ہفتہ، 4 دسمبر، 2021

دعا و اذکار 2


 دوسری قسم:… امر و نہی اور حلال و حرام کا ذکر اور اس کے احکام کا تذکرہ کرتا ہے۔انسان احکام پر عمل کرتاہے، اور ممنوعات کو چھوڑ دیتاہے۔ اور حرام کو حرام جانتا اورحلال کو حلال سمجھتا ہے۔( ایسا کرنا بھی ذکر الٰہی ہے)۔ پھر اس کی بھی دو قسمیں ہیں : 

٭ اس کا یہ یاد رکھنا کہ اسے ایسی باتوں کا حکم دیا گیا ہے، اور ان ان باتوں سے منع کیا گیا ہے۔ اور وہ اس چیز کو پسند کرتا ہے، اور اُس کو نا پسند کرتا ہے، اور اس پر راضی ہوتا ہے۔ ٭ اللہ تعالیٰ کا حکم آنے پر اسے یاد کرتا ہے، وہ اس کی طرف جلدی کرتا ہے، اور اس حکم کے مطابق عمل کرتا ہے۔ اور جب کوئی نہی یا ممانعت آتی ہے تو وہ اس سے دور ہوجاتا ہے اور اسے ترک کردیتا ہے۔ تیسری قسم:… اللہ تعالیٰ کی نعمتوں ،احسانات اور نوازشات کو یاد کرتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کے ذکر کی سب جلیل القدر اقسام میں سے ہے۔پھر اس کی تین اقسام ہیں : ایسا ذکر جس میں انسان کا دل اور زبان مشغول رہے۔ یہ سب سے اعلی قسم ہے۔ ٭ صرف دل میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا رہے۔ یہ دوسرے درجہ پر ہے۔ ٭ صرف زبان سے اس کا ذکر کرنا۔ یہ تیسرا درجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں دعا کا مقام :اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کو پیدا کیا اور انہیں اپنی عبادت (بندگی )کے لیے رزق عطا کیا۔ اور انہیں اپنے تمام رسولوں کی زبانی-نیکیوں کی ترغیب اور برائیوں کا خوف دلاتے ہوئے- اپنی توحید بجالانے اور اس کے احکام کی پیروی کرنے کا حکم دیا۔ ایسا اللہ تعالیٰ کی لوگوں کی طرف یاان کی عبادت میں کسی ضرورت کی وجہ سے نہیں ہے۔ بلکہ اس کی کمالِ حکمت کاتقاضا یہ ہے کہ اس کی عبادت منتخب قسم کے لوگوں کے لیے نشان منزل اور خوش بختوں کا عنوان بن جائے۔اور ایسی نشانی ہوجائے جس سے خوش بختوں اور بدبختوں کے درمیان تمیز کی جائے۔ عبادت اللہ تعالیٰ کے لیے کمال ِ محبت اور اس کے سامنے کمال ذلت و کم مائیگی کا نام ہے۔ اور ہونا یہ چاہیے کہ یہ دونوں خوبیاں پورے انکسار، وخضوع اور تسلیم و رضا کیساتھ؛ شریعت پر مکمل عمل کرتے ہوئے اور منع کردہ چیزوں سے مکمل اجتناب کرتے ہوئے اجرو ثواب کے حصول کے لیے اور عذاب الٰہی سے بچنے کے لیے ہوں ۔ دعاکو اللہ تعالیٰ نے عبادت کی جملہ اقسام میں سے خاص کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے عبادت کا نام دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ ﴾ (غافر:۶۰)’’اور تمہارے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقینا جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیلہو کر جہنم میں داخل ہو جائیں گے۔‘‘دعا کی عظمت اور شان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿ قُلْ مَا يَعْبَأُ بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ﴾ (الفرقان:۷۷)’’فرما دیجیے!اگر تمہاری دعا التجا نہ ہوتی تو میرا رب تمہاری مطلق پرواہ نہ کرتا۔‘‘(مذکورہ بالا آیت میں ) بڑے ہی بلیغ انداز میں اللہ تعالیٰ نے دعا کی عظمت کو اجاگر کیا ہے؛ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک دعا کرنے والے کا مقام و مرتبہ بیان کیا ہے۔ اس لیے کہ جب بھی کوئی دعا کرنے والا پورے اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو سنتا ہے۔ حتی کہ کفار کی دعا بھی سنتا ہے۔ خاص طور پر جب کوئی مجبور اور بے قرار ہو کر اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے ( تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبول فرماتا ہے ) فرمایا: ﴿ أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ﴾ (النمل :۶۲)’’ بھلا کون پہنچتاہے بیکس کی پکار کو جب اسکو پکارتا ہے اور وہ سختی کو دور کر دیتا ہے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ﴾ (العنکبوت:۶۵)’’پس یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ تعالی ہی کو پکارتے ہیں اس کے لیے عبادت کو خالص کرکے پھر جب وہ انہیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں ۔‘‘

دعا و اذکار 1


دعا اور ذکر کی تعریف:لغوی معنی:… دعا لغت میں پکار اور طلب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ شرعی معنی: … اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اور اس سے امید رکھتے ہوئے کسی ضرورت کے لیے سوال کرنا؛ (مثلاً) عمل کے قبول ہونے کے لیے، یا بخشش کے لیے؛ یا فائدہ کے حصول کے لیے؛ یا برائی کے ختم ہونے کے لیے ؛ یا خطرات سے بچنے کے لیے؛ یا عذاب دور کرنے کے لیے؛ یا دنیا و آخرت میں اجر کے حصول کے لیے۔ دعا کی حقیقت:اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی کم مائیگی اور ضرورت مندی کا اظہار؛ ہر قسم کی ذاتی قوت و طاقت سے برأت عبودیت کی نشانی ہے۔اور انسان کا اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی پستی کا شعور ؛ اس کی حمد و ثنا اور سخاوت و کریمی کا اظہار یہ حقیقت میں دعا ہے۔ ذکرکا مفہوم: غفلت اور نسیان سے گلو خلاصی۔ غفلت:… انسان کے کسی چیز کو اپنے ارادہ اور اختیار سے چھوڑ دینے کو کہتے ہیں ۔نسیان:… انسان کے کسی چیز کو بغیر ارادہ و اختیار کے چھوڑ دینے کو کہتے ہیں ۔
دعا اور ذکر کی تعریف:لغوی معنی:… دعا لغت میں پکار اور طلب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ شرعی معنی: … اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اور اس سے امید رکھتے ہوئے کسی ضرورت کے لیے سوال کرنا؛ (مثلاً) عمل کے قبول ہونے کے لیے، یا بخشش کے لیے؛ یا فائدہ کے حصول کے لیے؛ یا برائی کے ختم ہونے کے لیے ؛ یا خطرات سے بچنے کے لیے؛ یا عذاب دور کرنے کے لیے؛ یا دنیا و آخرت میں اجر کے حصول کے لیے۔ دعا کی حقیقت:اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی کم مائیگی اور ضرورت مندی کا اظہار؛ ہر قسم کی ذاتی قوت و طاقت سے برأت عبودیت کی نشانی ہے۔اور انسان کا اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی پستی کا شعور ؛ اس کی حمد و ثنا اور سخاوت و کریمی کا اظہار یہ حقیقت میں دعا ہے۔ ذکرکا مفہوم: غفلت اور نسیان سے گلو خلاصی۔ غفلت:… انسان کے کسی چیز کو اپنے ارادہ اور اختیار سے چھوڑ دینے کو کہتے ہیں ۔نسیان:… انسان کے کسی چیز کو بغیر ارادہ و اختیار کے چھوڑ دینے کو کہتے ہیں ۔
رکھنا، اورہر اس چیز سے اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا جو کہ اس کے لائق نہیں ہے۔ پھر اس کی بھی دو قسمیں ہیں :اوّل:… ذکر کرنے والا اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف کوبیان کرے۔ ذکر کی یہ قسم احادیث میں مذکور ہے جیسے : سبحان اللهِ، والحمدُ للّٰه ، لا إله إلا اللّٰه ، واللّٰهُ أكبرُدوم:… اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور ان کے احکام کی خبر ہونا۔ جیسا کہ : اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ اپنے بندے کی توبہ سے خوش ہوتا ہے جو کہ گم سواری ملنے پر خوش ہوتا ہے۔ وہ اپنے بندوں کی آوازوں کو سنتاہے۔اور ان کی حرکتوں کو دیکھتاہے۔اور ان کے اعمال میں سے کوئی چھپی ہوئی چیز بھی اللہ تعالیٰ پر مخفی نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ان کے والدین سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ [یہ بحث کچھ تصرف کے ساتھ کتاب ’’شروط الدعا وموانع الإجابۃ‘‘ اورشیخ سعید قحطانی کی کتاب ’’ الدعاء من الکتاب و السنۃ ‘‘ سے استفادہ کرتے ہوئے لکھی گئی ہے۔

