اپنی زبان منتخب کریں

جمعرات، 26 اپریل، 2018

گانا سننا اور بجانا اسلام میں کیسا ہے

الحمد للہ:

المعازف معزفۃ كى جمع ہے، اور يہ آلات لہو يعنى گانے بجانے كے آلات ہيں.

ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 55 ).

اور يہ وہ آلہ ہے جس ناچا اور گايا جاتا ہے.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 11 / 577 ).

" اور قرطبى نے جوہرى سے نقل كيا ہے كہ: المعازف گانا بجانا ہے، اور ان كى صحاح ميں ہے كہ: يہ گانے بجانے كے آلات ہيں، اور ايك قول يہ بھى ہے كہ: يہ گانے كى آوازيں ہيں.

اور دمياطى كے حاشيہ ميں ہے: معازف دف اور ڈھول وغيرہ ہيں جو گانے ميں بجائے جاتے ہيں، اور لہو و لعب ميں بجائے جائيں . انتہى

ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 55 ).

كتاب و سنت سے موسيقى كى حرمت كے دلائل:

اللہ سبحانہ و تعالى نے سورۃ لقمان ميں فرمايا ہے:

﴿ اور لوگوں ميں كچھ ايسے بھى ہيں جو لغو باتيں خريدتے ہيں، تا كہ بغير كسى علم كے اللہ كى راہ سے لوگوں كو روكيں، اور اسے مذاق بنائيں، انہيں لوگوں كے ليے ذلت ناك عذاب ہے ﴾لقمان ( 6 )

حبر الامۃ ابن عباس رضى اللہ تعالى اس كى تفسير ميں كہتے ہيں، يہ گانا بجانا ہے.

اور مجاہد رحمہ اللہ كہتے ہيں: لہو اور ڈھول اور ناچ گانا ہے.

ديكھيں: تفسير طبرى ( 3 / 451 ).

اور سعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" تو اس ميں ہر حرام كلام، اور سب لغو اور باطل باتيں، بكواس اور كفر و نافرمانى كى طرف رغبت دلانے والى بات چيت، اور راہ حق سے روكنے والوں اور باطل دلائل كے ساتھ حق كے خلاف جھگڑنے والوں كى كلام، اور ہر قسم كى غيبت و چغلى، اور سب و شتم، اور جھوٹ و كذب بيانى، اور گانا بجانا، اور شيطانى آواز موسيقى، اور فضول اور لغو قسم كے واقعات و مناظرات جن ميں نہ تو دينى اور نہ ہى دنياوى فائدہ ہو سب شامل ہيں "

ديكھيں: تفسير السعدى ( 6 / 150 ).

اور ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" لھو الحديث " يعنى لغو بات خريدنے كى تفسير ميں صحابہ كرام اور تابعين عظمام كى تفسير ہى كافى ہے، انہوں نے اس كى تفسير يہى كى ہے كہ: يہ گانا بجانا، ہے، ابن عباس، اور ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہم سے يہ صحيح ثابت ہے.

ابو الصھباء كہتے ہيں: ميں نے ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كو اللہ تعالى كے فرمان:

﴿ و من الناس من يشترى لھو الحديث﴾ كے متعلق سوال كيا كہ اس سے مراد كيا ہے تو ان كا جواب تھا:

اس اللہ تعالى كى قسم جس كے علاوہ كوئى اور معبود برحق نہيں اس سے مراد گانا بجانا ہے ـ انہوں نے يہ بات تين بار دھرائى ـ.

اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے صحيح ثابت ہے كہ اس سے مراد گانا بجانا ہى ہے.

اور لھو الحديث كى تفسير گانے بجانے، اور عجمى لوگوں كى باتيں اور ان كے بادشاہ اور روم كے حكمران كى خبروں كى تفسير ميں كوئى تعارض نہيں، يا اس طرح كى اور باتيں جو مكہ ميں نضر بن حارث اہل مكہ كو سنايا كرتا تھا تا كہ وہ قرآن مجيد كى طرف دھيان نہ ديں، يہ دونوں ہى لھو الحديث ميں شامل ہوتى ہيں.

اسى ليے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے كہا تھا: لھو الحديث سے مراد باطل اور گانا بجانا ہے.

تو بعض صحابہ نے يہ بيان كيا ہے، اور بعض نے دوسرى بات بيان كي ہے، اور بعض صحابہ كرام نے دونوں كو جمع كر كے ذكر كيا ہے، اور گانا بجانا تو شديد قسم كى لہو ہے، اور بادشاہوں اور حكمرانوں كى باتوں سے زيادہ نقصان دہ ہے، كيونكہ يہ زنا كا زينہ اور پيش خيمہ ہے، اور اس سے نفاق و شرك پيدا ہوتا ہے، اور شيطان كى شراكت ہوتى ہے، اور عقل ميں خمار پيدا ہو جاتا ہے، اور گانا بجانا ايك ايسى چيز ہے جو قرآن مجيد سے روكنے اور منع كرنے والى باطل قسم كى باتوں ميں سب سے زيادہ شديد روكنے والى ہے، كيونكہ اس كى جانب نفس بہت زيادہ ميلان ركھتا ہے، اور اس كى رغبت كرتا ہے.

تو ان آيات كے ضمن ميں يہ بيان ہوا ہے كہ قرآن مجيد كے بدلے لہو لعب اور گانا بجانا اختيار كرنا تا كہ بغير علم كے اللہ كى راہ سے روكا جائے اور اسے ہنسى و مذاق بنايا جائے يہ قابل مذمت ہے، اور جب اس پر قرآن مجيد كى تلاوت كى جائے تو وہ شخص منہ پھير كر چل دے، گويا كہ اس نے سنا ہى نہيں، اور اس كے كانوں ميں پردہ ہے، جو كہ بوجھ اور بہرہ پن ہے، اور اگر وہ قرآن مجيد ميں سے كچھ كو جان بھى لے تو اس سے استھزاء اورمذاق كرنے لگتا ہے، تو يہ سب كچھ ايسے شخص ہى صادر ہوتا ہے جو لوگوں ميں سب سے بڑا كافر ہو، اور اگر بعض گانے والوں اور انہيں سننے والوں ميں سے اس كا كچھ حصہ واقع ہو تو بھى ان كے ليے اس مذمت كا حصہ ہے "

ديكھيں: اغاثۃ اللھفان ( 1 / 258 - 259 ).

اور اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

﴿ اور ان ميں سے جسے بھى تو اپنى آواز بہكا سكے بہكا لے، اور ان پر اپنے سوار اور پيادے چڑھا لا، اور ان كے مال اور اولاد ميں سے بھى اپنا شريك بنا لے، اور ان كے ساتھ جھوٹے وعدے كر لے، اور ان كے ساتھ شيطان كے جتنے بھى وعدے ہوتے ہيں وہ سب كے سب فريب ہيں ﴾الاسراء ( 64 - 65 ).

مجاہد رحمہ اللہ كہتے ہيں: ان ميں سے جسے بھى گمراہ كرنے كى استطاعت ركھتے ہو اسے گمراہ كر لو، اور اس كى آواز گانا بجانا اور باطل كلام ہے.

اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہ اضافت تخصيص ہے، جس طرح اس كى طرف گھڑ سوار اور پيادے كى اضافت كى گئى ہے، چنانچہ ہر وہ كلام جو اللہ تعالى كى اطاعت كے بغير ہو، اور ہر وہ آواز جو بانسرى يا دف يا ڈھول وغيرہ كى ہو وہ شيطان كى آواز ہے.

اور اپنے قدم پر چل كر كسى معصيت كى طرف جائے تو يہ شيطان كے پيادہ اور ہر سوارى جو معصيت كى طرف لے جائے وہ اس كے گھڑ سوار ميں شامل ہوتا ہے، سلف رحمہ اللہ نے ايسا ہى كہا ہے، جيسا كہ ابن ابى حاتم نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے: " اس كا پيادہ ہر وہ قدم ہے جو اللہ كى معصيت و نافرمانى كى طرف اٹھے " انتہى.

ديكھيں: اغاثۃ اللھفان ( 1 / 252 ).

اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى كچھ اس طرح ہے:

﴿ تو كيا تم اس بات سے تعجب كرتے ہو ؟ اور ہنس رہے ہو ؟ اور روتے نہيں ؟ ( بلكہ ) تم كھيل رہے ہو ﴾النجم ( 59 - 61 ).

عكرمہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں: گانا بجانا حمير كى لغت ميں السمد ہے، كہا جاتا ہے: اسمدى لنا، يعنى ہميں گانا سناؤ.

اور وہ كہتے ہيں: جب وہ قرآن مجيد سنتے تو گانے لگتے تو يہ آيت نازل ہوئى.

اور ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

قولہ تعالى: " اور تم كھيل رہے ہو " سفيان ثورى اپنے باپ سے اور وہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كرتے ہيں: الغناء يہى يمنى ہے، اسمد لنا، يعنى ہميں گانا سناؤ، اور عكرمہ نے بھى ايسے ہى كہا ہے.

ديكھيں: تفسير ابن كثير.

اور ابو امامہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" نہ تو گانے والى لونڈياں فروخت كرو، اور نہ ہى خريدو، اور نہ ہى انہيں اس كى تعليم دو، اور نہ ہى ان كى تجارت ميں كوئى خير ہے، اور ان كى قيمت حرام ہے، اس جيسے ميں ہى يہ آيت نازل ہوئى ہے: اور لوگوں ميں وہ بھى ہيں جو لغو باتيں خريدتے ہيں، تا كہ اللہ كى راہ سے روك سكيں " يہ حديث حسن ہے.

ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان كچھ اس طرح ہے:

" ميرى امت ميں كچھ لوگ ايسے آئينگے جو زنا اور ريشم اور شراب اور گانا بجانا اور آلات موسيقى حلال كر لينگے، اور ايك قوم پہاڑ كے پہلو ميں پڑاؤ كريگى تو ان كے چوپائے چرنے كے بعد شام كو واپس آئينگے، اور ان كے پاس ايك ضرورتمند اور حاجتمند شخص آئيگا وہ اسے كہينگے كل آنا، تو اللہ تعالى انہيں رات كو ہى ہلاك كر ديگا، اور پہاڑ ان پر گرا دے گا، اور دوسروں كو قيامت تك بندر اور خنزير بنا كر مسخ كر ديگا "

امام بخارى نے اسے صحيح بخارى ( 5590 ) ميں معلقا روايت كيا ہے، اور امام بيہقى نے سنن الكبرى ميں اسے موصول روايت كيا ہے، اور طبرانى ميں معجم الكبير ميں روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے سلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ ( 91 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے، اس كا مطالعہ كريں.

اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

يہ حديث صحيح ہے امام بخارى رحمہ اللہ نے صحيح بخارى ميں اس سے حجت ليتے اسے بالجزم معلق روايت كيا ہے، اور باب كا عنوان باندھتے ہوئے كہا ہے:

" باب فيمن يستحل الخمر و يسميہ بغير اسمہ "

شراب كو حلال كرنے اور اسے كوئى نام دينے والے كے متعلق باب.

اور اس حديث ميں گانے بجانے اور ناچ كى حرمت كى دليل دو وجہ سے پائى جاتى ہے

پہلى وجہ:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان: " وہ حلال كر لينگے "

يہ اس بات كى صراحت ہے كہ يہ مذكور اشياء شريعت ميں حرام ہيں، تو يہ لوگ انہيں حلال كر لينگے، اور ان مذكورہ اشياء ميں معازف يعنى گانے بجانے كے آلات بھى شامل ہيں، جو كہ شرعا حرام ہيں جنہيں يہ لوگ حلال كر لينگے.

دوم:

ان گانے بجانے والى اشياء كو ان اشياء كے ساتھ ملا كر ذكر كيا ہے جن كى حرمت قطعى طور پر ثابت ہے، اور اگر يہ حرام نہ ہوتى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اسے ان حرام اشياء كے ساتھ ملا كر ذكر نہ كرتے "

ديكھيں: السلسلۃ الصحيحۃ للالبانى ( 1 / 140 - 144 ).

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

يہ حديث معازف ( يعنى گانے بجانے كے آلات ) كى حرمت پر دلالت كرتى ہے، اور اہل لغت كے ہاں معازت گانے بجانے كے آلات كو كہا جاتا ہے، اور يہ اسم ان سب آلات كو شامل ہے "

ديكھيں: المجموع ( 11 / 535 ).

اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور اس باب ميں سعد الساعدى، اور عمران بن حصين اور عبد اللہ بن عمرو، اور عبد اللہ بن عباس، اور ابو ہريرہ، اور ابو امامہ الباھلى، اور ام المومنين عائشہ، اور على بن ابى طالب، اور انس بن مالك، ار عبد الرحمن بن سابط، اور الغازى بن ربيعۃ رضى اللہ تعالى عنہم بھى ہيں ) پھر اپنى كتاب اغاثۃ اللھفان ميں اس حديث كو ذكر كيا ہے، اور كہا ہے كہ يہ حديث حرمت پر دلالت كرتى ہے.

اور نافع رحمہ اللہ بيان كرتےہيں كہ:

" ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے بانسرى بجنے كى آواز سنى تو انہوں نے اپنے كانوں ميں انگلياں ركھ ليں اور راستے سے ہٹ كر مجھے كہنے لگے نافع كيا تم كچھ سن رہے ہو ؟

تو ميں نے عرض كيا: نہيں، تو انہوں نے اپنے كانوں سے انگلياں نكال ليں، اور كہنے لگے، ميں ايك بار نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ تھا تو انہوں نے آواز سنى تو اسى طرح كيا "

صحيح سنن ابو داود.

كچھ لوگ سمجھتے ہيں كہ يہ حديث اس كى حرمت كى دليل نہيں كيونكہ اگر ايسا ہى ہوتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كو اپنے كان بند كرنے كا حكم ديتے، اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بھى اسى طرح نافع كو حكم ديتے!

تو اس كا جواب يہ ديا جاتا ہے كہ: وہ اسے غور سے كان لگا كر نہيں سن رہے تھے بلكہ اس كى آواز ان كے كان ميں پڑ گئى تھى، اور سامع اور مستمع ميں فرق پايا جاتا ہے، سامع صرف سننے والے كو كہتے ہيں،اور مستمع كان لگا كر سننے والے كو كہتے ہيں.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" انسان جو چيز ارادہ اور قصد سے نہ سنے بالاتفاق آئمہ كرام كے اس پر كوئى چيز مرتب نہيں ہوتى نہ تو نہى اور نہ ہى مذمت، اسى ليے كان لگا كر سننے كے نتيجہ ميں مذمت اور مدح مرتب ہوتى ہے، نہ كہ سننے كے نيتجہ ميں، اس ليے قرآن مجيد كان لگا كر سننے والے كو اجروثواب ہو گا ليكن بغير ارادہ و قصد كے قرآن مجيد سننے والے كو كوئى ثواب نہيں، كيونكہ اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے، اور اسى طرح گانے بجانے سے منع كيا گيا ہے، اگر وہ بغير كسى ارادہ و قصد كے سنتا ہے تو اسے ضرر نہيں ديگا "

ديكھيں: المجموع ( 10 / 78 ).

