، اور زنا سے اپنے شرمگاہوں کی حفاظت کريں، پھر اللہ نے واضح کيا کہ يہ ان کے لئے اپنی پاکدامنی کا بہت بڑا سبب ہے۔ يہ بات معلوم ہے کہ زنا سے شرمگاہوں کی حفاظت وسائل زنا سے اجتناب کے ذريعہ ممکن ہے ۔ بلا شبہہ ميدان عمل يا اس کے علاوہ ديگر جگہوں پر مرد و زن کا باہم اختلاط وقوعِ زنا کا عظيم ترين وسیلہ ہے، اور مؤمن سے ان دو مطلوبہ امر کا تحقق محال ہے جب کہ وہ اجنبی عورت کے ساتھ بحيثيت دوست يا عمل ميں مشارک پہلو بہ پہلو کام کريں ۔ لہذا عورت کا مرد کے ساتھ اس ميدان ميں اترنے، اور مرد کا اس ميدان ميں عورت کے ساتھ شامل ہونے سے غض بصر ، شرمگاہوں کی حفاظت اور اپنے نفس کی پاکدامنی اور طہارت کا حصول مستحيل ہے۔
اسی طرح اللہ نے مؤمنات کو غض بصر ، شرمگاہوں کی حفاظت اور زينت کے عدم اظہار کا حکم ديا ہے سوائے ان حصوں کے جو عام طور پر ظاہر ہوجاتے ہيں، انہيں اپنی گريبانوں پر دوپٹے ڈالنے کا حکم ديا ہے جو اس کے سر اور چہرے کے پردے کو شامل ہے ، کيوں کہ گريبان سر اور چہرے کی جگہ ہے ۔ اور عورت کے مرد کے ميدان عمل ميں اترنے اور کام ميں ان کے ساتھ اختلاط کے وقت غض بصر ، شرمگاہوں کی حفاظت اور زينت کا عدم اظہار پر عمل کيسے ممکن ہوسکتا ہے؟ اختلاط ان ممنوعات ميں پڑنے کا ضامن ہے، ايک مسلمان عورت اپنی نگاہ کو کيسے پست رکھ سکتی ہے جب وہ اجنبی مرد کے ساتھ شانہ بشانہ چل رہی ہو ، اس بہانے سے کہ وہ اس کے ساتھ عمل ميں شريک ہے يا جملہ امور ميں مردوں کے برابر ہے ۔
اسلام نے ان تمام وسائل وذرائع کو حرام قرار ديا ہے جو محرمات ميں وقوع کا باعث ہوں ۔ اسی طرح اسلام نے عورتوں پر حرام کيا ہے کہ وہ مردوں سے لچکدار لہجے ميں بات کريں تاکہ يہ ان ميں رغبت کی طرف نہ پہنچائے: ﺍﮮ ﻧﺒﯽ ﻛﯽ ﺑﯿﻮﯾﻮ ! ﺗﻢ ﻋﺎﻡ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﻛﯽ ﻃﺮﺡ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ، ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﭘﺮﮨﯿﺰﮔﺎﺭﯼ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﻛﺮﻭ ﺗﻮ ﻧﺮﻡ ﻟﮩﺠﮯ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﻧﮧ ﻛﺮﻭ ﻛﮧ ﺟﺲ ﻛﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﮒ ﮨﻮ ﻭﮦ ﻛﻮﺋﯽ ﺑﺮﺍ ﺧﯿﺎﻝ ﻛﺮﮮ يعنی شہوت کی بيماری ، اختلاط کے ساتھ اس سے تحفظ کيوںکر ممکن ہے ؟
ظاہر ہے کہ جب وہ مردوں کے ميدان ميں اترے گی تو يقينی طور پر وہ ان سے بات کريگی اور وہ لوگ اس سے بات کريں گے، اور ضروری ہے کہ وہ ان سے نرم لہجے ميں بات کرے گي اور وہ اس سے نرم لہجے ميں باتيں کريں گے ، اور پيچھے سے شيطان اسے مزين اور خوشنما بنا کر اسے زنا کی طرف دعوت ديگا ، يہاں تک کہ وہ اس کے شکار ہوجائيں گے، اللہ حکمت والا اور جاننے والا ہے ، اسی نے عورت کو پردے کا حکم ديا ہے ۔ اور يہ اسی وجہ سے کہ لوگوں ميں اچھے برے ، پاکدامن اور زانی سبھی قسم کے لوگ ہوتے ہيں ، پردہ اللہ کے حکم سے فتنہ سے بچاتا ہے اور اس کے اسباب کے درميان رکاوٹ بن جاتا ہے، اور اس کے ذريعے مردوں اور عورتوں کے قلوب کی طہارت اور تہمت کی جگہوں سے دوری حاصل ہوتی ہے ۔ اللہ تعالی نے فرمايا : ﺟﺐ ﺗﻢ ﻧﺒﯽ ﻛﯽ ﺑﯿﻮﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﻛﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﻃﻠﺐ ﻛﺮﻭ ﺗﻮ ﭘﺮﺩﮮ ﻛﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺳﮯ ﻃﻠﺐ ﻛﺮﻭ۔ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻛﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﰷﻣﻞ ﭘﺎﻛﯿﺰﮔﯽ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ الآيۃ
عورت کے اپنے جسم کے پردے کے بعد اس کا بہترين پردہ گھر ہے ، اسلام نے اس پر اجنبی مردوں سے ميل ملاپ کو حرام قرار ديا ہے؛ تاکہ وہ براہ راست يا بالواسطہ اپنے آپ کو فتنہ کے لئے نہ پيش کرے، اور اسے گھر کو لازم پکڑنے اور صرف مباح ضرورت کے تحت شرعی ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے گھر سے نکلنے کا حکم ديا ہے۔ اللہ نے عورت کے گھر ميں ٹھرے رہنے کو “قرار” سے تعبير کيا ہے، يہ معنی انتہائی بلند معنوں ميں سے ہے ، اس کے اندر اس کے نفس کا استقرار ، دل کی راحت اور انشراح صدر کی نعمت ہے ، اور عورت کا اپنی اس جائے قرار سے نکلنا اضطراب نفس ، دلی بے چينی ، ضيق صدر اور اپنے کو غلط انجام کے لئے پيش کرنے کا باعث ہے۔ اسلام نے اجنبی عورت کے ساتھ مطلقا خلوت اختيار کرنے سے منع کيا ہے ، خلوت يا سفر کی اجازت صرف محرم کے ساتھ دی ہے ، تاکہ فساد کے ذريعے کو ختم اور گناہ کے دروازے کو بند اور برائی کے اسباب کی بيخ کنی کی جاسکے ، اور دونوں جنسوں کو شيطان کے مکر و فريب سے بچايا جاسکے ۔ اسی لئےرسول الله صلى الله عليه وسلم سے صحيح ثابت ہے کہ آپ نے فرمايا : میں نے اپنے بعد مردوں پر عورتوں سے زیادہ ضرر رساں اور کوئی فتنہ نہیں چھوڑا۔ اورآپ صلى الله عليه وسلم سے يہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: دنیا سے ڈرتے رہو اور عورتوں سے ڈرتے رہو کیونکہ بنی اسرائیل کا سب سے پہلا فتنہ عورتوں ميں تھا
اختلاط کے کچھ داعیان بعض شرعی نصوص کے ظاہر سے استدلال کرتے ہيں ، جنکی حقيقت کو وہی شخص پاسکتا ہے جس کے دل کو اللہ نے منور کرديا ہو، اور اسے دين کی سمجھ عطا فرمائی ہو ، اور شرعی دلائل میں سے بعض کو بعض کے ساتھ ملا کر ديکھا ہو، اور يہ دلائل اس کے تصور ميں ايک ہی اکائی ہو جسے ايک دوسرے سے الگ نہيں کيا جاسکتا۔ ان دلائل ميں سے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ کچھ عورتوں کا بعض غزوات ميں نکلنا ہے ۔ اس کا جواب يہ ہے ان کا خروج اپنے محارم کے ساتھ بہت سارے مصالح کی بناء پر ہوا ہے جس پر وہ فساد مرتب نہيں ہوتا جس کے خطرے کا انديشہ تھا۔ يہ ان کے ايمان و تقوی اور ان پر ان کے محارم کی نگرانی اور ان کا آيت حجاب کے نزول کے بعد پردے کا التزام کرنے کی وجہ سے ہے ۔ جبکہ موجودہ زمانے کی اکثر عورتوں کی حالت اس کے برعکس ہے ۔ اور يہ بات معلوم ہے کہ عورت کا اپنے گھر سے کام کے لئے نکلنا اس حالت سے بالکل مختلف ہے جس ميں وہ رسول صلى الله عليه وسلم کے ساتھ غزوہ ميں نکليں ۔ لہذا اس کو اس پر قياس کرنا قياس مع الفارق ہے ۔ اور يہ بھی ديکھيں سلف صالح نے اسے کيسے سمجھا ہے ؟ بيشک وہ نصوص کے معانی کے سب سے زيادہ جانکار تھے ، اور کتاب اللہ اور سنت رسول صلى الله عليه وسلم کی عملی تطبيق کے زيادہ قريب تھے ، پورے زمانے ميں ان سے کيا منقول ہے ؟ کيا انہوں نے دائرہ اسی قدر وسيع کرديا ہے جيسا کہ اختلاط کے دعاۃ آواز لگا رہے ہيں ، اور کيا انہوں نے وہ سب نقل کيا ہے جو وہ اس باب ميں وہ کہتے ہيں کہ عورت مردوں کے ساتھ زندگی کے تمام ميدانوں میں کام کرے، اور باہم ايک دوسرے سے مزاحم ہو، اور ايک دوسرے سے ميل جول رکھے، يا انہوں نے يہ سمجھا کہ يہ متعين مسائل ہيں ان سے آگے نہيں بڑھا جا سکتا ۔
اور جب ہم پورے اسلامی تاريخ ميں اسلامی فتوحات اور غزوات کا جائزہ ليتے ہيں تو يہ صورت حال عام نہيں پاتے ۔ موجودہ زمانے ميں اس کو فوجی کی حيثيت سے شامل کرنے کی جو دعوت دی جارہی ہے کہ وہ مردوں کی طرح ہتھيار اٹھائے اور قتال کرے، تو يہ اس سے زيادہ کچھ نہيں کہ تفريح طبع کے نام پر فوج کے اخلاق و کردارکو تباہ و برباد کرنا ہے؛ اس لئے کہ آدمی کی طبيعت جب عورت کی طبيعت سے ملتی ہے تو ان دونوں کی طرف سے خلوت ميں وہی سب کچھ ہوتا ہے جو ہر مرد و عورت سے ہوتا ہے يعنی ايک دوسرے کی طرف ميلان ، انس و محبت اور بات چيت سے احساس لذت وغيرہ ، اور بعض چيزيں بعض کا سبب بنتی ہيں ۔ لہذا فتنہ کو بند کرنا بڑی حکمت اور دورانديشی کی بات ہے ، اور مستقبل ميں ندامت سے دور رہنے کا ضامن ہے ۔
اسلام نےجلب مصالح اورازالہ مفاسد اوران تمام ابواب کو بند کرنے پر بہت زيادہ توجہ دی ہے جو اس کا سبب بنيں ۔ ميدان عمل ميں عورتوں کا مردوں کے ساتھ اختلاط امت کے زوال اور معاشرہ کی تباہی ميں بنيادی سبب رہا ہے جيسا کہ پہلے گذرا ۔ اس لئے کہ تاريخی اعتبار سے يہ معروف ہے کہ قديم رومانی و يونانی تہذيب و تمدن وغيرہ کے زوال و پستی کے بڑے اسباب ميں سے عورتوں کا اپنے مخصوص ميدان عمل سے نکل کر مردوں کے ميدان ميں آنا اور ان کے ساتھ مزاحم ہونا ہے ، جس کے نتيجے ميں مردوں کے اخلاق ميں فساد رونما ہوا، اور انہوں نے اپنی قوم کی مادی و معنوی ترقی کے تمام کام ترک کرديئے۔ عورتوں کا گھر سے باہر مشغول ہونا مردوں کے تعطل ، امت کے خسران ، خاندان کے انتشارو انہدام اوراولاد کے اخلاق کی بربادی کا باعث ہے ، نيز اللہ نے اپنی کتاب ميں عورت پر مرد کی قوامت کی بابت جو خبر دی ہے اس کی مخالفت ميں واقع ہونے کا ذريعہ ہے ۔ اسلام اس بات کا حريص رہا ہے کہ عورت کو ان تمام امورسے دور رکھے جو اس کی طبيعت کے مخالف ہو ۔ اس لئے اس نے عام ولايت کی ذمہ داری لينے سے اسے منع کرديا ہے ، جيسے کسی ملک کی صدارت ، قضاء اور وہ تمام مناصب جس ميں عام ذمہ داری ہو ، نبی کريم صلى الله عليه وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے : وہ قوم ہرگز فلاح یاب نہیں ہوگى جس نے اپنی حکومت عورتوں کے سپرد کرديا ہو۔ اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے ا پنے صحيح ميں روايت کيا ہے ، عورت کے لئے يہ دروازہ کھولنا کہ وہ مردوں کے ميدان ميں اترے ، يہ اس چيز کے مخالف ہے جس کا اسلام نے اسکی سعادت اور استقرار کے تعلق سے ارادہ کيا ہے ۔ اسلام عورت کو اس کے مخصوص دائرہ کار سے نکال کر فوج ميں بھرتی کرنے کے مخالف ہے ۔ مختلف تجارب -خاص کر مخلوط سوسائٹی- نے يہ ثابت کرديا ہے کہ مرد و زن فطری اور طبيعی طور سے يکساں نہيں ہيں، چہ جائيکہ ان امور ميں جو کتاب و سنت ميں واضح طور پر دونوں کی طبيعتوں اور واجبات کے اختلاف کے تعلق سے وارد ہيں ۔ جو لوگ مساوات مرد و زن کا نعرہ بلند کر رہے ہيں وہ ان دونوں کے درميان بنيادی فرق سے جاہل ہيں يا جاہل بن رہے ہيں ۔
ہم نے اختلاط کی تحريم اور مردوں کے کام ميں عورتوں کے اشتراک کی حرمت پر جو شرعی دليليں اور موجودہ صورت حال کا تذکرہ کيا ہے، وہ طالب حق کے لئے کافی اور اطمینان بخش ہیں، مگر بعض لوگوں کی حالت کے پيش نظر کہ وہ کلام اللہ اور کلام رسول ۔صلى الله عليه وسلم اور کلام علماء مسلمين سے زيادہ مشرق و مغرب کے علماء و دانشوروں کے کلام کو اھميت ديتے ہيں ، ہم نے مناسب سمجھا کہ مشرق و مغرب کے ان مفکرين کے اعترافات کو ان کے لئے نقل کرديں جو اختلاط کے مفاسد اور نقصانات سے متعلق ہيں ، شايد کہ وہ مطمئن ہوسکيں، اور يہ جان سکيں کہ ان کے دين عظيم نے اختلاط کی ممانعت کے تعلق سے جو کچھ پيش کيا ہے اس ميں عورتوں کی عين کرامت اور انہيں نقصان پہںچانے والے وسائل، نيز عزت و آبرو کی پامالی سے عورت کی صيانت و حفاظت کی ضمانت ہے۔
انگريز مقالہ نگار لیڈی کوک نے لکھا ہے کہ اختلاط کو مرد حضرات پسند کرتے ہيں ، اور اسی بناء پر عورت ايسی چيز کی طرف راغب ہوئی جو اس کی فطرت کے مخالف ہے ، اور کثرت اختلاط کی وجہ سے اولادِ زنا کی کثرت ہوگی، يہيں پر عورت عظيم مصيبت ميں گرفتار ہوتی ہے، مزيد کہا کہ اپنی عورتوں کو مردوں سے دور رکھو اور انہيں اس مخفی مکر و فريب کے انجام سے باخبر کرو، جو ان کے گھات ميں بیٹھا ہوا ہے۔
جرمن دانشور شوپنهاور نے کہا: اختلاط ہی سے ہمارے احوال کی ترتيب و انتظام ميں عظيم خلل واقع ہے جس نے عورت کو مردوں کے ساتھ ان کے عالی مرتبت اور بلند شان والے امور میں شرکت کی دعوت دی، اور اس پر اپنے گھٹیا خواہشوں کے ساتھ سربلند ہونے کو آسان بنا ديا ہے جس نے جديد تہذيب و تمدن کو اپنے مضبوط حکمرانی اور حقیر رائے سے برباد کرديا ہے۔
لارڈ بيرون نے کہا: اے قاری! اگر تم قديم يونان ميں عورت کی حالت پر غور کرو تو تم اسے اسکی طبيعت کے مخالف مصنوعی حالت پر پاؤگے۔ اور تم ميری اس بات سے اتفاق کروگے کہ عورت کو امور منزليہ ميں مشغول کرنا واجب ہے، اور اس ميں اسکی بہتر غذاء اور بہتر لباس کا خيال رکھا جائے، اور غيروں کے ساتھ اختلاط سے اسے بچايا جائے۔
اور سامویل سمايلس نامی انگريز نے کہا کہ جو نظام عورت کو کارخانوں ميں مشغول کرنے کی بات کرتے ہيں ، اس سے ملک کے لئے کتنا ہی سرمايہ کيوں نہ حاصل ہو اس کا نتيجہ گھريلو زندگی کی عمارت کو منہدم کرنے والا رہا ہے ، کيوں کہ اس نے گھر کے ڈھانچے پر حملہ کيا ہے ، خاندان کی بنيادوں کو متزلزل کيا ہے، اجتماعی روابط کو پارہ پارہ کرديا ہے، اور اس نے شوہر سے بيوی اور اولاد سے اس کے اقارب کو چھين ليا ہے، لہذا اس خاص نوع سے عورت کی اخلاقی گراوٹ کے علاوہ کچھ فائدہ حاصل نہيں ہوا، کيوں کہ عورت کا حقيقی وظيفہ امور منزليہ کو انجام دينا ہے ۔ جيسے گھر کی تنظيم و ترتيب، اولاد کی تربيت اور گھر کی ضرورتوں کی تکميل کے ساتھ وسائل معيشت ميں ميانہ روی اختيار کرنا ، مگر فيکٹريوں نے اسے ان تمام واجبات کی انجام دہی سے روک ديا ہے اس طور پر کہ گھر خالی ہوچکے ہيں اور اولاد بغير تربیت کے جوان ہورہی ہے، اور انہيں بے توجہی کے خانے ميں ڈالا جارہا ہے ، زوجيت کی محبت بجھ چکی ہے ، اور عورت آدمی کی خوش اسلوب بيوی اور محبت کی ساتھی بننے کے بجاۓ اس کے کام اور مشقتوں کی ساتھی بن چکی ہے ۔ وہ ان تاثيرات کے خطرہ سے دوچار رہتی ہے جو اکثراس کی فکری اور اخلاقی جوہر کو ختم کرديتی ہے جس پر فضل و شرف کے حفاظت کی بنياد ہے۔
ڈاکٹر ايدايلين نے کہا : امريکہ ميں عائلی مشکلات کا سبب اور سوسائٹی ميں جرائم کی کثرت کی وجہ يہ ہے کہ عورت نے کنبہ کی آمدنی بڑھانے کے لئے اپنے گھر کو چھوڑ ديا ہے، چنانچہ آمدنی تو بڑھ گئی ہے مگر اخلاق زوال پذير ہوگئے۔ پھر اس نے کہا کہ تجربات نے يہ ثابت کرديا ہے کہ عورت کی گھر واپسی ہی جديد نسل کو زوال اور پستی سے بچانے کا واحد ذريعہ ہے ۔
امريکی کانگريس کے ايک ممبر نے کہا کہ عورت حقيقت ميں ملک کی خدمت کرسکتی ہے جبکہ وہ اس گھر ميں باقی رہے جو خاندان کی بنياد ہے۔
ايک دوسرے ممبر نے کہا کہ جب اللہ نے عورت کو توليدی خصوصيت سے ممتاز کيا تواس پر يہ بوجھ نہيں ڈالا کہ اسے چھوڑ کرباہر کام کرنے کے لئے جاۓ ، بلکہ اس کا کام يہی مقرر کيا کہ وہ ان بچوں کی ديکھ بھال کے لئے گھر ميں باقی رہے ۔
اور شوپنهاور نے کہا کہ اس عورت کو بغير نگران کے مطلق اور کامل آزادی دے دو، پھر تم مجھ سے ايک سال بعد ملو، تاکہ اس کا نتيجہ ديکھو ، تم مت بھولو کہ ميرے ساتھ شرافت ، عفت و ادب کے تم وارث بنوگے۔ اور جب ميں مرجاؤں تو تم حقيقت کی روشنی ميں کہو: کہ ميں نے غلط بات کہی يا درست ۔ ان تمام اقوال کو ڈاکٹر مصطفی حسنى سباعى رحمه الله نے اپنی كتاب “المرأة بين الفقه والقانون” میں ذکر کيا ہے۔
اگر ہم ان تمام باتوں کو شمار کريں جو مغرب کے انصاف پسند حضرات نے اختلاط کے مفاسد کے تعلق سے کہی ہيں جو عورت کے مردوں کے ميدان عمل ميں اترنے کا نتيجہ ہے، تو يہ مقالہ طويل ہوجائے گا، ليکن مفيد اشارہ طویل عبارت سے موازنہ کے لئے کافی ہوتا ہے ۔
خلاصہ کلام يہ کہ عورت کا اپنے گھر ميں استقرار اور اپنے دينی واجبات کی ادائيگی کے بعد تدبير منزل کے واجبات کو ادا کرنا يہی اس کی طبيعت ،فطرت اور جسمانی بناوٹ کے عين مناسب ہے ، اسی ميں اسکی ، معاشرہ اور اولاد کی بہتری ہے ، اگر اس کے پاس زائد وقت ہے تو ممکن ہے کہ اسے عورتوں کے ميدان ميں مشغول کيا جاۓ ، جيسے عورتوں کو تعليم دينا ، انکا علاج و معالجہ اور تيمارداری وغيرہ جيسے نسوانی کام جو عورتوں کے درميان ہو، جيسا کہ اوپر اشارہ کيا جا چکا ہے ، اس ميں انکی مشغوليت ہونی چاہئے اور اس ميں مردوں کے ساتھ معاشرہ کے اعمال ميں تعاون اور اس کی ترقی کے اسباب ہيں ، ہر ايک اپنے مخصوص دائرہ کار ميں رہ کر کام کرے۔ يہاں ہميں امھات المؤمنين رضي الله عنهن اور انکے نقش قدم پر چلنے والوں کے کردار کو نہيں بھولنا چاہئے، اور جو انہوں نے امت کی تعليم ، توجيہ و ارشاد اور اللہ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم کی طرف سے تبليغ کا فريضہ انجام ديا ۔ اللہ انہيں اس کا بہتر بدلہ عطا فرماۓ ، اور مسلمانوں ميں ان جيسی مثالی خواتين کی کثرت فرماۓ جو حجاب و پردہ کا التزام کريں ، اور مردوں کے ساتھ اختلاط سے بچيں ۔
اللہ سے دعاء ہے کہ وہ ہم سبھی کو اپنے واجبات کی بصيرت عطا فرمائے، اور ايسے طريقے کے مطابق اسے انجام دينے کی توفيق دے جس سے اللہ خوش ہو، اور سبھی لوگوں کو فتنہ کے وسائل ، فساد کے اسباب اور شيطانی چالوں سے محفظ رکھے ۔ وہ بے انتہا سخی وکريم ہے۔ وصلى الله على عبده ورسوله نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
(ابن باز کے فتوے – ( جلد کا نمبر 1، صفحہ 418