 

ہفتہ، 13 فروری، 2021

اسلام اور ایمان میں فرق

 اسلام اور ایمان میں کیا فرق ہے؟ اس بارے میں علمائے کرام نے عقائد کی کتب میں بہت تفصیلات ذکر کی ہیں، ان تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب یہ لفظ الگ الگ ذکر ہوں تو پھر ہر ایک کا مطلب پورا دین اسلام  ہوتا ہے، تو اس وقت لفظ اسلام ہو یا ایمان ان میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔

اور اگر یہ دونوں الفاظ ایک ہی سیاق  اور جملے میں مذکور ہوں تو پھر ایمان سے  باطنی یا روحانی اعمال مراد لیے جاتے ہیں، جیسے کہ قلبی عبادات، مثلاً: اللہ تعالی پر ایمان، اللہ تعالی سے محبت، خوف، امید، اور اللہ تعالی کے لیے اخلاص وغیرہ۔

اور اسلام سے مراد ظاہری اعمال ہوتے ہیں   کہ  بسا اوقات جن کے ساتھ قلبی ایمان کبھی ہوتا ہے، اور کبھی نہیں ہوتا،تو  دوسری صورت میں  ان ظاہری اعمال کو کرنے والا یا تو منافق ہوتا ہے یا پھر منافق تو نہیں ہوتا لیکن اس کا ایمان کمزور  ہوتا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"لفظ "ایمان" کو بسا اوقات اسلام یا عمل صالح کے ساتھ ملا کر ذکر نہیں کیا جاتا  بلکہ وہ بالکل الگ تھلگ ہوتا ہے، اور بسا اوقات لفظ "ایمان" کو اسلام کے ساتھ ملا کر ذکر کیا جاتا ہے جیسے کہ حدیث جبریل علیہ السلام میں ہے کہ: (اسلام کیا ہے؟۔۔۔ اور ایمان کیا ہے؟۔۔۔) اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ)
ترجمہ: بیشک مسلمان مرد   اور مسلمان خواتین، اور مومن مرد اور مومن خواتین [الأحزاب:35]

اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا:
(قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ)
ترجمہ: خانہ بدوشوں نے کہا: ہم ایمان لے آئے، آپ کہہ دیں کہ: تم ایمان نہیں لائے، تاہم تم کہو: ہم اسلام  لے آئے ہیں، ابھی تو ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔ [الحجرات:14]

نیز فرمایا:
(فَأَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ . فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ)
ترجمہ: تو ہم نے ان میں سے جو بھی مومن تھے انہیں وہاں سے نکال دیا، تو ہمیں اس میں مسلمانوں کے ایک گھرانے کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ [الذاريات:36]

تو ان آیات میں جب ایمان کو اسلام کے ساتھ ذکر فرمایا  تو :

اسلام سے مراد ظاہری اعمال لیے، مثلاً: شہادتین کا اقرار، نماز، زکاۃ، روزہ، حج وغیرہ

اور ایمان سے مراد قلبی امور لیے ، مثلاً: اللہ تعالی پر ایمان، فرشتوں، کتابوں، رسولوں اور آخرت کے دن پر ایمان۔

تاہم جب ایمان کا لفظ اکیلا ذکر کیا جائے تو اس میں اسلام اور اعمال صالحہ سب شامل ہوتے ہیں، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ایمان کے درجات بیان کرنے والی حدیث میں فرمان ہے: (ایمان کے ستر سے زائد درجات ہیں، ان میں سب سے اعلی درجہ لا الہ الا اللہ کہنا، اور سب سے چھوٹا درجہ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ہے)