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" مستمع وہ ہے جو قصدا اور ارادتا سنتا ہے، اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے ايسا نہيں پايا گيا، بلكہ ان سے سماع پايا گيا ہے، يعنى انہوں نے بغير كسى ارادہ قصد كے سنا اور اس كى آواز كان ميں پڑ گئى اور اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اس كى ضرورت تھى كہ انہيں آواز بند ہونے كى خبر دى جائے، كيونكہ وہ راستے سے دوسرى طرف ہو گئے تھے، اور انہوں نے اپنے كان بند كر ليے تھے، تو وہ دوبارہ اس راستے پر آنے والے نہ تھے، اور نہ ہى آواز ختم ہونے سے قبل كانوں سے انگلياں نكالنے والے تھے، تو اس ليے ضرورت كى بنا پر مباح كر ديا گيا "

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 10 / 173 ).

لگتا ہے كہ دونوں اماموں كى كلام ميں مذكور سماع مكروہ ہو، اور ضرورت كى بنا پر مباح كيا گيا ہو، جيسا كہ امام مالك رحمہ اللہ كے قول ميں آگے بيان كيا جائيگا، واللہ اعلم.

اس كے متعلق آئمہ اسلام كے اقوال:

قاسم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" گانا بجانا باطل ميں سے ہے "

اور حسن رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر وليمہ ميں لہو اور گانا بجانا ہو تو اس كى دعوت قبول نہيں "

ديكھيں: الجامع للقيروانى صفحہ نمبر ( 262 - 263 ).

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" آئمہ اربعہ كا مذہب ہے كہ گانے بجانے كے سب آلات حرام ہيں، صحيح بخارى وغيرہ ميں ثابت ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خبر دى ہے كہ ان كى امت ميں كچھ ايسے لوگ بھى آئينگے جو زنا اور ريشم اور شراب اور گانا بجانا حلال كر لينگے "

اور اس حديث ميں يہ بيان كيا كہ ان كى شكليں مسخ كر كے انہيں بند اور خنزير بنا ديا جائيگا....

اور آئمہ كرام كے پيروكاروں ميں سے كسى نے بھى گانے بجانے كے آلات ميں نزاع و اختلاف ذكر نہيں كيا "

ديكھيں: المجموع ( 11 / 576 ).

علامہ البانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" مذاہب اربعہ اس پر متفق ہيں كہ گانے بجانے كے آلات حرام ہيں "

ديكھيں: السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ ( 1 / 145 ).

ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اس ميں سب سے سخت ابو حنيفہ رحمہ اللہ كا مذہب ہے، اور اس كے متعلق ان كا قول سب سے سخت اور شديد ہے، اور ابو حنيفہ كے اصحاب نے آلات موسيقى مثلا بانسرى اور دف وغيرہ كى سماعت صراحتا حرام بيان كى ہے، حتى كہ شاخ سے بجانا بھى، اور انہوں نے بيان كيا ہے كہ يہ ايسى معصيت ہے جو فسق كو واجب كرتى اور گواہى كو رد كرنے كا باعث بنتى ہے، بلكہ اس سے بھى زيادہ سخت قول يہ كہتے ہيں:

سماع فسق ہے، اور اس سے لذت كا حصول كفر ہے، يہ احناف كے الفاظ ہيں، اور اس سلسلہ ميں انہوں نے ايك حديث بھى روايت كى ہے جو مرفوع نہيں، ان كا كہنا ہے: اس پر واجب ہے كہ وہ جب وہ وہاں يا اس كے قريب سے گزرے تو اسے سننے كى كوشش نہ كرے.

اور جس گھر سے گانے بجانے كى آواز آ رہى ہو ابو يوسف رحمہ اللہ اس كے متعلق كہتے ہيں:

وہاں بغير اجازت داخل ہو جاؤ، كيونكہ برائى سے روكنا فرض ہے، كيونكہ اگر اجازت كے بغير داخل ہونا جائز نہ ہو تو پھر لوگ فرض كام كرنا چھوڑ ديں گے "

ديكھيں: اغاثۃ اللھفان ( 1 / 425 ).

امام مالك رحمہ اللہ سے كسى نے ڈھول اور بانسرى بجانے كے متعلق دريافت كيا گيا، يا اگر راستے يا كسى مجلس ميں اس كى آواز كان ميں پڑ جائے اور آپ كو اس سے لذت محسوس ہو تو كيا حكم ہے ؟

تو ان كا جواب تھا:

" اگر اسے اس سے لذت محسوس ہو تو وہ اس مجلس سے اٹھ جائے، ليكن اگر وہ كسى ضرورت كى بنا پر بيٹھا ہو، يا پھر وہاں سے اٹھنے كى استطاعت نہ ركھے، اور اگر راہ چلتے ہوئے آواز پڑ جائے تو وہ وہاں سے واپس آ جائے يا آگے نكل جائے "

ديكھيں: الجامع للقيروانى ( 262 ).

اور ان كا قول ہے:

ہمارے نزديك تو ايسا كام فاسق قسم كے لوگ كرتے ہيں.

ديكھيں: تفسير القرطبى ( 14 / 55 ).

ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس كمائى كے حرام ہونے پر سب كا اتفاق ہے، وہ سود، اور زانى عورتوں كى زنا سے كمائى، اور حرام، اور رشوت، اور نوحہ كرنے كى اجرت لينا، اور گانے كى اجرت لينا، اور نجومى كى كمائى، اور علم غيب كا دعوى اور آسمان كى خبريں دينا، اور بانسرى بجا كر اجرت لينا، اور باطل قسم كے كھيل كر كمانا يہ سب حرام ہيں "

ماخوذ از: الكافى.

اور ابن قيم رحمہ اللہ امام شافعى رحمہ اللہ كا مسلك بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:

" امام شافعى رحمہ اللہ كا مسلك جاننے والے صراحتا اس كى حرمت بيان كرتے ہيں، اور جس نے ان كى طرف اس كے حلال ہونے كا قول منسوب كيا ہے، انہوں نے اس قول كا انكار كيا ہے "

ديكھيں: اغاثۃ اللھفان ( 1 / 425 ).

اور شافعيہ ميں سے كفايۃ الاخبار كے مؤلف نے گانے بجانے اور بانسرى وغيرہ كو منكر ميں شمار كيا ہے، اور اس مجلس ميں جانے والے پر اس برائى اور منكر سے روكنے كو واجب قرار ديا ہے، وہ اس سلسلہ ميں كہتے ہيں:

" اور فقھاء سوء كا وہاں حاضر ہونا اس برائى كو روكنا ساقط نہيں كرتان كيونكہ وہ شريعت كو خراب كر رہے ہيں، اور نہ ہى وہاں گندے اور پليد فقراء كے حاضر ہونے سے برائى كو روكنا ساقط ہوتا ہے ( اس سے اس كى مراد صوفياء ہيں، كيونكہ وہ اپنے آپ كو فقراء كہتے ہيں ) كيونكہ يہ جاہل اور ہر بھونكنے والے كے پيچھے بھاگنے والے ہيں، ان كے پاس علم كا نور نہيں جس سے وہ سيدھى راہ پر چليں، بلكہ وہ ہوا كے ہر جھونكے كے ساتھ مائل ہو جاتے ہيں "

ديكھيں: كفايۃ الاخيار ( 2 / 128 ).

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس ميں امام احمد كا مسلك يہ ہے كہ: ان كے بيٹے عبد اللہ كہتے ہيں ميں نے اپنے باپ سے گانے بجانے كے متعلق دريافت كيا تو ان كا كہنا تھا: يہ دل ميں نفاق پيدا كرتا ہے، مجھے پسند نہيں، پھر انہوں نے امام مالك رحمہ اللہ كا قول ذكر كيا كہ: ہمارے نزديك ايسا كام فاسق قسم كے لوگ كرتے ہيں "

ماخوذ از: اغاثۃ اللھفان.

اور حنبلى مسلك كے محقق ابن قدامہ المقدسى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" گانے بجانے كى تين اقسام ہيں:

پہلى قسم: حرام.

وہ بانسرى اور سارنگى اور ڈھول اور گٹار وغيرہ بجانا ہے.

تو جو شخص مستقل طور پر اسے سنتا ہے اس كى گواہى قبول نہيں كى جائيگى، وہ گواہى ميں مردود ہے "

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 10 / 173 ).

اور ايك دوسرى جگہ پر كہتے ہيں:

" اور اگر اسے كسى ايسے وليمہ كى دعوت ملے جس ميں برائى ہو مثلا شراب نوشى، گانا بجانا، تو اس كے ليے اگر وہاں جا كر اس برائى سے منع كرنا ممكن ہو تو وہ اس ميں شركت كرے اور اسے روكے، كيونكہ اس طرح وہ دو واجب كو اكٹھا كر سكتا ہے، اور اگر روكنا ممكن نہ ہو تو پھر وہ اس ميں شركت نہ كرے "

ديكھيں: الكافى ( 3 / 118 ).

طبرى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" سب علاقوں كے علماء كرام گانے بجانے كى كراہت اور اس سے روكنے پر متفق ہيں، صرف ان كى جماعت سے ابراہيم بن سعد،اور عبيد اللہ العنبرى نے عليحدگى اختيار كى ہے.

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان تو يہ ہے كہ:

" آپ كو سواد اعظم كے ساتھ رہنا چاہيے، اور جو كوئى بھى جماعت سے عليحدہ ہوا وہ جاہليت كى موت مرا "

ديكھيں: تفسير قرطبى ( 14 / 56 ).

پہلے ادوار ميں كراہت كا لفظ حرام كے معنى ميں استعمال ہوتا تھا ليكن پھر بعد ميں اس پر تنزيہ كا معنى كا غالب آگيا، اور يہ تحريم كا معنى اس قول ليا گيا ہے: اور اس سے روكا جائے، كيونكہ جو كام حرام نہيں اس سے روكا نہيں جاتا، اور اس ليے بھى كہ دونوں حديثوں ميں اس كا ذكر ہوا ہے، اور اس ميں بہت سختى سے منع كيا گيا ہے.

اور امام قرطبى رحمہ اللہ نے ہى اس اثر كو نقل كيا ہے، اور اس كے بعد وہى يہ كہتے ہيں:

" ہمارے اصحاب ميں سے ابو الفرج اور ابو قفال كہتے ہيں: گانا گانے اور رقص كرنے والے كى گواہى قبول نہيں ہو گى "

ميں كہتا ہوں: اور جب يہ چيز ثابت ہو گئى كہ يہ جائز نہيں تو پھر اس كى اجرت لينا بھى جائز نہيں"

شيخ فوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:

" ابراہيم بن سعد اور عبيد اللہ عنبرى نے جو گانا مباح قرار ديا ہے وہ اس گانے كى طرح نہيں جو معروف ہے ..... تو يہ دونوں مذكور شخص كبھى بھى اس طرح كا گانا مباح نہيں كرتے جو انتہائى غلط اور گرا ہوئى كلام پر مشتمل ہے "

ماخوذ از: الاعلام.

ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" گانے بجانے كے آلات تيار كرنا جائز نہيں "

ديكھيں: المجموع ( 22 / 140 ).

اور دوسرى جگہ كہتے ہيں:

" گانے بجانے كے آلات مثلا ڈھول وغيرہ كا تلف اور ضائع كرنا اكثر فقھاء كے ہاں جائز ہے، امام مالك رحمہ اللہ كا مسلك يہى ہے، اور امام احمد كى مشہور روايت يہى ہے "

ديكھيں: المجموع ( 28 / 113 ).

اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:

" چھٹى وجہ: ابن منذر رحمہ اللہ گانے بجانے اور نوحہ كرنے كى اجرت نہ لينے پر علماء كرام كا اتفاق ذكر كرتے ہوئے كہتے ہيں:

اہل علم ميں سے جس سے بھى ہم نے علم حاصل كيا ہے ان سب كا گانے والى اور نوحہ كرنے والى كو روكنے پر اتفاق ہے، شعبى اور نخعى اور مالك نے اسے مكروہ كہا ہے، اور ابو ثور نعمان ـ ابو حنيفہ ـ اور يعقوب اور محمد ـ امام ابو حنيفہ كے دونوں شاگرد ـ رحمہم اللہ كہتے ہيں:

گانا گانے اور نوحہ كرنے كے ليے اجرت پر كوئى بھى چيز دينا جائز نہيں، اور ہمارا قول بھى يہى ہے "

اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:

گانا بجانا نفس كى شراب ہے، اور اسے خراب كر ديتا ہے، اور يہ نفس كے ساتھ وہ كچھ كرتا ہے جو شراب كا جام بھى نہيں كرتا "

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 10 / 417 ).

اور ابن ابى شيبہ نے روايت كيا ہے كہ:

" ايك شخص نے كسى شخص كا ڈھول توڑ ديا، تو وہ اپنا معاملہ قاضى شريح كے پاس لےگيا تو شريح نے اس پر كوئى ضمان قائم نہ كى ـ يعنى اس كو ڈھول كى قيمت كا نقصان بھرنے كا حكم نہيں ديا، كيونكہ وہ حرام ہے اور اس كى كوئى قيمت نہيں تھى "

ديكھيں: المصنف ( 5 / 395 ).

اور امام بغوى رحمہ اللہ نے گانے بجانے كے تمام آلات مثلا ڈھول، بانسرى باجا، اور سب آلات گانے بجانے كى خريد و فروخت حرام كا فتوى دينے كے بعد كہا ہے:

" تو جب تصويريں مٹا دى جائيں، اور گانے بجانے كے آلات كو اپنى حالت سے تبديل كر ديا جائے، تو اس كى اصل چيز اور سامان فروخت كرنا جائز ہے، چاہے وہ چاندى ہو يا لوہا، يا لكڑى وغيرہ "

ديكھيں: شرح السنۃ ( 8 / 28 ).

