اپنی زبان منتخب کریں

منگل، 27 دسمبر، 2016

دعائے قنوت

 

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
دریافت طلب امر یہ ہے کہ جب باجماعت وتر پڑھیں جائیں اور رکوع سے پہلے دعائے قنوت پڑھی جائے تو اس کا کیا طریقہ ہے: ۱۔ ہاتھ اُٹھائے جائیں؟ ۲۔ دعائے قنوت اونچی آواز سے پڑھی جائے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
۱۔ہاتھ اُٹھائے جائیں؟
شیخ صالح المنجد اس بارے ایک سوال کا جواب دیے ہوئے فرماتے ہیں:
اور اس ميں وہ ہاتھ اٹھائے، عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے يہ ثابت ہے، جيسا كہ بيھقى رحمہ اللہ تعالى نے روايت كى اور اسے صحيح كہا ہے.
ديكھيں: سنن بيھقى ( 2 / 210 ).
اور دعاء كے ليے سينہ كے برابر ہاتھ اٹھائے اس سے زيادہ نہيں، كيونكہ يہ دعاء ابتھال يعنى مباہلہ والى نہيں كہ انسان اس ميں ہاتھ اٹھانے ميں مبالغہ سے كام لے، بلكہ يہ تو رغبت كى دعاء ہے، اور وہ اپنے ہاتھوں كو اس طرح پھيلائے كہ اس كى ہتھيلياں آسمان كى جانب ہوں...
اور اہل علم كے كلام سے ظاہر ہوتا ہے كہ وہ اپنے ہاتھوں كو ملا كر ركھے جس طرح كہ كوئى شخص دوسرے سے كچھ دينے كا كہہ رہا ہو.
۲۔ دعائے قنوت اونچی آواز سے پڑھی جائے؟
قنوت نازلہ کی طرح قنوت الوتر کو بھی جہری وتر کی نماز جہری ہونے کی وجہ سے جہرا پڑھا جائے گا۔
۳۔ اگر ہاں تو پھر کیا دعائے قنوت کے لیے جو واحد کے صیغے استعمال کیے گئے ہیں، ان کو جمع میں بدلا جاسکتا ہے؟
بعض اہل علم واحد کے صیغہ کی جمع کے صیغہ کے ساتھ تبدیلی کے قائل ہیں جبکہ بعض دوسرے قائل نہیں ہیں۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ اگر تو مقتدی نے امام کی دعا پر آمین کہنا ہو تو پھر امام جمع کو صیغہ استعمال کرے۔ اور اگر سری دعا ہو تو پھر امام واحد کا صیغہ استعمال کرے جیسا کہ احادیث میں استعمال ہوا ہے۔تفصیل کے لیے لنک دیکھیں:
۴۔ قنوت وتر کے لیے جو دعا ہمارے ہاں پڑھی جاتی ہے یعنی اللہم اہدنی فیمن ہدیت۔۔۔اس کے آخر میں ’وصلی اللہ علی النبی‘ پڑھا جاتا ہے۔ کیا وہ صحیح ہے؟
شیخ صالح المنجد اس بارے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
اور دعاء قنوت يہ ہے:
حسن بن على رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قنوت وتر ميں كہنے كے ليے كچھ كلمات سكھائے:
«اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ ، فإِنَّكَ تَقْضِي وَلا يُقْضَى عَلَيْكَ ، وَإِنَّهُ لا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ ، وَلا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ ، ولا منجا منك إلا إليك»
اے مجھے ہدايت والوں ميں ہدايت نصيب فرما، اور مجھے عافيت دے، اور ميرا كارساز بن، اور تو نے جو مجھے ديا ہے اس ميں بركت عطا فرما، اور جو تو نے فيصلہ كيا ہے اس كے شر سے مجھے محفوظ ركھ، كيونكہ تو ہى فيصلہ كرنے والا ہے تيرے خلاف كوئى فيصلہ نہيں كر سكتا، اور جس كا تو ولى بن جائے اسے كوئى ذليل نہيں كرسكتا، اور جس كے ساتھ تو دشمنى كرے اسے كوئى عزت نہيں دے سكتا، اے ہمارے رب تو بابركت اور بلند ہے، اور تيرے علاوہ كہيں جائے پناہ نہيں"
اور آخرى جملہ " ولا منجا منك الا اليك " ابن مندہ نے " التوحيد" ميں روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے حسن قرار ديا ہے، ديكھيں: ارواء الغليل حديث نمبر ( 426 ) اور ( 4299 ).
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1425 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 464 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 1746 ).
پھر اس دعاء كے بعد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھے.
ديكھيں: الشرح الممتع لابن عثيمين ( 4 / 14 - 52 ).
۵۔ اگر نہیں صحیح تو صحیح دعائے قنوت کی طرف رہنمائی فرمادیں۔
«اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ ، فإِنَّكَ تَقْضِي وَلا يُقْضَى عَلَيْكَ ، وَإِنَّهُ لا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ ، وَلا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ ، ولا منجا منك إلا إليك»
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

کیا ضعیف روایات، فضائل اعمال میں حجت ہیں اور اس سلسلے میں محدثین کی رائے کیا ہے؟ اس کا مدلل جواب تفصیل سے عنایت فرمائیں۔؟

