جمعرات، 16 اپریل، 2020

سورۃ الجن تفسیر


سورۃ الجن 

آیت نمبر: 27 

إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا 

ترجمہ:
سوائے اس رسول کے جسے اس نے غیب کا علم دینے کے لیے پسند کرلیا ہو۔ وہ اس کے آگے اور پیچھے محافظ لگا دیتا ہے 

تفسیر:
٢٧۔ ١ یعنی نزول وحی کے وقت پیغمبر کے آگے پیچھے فرشتے ہوتے ہیں اور شیاطین اور جنات کو وحی کی باتیں سننے نہیں دیتے۔ 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ العَلاَءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَثَلُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ مِنَ الهُدَى وَالعِلْمِ، كَمَثَلِ الغَيْثِ الكَثِيرِ أَصَابَ أَرْضًا، فَكَانَ مِنْهَا نَقِيَّةٌ، قَبِلَتِ المَاءَ، فَأَنْبَتَتِ الكَلَأَ وَالعُشْبَ الكَثِيرَ، وَكَانَتْ مِنْهَا أَجَادِبُ، أَمْسَكَتِ المَاءَ، فَنَفَعَ اللَّهُ بِهَا النَّاسَ، فَشَرِبُوا وَسَقَوْا وَزَرَعُوا، وَأَصَابَتْ مِنْهَا طَائِفَةً أُخْرَى، إِنَّمَا هِيَ قِيعَانٌ لاَ تُمْسِكُ مَاءً وَلاَ تُنْبِتُ كَلَأً، فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ فَقُهَ فِي دِينِ اللَّهِ، وَنَفَعَهُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ، وَمَثَلُ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ بِذَلِكَ رَأْسًا، وَلَمْ يَقْبَلْ هُدَى اللَّهِ الَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ» قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: قَالَ إِسْحَاقُ: وَكَانَ مِنْهَا طَائِفَةٌ قَيَّلَتِ المَاءَ، قَاعٌ يَعْلُوهُ المَاءُ، وَالصَّفْصَفُ المُسْتَوِي مِنَ الأَرْضِ

ترجمہ:
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، ان سے حماد بن اسامہ نے برید بن عبداللہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابی بردہ سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت ابوموسیٰ سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جس علم و ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے اس کی مثال زبردست بارش کی سی ہے جو زمین پر ( خوب ) برسے۔ بعض زمین جو صاف ہوتی ہے وہ پانی کو پی لیتی ہے اور بہت بہت سبزہ اور گھاس اگاتی ہے اور بعض زمین جو سخت ہوتی ہے وہ پانی کو روک لیتی ہے اس سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ وہ اس سے سیراب ہوتے ہیں اور سیراب کرتے ہیں۔ اور کچھ زمین کے بعض خطوں پر پانی پڑتا ہے جو بالکل چٹیل میدان ہوتے ہیں۔ نہ پانی روکتے ہیں اور نہ ہی سبزہ اگاتے ہیں۔ تو یہ اس شخص کی مثال ہے جو دین میں سمجھ پیدا کرے اور نفع دے، اس کو وہ چیز جس کے ساتھ میں مبعوث کیا گیا ہوں۔ اس نے علم دین سیکھا اور سکھایا اور اس شخص کی مثال جس نے سر نہیں اٹھایا ( یعنی توجہ نہیں کی ) اور جو ہدایت دے کر میں بھیجا گیا ہوں اسے قبول نہیں کیا۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابن اسحاق نے ابواسامہ کی روایت سے “ قبلت الماء ” کا لفظ نقل کیا ہے۔ قاع اس خطہ زمین کو کہتے ہیں جس پر پانی چڑھ جائے ( مگر ٹھہرے نہیں ) اور صفصف اس زمین کو کہتے ہیں جو بالکل ہموار ہو۔
تشریح:
حدیث ( 78 ) سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ حضرت موسیٰ نے علم حاصل کرنے کے لیے کتنا بڑا سفر کیا۔ جن لوگوں نے یہ حکایت نقل کی ہے کہ حضرت خضرعلیہ السلام نے فقہ حنفی سیکھی اور پھر قشیری کو سکھائی یہ سارا قصہ محض جھوٹ ہے۔ اسی طرح بعضوں کا یہ خیال کہ حضرت عیسیٰ یا امام مہدی حنفی مذہب کے مقلد ہوں گے محض بے اصل اور خلاف قیاس ہے۔ حضرت ملاعلی قاری نے اس کا خوب رد کیا ہے۔ حضرت امام مہدی خالص کتاب وسنت کے علم بردار پختہ اہل حدیث ہوں گے۔
صحیح بخاری حدیث نمبر: 79
کتاب: علم کے بیان میں
باب:پڑھنے اور پڑھانے کی فضیلت
حکم: صحيح
صحیح بخاری - حدیث 79
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، ان سے حماد بن اسامہ نے برید بن عبداللہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابی بردہ سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت ابوموسیٰ سے اور وہ
کِتَابُ الِاسْتِسْقَاءِ

بَابُ مَا قِيلَ فِي الزَّلاَزِلِ وَالآيَاتِ

1036صحيححَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ قَالَ أَخْبَرَنَا أَبُو الزِّنَادِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقْبَضَ الْعِلْمُ وَتَكْثُرَ الزَّلَازِلُ وَيَتَقَارَبَ الزَّمَانُ وَتَظْهَرَ الْفِتَنُ وَيَكْثُرَ الْهَرْجُ وَهُوَ الْقَتْلُ الْقَتْلُ حَتَّى يَكْثُرَ فِيكُمْ الْمَالُ فَيَفِيضَ

کتاب: استسقاء یعنی پانی مانگنے کا بیان

باب: زلزلہ اور قیامت کی نشانیاں

ترجمہ : ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، کہا کہ ہم سے ابوالزناد ( عبد اللہ بن ذکوان ) نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن ہرمز اعرج نے اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک علم دین نہ اٹھ جائے گا اور زلزلوں کی کثرت نہ ہو جائے گی اور زمانہ جلدی جلدی نہ گزر ے گا اور فتنے فساد پھوٹ پڑیں گے اور “ ہرج ” کی کثرت ہو جائے گی اور ہرج سے مراد قتل ہے۔ قتل اور ہارے درمیان دولت ومال کی اتنی کثرت ہوگی کہ وہ ابل پڑے گا۔

تشریح : سخت آندھی کا ذکر آیا توا س کے ساتھ بھونچال کا بھی ذکر کر دیا، دونوں آفتیں ہیں۔ بھونچال یا گرج یا آندھی یا زمین دھنسنے میں ہر شخص کو دعا اوراستغفار کرنا چاہیے اور زلزلے میں نماز بھی پڑھنا بہتر ہے۔ لیکن اکیلے اکیلے۔ جماعت اس میں مسنون نہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ زلزلے میں انہوں نے جماعت سے نماز پڑھی تو یہ صحیح نہیں ہے ( مولانا وحید الزماں مرحوم )

كِتَابُ المُحَارِبِينَ مِنْ أَهْلِ الكُفْرِ وَالرِّدَّةِ
بَابُ إِثْمِ الزُّنَاةِ
6808صحيحأَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ شَبِيبٍ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ أَخْبَرَنَا أَنَسٌ قَالَ لَأُحَدِّثَنَّكُمْ حَدِيثًا لَا يُحَدِّثُكُمُوهُ أَحَدٌ بَعْدِي سَمِعْتُهُ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ وَإِمَّا قَالَ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ وَيَظْهَرَ الْجَهْلُ وَيُشْرَبَ الْخَمْرُ وَيَظْهَرَ الزِّنَا وَيَقِلَّ الرِّجَالُ وَيَكْثُرَ النِّسَاءُ حَتَّى يَكُونَ لِلْخَمْسِينَ امْرَأَةً الْقَيِّمُ الْوَاحِدُ
کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمان سے لڑتے ہیں
باب : زنا کے گناہ کا بیان
ترجمہ : ہمیں داؤد بن شبیب نے خبردی، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، کہا ہم کو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے خبردی ہے کہ میں تم سے ایک ایسی حدیث بیان کروں گا کہ میرے بعد کوئی اسے نہیں بیان کرے گا۔ میں نے یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی یا یوں فرمایا کہ قیامت کی نشانیوںمیں سے یہ ہے کہ علم دین دنیا سے اٹھ جائے گا اور جہالت پھیل جائے گی، شراب بکثرت پی جانے لگے گی اور زنا پھیل جائے گا۔ مرد کم ہوجائیں گے اور عورتوں کی کثرت ہوگی۔ حالت یہاں تک پہنچ جائے گی کہ پچاس عورتوں پر ایک ہی خبر لینے والا مرد رہ جائے گا۔
تشریح : حدیث میں ذکر کردہ نشانیاں بہت سی ظاہر ہوچکی ہیں وماامر الساعۃ الا کلمح البصرۃ۔
:
أَبْوَابُ الْعِلْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
بَاب مَا جَاءَ فِي كِتْمَانِ الْعِلْمِ


2649صحيححَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بُدَيْلِ بْنِ قُرَيْشٍ الْيَامِيُّ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ زَاذَانَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَهُ ثُمَّ كَتَمَهُ أُلْجِمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ
کتاب: علم اور فہم دین کے بیان میں
علم چھپانے کی مذمت

ترجمہ : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:' جس سے علم دین کی کوئی ایسی بات پوچھی جائے جسے وہ جانتا ہے ، پھر وہ اسے چھپائے تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی '
۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں جابر اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
:
أَبْوَابُ الْعِلْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
بَاب مَا جَاءَ فِي الاِسْتِيصَاءِ بِمَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ

2650ضعيفحَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي هَارُونَ الْعَبْدِيِّ قَالَ كُنَّا نَأْتِي أَبَا سَعِيدٍ فَيَقُولُ مَرْحَبًا بِوَصِيَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ النَّاسَ لَكُمْ تَبَعٌ وَإِنَّ رِجَالًا يَأْتُونَكُمْ مِنْ أَقْطَارِ الْأَرَضِينَ يَتَفَقَّهُونَ فِي الدِّينِ فَإِذَا أَتَوْكُمْ فَاسْتَوْصُوا بِهِمْ خَيْرًا قَالَ أَبُو عِيسَى قَالَ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ كَانَ شُعْبَةُ يُضَعِّفُ أَبَا هَارُونَ الْعَبْدِيَّ قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ مَا زَالَ ابْنُ عَوْنٍ يَرْوِي عَنْ أَبِي هَارُونَ الْعَبْدِيِّ حَتَّى مَاتَ وَأَبُو هَارُونَ اسْمُهُ عُمَارَةُ بْنُ جُوَيْنٍ
کتاب: علم اور فہم دین کے بیان میں
علم (دین)حاصل کرنے والوں کے ساتھ خیر خواہی کرنے کابیان

ترجمہ : ابوہارون کہتے ہیں کہ ہم ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کے پاس (علم دین حاصل کرنے کے لیے )آتے، تو وہ کہتے: اللہ کے رسول ﷺ کی وصیت کے مطابق تمہیں خوش آمدید، رسول اللہﷺ نے فرمایا:'لوگ تمہارے پیچھے ہیں
۱؎ کچھ لوگ تمہارے پاس زمین کے گوشہ گوشہ سے علم دین حاصل کرنے کے لیے آئیں گے تو جب وہ تمہارے پاس آئیں توتم ان کے ساتھ بھلائی کرنا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- علی بن عبداللہ بن المدینی نے کہا: یحییٰ بن سعید کہتے تھے: شعبہ ابوہارون عبدی کو ضعیف قراردیتے تھے، ۲- یحییٰ بن سعید کہتے ہیں: ابن عون جب تک زندہ رہے ہمیشہ ابوہارون عبدی سے روایت کرتے رہے، ۳- ابوہارون کانام عمارہ بن جوین ہے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Featured Post

آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت بتاۓ.... طالبہ طس بنت قیوم

 الحمد للہ. ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں : یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ...