اپنی زبان منتخب کریں

جمعہ، 29 دسمبر، 2023

آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت بتاۓ.... طالبہ طس بنت قیوم

 الحمد للہ.


ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں :

یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث میں ہے کہ کتاب اللہ میں یہ آیت سب سے افضل آیت ہے ۔

ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےان سے سوال کیا کہ کتاب اللہ میں سب سے عظیم آیت کونسی ہے ؟ تو وہ کہنے لگے کہ اللہ اور اس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کوہی زیادہ علم ہے ، یہ سوال کئ باردھرایا اور پھر فرمانےلگے کہ وہ آیت الکرسی ہے 

فرمانے لگے اے ابوالمنذر علم مبارک ہو اس ذات کی قسم جس کےھاتھ میں میری جان ہے اس آیت کی زبان اور ہونٹ ہونگے عرش کے پاۓ کے ہاں اللہ تعالی کی پاکی بیان کررہی ہوگی ۔

اور غالبا مسلم نے والذی نفسی سے آگے والے الفاظ نہیں ہیں ۔

عبداللہ بن ابی بن کعب رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد کے پاس کھجوریں رکھنے کی جگہ تھی ، عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں میرے والد اس کاخیال رکھتے تھے تو ایک دن انہوں نے اس میں کھجوریں کم دیکھیں ، وہ بیان کرتے ہيں کہ انہوں نے اس رات پہرہ دیا تورات ایک نوجوان کی شکل میں آیا میں نے اسے سلام کیا اوراس نے جواب دیا والد کہتے ہیں میں نے اسے کہا تم جن ہویا کہ انسان؟ اس نے جواب دیا کہ میں جن ہوں وہ کہتے ہیں میں نے اسے کہا اپنا ھاتھ دو اس نے اپنا ھاتھ دیا تووہ کتے کے ھاتھ کی طرح اور بالوں کی طرح تھا میں نے کہا کہ جن اسی طرح پیدا کیے گۓ ہیں ؟

وہ کہنے لگا کہ جنوں میں تومجھ سے بھی سخت قسم کے جن ہیں ، میں نے کہا کہ تجھے یہ( چوری )کرنے پر کس نے ابھارا ؟ اس نے جواب دیا کہ ہمیں یہ اطلاع ملی کہ آپ صدقہ وخیرات پسند کرتے ہیں توہم یہ پسند کیا کہ ہم تیرا غلہ حاصل کریں ۔

عبداللہ بن ابی کہتے ہیں کہ اسےمیرے والد نے کہا وہ کون سی چيز ہے جو ہمیں تم سے محفوظ رکھے ؟ اس نےجواب میں کہا یہ آیت الکرسی ہے ، پھر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گۓ اور سارا قصہ بیان کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کہ اس خبیث نے سچ کہا ہے ۔

امام احمد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں محمد بن جعفر نے عثمان بن عتب سے حدیث بیان کی کہ عتاب کہتے ہیں کہ میں نے ابوالسلیل کویہ کہتے ہوۓ سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی لوگوں کوحدیث بیان کیا کرتے تھے ، حتی کہ لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئ تووہ گھر کی چھت پر چڑھ جاتے اوریہ حدیث بیان کیا کرتے تھے کہ :

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قرآن مجید میں کونسی آیت سب سے زيادہ عظمت کی حامل ہے ؟ تو ایک شخص کہنے لگا " اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم " وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ھاتھ میرے سینہ پررکھا توچھاتی پرمیں نےاس کی ٹھنڈک محسوس کی اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمانے لگے اے ابوالمنذر علم کی مبارک ہو ۔

ابوذر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا توآپ مسجدمیں تشریف فرما تھے تومیں بھی بیٹھ گيا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر کیا تو نے نماز پڑھی ہے ؟ میں نے نہیں میں جواب دیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے اٹھ کرنماز پڑھو ۔

میں نے اٹھ کرنماز ادا کی اور پھر بیٹھ گيا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : اے ابوذر انسانوں اورجنوں کے شر سے پناہ طلب کرو وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ کیا انسانوں میں بھی شیمطان ہوتے ہیں ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے جی ہاں ۔

میں نے کہا نماز کا کہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے یہ اچھا موضوع ہے جوچاہے زیادہ کرلے اورجوچاہے کم کرلے ، وہ کہتے ہیں میں نے کہا روزے کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے فرض ہے اس کا اجر دیا جاۓ گا اور اللہ تعالی کے ہاں اورزیادہ اجرملےگا ، میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ ؟ تو وہ کہنے لگے اس کا اجرڈبل سے بھی زیادہ ہوتا ہے میں نے کہا کونسا صدقہ بہتر ہے ؟

تو فرمایا قلیل اشیاء کے مالک کا صدقہ کرنا اوریا پھر فقیرکوچھپا کر دینا ، میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلا نبی کون تھا ؟ فرمانے لگے آدم علیہ السلام ، میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول کیا وہ نبی تھے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ نبی مکلم تھے اللہ تعالی کے ساتھ بات چيت کی تھی ؟ میں نے کہا اے اللہ تعالی کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم رسولوں کی تعداد کیا ہے ؟ فرمانے لگے تین سودس سے کچھ زیادہ ایک جم غفیر تھا اور ایک مرتبہ یہ فرمایا کہ تین سوپندرہ ، میں نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ جو نازل کیا گيا ہے اس میں سب سے عظیم کیا ہے ؟ فرمایا آیۃ الکرسی " اللہ لاالہ الا ھو الحی القیوم " سنن نسائ ۔

امام بخاری رحمہ اللہ الباری نے ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے رمضان کےفطرانہ کی حفاظت کرنے کوکہا رات کوایک شخص آیا اورغلہ لےجانے لگا تومیں نے اسے پکڑ کرکہا کہ میں یہ معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک لے جاؤں گا ، وہ کہنے لگا مجھے چھوڑ دو اس لیے کہ میں محتاج ہوں میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور شدید قسم کی ضرورت بھی ہے ، تومیں نے اسے چھوڑ دیا جب صبح ہوئ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ رات والے قیدی نے کیا کیا ؟

وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس نے شدید قسم کے فقروفاقہ اوراہل عیال اور شدید قسم کی ضرورت کی شکایت کی تومیں نے اس پرترس اور رحم کرتے ہوۓ چھوڑ‍ دیا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے اس نے جھوٹ بولا ہے اور وہ دوبارہ بھی آۓ گا تومجھے علم ہوگیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مطابق وہ دوبارہ بھی لازمی آۓ گا ، تومیں نے دھیان رکھا وہ آیا اور غلہ اکٹھا کرنے لگا تومیں نے اسے پکڑ کرکہا کہ میں یہ معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک لے جاؤں گا ، وہ کہنے لگا مجھے چھوڑ دو اس لیے کہ میں محتاج ہوں میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور شدید قسم کی ضرورت بھی ہے میں دوبارہ نہیں آتا ، تومیں نے اسے چھوڑ دیا جب صبح ہوئ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ رات والے قیدی نے کیا کیا ؟

میں نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس نے شدید قسم کے فقروفاقہ اوراہل عیال اور شدید قسم کی ضرورت کی شکایت کی تومیں نے اس پرترس اور رحم کرتے ہوۓ چھوڑ‍ دیا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے اس نے جھوٹ بولا ہے اور وہ دوبارہ بھی آۓ گا ، تومین نے تیسری مرتبہ بھی اس کا دھیان رکھا وہ آیا اور غلہ اکٹھا کرنے لگا تومیں نے اسے پکڑ کرکہا کہ میں یہ معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک لے جاؤں گا یہ تیسری اورآخری بار ہے توکہتا تھا کہ نہیں آ‎ونگا اورپھر آجاتا ہے ۔

وہ کہنے لگامجھے چھوڑ دو میں تمھیں کچھ کلمات سکھاتا ہوں جس سے اللہ تعالی تجھے فائدہ دے گا ، میں نے کہا وہ کون سے کلمات ہیں ؟ وہ کہنے لگا کہ جب تم اپنے بستر پر آؤ تو آیۃ الکرسی پڑھو ' اللہ لاالہ الا ھوالحی القیوم " یہ مکمل پڑھنے پر اللہ تعالی کی طرف سے تمہارے لیے ایک محافظ مقرر کردیا جاۓ گا اورصبح تک شیطان تمہارے قریب بھی نہیں آ سکےگا تو میں نے اسے چھوڑ دیا ،جب صبح ہوئ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ رات والے قیدی نے کیا کیا ؟

میں نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس نے مجھے کچھ کلمات سکھاۓ جن کے بارہ میں اس کا خیال یہ تھا کہ اللہ تعالی ان کلمات سے مجھے فائدہ دے گا تو میں نے اسے چھوڑ دیا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے وہ کلمات کون سے ہیں ؟ میں نے کہا کہ اس نے مجھے یہ کہا کہ جب تم اپنے بستر پر آؤ تو آیۃ الکرسی پڑھو ' اللہ لاالہ الا ھوالحی القیوم " اوراس نے مجھے یہ کہا کہ یہ مکمل پڑھنے پر اللہ تعالی کی طرف سے تمہارے لیے ایک محافظ مقرر کردیا جاۓ گا اورصبح تک شیطان تمہارے قریب بھی نہیں آ سکےگا اور صحابہ کرام تو خیروبھلائ کے کاموں میں بہت ہی زيادہ حریص تھے ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے :

تیرے ساتھ بات تو اس سچی کی ہے لیکن وہ خود جھوٹا ہے ،اے ابوھریرہ رضي اللہ تعلی عنہ تمہیں یہ علم ہے کہ تم تین راتوں سے کس کے ساتھ بات چیت کررہے تھے ؟ میں نے کہا کہ نہیں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے کہ وہ شیطان تھا ۔

اور ایک روایت میں ہے کہ :

میں نے جنوں کے ایک فقیر شخص کوپکڑلیا اور اسے چھوڑدیا پھروہ دوسری اور تیسری باربھی آيا تومیں نے اسے کہا کیا تونے میرے ساتھ یہ وعدہ نہیں کیا تھا کہ آئندہ نہیں آؤگے ؟ آج میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کرہی جا‎ؤں گا وہ کہنے لگا ایسا نہ کرنا اگرآپ مجھے چھوڑدوگے تومیں تمہیں کچھ ایسے کلمات سکھاؤں گا آّپ جب وہ کلمات پڑھیں گے تو کوئ بھی چھوٹا یا بڑا اور مذکرومؤنث جن تمہارے قریب بھی نہیں پھٹکےگا۔

وہ اسے کہنے لگے کیا واقعی تم یہ کام کرو گے ؟اس نے جواب دیا ہاں میں کرونگا ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا وہ کون سے کملمات ہیں ؟ وہ کہنے لگا : اللہ لاالہ الا ھوالحی القیوم ، آیۃ الکرسی مکمل پڑھی تو اسے چھوڑ دیا تو وہ چلاگیا اورواپس نہ لوٹا ، توابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ قصہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ذکر کیا تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کہنا تھا :کیا تجھےعلم نہیں کہ یہ ( آیت الکرسی )اسی طرح ہے 

