منگل، 31 مارچ، 2020

طلوعِ فجر کے بعد وتر

سیدنا ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من نام عن وتره أو نسيه، فليصله إذا أصبح أو ذكره .
’’ جو شخص اپنے وتر سے سویا رہ جائے یا بھول جائے تو صبح کے وقت میں یاد آنے پر اسے ادا کر لے۔ “ [سنن أبى داؤد:1431، سنن الدارقطني:22/2، ح:2621، المستدرلد على الصحيحين لالحاكم : 302/1، السنن الكبري للبيهقي :480/2، و سندهٔ صحيح]
اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ نے امام بخاری و مسلم کی شرط پر ’’ صحیح “ کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ حافظ نووی رحمہ اللہ [خلاصہ الاحکام :1905] نے اس کی سند کو ’’ صحیح “ کہا ہے۔ لہٰذا جو شخص سویا رَہ جائے، وہ فجر کی اذان کے بعد وتر پڑھ سکتا ہے۔

تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری حفظ اللہ

پیر، 30 مارچ، 2020

قول ثقیل

انا سنلقی علیک قولا ثقیلا

سورہ مزمل

ان ھؤلاء یحبون العاجلةویذرون وراءھم یوما ثقیلا

سورہ انسان

سورہ مزمل میں قول کے ساتھ
ثقیل ایا ہے یعنی قول سے مراد قران ہے اور اس کی صفت ثقیل
لائی گئی
اور سورہ انسان میں یوم کی صفت ثقیل  لائی گئی جس سے
مراد یوم قیامت ہے

نکتہ۔ یوم ثقیل میں نجات چاہتے ہو تو قول ثقیل کو اپنا لو
اور قول کی صفت ثقیل میں اشارہ ہے کہ قران کوئی سطحی
کتاب نہیں ہے۔ بہت وزن دار کتاب ہے اگر باوزن بننا چاہتے ہو
تو قران سے رشتہ جوڑ لو
(تحریر قاسمی صاحب)

اتوار، 29 مارچ، 2020

مہجور قرآن کی تفسیر

وقال الرسول یارب ان قومی اتخذوا ھذاالقران مھجورا۔  سورہ فرقان(مفسر قرآن شیخ جلال الدین قاسمی)

رسول کی بارگاہ الہی میں فریاد

کہ اے میرے رب۔ میری امت نے اس قران کو مھجور بنا دیا

دعوی کرنے والے رسول اللہ ہیں
جس کے  خلاف دعوی دائر ہے وہ امت ہے
جس کے بارے میں دعوی ہے وہ قران ہے
جہاں یہ دعوی دائر ہے وہ رب کی عدالت  ہے
امت کا یہ جرم اتنا بڑا ہے کہ
رحمةللعالمین مدعی ہے
اور اپ کا نام نہ ذکر کر کے اپ کا منصب ذکر کیا گیا
یعنی پیغام کو نظر انداز کرنے والا پیغام پہنچانے والے کی توہین کا مرتکب ہے
نیز رسول پر الف لام عہد خارجی کا ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور قرینہ  القران ہے کہ وہ اپ پر ہی نازل کیا گیا

نکتہ عجیبہ۔  پورے قران میں اللہ کی صفت پر حرف ندا یا
داخل ہو کر ایت کے درمیان  کہیں نہیں ایا ہے صرف اسی ایک ایت میں ایا ہے
دوسرا نکتہ۔ کون نہیں جانتا کہ قران کون سی کتاب ہے پھر ھذا اسم اشارہ لاکر ہائی لائٹ
کیا گیا
یعنی کیا یہ قران یعنی ایسی عظیم الشان کتاب مھجوربنائے
 جانے کے لائق ہے؟
تیسرا نکتہ۔ مھجور  ھجر کے مادے سے  اسم مفعول کاصیغہ  ہے مطلب ہے
چھوڑا ہوا۔
اپ نے ریلوے پلیٹ فارموں پر دیکھا ہوگا کچھ مکانات پر
Abandoned
 لکھا ہوتا ہے اس کا مطلب ہے اب اس مکان میں کام نہیں ہوتا
یعنی مکان تو موجود ہے مگر قابل عمل نہیں ہے
لفظ ھجر پر بھی غور کر لیں
اسی سے ھجرت ہے یعنی ایک جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ چلے جانا
یعنی یہ امت قران کی بستی چھوڑ کر دوسری بستی میں جا بسی ہے۔ یہ قران کی بھی توہین ہے اور قران نازل کرنے والے کی بھی
نیز یہ نکتہ بھی ملا کہ ہجرت اچھی بھی ہوتی ہے اور بری بھی
دلیل میں حدیث انماالاعمال بالنیات لے لیں