استثناء حق:

اس ميں سے جس چيز كا استنثاء حق ہے وہ صرف دف ہے ـ اور دف بھى وہ جس ميں كوئى كڑا اور چھلا وغيرہ نہ لگا ہو ـ اور پھر يہ دف شادى بياہ اور عيد كے موقع پر بجائى جائے، اور صرف عورتيں ہى استعمال كريں اس پر صحيح دلائل ملتے ہيں.

شيخ الاسلام رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے شادى وغيرہ كے موقع پر لہو كى ايك قسم كى رخصت دى ہے، كہ صرف عورتيں شادى بياہ كے موقع پر دف بجا سكتى ہيں، ليكن مرد حضرات نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں نہ تو دف بجاتے تھے، اور نہ ہى ہاتھ سے تالى، بلكہ صحيح بخارى ميں ثابت ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تالى بجانا عورتوں كے ليے ہے، اور سبحان اللہ كہنا مردوں كے ليے "

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مردوں كے ساتھ مشابہت كرنے والى عورتوں اور عورتوں سے مشابہت كرنے والے مردوں پر لعنت فرمائى ہے "

اور جب گانا اور دف بجانا عورتوں كا عمل تھا، تو سلف رحمہ اللہ مردوں ميں سے ايسا كام كرنے والوں كو مخنث اور ہيجڑا كے نام سے موسوم كرتے تھے، اور گانے والے مردوں كو ہيجڑے كا نام ديتے تھے، ـ آج كے ہمارے اس دور ميں يہ تو بہت زيادہ ہو چكے ہيں ـ اور سلف رحمہ اللہ كى كلام ميں يہ مشہور ہے، اس باب ميں سب سے مشہور حديث عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى ہے، جس ميں وہ بيان كرتى ہيں:

عيد كے ايام ميں ان كے والد ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ ان كے گھر آئے تو ان كے پاس انصار كى دو چھوٹى بچياں وہ اشعار گا رہى تھيں جو انصار نے يوم بعاث كے موقع پر كہے تھے ـ اور شائد كوئى عقل مند شخص اس كا ادراك كرے كہ لوگ جنگ ميں كيا كہا كرتے تھے ـ تو ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:

كيا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے گھر ميں شيطان كى سر اور مزمار ميں سے ايك سر ؟

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنا چہرہ ان دونوں بچيوں سے پھير كر دوسرى طرف ديوار كى جانب كيا ہوا تھا ـ اس ليے بعض علماء كا كہنا ہے، ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے كسى شخص كو ڈانٹنے اور اس پر انكار كرنے والے نہيں تھے، ليكن انہوں نے يہ خيال اور گمان كيا كہ جو كچھ ہو رہا ہے اس كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو علم نہيں ہے، اگر علم ہوتا تو ايسا نہ ہوتا، و اللہ اعلم ـ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كہنے لگے:

اے ابو بكر انہيں كچھ نہ كہو، كيونكہ ہر قوم كى عيد ہوتى ہے، اور ہمارى اہل اسلام كى عيد يہ ہے "

تو اس حديث ميں يہ بيان ہوا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ كرام كى عادت ميں يہ چيز شامل نہ تھى، اسى ليے ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ نے اسے شيطان كى آواز اور مزمار قرار ديا ـ اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس نام كو برقرار ركھا، اور اس سے انكار اور منع نہ كيا، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كو يہ فرمايا تھا:

" انہيں رہنے دو اور كچھ نہ كہو، كيونكہ ہر قوم كى عيد ہوتى ہے، اور ہمارى عيد يہ ہے "

تو اس ميں اشارہ كيا كہ اس كے مباح ہونے كا سبب عيد كا وقت ہونا ہے، تو اس سے يہ سمجھ آتى ہے كہ عيد كے علاوہ باقى آيام ميں يہ حرام ہے، ليكن دوسرى احاديث ميں اس سے شادى بياہ كا موقع مستثنى كيا گيا ہے، علامہ البانى رحمہ اللہ نے اپنى كتاب " تحريم الآت الطرب " ميں اس كى تفصيل بيان كرتے ہوئے كہا ہے:

" اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عيد كے موقع پر بچيوں كو اس كى اجازت دى ہے، جيسا كہ حديث ميں ہے "

تا كہ مشركوں كو علم ہو جائے كہ ہمارے دين ميں وسعت ہے "

اور ان بچيوں كے قصہ والى حديث ميں يہ نہيں ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے كان لگا كر سنا تھا، كيونكہ نيكى كا دينا، اور برائى سے منع كرنے كا تعلق تو استماع يعنى كان لگا كر سننے سے ہے، نا كہ صرف سماع اور كان ميں پڑنے كے متعلق، جيسا كہ ديكھنے ميں ہے، كيونكہ اس كا تعلق بھى قصدا ديكھنے سے ہے، نہ كہ جو بغير كسى ارادہ و قصد كے ہو "

تو اس سے يہ ظاہر ہوا كہ يہ صرف عورتوں كے ليے ہے، حتى كہ امام ابو عبيد رحمہ اللہ نے تو دف كى تعريف كرتے ہوئے يہ كہا ہے:

" دف وہ ہے جو عورتيں بجائيں "

ديكھيں: غريب الحديث ( 3 / 64 ).

تو ان ميں سے بعض كو چاہيے كہ وہ شرعى پردہ ميں باہر نكليں .

باطل استثناء:

بعض افراد نے جنگ ميں ڈھول كو مستثنى كيا ہے، اور بعض معاصرين حضرات نے اس سے فوج بينڈ اور موسيقى اس سے ملحق كى ہے، حالانكہ بالكل اس كى كوئى وجہ نہيں ہے، اس كى كئى ايك وجوہات ہيں:

پہلى وجہ:

يہ حرمت والى احاديث كو بلا كسى مخصص كے خاص كرنا ہے، صرف ايك رائے اور استحسان ہے، اور يہ باطل ہے.

دوسرى:

جنگ كى حالت ميں مسلمانوں پر فرض تو يہ ہوتا ہے كہ وہ اپنے دلوں و جان كے ساتھ اپنے پروردگار كے طرف متوجہ ہوں.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

وہ آپ سے غنيمتوں كے متعلق دريافت كرتے ہيں، آپ كہہ ديجئے كہ غنيمت اللہ تعالى اور اس كے رسول كے ليے ہے، تو تم اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو، اور آپس ميں اصلاح كرو "

اور موسيقى كا استعمال تو انہيں خراب كريگا، اور انہيں اللہ تعالى كے ذكر اور ياد سے دور كريگا.

تيسرى:

موسيقى كا استعمال كفار كى عادت ميں شامل ہوتا ہے، اس ليے ان سے مشابہت اختيار كرنا جائز نہيں، اور خاص كر اس ميں جو اللہ تعالى نے حرام كيے ہيں، اور يہ حرمت عمومى ہے، مثلا موسيقى وغيرہ "

ديكھيں: السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ ( 1 / 145 ).

حديث ميں وارد ہے:

" ہدايت پر ہونے كے بعد قوم كبھى گمراہ نہيں ہوئى، الا يہ كہ وہ جھگڑا كرنے لگے "

صحيح.

اور بعض افراد نے مسجد نبوى شريف ميں حبشيوں كے كھيل والى حديث سے گانے بجانے كى اباحت پر استدلال كيا ہے! امام بخارى رحمہ نے اس حديث پر صحيح بخارى ميں يہ باب باندھا ہے: " عيد كے روز نيزہ بازى اور ڈھال استعمال كرنے كا باب "

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اس ميں آلات حرب كے ساتھ مسجد ميں كھيلنے كا جواز پايا جاتا ہے، اور اس كے ساتھ ان اسباب كو بھى ملحق كيا جائيگا جو جھاد ميں ممد و معاون ثابت ہوتے ہيں "

ماخوذ از: شرح مسلم للنووى.

ليكن جيسا كہ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جو شخص اپنے فن كے علاوہ كسى اور كے متعلق بات كريگا تو وہ اس طرح كے عجائبات ہى لائيگا "

اور بعض افراد نے ان بچيوں كے اشعار گانے والى حديث سے استدلال كيا ہے، اور اس پر پہلے كلام كى جا چكى ہے، ليكن يہاں ہم ابن قيم رحمہ اللہ كى كلام ذكر كرتے ہيں، كيونكہ يہ كلام بہت اچھى اور قيمتى ہے:

" اور اس سے بھى زيادہ تعجب والى چيز تو آپ لوگوں كا ايك كم عورت كے ہاں دو چھوٹى اور نابالغ بچيوں كے عيد و خوشى والے دن عرب كے ان اشعار كے پڑھنے سے جن ميں شجاعت و بہادرى، اور مكارم اخلاق كا بيان ہے، اس مركب گانے بجانے پر استدلال ہے جس كى اجتماعى شكل و ہئيت ہم بيان كر چكے ہيں، كہاں يہ گانے اور كہاں وہ اشعار، عجيب تو يہ ہے كہ يہ حديث تو ان كے خلاف دلائل ميں سب سے بڑى حجت ہے.

اس ليے كہ صديق اكبر رضى اللہ تعالى عنہ نے تو ان اشعار كو بھى مزمار شيطان قرار ديا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كے اس نام كو برقرار ركھا، اور ان دو غير مكلف بچيوں كو اس كى رخصت دى، نہ تو ان كے اشعار پڑھنے ميں اور نہ ہى انہيں سننے ميں كوئى خرابى ہے.

تو كيا يہ حديث اس كى اباحت اور جواز پر دلالت كرتى ہے جو آپ لوگ سماع كى محفل ميں اور گانے بجانے كا كام كرتے ہو جو ايسى اشياء پر مشتمل ہے جو مخفى نہيں ؟!

سبحان اللہ عقليں اور سمجھ كيسے گمراہ ہو چكے ہيں "

ديكھيں: مدارج السالكين ( 1 / 493 ).

اور ابن جوزى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بھى اس وقت چھوٹى عمر كى تھيں، اور بلوغت كے بعد ان سے بھى گانے بجانے كى مذمت ہى ثابت ہے، ان كے بھانجے قاسم بن محمد گانے بجانے كى مذمت كيا كرتے تھے، اور اسے سننے سے منع كيا كرتے تھے، اور انہوں نے علم عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے حاصل كيا تھا "

ديكھيں: تلبيس ابليس ( 229 ).

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" صوفيوں نے اس باب والى حديث سے گانے بجانے كے آلات اور آلات كے بغير محفل سماع سننے اور منعقد كرنے پر استدلال كيا ہے، اس كے رد كے ليے اسى باب كى عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا والى حديث ہى كافى ہے جس ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى صريح موجود ہے كہ " وہ دونوں بچياں گانے بجانے والى نہ تھيں "

تو ان دونوں سے معنى كے اعتبار سے اس كى نفى ہو گئى جو الفاظ سے ثابت كيا گيا ہے... تو اصل ( يعنى حديث ) كے مخالف ہونے كى وجہ سے اسے نص ميں وارد وقت اور كيفيت اور قلت پر ہى مقتصر ركھا جائيگا، واللہ اعلم "

ديكھيں: فتح البارى ( 2 / 442 - 443 ).

اور بعض نے تو اتنى جرات كى ہے كہ گانے بجانے كى سماعت كو صحابہ كرام كى طرف منسوب كر ديا ہے، اور يہ كہا ہے كہ وہ اس ميں كوئى حرج نہيں سمجھتے تھے !!

شيخ فوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:

" ہم مطالبہ كرتے ہيں كہ جو كچھ ان كى طرف منسوب كيا گيا ہے اس كى ان صحابہ كرام اورتابعين تك صحيح سند ثابت كي جائے "

پھر شيخ كہتے ہيں:

" امام مسلم رحمہ اللہ نے صحيح مسلم كے مقدمہ ميں عبد اللہ بن مبارك رحمہ اللہ سے بيان كيا ہے كہ: اسناد بيان كرنا دين ميں شامل ہے، اور اگر سند نہ ہوتى تو جو كوئى شخص جو چاہتا كہتا پھرتا "

اور بعض كا كہنا ہے كہ: گانے بجانے كو حرام كرنے والى جتنى بھى احاديث ہيں، ان سب پر جرح كى گئى ہے، اور ان ميں سے كوئى حديث بھى فقھاء حديث اور علماء كے ہاں طعن سے خالى نہيں!!

ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" گانے بجانے كى حرمت ميں وارد شدہ احاديث ميں كوئى حديث بھى جرح شدہ نہيں، جيسا كہ آپ گمان كرتے ہيں، بلكہ ان ميں سے كچھ احاديث تو صحيح بخارى ميں ہيں، جو كہ كتاب اللہ كے بعد صحيح ترين كتاب ہے، اور كچھ احاديث حسن ہيں، اور كچھ ضعيف، اور يہ احاديث كثرت اور كئى ايك طرق اور كتب ميں ہونے كى بنا پر ظاہر حجت اور قطعى برھان ہيں كہ گانا بجانا حرام ہے "

( اور ابو حامد الغزالى كے علاوہ باقى سب آئمہ كرام گانے بجانے كى حرمت ميں آنے والى احاديث كے صحيح ہونے پر متفق ہيں، اور غزالى كو علم حديث كا پتہ ہى نہيں، اور ابن حزم، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اس غزالى كى غلطى كو بڑى وضاحت كے ساتھ بيان كيا ہے، اور ابن حزم خود كہتے ہيں: اگر اس ميں سے كچھ صحيح ہوتا تو وہ اس كا كہتے، ليكن اس دور ميں كچھ ايسے بھى ہيں جنہيں اہل علم كى كتب كى كثرت كى ساتھ اس كى صحت كا ثبوت ملا ہے، اور ان سے ان احاديث كى صحت تواتر سے ملى ہے، ليكن اس كے باوجود انہوں نے اس سے اعراض كيا ہے، تو يہ ابن حزم سے بھى سخت ہيں، اور اس جيسے نہيں، تو يہ لوگ نہ تو اہليت كے قابل ہيں، اور نہ ہى ان كى طرف رجوع كيا جا سكتا ہے "

اور بعض كا كہنا ہے كہ: علماء كرام نے گانا بجانا حرام كيا ہے، كيونكہ يہ شراب نوشى اور رات كو حرام كام كے ليے جاگنے كے ساتھ ہوتا ہے !

امام شوكانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس كا جواب يہ ديا جائيگا كہ اس كے ساتھ ملا ہوا ہونا اس پر دلالت نہيں كرتا كہ صرف جمع ہونا حرام ہے، وگرنہ يہ لازم آئيگا كہ احاديث ميں جس زنا كے حرام ہونے كى صراحت ہے وہ بھى صرف اس وقت حرام ہو گا جب شراب نوشى كى جائے، اور گانے بجانا استعمال ہو، تو اجماع سے لازم باطل ہے، تو اسى طرح ملزوم بھى باطل ہوگا، اور پھر يہى نہيں بلكہ اللہ تعالى كے درج ذيل فرمان ميں بھى اسى طرح لازم آئيگا:

اللہ تعالى كا فرمان ہے:

﴿ بلا شبہ يہ اللہ عظيم الشان پر ايمان نہ ركھتا تھا، اور مسكين كو كھلانے كى رغبت نہ دلاتا تھا ﴾الحاقۃ ( 33 - 34 ).

تو پھر يہ لازم آئيگا كہ اللہ تعالى پر عدم ايمان حرام تو اس وقت ہو گا جب مسكينوں كو كھلانے كى رغبت نہ دلائى جائے، اور اگر يہ كہا جائے اس طرح كے مذكورہ الزام والے امور كى حرمت دوسرى دليل سے ثابت ہے تو اس كا جواب يہ ہے كہ: گانے بجانے كى حرمت بھى دوسرى دليل سے ثابت ہے، جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے "

ديكھيں: نيل الاوطار ( 8 / 107 ).

اور بعض لوگ يہ كہتے ہيں كہ: لھو الحديث سے مراد گانا بجانا نہيں، تو اس كا رد اوپر بيان ہو چكا ہے، قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں: يہ ـ يعنى اس سے مراد گانا بجانا ہے والا قول ـ اس آيت كى تفسير ميں جو كچھ كہا گيا ہے اس ميں سب سے اعلى يہى ہے، اور اس پر ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما نے تين بار حلف اور قسم اٹھائى ہے كہ اس ذات كى قسم جس كے علاوہ كوئى اور معبود برحق نہيں، كہ اس سے مراد گانا بجانا ہے "

پھر قرطبى نے اس ميں آئمہ كرام كے اقوال نقل كيے ہيں، اور اس كے علاوہ دوسرے اقوال بھى ذكر كرنے كے بعد كہا ہے:

اس مسئلہ ميں جتنے بھى اقوال ہيں ان ميں سے سب اولى اور بہتر پہلا قول ہے، اس كى دليل مرفوع حديث اور صحابہ كرام اورتابعين عظام كے اقوال ہيں "

ماخوذ از: تفسير قرطبى.

اس تفسير كو ذكر كرنے كے بعد ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ابو عبد اللہ الحاكم نے اپنى كتاب مستدرك حاكم ميں تفسير كے باب ميں كہا ہے كہ: طالب علم كو يہ معلوم ہونا چاہيے كہ صحابى كى تفسير شيخين كے ہاں مسند حديث ہے، كيونكہ صحابى نے قرآن مجيد كى وحى كا مشاہدہ كيا ہے "

اور ايك دوسرى جگہ پر كہتے ہيں:

" اور ہمارے نزديك يہ مرفوع كے حكم ميں ہے "

اگرچہ اس ميں كچھ اختلاف ہے، ليكن بعد والوں كى تفسير كى بجائے صحابى كى تفسير كو قبول كرنے كے اعتبار سے يہ اولى ہے، كيونكہ صحابہ كرام امت ميں سے سب زيادہ اللہ تعالى كى كتاب كى مراد كو سمجھنے والے تھے، كيونكہ ان كے دور ميں صحابہ كرام پر قرآن مجيد نازل ہوا اور امت ميں سے سب سے پہلے انہيں كو مخاطب كيا گيا، اور انہوں نے اس كى علمى اور عملى تفسير كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مشاہدہ بھى كيا اور حقيقتا وہ فصيح عرب تھے، اس ليے ان كى تفسير ملنے كى صورت ميں اسے چھوڑ كر كسى اور طرف جانا صحيح نہيں "

ماخوذ از: اغاثۃ

اتوار، 4 مارچ، 2018

شام کے بارے میں تحریر مطلوب ہے

*بلاد شام* –تاریخ وفضیلت اور موجودہ شام (سیریا) :
مقبول احمد سلفی


بلاد شام کی تاریخ

بلاد شام چارممالک پر مشتمل ہےوہ سوریہ ،لبنان،فلسطین اور اردن  ہیں۔پہلی عالمی  جنگ عظیم تک یہ چاروں ممالک ملک شام سے شامل تھا۔  انگریزوں اور اہل فرانس کی مکاری سے اسے ٹکڑوں میں تقسیم کردیا گیااور 1920موجودہ شام بنام سوریاوجود میں آیا۔ انگریزی میں سوریا کو سیریااور عربی میں عرب جمہوریہ سوریا کہاجاتا ہے ۔ اسے اردو میں شام کہا جاتا ہے ۔

موجودہ شام براعظم ایشیا کے انتہائی مغرب میں واقع ہے جو تین براعظموں کا سنگم ہے ۔ براعظم ایشیا، براعظم پورپ اور براعظم افریقہ ۔ اس کے مغرب میں بحر متوسط اور لبنان، جنوب مغرب میں فلسطین اور مقبوضہ فلسطین(اسرائیل)، جنوب میں اردن ،مشرق میں عراق اور شمال میں ترکی ہے ۔

قرآن وحدیث کی روشنی میں جب ملک شام کی بات ہوتو اس سے چاروں ممالک(سوریا،لبنان،فلسطین،اردن)  مراد ہوں گے ۔ یہاں اسی پس منظر میں تحریر ہوگی ۔بلاد شام میں فلسطین کا شہر بیت المقدس اور سوریا کا شہر دمشق تاریخی  اور شرعی اعتبار سے کافی اہمیت کا حامل ہے۔

مسجد اقصی کے بےشمار فضائل ہیں،یہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور دنیا کی دوسری مسجد ہے جو کعبہ کے بعد بنائی گئی اس کے بنانے والے انبیاء ہیں ۔نبی ﷺ نےمعراج میں اس کا سفر کیا اور زیارت کے طور پر یہاں پر سفر کرنے کا حکم بھی دیا ہے ۔ یہاں پر ایک وقت کی نماز ڈھائی سو نماز کے برابر ہے ۔ یہاں پر اللہ تعالی  نے بے پناہ برکت رکھی ہے اور یہ مقدس سرزمین ہے ۔

نبی ﷺ نے نبوت سے پہلے دومرتبہ ملک شام کا سفر کیا ۔ایک مرتبہ اپنے چچا کے ساتھ جو بحیرہ راہب کےواقعہ  کے ساتھ معروف ہے ۔ دوسری مرتبہ حضرت خدیجہ کا مال لیکر تجارت کی غرض سے ۔

یہ شام  ہمیشہ علم وفن اور نور نبوت سے منور رہا ہے ۔ یہاں بہت سارے انبیاء آئے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بھیجے کے ساتھ عراق سے شام کا سفر کیااور یہیں سے اللہ کے حکم پر سیدہ ہاجرہ اوراسماعیل علیہ السلام کو لق ودق صحرا میں چھوڑنے کے لئے سفر کیا تھا۔ آپ کے بعد اسحاق علیہ السلام ، یعقوب علیہ السلام ، ایوب علیہ السلام ، داؤد علیہ السلام ، سلیمان علیہ السلام ، الیاس علیہ السلام ، الیسع علیہ السلام ، زکریا علیہ السلام ، یحی علیہ السلام  اور عیسی علیہ السلام آئے۔

نبی ﷺ نے اسامہ بن زید کو ایک لشکر دے کراس کی طرف روانگی کا حکم دیا تھا مگر عین وقت پر آپ کی بیماری کی وجہ سے یہ لشکر روانہ نہ ہوسکا ۔ آپ کی وفات کے   بعد بغیر تاخیر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت اسامہ کو لشکر کے ساتھ روانہ کیااور فتح یابی سے ہمکنار ہوا۔ عہد فاروقی میں بیت المقدس فتح ہوگیا۔

اسی سرسبزوشاداب  سرزمین میں امام نووی شارح صحیح مسلم ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ ، علامہ ابن القیم ، حافظ ابن عساکر اورحافظ ابن حجر عسقلانی  وغیرہ جیسے علماء وفضلاء پیدا ہوئے ۔ یہاں بہت سارے انبیاء ، بہت سارے علماء ومحدثین اور بہت سارے صحابہ کرام مدفون ہیں ۔

قرآن وحدیث کی روشنی میں بلاد شام کی فضیلت

قرآن وحدیث میں بہت سارے نصوص شام کی فضیلت سے متعلق ہیں ، مختصرا چند فضائل یہاں ذکر کئے جاتے ہیں ۔

(1) بابرکت سرزمین : مسجد اقصی اور اس کے ارد گرد اللہ نے برکت رکھی ہے ، اللہ کا فرمان ہے :

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (الاسراء:1)

ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو ایک رات میں مسجدحرام سے مسجد اقصی تک کہ جس کے ارد گرد ہم نے برکت رکھ دی ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں ۔یقینا اللہ تعالی ہی خوب سنے دیکھنے والا ہے ۔

اور نبی ﷺ سے پورے شام کے لئے دعائے برکت کرنا ثابت ہے ۔ آپ ﷺ نے دعا کی :

اللهمَّ بارِكْ لنا في شامِنا ، اللهمَّ بارِكْ لنا في يَمَنِنا (صحيح البخاري:7094)

ترجمہ: اے اللہ! ہمیں برکت عطا فرما ہمارے شام میں، ہمیں برکت دے ہمارے یمن میں۔

(2) ایمان والی سرزمین :

نبی ﷺ نے فرمایا:

بَينا أنا نائمٌ رأيتُ عمودَ الكتابِ احْتُمِلَ مِن تحتِ رأسي فعُمِدَ بهِ إلى الشَّامِ ، ألا وإنَّ الإيمانَ حين تقعُ الفتنُ بالشَّامِ .(صحيح الترغيب:3094)

ترجمہ: میں نے خواب میں دیکھا کہ کچھ لوگ کتاب(دین) کا ایک بنیادی حصہ لے گئے اور انہوں نے (ملک) شام کا قصد کیا۔ پس جب فتنے رونما ہوں تو ایمان شام میں ہوگا۔

(3) میدان حشر: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

ستَخرُجُ نارٌ من حَضرموتَ أو من نحوِ بحرِ حضرموتَ قبلَ يومِ القيامةِ تَحشُرُ النَّاسَ قالوا : يا ترجمہ: رسولَ اللَّهِ ، فما تأمُرُنا ؟ فقالَ : عليكُم بالشَّامِ(صحيح الترمذي:2217)

ترجمہ: قیامت سے پہلے حضرموت یا حضرموت کے سمندرکی طرف سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو اکٹھاکرے گی ، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس وقت آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں’، آپ نے فرمایا:’ تم شام چلے جانا۔

(4) اہل شام کے لئے فرشتے پربچھاتے ہیں:نبی ﷺ کا فرمان ہے :

طوبى للشامِ فقلْنا لأيٍّ ذلك يا رسولَ اللهِ قال لأن ملائكةَ الرحمنِ باسطةٌ أجنحَتَها عليْها(صحيح الترمذي:3954)

ترجمہ: مبارکبادی ہو شام کے لیے، ہم نے عرض کیا: کس چیز کی اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا:’اس بات کی کہ رحمن کے فرشتے ان کے لیے اپنے بازو بچھا تے ہیں۔

(5) نومسلموں کے ذریعہ دین کی مدد : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

إذا وقعتِ الملاحِمَ، بعثَ اللَّهُ بعثًا منَ الموالي، هم أَكرَمُ العربِ فَرَسًا، وأجودُهُ سلاحًا، يؤيِّدُ اللَّهُ بِهمُ الدِّينَ(صحيح ابن ماجه:3319)

ترجمہ: جب جنگیں ہوں گی تو اللہ تعالی موالی(نومسلموں )کاایک لشکر کھڑا کرے گا۔ ان کے گھوڑے عرب کے بہترین گھوڑے ہوں گے اور ان کا اسلحہ سب سے عمدہ ہوگا۔ اللہ تعالی ان کے ذریعے سے دین کی مدد کرے گا۔
بعض روایت میں الفاظ ہیں ” اذا وقعتِ الملاحمُ بعث اللهُ من دمشقَ بعثًا من الموالي أكرمُ العربِ فرسًا وأجودُهم سلاحًا يُؤَيِّدُ اللهُ بهمُ الدِّينَ”یعنی دمشق سے نومسلموں کا ایک لشکر کھڑا کرے گا۔ اس روایت کو شیخ البانی نے فضائل الشام ودمشق میں صحیح کہا ہے ۔

(6) اہل شام کے حق پرست جماعت کو اللہ کی مدد:

قرہ بن ایاس المزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

إذا فسدَ أَهْلُ الشَّامِ فلا خيرَ فيكم : لا تَزالُ طائفةٌ من أمَّتي منصورينَ لا يضرُّهم من خذلَهُم حتَّى تقومَ السَّاعةُ(صحيح الترمذي:2192)

ترجمہ: اگر اہل شام میں فساد برپا ہوجائے تو پھر تم میں کوئی خیر نہیں ہے۔ میری امت میں ہمیشہ ایک ایسی جماعت رہے گی جس کو اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوگی اور اس کو نیچا دکھانے والے قیامت تک اس جماعت کو نقصان نہیں پہونچا سکتے ہیں۔

(7) شام ارض مقدس اور بوقت خلافت قرب قیامت کا سبب ہے:

نبی ﷺ نے فرمایا:

يا ابنَ حوالةَ، إذا رأيتَ الخلافةَ قد نزَلَت أرضَ المقدَّسةِ فقَد دنَتِ الزَّلازِلُ والبَلابلُ والأمُورُ العِظامُ، والسَّاعةُ يومَئذٍ أقرَبُ منَ النَّاسِ من يدي هذِهِ من رأسِكَ(صحيح أبي داود:2535)

ترجمہ: اے ابن حوالہ ! جب تم دیکھو کہ خلافت ارض مقدس ( شام ) تک پہنچ گئی ہے تو زلزلے آنے لگیں گے ‘ مصیبتیں ٹوٹیں گی ۔اور بھی بڑی بڑی علامتیں ظاہر ہوں گی اور قیامت اس وقت لوگوں کے اس سے زیادہ قریب ہو گی جتنا کہ میرا ہاتھ تمہارے سر پر ہے ۔

(8) نزول عیسی علیہ السلام اور قتل دجال : نبی ﷺ نے فرمایا:

ينزل عيسى بن مريم ، عند المنارة البيضاء شرقي دمشق فيدركه عند بًاب لد فيقتله(صحيح أبي داود:4321)

ترجمہ: دمشق کے مشرق میں سفید منارے کے پاس عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے ‘ پس وہ (دجال کو) اس باب لد کے پاس پائیں گے اور اس کا کام تمام کر دیں گے ۔

ان کے علاوہ اور بھی شام کے فضائل وخصوصیات ہیں مثلا یہ مومنوں کا مسکن ، بہترین بندوں کی سرزمین ، مال غنیمت اور رزق کی جگہ ہے جنہیں بخوف طوالت چھوڑ دیا گیا۔

موجودہ شام (سوریا) کے حالات

ارض مقدس بلاد شام کا ایک حصہ موجودہ شام (سوریا)اس وقت آگ وخون کی لپیٹ میں ہے ۔ یہ سلسلہ 2011 سے شروع ہوا  جو  رکنے کا نام نہیں لے رہاہے۔ پانچ سالوں میں ڈھائی لاکھ لوگ مرچکے ہیں ۔ ہزاروں کی تعداد میں شہری مصر،لبنان، عراق،اردن ،ترکی اور سعودی عرب میں پناہ گزین ہیں۔سوریا کے اکثر شہر خصوصا درعا، رستن،جسرالثغور،ادلب اورحمص وغیرہ میں توپوں،بموں ،ٹینکوں اور میزائلوں سے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی گئی۔ ہزاروں مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ اور اس وقت شام کا شہر حلب مسلمانوں کے خون سے  بالکل شرابور ہے ۔ بچہ بچہ بلک رہاہے ، عورتیں چیخ رہی ہیں، مردوجوان آہ وبکا لگارہے ہیں ۔حلب ہی نہیں پورے شام میں ہرجانب سے یامسلمون المدد ،یا عرب المدد کی لرزتی ،کپکپاتی صدائیں بلند ہورہی  ہیں۔ بشار الاسدنصیری ظالم حاکم اور اس کا ظالم فوجی  مسلمانوں پر ظلم کرنے کا کوئی طریقہ نہیں چھوڑاہے ۔عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی،جلتے سگریٹ سے داغنا،آگ سے جلانا،جسم میں سوراخ کرنا، ہاتھ اور پیر کاٹنا،زندہ انسان کے جسم سے چمڑی چھیلنا،کھولتا پانی جسم پر اور حلق میں ڈالنا،جسم میں کیل وکاٹے ٹھوکنا، ستانے کے لئے جسم کے مختلف حصے پر گولی داغنا ،جسم کی ہڈیا ں توڑنا، عضو تناسل کاٹنا،گدی سے زبان کھیچناوغیرہ وغیرہ حیوانیت سوز سزائیں دی جارہی ہیں ۔ اس طرح سے  ایک جانور کے ساتھ بھی کرنا درندگی شمار ہوگا۔ الحفیظ والامان

اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق گذشتہ اکیس مہینوں میں 60 ہزار شامی ہلاک ہوچکے ہیں ۔ ان کے علاوہ نہ جانے کتنے لاپتہ،کتنے فرار، کتنے اسپتال میں اورکتنے اعدادوشمار سے باہر ہوں گے ۔

اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود عالمی برادری ، اقوام متحدہ  اور بین الاقوامی تنظیمیں خاموش ہیں ۔ مسلم حکمراں ، مسلم تنظیمیں اور مسلم ذمہ داران بھی غفلت کی لمبی چادر تانے سورہے ہیں ۔ ہم مسلمانوں کو اپنے شامی بھائیوں کے جان ومال کے تحفظ کے لئے اسی وقت اقدام کرنا ہوگا۔ ہمیں ان کی ہرطرح سے امداد دینی ہوگی ۔  خوابیدہ ضمیرذمہ داروں کو جگانا ہوگا۔ ظالم حکمرانوں کو  سبق سکھانا ہوگا۔ ظلم کو ہوادینے والوں، اتحاد کو توڑنے اور انتشار وانارکی کو پھیلانے والوں کا گلا دباہوگا۔ مظلوم بھائیوں کے لئے کثرت سے دعا کریں  اور امداد کی جو صورت آپ کو نظر آئے پیش کرنے میں دریغ نہ کریں  خواہ قنوت نازلہ یا دعائے نیم شبی کے ذریعہ ہی سہی۔

یااللہ !شامی مسلمان کی غیبی مدد فرما، مسلم خواتین کی عزت وآبروکی حفاظت فرما،  ظالموں کو فرشتوں اور پاکباز مجاہدوں کے ذریعہ نیست ونابود کردے، رذیل اقوام جو شامی مسلمانوں کی تباہی پہ تلےہیں انہیں خاکستردے۔ اور پورے جہان کے مسلمانوں کو اپنی پناہ میں لے لے ۔ آمین یارب العالمین۔

بدھ، 28 فروری، 2018

سیرت کی کتابین

✺ دارالمصنفین ✺:
​​..........  #سیرت_رسول_اکرمﷺ ❶ ..........
محترم ممبران السلام علیکم! آپ حضرات کی خدمت میں سیرت نبویﷺ سے متعلق بعض اہم کتب پیش کرنے کی سعادت حاصل ہورہی ہے۔
https://telegram.me/darulmusannifeen
.......... ※.......... ※.......... ※..........※..........
① سیرت النبیﷺ ❼ جلد
https://t.me/darulmusannifeen/207
② سیرت ابن ہشام ❷ جلد
https://t.me/darulmusannifeen/10253
③ سیرت المصطفیٰ ❸ جلد
https://t.me/darulmusannifeen/197
④ سیرت حلبیہ ❻ جلد
https://t.me/darulmusannifeen/4769
⑤ سیرت النبیﷺ ❻ جلد تخریج شدہ
https://t.me/darulmusannifeen/9444
⑥ رحمۃ للعالمین ❸ جلد
https://t.me/darulmusannifeen/4490
⑦ ہادی عالم (غیر منقوط سیرت)
https://t.me/darulmusannifeen/3418
⑧ خصوصیات مصطفیٰ ﷺ ❹ جلد
https://t.me/darulmusannifeen/3105
⑨ آنحضرت ﷺ کے فضائل و شمائل
https://t.me/darulmusannifeen/2626
⑩ الرحیق المختوم اردو
https://t.me/darulmusannifeen/5656
 ⑪ الرحیق المختوم عربی
https://t.me/darulmusannifeen/8446
⑫ سیرت الانبیاء قدم بہ قدم
https://t.me/darulmusannifeen/2138
⑬ النبی الخاتم ﷺ
https://t.me/darulmusannifeen/185
⑭ سیرت رسول اکرمﷺ
https://t.me/darulmusannifeen/9922
⑮ سیرت النبیﷺ انسائیکلوپیڈیا
https://t.me/darulmusannifeen/719
⑯ اسوہ حسنہ (شمائل کبری) ⑫ جلد
https://t.me/darulmusannifeen/719
⑰ کتاب الشفاء اردو ❷ جلد (قاضی عیاضؒ)
https://t.me/darulmusannifeen/4024
⑱ الخصائص الکبری ❷ جلد (علامہ جلال الدین سیوطیؒ)
https://t.me/darulmusannifeen/3314
⑲ سیرت خاتم الانبیاء (شفیع عثمانیؒ)
https://t.me/darulmusannifeen/3659
{20} محمد عربی ﷺ انسائیکلوپیڈیا
https://t.me/darulmusannifeen/1991
{21} بشریت انبیاء {مولانا عبدالماجد دریاآبادیؒ}
https://t.me/darulmusannifeen/2242
{22} شرح شمائل ❸ جلد
https://t.me/darulmusannifeen/2374
{23} حیات محمدﷺ
https://t.me/darulmusannifeen/5247
{24} زبدۃ الشمائل
https://t.me/darulmusannifeen/2453
{25} ذکر نبیﷺ
https://t.me/darulmusannifeen/5076
{26} معجزات سید المونین ﷺ
https://t.me/darulmusannifeen/4794
{27} رحمت عالم ﷺ
https://t.me/darulmusannifeen/5571
{28} قرآن مجید میں آپ ﷺ کا تذکرہ
https://t.me/darulmusannifeen/9913
{29} حضرت محمد ﷺ کی پاک زندگی {ہندی}
https://t.me/darulmusannifeen/3524
{30} سیرت النبیﷺ کے مختلف پہلو {ہندی}
https://t.me/darulmusannifeen/3522
{31} فائنالٹی آف پروفیٹ ﷺ {سیرت النبی انگلش}
https://t.me/darulmusannifeen/4129
{32} حلیہ نبی اکرمﷺ
https://t.me/darulmusannifeen/2236
{33} نبی رحمت ﷺ
https://t.me/darulmusannifeen/9881
{34} آفتاب نبوت ﷺ
https://t.me/darulmusannifeen/7684
{35} نبی اکرمﷺ بحیثیت معلم
https://t.me/darulmusannifeen/3286
{36} نبی اکرمﷺ کا کھانا پینا
https://t.me/darulmusannifeen/4402
{37} رسول اکرمﷺ کی ازدواجی زندگی
https://t.me/darulmusannifeen/2890
{38} رسول اکرمﷺ کا طریقہ نماز
https://t.me/darulmusannifeen/3043
{39} رسول اکرم ﷺ کی ہنسی خوشی اور مذاق
https://t.me/darulmusannifeen/4086
{40} پیغمبر اسلام ﷺ اور تجارت
https://t.me/darulmusannifeen/2433
{41} رسول اکرمﷺ کی اذان و نماز
https://t.me/darulmusannifeen/1025
{42} اخلاق و اوصاف نبویﷺ
https://t.me/darulmusannifeen/349
{43} سیرت رسول اکرمﷺ {شفیع عثمانیؒ}
https://t.me/darulmusannifeen/9860
{44} بیانات سیرت نبویہ ﷺ
https://t.me/darulmusannifeen/1458
{45} رسول اللہﷺ کے ۳۰۰ سو معجزات
https://t.me/darulmusannifeen/1890
{46} اسماء النبیﷺ کے فضائل و خصوصیات
https://t.me/darulmusannifeen/1282
{47} سیرت محمدی ﷺ عالم انسانیت کیلئے مشعل راہ
https://t.me/darulmusannifeen/10214
{48} شاہراہ علم سیرت النبیﷺ نمبر
https://t.me/darulmusannifeen/9858
{49} سیرت النبیﷺ کے چند پہلو
https://t.me/darulmusannifeen/9854
{50} حجۃ الوداع و عمرات النبیﷺ
https://t.me/darulmusannifeen/8671