اورامام نسائ رحمہ اللہ تعالی نے احمد بن محمد بن عبداللہ عن شعیب بن حرب عن اسماعیل بن مسلم عن المتوکل عن ابی ھریرہ رضی اللہ تعالی کے طریق سے اسی طرح کی روایت بیان کی ہے ، اور ایسا ہی واقعہ ابی بن کعب رضي اللہ تعالی عنہ سے اوپر بیان کیا چکا ہے ، لھذا یہ تین واقعات ہیں ۔

ابوعبید نے کتاب الغریب میں کہا ہے کہ :

حدثنا ابومعاویۃ عن ابی عاصم القفی عن الشعبی عن عبداللہ بن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما قال :

کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ انسانوں میں سے ایک شخص نکلاتووہ ایک جن سے ملا اور وہ اسے کہنا لگا کیا تومیرے ساتھ کشتی کا مقابلہ کرے گا ؟ اگر تونے مجھے پچھاڑ دیا تومیں تجھے ایک ایسی آیت سکھا‎ؤں گا جب تو یہ آيت گھرمیں داخل ہوکر پڑھے گا توشیطان گھرمیں داخل نہیں ہوسکے گا ، ان دونوں نے مقابلہ کیا توانسان نے اسے پچھاڑ دیا ، وہ انسان اسے کہنے لگا میں تجھے بہت ہی کمزوراوردبلاپتلا دیکھ رہا ہوں تیرے بازو کتے کی طرح ہیں ، کیا سب جن اسی طرح ہیں یا کہ ان میں توہی ایسا ہے ؟ تواس نے کہا کہ ان میں سے ہی کمزوراور دبلا پتلا ہوں ۔

اس نے دوبارہ مقابلہ کیا توانسان نے دوبارہ اسے پچھاڑ دیا تو وہ جن کہنے لگا : تو آيۃ الکرسی پڑھا کر اس لیے کہ جوبھی گھرمیں داخل ہوتے وقت آیۃ الکرسی پڑھتا ہے اس گھرسے شیطان نکل بھاگتاہے اور نکلتے وقت اس کی آواز گدھے کے گوزمارنے کی سی آوازکی طرح ہوتی ہے ۔

ابن مسعود رضي اللہ تعالی عنہ سے کہا گیا کہ کیا وہ عمررضی اللہ عنہ تھے ؟ تو وہ کہنے لگے عمررضی اللہ تعالی عنہ کے علاوہ اور کون ہوسکتا ہے ، ابو عبید کہتے ہیں کہ الضئیل کا معنی کمزروجسم والا اور الخیخ گوزمارنے کو کہتے ہيں ( یعنی ہوا کا خارج ہونا ) ۔

ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

سورۃ البقرۃ میں ایسی آیت ہے جو کہ قرآن کی سردار ہے وہ جس گھرمیں بھی پڑھی جاۓ اس سے شیطان نکل بھاگتا ہے وہ آیۃ الکرسی ہے ۔

اوراسی طرح ایک دوسری سند زائدۃ عن جبیربن حکیم سے بھی روایت کرنے کے بعد کہاہے کہ یہ صحیح الاسناد ہے لیکن بخاری اور مسلم نے اسے روایت نہیں کیا اور امام ترمذی نے بھی زائدہ والی حدیث روایت کی ہے جس کے الفاظ ہیں کہ ہرچيزکا ایک کوہان ہوتی ہے اور قرآن کی کوہان سورۃ البقرۃ ہے جس میں ایک ایسی آیت ہے جو قرآن کی سردار ہے یعنی آیۃ الکرسی ہے ، اسے روایت کرنے کے بعد کہتےہیں کہ یہ حديث غریب ہے ہم اسے صرف حکیم بن جبیر سے ہی جانتےہیں اور اس میں شعبـۃ نے کلام کی اور اسے ضعیف قرار دیا ہے ، میں کہتا ہوں کہ اسی امام احمد اور یحی بن معین اور کئ ایک آئمہ حدیث نے بھی اسے ضعیف قراردیا ہے ابن مھدی نے اسے ترک کیا اور سعدی نے کذب قرار دیا ہے ۔

ابن عمربیان کرتے ہیں کہ ایک دن عمربن خطاب رضي اللہ تعالی لوگوں کی جانب گۓ جوکہ قطاروں میں کھڑے تھے ، عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے کون بتاۓ گا کہ قرآن کریم میں سب سے بڑی آیت کون سی ہے ؟ ابن مسعود رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے کہ جاننے والے پرآپ کی نظرپڑی ہے میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوۓ سنا : قرآن مجید میں سب سے عظيم آيت آيۃ الکرسی ہے " اللہ لاالہ الا ھوالحی القیوم " ۔

اس آيت کے اسم اعظم پرمشتمل ہونے کے متعلق امام احمد رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ : اسماء بنت یزید بن السکن کہتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوۓ سنا کہ ان دوآیتوں " اللہ لاالہ الا ھو الحی القیوم " اور" الم اللہ لا الہ الاھوالحی القیوم " میں اللہ تعالی کا اسم اعظم ہے۔

اور اسی طرح ابوداود رحمہ اللہ نےمسدد اور ترمذی رحمہ اللہ نے علی بن خشرم اور ابن ماجہ رحمہ اللہ نے ابوبکربن ابی شیبہ اوریہ تینوں عیسی بن یونس عن عبیداللہ بن ابی زياد نے بھی اسی طرح روایت کی ہے ، امام ترمذی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ یہ حديث حسن صحیح ہے ۔

اور ابوامامہ مرفوعا بیان کرتےہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی کا اسم اعظم جس کے ساتھ دعا کی جاۓ توقبول ہوتی ہے وہ تین سورتوں میں ہے : سورۃ البقرۃ اور آل عمران اور طہ 

ھشام جو کہ ابن عمار خطیب دمشق ہیں کا کہنا ہے کہ سورۃ البقرۃ میں " اللہ لاالہ الا ھوالحی القیوم " اورآل عمران میں " الم اللہ لاالہ الاھوالحی القیوم " اور طہ میں " وعنت الوجوہ للحی القیوم " ہے 

اور ابوامامۃ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرضی نماز کے بعدآيۃ الکرسی پڑھنے کی فضیلت میں بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس ہرفرضی نمازکے بعد آیۃ الکرسی پڑھی اسے جنت میں داخل ہونے سے صرف موت ہی روک سکتی ہے 

امام نسائ رحمہ اللہ نے الیوم واللیۃ میں بھی حسن بن بشر سے اسی طرح کی روایت کی ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح ابن حبان میں محمد بن حمیر الحمصی سے روایت نقل کی ہے جو کہ بخاری کے رجال میں سے ہے اور اس کی سند بخاری کی شرط ہے ۔

واللہ تعالی اعلم .

جمعرات، 23 نومبر، 2023

وَمِنْ شَرِّحَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ

 

خطبۂ                   وَمِنْ شَرِّحَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ

                                                                   بِسّمِ اللَّہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم                                                

إن الحمد لله نحمده ، و نستعينه ، ونستغفره ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ، ومن سيئات أعمالنا .من يهده الله فلا مضل له ، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له .وأ شهد أ ن محمداً عبدُه و رسولُه .

يَاأَيها الذين آ مَنُوا اتقُوا اللهَ حَق تُقَا ته ولاتموتن إلا وأنتم مُسلمُون,يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيراً وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَتَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيباً,

 يَا أ يها الذين آ منوا اتقوا الله وقولوا قَو لاً سَديداً يُصلح لَكُم أَ عما لكم وَ يَغفر لَكُم ذُ نُو بَكُم وَ مَن يُطع الله وَ رَسُولَهُ فَقَد فَازَ فَوزاً عَظيم                               أَمَّا بَعْدُ:

فَإِنَّ أَصْدَقَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ، وَأَحْسَنَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ، وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ، وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ

حسد کی تعریف
حسد کا مطلب ہے کہ ''کسی دوسرے کی خوش حالی پر جلنا اور تمنا کرنا کہ اس کی نعمت اور خوش حالی دور ہوکر اسے مل جائے۔''

حسد ایک حقیقت ہے   دلائل درج ذیل ہیں:
«
أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَىٰ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۖ فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُم مُّلْكًا عَظِيمًا ﴿٥٤﴾ ‏»
یا وہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں جو اللہ نے انھیں اپنے فضل سے دیا ہے، تو ہم نے تو آل ابراہیم کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور ہم نے انھیں بہت بڑی سلطنت عطا فرمائی۔“ [النساء: 54]
«
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ﴿١﴾ ‏ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ ﴿٢﴾ ‏ وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ ﴿٣﴾ ‏ وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ﴿٤﴾ ‏ وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ﴿٥﴾ ‏»
تو کہہ میں پناہ پکڑتا ہوں لوگوں کے رب کی۔ لوگوں کے بادشاہ کی۔ لوگوں کے معبود کی۔ وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے، جو ہٹ ہٹ کر آنے والا ہے۔ وہ جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ جنوں اور انسانوں میں سے۔“ [الفلق: 1-5]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
« العين حق »
نظر حق ہے۔“ [صحيح البخاري 319/10 صحيح مسلم، رقم الحديث 2187]


ابلیس نے ہمارے باپ آدم علیہ السلام سے جو حسد کیا، وہ پہلا حسد تھا اور انسانوں کے درمیان پہلا معصیت کا کام قابیل کا اپنے بھائی ہابیل کو قتل کرنا تھا۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
«
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ ۖ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ ﴿٢٧﴾ »
اور ان پر آدم کے دو بیٹوں کی خبر کی تلاوت حق کے ساتھ کر، جب ان دونوں نے کچھ قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قبول کر لی گئی اور دوسرے کی قبول نہ کی گئی۔ اس نے کہا میں تجھے ضرور ہی قتل کر دوں گا۔ اس نے کہا بےشک اللہ متقی لوگوں ہی سے قبول کرتا ہے۔“ [المائدة: 27]

قابیل کا ہابیل سے حسد

﴿وَاتلُ عَلَيهِم نَبَأَ ابنَى ءادَمَ بِالحَقِّ إِذ قَرَّ‌با قُر‌بانًا فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِهِما وَلَم يُتَقَبَّل مِنَ الءاخَرِ‌ قالَ لَأَقتُلَنَّكَ ۖ قالَ إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ المُتَّقينَ ﴿٢٧﴾... سورة المائدة

''
اور ان کو آدم کے بیٹوں کا قصہ ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سنائیے جب دونوں نے قربانی پیش کی تو ان دونوں میں سے ایک کی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہیں ہوئی۔ اُس (قابیل) نے کہا۔ میں ضرور تمہیں قتل کردوں گا۔ اُس (ہابیل) نے کہا اللہ پرہیزگاروں سے قبول کرتا ہے۔''

برادرانِ یوسف کا یوسف ؑسے حسد
﴿اقتُلوا يوسُفَ أَوِ اطرَ‌حوهُ أَر‌ضًا يَخلُ لَكُم وَجهُ أَبيكُم وَتَكونوا مِن بَعدِهِ قَومًا صـٰلِحينَ ٩﴾... سورة يوسف
''
مار ڈالو یوسف کو یا کہیں پھینک آؤ تا کہ تمہارے باپ کی توجہ تمہاری طرف ہو یوسف کے بعد تم لوگ اچھے رہو گے۔''
یہود و نصاریٰ کا اسلام اور اہل اِسلام سے حسد
یہود ونصاریٰ اسلام،اہل اسلام،نبی معظم اور قرآن سے دلی طور پر بغض وحسد رکھتے ہیں
﴿وَإِذا خَلَوا عَضّوا عَلَيكُمُ الأَنامِلَ مِنَ الغَيظِ ۚ قُل موتوا بِغَيظِكُم...١١٩... سورة آل عمران
''
اور جب وہ اکیلے ہوتے ہیں تو غصہ کے مارے تم پراپنی انگلیاں کاٹتے ہیں۔ آپ کہو کہ تم اپنے غصہ میں جل مرو۔'ـ'
مشرکین مکہ کا قرآن اور اہل قرآن سے حسد
''
ہمارا اور بنی عبدمناف کا باہم مقابلہ تھا۔ انہوں نے کھانے کھلائے توہم نے بھی کھلائے، انہوں نے لوگوں کو سواریاں دیں تو ہم نے بھی دیں، انہوں نے عطیے دیئے توہم نے بھی دیئے،یہاں تک کہ وہ اور ہم جب عزت و شرف میں برابر کی ٹکر ہوگئے تو اب وہ کہتے ہیں کہ ہم میں ایک نبی ہے جس پر آسمان سے وحی آتی ہے۔بھلا اس میدان میں ہم کیسے ان کا مقابلہ کرسکتے ہیں؟ خدا کی قسم ...! ہم ہرگز نہ اس کو مانیں گے اور نہ اس کی تصدیق کریں گے۔'' (ابن ہشام:جلد۱وّل)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
« 
أكثر من يموت من أمتي بعد قضاء الله وقدره بالأنفس »
اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر کے بعد کثرت اموات نظر سے ہوں گی۔‘‘ امام بخاری نے اسے ”التاریخ الکبیر“ 360/4 میں روایت کیا ہے اور امام ہیثمی نے کشف الأستار 403/3 رقم الحدیث 3052 میں نقل کیا ہے۔
حسد قیامت کے قائم ہونے تک امتوں کی بیماری ہے۔ حسد اور ایمان ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«
لا تقاطعوا ولا تباغضوا ولا تحاسدوا، وكونوا عباد الله إخوانا »
تم قطع رحمی کرو نہ ایک دوسرے سے بغض کرو اور نہ حد کرو۔ اللہ کے بندو! بھائی بھائی ہو جاو۔“ [صحيح مسلم، رقم الحديث 2559]
نیز آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
«
خير الناس ذو القلب المخموم، واللسان الصادق قيل: ما القلب المخموم؟ قال: هو التقي النقي لا إثم فيه ولا بعي ولا حسد قيل: فمن على أثره؟ قال: الذى يشنأ الدنيا ويجب الآخرة قيل: فمن على أثره؟ قال: مؤمن فى خلق حسن»
لوگوں میں سب سے بہتر مخموم دل اور سچی زبان والا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: قلب مخموم کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ ایسا پرہیزگار اور پاکیزہ دل ہے جس میں کوئی گناه، بغاوت اور حسد نہیں ہوتا۔ کہا گیا: کون اس کے اثر پر ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جو دنیا کو برا جانتا اور آخرت کو پسند کرتا ہے۔ کہا گیا: اس کے بعد کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حسن اخلاق والا مومن۔“دیکھیں ! صحيح الجامع، رقم الحديث [3291]
ابوعبیدہ نے ذکر کیا ہے کہ «النقي» سے مراد وہ ہے جس کے دل میں حسد اور کینہ نہ ہو۔ [سنن ابن ماجه، رقم الحديث 4306]
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔

268۔ کیا حسد کے علاج کی کوئی دلیل ہے ؟
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا :
« أمرني النبى صلى الله عليه وسلم أو أمر أن نسترقي من العين »
مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نظر سے دم کروانے کا حکم دیا۔
[
صحيح البخاري، كتاب الطب، باب رقية العين، رقم الحديث 5738 صحيح مسلم، رقم الحديث 2195]

«اللھم لامانع لما أعطیت ولا معطي لما منعت» (صحیح بخاری:۶۶۱۵)
''
اے اللہ!اُس چیز کو کوئی نہیں روک سکتا جو تو دے، اور کوئی نہیں اس کو دے سکتا جسے تو روک لے۔

٭ اشتعال میں نہ آئیں اور انتقام کے منصوبے نہ بنائیں۔ آپ کا صبر ہی حسد کو ختم کرے گا۔
٭ حاسد کو معاف کردیں اس سے اس کے حسد میں کمی ہوگی۔
٭ اللہ سے تعلق مضبوط کرنے کے لیے نماز کی پابندی ضرور کریں۔
٭ صبح و شام کے اَذکار پڑھیں۔
٭ صبح و شام دم کریں۔ نظر بد سے بچاؤ کی دعائیں پڑھیں اوراپنے آپ کو اللہ کی پناہ میں دے دیں،کیونکہ اللہ کی پناہ کے علاوہ حاسد سے بچنے کا اور کوئی چارا نہیں ہے۔ حسد سے بچاؤ کا سب سے مضبوط قلعہ اللہ کی پناہ میں آنا ہے۔
٭ حاسد نے جو کچھ آپ کے ساتھ کیا وہ اس کے علم اور ظرف کے مطابق تھا۔ آپ اپنے علم اور ظرف کے مطابق جوابی رد عمل ظاہر کردیں۔ خیر خواہی کے علاوہ کچھ نہ چاہیں۔
٭ حسد کی وجہ تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ پھر حکمت کے ساتھ حاسد کا سامنا کریں۔
٭ حاسد سے کم کم ملیں۔
٭ حاسد کی ہدایت کے لیے دعائے خیر کریں۔
٭ خوف ِ خدا اور تقویٰ کی روش پر قائم رہیں۔
٭ جب کبھی موقع ملے تو حاسد کے ساتھ احسان یا بھلائی کا معاملہ کریں۔ قطع نظر اس کے کہ اس سے حاسد کے حسد میں کمی ہورہی ہے یا نہیں؟
٭کچھ معاملات میں رازداری سے کام لیں۔ کام کرنے سے پہلے اس کا ڈھنڈورا نہ پیٹنا شروع کردیں۔
٭حسد کے جواب میں حسد کرنا یا غیر شرعی طریقے اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔ رسول اللہﷺسے کچھ دعائیں ثابت ہیں جو حسد سے اور نظر ِ بد سے بچاؤ کے لیے ہر مسلمان کو پڑھنی چاہئیں۔ مثلاً :

. معوذتین پڑھیں:
عبداللہ بن عابس الجہنی کی روایت نسائی، بیہقی، بغوی اور ابن سعد نے نقل کی ہے کہ حضورﷺ نے مجھ سے فرمایا: ''ابن عابس، کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ پناہ مانگنے والوں نے جتنی چیزوں کے ذریعے سے اللہ کی پناہ مانگی ہے ان میں سب سے افضل کون سی چیزیں ہیں؟میں نے عرض کیا ضرور یارسول اللہﷺ! فرمایا:﴿قُل أَعوذُ بِرَ‌بِّ الفَلَقِ ١ ... سورة الفلق" اور ﴿قُل أَعوذُ بِرَ‌بِّ النّاسِ ١... سورة الناس"یہ دونوں سورتیں۔'' (سنن نسائی:۸۶۳)
2.
ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ پر یہ دُعا پڑھتے تھے۔
«
أعیذکما بکلمات اﷲ التامة من کل شیطان وھامة ومن کل عین لامة»
''میں تم کو اللہ کے بے عیب کلمات کی پناہ میں دیتا ہوں ہر شیطان اور موذی سے اور ہر نظر بد سے۔'' (صحیح بخاری:۳۳۷۱)
3.
مسلم میں ابوسعید خدریؓ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبیﷺ بیمار ہوئے تو جبریل ؑ نے آکر پوچھا: ''اے محمدؐ! کیا آپ بیمار ہوگئے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں! انہوں نے کہا:
«
باسم اﷲ أرقیك من کل شيء یؤذیك من شر کل نفس أو عین حاسد اﷲ یشفیك باسم اﷲ أرقیك» (رقم الحدیث:۲۱۸۶)

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو صراط مستقیم پر ثابت قدمی سے

 

جمعہ، 22 ستمبر، 2023

سورہ الاعراف ، آیت نمبر 133

 السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،،،


تفسیر القرآن الکریم

فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللّٰہ 

سورہ الاعراف ، آیت نمبر 133


أَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیم


فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ آيَاتٍ مُفَصَّلَاتٍ فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا مُجْرِمِينَ


تو ہم نے ان پر طوفان بھیجا اور ٹڈیاں اور جوئیں اور مینڈک اور خون، جو الگ الگ نشانیاں تھیں، پھر بھی انھوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم لوگ تھے۔


(آیت 133تا136) فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوْفَانَ … : جب وہ قحط سالی اور پھلوں کی کمی کی گرفت کے باوجود کفر اور سرکشی پر ڈٹ گئے اور اس مصیبت کو موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر مزید سختیاں نازل ہونا شروع ہوئیں جو فرعون اور اس کی فوجوں کے مکمل خاتمے اور غرق ہونے کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔ قحط سالیوں کے بعد ’’ الطُّوْفَانَ ‘‘ یعنی سخت بارش اور سیلاب شروع ہوا جس سے ان کی زندگی دشوار ہو گئی تو انھوں نے موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی کہ تمھارا اپنے رب سے جو عہد اور معاملہ ہے اسے پیش کرکے اس سے ہمارے لیے یہ عذاب دور کرنے کی دعا کریں، اگر تم نے ہم سے یہ عذاب دور کروا دیا تو ہم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تم پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو تمھارے ساتھ بھیج دیں گے۔ (لام تاکید اور نون ثقیلہ عربی میں قسم کا مفہوم رکھتا ہے) ظالم اب بھی اپنے اور ساری کائنات کے رب کو موسیٰ علیہ السلام کا رب ہی کہہ رہے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے یہ عذاب ٹلا تو مدت کی سوکھی زمین نے پانی کی فراوانی کی وجہ سے بے حساب چارا اور غلہ پیدا کیا، یہ ان کی خوش حالی کے ساتھ آزمائش تھی، جس سے وہ سب عہد و پیمان بھول کر کہنے لگے کہ یہ سیلاب تو ہمارے لیے نعمت تھا۔ اب اللہ تعالیٰ نے ان پر ’’ الْجَرَادَ ‘‘ (ٹڈیوں) کا عذاب بھیجا جو ان کے درخت، چارے اور لکڑیاں تک چٹ کر گئیں۔ انھوں نے پھر موسیٰ علیہ السلام سے انھی الفاظ میں عذاب ٹالنے کی دعا کی درخواست کی جو اوپر ذکر ہوئے ہیں۔ یہ عذاب دور ہوا تو پھر خوش حالی کا ایک وقفہ آیا کہ بچی فصل سے بھی بے شمار غلہ پیدا ہوا، جسے کاٹ کر انھوں نے اپنے گھروں میں محفوظ کر لیا اور اپنے خیال میں کم از کم سال بھر کے لیے بے فکر ہو گئے اور موسیٰ علیہ السلام سے کیا ہوا عہد و پیمان پھر بھول گئے۔ اب ان پر ’’ الْقُمَّلَ ‘‘ کا عذاب نازل ہوا، یعنی جوئیں، چچڑیاں، چھوٹے چھوٹے کالے کیڑے، گھن کے کیڑے، پسو وغیرہ، ان سب پر ’’ الْقُمَّلَ ‘‘ کا لفظ بولاجاتا ہے۔ انسانوں اور جانوروں کے جسموں، کپڑوں اور بستروں پر جوؤں، پسوؤں اور کھٹملوں کی یلغار ہو گئی۔ غلے کو گھن لگ گیا، پسوانے کے لیے بوریاں لے جاتے تو آٹے کا فقط ایک تھیلا نکلتا، پھر مجبور ہو کر انھوں نے موسیٰ علیہ السلام سے اسی طرح دعا کی درخواست کی۔ جب ان کی دعا سے وہ بلا ٹلی اور راحت و آرام کا وقفہ آیا تو اپنے عہد سے پہلے کی طرح پھر گئے، اب ان پر ’’ الضَّفَادِعَ ‘‘ یعنی ’’مینڈکوں‘‘ کا عذاب آیا اور وہ اس کثرت سے پھیل گئے کہ ہر چیز اور برتن میں مینڈک ہی مینڈک نظر آنے لگے، کھانا کھاتے ہوئے لقمے کی جگہ اچھل کر منہ میں مینڈک جا پڑتا، لیٹتے تو بستر اور جسم مینڈکوں سے بھر جاتا۔ مجبور ہو کر انھوں نے پھر موسیٰ علیہ السلام سے یہ عذاب ٹالنے کے لیے دعا کی درخواست انھی وعدوں کے ساتھ کی، مگر جب عافیت ملی تو پھر ایمان لانے اور بنی اسرائیل کو آزادی دینے سے انکار کر دیا۔ اب ان پر خون کا عذاب آیا، کھانے یا پینے کی جو چیز رکھتے خون میں بدل جاتی، پانی کے برتنوں اور ذخیروں نے خون کی صورت اختیار کر لی۔ بعض مفسرین نے خون کے عذاب میں نکسیر کی وبا کا ذکر بھی فرمایا ہے۔ ان کے رجوع اور درخواست پر موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے یہ عذاب ٹلا تو پھر اپنے کیے ہوئے عہد سے پھر گئے۔ اب اللہ تعالیٰ کے انتقام کا وقت آ گیا اور ان سب کو اللہ کی آیات و معجزات جھٹلانے اور ان سے جان بوجھ کر غفلت اختیار کرنے کی پاداش میں سمندر میں غرق کر دیا گیا۔ یہاں اس غرق کی تفصیلات بیان نہیں ہوئیں، وہ سورۂ یونس، شعراء اور طہ وغیرہ میں بیان ہوئی ہیں، کیونکہ یہاں اصل مقصد کفار کو سختی اور خوش حالی کی آزمائش کی پروا نہ کرتے ہوئے کفر پر اصرار کے انجام سے ڈرانا ہے۔ ’’ اٰيٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ ‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب اور عافیت کے یہ وقفے یکے بعد دیگرے آئے۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ فرعون اور موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ اس بات پر چالیس برس رہا کہ وہ بنی اسرائیل کو اپنے وطن جانے دے اور آخر میں یہ عذاب ایک ایک ہفتے کے وقفے سے آئے۔ (موضح) تفسیر طبری میں تابعین کی بعض روایات میں عذاب کا عرصہ ایک ہفتہ اور درمیانی عافیت کا عرصہ ایک ماہ لکھا ہے، مگر ہمارے پاس ان میں سے کسی قول کی تصدیق یا تردید کا کوئی صحیح ذریعہ نہیں۔ نصیحت کے لیے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے وہی کافی ہے۔

اتوار، 27 اگست، 2023

ہم جنس پرستی کے عوامل و اسباب اوردینی، اخلاقی اورطبی نقصانات


اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کائنات میں ایک اعلی وارفع مقام بخشا ہے ، اگر انسان اپنی اس حیثیت اور مقام ومرتبہ کو بھلا کر ذلت وپستی کی گہرائیوں میں گرنا پسند کرے تو سمجھ لیجئے کہ اس نے اپنے لئے ایک ایسی راہ کا انتخاب کیا ہے جو اسےانتہائی اندھیروں میں لے ڈوبے گی ۔ ہم جنس پرستی زنا سے زیادہ بدتر جرم ہے، اور یہ فطرتِ سلیمہ کے بھی خلاف ہے، سابقہ امتوں میں سے ایک اُمّت قوم لوط پر اسی قبیح عمل کو اختیار کرنے کی وجہ سے عذاب آیا تھا، ان کی بستی کو اوپر اٹھا کر زمین پر الٹ دیا گیا تھا اور پھر پتھروں کی بارش برسائی گئی تھی، جس سے پوری قوم ہلاک ہوگئی تھی؛ اللہ رب العالمین کے اس شدید عذاب سے بعد والی قوموں کے لئے ایک عبرت کا سبق ملتا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ اس جرم کی شدت زنا سے بھی زیادہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے نسل انسانی کی بقا کے لئے جہاں دیگرانواع و اقسام کی غذائیں اور چیزیں فراہم کی ہیں وہیں اس کی جنسی تسکین کے لئے بھی ایک جائز اور فطری راہ کا انتخاب کیا ہے، یوں انسان کی نسل بھی آگے بڑھتی ہے، اگر یہ انتظام نہ ہو تو ہر طرف انارکی ، بے راہ روی اور معاشرے کا پورا نظام تباہ ہو کر رہ جائے۔ کیونکہ جو راستہ اللہ رب العزت نے مرد اور عورت کے لئے فطرت میں رکھا ہے صرف وہی راستہ انسان کی سعادت اور بقائے نسل کا باعزت راستہ ہے اور جو اس راستے کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کرے وہ فطرت سے باغی اور اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے ۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے  :

فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ  الْعَادُونَ

المؤمنون – 7

پس جو کوئی ان دو کے سوا اپنی خواہش پوری کرنے کا کوئی راستہ اختیار کرے گا تو وہی لوگ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔

یعنی بیوی اور لونڈی کے علاوہ کسی بھی طریقے سے شہوت پوری کرنے والے ہی حد سے بڑھنے والے ہیں۔ اس آیت سے اپنی منکوحہ عورتوں اور اپنی لونڈیوں کے سوا کسی بھی عورت سے جماع حد سے بڑھنا ٹھہرا۔۔ اس سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ متعہ کی اسلام میں قطعاً اجازت نہیں ہے کیونکہ نکاحِ متعہ کے ذریعے بنی ہوئی بیوی حقیقی بیوہ ہے نہ اس کو نکاح میں باقی رکھنا ہی مقصود ہے اور نہ وہ لونڈی کے زمرے میں آتی ہے، نیز یہ آیت کریمہ نکاحِ حلالہ کی تحریم پر بھی دلالت کرتی ہے۔

لہذا جنسی خواہش کی تسکین کے لیے صرف دو ہی جائز طریقے ہیں، بیوی سے مباشرت کر کے، یا لونڈی سے ہم بستری کر کے۔ بلکہ اب صرف بیوی ہی اس حکم کا مصداق ہے کیونکہ اصطلاحی لونڈی کا وجود فی الحال معدوم ہے۔ جو شخص ان کے سوا دوسرے طریقوں سے یا کسی دوسرے سے خواہش پوری کرے، وہ حد سے گزر جانے والا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا

الاسراء – 32

خبردار! زنا کے قریب بھی نہ جاؤ ،کیونکہ وہ بڑی بے حیائی اور بُرا راستہ ہے۔

اسی طرح قومِ لوط کا عمل، کسی جانور سے بدفعلی اور ہاتھ یا کسی اور طریقے سے ایسا فعل بھی حد سے تجاوز ہے اورجب انسان فطرت سے بغاوت پر اتر آئے گا تو اس کے سنگین نتائج آنا شروع ہوجاتے ہیں جو دینی ، اخلاقی اور طبی طور پر نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ چنانچہ مندرجہ ذیل سطور میں ہم جنس پرستی کے اسباب ، اس کے دینی، اخلاقی اورطبی نقصانات پر چند گذارشات قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔


یہ بھی پڑھیں: ٹرانس جینڈر قانون ، حقائق ،مفاسد اور معاشرے پر اس کے خطرناک اثرات

یہ بھی پڑھیں: سدومیت یا ہم جنس پرستی


اسباب وعوامل

ہم ان اسباب کو دینی اور دنیاوی دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

دینی اسباب

دینی اسباب میں سب سے اہم ایمان کی کمزوری اور صلوات خمسہ کی عدم ادائیگی ہے اور جہالت وکم علمی اس پر مستزاد ہے۔

بے پردگی

 عمومی طور پر لڑکی کا اسلام میں ایک لڑکی سے جو شرعی پردہ ہے وہ بھی نہیں کیا جاتا اور اک دوسرے کے سامنے کپڑے وغیرہ بدلنا یا اپنی دوست سے ہر طرح کی باتیں شیئر کرنا بھی صنف نازک کو صنف نازک کی طرف مائل کرتا ہے۔

بد نظری

نظر شیطان کے تیروں میں سے پہلا تیرہے، اس لئے سب سے پہلے اس کی حفاظت کی جائے۔ کیونکہ یہ بد نظری ہی ایسا چور دروازہ ہے کہ عام طور پر برائی کی ابتدا یہیں سے ہوتی ہے اوراسی بد احتیاطی کی وجہ سے زندگی بھر کی نیک نامیوں پر بٹہ لگ جاتا ہے اس بدترین گناہ کی سنگینی کو محسوس کرتے  ہوئے اسلامی شریعت نے اولاً بد نظری کے ہر دروازے کو بند کرنے پر نہایت زور دیا ہے قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے :

قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ  ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ  إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ

النور – 30

مومن مردوں سے کہہ دے اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ بے شک اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے جو وہ کرتے ہیں۔

زنا اور بہتان سے محفوظ رکھنے کے لیے نظر کی حفاظت کا حکم دیا، کیونکہ آدمی کے دل کا دروازہ یہی ہے اور تمام شہوانی فتنوں کا آغاز عموماً یہیں سے ہوتا ہے۔

 عربی شاعر احمد شوقی نے کیا خوب کہا ہے :

نَظْرَةٌ فَابْتِسَامَةٌ فَسَلَامٌ
فَكَلَامٌ فَمَوْعِدٌ فَلِقَاءٌ

’’نظر ملتی ہے، پھر مسکراہٹ، پھر سلام، پھر گفتگو، پھر وعدہ اور پھر ملاقات تک بات جا پہنچتی ہے ‘‘ ۔

’’ انسان کو لاحق ہونے والی عام مصیبتوں اور پریشانیوں کی اصل جڑ اور بنیاد نظریں ہی ہوا کرتی ہیں کیونکہ اسی نظر سے دلوں میں مختلف وسوسے پیدا ہوتے ہیں ، وسوسے افکار و خیالات کو جنم دیتے ہیں ، خیالات سے شہوت بیدار ہوتی ہے، شہوت اور جنسی ہیجان سے دل میں ارادہ جنم لیتا ہے جو زور پکڑتے ہوئے عزم مصمم کی شکل اختیار کرلیتا ہے پھر لازمی طور پر آخری عمل انجام پاتا ہے، جس سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ نگاہوں کو پست اور نیچی رکھنے پر صبر کرلینا، بعد میں لاحق ہونے والی تکلیف پر صبر کرنے کی بنسبت زیادہ آسان ہے۔ ‘‘

مسلم خواتین کو مردوں کی جانب نظر اٹھانے نیز میگزین، ٹیلی ویژن یا ویڈیو پر پیش کی جانے والی ہیجان انگیز تصویروں کو دیکھنے سے پرہیز کرنا چاہیے، برے انجام سے محفوظ رہیں گی، کتنی نظریں نظر والوں کے لیے افسوس و ندامت کا باعث بنتی ہیں ، چھوٹی چنگاری ہی سے آگ بھڑکتی ہے۔

وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

النور – 31

اور مومن عورتوں سے بھی کہئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو از خود ظاہر ہو جائے۔ اور اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر ڈال لیا کریں اور اپنے بناؤ سنگھار کو ظاہرنہ کریں مگر ان لوگوں کے سامنے : خاوند، باپ، خاوند کے باپ (سسر) بیٹے، اپنے شوہروں کے بیٹے (سوتیلے بیٹے) بھائی، بھتیجے، بھانجے ، اپنے میل جول والی عورتیں، کنیزیں جن کی وہ مالک ہوں ۔ اپنے خادم مرد  جو عورتوں کی حاجت نہ رکھتے ہوں اور ایسے لڑکے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سےابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔ اور اپنے پاؤں زمین پر مارتے ہوئےنہ چلیں کہ جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہے اس کا لوگوں کو علم ہوجائے اور اے ایمان والو! تم سب مل کر اللہ کے حضور توبہ کرو توقع ہے کہ تم کامیاب ہوجاؤ گے۔

آیت مذکورہ میں بد نظری اور شرم گا ہ کی حفاظت کو ایک ساتھ بیان کیا گیا کیونکہ یہ بد نظری ہی فواحش کا دروازہ ہے اور برائیوں پربند اسی وقت ممکن ہے جبکہ بدنظری پر روک لگائی جائے جب تک نظر محفوظ نہ ہو شرم گا ہ کی حفاظت کی گارنٹی نہیں لی جاسکتی۔

دنیاوی اسباب

گندی اور فحش فلمیں

یعنی ان حرام کاموں کے ارتکاب سے بچے بہت تیزی سے اس کے اثر میں آجاتے ہیں ، اور لڑکا لڑکی کا فرق دیکھے بغیر جہاں موقع مل جائے وہی سب دہرانے کی کوشش کرتے ہیں جوان کے ذہنوں پر بری طرح سوار ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ ، شہر اور قصبوں یا گاؤں میں موجود دوکانوں سے فحش ،ننگی اور گندی فلمیں ہمارے نوعمروں کو آسانی سے دستیاب ہو جاتی ہیں۔

ہم جنس پرستی پر فلمیں

نیز جن ملکوں میں ہم جنس پرستی کی اجازت ہے ان میں سے کچھ ممالک میں اس موضوع پر فلمیں بھی بن رہی ہیں۔ ظاہر کہ جب بچہ میڈیا پر یہ سب دیکھے گا تو وہی کرنے کی بھی کوشش کرے گا۔ یہی عمر تو عادتیں بناتی اور بگاڑتی ہے، اس عمر میں بھٹکنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اور بچپن میں ہم جنس کے ساتھ کسی عمل میں انہیں لذت آجائے تو پھر وہ اس کے عادی ہو جاتے ہیں۔

فحش لیٹریچر

جسے پڑھ کر جنسی ہیجان مشتعل ہوتا ہے اور لوگ اس قبیح فعل سے اس آگ کو سرد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب تو بھارت میں مرد ہم جنس پرست جریدے ”تفریح“ کی اشاعت شروع ہو چکی ہے۔ یہ میگزین جب مارکیٹ میں آتا ہے تو ہاتھوں ہاتھ بک جاتا ہے۔ اس میگزین کی اشاعت جولائی2011 میں شروع کی گئی تھی۔ جس میں نوجوانوں اور جنسی مسائل سے متعلقہ مضامین کے ساتھ ساتھ انڈرویئر پہنے ہوئے ماڈلز اور جدید کاروں کی تصاویر شائع کی گئیں تھیں۔

صحبتِ بد

غلط لوگوں سے یاری خصوصا اس مرض کے مریض سے دوستی سب سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ وہ لا محالہ اپنے ساتھی کو اس لذت کا عادی بنا دے گا۔

شادی شدہ حضرات کا بچوں کے سامنے پوشیدہ افعال وحرکات کو انجام دینا، کچی عمر کے بچوں کا ایک بستر پر سونا اس آلودگی کا سبب بن سکتا ہے۔ اسی طرح فضول قسم کے مذاق جو ہم جنسوں کے بارے میں ہوتا ہے اور ایسی بے ہودہ محفلیں اس طرف کھینچ لے جانے کا سبب بنتی ہیں۔

 سب جانتے ہیں کہ پورنوگرافک چینلز کی تعداد گلوبل ورلڈ میں باقی تمام چینلز سے زیادہ ہے۔ جب بچہ میڈیا پر یہ سب دیکھے گا تو وہی کرنے کا بھی دل کرے گا ، جیسے بچے کرکٹ دیکھ کر کرکٹر بننے کی ضد کرتے ہیں۔ فٹبال دیکھ کر فٹبال کھیلنے کا دل کرتا ہے۔ فلمیں دیکھ کر خود کو ہیرو ہیروئین سمجھنے لگتے ہیں اور ریسلنگ دیکھ کرپہلوان اور طاقت ور بننے کی خواہش جاگتی ہے۔ یہی عمر تو عادتیں بناتی اور بگاڑتی ہے، اس عمر میں بھٹکنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اور بچپن میں ہم جنس کے ساتھ کسی عمل میں انہیں لذت آجائے تو اکثر پھر مخالف جنس کی طرف دیکھتے بھی نہیں ، وہ نفسیاتی طور پر خود کو ڈیفیکٹڈ پرسن سمجھ لیتے ہیں اور اسی غلط فہمی میں اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔  

اسمارٹ فونز

 جہاں جدید ٹکنالوجی اور سماجی ویب سائٹس کے فوائد ہیں وہیں اس کے بے شمار نقصانات بھی ہیں۔ہمارے چھوٹے اور کم سن بچوں کے پاس موبائل، انٹرنیٹ، نت نئے ایجادات ہیں وہ اس نئی ایجادات و اسمارٹ فون کے ذریعہ کیا کرتے ہیں؟ ایک کلک میں بچہ ہو یا بڑا کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے اور کیا کچھ دیکھ سکتا ہے یہ سبھی جانتے ہیں۔ اکثر و بیشتر بچے حیاسوز،اخلاق سوز یہاں تک کے ایمان سوز سیریل کی طرف اپنا قدم بڑھاتے ہیں اور نہ جانے اس کا یہ قدم بڑھتا ہوا کس قدر ذلت و رذالت میں جا گرتا ہے اس کا مشاہدہ اس روئے زمین پر رہنے بسنے والے خوب کرتے ہیں اور آئے دن ایسے واقعات اور حادثات رونما ہوتے ہی رہتے ہیں ، یہ اوراس جیسے ڈھیرسارے نقصانات ہیں جس کا شمار نہایت مشکل ہے۔

غیر شائستہ ماحول

 والدین کا بچوں کے سامنے غیر اخلاقی حرکتیں کرنا اور نو عمر بچوں کا والدین کے جنسی عمل کا مشاہدہ کرنا بھی ہم جنس پرستی کے اسباب میں سے ہے۔ مغربی ماحول میں اس کے شدت سے پروان چڑھنے کی وجہ یہی ہے۔

 نفسیاتی اثر

 نفسیاتی تاثر بچوں پر زیادہ شدت سے اثر بھی کرتا ہے اور بڑوں کی لاپرواہی اس آگ کو مزید ہوا دیتی ہے۔ یہ بات قرآن و سنت، لاجک۔ نفسیات و مستند سائنس اور عقل و دلیل سے بالا تر ہے کہ ایک بچہ پیدا ہوا اور وہ ہم جنس پرست پیدا ہوا۔ اس مثال کو کچھ دیر کے لئے مان بھی لیا جائے تو جو زنا کا عادی ہے وہ پیدا بھی زانی ہوا ہوگا، چور بھی پیدائشی چور ہوگا۔ ایک پیشہ ور قاتل یا ڈاکو جو حالات اور ماحول کی وجہ سے بنا، کیا وہ پیدائشی قاتل اور ڈاکو کی فطرت لے کر پیدا ہوا تھا؟ ہرگز نہیں۔ یہ عقل میں نہ آنے والی بات ہے۔

 پرائیویسی کا نقصان

ہائی سوسائٹی میں ہر بچے کا کمرہ الگ ہوتا ہے جس میں اس کو پرسنل موبائل۔ لیپ ٹاپ۔ ٹی وی وغیرہ کی سہولت میسر ہوتی ہے، کمرہ میں آنے کے بعد اندر سے کمرہ لاک کرنا اس کا بنیادی حق سمجھا جاتا ہے، اس کے کمرے میں اس کی اجازت کے بنا داخل ہونا اس کی پرائیویسی کو ڈسٹرب کرنا انتہائی غیر اخلاقی حرکت سمجھا جاتا ہے، اس کی مرضی ہوتی ہے وہ چاہے جیسے بھی دوست لڑکا ہو یا لڑکی۔ ان کو اپنے کمرے میں لے جا کر دروازے پر ڈو ناٹ ڈسٹرب کا سائین لگا کر اندر جو چاہے کرتا پھرے۔ پرائیویسی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بچوں کو پرائیویسی کے بہانے والدین سے الگ کرتے ہیں اور پھر اس پرائیویسی کے دوران ان کے ذہنوں میں اپنی کتابوں اور میڈیا کے ذریعے زہر انڈیلتے ہیں اور ہم جنسیت (homosexual) کو ایک نارمل انسانی رویہ باور کرواتے ہیں۔

 عورتوں سے بُرا سلوک

 درج بالا وجوہات کے علاہ لڑکیوں میں کچھ مزید چیزیں انہیں ہم جنس پرستی کی  طرف لے جاتی ہیں۔ بچپن میں گھر کے بڑوں کا گھر کی عورتوں سے برا سلوک بچیوں کے ذہن میں مرد کے لئے نفرت پیدا کر دیتا ہے۔ اسی طرح لڑکوں کی بھی کچھ  خاص وجوہات ہوتی  ہیں ۔ایسے گھروں میں اکثر gay , lesbian, homosexual, bisexual, tri sexual پروان چڑھتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کے یہ پیدائشی ایسے تھے اور اللہ نے سزا دی یا آزمائش میں ڈال کر امتحان لیا جب کے ٹی وی چینلز اور کیبل کی طرف بھی کبھی ہمارا دھیان نہیں جاتا کے اس میں کھلے عام کیا کیا آتا ہے اور بچوں کی پہنچ سے دور نہیں۔

کم عمری کی محبتیں

 ہم جنس پرستی کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ایک لڑکی کے دل میں مرد ذات سے احساس کمتری کا شکار ہو جانا کہ ہر جگہ مرد کو زیادہ حق ملنے کی غلط فہمی بھی بنتی ہے، اور حسدکی بنیاد پر وہ لڑکیوں کو ہی پسند کرنے لگتی ہے اور مرد سے دوربھاگتی ہے۔

قانو نی حیثیت

جدید دنیا میں ہم جنس پرستی کو تسلیم کیا جاتا ہے، پاکستانی پارلیمنٹ نے بھی جدید دنیا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے 2018 میں خواجہ سرا اور خُنثی کی آڑ میں اس غیر انسانی رویے کو قانونی تحفظ فراہم کرتے ہوئے ٹرانس جینڈر پرسنز پروٹیکشن آف رائٹس ایکٹ منظور کیا ہے۔ برطانیہ میں بھی پہلے ہم جنس پرستی کو جرم قرار دیا جاتا تھا۔ لیکن آج انہیں قانونی تحفظ حاصل ہے۔ اس قانون کے مطابق بالغوں کے بیچ جنسی تعلقات جرم نہیں ہے۔

شادی کی اجازت

کچھ ملکوں میں ہم جنس پرستوں کو شادی کرنے کی اجازت ہے۔ ان ملکوں میں ہالینڈ، ناروے، بیلجیم، اسپین، جنوبی افریقہ، سویڈن اور کینیڈا شامل ہے۔ ہالینڈ میں سب سے پہلے ہم جنس شادیوں کو قانونی حیثیت ملی۔ ہالینڈ میں یہ قانون2001 میں منظور ہوا تھا۔ اسپین میں 2005 میں اسے قانونی حیثیت عطا کی گئی۔ سب سے آخری میں کینیڈا نے ان شادیوں یعنی ’’گیے میریج‘‘ کو تسلیم کیا۔ سویڈن کے اسٹاک ہوم جیسے مغربی تہذیب کے مراکزمیں ہم جنسی پرستی کی شادیوں کا رواج کافی پرانا ہے لیکن سنہ 2009ء میں حکومت نے اسے قانونی حیثیت دی۔ مصر میں ہم جنس پرستی پر قانونی طور پر کوئی پابندی نہیں ۔ قانونی اجازت ہونے کی وجہ سے بھی بچیاں ایک دوسرے سے لذت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور بعد میں لت لگ جاتی ہے۔

آئی ایل جی بی ٹی تنظیم کی تحریک

 آئی ایل جی بی ٹی International Lesbian. Gay. Bisexual. Trans and Inter-sex Association جس کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں بسنے والے ہم جنس پرستوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے 110 ممالک میں متحرک ہے جس میں ترکی سمیت کئی مسلم ممالک بھی شامل ہیں۔

اقوام متحدہ کا کردار

 اقوام متحدہ تمام اداروں رکن ملکوں کو ہم جنس پسندوں کے حقوق کے تحفظ کی تلقین کرتا ہے۔ اس عالمی ادارے کے مطابق ہم جنس پرستی یا جنسی ترجیحات کی بنیاد پر ہونے والے امتیازی سلوک اور تشدد کے خلاف بھی اسی سختی سے کارروائی کی جائے جیسی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف کی جاتی ہے۔

شادی میں تاخیر

  شادیاں لیٹ ہونا لڑکے لڑکیوں کا بھی ایک بنیادی نقطہ ہے۔ شوہر کی بے رخی یا مصروفیت یا الگ شہروں اور ملکوں میں ملازمت بھی قریبی عورتوں سے قربت وغیرہ اور اس جیسی دوسری بیماریوں میں پڑ جانے کا سبب بن سکتا ہے۔

مذہبی عوامل

دنیا کے کچھ مذاہب میں ہم جنس پرستی کو زیادہ مثبت انداز سےدیکھا جاتا ہےاور آزاد خیال مذہبی فرقہ ہم جنس شادیوں کو بھلا سمجھتا ہے۔ کچھ ہم جنس محبت اور جنسیت کو مقدس دیکھتے ہیں ۔بہت سے مذاہب کے کچھ ماننے والے دونوں جنسوں کی طرف رحجان کے حوالے سے مثبت سوچ رکھتے ہیں اور بعض ہم جنس شادیوں کو بھی قبول کرتے ہیں اور ایل جی بی ٹی حقوق کا پرچار کرتے ہیں۔ ایسے افراد کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور ترقی یافتہ ممالک کی بہت بڑی تعداد اس کی حامی ہے۔

مثال کے طور پر ہندو مت میں ہم جنسیت گناہ نہیں۔ 2009 میں ہندو کونسل یو کے نے بیان جاری کیا: “ہندو مت ہم جنسیت کو رد نہیں کرتا”۔ سکھ شادیوں کی تقریبات جنس سے منسلک نہیں اس لیے سکھ مت میں ایک ہی جنس کے افراد باہم شادی کر سکتے ہیں۔

الحاد اور بے دینی

 آج کل ہر دوسرے بیسٹ سیلر ناول میں الحاد اور ہم جنس پرستی کی تعلیم ہے۔ ان دونوں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کوئی بھی مذہب اس قبیح فعل کی اجازت نہیں دیتا۔ اسی لیے ہم جنسیت سے اگلا پڑاؤ الحاد یعنی ہے۔ ہم جنس پرستی(homosexuality)  کفر کی طرف لے جانے والا راستہ اور شیطان کا ہتھیار ہے۔

غربت

اس فعلِ بد کی وجوہات میں سے ایک وجہ غربت ہے اگر مناسب ماحول ملے جس میں وہ کسی ہنر کو سیکھ کر معقول روزگار کما سکیں تو اس برائی کا سدباب ممکن ہے۔

ہم جنس پرستی اور جینز (Genes)

ایک ریسرچ مطابق ہم جنس پرستی کا جینز (Genes) سے کوئی تعلق نہیں۔ یعنی کوئی ایسا جین یا میوٹیشن موجود نہیں جو انسان کو ہم جنس پرست بننے پہ مجبور کردے۔ لہذا سائنس پرست اور ملحد افراد کے دعوے ایک دفعہ پھر غلط ثابت ہوگئے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بہت سے معاشرتی اور نفسیاتی پہلو ہیں جن کی وجہ سے انسان ہم جنس پرستی کا انتخاب کرتا ہے۔ انسان کس ماحول میں پلا بڑھا، کیسے نظریات اور کیا تعلیم بچپن میں سیکھائی گئی جیسے عوامل بہت اہم ہیں۔

ہم جنس پرستی کے دینی واخلاقی نقصانات

قارئین کرام! انسان فطری (natural) اور طبعی (physical) طور پر اپنے صنف مخالف کی طرف مائل ہوتا ہے جس کے بنیادی مقاصد میں سے ایک خاندان کی تشکیل بھی ہے اسی لئے مرد و عورت کی جسمانی ساخت اور نفسیاتی ترکیب مقاصد زوجیت کے عین مطابق بنائی گئی ہے، تاکہ فطرت کا منشاء پورا ہو۔

لہذا جو لوگ اس فطرت اور منشا کے برخلاف ہوتے ہیں وہ نہ صرف فطرت سے غداری کے مرتکب ہوتے ہیں، بلکہ انحراف کے سبب دینی، اخلاقی مفاسد کے ساتھ متعدد جسمانی اور نفسیاتی مصائب کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔ بر سبیل تذکرہ چند نقصانات کا ذکر فوائد سے خالی نہیں ہوگا۔

دینی نقصان

 یہ بد ترین فعل سخت ترین کبیرہ گناہ اور ناقص الایمان ہونے کے ساتھ ساتھ بسا اوقات شرک باللہ اور تعلق لغیر اللہ کا سبب بھی بن جاتا ہے اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا قہر اور غضب بھی حلال ہوجاتا ہے۔

اخلاقی نقصان

 اخلاقی نقصان تو بے شمار ہیں مثلا: شرم و حیاء کا جنازہ اٹھ جاتا ہے۔مروءت و رجولت کے فقدان کے ساتھ عزت، کرامت اور شجاعت وبہادری ختم ہو جاتی ہے۔برائی کی خواہش ہمیشہ انگڑائی لینے لگتی ہے اور فعل بد کے ارتکاب پر انسان جری ہوتا ہے۔ اس کے ارادے کمزور اور اس کی شخصیت مجروح ہوجاتی ہے۔نیز معاشرے کی نظروں میں گرنے کے ساتھ خود کی نظروں میں گر جاتا ہے۔دل سخت ہو جاتے ہیں۔

ایک غیر فطری عمل

ہم جنس پرستی ایک غیر فطری عمل ہے۔ انسان نہ توہم جنس پرست پیدا ہوتا ہے اور نہ ہم جنس پرستی کے سبب دنیا میں آتا ہے، یہ علّت خراب ماحول اور تربیت کے فقدان کے سبب پیدا ہوتی ہے۔ انسان فطری اور طبعی طور پر اپنے صِنفِ مخالف کی طرف میلان رکھتا ہے اور یہ میلان ہی انسانی نسل کی بقا کا ضامن ہے۔ اس میلان کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ایک خاندان وجود میں آئے اور اس سے تمدّن کی بنیاد پڑے، اسی لئے مرد و عورت کی جسمانی ساخت اور نفسیاتی ترکیب مقاصد زوجیت کے عین مطابق بنائی گئی ہے، تاکہ فطرت کا منشاء پورا ہو جو افراد فطرت کے اس نظام و منشاء کے خلاف عمل کرتے ہیں، وہ نہ صرف فطرت سے غداری کے مرتکب ہوتے ہیں، بلکہ انحراف کے سبب متعدد جسمانی اور نفسیاتی مفاسد کا شکار ہوجاتے ہیں۔

قوت ارادی کا فقدان

 ایسے افراد قوّت ارادی کھو بیٹھتے ہیں، یہ اپنی ذات سے بیگانگی جیسے نفسیاتی مرض کا شکار ہوجاتے ہیں، ساری زندگی سرگردانی اور پریشانی میں گزارتے ہیں، ایسے افراد نہ صرف طرح طرح کی جسمانی ناہمواریوں کا شکار ہوتے ہیں، بلکہ وہ اپنے آپ کونسل اور خاندان کی خدمت کیلئے نااہل بنالیتے ہیں۔ وہ نہ صرف خود پر ظلم کرتے ہیں، بلکہ معاشرے میں صنفی بے راہ روی اور اخلاقی پستی کا سبب بنتے ہیں۔ اسلام کے نزیک ہم جنسی پرستی زنا کی طرح گناہ کبیرہ ہے۔ فاعل اور مفعول ، دونوں چاہے شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ، قتل کردینے کا حکم دیا۔ (تفہیم القرآن )

نبی کریم نے ﷺ نےسچ فرمایا تھا کہ :

لم تظهَرِ الفاحشةُ في قومٍ قطُّ حتَّى يُعلِنوا بها إلَّا فشا فيهم الطَّاعون والأوجاعُ الَّتي لم تكُنْ مضت في أسلافِهم الَّذين مضَوْا

ابن ماجه 4019 حسن

جب کسی قوم میں فحاشی اورعریانی ظاہرہوجائے اوراس کو علانیہ کرنے لگے تو ان میں طاعون کی بیماری پھیل جائے گی اورایسی ایسی بیماریاں پیدا ہوں گی جو ان کے آباء واجداد میں نہیں تھیں۔

ہم جنس پرستی کے طبی نقصانات

جسمانی بیماریاں

 اس بھیانک فعل سے جو عظیم بیماریاں جنم لیتی ہیں ان کی ایک لمبی فہرست ہے۔

ایچ آئی وی (Human Immonu decency virus)

یعنی ایسا وائرس جو انسان کے دفاعی نظام کو تباہ کر دے اور وہ امراض کے خلاف دفاع نہ کر سکے۔

 ایڈز ( A cquired Immunodefency Syndrome)

 یعنی ایسا مرض جس میں انسان کا دفاعی نظام امراض کا مقابلہ کرنے کی سکت کھو دے۔

ایڈز کے پھیلنے میں ناجائز جنسی تعلقات انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ امریکہ میں ہر تین ہم جنس پرستوں میں سے دو ایڈز کا شکار ہیں لہذا جو شخص بھی فطری اور مذہبی طریقوں سے ہٹ کر جنسی تعلق استوار کرتا ہے اسے ایڈز کا بے رحم پنجہ جکڑ لیتا ہے اور اس کے لئے سوائے اذیت ناک موت کے کوئی اور راستہ نہیں رہتا۔

کلامیڈیا ( Chlamydia)

امریکہ میں ہر سال تقریبا 4 ملین مرد و زن اس موذی مرض شکار ہوتے ہیں اس کا باعث جراثیم ہوتے ہیں جو کہ متاثرہ مرد یا عورت کے ساتھ ناجائز جنسی یا ہم جنسی تعلقات یا اورل سیکس کی وجہ سے کسی شخص کے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں۔

اعضائے مخصوصہ کے پھوڑے    (Genital Warts).

امریکہ کے بعض شہروں میں جنسی جنسی تعلقات قائم کرنے والے نو عمر لڑکوں اور لڑکیوں کا پچاس فیصد اس مرض کا شکار ہوتا ہے نیز یہ مرض کئی تکالیف کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوتا ہے۔

ہیپا ٹیٹس بی   ( Hepatitis-B)

یہ خبیث مرض عضو مخصوص کے مقعد یا منہ وغیرہ میں دخول سے لاحق ہوتا ہے۔امریکہ میں ہر سال تقریبا تین لاکھ افراد اس کی لپیٹ میں آتے ہیں۔

   شنکرائیڈ (Chankroid) 

یہ نہایت ہی خطرناک بیماری ہے یہ لگاتار جسم کے اندر بڑھتے رہتا ہے اور اعضائے توالد کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتا ہے۔

ایل جی وی ( Lymphro Granuloma Anguil).

اس مرض کی وجہ سے عضو مخصوص پر چھالے پیدا ہوتے ہیں اور چند دنوں کے بعد رانوں کے جوڑ کے پاس انڈے کے برابر پھوڑا ظاہر ہوتا ہے اور یہیں سے مریض کی تکالیف کا آغاز ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ آتشک اور سوزاک بھی ہے جس کے خطرناک نتائج عموما لوگوں کو معلوم ہیں اور انھیں کو بھیانک پوشیدہ امراض (Veneral Diseases) قرار دیا جاتا ہے۔ مزید بیماریوں کی تفصیل جاننے کے لئے ” جنسی تعلقات اسلام اور جدید سائنس کی روشنی ” نامی کتاب کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

مردانہ کمزوری

ہم جنس پرست مرد و خواتین نہ مکمل مرد رہتے ہیں اور نہ مکمل عورت، ان کےاندر جنس کے احساسات بھی ختم ہوجاتے ہیں اور ایک مدت کے بعد وہ اس قدر ضعفِ جنسی کا شکار ہوجاتے ہیں کہ پھر فطری و طبعی ملاپ کے قابل نہیں رہتے، ایسے افراد قوّت ارادی کھو بیٹھتے ہیں، ان کے چہرے کی رونق کافور ہو جاتی ہے اور اعضائے جسم کمزور پڑ جاتے ہیں اور ساری زندگی سرگردانی اور پریشانی میں گزارتے ہیں۔ ہم جنس پرست مرد و خواتین نہ مکمل مرد رہتے ہیں اور نہ مکمل عورت، ان کے اندر جنس کے احساسات ختم ہوجاتے ہیں اور ایک مدّت کے بعد وہ اس قدر ضعفِ جنسی کا شکار ہوجاتے ہیں کہ پھر فطری و طبعی ملاپ کے قابل نہیں رہتے۔

ڈاکٹر محمود حجازی نے بھی اپنی کتاب ’’الأمراض الجنسية والتناسلية‘‘ ( جنسی اورتناسلی امراض ) میں لواطت کی بنا پر ہونے والے بعض خطرات اورنقصانات بیان کرتے ہو لکھا ہےکہ وہ امراض جو جنسی بے راہ روی یعنی جولواطت سے متقل ہوتے ہیں ان میں درج ذیل بیماریاں نمایاں ہیں :

مرض الأيدز، (AIDS) وهو مرض فقد المناعة المكتسبة الذي يؤدي عادة إلى الموت.

یعنی  ایڈز۔  ایک ایسا مرض جس سے قوت مدافعت جاتی رہتی ہے جس سے عادتاً موت واقع ہوجاتی ہے ۔

التهاب الكبد الفيروسي  Lever infaction  جگرکی بیماری ،  ہپٹائٹس وغیرہ۔

مرض الزهري  (SYPHLIS)  زھری کی بیماری

مرض السيلان  (URETHRITIS)  سیلان کی بیماری

مرض الهربس  (HERPS PROGENTIALIS)  تناسلی خارش

التهابات الشرج الجرثومية) .  Anal germ infections  )  مقعد كےجرثوموں میں انفیكشن

مرض التايفوئيد Typhoid )  )  ٹائی فائڈ

مرض الأنيمیا  (   Anemia )  یعنی خون میں سرخ ذرات کی کمی كی بیماری

الديدان المعوية)  Intestinal Worms  )  انتریوں میں کیڑے پڑنا۔

ثواليل الشرج  Anal warts مقعد كےاندر دانے

مرض الجرب (SCABIES) خارش ( چنبل )

مرض قمل العانة  (PEDICULOSIS PUBIS)  زیرناف جوو ؤں کا پڑنا  ۔

فيروس السايتو ميغالو: الذي قد يؤدي إلى سرطان الشرج ،  Cytomegalo virus) ) یعنی سائیٹو میگا لووائرس ، جوجنسی طور پر جسم کی رطوبتوں سے پھیلتا ہے۔ اور مقعد کے کینسر کا باعث بنتا ہے۔

المرض الحبيبي اللمفاوي التناسلي) LYMPH GRANULOMA VENERUM)  ( یعنی امراض تناسلی

ہم جنس پرستی کاعلاج

اسباب کی طرح علاج کو بھی ہم دینی و دنیوی دوحصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:

دینی و روحانی علاج

نماز کی پابندی انسان کو اس شنیع فعل سے بچا سکتی ہے کیونکہ اس کے اس قدر تاثیر ہے جو اس سم قاتل کے لئے تریاق سے بھی بڑھ کر ہے اللہ فرماتا ہے :

إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ

العنکبوت – 45

نفلی روزہ بھی جنسی خواہشات اور بہیمانہ رگوں کو کچل کر نفس انسانی کا تزکیہ اور تطہیر کر دیتا ہے۔ جیسا کہ فرمان رسول ﷺ ہے:

ومن لم يستطعْ فعليه بالصومِ . فإنه له وجاءٌ

صحیح مسلم – 1400

جو شادی کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ روزہ رکھے کیونکہ روزہ اس کا توڑ ہے۔

اسی طرح قرآن مقدس کی بغور تلاوت ،عواقب اور انجام میں غور فکر، نفس کا محاسبہ، قبروں کی زیارت، موت اور مابعد کی زندگی کی یاد اور نیک لوگوں کی مصاحبت بھی کافی حد تک معین اور مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔

دنیاوی علاج

سب سے پہلے ماہر ڈاکٹر سے اپنا علاج کرائیں۔ بےحیا اور بےغیرت دوستوں اور خبیث محفلوں سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔ گندی فلموں بلکہ موبائل ہی سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔ اپنے دوستوں کے ساتھ سونے سے احتراز کریں۔ وساوس اور غلط خیالات سے بچنے کی کوشش کریں۔ اپنی بچیوں کو ان کی سہیلیوں سے دوستی میں حد سے نہ گزرنے دیں۔ ان کے گھر رات گزارنے کی اجازت بالکل نہ دیں۔

اسی طرح اگر کسی شخص کو یہ علم ہو جائے کہ اس کا کوئی عزیز، قریبی یا کوئی اور شخص اس فعل بد کا گرویدہ ہو گیا ہے یا اس میں غلط حد تک دلچسپی رکھنے لگا ہے تو پھر حکمت اور دانائی کے ساتھ اس کا علاج کرنے کی سعی کرے۔اس کے لئے وہ درج ذیل اقدامات اختیار کرسکتا ہے۔

متاثرہ شخص کو ایمان اور تقوی کی تلقین کرے اور محبت کا صحیح مفہوم اجاگر کرتے ہوئے یہ بھی بتلائے کی محبوب سے محبت کا معیار اللہ کی رضا ہو ، نہ کہ اس کی شکل وصورت اور جسم کو سامنے رکھے۔ ہم جنس پرست افراد سے اپنے تعلقات یکسر ختم کر دے۔ متاثر اگر عالم ہے تو اسے علمی اور دعوتی امور میں مشغول کردے۔ متاثر اور غیر متاثر دونوں کو بری صحبت اور یاری سے حتی الامکان گریز کرنے کی تلقین کرے کیونکہ اس فعل کے عادی شخص کو اس قدر شعور نہیں ہوتا کہ کون اس کے حق میں بہتر ہے اور کون بدتر، نیز اگر شعور ہو تب بھی شہوت کے نشے میں اسے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اگر ممکن ہوسکے تو اسے موبائل اور فلم بینی کے دوسرے اسباب سے دور رکھے۔

اسی طرح اگر کسی کو یہ محسوس ہو کہ وہ خود کسی پر فریفتہ ہو رہا ہے تو معاملہ بگڑنے سے پہلے وہ اپنے آپ کو سنبھال لے۔ اس کے لئے وہ درج ذیل اقدام کو اختیار کر سکتا ہے۔

اس کی تصویر دیکھے نہ ہی اس کی آواز سنے، نیز اس ملاقات کرنے کی کوشش بھی نہ کرے خواہ وہ اس کا عزیز اور قریبی ہی کیوں نہ ہو۔

سلف صالحین کی زندگیوں کا مطالعہ کرے پھر اپنے اور ان کے درمیان موازنہ کرے کہ انھوں نے اسلام اور مسلمانوں کے لئے اپنی جان قربان کردی اور ایک میں ہوں جو اپنے محبوب کا دلدادہ بن گیا ہوں اس کی باتیں پڑھنے اور سننے کا گرویدہ اور اس سے اپنی خواہشات کی تکمیل کا وسیلہ سمجھ رہا ہوں۔

ساتھ ہی ان مصیبتوں اور آفتوں کو بھی سامنے رکھے جو اس قبیح فعل کے نتیجے میں آدبوچتی ہیں۔

مثلا اس کا رشتہ خالق سے کٹ کر مخلوق سے جڑ جاتا ہے خواہ مخواہ کی پریشانی، دکھ ،غم مصیبت لگ جاتی ہے اور آخرت کا سخت ترین عذاب اس پر مستزاد ہوتا ہے۔

اہل علم اور فضل کی ذمہ داری

چونکہ یہ فعل نہایت تیزی کے ساتھ مسلم معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اہل علم اپنے دروس اور خطبات میں اسے موضوع بحث بنائیں کیونکہ جو کام تقریر اور دروس سے ہو سکتا ہے وہ تحریر سے شاید نہ ہوسکے کیوں ایک بڑے طبقے کی اس تک رسائی نہیں ہو پاتی ہے۔

نیز وہ لوگ انسان کی شکل میں جانور ہیں جو اپنی خبائث طبعی وگندہ ذہنی کے سبب عذاب الٰہی کو دعوت دیتے ہیں اگر ایسے ہوا وہوس پرست اور انسانی خواہشات میں مبتلا لوگوں کو اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا تو وہ وقت دور نہیں کہ ہمارے معاشرے سے بھی یورپ وامریکہ کی طرح شرم وحیا اور اچھے برے کی تمیز مٹ جائے اور اللہ نہ کرے فطرت کے خلاف بغاوت کرنے کی وجہ سے اللہ کا عذاب نہ آجائے کیونکہ اس فعل بد کی وجہ سے وہ تباہی وبربادی جو صدیوں میں آنے والی ہوتی ہے بہت جلد آجاتی ہے۔

والدین کی ذمہ داری

والدین اور ذمہ داروں پر واجب ہے کہ اپنے بچے کی نگہداشت پر توجہ دیں، جنسی میلان اور اسے بھڑکنے والی تمام جدید آلات، انٹرنیٹ، موبائل وغیرہ کے استعمال اور غلط استعمال پر نگاہ رکھیں۔اور اگر ایسی کوئی صورت پیدا ہو تو سب سے پہلے تربیت و تزکیہ کا اہتمام کریں۔

سختی سے اجتناب

نوجوان بچے جذبات سے مغلوب ہوتے ہیں۔اکثر ان کے فیصلے جذباتی ہوتے ہیں۔ اگر انہیں سیدھی راہ دلیل اور سچ کے ساتھ دکھائی جائے تو مان جاتے ہیں۔ ایسے وقت میں سختی کام نہیں آتی۔ ایسا بچہ جو اس عادت کا شکار ہو اور وہ انتہاء تک پہنچ چکا ہو تو اس کا حل جلد بازی سے نہیں،نرم مزاجی، دوراندیشی اور وسعتِ نظری سے نکالا جاتا ہے۔ دوسری صورت میں فوراً سائیکالوجسٹ کے پاس لے جایا جائے۔

تنہائی سے اجتناب

شوشل میڈیا اور اس طرح کی تما چیزیں انسان کی تنہائی کو پر کرنے اور اس کو تنہائی کی دلدل میں مزید دھکیلنے کے لیے بنائی گئیں ہیں۔ چنانچہ ان چیزوں کے بعد ہمارے آباد گھروں میں تنہائی بڑھتی جارہی ہے ، چنانچہ جو لوگ تنہائی کا شکار ہیں ان میں بری عادات پیدا ہونے کا خطرہ اور منشیات کی لت کا خطرہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے یا شراب پینا شروع کر دیں۔  اعداد و شمار کے مطابق، تنہا لوگوں میں خودکشی کرنے کے امکانات کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہےکہ اگر انسان تنہا اور الگ تھلگ رہتا ہے تو اس سے امراضِ قلب کے خطرات 29 فیصد اور فالج کے خطرات 32 فیصد تک بڑھ جاتے ہیں۔

تفریحی سرگرمیاں اپنائیں

اگر آپ کسی ایسی سرگرمی میں خود کو مشغول رکھتے ہیں، جس سے آپ لطف اندوز ہوں تو اس سے آپ کے مزاج پر بہت خوشگوار اثر پڑتا ہے۔ کسی سفری گروہ کا حصہ بنیں ، کھیلوں میں شامل ہوں، کیونکہ کھیلوں اور جسمانی سرگرمیوں کے بہت سے طبی فوائد ہیں۔ اپنی پسند کی سرگرمی میں مشغولیت آپ کی زندگی سے تنہائی کا احساس دور کر کے آپ کی زندگی کو بہت معنی دے سکتا ہے ۔ جب آپ ذہنی طور پر صحت مند ہوتے ہیں تو اس کا اثر آپ کی جسمانی صحت پر بھی اچھا پڑتا ہے ۔ اس لیے خود کو تنہائی جیسے نقصان دہ احساس کی قید سے نجات دلا نے کو جسمانی صحت بہتر بنانے پر توجہ دیں۔

سماجی سرگرمیوں میں شریک ہوں

دوست احباب اور رشتہ داروں کی دعوت قبول کریں اور اپنے یہاں بھی دعوتوں کا اہتمام کریں۔ لوگوں کو اپنے اردگرد جمع کریں۔ ہو سکتا ہے ابتداء میں آپ آرام دہ محسوس نہ کریں، لیکن وقت کے ساتھ آپ عادی ہوتے چلے جائیں گے۔ اگر آپ نئی زندگی کا آغاز کرنا چاہتے ہیں تو اس طرح کی سماجی سرگرمیوں میں پر جوش شرکت کریں، اگر آپ دوسروں کے معاملات اور مسائل میں دلچسپی لیں گے تو بدلے میں آپ کو بھی اپنائیت اور توجہ ملے گی، جس سے آپ کا خود کو تنہا سمجھنے کا احساس رفتہ رفتہ کم ہونا شروع ہو جائے گا۔

نقاب اور پردہ

بچی جیسے ہی مشتھات ہوجائے اسے نقاب پہننے کی ترغیب دیں تاکہ جنسی چھیڑ خانی سے بچ سکے۔ مرد وعورت کے مابین اختلاط سے بچائیں تاکہ فتنہ قریب بھی نہ آسکے، کیونکہ حضور اکرم ؐ کا ارشاد ہے:

لا یخلون احدکم بامرأۃ فان الشیطان ثالثھما

مسند احمد – 18/1

غیرعورتوں اور ہیجڑوں سے بھی حجاب کا حکم

رسول اللہ ﷺ نے ہیجڑوں، مخنث، یا زنانہ وضع قطع رکھنے والے مردوں سے بھی حجاب کا حکم دیا ہے۔ دور نبوی ﷺ کا ایک واقعہ ہے کہ آپ ﷺ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف فرما تھے۔ گھر میں ایک ہیجڑا تھا۔ وہ حضرت سلمہ رضی اللہ عنہا کے بھائی عبداللہ بن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ سے کہنے لگا: اگر اللہ نے کل طائف فتح کرا دیا تو میں تمہیں غیلان کی بیٹی کی نشاندہی کروں گا وہ اگر سامنے آتی ہے تو چار سلوٹ لے کر اور پیٹھ موڑتی ہے تو آٹھ سلوٹیں لے کر (یعنی اس کا بدن خوب گتھا ہوا ہے) رسول اللہ ﷺ نے یہ بات سن لی تو فرمایا: ”یہ ہیجڑا آئندہ کبھی تمہارے ہاں نہ آیا کرے۔“ (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب ماینھی من دخول المشتبھین بالنساء علی المرأۃ )

یہ مخنث (خسرا ہیجڑا یا زنانہ) چونکہ عورتوں کے امور سے دلچسپی رکھتا تھا۔ لہٰذ آپ ﷺ نے اس سے حجاب کا حکم دیا اور داخلہ پر پابندی لگا دی۔

آیت کریمہ سے ملتا مضمون ایک دوسری روایت میں آپ ﷺ سے یوں منقول ہے۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لَا يَنْظُرُ الرَّجُلُ إِلٰی عَوْرَةِ الرَّجُلِ وَلَا الْمَرْأَةُ إِلٰی عَوْرَةِ الْمَرْأَةِ وَ لَا يُفْضِی الرَّجُلُ إِلَی الرَّجُلِ فِيْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ وَلَا تُفْضِی الْمَرْأَةُ إِلَی الْمَرْأَةِ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ

 ’’کوئی مرد دوسرے مرد کی شرم گاہ نہ دیکھے، نہ ہی کوئی عورت کسی عورت کی شرم گاہ دیکھے۔ نہ کوئی مرد کسی مرد کے ساتھ ایک کپڑے میں لیٹے اور نہ کوئی عورت کسی عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں لیٹے۔‘‘(مسلم، الحیض، باب تحریم النظر إلی العورات: 338)

بد نظری کی قباحت کا اندازہ اس بات سے  بخوبی لگا یاجاسکتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک موقع پراس بد نظری کو آنکھوں کا زنا قرار دیا ہے ، ارشاد گرامی ہے  :

إنَّ اللَّهَ كَتَبَ علَى ابْنِ آدَمَ حَظَّهُ مِنَ الزِّنَا، أدْرَكَ ذلكَ لا مَحَالَةَ، فَزِنَا العَيْنِ النَّظَرُ، وزِنَا اللِّسَانِ المَنْطِقُ، والنَّفْسُ تَمَنَّى وتَشْتَهِي، والفَرْجُ يُصَدِّقُ ذلكَ أوْ يُكَذِّبُهُ

صحیح البخاری – 6612

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں رسول الله ﷺ نے فرمایا: بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کے بیٹے پر اس کے حصہ کے زنا لکھ دیا ہے وہ اس کو ضرور پالے گا۔ آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے۔ انسان کے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے وہ شہوت پر آمادہ ہوتا ہے شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔

جلدی شادی

سب سے بہتر اور مناسب رائے یہ ہے ؛کہ جوان ہوتے ہی شادی کردی جائے تاکہ ہر قسم کے فتنہ کا سد باب ہوسکے۔

مَنِ اسْتَطَاعَ البَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فإنَّه أغَضُّ لِلْبَصَرِ، وأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، ومَن لَمْ يَسْتَطِعْ فَعليه بالصَّوْمِ، فإنَّه له وِجَاءٌ

صحیح البخاری – 1905

آپ ﷺ نے فرمایا:تم میں سے جس کو جماع کی استطاعت ہو وہ شادی کرے، کیونکہ یہ نظروں کوجھکا دیتی ہے اور شرمگاہوں کی حفاظت کرتی ہے۔

دینی تربیت :

بچوں میں یا ایک خاص عمر میں جنسی میلان کا پایا جانا اور اس کے تئیں تجسس ایک فطری عمل ہے، اسے نہ تو دبانے اور مسخ کرنے کی ضرورت ہے اور نا ہی ابھارنے اور اکسانے کی، بلکہ ان مرحلوں میں عمر کی رعایت کرتے ہوئے علمی ودینی تربیت کی طرف توجہ مرکوز کرنا چاہئے، اہل خانہ اور اسکول و معاشرہ کی ذمہ داری ہے کہ مناسب رویہ اختیار کریں، انہیں اس بیچ یہ بتلائیں کہ دوسروں کے اعضاء کو دیکھنا یا انہیں بد نیتی یا بد نگاہی سے دیکھنا عنداللہ مبغوض عمل ہے۔ اس سے نہ صرف جسمانی وروحانی نقصان ہے بلکہ یہ نفس کے مردہ ہوجانے اور اللہ کے ناراض ہوجانے کا سبب بھی ہے۔ اور انہیں یہ بھی سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اس سلسلے میں اسلام کا نقطہ نظر کیا ہے؟ اگراللہ تعالیٰ نے اسے یہ فطرت دی ہے تو اس کا تقاضہ کیا ہے، اس کے برخلاف اسکول و کالج میں سیکس ٹائز دکھلا کر یا جنسی تصویر کشی کے ذریعہ منظر کشی کرکے یا محفوظ سیکس کی تعلیم دے کر یقیناً تخریب کا کام ہوسکتا ہے؛ تعمیر کا نہیں، معاشرہ ہلاکت وبربادی کی طرف تو جاسکتا ہے صلح پسندی و عزت وعفت اور پاکدامنی کی طرف نہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس عادتِ خبیثہ سے محفوظ رکھے۔ آمین۔