تو یہی طریقہ کار دیگر تمام احادیث کے ساتھ اپنایا جائے گا جن میں نیکی کے کاموں کو ایمان کا حصہ بتلایا گیا ہے" اختصار کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا
"مجموع الفتاوى" (7/13-15)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جب [لفظ ایمان اور اسلام] دونوں اکٹھے  ذکر ہوں تو پھر اسلام سے مراد  ظاہری اعمال مراد لیے جاتے ہیں جس میں زبان سے ادا ہونے والے کلمات، اور اعضا سے ہونے والے اعمال شامل ہیں اور یہ کلمات اور اعمال کامل ایمان والا مومن یا کمزور ایمان والا مومن  بھی کر سکتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
(قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ)
ترجمہ: خانہ بدوشوں نے کہا: ہم ایمان لے آئے، آپ کہہ دیں کہ: تم ایمان نہیں لائے، تاہم تم کہو: ہم اسلام  لے آئے ہیں، ابھی تو ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔ [الحجرات:14]

اور اسی طرح منافق  شخص ہے کہ اسے ظاہری طور پر تو مسلمان کہا جاتا ہے لیکن وہ باطنی طور پر کافر ہے۔

اور ایمان سے مراد باطنی  یا قلبی امور لیے جاتے ہیں اور یہ کام صرف وہی شخص کرتا ہے جو حقیقی مومن ہو، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (2) الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (3) أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ
ترجمہ: حقیقی مومن تو وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات پڑھی جائیں تو انہیں ایمان میں بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب ہی پر بھروسا رکھتے ہیں۔ [2] وہ لوگ جو نماز قائم کرتے ہیں اور اس میں سے جو ہم نے انہیں دیا، خرچ کرتے ہیں  [3] یہی لوگ سچے مومن ہیں، انہی کے لیے ان کے رب کے پاس بہت سے درجے اور بڑی بخشش اور با عزت رزق ہے۔ [الأنفال: 2 - 4]
تو اس اعتبار سے ایمان کا درجہ اعلی ہو گا، لہذا ہر مومن مسلمان ہے لیکن ہر مسلمان مومن نہیں ہے" ختم شد
"مجموع فتاوى ورسائل ابن عثیمین" (4/92)

اب سوال میں مذکور آیت کا مفہوم اس توجیہ کے موافق ہے کہ لوط علیہ السلام کے گھر والوں کو ایک بار ایمان سے موصوف کیا گیا تو دوسری بار اسلام سے ۔

تو یہاں پر اسلام سے مراد ظاہری امور مراد ہیں اور ایمان سے مراد قلبی اور حقیقی ایمان مراد ہے، لہذا جب اللہ تعالی نے لوط علیہ السلام کے تمام گھرانے والوں کا ذکر کیا تو انہیں ظاہری اعتبار سے اسلام کے ساتھ موصوف فرمایا ؛ کیونکہ لوط علیہ السلام کی بیوی بھی آپ کے گھرانے میں شامل تھی اور وہ ظاہری طور پر مسلمان تھی، لیکن حقیقت میں کافر تھی، اسی وجہ سے جب اللہ تعالی نے عذاب سے بچنے والے اور نجات پا جانے والے لوگوں کا ذکر فرمایا تو انہیں ایمان سے موصوف فرمایا اور کہا:
(فَأَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ . فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ)
ترجمہ: تو ہم نے ان میں سے جو بھی مومن تھے انہیں وہاں سے نکال دیا، تو ہمیں اس میں مسلمانوں کے ایک گھرانے کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ [الذاريات:36]

اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"لوط علیہ السلام کی بیوی باطنی طور پر منافق اور کافر تھی، تاہم اپنے خاوند کے ساتھ ظاہری طور پر مسلمان تھی، یہی وجہ ہے کہ اسے بھی قوم لوط کے ساتھ عذاب سے دوچار کیا گیا، تو یہی حال  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ موجود منافقین کا ہے کہ وہ ظاہری طور پر آپ تو صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مسلمان تھے  لیکن باطن میں مومن نہیں تھے" ختم شد
"جامع المسائل" (6/221)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ مزید کہتے ہیں کہ:
"کچھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ ایمان اور اسلام دونوں ایک ہی چیزیں ہیں، اور ان آیتوں کو باہمی طور پر متعارض قرار دیا۔

حالانکہ معاملہ ایسے نہیں ہے، بلکہ یہ آیت پہلی آیت کے ساتھ موافقت رکھتی ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے یہ بتلایا کہ اللہ تعالی نے وہاں پر جو بھی مومن تھا اسے نکال لیا اور مسلمانوں کا وہاں ایک ہی گھر پایا؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوط علیہ السلام کی بیوی لوط علیہ السلام کے گھرانے میں موجود تھی لیکن وہ ان لوگوں میں شامل نہیں جنہیں نکال لیا گیا اور نجات پا گئے تھے، بلکہ وہ عذاب میں مبتلا ہونے والے اور پیچھے رہ جانے والوں میں شامل تھی۔ لوط علیہ السلام کی بیوی ظاہری طور پر تو اپنے خاوند کے ساتھ تھی لیکن باطنی طور پر وہ اپنی قوم کے دین پر تھی، اور اپنے خاوند کو دھوکا دے رہی  تھی کہ اس نے اپنی قوم کو آنیوالے مہمانوں کے بارے میں مطلع کر دیا، جیسے کہ اس چیز کا ذکر اللہ تعالی نے یوں فرمایا کہ:
( ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا )
ترجمہ:  [ التحريم:10]

اور جس خیانت کا ذکر اللہ تعالی نے فرمایا ہے یہ ان دونوں عورتوں کی جانب سے دینی خیانت تھی پاکدامنی سے متعلق نہیں تھی۔ بہ ہر حال مقصود یہ ہے کہ لوط علیہ السلام کی بیوی مومن نہیں تھی، نہ ہی وہ ان لوگوں میں شامل تھی جنہیں عذاب سے نکال کر نجات دے دی گئی، لہذا وہ اللہ تعالی کے اس فرمان : (فَأَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ)  تو ہم نے ان میں سے جو بھی مومن تھے انہیں وہاں سے نکال دیا [الذاريات:36]میں شامل نہیں ہے، اور چونکہ وہ ظاہری طور پر مسلمان تھی اس لیے وہ  اللہ تعالی کے فرمان : (فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ) تو ہمیں اس میں مسلمانوں کے ایک گھرانے کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ [الذاريات:36]  میں شامل ہے۔

یہاں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ  قرآن کریم کسی بھی چیز کو بیان کرنے میں انتہائی باریکی اختیار کرتا ہے کہ جب لوگوں کو عذاب سے بچانے کا ذکر  کیا تو وہاں پر مومنین کا لفظ بولا،  لیکن جب وجود اور عدم وجود کی بات آئی تو وہاں مسلمین کا لفظ بولا" ختم شد
"مجموع الفتاوى " (7/472-474)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے لوط علیہ السلام کے واقعے میں فرمایا:
(فَأَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ . فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ)
ترجمہ: تو ہم نے ان میں سے جو بھی مومن تھے انہیں وہاں سے نکال دیا، تو ہمیں اس میں کوئی ایک گھر کے سوا  مسلمانوں کا کوئی گھر نہ ملا۔ [الذاريات:36]
اللہ تعالی نے یہاں پر مومنین اور مسلمین میں فرق کیا ہے؛ کیونکہ اس بستی میں ظاہری طور پر یہی ایک گھرانہ تھا جو اسلامی تھا[مکمل ایمانی نہیں تھا]؛ کیونکہ اس گھرانے میں لوط علیہ السلام کی بیوی بھی تھی جس نے لوط علیہ السلام کو ظاہری اسلام دکھا کر دھوکا دیا ہوا تھا، حالانکہ وہ اندر سے کافر تھی، چنانچہ جن لوگوں کو نکالا گیا اور نجات دی گئی تو وہ لوگ ہی حقیقی مومن تھے کہ جن کے دلوں میں حقیقی طور پر ایمان داخل ہو چکا تھا۔" ختم شد
"مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین" (1/47-49)
واللہ اعلم.

Featured Post

*تواضع (عاجزی)حسن اخلاق

  خطبہ جمعہ       موضوع: تواضع (عاجزی) الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، الَّذِي كَرَّمَ أَوْلِيَاءَهُ وَفَطَنَ قُلُوبَ الْمَخْلُوقَ...

Popular Posts