بدھ، 29 نومبر، 2017

میلاد کی شرعی حیثیت



الحمد للہ:
اول: 
سب سے پہلى بات تو يہ ہے كہ علماء كرام كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تاريخ پيدائش ميں اختلاف پايا جاتا ہے اس ميں كئى ايك اقوال ہيں جہيں ہم ذيل ميں پيش كرتے ہيں: 
چنانچہ ابن عبد البر رحمہ اللہ كى رائے ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش سوموار كے دن دو ربيع الاول كو پيدا ہوئے تھے. 
اور ابن حزم رحمہ اللہ نے آٹھ ربيع الاول كو راجح قرار ديا ہے. 
اور ايك قول ہے كہ: دس ربيع الاول كو پيدا ہوئے، جيسا كہ ابو جعفر الباقر كا قول ہے. 
اور ايك قول ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش بارہ ربيع الاول كو ہوئى، جيسا كہ ابن اسحاق كا قول ہے.
اور ايك قول ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش رمضان المبارك ميں ہوئى، جيسا كہ ابن عبد البر نے زبير بكّار سے نقل كيا ہے. 
ديكھيں: السيرۃ النبويۃ ابن كثير ( 199 - 200 ). 
ہمارے علم كے ليے علماء كا يہى اختلاف ہى كافى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت كرنے والے اس امت كے سلف علماء كرام تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش كے دن كا قطعى فيصلہ نہ كر سكے، چہ جائيكہ وہ جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم مناتے، اور پھر كئى صدياں بيت گئى ليكن مسلمان يہ جشن نہيں مناتے تھے، حتى كہ فاطميوں نے اس جشن كى ايجاد كى.
شيخ على محفوظ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" سب سے پہلے يہ جشن فاطمى خلفاء نے چوتھى صدى ہجرى ميں قاہر ميں منايا، اور انہوں نے ميلاد كى بدعت ايجاد كى جس ميں ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم، اور على رضى اللہ تعالى عنہ كى ميلاد، اور فاطمۃ الزہراء رضى اللہ تعالى عنہا كى ميلاد، اور حسن و حسين رضى اللہ تعالى عنہما، اور خليفہ حاضر كى ميلاد، منانے كى بدعت ايجاد كى، اور يہ ميلاديں اسى طرح منائى جاتى رہيں حتى كہ امير لشكر افضل نے انہيں باطل كيا. 
اور پھر بعد ميں خليفہ آمر باحكام اللہ كے دور پانچ سو چوبيس ہجرى ميں دوبارہ شروع كيا گيا حالانكہ لوگ تقريبا اسے بھول ہى چكے تھے. 
اور سب سے پہلا شخص جس نے اربل شہر ميں ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كى ايجاد كى وہ ابو سعيد ملك مظفر تھا جس نے ساتويں صدى ہجرى ميں اربل كے اندر منائى، اور پھر يہ بدعت آج تك چل رہى ہے، بلكہ لوگوں نے تو اس ميں اور بھى وسعت دے دى ہے، اور ہر وہ چيز اس ميں ايجاد كر لى ہے جو ان كى خواہش تھى، اور جن و انس كے شياطين نے انہيں جس طرف لگايا اور جو كہا انہوں وہى اس ميلاد ميں ايجاد كر ليا " انتہى 
ديكھيں: الابداع مضار الابتداع ( 251 ). 
دوم: 
سوال ميں ميلاد النبى كے قائلين كا يہ قول بيان ہوا ہے كہ: 
جو تمہيں كہے كہ ہم جو بھى كرتے ہيں اس كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم يا عہد صحابہ يا تابعين ميں پايا جانا ضرورى ہے " 
اس شخص كى يہ بات اس پر دلالت كرتى ہے كہ ايسى بات كرنے والے شخص كو تو بدعت كے معنى كا ہى علم نہيں جس بدعت سے ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بچنے كا بہت سارى احاديث ميں حكم دے ركھا ہے؛ اس قائل نے جو قاعدہ اور ضابطہ ذكر كيا ہے وہ تو ان اشياء كے ليے ہے جو اللہ كا قرب حاصل كرنے كے ليے كى جاتى ہيں يعنى اطاعت و عبادت ميں يہى ضابطہ ہو گا. 
اس ليے كسى بھى ايسى عبادت كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كرنا جائز نہيں جو ہمارے ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مشروع نہيں كى، اور يہ چيز نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جو ہميں بدعات سے منع كيا ہے اسى سے مستنبط اور مستمد ہے، اور بدعت اسے كہتے ہيں كہ: كسى ايسى چيز كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كرنے كى كوشش كى جائے جو اس نے ہمارے ليے مشروع نہيں كى، اسى ليے حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ كہا كرتے تھے: 
" ہر وہ عبادت جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرنے نے نہيں كى تم بھى اسے مت كرو " 
يعنى: جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں دين نہيں تھا، اور نہ ہى اس كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كيا جاتا تھا تو اس كے بعد بھى وہ دين نہيں بن سكتا " 
پھر سائل نے جو مثال بيان كى ہے وہ جرح و تعديل كے علم كى ہے، اس نے كہا ہے كہ يہ بدعت غير مذموم ہے، جو لوگ بدعت كى اقسام كرتے ہوئے بدعت حسنہ اور بدعت سئيہ كہتے ہيں ان كا يہى قول ہے كہ يہ بدعت حسنہ ہے، بلكہ تقسيم كرنے والے تو اس سے بھى زيادہ آگے بڑھ كر اسے پانچ قسموں ميں تقسيم كرتے ہوئے احكام تكليفيہ كى پانچ قسميں كرتے ہيں: 
وجوب، مستحب، مباح، حرام اور مكروہ عزبن عبد السلام رحمہ اللہ يہ تقسيم ذكر كيا ہے اور ان كے شاگرد القرافى نے بھى ان كى متابعت كى ہے. 
اور شاطبى رحمہ اللہ قرافى كا اس تقسيم پر راضى ہونے كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں: 
" يہ تقسيم اپنى جانب سے اختراع اور ايجاد ہے جس كى كوئى شرعى دليل نہيں، بلكہ يہ اس كا نفس متدافع ہے؛ كيونكہ بدعت كى حقيقت يہى ہے كہ اس كى كوئى شرعى دليل نہ ہو نہ تو نصوص ميں اور نہ ہى قواعد ميں، كيونكہ اگر كوئى ايسى شرعى دليل ہوتى جو وجوب يا مندوب يا مباح وغيرہ پر دلالت كرتى تو پھرى كوئى بدعت ہوتى ہى نہ، اور عمل سارے ان عمومى اعمال ميں شامل ہوتے جن كا حكم ديا گيا ہے يا پھر جن كا اختيار ديا گيا ہے، چنانچہ ان اشياء كو بدعت شمار كرنے اور يہ كہ ان اشياء كے وجوب يا مندوب يا مباح ہونے پر دلائل دلالت كرنے كو جمع كرنا دو منافى اشياء ميں جمع كرنا ہے اور يہ نہيں ہو سكتا. 
رہا مكروہ اور حرام كا مسئلہ تو ان كا ايك وجہ سے بدعت ہونا مسلم ہے، اور دوسرى وجہ سے نہيں، كيونكہ جب كسى چيز كے منع يا كراہت پر كوئى دليل دلالت كرتى ہو تو پھر اس كا بدعت ہونا ثابت نہيں ہوتا، كيونكہ ممكن ہے وہ چيز معصيت و نافرمانى ہو مثلا قتل اور چورى اور شراب نوشى وغيرہ، چنانچہ اس تقسيم ميں كبھى بھى بدعت كا تصور نہيں كيا جا سكتا، الا يہ كہ كراہت اور تحريم جس طرح اس كے باب ميں بيان ہوا ہے. 
اور قرافى نے اصحاب سے بدعت كے انكار پر اصحاب سے جو اتفاق ذكر كيا ہے وہ صحيح ہے، اور اس نے جو تقسيم كى ہے وہ صحيح نہيں، اور اس كا اختلاف سے متصادم ہونے اور اجماع كو ختم كرنے والى چيز كى معرفت كے باوجود اتفاق ذكر كرنا بہت تعجب والى چيز ہے، لگتا ہے كہ اس نے اس تقسيم ميں اپنے بغير غور و فكر كيے اپنے استاد ابن عبد السلام كى تقليد و اتباع كى ہے. 
پھر انہوں نے اس تقسيم ميں ابن عبد السلام رحمہ اللہ كا عذر بيان كيا ہے اور اسے " المصالح المرسلۃ " كا نام ديا ہے كہ يہ بدعت ہے، پھر كہتے ہيں: 
" ليكن اس تقسيم كو نقل كرنے ميں قرافى كا كوئى عذر نہيں كيونكہ انہوں نے اپنے استاد كى مراد كے علاوہ اس تقسيم كو ذكر كيا ہے، اور نہ ہى لوگوں كى مراد پر بيان كيا ہے، كيونكہ انہوں نے اس تقسيم ميں سب كى مخالفت كى ہے، تو اس طرح يہ اجماع كے مخالف ہوا " انتہى 
ديكھيں: الاعتصام ( 152 - 153 ).
ہم نصيحت كرتے ہيں كہ آپ كتاب سے اس موضوع كا مطالعہ ضرور كريں كيونكہ رد كے اعتبار سے يہ بہت ہى بہتر اور اچھا ہے اس ميں انہوں نے فائدہ مند بحث كى ہے. 
عز عبد السلام رحمہ اللہ نے بدعت واجبہ كى تقسيم كى مثال بيان كرتے ہوئے كہا ہے: 
" بدعت واجبہ كى كئى ايك مثاليں ہيں:
پہلى مثال: 
علم نحو جس سے كلام اللہ اور رسول اللہ كى كلام كا فہم آئے ميں مشغول ہونا اور سيكھنا يہ واجب ہے؛ كيونكہ شريعت كى حفاظت واجب ہے، اور اس كى حفاظت اس علم كو جانے بغير نہيں ہو سكتى، اور جو واجب جس كے بغير پورا نہ ہو وہ چيز بھى واجب ہوتى ہے. 
دوسرى مثال: 
كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں سے غريب الفاظ اور لغت كى حفاظت كرنا. 
تيسرى مثال: 
اصول فقہ كى تدوين. 
چوتھى مثال: 
جرح و تعديل ميں كلام كرنا تا كہ صحيح اور غلط ميں تميز ہو سكے، اور شرعى قواعد اس پر دلالت كرتے ہيں كہ شريعت كى حفاظت قدر متعين سے زيادہ كى حفاظت فرض كفايہ ہے، اور شريعت كى حفاظت اسى كے ساتھ ہو سكتى ہے جس كا ہم نے ذكر كيا ہے " انتہى. 
ديكھيں: قواعد الاحكام فى مصالح الانام ( 2 / 173 ). 
اور شاطبى رحمہ اللہ بھى اس كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں: 
" اور عز الدين نے جو كچھ كہا ہے: اس پر كلام وہى ہے جو اوپر بيان ہو چكى ہے، اس ميں سے واجب كى مثاليں اسى كے حساب سے ہيں كہ جو واجب جس كے بغير واجب پورا نہ ہوتا ہو تو وہ چيز بھى واجب ہے ـ جيسا اس نے كہا ہے ـ چنانچہ اس ميں يہ شرط نہيں لگائى جائيگى كہ وہ سلف ميں پائى گئى ہو، اور نہ ہى يہ كہ خاص كر اس كا اصل شريعت ميں موجود ہو؛ كيونكہ يہ تو مصالح المرسلہ كے باب ميں شامل ہے نہ كہ بدعت ميں " انتہى. 
ديكھيں: الاعتصام ( 157 - 158 ).
اور اس رد كا حاصل يہ ہوا كہ:
ان علوم كو بدعت شرعيہ مذمومہ كے وصف سے موصوف كرنا صحيح نہيں، كيونكہ دين اور سنت نبويہ كى حفاظت والى عمومى شرعى نصوص اور شرعى قواعد سے ان كى گواہى ملتى ہے اور جن ميں شرعى نصوص اور شرعى علوم ( كتاب و سنت ) كو لوگوں تك صحيح شكل ميں پہچانے كا بيان ہوا ہے اس سے بھى دليل ملتى ہے.
اور يہ بھى كہنا ممكن ہے كہ: ان علوم كو لغوى طور پر بدعت شمار كيا جا سكتا ہے، نا كہ شرعى طور پر بدعت، اور شرعى بدعت سارى مذموم ہى ہيں، ليكن لغوى بدعت ميں سے كچھ تو محمود ہيں اور كچھ مذموم.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" شرعى عرف ميں بدعت مذ موم ہى ہے، بخلاف لغوى بدعت كے، كيونكہ ہر وہ چيز جو نئى ايجاد كى گئى اور اس كى مثال نہ ہو اسے بدعت كا نام ديا جاتا ہے چاہے وہ محمود ہو يا مذموم " انتہى 
ديكھيں: فتح البارى ( 13 / 253 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے: 
" البدع يہ بدعۃ كى جمع ہے، اور بدعت ہر اس چيز كو كہتے ہيں جس كى پہلے مثال نہ ملتى ہو، لہذا لغوى طور پر يہ ہر محمود اور مذموم كو شامل ہو گى، اور اہل شرع كے عرف ميں يہ مذموم كے ساتھ مختص ہو گى، اگرچہ يہ محمود ميں وارد ہے، ليكن يہ لغوى معنى ميں ہو گى " انتہى 
ديكھيں: فتح البارى ( 13 / 340 ).
اور صحيح بخارى كتاب الاعتصام بالكتاب و السنۃ باب نمر 2حديث نمبر ( 7277 ) پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كى تعليق پر شيخ عبد الرحمن البراك حفظہ اللہ كہتے ہيں: 
" يہ تقسيم لغوى بدعت كے اعتبار سے صحيح ہے، ليكن شرع ميں ہر بدعت گمراہى ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے: 
" اور سب سے برے امور دين ميں نئے ايجاد كردہ ہيں، اور ہر بدعت گمراہى ہے " 
اور اس عموم كے باوجود يہ كہا جائز نہيں كہ كچھ بدعات واجب ہوتى ہيں يا مستحب يا مباح، بلكہ دين ميں يا تو بدعت حرام ہے يا پھر مكروہ، اور مكروہ ميں يہ بھى شامل ہے جس كے متعلق انہوں نے اسے بدعت مباح كہا ہے: يعنى عصر اور صبح كے بعد مصافحہ كرنے كے ليے مخصوص كرنا " انتہى
اور يہ معلوم ہونا ضرورى ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام كے دور ميں كسى بھى چيز كے كيے جانے كے اسباب كے پائے جانے اور موانع كے نہ ہونے كو مدنظر ركھنا چاہيے چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا ميلاد اور صحابہ كرام كى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت يہ دو ايسے سبب ہيں جو صحابہ كرام كے دور ميں پائے جاتے تھے جس كى بنا پر صحابہ كرام آپ كا جشن ميلاد منا سكتے تھے، اور پھر اس ميں كوئى ايسا مانع بھى نہيں جو انہيں ايسا كرنے سے روكتا. 
لہذا جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ كرام نے جشن ميلاد نہيں منايا تو يہ علم ہوا كہ يہ چيز مشروع نہيں، كيونكہ اگر يہ مشروع ہوتى تو صحابہ كرام اس كى طرف سب لوگوں سے آگے ہوتے اور سبقت لے جاتے. 
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: 
" اور اسى طرح بعض لوگوں نے جو بدعات ايجاد كر ركھى ہيں وہ يا تو عيسى عليہ السلام كى ميلاد كى طرح عيسائيوں كے مقابلہ ميں ہيں، يا پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبتا ور تعظيم ميں ـ اللہ سبحانہ و تعالى اس محبت اور كوشش كا تو انہيں اجروثواب دے گا نہ كہ اس بدعت پر ـ كہ انہوں نے ميلاد النبى كا جشن منانا شروع كر ديا ـ حالانكہ آپ كى تاريخ پيدائش ميں تو اختلاف پايا جاتا ہے ـ اور پھر كسى بھى سلف نے يہ ميلاد نہيں منايا، حالانكہ اس كا مقتضى موجود تھا، اور پھر اس ميں مانع بھى كوئى نہ تھا. 
اور اگر يہ يقينى خير و بھلائى ہوتى يا راجح ہوتى تو سلف رحمہ اللہ ہم سے زيادہ اس كے حقدار تھے؛ كيونكہ وہ ہم سے بھى زيادہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ محبت كرتےتھے، اور آپ كى تعظيم ہم سے بہت زيادہ كرتے تھے، اور پھر وہ خير و بھلائى پر بھى بہت زيادہ حريص تھے.
بلكہ كمال محبت اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تعظيم تو اسى ميں ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع و پيروى كى جائے، اور آپ كا حكم تسليم كيا جائے، اور ظاہرى اور باطنى طور پر بھى آپ كى سنت كا احياء كيا جائے، اور جس كے ليے آپ صلى اللہ عليہ وسلم مبعوث ہوئے اس كو نشر اور عام كيا جائے، اور اس پر قلبى لسانى اور ہاتھ كے ساتھ جھاد ہو. 
كيونكہ مہاجر و انصار جو سابقين و اولين ميں سے ہيں كا بھى يہى طريقہ رہا ہے اور ان كے بعد ان كى پيروى كرنے والے تابعين عظام كا بھى " انتہى 
ديكھيں: اقتضاء الصراط ( 294 - 295 ). 
اور يہى كلام صحيح ہے جو يہ بيان كرتى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت تو آپ كى سنت پر عمل كرنے سے ہوتى ہے، اور سنت كو سيكھنے اور اسے نشر كرنے اور اس كا دفاع كرنے ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت ہے اور صحابہ كرام كا طريقہ بھى يہى رہا ہے. 
ليكن ان بعد ميں آنے والوں نے تو اپنے آپ كو دھوكہ ديا ہوا ہے، اور اس طرح كے جشن منانے كے ساتھ شيطان انہيں دھوكہ دے رہا ہے، ان كا خيال ہے كہ وہ اس طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ اپنى محبت كا اظہار كر رہے ہيں، ليكن اس كے مقابلہ ميں وہ سنت كے احياء اور اس پر عمل پيرا ہونے اور سنت نبويہ كو نشر كرنے اور پھيلانے اور سنت كا دفاع كرنے سے بہت ہى دور ہيں. 
سوم: 
اور اس بحث كرنے والے نے جو كلام ابن كثير رحمہ اللہ كى طرف منسوب كى ہے كہ انہوں نے جشن ميلاد منانا جائز قرار ديا ہے، اس ميں صرف ہم اتنا ہى كہيں گے كہ يہ شخص ہميں يہ بتائے كہ ابن كثير رحمہ اللہ نے يہ بات كہاں كہى ہے، كيونكہ ہميں تو ابن كثير رحمہ اللہ كى يہ كلام كہيں نہيں ملى، اور ہم ابن كثير رحمہ اللہ كو اس كلام سے برى سمجھتے ہيں كہ وہ اس طرح كى بدعت كى معاونت كريں اور اس كى ترويج كا باعث بنيں ہوں. 
واللہ اعلم .
از الشيخ صالح المنجد حفظه الله.......