نتیجہ۔ امت نے اللہ کی سب سے بڑی نعمت قران کی ناشکری کی

اب سورہ ابراہیم کی یہ ایت پڑھ لیں۔ ولئن کفرتم ان عذابی لشدید

کتاب انزلناہ الیک مبارک (کی تفسیر)



کتاب انزلناہ الیک مبارک لیدبروا ایاتہ ولیتذکر اولوا الالباب ) تفسیر معلم الاسلام جلال الدین قاسمی)
سورہ ص

یہ کتاب ہے جسے ہم نے اپ کی طرف نازل کیا ہے برکت والی ہے تاکہ وہ اس کی ایات پر تدبر کریں اور عقل والے اس سے نصیحت  حاصل کریں

مبارک۔ برکت والی۔ یعنی
کثیر المنافع الدینیہ والدنیویہ
یعنی اس کتاب میں دینی اور دنیوی بے شمار فوائد ہیں

امام شوکانی فتح القدیر میں لکھتے ہیں
وفی الایةدلیل علی ان اللہ سبحانہ انما انزل القران للتدبر والتفکر فی معانیہ لا لمجرد التلاوة بدون تدبر
اس ایت میں دلیل ہے کہ اللہ نے  قران کو تدبر اور تفکر کے لئے نازل کیا ہے نہ کہ بغیر تدبر کے محض تلاوت کرنے کے لئے

لیدبروا۔ اصل میں لیتدبروا ہے تو لیتدبروا کے بجائے لیدبروا کیوں لایا گیا
جواب۔ دلیل علی ان الترتیل افضل من الھذ
یہ دلیل ہے کہ قران کو ترتیل یعنی ٹھہر ٹھہر کر پڑھا جائےاور ھذ نہ کیا جائے۔ اور ھذ کا مطلب ہے گھاس کاٹنا۔
اور ھذ القرآن کا مطلپ ہے اس کو اتنی تیزی سے پڑھنا کہ حروف و کلمات پوری طرح واضح نہ ہوں یہ اس لئے کی ھذ۔ کے ساتھ تدبر ہو ہی نہیں سکتا

تدبر کا مفہوم۔
ابن عثیمین لکھتے ہیں
التدبر۔ معناہ۔ تکرار اللفظ علی القلب دبرا بعد دبر حتی یتضح المعنی
دل پر باربار لفظ کو دہرانا تاکہ معنی واضح ہو جائے

تذکر کا مفہوم۔
ابن عثیمین نے لکھاہے
التاثر فی القلب والتاثر فی الجوارح
دل اور اعضاء میں اثر لینا
دل میں اثر لینے کامطلب ہے
اس پر ایمان ہو اور دل میں۔ انابت اور توکل ہو
اور اعضاء سے اس کی اطاعت ہو

تذکر کو بعد میں کیوں لایا گیا
جواب۔  کیونکہ معنی سمجھے بغیر نصیحت کیسے حاصل کی جاسکتی ہے

نصیحت کا نتیجہ۔
جس گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں
اس کو چھوڑ کر ھدایت کے راستے پر اجانا

اولوالالباب۔ عقل والے کیوں کہا
لان صاحب العقل ھو الذی یتعظ
اما من لا عقل لہ فانہ لا ینتفع بذلک
کیونکہ عقل والا ہی قران سے نصیحت حاصل کرسکتا ہے