کیا ضعیف روایات، فضائل اعمال میں حجت ہیں اور اس سلسلے میں محدثین کی رائے کیا ہے؟ اس کا مدلل جواب تفصیل سے عنایت فرمائیں۔؟www.mominsalafi.blogspot.com
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے کہ ضعیف روایات کو فضائل اعمال میں قبول کیا جائے گا یا نہیں ۔ لیکن اس بارہ میں حق اور درست موقف یہی ہے کہ فضائل اعمال میں بھی ضعیف روایات کو قبول نہیں کیا جائے گا ۔ یہی مسلک امام بخاری , امام مسلم , یحیى بن معین , اور ابو بکر ابن العربی رحمہم اللہ کا ہے۔ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ عارضۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ امام مسلم نے جو دلائل صحیح مسلم کے مقدمہ میں دیے ہیں ان سے یہی پتہ چلتا ہے کہ ضعیف روایات ترغیب و ترہیب میں بھی پیش نہیں کی جاسکتیں ۔ اسی طرح امام ابن حزم رحمہ اللہ الفصل فی الأھواء والملل والنحل میں فرماتے ہیں : بعض اہل اسلام غافل یا مجہول یا کاذب راوی کی روایت کو قبول کر لیتے ہیں حالانکہ ہمارے نزدیک ضعیف روایت کو قبول کرنا حلال نہیں ہے اور نہ اسکی تایید حلال ہے ۔
اس ضمن میں کچھ دلائل پیش خدمت ہیں :
۱۔ اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ احکام شرعیہ خمسہ یعنی وجوب , ندب , اباحت , کراہت , تحریم میں ضعیف روایات قابل اعتبار نہیں ہیں جب اس بات پر اتفاق ہے تو نتیجتًا یہ بات بھی متفق علیہ عند اہل العلم بن جاتی ہے کہ فضائل اعمال میں بھی ضعیف روایات قبول نہیں ہیں !!!!
کیونکہ
ندب و استحباب میں فضیلت ہی تو ہوتی ہے !!! , تو جب فضیلت ہی ثابت نہ ہوئی تو فضائل اعمال بھی ثابت نہ ہوئے ....!!! خوب سمجھ لیں ۔
۲۔ اعمال و احکام میں ضعیف روایات کے قبول نہ ہونے پر تمام تر اہل علم اتفاق رکھتے ہیں اور کتاب وسنت سے اس کے دلائل دیتے ہیں ۔ ان دلائل کے عموم میں فضائل اعمال بھی داخل اور شامل ہیں ۔ جب فضائل اعمال بھی ان دلائل کے عموم میں شامل ہیں تو انہیں مستثنى قرار دینے کے لیے مستقل دلیل کی ضرورت ہے ۔ جبکہ اس استثناء کے لیے کتاب وسنت سے آج تک کوئی دلیل پیش نہیں کی جاسکی ۔ جبکہ صحیح مسلم کے مقدمہ میں امام مسلم نے ان روایات کے مردود ہونے کے بہت سے دلائل دیے ہیں ۔
۳۔ ضعیف روایت کے پایہ ثبوت تک پہنچنے میں شبہ ہوتا ہے , یعنی یہ یقین نہیں ہوتا کہ یہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا قول یا عمل ہے , اور اللہ تعالى نے فرمایا ہے :
﴿وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولـئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاً﴾ [الإسراء : 36]
جس چیز کا تمہیں علم نہیں اسکے پیچھے نہ پڑو , یقنا سماعت وبصارت و دل , سب کے بارہ میں سوال کیا جائے گا۔
اور رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
«إِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ وَإِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ لَا يَعْلَمُهُنَّ كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ فَمَنْ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ كَالرَّاعِي يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يَرْتَعَ فِيهِ أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى أَلَا وَإِنَّ حِمَى اللَّهِ مَحَارِمُهُ» ( صحيح مسلم كتاب المساقاة باب أخذ الحلال وترك الشبهات حــ 1599 )
یقنا حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے مابین کچھ مشتبہ امور ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے تو جو شبہات سے بچ گیا اس نے اپنا دین اور اپنی عزت محفوظ کر لی اور جو شبہات میں داخل ہوگیا تو وہ حرام میں ہی داخل ہوگیا , اس شخص کی طرح جو اپنی بکریوں کو (غیر) کی چراگاہ کے ارد گرد چراتا ہے تو قریب ہے کہ (اسکی بکریاں اس دوسرے شخص کی ) اس چراگاہ میں چلی جائیں , خبر داد ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے ہے اور اللہ کی چراگاہ اسکے حرام کردہ امور ہیں ۔
چونکہ ضعیف روایت میں شبہ ہوتا ہے لہذا اس پر عمل کرنا اس حدیث کی رو سے حرام میں واقع ہونا ہے ۔!!!!!
 ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
www.mominsalafi.blogspot.com


منگل، 13 دسمبر، 2016

اھلحدیث کا تعارف

الحمد للہ:
درج ذیل میں ہندوستان کی "جماعت اہل حدیث"کا مختصر تعارف ہے ، تا کہ آپ کو ان کے ساتھ رہنے کا مزید شوق پیدا ہو:
ایک انسائیکلوپیڈیا" الموسوعة الميسرة للأديان والمذاهب والأحزاب المعاصرة " میں ہے: 
"جماعت "اہل حدیث"برصغیر میں قدیم ترین اسلامی تحریک ہے، جسکی بنیاد مندرجہ ذیل امور پر ہے: 
• اتباعِ کتاب وسنت 
• کتاب وسنت کو سمجھنے کیلئے فہمِ سلف صالحین یعنی صحابہ کرام، تابعین، اور جو بھی انکے نقشِ قدم پر چلے 
• کتاب وسنت کی تمام اقوال اور مناہج پر بالا دستی، چاہے عقائد، عبادات، معاملات، اخلاق، سیاست، اور سماجی کوئی بھی مسئلہ ہو، بعینہٖ جیسے محدث فقہائے کرام کا انداز تھا 
• ہر قسم کے شرک وبدعت اور خرافات کا قلع قمع" انتہی 
پھر اسکے بعد جماعت "اہل حدیث "کے نظریات اور عقائد بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا: 
"اہل حدیث کا عقیدہ وہی عقیدہ ہے جو سلف صالحین کا تھا، جو کہ کتاب وسنت پر مبنی ہے، جماعت اہل حدیث کے علمی اصول اور قواعدِ منہج مندرجہ ذیل ہیں: 
• عقیدہ توحید: اہل حدیث کے ہاں عقیدہ توحید دین کی بنیاد ہے، اس لئے اپنی سرگرمیوں کی ابتدا خالص توحید نشر کرتے ہوئے کرتے ہیں، تا کہ لوگوں کے دلوں میں عقیدہ توحید پختہ کردیں، توحید کی تینوں اقسام پر زور دیتے ہوئے توحید الوہیت پر نظریں مرکوز رکھتے ہیں کیونکہ بہت سے لوگ اسی میں غلطی کھاتے ہیں، اہل حدیث توحید ربوبیت اور اسکے تقاضے حاکمیتِ الہی پر بھی ایمان رکھتے ہیں، پھر صرف اس بات پر اکتفاء نہیں کرتے کہ اسلامی سیاسی نظام کو مانتے ہوئے نافذ کردیا جائے، بلکہ انکی کوشش ہے کہ ہر فرد کے ذہن و تصور ، چال چلن، اور زندگی کے تمام معاملات جس میں قانون سازی بھی شامل ہے یہ بات ہو کہ اللہ تعالی ہی حاکم ہے۔ 
• اتباعِ سنت: اہل حدیث سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ احادیث کی اتباع پر زور دیتے ہیں، اسی لئے تقلیدِ جامد کے قائل نہیں ہیں، جسکی وجہ سے انسان کسی بھی فقہی مذہب کا پابند ہوجاتا ہے، اور دلیل کا مطالبہ نہیں کرسکتا، بلکہ یہ لوگ اجتہاد کے دروازےان تمام لوگوں کیلئے کھولنے کے قائل ہیں جن میں شرائط پائی جاتی ہوں، اور ائمہ کرام کے ساتھ ساتھ تمام علمائے مجتہدین کے احترام کی دعوت دیتے ہیں 
• کتاب وسنت کو عقل پر مقدم کرنا: یہ لوگ نصوص شرعیہ کو رائے سے برتر سمجھتے ہیں، پھر اسکے بعد اپنی عقل کو نصوص شرعیہ کے تابع کرتے ہیں، اس لئے کہ ان کا ماننا ہے کہ عقلِ سلیم صحیح شرعی نصوص کے ساتھ اتفاق رکھتی ہے، اسی لئے ان کے نزدیک شریعت کا مقابلہ عقل سے کرنایا عقل کو شریعت پر مقدم جاننا جائز نہیں ۔ 
• شرعی تزکیہ: یعنی شرعی تزکیہ نفس کے قائل ہیں، اس کیلئے کتاب وسنت میں موجود شرعی وسائل کو بروئے کار لائے جاسکتے ہیں، اور بدعتی تزکیہ نفس کو چاہے وہ صوفیوں کے انداز میں ہو یا کسی اور کے مسترد کرتے ہیں 
• بدعات سے اجتناب:اہل حدیث اس بات کے قائل ہیں کہ بدعت ایجاد کرنا حقیقت میں اللہ تعالی پر استدراک ہے، اور عقل و رائے کے ذریعے شریعت سازی ہے، اسی لئے سنت پر کاربند رہنے اور سب بدعات سے اجتناب کی دعوت دیتے ہیں۔ 
• ضعیف اور موضوع روایات سے اجتناب: اس لئے کہ اس قسم کی احادیث کےامت پر بہت زیادہ خطرات ہیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب احادیث کی چھان بین انتہائی ضروری ہے، خاص طور پر جو احادیث عقائد اور احکام سے تعلق رکھتی ہیں" انتہی 
دیکھیں: "الموسوعة الميسرة في الأديان والمذاهب والأحزاب المعاصرة" صفحہ (173-185) 
واللہ اعلم  .

ہفتہ، 10 دسمبر، 2016

غسل کرنے کا طریق

الحمد للہ:
غسل جنابت كے دو طريقے ہيں:
كفائت كرنے والا طريقہ: 
مكمل طريقہ: 
كفائت كرنے والا طريق غسل يہ ہے كہ: كلى كر كے اور ناك ميں پانى ڈال كر سارے بدن پر پانى ڈال ليا جائے، چاہے ايك بار ہے، اور اگر گہرے پانى ميں غوطہ لگائے تو بھى ٹھيك ہے. 
غسل كا مكمل طريقہ يہ ہے كہ:
اپنى شرمگاہ اور جہاں جہاں نجاست لگى ہو اسے دھوئے، اور پھر مكمل وضوء كرنے كے بعد اپنے سر پر تين چلو پانى بہائے حتى كہ بالوں تك سر تر ہو جائے، اور پھر اپنے جسم كى دائيں جانب اور پھر بائيں جانب دھوئے.
ديكھيں: اعلام المسافرين ببعض آداب و احكام السفر و ما يخص الملاحين الجويين، تاليف فضيلۃ الشيخ محمد بن صالح العثيمين صفحہ ( 11 ).

جمعہ، 9 دسمبر، 2016

عقیدہ۔ کے۔ سوالات


What does “the text of the ‘aqeedah (matn al-‘aqeedah)” mean?.

 الحمد اللہ                   Praise be to Allaah.
Al-matn (text) in Arabic means the back. In Islamic terminology it refers to the contents of a book, such as the text of Saheeh al-Bukhaari or the text of Zaad al-Mustaqni’
The scholars usually use this word to refer to brief books that are in circulation among the scholars and seekers of knowledge in a particular field of knowledge. For example, in the case of ‘aqeedah (tenets of faith), they may say Matn al-Waasitiyyah, referring to the brief book on ‘aqeedah by Shaykh al-Islam Ibn Taymiyah, which is called al-‘Aqeedah al-Waasitiyyah. Similarly, Matn al-Tahhaawiyyah refers to a brief book on ‘aqeedah by Imam al-Tahhaawi. 
Usually what is meant by the word matn (text) is to distinguish the book from its commentary. For example they may say Matn al-Tahhaawiyyah to distinguish it from Sharh al-Tahhaawiyyah (the commentary on al-Tahhaawiyyah), which is another book in which Ibn Abi’l-‘Izz al-Hanafi commented on the original short book, al-‘Aqeedah al-Tahhaawiyyah
Mutoon (pl. of matn) or texts are usually short but contain many meanings and important principles of knowledge which are written about in brief terms to make it easy to memorize them and focus on issues of knowledge. Imam al-Bukhaari (may Allaah have mercy on him) said: al-Khaleel ibn Ahmad said: Words may be made brief in order to memorize them and made long in order to understand. Khalq Af’aal al-‘Ibaad, no. 244.        
And Allaah knows best.
 Www.momimsalafi.blogspot.com
Www.salafinaat.blogspot.com
Www.salafimomin.wordpress.con

جمعرات، 8 دسمبر، 2016

               السلام علیکم  .شیخ الصالح المنجد
برائے مہربانى درج ذيل موضوع كے متعلق معلومات مہيا كريں: 
عيد ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كے موضوع ميں لوگ دو گروہوں ميں بٹے ہوئے ہيں، ان ميں سے ايك گروہ تو كہتا ہے كہ يہ بدعت ہے كيونكہ نہ تو يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں منائى گئى اور نہ ہى صحابہ كے دور ميں اور نہ تابعين كے دور ميں. 
اور دوسرا گروہ اس كا رد كرتے ہوئے كہتا ہے كہ: تمہيں جو كوئى بھى يہ كہتا ہے كہ ہم جو كچھ بھى كرتے ہيں وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں يا پھر صحابہ يا تابعين كے دور ميں پاياگيا ہے، مثلا ہمارے پاس علم رجال اور جرح و تعديل نامى اشياء ايسى ہيں اور ان كا انكار بھى كوئى شخص نہيں كرتا حالانكہ انكار ميں اصل يہ ہے كہ وہ بدعت نئى ايجاد كردہ ہو اور اصل كى مخالف ہو. 
اور جشن عيد ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كى اصل كہاں ہے جس كى مخالفت ہوئى ہے، اور بہت سارے اختلافات اس موضوع كے گرد گھومتے ہيں ؟ 
 سوال   اسى طرح وہ اس كو دليل بناتے ہيں كہ ابن كثير رحمہ اللہ نے جشن ميلاد منانے كو صحيح كہا ہے، اس ليے آپ اس سلسلہ ميں شرعى دلائل كے ساتھ حكم واضح كريںwww.mominsalafi.blogsot.com😊
الحمد للہ:
اول:
سب سے پہلى بات تو يہ ہے كہ علماء كرام كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تاريخ پيدائش ميں اختلاف پايا جاتا ہے اس ميں كئى ايك اقوال ہيں جہيں ہم ذيل ميں پيش كرتے ہيں:
چنانچہ ابن عبد البر رحمہ اللہ كى رائے ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش سوموار كے دن دو ربيع الاول كو پيدا ہوئے تھے.
اور ابن حزم رحمہ اللہ نے آٹھ ربيع الاول كو راجح قرار ديا ہے.
اور ايك قول ہے كہ: دس ربيع الاول كو پيدا ہوئے، جيسا كہ ابو جعفر الباقر كا قول ہے.
اور ايك قول ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش بارہ ربيع الاول كو ہوئى، جيسا كہ ابن اسحاق كا قول ہے.
اور ايك قول ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش رمضان المبارك ميں ہوئى، جيسا كہ ابن عبد البر نے زبير بكّار سے نقل كيا ہے.
ديكھيں: السيرۃ النبويۃ ابن كثير ( 199 - 200 ).
ہمارے علم كے ليے علماء كا يہى اختلاف ہى كافى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت كرنے والے اس امت كے سلف علماء كرام تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش كے دن كا قطعى فيصلہ نہ كر سكے، چہ جائيكہ وہ جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم مناتے، اور پھر كئى صدياں بيت گئى ليكن مسلمان يہ جشن نہيں مناتے تھے، حتى كہ فاطميوں نے اس جشن كى ايجاد كى.
شيخ على محفوظ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" سب سے پہلے يہ جشن فاطمى خلفاء نے چوتھى صدى ہجرى ميں قاہر ميں منايا، اور انہوں نے ميلاد كى بدعت ايجاد كى جس ميں ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم، اور على رضى اللہ تعالى عنہ كى ميلاد، اور فاطمۃ الزہراء رضى اللہ تعالى عنہا كى ميلاد، اور حسن و حسين رضى اللہ تعالى عنہما، اور خليفہ حاضر كى ميلاد، منانے كى بدعت ايجاد كى، اور يہ ميلاديں اسى طرح منائى جاتى رہيں حتى كہ امير لشكر افضل نے انہيں باطل كيا.
اور پھر بعد ميں خليفہ آمر باحكام اللہ كے دور پانچ سو چوبيس ہجرى ميں دوبارہ شروع كيا گيا حالانكہ لوگ تقريبا اسے بھول ہى چكے تھے.
اور سب سے پہلا شخص جس نے اربل شہر ميں ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كى ايجاد كى وہ ابو سعيد ملك مظفر تھا جس نے ساتويں صدى ہجرى ميں اربل كے اندر منائى، اور پھر يہ بدعت آج تك چل رہى ہے، بلكہ لوگوں نے تو اس ميں اور بھى وسعت دے دى ہے، اور ہر وہ چيز اس ميں ايجاد كر لى ہے جو ان كى خواہش تھى، اور جن و انس كے شياطين نے انہيں جس طرف لگايا اور جو كہا انہوں وہى اس ميلاد ميں ايجاد كر ليا " انتہى
ديكھيں: الابداع مضار الابتداع ( 251 ).
دوم:
سوال ميں ميلاد النبى كے قائلين كا يہ قول بيان ہوا ہے كہ:
جو تمہيں كہے كہ ہم جو بھى كرتے ہيں اس كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم يا عہد صحابہ يا تابعين ميں پايا جانا ضرورى ہے "
اس شخص كى يہ بات اس پر دلالت كرتى ہے كہ ايسى بات كرنے والے شخص كو تو بدعت كے معنى كا ہى علم نہيں جس بدعت سے ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بچنے كا بہت سارى احاديث ميں حكم دے ركھا ہے؛ اس قائل نے جو قاعدہ اور ضابطہ ذكر كيا ہے وہ تو ان اشياء كے ليے ہے جو اللہ كا قرب حاصل كرنے كے ليے كى جاتى ہيں يعنى اطاعت و عبادت ميں يہى ضابطہ ہو گا.
اس ليے كسى بھى ايسى عبادت كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كرنا جائز نہيں جو ہمارے ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مشروع نہيں كى، اور يہ چيز نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جو ہميں بدعات سے منع كيا ہے اسى سے مستنبط اور مستمد ہے، اور بدعت اسے كہتے ہيں كہ: كسى ايسى چيز كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كرنے كى كوشش كى جائے جو اس نے ہمارے ليے مشروع نہيں كى، اسى ليے حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ كہا كرتے تھے:
" ہر وہ عبادت جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرنے نے نہيں كى تم بھى اسے مت كرو "
يعنى: جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں دين نہيں تھا، اور نہ ہى اس كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كيا جاتا تھا تو اس كے بعد بھى وہ دين نہيں بن سكتا "
پھر سائل نے جو مثال بيان كى ہے وہ جرح و تعديل كے علم كى ہے، اس نے كہا ہے كہ يہ بدعت غير مذموم ہے، جو لوگ بدعت كى اقسام كرتے ہوئے بدعت حسنہ اور بدعت سئيہ كہتے ہيں ان كا يہى قول ہے كہ يہ بدعت حسنہ ہے، بلكہ تقسيم كرنے والے تو اس سے بھى زيادہ آگے بڑھ كر اسے پانچ قسموں ميں تقسيم كرتے ہوئے احكام تكليفيہ كى پانچ قسميں كرتے ہيں:
وجوب، مستحب، مباح، حرام اور مكروہ عزبن عبد السلام رحمہ اللہ يہ تقسيم ذكر كيا ہے اور ان كے شاگرد القرافى نے بھى ان كى متابعت كى ہے.
اور شاطبى رحمہ اللہ قرافى كا اس تقسيم پر راضى ہونے كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" يہ تقسيم اپنى جانب سے اختراع اور ايجاد ہے جس كى كوئى شرعى دليل نہيں، بلكہ يہ اس كا نفس متدافع ہے؛ كيونكہ بدعت كى حقيقت يہى ہے كہ اس كى كوئى شرعى دليل نہ ہو نہ تو نصوص ميں اور نہ ہى قواعد ميں، كيونكہ اگر كوئى ايسى شرعى دليل ہوتى جو وجوب يا مندوب يا مباح وغيرہ پر دلالت كرتى تو پھرى كوئى بدعت ہوتى ہى نہ، اور عمل سارے ان عمومى اعمال ميں شامل ہوتے جن كا حكم ديا گيا ہے يا پھر جن كا اختيار ديا گيا ہے، چنانچہ ان اشياء كو بدعت شمار كرنے اور يہ كہ ان اشياء كے وجوب يا مندوب يا مباح ہونے پر دلائل دلالت كرنے كو جمع كرنا دو منافى اشياء ميں جمع كرنا ہے اور يہ نہيں ہو سكتا.
رہا مكروہ اور حرام كا مسئلہ تو ان كا ايك وجہ سے بدعت ہونا مسلم ہے، اور دوسرى وجہ سے نہيں، كيونكہ جب كسى چيز كے منع يا كراہت پر كوئى دليل دلالت كرتى ہو تو پھر اس كا بدعت ہونا ثابت نہيں ہوتا، كيونكہ ممكن ہے وہ چيز معصيت و نافرمانى ہو مثلا قتل اور چورى اور شراب نوشى وغيرہ، چنانچہ اس تقسيم ميں كبھى بھى بدعت كا تصور نہيں كيا جا سكتا، الا يہ كہ كراہت اور تحريم جس طرح اس كے باب ميں بيان ہوا ہے.
اور قرافى نے اصحاب سے بدعت كے انكار پر اصحاب سے جو اتفاق ذكر كيا ہے وہ صحيح ہے، اور اس نے جو تقسيم كى ہے وہ صحيح نہيں، اور اس كا اختلاف سے متصادم ہونے اور اجماع كو ختم كرنے والى چيز كى معرفت كے باوجود اتفاق ذكر كرنا بہت تعجب والى چيز ہے، لگتا ہے كہ اس نے اس تقسيم ميں اپنے بغير غور و فكر كيے اپنے استاد ابن عبد السلام كى تقليد و اتباع كى ہے.
پھر انہوں نے اس تقسيم ميں ابن عبد السلام رحمہ اللہ كا عذر بيان كيا ہے اور اسے " المصالح المرسلۃ " كا نام ديا ہے كہ يہ بدعت ہے، پھر كہتے ہيں:
" ليكن اس تقسيم كو نقل كرنے ميں قرافى كا كوئى عذر نہيں كيونكہ انہوں نے اپنے استاد كى مراد كے علاوہ اس تقسيم كو ذكر كيا ہے، اور نہ ہى لوگوں كى مراد پر بيان كيا ہے، كيونكہ انہوں نے اس تقسيم ميں سب كى مخالفت كى ہے، تو اس طرح يہ اجماع كے مخالف ہوا " انتہى
ديكھيں: الاعتصام ( 152 - 153 ).
ہم نصيحت كرتے ہيں كہ آپ كتاب سے اس موضوع كا مطالعہ ضرور كريں كيونكہ رد كے اعتبار سے يہ بہت ہى بہتر اور اچھا ہے اس ميں انہوں نے فائدہ مند بحث كى ہے.
عز عبد السلام رحمہ اللہ نے بدعت واجبہ كى تقسيم كى مثال بيان كرتے ہوئے كہا ہے:
" بدعت واجبہ كى كئى ايك مثاليں ہيں:
پہلى مثال:
علم نحو جس سے كلام اللہ اور رسول اللہ كى كلام كا فہم آئے ميں مشغول ہونا اور سيكھنا يہ واجب ہے؛ كيونكہ شريعت كى حفاظت واجب ہے، اور اس كى حفاظت اس علم كو جانے بغير نہيں ہو سكتى، اور جو واجب جس كے بغير پورا نہ ہو وہ چيز بھى واجب ہوتى ہے.
دوسرى مثال:
كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں سے غريب الفاظ اور لغت كى حفاظت كرنا.
تيسرى مثال:
اصول فقہ كى تدوين.
چوتھى مثال:
جرح و تعديل ميں كلام كرنا تا كہ صحيح اور غلط ميں تميز ہو سكے، اور شرعى قواعد اس پر دلالت كرتے ہيں كہ شريعت كى حفاظت قدر متعين سے زيادہ كى حفاظت فرض كفايہ ہے، اور شريعت كى حفاظت اسى كے ساتھ ہو سكتى ہے جس كا ہم نے ذكر كيا ہے " انتہى.
ديكھيں: قواعد الاحكام فى مصالح الانام ( 2 / 173 ).
اور شاطبى رحمہ اللہ بھى اس كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" اور عز الدين نے جو كچھ كہا ہے: اس پر كلام وہى ہے جو اوپر بيان ہو چكى ہے، اس ميں سے واجب كى مثاليں اسى كے حساب سے ہيں كہ جو واجب جس كے بغير واجب پورا نہ ہوتا ہو تو وہ چيز بھى واجب ہے ـ جيسا اس نے كہا ہے ـ چنانچہ اس ميں يہ شرط نہيں لگائى جائيگى كہ وہ سلف ميں پائى گئى ہو، اور نہ ہى يہ كہ خاص كر اس كا اصل شريعت ميں موجود ہو؛ كيونكہ يہ تو مصالح المرسلہ كے باب ميں شامل ہے نہ كہ بدعت ميں " انتہى.
ديكھيں: الاعتصام ( 157 - 158 ).
اور اس رد كا حاصل يہ ہوا كہ:
ان علوم كو بدعت شرعيہ مذمومہ كے وصف سے موصوف كرنا صحيح نہيں، كيونكہ دين اور سنت نبويہ كى حفاظت والى عمومى شرعى نصوص اور شرعى قواعد سے ان كى گواہى ملتى ہے اور جن ميں شرعى نصوص اور شرعى علوم ( كتاب و سنت ) كو لوگوں تك صحيح شكل ميں پہچانے كا بيان ہوا ہے اس سے بھى دليل ملتى ہے.
اور يہ بھى كہنا ممكن ہے كہ: ان علوم كو لغوى طور پر بدعت شمار كيا جا سكتا ہے، نا كہ شرعى طور پر بدعت، اور شرعى بدعت سارى مذموم ہى ہيں، ليكن لغوى بدعت ميں سے كچھ تو محمود ہيں اور كچھ مذموم.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" شرعى عرف ميں بدعت مذ موم ہى ہے، بخلاف لغوى بدعت كے، كيونكہ ہر وہ چيز جو نئى ايجاد كى گئى اور اس كى مثال نہ ہو اسے بدعت كا نام ديا جاتا ہے چاہے وہ محمود ہو يا مذموم " انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 13 / 253 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:
" البدع يہ بدعۃ كى جمع ہے، اور بدعت ہر اس چيز كو كہتے ہيں جس كى پہلے مثال نہ ملتى ہو، لہذا لغوى طور پر يہ ہر محمود اور مذموم كو شامل ہو گى، اور اہل شرع كے عرف ميں يہ مذموم كے ساتھ مختص ہو گى، اگرچہ يہ محمود ميں وارد ہے، ليكن يہ لغوى معنى ميں ہو گى " انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 13 / 340 ).
اور صحيح بخارى كتاب الاعتصام بالكتاب و السنۃ باب نمر 2حديث نمبر ( 7277 ) پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كى تعليق پر شيخ عبد الرحمن البراك حفظہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ تقسيم لغوى بدعت كے اعتبار سے صحيح ہے، ليكن شرع ميں ہر بدعت گمراہى ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اور سب سے برے امور دين ميں نئے ايجاد كردہ ہيں، اور ہر بدعت گمراہى ہے "
اور اس عموم كے باوجود يہ كہا جائز نہيں كہ كچھ بدعات واجب ہوتى ہيں يا مستحب يا مباح، بلكہ دين ميں يا تو بدعت حرام ہے يا پھر مكروہ، اور مكروہ ميں يہ بھى شامل ہے جس كے متعلق انہوں نے اسے بدعت مباح كہا ہے: يعنى عصر اور صبح كے بعد مصافحہ كرنے كے ليے مخصوص كرنا " انتہى
اور يہ معلوم ہونا ضرورى ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام كے دور ميں كسى بھى چيز كے كيے جانے كے اسباب كے پائے جانے اور موانع كے نہ ہونے كو مدنظر ركھنا چاہيے چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا ميلاد اور صحابہ كرام كى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت يہ دو ايسے سبب ہيں جو صحابہ كرام كے دور ميں پائے جاتے تھے جس كى بنا پر صحابہ كرام آپ كا جشن ميلاد منا سكتے تھے، اور پھر اس ميں كوئى ايسا مانع بھى نہيں جو انہيں ايسا كرنے سے روكتا.
لہذا جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ كرام نے جشن ميلاد نہيں منايا تو يہ علم ہوا كہ يہ چيز مشروع نہيں، كيونكہ اگر يہ مشروع ہوتى تو صحابہ كرام اس كى طرف سب لوگوں سے آگے ہوتے اور سبقت لے جاتے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور اسى طرح بعض لوگوں نے جو بدعات ايجاد كر ركھى ہيں وہ يا تو عيسى عليہ السلام كى ميلاد كى طرح عيسائيوں كے مقابلہ ميں ہيں، يا پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبتا ور تعظيم ميں ـ اللہ سبحانہ و تعالى اس محبت اور كوشش كا تو انہيں اجروثواب دے گا نہ كہ اس بدعت پر ـ كہ انہوں نے ميلاد النبى كا جشن منانا شروع كر ديا ـ حالانكہ آپ كى تاريخ پيدائش ميں تو اختلاف پايا جاتا ہے ـ اور پھر كسى بھى سلف نے يہ ميلاد نہيں منايا، حالانكہ اس كا مقتضى موجود تھا، اور پھر اس ميں مانع بھى كوئى نہ تھا.
اور اگر يہ يقينى خير و بھلائى ہوتى يا راجح ہوتى تو سلف رحمہ اللہ ہم سے زيادہ اس كے حقدار تھے؛ كيونكہ وہ ہم سے بھى زيادہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ محبت كرتےتھے، اور آپ كى تعظيم ہم سے بہت زيادہ كرتے تھے، اور پھر وہ خير و بھلائى پر بھى بہت زيادہ حريص تھے.
بلكہ كمال محبت اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تعظيم تو اسى ميں ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع و پيروى كى جائے، اور آپ كا حكم تسليم كيا جائے، اور ظاہرى اور باطنى طور پر بھى آپ كى سنت كا احياء كيا جائے، اور جس كے ليے آپ صلى اللہ عليہ وسلم مبعوث ہوئے اس كو نشر اور عام كيا جائے، اور اس پر قلبى لسانى اور ہاتھ كے ساتھ جھاد ہو.
كيونكہ مہاجر و انصار جو سابقين و اولين ميں سے ہيں كا بھى يہى طريقہ رہا ہے اور ان كے بعد ان كى پيروى كرنے والے تابعين عظام كا بھى " انتہى
ديكھيں: اقتضاء الصراط ( 294 - 295 ).
اور يہى كلام صحيح ہے جو يہ بيان كرتى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت تو آپ كى سنت پر عمل كرنے سے ہوتى ہے، اور سنت كو سيكھنے اور اسے نشر كرنے اور اس كا دفاع كرنے ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت ہے اور صحابہ كرام كا طريقہ بھى يہى رہا ہے.
ليكن ان بعد ميں آنے والوں نے تو اپنے آپ كو دھوكہ ديا ہوا ہے، اور اس طرح كے جشن منانے كے ساتھ شيطان انہيں دھوكہ دے رہا ہے، ان كا خيال ہے كہ وہ اس طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ اپنى محبت كا اظہار كر رہے ہيں، ليكن اس كے مقابلہ ميں وہ سنت كے احياء اور اس پر عمل پيرا ہونے اور سنت نبويہ كو نشر كرنے اور پھيلانے اور سنت كا دفاع كرنے سے بہت ہى دور ہيں.
سوم:
اور اس بحث كرنے والے نے جو كلام ابن كثير رحمہ اللہ كى طرف منسوب كى ہے كہ انہوں نے جشن ميلاد منانا جائز قرار ديا ہے، اس ميں صرف ہم اتنا ہى كہيں گے كہ يہ شخص ہميں يہ بتائے كہ ابن كثير رحمہ اللہ نے يہ بات كہاں كہى ہے، كيونكہ ہميں تو ابن كثير رحمہ اللہ كى يہ كلام كہيں نہيں ملى، اور ہم ابن كثير رحمہ اللہ كو اس كلام سے برى سمجھتے ہيں كہ وہ اس طرح كى بدعت كى معاونت كريں اور اس كى ترويج كا باعث بنيں ہوں.
واللہ اعلم

ماہِ ربیع الاول

سوال: کچھ لوگ ماہِ ربیع الاول کے آتے ہی ایک حدیث نشر کرنا شروع کر دیتے ہیں: (جو بھی اس فضیلت والے ماہ کی مبارک باد دے گا، اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جائے گی) کیا یہ حدیث صحیح  ہے یا نہیں وضاحت کیجے  سایل Published iD...Dec  2016
Salafi communication
الحمد للہ:
ذکر شدہ حدیث  کی ہمیں کوئی سند نہیں ملی، اور خود ساختہ  ہونے کی علامات اس حدیث پر بالکل واضح ہیں، اس لئے اس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ آپ کے بارے میں جھوٹ باندھنے  کے زمرے میں آتا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر جھوٹ باندھنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے: (جس شخص نے میری طرف منسوب کوئی حدیث بیان کی، اور وہ خدشہ بھی رکھتا تھا  یہ جھوٹ ہے، تو بیان کرنے والا بھی دو جھوٹوں میں سے ایک ہے) مسلم نے اسے اپنی صحیح مسلم کے مقدمہ میں بیان کیا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
"اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  پر جھوٹ  بولنے کی سنگینی بیان کی گئی ہے، اور جس شخص کو اپنے ظنِ غالب کے مطابق  کوئی حدیث  جھوٹی لگی لیکن پھر بھی وہ آگے بیان کر دے تو وہ بھی جھوٹا ہوگا،  جھوٹا کیوں نہ ہو؟!  وہ ایسی بات کہہ رہا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نہیں فرمائی" انتہی
" شرح صحيح مسلم " (1/65)
اور اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے کہ ماہِ ربیع الاول  کی جس شخص نے مبارکباد دی تو صرف اسی عمل سے اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جائے گی، یہ بات حد سے تجاوز، اور مبالغہ آرائی پر مشتمل ہے، جو کہ اس حدیث کے باطل اور خود ساختہ ہونے کی علامت ہے۔
چنانچہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
"خود ساختہ احادیث میں اندھا پن ، بے ڈھب  الفاظ، اور حد سے زیادہ تجاوز ہوتا ہے، جو ببانگ دہل  ان احادیث کے خود ساختہ ہونے کا اعلان کرتا ہے، کہ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   کے نام پر خود گھڑی گئی ہے" انتہی
" المنار المنيف " (ص 50)
آپ فائدے کیلئے ہمارے ویب سیٹ دیکھسکتے ہے 
Www.mominsalafi.blogspot.com