پیر، 17 جولائی، 2017

انسان کی آخرت کب شروع ہوتی ہے

انسان کی آخرت کب شروع ہوتی ہے
دنیا کی یہ زندگی انسان کی امتحان گاہ ہے، اس دنیاوی زندگی کاخاتمہ ہوتے ہی اس کی آخرت یعنی جزا وسزا کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، ملاحظہ فرمائیں اس بارے میں قرآن اور حدیث کا بیان:
الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰہهُمُ الْمَلٰۗہِٕكَةُ ظَالِمِيْٓ اَنْفُسِهِمْ ۠فَاَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوْۗءٍ ۭ بَلٰٓى اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۢ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 28؀ فَادْخُلُوْٓا اَبْوَابَ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۭ فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِيْنَ 29؀
’’جب فرشتے ان لوگوں کی روح قبض کرتے ہیں جو اپنے آپ پر ظلم کر رہے تھے، تو فورا سیدھے ہو جاتے ہیں ( اور کہتے
ہیں ) کہ ہم تو کوئی برائی نہیں کرتے تھے۔( فرشتے کہتے ہیں ) کیوں نہیں ( ضرور ) اللہ باخبر ہے اس سے جو تم کر رہے تھے۔پس داخل ہو جاؤجہنم کے دروازوں میں جہاں تم کو ہمیشہ رہنا ہے، بڑا ہی برا ٹھکانہ ہے متکبرین کے لئے ‘‘۔

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِيَ اِلَيَّ وَلَمْ يُوْحَ اِلَيْهِ شَيْءٌ وَّمَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ ۭ وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِيْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ الْمَلٰۗہِٕكَةُ بَاسِطُوْٓا اَيْدِيْهِمْ ۚ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭ اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ اٰيٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ 93؀
’’اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹا بہتان گھڑے یا کہے کہ مجھ پر وحی نازل کی گئی ہے، حالانکہ اس پر کسی بھی چیز کی وحی نہیں کی گئی اور جو کہے کہ میں بھی ویسی ہی چیز اتار سکتا ہوں جیسی کہ اللہ نے اتاری ہے اورکاش تم دیکھ سکو کہ جب یہ ظالم موت کی سختیوں میں ہوں، اور فرشتے ہاتھ بڑھاکر (کہتے ہیں) نکالو تم اپنی جانوں کو آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا، اسوجہ سے کہ جوتم اللہ کے بارے میں نا حق کہتے تھے اور تم اس کی آیات سے استکبار کیا کرتے تھے‘‘۔

مِمَّا خَطِيْۗـــٰٔــتِهِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا ڏ فَلَمْ يَجِدُوْا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْصَارًا 25؀
(قوم نوح ؑ کے لئے فرمایا) ’’اپنی خطاوں کی وجہ سے ڈبو دئے گئے پس جہنم میں داخل کردئے گئے، پھر انہیں اللہ کے علاوہ کوئی مدد گار نہ مل سکا ‘‘

الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰہهُمُ الْمَلٰۗہِٕكَةُ طَيِّبِيْنَ ۙ يَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَيْكُمُ ۙ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 32؀
’’ جب فرشتے پاک ( نیک ) لوگوں کی روح قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں: سلامتی ہو تم پر، داخل ہو جاو جنت میں اپنے اعمال کی وجہ سے ‘‘۔

صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1603
سلیمان بن حرب حماد بن زید ایوب، ابن ابی ملیکہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں، میری باری کے دن میرے سینہ سے ٹیک لگائے ہوئے فوت ہوئے ہمارا دستور تھا کہ جب آپ بیمار ہوتے تو ہم آپ کے لئے دعائیں پڑھ کر شفا طلب کرتے، چنانچہ میں نے یہ کام شروع کردیا رسول اکرم نے آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں، اور فرمایا، کہ فی الرفیق الاعلیٰ، فی الرفیق الاعلیٰ، اتنے میں عبدالرحمن آ گئے ان کے ہاتھ میں ہری مسواک تھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھا، میں جان گئی اور فورا ان سے لے کر چبایا اور نرم کرکے آپ کے ہاتھ میں دیدی، آپ نے اچھی طرح دانتوں میں مسواک کی، پھر وہ مسواک آپ مجھے دینے لگے تو وہ آپ کے ہاتھ سے گر پڑی،اللہ کا فضل دیکھو، کہ اس نے ( آپ ﷺ کے) دنیا کے آخری دن اور آخرت کے پہلے دن میں میرا لعاب دہن آپ کے لعاب دہن سے ملا دیا۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1610
سلیمان بن حرب، حماد، ثابت، انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض کی زیادتی سے بیہوش ہو گئے فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے روتے ہوئے کہا افسوس میرے والد کو بہت تکلیف ہے، آپ نے فرمایا، آج کے بعد پھر نہیں ہوگی، پھر جب آپ کی وفات ہوگئی تو فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا یہ کہہ کر روئیں کہ اے میرے والد، آپ اللہ کے بلاوے پر اس کے پاس چلے گئے، اے میرے والد جنت الفردوس میں جو آپ کا ہمیشہ کا ٹھکانہ ہے، ہائے میرے ابا جان میں آپ کی وفات کی خبر جبریل کو سناتی ہوں، جب آپ کو دفن کیا جا چکا تو فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا تو لوگوں نے کیسے گوارہ کرلیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹی میں چھپا دو۔
قرآن و حدیث کے بیان سے ثابت ہوا کہ انسان کی روح قبض ہوتے ہیں اسکی دنیاوی زندگی ختم اور آخرت شروع ہو جاتی ہے۔ اگر نیک ہے تو اس کی روح جنت میں داخل کردی جاتی ہے اور جزا کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔اس کے برعکس اگر وہ بدکاروں میں سے ہے تو اس کی روح جہنم میں داخل کردی جاتی ہے جہاں سزا کا معاملہ شروع ہو جاتا ہے۔

اتوار، 4 جون، 2017

دکان یا سپر مارکیٹ میں کھانے پینے کی چیزیں رمضان میں دن کے وقت فروخت کرنے کا کیا حکم ہے؟ میں روس میں رہتا ہوں اور یہاں کے اکثر لوگ روزہ نہیں رکھتے، میں نے آپ کی ویب سائٹ پر پڑھا ہے کہ رمضان میں دن کے وقت ہوٹل یا فاسٹ فوڈ کی دکان میں کھانوں کی فروخت حرام ہے؛ کیونکہ خریدار فوری طور پر اسے وہیں پر ہی کھا لیتے ہیں، میں قیمہ بھری آنتیں (ساسیج) ، روٹی یا چاول دکان میں فروخت کرتا ہوں، اور مجھے نہیں معلوم کہ خریدار اسے کب کھائے گا، تاہم مجھے غالب گمان یہی ہوتا ہے کہ وہ روزہ دار نہیں ہے، لیکن اس بات کا بھی احتمال ہے کہ وہ مغرب کے بعد کھائے گا اور ہو سکتا ہے کہ فوری یا کچھ لمحات کے بعد ہی کھا لے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب :الحمد للہ:
دکان یا سپر مارکیٹ کی اشیا فروخت کے اعتبار سے دو طرح کی ہو سکتی ہیں:
پہلی قسم:
ایسے کھانے جن کے متعلق غالب گمان ہو کہ خریدار فوری طور پر اسے کھا لے گا؛ کیونکہ اس کی بناوٹ اس طرح کی ہوتی ہے  یا اسے فوری کھانا پڑتا ہے، مثال کے طور پر: آئس کریم ، جوس، ٹھنڈا سوڈا واٹر، یا گرم مشروبات جنہیں خریدتے ہی تناول کر لیا جاتا ہے، اسی طرح ایسی میٹھی مصنوعات جنہیں بنانے کے فوری بعد کھا لیا جاتا ہے، یا اسی طرح کی دیگر کوئی بھی کھانے پینے کی چیزیں، تو انہیں رمضان میں دن کے وقت فروخت کرنا مسلمان کیلیے جائز نہیں ہے؛ کیونکہ غالب گمان یہی ہے کہ اسے خریدنے والا مسلمان یا غیر مسلم ماہِ رمضان کی حرمت پامال کرتے ہوئے  فوری کھا لے گا، [غیر مسلم  کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ] وہ بھی شرعی احکامات بجا لانے کے مخاطب ہیں، لہذا گناہ  کے کام میں کسی کی بھی معاونت کرنا جائز نہیں ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
(وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ)
ترجمہ: نیکی اور تقوی کے کاموں پر باہمی تعاون کرو، گناہ اور زیادتی کے کاموں پر باہمی تعاون مت کرو، اللہ سے ڈرو بیشک اللہ تعالی سخت عذاب والا ہے۔[ المائدة:2]
امام رملی شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
"[رمضان میں ممنوعہ کاموں کے اندر یہ بھی شامل ہے کہ ] کوئی عاقل بالغ مسلمان  رمضان میں دن کے وقت کسی عاقل بالغ کافر کو کھانا کھلائے، یا کسی غیر مسلم کو کھانا فروخت کرے اور اسے یقین ہو یا گمان ہو کہ وہ یہ کھانا دن کے وقت ہی کھائے گا، اسی کے مطابق والد رحمہ اللہ نے بھی فتوی دیا تھا؛ کیونکہ  ہر دو حالت میں مسلمان معصیت کا باعث بنتا ہے اور معصیت کیلیے معاونت فراہم کرتا ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ کافروں کو بھی شرعی فروعی مسائل پر عمل کرنے کا پابند کیا گیا ہے، اور یہی راجح موقف ہے" انتہی
"نهاية المحتاج" (3/471)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
"رمضان کے دنوں میں ہوٹل کھولنا چاہے کفار کیلیے کھولے جائیں جائز نہیں ہے، آپ میں سے کسی کو رمضان میں ہوٹل کھلا ہوا نظر آئے تو اس پر متعلقہ اداروں کو اطلاع دینا ضروری اور واجب ہے تا کہ اسے ہوٹل کھولنے سے روکا جائے، کسی بھی کافر کیلیے مسلم خطے میں رمضان میں دن کے وقت اعلانیہ کھانا پینا جائز  نہیں ہے، کافر پر بھی اس حرکت سے باز رہنا ضروری ہے" انتہی
" اللقاء الشهری" (8/ 4)  مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق۔
دائمی فتوی کمیٹی کے دوسرے ایڈیشن میں (9/36) ہے کہ: 
" رمضان میں دن کے وقت کافروں کے لئے ہوٹل کھولنا اور ان کیلیے کھانے پینے کی خدمات فراہم کرنا جائز نہیں ، کیونکہ اس میں بہت بڑی شرعی ممانعت ہے کہ کافروں کے ساتھ اللہ کی حرام کردہ چیز میں تعاون پایا جاتا ہے، اور شریعت مطہرہ میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ کفار شریعت کے اصول و فروع تمام پر عمل پیرا ہونے کے پابند ہیں، اور یہ یقینی بات ہے کہ رمضان کا روزہ اسلام کا ایک اہم ترین رکن ہے، اور کافروں پر روزہ رکھنا ضروری ہے لیکن ساتھ میں روزے کی شرط یعنی اسلام بھی قبول کریں، لہذا روزے کو اللہ نے ان پر واجب قرار دیا ہے اس کی ادائیگی ترک کرنے کیلیے غیر مسلموں کی مدد کرنا جائز نہیں ہے۔
نیز ان کی ایسی خدمت کرنا جائز نہیں جن کی بنا پر ایک مسلمان کی توہین اور تحقیر لازم آئے، مثلاً: ان کے لیے کھانا پیش کرے یا اسی طرح کی کوئی اور ملازمت اختیار کرے۔
اسلامی ملک میں آنے والے کافروں کے لیے اس بات کی پابندی ضروری ہے کہ اسلامی شعائر کی مخالفت نہ کریں، اور نہ ہی مسلمانوں کے جذبات مجروح کریں، لہذا مذکورہ کمپنی کے لیے رمضان میں دن کے وقت ہوٹل بند کرنا ضروری ہے"
شیخ بکر ابو زید       شیخ عبد العزیز آل شیخ     شیخ صالح فوزان             شیخ عبد اللہ بن غدیان     شیخ عبد العزیز بن عبداللہ بن باز  اس کے ساتھ ہے  واللہ اعلم ۔
دوسری قسم:
کھانے پینے کی ایسی چیزیں جن کے استعمال کا وقت دکاندار کو فروخت کرتے وقت چاہے دن ہو یا رات، معلوم  نہیں ہے کہ خریدار کس وقت کھائے گا، مثلاً: پیک شدہ کھانے کی چیزیں،  ٹافیاں، روٹی یا بریڈ، اسی طرح خشک اناج مثلاً: تیل ، چاول ، دالیں وغیرہ تو ہمارے علم کے مطابق عام طور پر بازار میں یہی چیزیں زیادہ فروخت ہوتی ہیں تو مسلمان ان چیزوں کو رمضان میں دن کے وقت فروخت کر سکتا ہے، اس میں کوئی گناہ نہیں ہے؛ کیونکہ:
اس حالت میں دکاندار کے ذہن میں  غالب گمان ہے کہ خریدار کافر ہونے یا بے عمل مسلمان ہونے کی وجہ سے روزے دار نہیں ہے، لیکن دکاندار کو یہ نہیں معلوم کہ  خریدار نے اسے کس لیے خریدا ہے، ممکن ہے کہ وہ فوری طور پر اسے استعمال کر لے یا کچھ عرصے بعد استعمال کرے، یا یہ بھی ممکن ہے کہ وہ چیز ہی خراب ہو جائے اور استعمال کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔
جس طرح ان چیزوں کے استعمال  کیلیے ایک عام حکم ہے یا اکثریت کا طریقہ کار ہے ، اور کوئی بھی شخص یہ حکم نہیں لگا سکتا  کہ خریدار دن میں یا رات کے فلاں وقت میں استعمال کرے گا، تو پھر ان چیزوں کا حکم بھی مطلق اور عام ہو گا۔
اور اس عام اور مطلق حکم کی وجہ سے  ان چیزوں کو فروخت کرنے کا حکم بھی جواز ہی ہو گا جو کہ ان کا اصل کے اعتبار سے حکم ہے، ان چیزوں کی خرید و فروخت گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون شمار نہیں ہو گی؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی یقینی طور پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ چیزیں گناہ یا زیادتی کے کاموں میں ہی استعمال ہوں  گی، اور چیزوں کا حکم اصل کے اعتبار سے جواز کا ہوتا ہے، اور اس اصل حکم  کو تبدیل کرنے کیلیے  قابل یقین اور معتمد  دلیل ہونا ضروری ہے۔
مندرجہ بالا قید پہلے ذکر شدہ رملی رحمہ اللہ کی گفتگو میں بھی موجود ہے: 
" کھانا فروخت کرے اور اسے یقین ہو یا گمان ہو کہ وہ یہ کھانا دن کے وقت ہی کھائے گا "
اب دوسری قسم کے کھانوں میں یہ بات پکی ہے کہ دکاندار کو نہ تو اس بات کا علم ہے کہ خریدار یہ کھانا رمضان میں دن کے وقت کھائے گا اور نہ ہی اسے اس بارے میں کوئی گمان آتا ہے، چنانچہ حرمت کا سبب ہی موجود نہیں ہے، لہذا اس کا حکم اصل کے اعتبار سے جواز ہی ہو گا۔
یہی معاملہ ہر اس خرید و فروخت کے معاملے میں کیا جائے گا کہ جس میں خریدار کاچیز کے استعمال کرنے  کی صورتوں میں شک ہو۔
جیسے کہ رملی رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
"اور جن اکثر اہل علم کی جانب جواز مع الکراہت نقل کیا گیا ہے  تو وہ ایسی صورت کے متعلق ہے جب دکاندار کو شک ہو، یقین نہ ہو" انتہی
"نهاية المحتاج" (3/471)
لہذا اکثریت نے ان صورتوں میں جو جواز کا موقف اختیار کیا ہے وہ ان صورتوں کے متعلق ہے جب دکاندار کو شک ہو، اور خریدار کے چیز لے جانے کا مقصد اور سبب معلوم نہ ہو۔
اور یہ بات بھی واضح رہے کہ شریعت اسلامیہ لوگوں پر بہت زیادہ سختی نہیں ڈالتی اور نہ ہی انہیں ایسے کام کا حکم دیتی ہے جس کی ان میں استطاعت نہ ہو، کہ ہر خریدار سے ان کی خریداری کا مقصد پہلے پوچھے ، اس میں تو واضح طور پر بہت زیادہ مشقت اور سختی ہے، اپنے آپ کو آسانی سے تنگی میں ڈالنے والی بات ہے، حالانکہ اس کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
(لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ)
ترجمہ: اللہ تعالی کسی جان کو اس کی وسعت سے بڑھ کر تکلیفی حکم نہیں دیتا، ہر جان کو اس کے اعمال کا اچھا بدلہ ملے گا اور برے اعمال کا خمیازہ اسی پر ہے۔[ البقرة:286]
اسی طرح فرمایا: 
(يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ)
ترجمہ: اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ فرماتا ہے تمہارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں فرماتا۔ [البقرة:185]
یہ بھی واضح رہے کہ  کھانے کی بیان شدہ دوسری قسم کو اس مسئلے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا جس میں انگوروں کی شراب بنانے والے کو انگور فروخت کرنا حرام ہے؛ کیونکہ شراب نوشی تو ہر حالت میں حرام ہے، انگوروں کے مالک کا غالب گمان یہی ہے کہ  خریدار خرید  کردہ  انگوروں سے  شراب ہی بنائے گا، جبکہ رمضان میں دن کے وقت غذائی اجناس فروخت کرنے والے کے ذہن میں غالب گمان یہ نہیں ہو تا کہ خریدار ان چیزوں سے ضروری طور پر اللہ تعالی کی نافرمانی ہی کرے گا۔
واللہ اعلم.

منگل، 9 مئی، 2017

رمضان المبارك كى خصوصيات كيا ہيں ؟

رمضان المبارك كى خصوصيات كيا ہيں ؟
الحمد للہ:
ماہ رمضان عربى بارہ مہينوں ميں سے ايك مہينہ ہے، اور دين اسلام ميں يہ مہينہ عظيم الشان قدر و منزلت ركھتا اور باقى سب مہينوں سے اسے بہت سارے خصائص حاصل ہيں جن ميں سے چند ايك خصوصيات ذيل ميں بيان كى جاتى ہيں:
1 - اللہ سبحانہ و تعالى نے اس ماہ مبارك كے روزے ركھنا دين اسلام كا چوتھا ركن قرار ديا ہے، جيسا كہ ارشاد بارى تعالى ہے:
{ ماہ رمضان وہ مہينہ ہے جس ميں قرآن مجيد نازل كيا گيا جو لوگوں كے ليے ہدايت كا باعث ہے اور اس ميں راہ ہدايت كى واضح نشانياں ہيں، اور فرقان ہے، اس ليے جو كوئى بھى ماہ رمضان كو پا لے تو وہ اس ماہ كے روزے ركھے }البقرۃ ( 185 ).
اور صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اسلام كى بنياد پانچ اشياء پر ہے: اس بات كى گواہى دينا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كےعلاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور يقينا محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ كے بندے اور اس كے رسول ہيں، اور نماز كى پابندى كرنا، اور زكاۃ ادا كرنا، اور رمضان المبارك كے روزے ركھنا، اور بيت اللہ كا حج كرنا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 8 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 16 ).
2 - اللہ سبحانہ و تعالى نے اس ماہ مبارك ميں قرآن مجيد نازل كيا ہے، جيسا كہ مندرجہ بالا آيت ميں فرمان بارى تعالى ہے:
{ رمضان المبارك وہ مہينہ ہے جس ميں قرآن مجيد نازل كيا گيا ہے جو كہ لوگوں كے ليے باعث ہدايت ہے اور اس ميں ہدايت كى نشانياں ہيں اور فرقان ہے }البقرۃ ( 185 ).
اور دوسرے مقام پر ارشاد ربانى ہيں:
{ يقينا ہم نے اس قرآن مجيد كو ليلۃ القدر ميں نازل كيا ہے }.
3 - اللہ سبحانہ و تعالى نے اس ماہ مبارك ميں ليلۃ القدر ركھى ہے جو كہ ايك ہزار مہينوں سے افضل و بہتر ہے، جيسا كہ درج ذيل فرمان بارى تعالى ميں ہے:
{ يقينا ہم نے اس قرآن مجيد كو ليلۃ القدر ميں نازل كيا ہے، تجھے كيا علم كہ ليلۃ القدر كيا ہے، ليلۃ القدر ايك ہزار مہينوں سے بہتر ہے، اس ميں ہر كام كے سرانجام دينے كو اپنے رب كے حكم سے فرشتے اور جبريل اترتے ہيں، يہ رات سراسر سلامتى والى ہے اور فجر كے طلوع ہونے تك رہتى ہے }القدر ( 1- 5 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
{ يقينا ہم نے اس قرآن مجيد كو بابركت رات ميں نازل كيا ہے بيشك ہم ڈرانے والے ہيں }الدخان ( 3 ).
اللہ سبحانہ و تعالى نے رمضان المبارك كو ليلۃ القدر كے ساتھ فضيلت دى ہے، اور ليلۃ القدر كى قدر و منزلت بيان كرنے كے ليے سورۃ القدر نازل ہوئى، اور بہت سارى احاديث بھى اس سلسلہ ميں وارد ہيں جن ميں سے چند ايك ذيل ميں بيان كى جاتى ہيں:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تمہارے پاس وہ بابركت مہينہ آ رہا ہے جس كے روزے اللہ نے تم پر فرض كيے ہيں، اس ميں آسمان كے دروزے كھل جاتے ہيں اور جہنم كے دروازے بند كر ديے جاتے ہيں، اور سركش شيطانوں كو زنجيروں ميں باندھ ديا جاتا ہے، اللہ كے ليے اس ميں ايك رات ہے جو ايك ہزار مہينوں سے بہتر ہے، جو بھى اس رات كى خير سے محروم ہو گيا تو وہ محروم ہے "
سنن نسائى حديث نمبر ( 2106 ) مسند احمد حديث نمبر ( 8769 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 999 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ايك دوسرى روايت ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى ليلۃ القدر كا ايمان اور اجروثواب كى نيت سے قيام كيا اس كے پچھلے سارے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1910 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 760 ).
4 - اللہ سبحانہ و تعالى نے رمضان المبارك ميں ايمان اور اجروثواب كى نيت سے روزے ركھنا اور قيام كرنے كو گناہوں كى بخشش كا سبب بنايا ہے؛ جيسا كہ صحيح بخارى اور صحيح مسلم كى درج ذيل حديث ميں بيان ہوا ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى رمضان المبارك ميں ايمان اور اجروثواب كى نيت سے روزے ركھے اس كے پچھلے سارے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2014 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 760 ).
اور ايك حديث ميں وارد ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى رمضان المبارك كا ايمان اور اجروثواب كى نيت سے قيام كيا اس كے پچھلے سارے گناہ بخش ديے جاتے ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2008 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 174 ).
مسلمانوں كا اجماع ہے كہ رمضان المبارك كى راتوں ميں قيام كرنا سنت ہے، امام نووى رحمہ اللہ نے بيان كيا ہے كہ قيام رمضان سے مراد نماز تراويح ہے يعنى نماز تراويح سے قيام الليل كا مقصد حاصل ہو جاتا ہے.
5 - اس ماہ مبارك ميں اللہ سبحانہ و تعالى جنتوں كے دروازے كھول ديتے ہيں، اور جہنم كے دروازے بند كر ديتے ہيں اور شيطانوں كو زنجيروں ميں بند كر ديا جاتا ہے، جيسا كہ درج ذيل حديث سے ثابت ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب رمضان المبارك شروع ہو جاتا ہے تو جنت كے دروازے كھول ديے جاتے ہيں، اور جہنم كے دروازے بند كر ديے جاتے اور شيطانوں كو ونجيروں ميں جكڑ ديا جاتا ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1898 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1079 ).
6 - رمضان المبارك كى ہر رات اللہ سبحانہ و تعالى كچھ لوگوں كو جہنم كى آگ سے آزاد كرتے ہيں:
ابو امامہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ہر افطارى كے وقت اللہ تعالى كے ليے كچھ آزاد ہوتے ہيں "
اسے امام احمد نے مسند احمد ( 5 / 256 ) ميں روايت كيا ہے، امام منذرى رحمہ اللہ نے اس كى سند كو لاباس كہا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 987 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور بزار نے كشف ( 962 ) ميں ابو سعيد سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ہر مسلمان كے ليے ہر دن اور رات ميں دعا قبول ہوتى ہے "
7 - جب كبيرہ گناہوں سے اجتناب كيا جائے تو رمضان المبارك كے روزے ركھنا پچھلے سب گناہوں كا كفارہ بن جاتے ہيں:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" پانچوں نمازيں اور جمعہ سے ليكر جمعہ تك اور رمضان سے رمضان تك ان كے مابين گناہوں كا كفارہ ہيں جبكہ كبيرہ گناہوں سے اجتناب كيا جائے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 233 ).
8 - رمضان المبارك كے روزے ركھنا دس مہينوں كے برابر ہيں جيسا كہ صحيح مسلم كى درج ذيل حديث دلالت كرتى ہے:
ابو ايوب انصارى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے رمضان المبارك كے روزے ركھے اور پھر اس كے بعد شوال كے چھ روزے ركھے تو گويا كہ اس نے سارا سال ہى روزے ركھے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1164 ).
اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے رمضان المبارك كے روزے ركھے تو ايك ماہ دس ماہ كے برابر ہے، اور عيد الفطر كے بعد چھ روزے ركھے تو يہ پورے سال كے روزے ہونگے "
مسند احمد حديث نمبر ( 21906 ).
9 - جو شخص رمضان المبارك ميں رات كو امام كے ساتھ قيام مكمل كرے تو اسے سارى رات كے قيام كا ثواب حاصل ہوتا ہے:
ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى امام كے ساتھ قيام كيا حتى كہ امام چلا جائے تو اس كے ليے پورى رات كا قيام لكھا جاتا ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1370 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صلاۃ التراويح صفحہ ( 15 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
10 - اس ماہ مبارك ميں عمرہ كرنا حج كے برابر ہے:
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك انصارى عورت كو فرمايا:
" تجھے ہمارے ساتھ حج كرنے سے كس چيز سے روكا ؟
اس عورت نے عرض كيا: ہمارے پاس دو ہى اونٹ تھے ايك پر اس كے شوہر نے حج كيا اور دوسرا ہمارے ليے چھوڑ گيا جس پر ہم پانى لاتے تھے.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب رمضان آئے تو تم عمرہ كر لينا، كيونكہ رمضان ميں عمرہ كرنا حج كے برابر ثواب ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1782 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1256 ).
اور صحيح مسلم كى ايك روايت ميں يہ الفاظ ہيں:
" ميرے ساتھ حج كا ثواب ہے "
ناضح كا معنى وہ اونٹ جس پر پانى لايا جائے.
11 - ماہ رمضان ميں اعتكاف كرنا مسنون ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ نے مستقل طور پر ہر رمضان ميں اعتكاف كيا تھا جيسا كہ درج ذيل حديث ميں وارد ہے:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہونے ہر رمضان كے آخرى عشرہ ميں اعتكاف كيا كرتے تھے، اور پھر ان كى بيويوں نے بھى آپ كے بعد اعتكاف كيا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1922 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1172 ).
12 - رمضان المبارك ميں قرآن مجيد كى كثرت سے تلاوت اور دور كرنا مستحب ہے، دور اس طرح ہوگا كہ قرآن مجيد كسى دوسرے شخص كو سنايا جائے، يا پھر كسى دوسرے كا سنا جائے، اس كے مستحب ہونے كى دليل درج ذيل حديث ہے:
" جبريل عليہ السلام رمضان المبارك ميں ہر رات كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مل كر قرآن مجيد كا دور كيا كرتے تھے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2308 ).
قرآن مجيد كى تلاوت كرنا مطلقا مستحب ہے، ليكن رمضان المبارك ميں زيادہ تاكيدى ہے.
13 - رمضان المبارك ميں كسى دوسرے روزے دار كا روزہ افطار كرانا مستحب ہے:
زيد بن خالد جھنى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى روزے دار كا روزہ افطار كرايا اسے روزے دار جتنا ثواب حاصل ہوگا، ليكن روزے دار كے ثواب ميں كوئى كمى نہيں ہو گى "
سنن ترمذي حديث نمبر ( 807 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1746 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 647 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے