اپنی زبان منتخب کریں

منگل، 19 جنوری، 2016

شیعہ کا عقیدہ کیا ہے؟ شیعہ فرقے کے عقائد کی وضاحت اور انہیں دعوت دینا کیا ہر شیعہ کافر ہے؟ شیعہ فرقوں کی تفصیل شیعہ اثنا عشریہ رافضہ کا حکم کیا تمام موجودہ شیعہ کفار ہیں؟ جو یہ کہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبوت کے مرتبے پر […]

موجودہ روافض (شیعوں) کا حکم؟ مختلف علماء کرام


Ruling regarding Today's Shia? Various 'Ulamaa
شیعہ کا عقیدہ کیا ہے؟
شیعہ فرقے کے عقائد کی وضاحت اور انہیں دعوت دینا
کیا ہر شیعہ کافر ہے؟
شیعہ فرقوں کی تفصیل
شیعہ اثنا عشریہ رافضہ کا حکم
کیا تمام موجودہ شیعہ کفار ہیں؟
جو یہ کہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبوت کے مرتبے پر ہیں اور سیدنا جبرئیل علیہ السلام نے غلطی کی
کیا شیعہ فرقے کا اسلام سے کوئی تعلق ہے؟
کیا شیعہ عوام اور علماء کے حکم میں فرق ہے؟
کیاشیعہ ہمارے بھائی ہیں؟
رافضہ کے کفر میں شک کرنا
کیا شیعہ فرقے کا بانی عبداللہ بن سباء یہودی تھا؟
شیعہ کے پیچھے نماز کا حکم
شیعہ سے دنیاوی معاملات کا حکم؟
کیا ایرانی انقلاب یا حکومت اسلامی ہے؟
خمینی کا حکم
ان تمام سوالات کے جوابات جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
October 25, 2015 | الشيخ صالح بن فوزان الفوزان, الشيخ عبد العزيز بن باز, الشيخ محمد بن صالح العثيمين, الشيخ محمد ناصر الدين ألباني, فتوی کمیٹی - سعودی عرب | 0

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور مسند احمد کا مختصر تعارف – شیخ محمد بن صالح العثیمین

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور مسند احمد کا مختصر تعارف – شیخ محمد بن صالح العثیمین


Brief Introduction of Imaam Ahmed bin Hanbal (rahimaullaah) and his Book "Musnad Ahmed" – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen
امام احمد بن حنبل  رحمہ اللہ اور مسند احمد کا مختصر تعارف  
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ  المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مصطلح الحديث
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

بسم اللہ الرحمن الرحیم
مسند احمد
محدثین نے مسانید کو تیسرے درجے پر رکھا ہے یعنی صحیحین اور سنن کے بعد۔مسانید میں قدر ومنزلت اور نفع کے اعتبار سے سب سے عظیم مسند امام احمد ہے۔قدیم وموجودہ دور کے محدثین اس کے بارے میں گواہی دیتے ہیں کہ  یہ کتب سنت میں سے سب سے  جامع اور اس علم سے بھرپورکتاب ہے جس کی ہر مسلمان کو اپنے دین اور دنیا میں احتیاج ہوتی ہے۔
 امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’کوئی بھی مسند کتب میں سے دوسری کتاب مسند احمدکی کثرت (حدیث) اور حسن سیاق کے اعتبار سے برابری نہیں کرسکتی‘‘۔
اور حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہمارے والد (یعنی امام احمد) نے ہمیں جمع فرمایا یعنی مجھے، (میرے بھائی) صالح اور عبداللہ کو۔  اور المسند ہم پر پڑھی جسے ہمارے سوا (اس وقت) کسی نے نہیں سنا۔اور (والد صاحب نے) فرمایا: یہ وہ کتاب ہے  جسے میں نے ساڑھے سات لاکھ حدیثوں سے منتخب کیا ہے۔مسلمانوں میں اگر کسی حدیث کے بارے میں اختلاف ہوجائے تو اس کی طرف رجوع کیا جائے۔ اگر وہ اس میں مل جائے تو ٹھیک ورنہ وہ حجت نہیں ہوسکتی‘‘۔
لیکن اما م ذہبی رحمہ اللہ فرماتےہیں:
’’آپ رحمہ اللہ کا یہ فرمان غالب امرکے متعلق ہے کیونکہ ہمارے تو پاس صحیحین  اور سنن  اور اجزاء میں ایسی قوی احادیث بھی موجود ہیں جو مسند میں نہیں‘‘۔
ان کے بیٹے عبداللہ نے اس کتاب میں بعض زیادات کا اضافہ فرمایا ہے جو کہ ان کے والد کی روایت سے نہيں ہیں ۔اور جو ’’زوائد عبد الله‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ اور اس میں مزید زیادات  أبو بكر القطيعي نے بھی کی ہیں جو  عن عبد الله عن أبيه کے زیادات کے علاوہ ہیں۔
مسند احمد میں مکرر کے ساتھ چالیس ہزار 40000احادیث ہیں اور اگر مکرر کو حذف کردیا جائے تو تیس ہزار 30000 احادیث ہیں۔
مسند احمد کی احادیث کے متعلق علماء کرام کی آراء
علماء کی مسند احمد کے بارے میں تین آراء ہیں:
پہلا قول: اس میں موجود تمام احادیث حجت ہیں۔
دوسرا قول:  اس میں صحیح ، ضعیف اور موضوع  ہر قسم کی احادیث ہیں۔ اور امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے الموضوعات میں اس میں سے 29 احادیث کو ذکر کیا ہے۔ اور حافظ العراقی رحمہ اللہ نے اس میں 9 احادیث کا اضافہ کیا (یعنی وہ بھی موضوع ہیں) اور انہیں ایک جزء میں جمع فرمایا۔
تیسرا قول: اس میں صحیح بھی ہیں ضعیف بھی ہیں لیکن ضعیف ایسی ہیں جو کہ حسن کے قریب قریب ہيں ۔ البتہ موضوع روایت اس میں کوئی بھی نہیں ہے۔ اس قول کے طرف شیخ الاسلام ابن تیمیہ ، ذہبی، حافظ ابن حجر اور سیوطی رحمہم اللہ گئے ہیں۔
اورشیخ الاسلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’امام احمد رحمہ اللہ کی مسند کی شرط امام ابو داود رحمہ اللہ کی سنن کی شرط سے زیادہ قوی ہے۔ امام ابو داود نے ایسے راویوں تک سے روایت کی ہے جن  سےمسند میں پرہیز کیا گیا ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ نے مسند میں یہ شرط بھی رکھی ہے کہ جو ان کے نزدیک جھوٹ بولنے میں معروف ہیں  ان سے راویت نہیں لیں گے۔ اگرچہ ان میں بعض ضعیف بھی تھے ۔ پھر اس میں ان کے بیٹے عبداللہ اور أبو بكر القطيعي نے زیادات کا اضافہ فرمایا اور انہیں بھی اس کے ساتھ شامل کردیا۔ پس ان کی روایات میں بہت سی موضوع احادیث بھی تھیں جس کی وجہ سے ان لوگوں کو گمان  ہوگیا کہ جن کے پاس علم نہیں کہ یہ روایات امام احمد رحمہ اللہ کی اپنی مسند کی  ہیں‘‘([1])۔
جو کچھ شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا اس کے ذریعے ان تینوں آراء  میں جمع توفیق کی جاسکتی ہے۔پس جس نے کہا اس میں صحیح بھی ہیں اور ضعیف بھی وہ اس کے خلاف نہیں کہ جو کچھ بھی اس میں ہے وہ حجت ہے کیونکہ ضعیف بھی  جب حسن لغیرہ بن جاتی ہے تو حجت بن جاتی ہے۔ او رجس نے کہا کہ: اس میں موضوع احادیث بھی ہیں تو اسے عبداللہ اور  أبو بكر القطيعي کی زیادات پر محمول کیا جائے گا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک کتاب بھی تصنیف کی جس کا نام’’القول المسدد في الذب عن المسند‘‘ (مسند احمد کے دفاع میں قول سدید) رکھا۔ اس میں وہ احادیث ذکر فرمائیں کہ جن پر حافظ العراقی رحمہ اللہ نے موضوع کا حکم لگایا تھا۔بلکہ خود انہوں نے بھی اس میں 15 احادیث کا اضافہ فرمایا ان پر جن کا ذکر ابن الجوزی رحمہ اللہ نے فرمایا تھا پھر ایک ایک حدیث کا جواب دیا۔ اور پھر امام سیوطی رحمہ اللہ نے بھی تعقب کرتے ہوئے ان احادیث کا ذکر فرمایا جو امام ابن الجوزی رحمہ اللہ سے رہ گئی تھیں، جو کہ 14 احادیث ہیں، انہیں ایک جزء  میں بیان فرمایا جسے ’’الذيل الممهد‘‘  کہتے ہیں۔
علماء امت نے اس مسند کی مختلف تصانیف کے ذریعے خدمت فرمائی ہے کسی نے اختصار کیا، تو کسی نے شرح،  کسی نے تفسیر کی، کسی نے ترتیب، انہی بہت عمدہ کتب میں سے ایک ’’الفتح الرباني لترتيب مسند الإمام أحمد بن حنبل الشيباني‘‘ ہے جسے  أحمد بن عبدالرحمن البنانے تالیف فرمایا کہ جو ساعاتی کے نام سے مشہور ہیں۔ انہوں نے اس کی سات اقسام کردیں۔ سب سے پہلی قسم توحید اور اصول دین  کی بنائی اور آخری قسم قیامت اور احوال ِآخرت سے متعلق ہے۔ انہیں ابواب کی ترتیب کے ساتھ بڑی حسن وخوبی سےمرتب فرمایا اور اس کا اتمام اس پر شرح لکھ کر فرمایا جسےانہوں نے’’بلوغ الأماني من أسرار الفتح الرباني‘‘   کا نام دیا اور یہ واقعی اپنے نام کی بھرپور عکاسی کرتی ہےکیونکہ یہ حدیث اور فقہ دونوں زاویو ں سےبہت مفید شرح ہے۔والحمدللہ رب العالمین۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
آپ أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني المروزي ثم البغدادي ہیں۔ 164 ھ میں مرو کے علاقے میں پیدا ہوئے پھر آپ کو شیرخوارگی کے زمانے میں ہی بغداد لے جایا گیا۔  اور یہ بھی کہا گیا کہ: آپ  بغداد ہی میں پیدا ہوئے۔ یتیمی میں ہی پرورش پائی اور طلب حدیث کی خاطر مختلف ملکوں کے سفر فرمائے۔ آپ نے حجاز، عراق شام اور یمن کے مشایخ العصر سے استماع فرمایا۔ انہوں نے سنت وفقہ  کا عظیم اہتمام فرمایایہاں تک کہ اہل حدیثوں نے  انہیں اپنا امام وفقیہ شمار فرمایا ہے۔
ان کے زمانے کے علماء اور بعد میں آنے والوں نے بھی ان کی تعریف کی ۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’میں جب عراق سے نکلا تو میں نے کسی شخص کو احمد بن حنبل سے بڑھ کر افضل، عالم، صاحب ورع ومتقی نہیں دیکھا‘‘۔
امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’امام احمد اس زمین پر اللہ تعالی اور اس کے بندوں کے درمیان حجت ہیں ‘‘۔
امام علی بن المدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ بے شک اللہ تعالی نے اس دین کی تائید کی ہے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ذریعے یوم ردہ  میں(مرتدین کے خلاف قتال میں)۔ اور احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے ذریعے یوم المحنۃ  (جب فتنۂ خلق قرآن کے تعلق سے آپ کو امتحان وآزمائش میں مبتلا کیا گیا) میں تائید فرمائی‘‘۔
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’فقہ ، حدیث، اخلاص وورع کی امامت  آپ پر ختم ہے۔ اور سب کا اجماع ہے کہ آپ ثقہ ، حجۃ اور امام  ہيں‘‘۔
آپ کی وفات بغداد میں سن 241ھ میں 77 سال کی عمر میں ہوئی۔اس امت کے لیے  بہت سارا علم  اور منہج قویم چھوڑ گئے۔ اللہ تعالی آپ پر رحم فرمائے اور مسلمانوں کی طرف سے آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
 

[1] انظر: "منهاج السنة النبوية" (7/97).

اتوار، 17 جنوری، 2016

سوره الحمن كا اردو ترجمه ،، عبدالمومن سلفي

سورة الرَّحمٰن
شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
رحمنٰ ہی نے (۱) قرآن سکھایا (۲) اس نے انسان کو پیدا کیا (۳) اسے بولنا سکھایا (۴) سورج اور چاند ایک حساب سے چل رہے ہیں (۵) اوربیلیں اور درخت سجدہ کر رہے ہیں (۶) اور آسمان کو اسی نے بلند کر دیا اور ترازو قائم کی (۷) تاکہ تم تولنے میں زیادتی نہ کرو (۸) اور انصاف سے تولو اور تول نہ گھٹاؤ (۹) اور اس نے خلقت کے لیے زمین کو بچھا دیا (۱۰) اس میں میوے اور غلافوں والی کھجوریں ہیں (۱۱) اور بھوسے دار اناج اور پھول خوشبو دار ہیں (۱۲) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۱۳) اس نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا (۱۴) اور اس نے جنوں کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا (۱۵) پھر تم (اے جن و انس) اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۱۶) وہ دونوں مشرقوں اور مغربوں کا مالک ہے (۱۷) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۱۸) اس نے دو سمندر ملا دیئے جو باہم ملتے ہیں (۱۹) ان دونوں میں پردہ ہے کہ وہ حد سے تجاوز نہیں کرسکتے (۲۰) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۲۱) ان دونوں میں سے موتی اور مونگا نکلتا ہے (۲۲) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۲۳) اور سمند ر میں پہا ڑوں جیسے کھڑے ہوئے جہاز اسی کے ہیں (۲۴) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۲۵) جو کوئی زمین پر ہے فنا ہوجانے والا ہے (۲۶) اور آپ کے پروردگار کی ذات باقی رہے گی جو بڑی شان اور عظمت والا ہے (۲۷) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۲۸) اس سے مانگتے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں ہر روز وہ ایک کام میں ہے (۲۹) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۳۰) اے جن و انس ہم تمہارے لیے جلد ہی فارغ ہو جائیں گے (۳۱) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۳۲) اے جنوں اور انسانوں کے گروہ اگر تم آسمانوں اور زمین کی حدود سے باہر نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ تم بغیر زور کے نہ نکل سکو گے (اور وہ ہے نہیں) (۳۳) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۳۴) تم پر آگے کے شعلے اور دھواں چھوڑا جائے گا پھر تم بچ نہ سکو گے (۳۵) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۳۶) پھر جب آسمان پھٹ جائے گا اور پھٹ کر گلابی تیل کی طرح سرخ ہو جائے گا (۳۷) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۳۸) پس اس دن اپنے گناہ کی بات نہ کوئی انسان اور نہ کوئی جن پوچھا جائے گا (۳۹) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۴۰) مجرم اپنے چہرے کے نشان سے پہچانے جائیں گے پس پیشانی کے بالوں اور پاؤں سے پکڑے جائیں گے (۴۱) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۴۲) یہی وہ دوزخ ہے جسے مجرم جھٹلاتے تھے (۴۳) گناہ گار جہنم میں اور کھولتے ہوئے پانی میں تڑپتے پھریں گے (۴۴) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۴۵) اوراس کے لیے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے دو باغ ہوں گے (۴۶) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۴۷) جن میں بہت سی شاخیں ہوں گی (۴۸) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۴۹) ان دونوں میں دو چشمے جاری ہوں گے (۵۰) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۵۱) ان دونوں میں ہر میوہ کی دو قسمیں ہوں گی (۵۲) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۵۳) ایسے فرشو ں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے کہ جن کا استر مخملی ہوگا اور دونوں باغوں کا میوہ جھک رہا ہوگا (۵۴) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۵۵) ان میں نیچی نگاہوں والی عورتیں ہوں گی نہ تو انہیں ان سے پہلے کسی انسان نے اور نہ کسی جن نے چھوا ہوگا (۵۶) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۵۷) گویا کہ وہ یاقوت اور مونگا ہیں (۵۸) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۵۹) نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور کیا ہے (۶۰) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۶۱) اور ان دو کے علاوہ اور دو باغ ہوں گے (۶۲) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۶۳) وہ دونوں بہت ہی سبز ہوں گے (۶۴) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۶۵) ان دونوں میں دو چشمے ابلتےہوئے ہوں گے (۶۶) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۶۷) ان دونوں میں میوے اور کھجوریں اور انار ہوں گے (۶۸) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۶۹) ان میں نیک خوبصورت عورتیں ہوں گی (۷۰) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۷۱) وہ حوریں جو خیموں میں بند ہوں گی (۷۲) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۷۳) نہ انہیں ان سےپہلے کسی انسان نے اور نہ کسی جن نے چھوا ہوگا (۷۴) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۷۵) قالینوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے جو سبز اور نہایت قیمتی نفیس ہوں گے (۷۶) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے (۷۷) آپ کے رب کا نام با برکت ہے جو بڑی شان اور عظمت والا ہے (۷۸)

كيا عورت كا چہرہ ستر ميں شامل ہوتا ہے ؟ عبدالمومن سلفی

مستقل فتوى كميٹى جس كے چئرمين عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ تھے سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا عورت كا چہرہ ستر ميں شامل ہوتا ہے ؟
كميٹى كا جواب تھا:
" جى ہاں علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق عورت كا چہرہ عورۃ يعنى پردہ اور ستر ميں شامل ہوتا ہے "
ديكھيں: مجلۃ البحوث الاسلاميۃ ( 24 / 75 ).
اور آپ يہ بھى علم ميں ركھيں كہ اختلاف ہونے كى صورت ميں مسلمان كے ليے كتاب و سنت كى طرف رجوع كرنا ضرورى اور واجب ہوتا ہے، جس كا حكم ديتے ہوئے اللہ تعالى كا فرمان ہے:
﴿ تو اگر تم كسى چيز ميں اختلاف كر بيٹھو تو اسے اللہ اور اس كے رسول كى طرف لوٹاؤ اگر تم اللہ تعالى اور يوم آخرت پر ايمان ركھتے ہو ﴾.
اور اللہ تعالى اور اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم پر لوٹانے سے يہ واضح ہوتا ہے كہ مسلمان اجنبى اور غير محرم مردوں كى موجودگى ميں عورت پر اپنے چہرے كا پردہ كرنا واجب ہے، اس كے كچھ دلائل ذيل ميں بيان كيے جاتے ہيں:
1 - اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
﴿ اے نبى صلى اللہ عليہ وسلم آپ اپنى بيويوں اور اپنى بيٹيوں اور مومنوں كى عورتوں سے كہہ ديجئے كہ وہ اپنے اوپر اپنى چادر لٹكا ليا كريں، اس سے بہت جلد ا نكى شناخت ہو جايا كريگى پھر وہ ستائى نہ جائينگى، اور اللہ تعالى بخشنے والا مہربان ہے ﴾الاحزاب ( 59 ).
مہاجرين اور انصار صحابہ كرام كى عورتوں نے اس حكم پر عمل بھى كيا.
امام بخارى رحمہ اللہ نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے روايت كيا ہے كہ:
" اللہ تعالى پہلى مہاجر عورتوں پر رحمت كرے جب اللہ تعالى نے يہ آيت نازل فرمائى:
﴿ اور وہ اپنى چادريں اپنے گريبانوں پر لٹكا ليا كري ﴾.
تو انہوں نے اپنى چادريں دو حصوں ميں پھاڑ كر تقسيم كر ليں اور انہيں اپنے اوپر اوڑھ ليا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4480 ).
2 - اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
﴿ اور آپ مومن عورتوں كو كہہ ديجئے كہ وہ بھى اپنى نگاہيں نيچى ركھيں اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كريں، اور اپنى زينت كو ظاہر نہ كريں، سوائے اسكے جو ظاہر ہے، اوراپنے گريبانوں پر اپنى اوڑھنياں ڈالے رہيں، اور اپنى آرائش كو كسى كے سامنے ظاہر نہ كريں، سوائے اپنے خاوندوں كے، يا اپنے والد كے، يا اپنے سسر كے، يا اپنے بيٹوں كے، يا اپنے خاوند كے بيٹوں كے، يا اپنے بھائيوں كے، يا اپنے بھتيجوں كے، يا اپنے بھانجوں كے، يا اپنے ميل جول كى عورتوں كے، يا غلاموں كے، يا ايسے نوكر چاكر مردوں كے جو شہوت والے نہ ہوں، يا ايسے بچوں كے جو عورتوں كے پردے كى باتوں سے مطلع نہيں، اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار كر نہ چليں كہ انكى پوشيدہ زينت معلوم ہو جائے، اے مسلمانو! تم سب كے سب اللہ كى جانب توبہ كرو، تا كہ تم نجات پا جاؤ ﴾النور ( 31 ).
اس آيت ميں اللہ سبحانہ و تعالى نے ظاہرى زينت كے علاوں باقى سب زيبائش اور بناؤ سنگھار كو مطلقا ظاہر كرنے سے منع كيا ہے، اور ظاہرى زينت مثلا ظاہرى كپڑوں كا ظاہر ہونا تو ضرورى ہے، اسى ليے اللہ تعالى نے " الا ما ظھر منھا " كے الفاظ بولے ہيں، اور يہ نہيں فرمايا: " الا ما اظھر منھا
پھر اللہ تعالى نے انہيں زينت ظاہر كرنے سے دوبارہ منع كيا ہے، ليكن جن كو اس سے استثنى كيا ہے ان كے سامنے ظاہر كر سكتى ہے، تو اس سے پتہ چلا كہ دوسرى زينت پہلى زينت كے علاوہ ہے، تو پہلى زينت سے مراد ظاہرى زينت ہے جو ہر ايك كے ليے ظاہر ہو گى جس كا چھپانا ممكن نہيں، اور دوسرى زينت سے مراد باطنى زينت ہے ( اور اس ميں چہرہ بھى ہے ) اور اگر يہ زينت ہر ايك كے سامنے ظاہر كرنى جائز ہوتى تو پھر پہلى زينت كو عام كرنے اور دوسرى كو استثنى كرنے ميں كوئى فائدہ معلوم نہيں ہوتا.
3 - ارشاد بارى تعالى ہے:
﴿ اے نبى صلى اللہ عليہ وسلم آپ اپنى بيويوں اور اپنى بيٹيوں اور مومنوں كى عورتوں سے كہہ ديجئے كہ وہ اپنے اوپر اپنى چادر لٹكا ليا كريں، اس سے بہت جلد ا نكى شناخت ہو جايا كريگى پھر وہ ستائى نہ جائينگى، اور اللہ تعالى بخشنے والا مہربان ہے ﴾الاحزاب ( 59 ).
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں:
اللہ سبحانہ و تعالى نے مومنوں كى عورتوں كو حكم ديا ہے كہ وہ جب كسى ضرورت كى خاطر اپنے گھروں سے نكليں تو اپنے چہرے اپنے سروں كے اوپر سے اوڑھنيوں كے ساتھ ڈھانپ ليا كريں، اور ايك آنكھ ظاہر كريں "

جمعہ، 15 جنوری، 2016

نماز مين تشهد كي انگلی کی کیفت

الحمد للہ:
اول:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نماز ميں تشھد كے اندر اپنى انگشت شہادت سے اشارہ كرتے اور اسے حركت ديتے تھے، اس ميں اہل علم كا اختلاف اور كئى ايك اقوال ہيں:
1 - احناف كے ہاں انگلى كو تشھد ميں اس وقت اٹھايا جائيگا جب اشھد ان لا الہ ميں ميں لا كہا جائے، اور اس كے بعد انگلى نيچے كر لى جائيگى.
2 - شافعى حضرات كہتے ہيں كہ: الا اللہ كے وقت انگلى اٹھائى جائيگى.
3 - اور مالكيوں كے ہاں نماز سے فارغ ہونے تك انگلى دائيں بائيں حركت دى جائيگى.
4 - اور حنابلہ كے ہاں يہ ہے كہ جب بھى لفظ جلالہ " اللہ " كہا جائے انگلى سے اشارہ كيا جائيگا ليكن حركت نہيں دى جائيگى.
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: سنت ميں ان تحديدات اور كيفيات كى كوئى اصل اور دليل نہيں ہے، اور اگر لفظ جلالہ كے وقت حركت كى قيد نہ لگائيں تو سب سے قريب مذہب حنابلہ كا ہے.
ديكھيں: تمام المنۃ صفحہ نمبر ( 223 ).
دوم:
اس مسئلہ ميں دلائل:
ا ـ عبد اللہ بن زبير رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز ميں بيٹھتے تو اپنا باياں پاؤں ران اور پنڈلى كے درميان كرتے، اور داياں پاؤں بچھاتے اور اپنا باياں ہاتھ بائيں گھٹنے اور داياں ہاتھ دائيں ران پر ركھتے، اور اپنى انگلى كے ساتھ اشارہ كرتے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 579 ).
اور نسائى اور ابو داود ميں ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جب دعاء كرتے تو اپنى انگلى كے ساتھ اشارہ كرتے، اور اسے حركت نہيں ديتے تھے "
سنن نسائى حديث نمبر ( 1270 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 989 ) اور اسے حركت نہيں ديتے تھے، والے زيادہ الفاظ كو زاد المعاد ميں ابن قيم اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے تمام المنۃ ميں ضعيف كہا ہے.
ديكھيں: زاد المعاد ( 1 / 238 ) اور تمام المنۃ صفحہ نمبر ( 218 ).
ب ـ وائل بن حجر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے كہا ميں ضرور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ديكھوں گا كہ وہ نماز كس طرح ادا كرتے ہيں:
" چنانچہ ميں نے ديكھا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كھڑے ہوئے اور تكبير كہى اور اپنے دونوں ہاتھ كانوں تك بلند كيے ( يعنى رفع اليدين كيا ) پھر اپنا داياں ہاتھ اپنى بائيں ہتھيلى اور جوڑ اور كلائى پر ركھا، اور جب ركوع كرنا چاہا تو پھر اسى طرح رفع اليدين كيا.
راوى كہتے ہيں: اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر ركھے، اور پھر جب ركوع سے سر اٹھايا تو اسى طرح رفع اليدين كيا، پھر سجدہ كيا اور اپنے دونوں ہاتھ كانوں كے برابر كيے، اور پھر بيٹھے تو اپنا باياں پاؤں بچھايا اور اپنى دائيں ہتھيلى اپنى بائيں ران اور گھٹنے پر ركھى، اور اپنى دائيں كہنى كى حد اپنى دائيں ران پر ركھى پھر اپنى دو انگلياں بند كيں اور حلقہ بنايا اور پھر اپنى انگلى اٹھائى تو ميں نے ديكھا كہ اسے حركت دے رہے اور اس كے ساتھ دعاء كر رہے تھے"
سنن نسائى حديث نمبر ( 889 ) ابن حبان ( 5 / 170 ) ابن خزيمہ نے صحيح ابن خزيمہ ( 1 / 354 ) ميں اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 367 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى نے اس حديث " اسے حركت دے كر دعاء كر رہے تھے "
سے يہ استدلال كيا ہے كہ تشھد ميں ہر دعائيہ جملہ پر انگلى كو حركت دى جائيگى.
الشرح الممتع ميں كہتے ہيں:ط
" سنت اس پر دلالت كرتى ہے كہ دعاء كے وقت انگلى كے ساتھ اشارہ كرے، كيونكہ حديث كے لفظ ہيں: " اسے حركت دے كر دعاء كر رہے تھے " چنانچہ جب بھى آپ دعاء كريں تو انگلى كے ساتھ اوپر كى طرف اللہ سبحانہ وتعالى كى طرف اشارہ كريں، اس سے دعاء كى مانگى جارہى ہے، اس ليے ہم كہتے ہيں كہ:
السلام عليك ايہا النبى ـ يہاں انگلى كو حركت دے كر اشارہ كيا جائيگا كيونكہ السلام خبر ہے جو كہ دعاء كے معنى ميں ہے.
السلام علينا: ـ اس ميں بھى اشارہ ہو گا.
اللہم صلى على محمد : يہاں بھى انگلى كو ہلايا جائيگا.
اللہم بارك على محمد: اس ميں بھى اشارہ كرتے ہوئے انگلى كو حركت ديں.
اعوذ باللہ من عذاب جہنم: ـ اس ميں بھى اشارہ اور انگلى كو حركت دى جائيگى.
و من عذاب القبر: يہاں بھى حركت ديں.
و من فتنۃ المحيا و الممات: يہاں بھى اشارہ اور حركت ہو گى.
و من فتنۃ مسيح الدجال: اس ميں بھى اشارہ كرينگے.
اور جب بھى آپ دعاء كريں انگلى كے ساتھ اوپر كى جانب جس سے آپ دعاء كر رہے ہيں اشارہ كريں، يہى سنت كے زيادہ قريب ہے. اھـ
سوم:
سنت يہ ہے كہ انگلى كے ساتھ اشارہ اور حركت ديتے ہوئے انگشت شہادت كى طرف ديكھا جائے.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" سنت يہ ہے كہ اس كى نظر اس كے اشارہ سے تجاوز نہ كرے، اس كے متعلق سنن ابو داود ميں صحيح حديث موجود ہے، اور قبلہ كى جانب اس سے اشارہ كرے اور اس ميں توحيد اور اخلاص كى نيت ہونى چاہيے "
ديكھيں: شرح مسلم ( 5 / 81 ).
جس حديث كى طرف امام نووى رحمہ اللہ تعالى نے اشارہ كيا ہے يہ عبد اللہ بن زبير رضى اللہ تعالى عنہما كى مندرجہ بالا حديث ہے، ابو داود ميں اس كے الفاظ اس طرح ہيں:
" اس كى نظر اشارہ سے تجاوز نہ كرے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 989 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
چہارم:
سنت يہ ہے كہ انگلى كے ساتھ قبلہ كى جانب اشارہ كيا جائے.
عبد اللہ بن عمررضى اللہ تعالى عنہما نے ايك شخص كو نماز ميں ہاتھ كے ساتھ كنكرياں ہلاتے ہوئے ديكھا، اور جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے اسے فرمايا:
" تم نماز ميں كنكريوں كو حركت نہ ديا كرو، كيونكہ يہ شيطان كى جانب سے ہے، ليكن تم اس طرح كيا كرو جس طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كيا كرتے تھے.
راوى كہتے ہيں: چنانچہ انہوں نے اپنا داياں ہاتھ اپنى ران پر ركھا اور انگوٹھے كے ساتھ والى انگلى سے قبلہ كى جانب اشارہ كرنے لگے، اور اپنى نظر بھى انگلى كى طرف كرلى، پھر فرمانے لگے:
" ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ايسا كرتے ہوئے ديكھا "
سنن نسائى حديث نمبر ( 1160 ) ابن خزيمہ ( 1 / 355 ) ابن حبان ( 5 / 273 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
پنجم:
اشارہ كرتے ہوئے انگلى كو ٹيڑھا كرنا، يہ نمير الخزاعى كى حديث ميں آيا ہے جو ابو داود حديث نمبر ( 991 ) اور سنن نسائى حديث نمبر ( 1274 ) ميں موجود ہے، ليكن يہ حديث ضعيف ہے.
ديكھيں: تمام المنۃ للالبانى صفحہ نمبر ( 222 ).
واللہ اعلم  .

انشورنس كرنا جايز هين حكومت مجبور كرتي هين

حکومت مجبور کرتی هین انشورنس کرو ،

الحمد للہ :

1 - بلا كسى شك و شبہ ہر قسم كى تجارتى انشورنس واضح اور صريح سود ہے، يہ رقم كى كم يا زيادہ رقم كے ساتھ بيع ہے، اور اس ميں دونوں رقموں ميں سے ايك ادھار بھى ہے، لہذا اس ميں رباالفضل اور ربا النسيئۃ دنوں سود كى قسميں پائى جاتى ہيں.
اس ليے كہ انشورنس والے لوگوں سے رقم وصول كرليتے ہيں، اور حادثہ پيش آجانے كى صورت ميں انشورنس كرانے والے شخص سے كم يا زيادہ رقم دينے كا وعدہ كرتے ہيں، اور يہ ہى سود ہے، اور قرآنى نص كے ساتھ بہت سارى آيات ميں سود كى حرمت ثابت ہوتى ہے.
2 - تجارتى انشورنس كى سب اقسام كا دار ومدار جوے پر ہے، جوے كے بغير قائم ہى نہيں ہو سكتى، اور يہ نص قرآنى كے ساتھ حرام ہے.
فرمان بارى تعالى ہے:
{اے ايمان والو! بات يہى ہے كہ شراب اور جوا اور درگاہيں اور فال نكالنے كے پانسے كے تير يہ سب گندى باتيں اور شيطانى كام ہيں، ان سے بالكل الگ تھلگ رہو اور اجتناب كرو تا كہ تم كامياب ہو جاؤ}المائدۃ ( 2 )
لہذا انشورنس كى سب صورتيں نصيب اور حصوں كے ساتھ كھيل ہے، انشورنس والے كہتے ہيں كہ اتنى رقم ادا كرو اور اگر تمہارے ساتھ ايسا واقعہ ہوا تو ہم اتنى رقم ادا كرينگے، اور يہ بالكل جوا ہے، انشورنس اور جوے كے مابين فرق كرنا ايسى مخالفت ہے جسے عقل سليم قبول ہى نہيں كرتى، بلكہ انشورنس والے تو خود يہ تسليم كرتے ہيں كہ انشورنس جوا ہے.
3 - تجارتى انشورنس كى سب اقسام دھوكہ و فراڈ ہيں، اور بہت سى احاديث كى رو سے دھوكہ و فراڈ حرام ہے.
ان احاديث ميں ابوھريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث بھى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيع الحصاۃ اور دھوكہ كى بيع منع فرمائى" امام مسلم نے اسے صحيح مسلم ميں روايت كيا ہے.
تجارتى انشورنس كى سب اقسام كا اعتماد دھوكہ و فراڈ پر ہے، بلكہ فحش قسم كے دھوكہ پر مبنى ہے، لہذا انشورنس كى سب كمپنياں اور ہر انشورنس كى تجارت كرنے والا كسى غير احتمالى خطرہ كى انشورنس كروانے سے منع كرتا ہے.
يعنى خطرے كے وقوع اور عدم وقوع كا احتمال ضرور ہو تا كہ وہ انشورنس كے قابل ہو سكے، اور اسى طرح وقوع كا وقت اور اس كى مقدار كا علم بھى روكا جاتا ہے، تو اس طرح اس انشورنس ميں تين قسم كا واضح اور فحش دھوكہ جمع ہے.
4 - تجارتى انشورنس كى سب صورتيں باطل طريقہ سے لوگوں كا مال ہڑپ كرنا ہے، اور يہ قرآنى نص سے حرام ہے.
ارشاد بارى تعالى ہے:
{اے ايمان والو! تم آپس ميں اپنا مال باطل طريقہ سے نہ كھايا كرو}
لہذا تجارتى انشورنس كى سب انواع اور صورتيں باطل طريقہ سے لوگوں كا مال ہڑپ كرنے كا ايك طريقہ اور حيلہ ہے، جرمنى كے ماہر شخص كے دقيق اعداد و شمار نے يہ ثابت كيا ہے كہ لوگوں كو دى جانے والى رقم جمع كردہ رقم كا 2.9 % فيصد بھى نہيں بنتى.
لہذا انشورنس امت كے ليے ايك عظيم خسارہ اور نقصان ہے، كفار كا فعل حجت نہيں جو انشورنس كو موت كى طرح ناپسند كرنے كے باوجود انشورنس كروانے پر بہت زيادہ مجبور ہو چكے ہيں.
يہ تو شريعت كى عظيم مخالفات كا ايك پہلو ہے جن كے بغير انشورنس قائم ہى نہيں رہ سكتى، ليكن بہت سى دوسرى مخالفات ايسى بھى ہيں جن كے ليے يہ مقام كافى نہيں، اور ان كے ذكر كرنے كى بھى كوئى ضرورت نہيں، كيونكہ اوپر جس ايك مخالفت كا ذكر كيا جا چكا ہے اسے اللہ تعالى كى شريعت ميں عظيم منكرات اور حرام كردہ اشياء ميں شامل كرنے كے ليے وہى كافى ہے.
افسوس تو اس بات پر ہے كہ بعض لوگ انشورنس كمپنيوں كے ايجنٹوں كى چكنى چپڑى باتوں سے دھوكہ ميں آجاتے ہيں مثلا اسے تعاونى يا تكافلى اور اسلامى انشورنس كا نام ديتے ہيں، يا اس طرح كے اور ناموں سے موسوم كرتے ہيں، حالانكہ يہ نام اس كى باطل حقيقت سے كچھ بھى بدل نہيں سكتے.
اور انشورنس كى داعى ايجنٹ حضرات كا يہ دعوى كرنا كہ علماء كرام نے تعاونى انشورنس كے نام سے موسوم انشورنس كے حلال ہونے كا فتوى ديا ہے، يہ كذب بيانى اور بہتان ترازى ہے، اور اس ميں خلط ملط ہونے كا سبب يہ ہے كہ انشورنس كى دعوت دينے والے بعض ايجنٹوں نے علماء كرام كو ايك كھوٹى اور ناقص قسم كى درخواست دى جس كا انشورنس كى اقسام و انواع كے ساتھ سرے سے كوئى تعلق ہى نہيں، اور انہوں نے كہا كہ يہ انشورنس كى ايك قسم اور ( اس كى تزيين اور لوگوں پر خلط ملط كرنے كے ليے ) اسے تعاونى انشورنس كے نام سے موسوم كرديا، اور كہنے لگے كہ:
يہ خالص لوگوں كے تعاون اور فنڈ ميں سے ہے، اور يہ اس تعاون ميں سے ہے جس كا اللہ تعالى نے مندرجہ ذيل فرمان ميں حكم ديا ہے:
فرمان بارى تعالى ہے:
{اور تم نيكى و بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كاتعاون كرتے رہا كرو}
اور اس كا مقصد لوگوں كو پہنچنے والے خطرات اور تكاليف ميں تعاون كرنا، صحيح يہى ہے كہ جسے وہ تعاونى انشورنس كا نام ديتے ہيں وہ بھى انشورنس كى دوسرى اقسام كى طرح ہى ہے، اختلاف صرف شكل اور كيفيت ميں ہے ليكن حقيقت اورجوہر ميں كوئى فرق نہيں، يہ خالصتا فنڈ اور تعاون سے بہت زيادہ دور ہے اس سے كے ساتھ تو دور كا تعلق نہيں پايا جاتا، اور نيكى و بھلائى كے كاموں ميں تعاون سے بھى بہت بعيد ہے دور كا بھى تعلق نہيں ركھتى، بلكہ بلا كسى شك و شبہ يہ تو برائى معصيت اور ظلم و زيادتى ميں تعاون ہے, اس كا مقصد لوگوں كى تكليف اور مصائب ميں تخفيف اور اصلاح نہيں، بلكہ اس كا مقصد لوگوں كا ناحق اور باطل طريقہ سے مال ہڑپ كرنا ہے، لہذا يہ بھى قطعى طور پر انشورنس كى دوسرى اقسام كى طرح حرام ہے، اس ليے انہوں نے جو كچھ علماء كے سامنے پيش كيا ہے وہ انشورنس كى اصل كو ختم نہيں كرتى.
اور بعض جو يہ دعوى كرتے ہيں كہ جمع كردہ رقم كا كچھ حصہ واپس كر ديا جاتا ہے، تو يہ كسى بھى چيز كو تبديل نہيں كرتا، اور نہ ہى انشورنس كو سود اور جوے اور دھوكہ و فراڈ اور لوگوں كے مال كو ناحق اور باطل طريقہ سے ہڑپ كرنے سے بچاتا ہے، اور نہ ہى اسے اللہ تعالى پر توكل كے منافى ہونے سے بھى محفوظ نہيں كرتا، اور اسى طرح دوسرى حرام كردہ سے بھى، بلكہ يہ تو دھوكہ و فراڈ اور تلبيس ہے، جو مزيد تفصيل چاہتا ہے وہ ( انشورنس اور اس كے احكام ) كا مطالعہ كرے.
ميں ہر دينى غيرت ركھنے والے اور اللہ تعالى اور آخرت كے دن كى ملاقات كى اميد ركھنے والے مسلمان كو دعوت ديتا ہوں كہ وہ اپنے آپ كے بارہ ميں اللہ تعالى سے ڈرے اور اس كا تقوى اختيار كرے، اور انشورنس سے اجتناب كرے چاہے وہ جس طرح كے بھى برات كے حلے زيب تن كرے اور زرق برق لباس پہنا كر انشورنس كو پاك كرنے كى كوشش كى گئى ہو وہ پھر بھى بلاشك وشبہ حرام اور سحت ہى ہے، وہ اس سے اپنے دين اور مال كى بھى حفاظت كر سكتا ہے، اور امن و امان كے مالك اللہ سبحانہ وتعالى سے امن كى نعمت بھى حاصل كرسكتا ہے.
اللہ تعالى مجھے اور آپ كو دينى بصيرت سے نوازے، اور اللہ رب العالمين كو راضى كرنے والے اعمال كرنے كى توفيق عطا فرمائے.

ديكھيں: خلاصۃ فى حكم التامين تاليف: ڈاكٹر سليمان بن ابراہيم الثنيان ممبر ٹيچنگ كميٹى شريعت كالج قصيم.www.mominsalafi.blogspot.com

كيا مسجد حرم مين شامل هين ،، عبدالمومن سلفي

كيا مسجد اقصي. حرم مين نهي ه
www.Mominsalafi.BlogSpot.com
مسجداقصی کوباقی مساجد پرفضیلت حاصل ہے ، لھذا مساجد میں سب سے افضل مسجد حرام ، پھر مسجد نبوی شریف اورپھر مسجد اقصی افضل ہے ۔
اوریہی وہ تین مساجدہيں جن کی طرف عبادت کےلیے سفر کرنا مشروع ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( تین مساجد مسجد حرام ، مسجد اقصی ، مسجد نبوی کے علاوہ کسی اورمسجد کی طرف زیارت کی نیت سے سفر نہ کیا جائے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1996 ) ۔
اورمسجد اقصی میں ایک نماز کا ثواب دوسوپچاس نمازوں کے برابر ہے :
ابوذر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ عیلہ وسلم کے پاس آپس میں یہ بحث کررہے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد افضل ہے یا کہ مسجد اقصی ؟
تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :
( میری مسجد میں ایک نماز اس میں چارنمازیں ادا کرنے سے بہتر ہے ، اورنماز ادا کرنے کے لیے وہ اچھی جگہ ہے ، اورعنقریب ایک وقت ایسا آئے گا کہ آدمی کے گھوڑے کی رسی جتنی زمین کا ٹکڑا جہاں سے بیت المقدس دیکھا جائے ساری دنیا سے بہترہوگی ) اسے حاکم نے روایت کیا ہے ( 4 / 509 ) اوراسے صحیح کہا اورامام ذھبی رحمہ اللہ نے اس کی موافقت کی ہے اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے السلسلۃ الصحیحۃ میں حدیث نمبر ( 2902 ) پرکلام کے آخر میں یہی کہا ہے ۔
حدیث میں موجود شطن فرسہ کا معنی گھوڑے کی رسی ہے ۔
اورمسجدنبوی میں ایک نماز ہزار نمازوں کے برابر ہے تواس طرح مسجد اقصی میں دوسوپچاس نمازوں کے برابر ہوگی ۔
اورجویہ حدیث مشہور ہے کہ مسجد اقصی میں ایک نماز کا ثواب پانچ سونمازوں کا ہے ، یہ حدیث ضعیف ہے ۔ دیکھیں : تمام المنۃ للشیخ البانی رحمہ اللہ تعالی صفحہ نمبر ( 292 ) ۔
دوم :
حرم کے کچھ مخصوص احکام ہیں جواللہ تعالی نے مشروع کیے ہیں ان میں سے چندایک یہ ہیں :
- حرم میں لڑائی وقتال حرام ہے ۔
- حدود حرم میں موجود حیوانات اورپرندوں کا شکار ممنوع ہے ، اوروہاں کی ان جڑی بوٹیوں اوردرخت کوکاٹنا حرام ہے جوکسی نے کاشت نہيں کیں بلکہ اللہ کی جانب سے ہیں ۔
اوراللہ سبحانہ وتعالی نے اہل مکہ پریہ انعام کیا ہے کہ مکہ کوان کے لیے امن وسلامتی کی جگہ بنائي ہے ، وہاں پرلوگ اورچوپائے بھی امن میں رہتے ہيں اسی کے بارہ میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ کیا ہم نے انہیں امن وامان اورحرمت والے حرم میں جگہ نہيں دی ؟ جہاں تمام چيزوں کے پھل کھچے چلے آتے ہيں جوہمارے پاس بطور رزق کے ہیں لیکن ان میں سے اکثر جانتے ہی نہیں } القصص ( 57 ) ۔
اورایک مقام پر اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کوباامن بنا دیا ہے ، حالانکہ ان کے ارد گرد سے لوگ اچک لیے جاتے ہیں } العنکبوت ( 67 ) ۔
اورایک دوسرے مقام پرفرمان باری تعالی ہے :
{ اورجوبھی اس میں داخل ہوجائے وہ امن میں ہوجاتا ہے } البقرۃ ( 97 ) ۔
اورامام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے جابررضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( یقینا ابراھیم علیہ السلام نے مکہ کوحرم قرار دیا اورمیں مدینہ کوحرام کرتا ہوں ۔۔۔ اس کی جڑی بوٹیاں نہيں کاٹی جائيں گی اوراس کا شکار بھی نہيں کیا جائے گا ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1362 ) ۔
حدیث میں وارد العضاہ کا معنی ہے کہ ہروہ درخت جس میں کانٹے ہوں ، اورجب کانٹے والے درخت کے کاٹنے کی حرمت ہے توپھربغیر کانٹے کے درخت کاٹنا بالاولی حرام ہونگے ۔
اورامام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے ابوسعیدخدری رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اے اللہ یقینا ابراھیم علیہ السلام نے مکہ کوحرام کیا اوراسے حرم بنا دیا ، اورمیں نے مدینہ کوحرام کیا ہے ۔۔۔ یہ کہ اس میں خون نہيں بہایا جائے گا ، اورنہ ہی لڑائي کے لیے اسلحہ اٹھایا جائےگا ، اورچارے کے بغیراس کا کوئي درخت نہيں کاٹا جائے گا۔۔۔ الحدیث ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1374 ) ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اس میں چارہ کے لیے درختوں کےپتے حاصل کرنے کا جواز پایا جاتا ہے ، اوریہاں مراد بھی یہی ہے بخلاف اس کے کہ ٹہنیاں توڑی اورکاٹی جائيں ، کیونکہ یہ حرام ہے ۔ اھـ
اورمسلمانوں کے متفقہ فیصلہ کے مطابق بیت المقدس اس معنی میں حرم نہيں ، اورلوگوں نے تواس وصف ( یعنی حرم ) کے اطلاق میں بہت وسعت اختیارکرلی ہے ، لھذا قدس حرم بن گیا ! اورفلسطین میں مسجد ابراھیم خلیل حرم بن گئي ، بلکہ وہاں تویونیورسٹیاں بھی حرم بن گئيں اورانہيں یونیورسٹی حرم کہا جانے لگا ہے !!! ، حالانکہ زمین میں حرم مکہ اورحرم مدینہ کے علاوہ کوئي حرم نہيں ہے اورطائف میں ایک وادی جسکا نام ( وج ) ہے کے بارہ میں علماء کرام کا اختلاف ہےکہ آیا یہ حرم ہے کہ نہيں ؟
شیخ الاسلام نے مجموع الفتاوی میں کہا ہے کہ :
بیت المقدس ایسی جگہ نہيں کہ جسے حرم کانام دیا جائے اورنہ ہی الخلیل کی زمین اورنہ ہی اس کےعلاوہ کوئي اورٹکڑا حرم کہلاتا ہے صرف تین جگہیں ایسی ہیں جوحرم کہلاتی ہیں :
ان میں سے ایک تومسلمانوں کے اتفاق کے مطابق حرم ہے اوروہ حرم مکہ ہے جسے اللہ تعالی نے شرف ومرتبہ سے نوازا ہے ۔
دوم : جمہورعلماء کرام کے ہاں حرم ہے اوروہ حرم نبوی ( یعنی مدینہ النبویہ ) ہے یہ جمہور علماء کرام جن میں امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد شامل ہیں کے ہاں حرم ہے ، اوراس کے بارہ میں صحیح احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ۔
سوم : وج یہ طائف میں ایک وادی کانام ہے ، اوراس میں ایک حدیث بیان کی جاتی ہے جسے امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے روایت کیا ہے اوریہ حدیث صحاح میں نہيں ، امام شافعی رحمہ اللہ کے ہاں اس حدیث کے صحیح ہونے کےاعتقاد کی بنا پریہ جگہ حرم شمارہوتا ہے ، لیکن اکثر علماء کرام کے ہاں یہ حرم نہيں ہے ، کیونکہ حرم وہ ہے جس کے شکار اورجڑی بوٹیوں کواللہ تعالی نے حرام کیا ہے ، اوران تین جگہوں کے علاوہ کسی اورجگہ کے شکار اورجڑی بوٹیوں کوحرم نہيں کیا ہے اھـ
دیکھیں : مجموع الفتاوی الکبری ( 27 / 14 - 15 ) ۔
واللہ اعلم .