خلاصہ۔
قران کے نازل کئے جانے  کے تین مقاصد ہیں
برکت
تدبر
تذکر

لوگ پہلی چیز تک محدود ہیں
اور اس کے  لئے بھی  ایسے ایسے طریقے اختیار کئے ہوئے ہیں جو قران وسنت کے خلاف ہیں جیسے
حروف مقطعات کے طغرے
قرانی تعویذات
مروجہ قرآن خوانی
قبروں پر قران کی تلاوت
مرتے ہوئے ادمی کے پاس تلاوت
کھانے کی دیگوں پر فاتحہ
وغیر ذلک
تفسیر ذکر للعالمین

ہفتہ، 28 مارچ، 2020

منافق کی نشانیاں

تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظ اللہ
آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ، إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ
”منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بات کہے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ “ [صحيح بخاري/الايمان : 33]
فوائد :
نفاق کے معنی ظاہر و باطن کے اختلاف کے ہیں یہ لفظ دراصل نافقاء سے لیا گیا ہے جو چوہے کی طرح ایک جانور کے بل کے پوشیدہ دروازے کا نام ہے جو بظاہر زمین کی طرح نظر آتا ہے۔ منافق بھی بظاہر مسلمان نظر آتا ہے مگر اندرونی طور پر اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا محض دھوکہ دینے کے لئے یہ روپ اخیتار کرتا ہے۔ منافقین کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَإِذَا جَاءُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَقَد دَّخَلُوا بِالْكُفْرِ وَهُمْ قَدْ خَرَجُوا بِهِ وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا يَكْتُمُونَ
”جب وہ تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے حالانکہ وہ کفر لئے آئے تھے اور اس کفر کے ساتھ واپس ہو گئے۔ “ [5-المائدة:61 ]
دراصل نفاق، کفر کا فرد اعلیٰ ہے اس میں کفر باللہ کے ساتھ مسلمانوں کو دھوکہ دینا بھی شامل ہے۔ اسی لئے عام کفار کے مقابلہ میں ان کی سزا بھی سخت رکھی گئی ہے إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ کہ یہ دوزخ کے سب سے نیچے گڑھے میں ہوں گے۔ [4-النساء:145 ]
نفاق کی دو اقسام ہیں ایک نفاق تو ایمان و عقیدہ کا ہوتا ہے جو کفر کی بدترین قسم ہے جس کی نشاندہی صرف وحی سے ممکن ہے۔ دوسرا عمل نفاق ہے جسے سیرت و کردار کا نفاق بھی کہتے ہیں۔ حدیث بالا میں اسی قسم کے نفاق کی تین علامتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک دوسری حدیث میں نفاق کی چار علامتیں بتائی گئی ہیں۔ [صحيح بخاري/الايمان : 34]
دو علامتیں تو پہلی حدیث کی ہیں اور دو مزید ہیں اس طرح کل علامتیں پانچ ہو جاتی ہیں۔ دروغ گوئی، خیانت، وعدہ خلافی، عہد شکنی، بےہودہ گوئی۔

دور حاضر میں ہمارے اندر حرص سود

تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظ اللہ 
يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ، لَا يُبَالِي الْمَرْءُ مَا أَخَذَ مِنْهُ، أَمِنَ الْحَلَالِ أَمْ مِنَ الْحَرَامِ
” لوگوں پر ایسا وقت ضرور آئے گا کہ انسان اپنی روزی کے متعلق حلال و حرام کی پرواہ نہیں کرے گا۔ “ [صحيح بخاري/البيوع : 2059]
فوائد :
دور حاضر میں ہمارے اندر حرص، طمع اور لالچ نے اس قدر جڑیں مضبوط کر رکھی ہیں کہ ہم باہمی لین دین کے معاملات میں افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے حالات کے متعلق ہی بطور پیشین گوئی مذکورہ بالا حدیث بیان فرمائی ہے۔ چنانچہ ہمارے معاشرے کی اکثریت نے اپنی روزی کے متعلق حلال و حرام کی تمیز چھوڑ دی ہے۔ پس ایک ہی دھن سوار ہے کہ دولت کسی طرح جمع کی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کے متعلق ایک مرتبہ فرمایا تھا :
”لوگوں پر وہ وقت آنے والا ہے کہ وہ بلا دریغ سود کا استعمال کریں گے۔ عرض کیا گیا : آیا سب لوگ اس وبا میں مبتلا ہوں گے ؟ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو سود نہیں کھائے گا اسے سود کی غبار ضرور اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ “ [مسند احمد، ص : 494، ج 2]
اس حدیث کی روشنی میں جب ہم دیکھتے ہیں تو پوری دنیا کے لوگوں میں سود کچھ اس طرح سرایت کر گیا ہے جس سے ہر شخص شعوری طور پر متاثر ہو رہا ہے۔ ان حالات میں اگر کوئی مسلمان پوری نیک نیتی کے ساتھ سود سے بچنا چاہے تو اسے قدم قدم پر الجھنیں پیش آتی ہیں۔ سودی دھندا کرنے والے ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں اور انہوں نے لوگوں کو پھنسانے کے لئے ہم رنگ زمین جال پچھا رکھے ہیں۔ ان سے بچاؤ کی صورت اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے حالانکہ ارشادباری تعالیٰ ہے :
” لوگو ! زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں، انہیں کھاؤ پیو۔ “ [البقره : 168]

جمعہ، 27 مارچ، 2020

سوال : کیا بیماری ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتی ہے؟؟


سوال : کیا بیماری ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتی ہے؟؟  
جواب:
الحمدللہ والصلوات والسلام علیٰ رسول اللہ۔ اما بعد:
موجودہ وقت (کرونا وائرس) وبائی بیماری کے پھیلنے کی وجہ سے لوگ پریشانی کا شکار ہیں،اور بار بار شرعی نقطہ نگاہ دریافت کر رہے  ہیں کہ، کیا بیماری ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتی ہے یا نہیں؟؟
بعض جذباتی مولوی صاحبان یہی نظریہ لوگوں کو بتا رہے  ہیں کہ  احتیاطی تدابیر مت اختیار کریں  بیماری ایک سے دوسرے کو نہیں لگ سکتی، ساتھ میں ضد بھی کر رہے ہیں ہم مصافحہ بھی کریں گے چاہے مریض ہی ہو۔۔۔ وغیرہ۔
اور ساتھ میں لوگوں کا یہ ذہن بنا رہے  ہیں جو شخص کہتا ہے کہ بیماری ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتی ہے اس شخص کا اللہ  پہ مکمل بھروسہ نہیں۔
قارئین کرام ! یاد رکھیں بیماری اللہ کے حکم کے ساتھ ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتی ہے اور یہ بات قطعا توکل کے منافی نہیں کیونکہ اس دنیا میں سب سے بڑی توکل کرنے والی ذات  محمد رسول اللہ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے، آپ نے خود ان احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنے اور متعدی امراض والے مر یضوں سے دور رہنے کا حکم جاری فرمایا ہے۔ اس حوالے سے چند اھم دلائل ملاحظہ فرمائیں۔

دلیل نمبر ایک:
قال الرسول صلی اللہ علیہ وسلم:
وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُومِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الْأَسَدِ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جذامی ( کوڑھی )شخص سے ایسے بھاگ جیسے کہ شیر سے بھاگتا ہے۔
رواہ البخاری:
5707۔
دلیل نمبر دو:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، ح وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، وَهُشَيْمُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ فِي وَفْدِ ثَقِيفٍ رَجُلٌ مَجْذُومٌ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «إِنَّا قَدْ بَايَعْنَاكَ فَارْجِعْ»
ترجمہ:
عمرو بن شرید نے اپنے والد سے روایت کی ،کہا : ثقیف کے وفد میں کوڑھ کا ایک مریض بھی تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پیغام بھیجا :" ہم نےہم تمھاری بیعت لے لی ہے، اس لیے تم (اپنے گھر ) لوٹ جاؤ۔"
صحیح مسلم حدیث نمبر:
5822۔
وضاحت::
اس حدیث سے پتہ چلا کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے کوڑھی شخص سے ہاتھ ملائے بغیر بیعت لی جو واضح دلیل ہے کہ کچھ بیماریاں اللہ کے حکم کے ساتھ  ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتی ہیں لہذا احتیاط کرنا چاہیے اور جسے متعدی بیماری ہو اس سے دور رہنا چاہیے مصافحہ وغیرہ نہیں کرنا چاہیے۔
دلیل نمبر تین:
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«لاَ يُورِدَنَّ مُمْرِضٌ عَلَى مُصِحٍّ»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص اپنے بیمار اونٹوں کو کسی کے صحت مند اونٹوں میں نہ لے جائے.
بخارى=
5771.
دليل نمبر چار:
قال  النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «إِذَا سَمِعْتُمْ بِالطَّاعُونِ بِأَرْضٍ فَلاَ تَدْخُلُوهَا، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلاَ تَخْرُجُوا مِنْهَا» فَقُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ يُحَدِّثُ سَعْدًا، وَلاَ يُنْكِرُهُ؟ قَالَ: نَعَمْ
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم سن لو کہ کسی جگہ طاعون کی وبا پھیل رہی ہے تو وہاں مت جاؤ لیکن جب کسی جگہ یہ وبا پھوٹ پڑے اور تم وہیں موجود ہو تو اس جگہ سے نکلو بھی مت ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر:
5728۔
وضاحت: اس حدیث سے پتہ چلا کہ جس علائقے میں وبائی بیماری پھیل چکی ہے وہاں سے نکلنے اور داخل ہونے کی ممانعت اسی وجہ سے ہے کہ،  کہیں وہ بیماری اس مریض کی وجہ  سے اللہ کے حکم کے ساتھ  دوسرے علاقوں یا افراد میں منتقل نہ ہو جائے۔

اھم وضاحت::
کچھ احادیث کے اندر اس طرح  کا مفہوم موجود  ہے کہ بیماری ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل نہیں ہوتی۔ جیساکہ بخاری وغیرہ کے اندر روایت موجود ہے (لاعدوی).
تو دونوں قسم کی روایات میں تطبیق یہی ہے کہ ایک مریض  سے دوسرے مریض  میں بیماری بذات خود منتقل نہیں ہوسکتی مگر اللہ کے حکم کے بعد، جن احادیث میں ہے ہیں کہ بیماری منتقل نہیں ہو سکتی ،ان روایات میں ان لوگوں کی اصلاح کرنا مقصد  ہے جو بیماری کو ہی اصل مؤثر قرار دیتے۔
نوٹ::
جو  لوگ بیماری منتقل ہونے والے  نظریے کو توکل کے منافی قرار دے رہے ہیں وہی لوگ علاج کروانے کے قائل ہیں اور علاج کرواتے بھی ہیں حالانکہ انکے مزعومہ اصول کو دیکھا جائے تو یہ بات بھی توکل کے منافی ہے کیونکہ شفا دینے والی ذات اللہ کی ہے،وہ احباب اس اشکال کا جواب یہی دیں گے کہ شفا تو اللہ دیتا ہے لیکن دوائی اللہ کے حکم کے بعد ذریعہ اور سبب بنتی ہے !!
تو ہم بھی یہی کہتے  ہیں کہ بیماری  دینے والا  اللہ ہی ہے لیکن اللہ کے حکم کے بعد سبب اور ذریعہ دوسرے مریض بن سکتے ہیں۔

تمام مسلمان بھائیوں سے التماس :::
اولا===
اللہ رب العالمین کی طرف انابت اور رجوع کریں، نماز کو قائم کریں، استغفار کثرت سے کریں خصوصاً شرک بدعات اور نافرمانیوں سے توبہ کریں اور دعا کریں کہ اللہ اس وبا کا خاتمہ فرمائے۔
ثانیا==
کرونا کے حوالے سے حکومت اور ڈاکٹروں کی طرف سے پیش کردہ  احتیاطی تدابیر کو ضرور اختیار کریں۔
مثلاً: ماسک پہنیں ، باہر سے آنے کے بعد اپنے ہاتھ منہ کو اچھی طرح دھوئیں،بلکہ بہتر یہی ہے  وضو کریں،عوامی ہجوم والی جگہوں  پر جانے سے گریز کریں،  اور کوشش کر کے گھر سے باہر مت نکلیں ،اگر کسی کو یہ بیماری لگ گئی ہے تو فوراً علاج کروائے۔
کتبہ/ عبدالرزاق دل رحمانی۔

Featured Post

آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت بتاۓ.... طالبہ طس بنت قیوم

 الحمد للہ. ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں : یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ...