اپنی زبان منتخب کریں

جمعرات، 8 دسمبر، 2016

اصول ایمان كے موضوع پر ایک لیكچر)ابن باز)

السلام علیکم .  اپ کی خدمت میں ابن کی فتاوی
اصول ایمان كے موضوع پر ایک لیكچر
سب تعریفیں اللہ تعالى کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے ، اور درود و سلام ہو اس کے بندے اور اس کے رسول اور اس کی مخلوقات میں سب سے افضل ترین ہستی اور اس کی وحی کے امین ہمارے نبي اور ہمارے إمام حضرت محمد بن عبد الله صلی اللہ علیہ وسلم پر، اور ان کی اولاد اور ان کے صحابہ کرام پر، اور ان پر بھی روز قیامت تک درود و سلام ہو جو ان کی راہ پر چلتے ہیں اور ان کے طریقے کو اپناتے ہیں۔ حمد و سلام کے بعد...
برادران كرام: آج میرا موضوع سخن اصول ايمان ہے ، اس موضوع کو یونیورسٹی نے منتخب کیا اور میں نے اسے منظور کیا ، کیونکہ یہ موضوع بہت اہمیت کا حامل ہے، اس لئے کہ ہمارے دین کا دارومدار ان ہی اصولوں پر ہے، اور یہی امت کی کامیابی کے راز ہیں اور یہی ان کی خوش بختی کے سرچشمہ ہیں اوراسی ميں ان کے چین و سکون اور ان کی ترقی اور ساری قوموں پر ان کی بالادستی کا راز پنہا ہے، شرط یہ ہے کہ وہ انہیں اپنے اقوال و افعال، گفتار و کردار، جہاد اور لین دین وغیرہ میں عملی جامہ پہنادیں.
قرآن کریم نے ان اصولوں کو بہت ساری آیتوں میں واضح کيا ہے، اسی طرح ہمارے نبي عليه الصلاة والسلام نے بھی بہت ساری آیتوں اور احادیث مبارکہ کے ذریعہ روز روشن کی طرح عياں کيا ہے. اور یہ چھ اصول ہیں، یہي ايمان کے أصول ہیں اور یہی دين کی بنیاد ہیں، کیونکہ سارا کا سارا دین تو ایمان میں ہے اور وہی اسلام ہے، اور اسلام نام ہے راہ ہدایت اور نیکی اور تقوی کا۔ اور نیکی اور تقوی تو اسی میں پنہاں ہیں جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے مفید علم اور نیک عمل کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ ان ساری باتوں کا نام ايمان ہے، یہ ہمارے دین کے چھ اصول ہیں جنھیں قران مجید نے کئی مقامات پر واضح فرمایا ہے اور اور اللہ تعالی کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی احادیث مبارکہ میں واضح فرمایا ہے ، اللہ سبحانه و تعالی کے کلام مبارک جو وارد ہوا ہے ان میں سے چند آیات یہ ہیں:   ﺳﺎﺭﯼ ﺍﭼﮭﺎﺋﯽ ﻣﺸﺮﻕ ﻭﻣﻐﺮﺏ ﻛﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﻨﮧ ﻛﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﻜﮧ ﺣﻘﯿﻘﺘﺎﹰ ﺍﭼﮭﺎ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﭘﺮ، ﻗﯿﺎﻣﺖ ﻛﮯ ﺩﻥ ﭘﺮ، ﻓﺮﺷﺘﻮﮞ ﭘﺮ، ﻛﺘﺎﺏ ﺍﹴ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﻧﺒﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺭﻛﮭﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﻮ
( جلد کا نمبر 3، صفحہ 16)
آيت ۔ اللہ سبحانه وتعالى نے یہاں ایمان کے پانچ اصولوں کا تذکرہ فرمایا ہے: اور وہ ہيں: الله پر ايمان، قیامت کے دن پر ایمان، فرشتوں پر ایمان، اللہ کی كتابوں پر ایمان اور انبیاء کرام پر ایمان، یہ پانچ اصول ہیں جنکے ظاہر و باطن پر دین کا دارومدار ہے، اور اللہ عزوجل نے فرمایا   ﺭﺳﻮﻝ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﯾﺎ ﺍﺱ ﭼﯿﺰ ﭘﺮ ﺟﻮ ﺍﺱ ﻛﯽ ﻃﺮﻑ ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﻛﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﺍﺗﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﻣﻦ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﺋﮯ، ﯾﮧ ﺳﺐ ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﮯ ﻓﺮﺷﺘﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﯽ ﻛﺘﺎﺑﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺭﺳﻮﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﺋﮯ، ﺍﺱ ﻛﮯ ﺭﺳﻮﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻛﺴﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺗﻔﺮﯾﻖ ﻧﮩﯿﮟ ﻛﺮﺗﮯ، آيت
Www.mominsalafi.blogspot.com
اللہ سبحانہ وتعالى نے اس فرمان میں چار اصولوں کو بیان فرمایا:   ﯾﮧ ﺳﺐ ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﮯ ﻓﺮﺷﺘﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﯽ ﻛﺘﺎﺑﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﮯﺭﺳﻮﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﺋﮯ لیکن اس میں روز آخرت کا تذکرہ نہیں ہے، البتہ سابقہ آیت میں اور دیگر کئی آیتوں میں اس کا تذکرہ بھی موجود ہے، اور یہ اللہ سبحانہ و تعالی کا اپنی کتاب میں طریقہ ہے کہ اپنے بارے میں اور اپنے اسماء و صفات کے متعلق معلومات کو الگ الگ انداز میں بیان فرماتا ہے، اور اس دين کے اصول نیز روز قیامت کے احوال ، جنت و دوزخ کے بارے میں اور رسولوں اور انکی قوموں کے بیان میں بھی اسی اسلوب کو ملحوظ رکھا گیا ہے، تاکہ پڑھنے والا کتاب اللہ میں ہر ہر جگہ ایسی بات پالے جس سے اسکا علم و ایمان مستحکم ہو، اور اس لئے بھی کہ کلام اللہ میں ہر جگہ اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ہر حدیث شریف سے زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرسکے، بہرحال اللہ تعالی نے روز آخرت کی طرف اس آیت مبارکہ کے آخر میں اپنے اس ارشاد پاک کے ذریعہ اشارہ فرمایا ہے:   ﮨﻢ ﺗﯿﺮﯼ ﺑﺨﺸﺶ ﻃﻠﺐ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﮮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺭﺏ ! ﺍﻭﺭ ﮨﻤﯿﮟ ﺗﯿﺮﯼ ﮨﯽ ﻃﺮﻑ ﻟﻮﭨﻨﺎ ﮨﮯ، اور الله تعالى نے فرمايا   ﺍﮮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﻮ ! ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﭘﺮ، ﺍﺱ ﻛﮯ ﺭﺳﻮﻝ ( ﹲ ) ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﺘﺎﺏ ﭘﺮ ﺟﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺳﻮﻝ ( ﹲ ) ﭘﺮ ﺍﺗﺎﺭﯼ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻛﺘﺎﺑﻮﮞ ﭘﺮ ﺟﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻧﺎﺯﻝ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﮨﯿﮟ، ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻؤ ! ﺟﻮ ﺷﺨﺺ ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﮯ ﻓﺮﺷﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﯽ ﻛﺘﺎﺑﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺭﺳﻮﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﻛﮯ ﺩﻥ ﺳﮯ ﻛﻔﺮ ﻛﺮﮮ ﻭﮦ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﺩﻭﺭ ﻛﯽ ﮔﻤﺮﺍﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﭘﮍﺍ
( جلد کا نمبر 3، صفحہ 17)
اللہ تبارک و تعالی نے اس آیت کریمہ میں بیان فرمایا کہ ان اصولوں کا انکار حقیقت میں راہ ہدایت سے واضح گمراہی ہے، اور اس معنى ميں آيات بہت زياده ہيں، بعض مقامات پر اللہ سبحانه وتعالی نے صرف ايمان بالله کو ذکر کیا ہے اس کی حکمت یہ ہے کہ دوسری آیتوں میں ذکر کردہ سارے اصول ایمان باللہ میں شامل ہیں، اس لئے کسی کسی آیت میں ایمان باللہ اور ایمان بالرسول کا تذکرہ آیا، اور کہیں کہیں ایمان باللہ کے ساتھ صرف ایمان بالآخر کا ذکر وارد ہوا، اس لئے جب ايمان بالله کا ذكر ہوگا تو دوسری آیتوں میں ذکرکردہ ايمان بالملائكة، ايمان بالكتب ، ايمان بالرسل اور ايمان باليوم الآخر جیسے امور اس میں شامل ہونگے، اللہ تبارک وتعالی کا یہ ارشاد اسی قبيل سے ہے،   ﺍﮮﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﻮ ! ﺍللہﺗﻌﺎلی ﭘﺮ، ﺍﺱ ﻛﮯ ﺭﺳﻮﻝ ( صلی اللہ علیہ وسلم) ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﺘﺎﺏ ﭘﺮ ﺟﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﭘﺮ ﺍﺗﺎﺭﯼ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻛﺘﺎﺑﻮﮞ ﭘﺮ ﺟﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻧﺎﺯﻝ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﮨﯿﮟ یہاں صرف ايمان بالله ، اس کے رسول پر ایمان اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ کتاب اور ان سے قبل نازل کردہ کتابوں پرایمان کو ذکر کیا گیا ہے، اور دیگر اصولوں کا تذکرہ نہیں کیا گیا؛ کیونکہ وہ خود بخود ایمان باللہ میں شامل ہیں، اسی طرح اللہ تعالی کا یہ ارشاد بھی اسی قسم سے ہے:   ﺳﻮ ﺗﻢ ﺍللہ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﻮﺭ ﭘﺮ ﺟﺴﮯ ﮨﻢ ﻧﮯ ﻧﺎﺯﻝ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻو اس میں ايمان بالله اور ایمان بالرسول کا ذکر آیا اور اس نور پر ایمان لانے کا تذکرہ ہوا جو حضرت محمد صلى الله عليه وسلم پر نازل کیا گیا اور وہ نور كتاب وسنت ہيں، اور یہ اس لئے کہ باقی اس میں شامل ہیں پس کتاب و سنت اس نور ميں داخل ہيں، اسی طرح الله اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ماضی اور مستقبل کی جو خبریں دی ہیں وہ سب کے سب نور کے مفہوم میں داخل ہیں. اسی طرح اللہ کا يہ قول بھی ہے:   ﺍﹴ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻟﮯ ﺁ﯃ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺧﺮﭺ ﻛﺮﻭ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﹴ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ( ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﰷ ) ﺟﺎﻧﺸﯿﻦ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﭘﺲ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺟﻮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺧﯿﺮﺍﺕ ﻛﺮﯾﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﺍ ﺛﻮﺍﺏ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ۔ یہاں صرف ايمان بالله اور ایمان بالرسول کا تذکرہ ہوا اور یہ صرف اس لئے کہ باقی ارکان ايمان بالله اور ایمان بالرسول میں خود بخود شامل ہیں۔
( جلد کا نمبر 3، صفحہ 18)
اور رسول الله صلى الله عليه وسلم کی حديث پاک میں وارد ہے، جو حدیث جبريل سے معروف ہے، کہ جب نبي کریم عليه الصلاة والسلام سے اسلام اور ايمان اور احسان کے بارے میں پوچھا گيا، تو آپ نے سب سے پہلے اسلام کا ذکر کيا، اور ایک روایت کے مطابق سب سے پہلے ايمان کا تذکرہ فرمایا اس کے بعد اسلام اور پھر احسان کا ذکر کيا، مطلب یہ ہے کہ پہلے ايمان کو ذکر فرمایا جس سے باطن درست ہوتا ہے، کیونکہ باطن ہی بنیاد ہے، اور ظاهر تو باطن کے ہی تابع ہے اس لئے ظاهری اعمال کو اسلام کا نام دیا گیا؛ کیونکہ اسلام کا معنی ہی فرماںبرداری اور اللہ سبحانہ و تعالی کی بارگاہ میں سر تسلیم خم کرنا ہے، اور اسلام اپنے آپ کو حوالہ کرنے اور اللہ کے حکم کی تابعداری کرنے کو کہتے ہیں، الغرض الله سبحانه وتعالى نے امور ظاهرہ کو إسلام کا نام دیا؛ کیونکہ اس میں اللہ تعالی کی فرمانبرداری اور اس کی بارگاہ میں جھکنے اور اس کے احکام کی پابندی اور اللہ کی طرف سے متعین کردہ حدود کی پابندی کا معنی پایا جاتا ہے۔ عربی زبان میں کہاوت ہے أسلم فلان لفلان یعنی فلاں نے فلاں کی بات مان لی، اور أسلمت لله کا معنى ہے میں نے اللہ تعالی کے سامنے سر تسلیم خم کردیا ، اور میں اس کے سامنے جھک گیا اور میں نے اس کے حکم کو نافذ کردیا اور اللہ سبحانه وتعالى کے لئے اپنے آپ کو جھکا دیا۔
لہٰذا اسلام نام ہے ظاہری اعمال کے ذریعہ الله تعالی کی بارگاہ میں سر تسلیم خم کرنے کا، اور ایمان نام ہے باطنی امور کی تصدیق کرنے کا، اور ظاہری امور وہی ہیں جو شریعت مطہرہ میں وارد ہیں اور سب معنی اس وقت ہے جب دونوں باہم ایک دوسرے کے ساتھ ذکر کئے جائیں، اس لئے جب حضرت رسول الله عليه الصلاة والسلام نے اس صحیح حدیث پاک میں دونوں کو جمع فرمایا، تو اسلام کو ظاهری امور سے تعبیر فرمایا، اور وہ ہیں شهادتین (یعنی دونوں گواہیاں) اور نماز، زکاۃ، روزہ اور حج، جبکہ ايمان کو باطنی امور کے ساتھ خاص فرمایا اور وه ہے اللہ سبحانہ و تعالی اور اس کے فرشتوں وغیرہ پر ایمان لانا .
اور اسی قسم سے ہے جو صحیح حدیث شریف میں وارد ہے ، کہا گیا  اے اللہ کے رسول کون سے اعمال سب سے افضل ہیں آپ نے فرمایا یہ کہ کھانا کھلانا، اور ہر اس شخص کو سلام کرنا جسے تم پہچانتے ہو یا نہ پہچانتے ہو۔ اور ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ: کونسا اسلام افضل ہے آپ نے فرمایا :وہ شخص جسکی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہيں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلام ان ظاہری امور کے ساتھ خاص ہے جن سے اللہ تعالی کی فرماںبرداری، اس کے حکم کی بجا آوری، اس کی شریعت کی پابندی، اور اس سے ہر ہر بات میں حاکم مطلق کو ماننے کا مفہوم عیاں ہوتا ہے، جبکہ ايمان ایسی باتوں کے ساتھ خاص ہے جن کا تعلق دل سے ہے جیسے اللہ تعالی اور اسکے فرشتوں، اس کی کتابوں، آخرت اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لانا ۔ اس لئے جب حضرت نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے ایمان کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے عرض کیا یہ کہ تم اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور آخرت کے دن پر ایمان اور اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کی تفسیر میں ان چھ ایمان کی بنیادی باتوں کا تذکرہ فرمایا، اور یہی دین اسلام کے بھی اصول ہیں؛ اس لئے کہ جسے ایمان نصیب نہیں اسے اسلام بھی حاصل نہیں ہے، اور جسے اسلام نصیب نہیں اسے ایمان بھی نصیب نہیں ، لہذا اسلام کی درستگی کے لئے ان چھ اصولوں پر ایمان لانا ضروری ہے، لیکن یہ کبھی مکمل بھی ہوسکتا ہے اور کبھی ناقص بھی، چنانچہ اللہ تبارک و تعالی نے عرب کے دیہاتیوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:   ﺩﯾﮩﺎﺗﯽ ﻟﻮﮒ ﻛﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻛﮧ ﮨﻢ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﺋﮯ۔ ﺁﭖ ﻛﮩﮧ ﺩﯾﺠﺌﮯ ﻛﮧ ﺩﺭﺣﻘﯿﻘﺖ ﺗﻢ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﻻﺋﮯﻟﯿﻜﻦ ﺗﻢ ﯾﻮﮞ ﻛﮩﻮ ﻛﮧ ﮨﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﻻﺋﮯ
( جلد کا نمبر 3، صفحہ 19)
جب ان کا ایمان کامل نہیں ہوا، بلکہ ناقص إيمان ہوا، کیونکہ ان لوگوں نے ايمان کے تمام واجبات کو شامل نہیں کرپائے، لہٰذا اللہ تعالی نے ان سے ایمان کی نفی فرمادی، یعنی ایمان کامل کی نفی فرمایا؛ کیونکہ یہ نفی اس سے وابستہ ہے جس نے کچھ واجبات کو چھوڑدیا ہو، جیساکہ حضرت نبي کریم صلى الله عليه وسلم کے ارشاد مبارک میں ہے: اس شخص كا ايمان نہيں جو صبر نہیں کرسکا۔ اور آپ صلى الله عليه وسلم كا قول کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا ، جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہو۔ نیز حضرت نبي کریم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے:  جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن ایمان لاتا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے، اور جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن ایمان لاتا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ مہمان کی تکريم کرے، اور جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن ایمان لاتا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے، اور جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن ایمان لاتا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔ اسکے علاوہ ديگر احادیث۔ مقصود يہ کہ ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ ظاہری عمل بھی ہو، اور ایمان کے بغیر اسلام تو منافقوں کا کام ہے؛ لہٰذا کامل اور واجبی ایمان ہمیشہ اللہ اور رسول کے احکام کی پابندی کا تقاضہ کرتا ہے، اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے منع کردہ چیزوں سے اجتناب کا مطالبہ کرتا ہے، پس ایمان کامل کا مقتضی ہے کہ ظاہری عمل بھی ہو، اگر اس میں کوتاہی یوحائے، تو اس سے ایمان کی نفی جائز ہے؛ کیونکہ ایمان میں کوتاہی ہوئی ہے، جیساکہ ان دیہاتیوں سے اللہ نے ایمان کی نفی فرمائی ، ارشاد باری تعالى ہے:   ﺩﯾﮩﺎﺗﯽ ﻟﻮﮒ ﻛﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻛﮧ ﮨﻢ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﺋﮯ۔ ﺁﭖ ﻛﮩﮧ ﺩﯾﺠﺌﮯ ﻛﮧ ﺩﺭﺣﻘﯿﻘﺖ ﺗﻢ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﻻﺋﮯﻟﯿﻜﻦ ﺗﻢ ﯾﻮﮞ ﻛﮩﻮ ﻛﮧ ﮨﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﻻﺋﮯ اور جیساکہ مذکورہ بالا احادیث مبارکہ میں ذکر کردہ لوگوں سے ایمان کی نفی کی گئی ہے۔
( جلد کا نمبر 3، صفحہ 20)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں سے ایمان کی نفی فرمائی ہے جنہوں نے واجبات ایمان میں سے کچھ باتوں کو ترک کیا اور ان کے لئے اسلام کو ثابت کیا ہے، بہرحال یہ چھ اصول پورے دین کی بنیاد ہیں۔ جس نے بھی انہیں مکمل کیا اور ساتھ ہی ظاہری اعمال کو بھی بجا لايا تو وہ مؤمن اور مسلم دونوں ہوگیا، اور جس نے انہیں مکمل نہیں کیا تو اسے نہ ایمان حاصل ہے اور نہ اسلام، اور وہ منافقین کی طرح ہوا کیونکہ انہوں نے اسلام کا اظہار کیا تھا اور ایمان کا بھی دعوی کیا تھا، اور لوگوں کے ساتھ نماز بھی پڑھی تھی، اور لوگوں کے ساتھ حج بھی کیا تھا، بلکہ لوگوں کے ساتھ جہاد میں بھی گئے تھے، اور دیگر اسلامی اعمال انجام دئیے تھے. لیکن وہ باطن میں مسلمانوں کے ساتھ نہیں تھے اور وہ ايک طرف تھے تو مسلمان دوسری طرف۔ وہ تو در پردہ اللہ اور اس کے رسول کو جھوٹا سمجھتے تھے، اور رسولوں کے لائے ہوئے پیغام کے منکر تھے، ہاں فوری مصلحتوں کے پیش نظر اور جانے پہچانے مقاصد کے تحت اسلام کی نمائش کرتے تھے، چنانچہ اسی لئے اللہ تعالی نے ان کے دعووں کی تکذیب فرمائی، اور وہ گمراہ کافر قرار پائے، بلکہ علانیہ کافروں سے کفر اور شرارت میں چار ہاتھ آگے نکلے، اسی وجہ سے ان کا ٹھکانہ جہنم کا سب سے نچلا طبقہ قرار پایا، اور یہ اس لئے کہ اس کا خطرہ نہایت ہی نقصان دہ ہے کیونکہ ایک مسلمان اسے اپنے بھائیوں میں سمجھے گا، اور ہم مشرب باور کریگا اور کچھ راز بھی اسے بتا دے گا، اور وہ غداری کرکے مسلمانوں کو نقصان پہنچا ۓ گا، اس لئے اس کا کفر زیادہ خطرناک اور زیادہ نقصان دہ ہے. اور یہی حال ان لوگوں کا ہے جو ان اصولوں پر ایمان کا دعوی تو کرتے ہیں لیکن اسلام کے ظاہری احکام پر عمل نہیں کرتے ہیں، لہذا ایسے شخص نے در حقیقت اللہ کی وحدانیت اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم ہی نہیں کیا، یا نماز ہی نہیں پڑھی، اور روزہ نہیں رکھا یا زکاۃ ادا نہیں کی ، اور حج نہیں کیا یا اسلام کے دیگر ظاہری مذہبی اعمال کو ترک کیا جنھیں اللہ تعالی نے اس پر فرض کیا ہے، تو یہ اس کی بے ایمانی یا کمزورئ ایمان کی نشانی ہے، اور کبھی کبھی بالكلية ایمان اٹھ جاتا ہے، جیساکہ ترک شهادتين کی صورت میں إجماعی طور پر ایمان اٹھ جاتا ہے، اور کبھی کبھی اصل ایمان تو نہیں ختم ہوتا ہے، لیکن کمال و پختگی ختم ہوجاتی ہے، اور وہ اس وقت ہوتا ہے جب فرض عین وغیرہ کی ادائیگی نہ کرے، جیسے روزہ، نماز اور قدرت کے باوجود حج اور زکاۃ وغیرہ نہ ادا کرنے کی صورت میں ہے، اور یہ جمہور اہل علم کے نزدیک ہے، کیونکہ ان کا ترک گمراہی اور فسق ہے، لیکن اکثر حضرات کے نزدیک ارتداد نہیں ہے، بشرطیکہ ان کی فرضیت کا منکر نہ ہو، لیکن ایک گروہ کی رائے کے مطابق نماز کا ترک اسلام سے ارتداد ہے، اور یہی علماء کرام کے دو اقوال میں صحیح ترین قول ہے؛ کیونکہ اس پر بہت سارے دلائل ہیں، ان میں سے ایک آپ صلى الله عليه وسلم کا یہ ارشاد مبارک ہے: ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان جو عہد باندهنا گيا ہے وہ نماز ہے، لہذا جس نے نماز کو چھوڑ دیا وہ کافر ہوگیا۔ اس کی روایتامام احمد اور اصحابِ سنن نے حضرت بريدہ بن حصیب رضي الله عنه سے صحیح سند کے ساتھ کی ہے۔ لیکن دیگر حضرات کا کہنا ہے کہ یہ حقيقی کفر سے کمتر درجہ کا کفر ہے بشرطیکہ وہ اس کے وجوب کا منکر نہ ہو، واضح رہے کہ يہ ايک مستقل موضوع ہے اور اہل علم نے اس پر بحث و تحقيق کے ناحيہ سے بھر پور توجہ دی ہے، یہاں اتنا اشارہ کردینا کافی ہے کہ جسے ایمان نصیب نہیں اسے اسلام بھی نصیب نہیں ہے، اور جسے اسلام نصیب نہیں ہے اسے ایمان بھی نصیب نہیں ہے، وہ اس کی نشانی ہے، اور یہ اس کی نشانی ہے، اور یہ بات پہلے بیان کی جا چکی ہے کہ اسلام کو اسلام اس لئے کہتے ہیں کيونکہ وہ اللہ تبارک و تعالی کے لئے سر تسلیم خم کرنے اور اس کی بارگاہ میں عاجزی اور اس کی عظمت کے آگے سر جھکانے پر دلالت کرتا ہے، اور اس لئے بھی کہ اس کا تعلق ظاہری امور سے ہے.
( جلد کا نمبر 3، صفحہ 21)
اور ایمان کو ایمان اس لئے کہتے ہیں کیونکہ اس کا تعلق باطن سے ہے اور اسے تو اللہ تعالی ہی جانتا ہے، اسے ایمان کا نام دیا گیا کیونکہ اس کا تعلق تصدیق کرنے والے کے دل سے ہے، اور دلی تصدیق اور دلی ایمان کی درستگی کے لئے کچھ ظاہری نشانیاں ہیں، جب ایک تصدیق کرنے والے مسلمان سے وہ ظاہر ہوتی ہیں اور وہ ان پر ثابت قدم رہتا ہے اور ان کا حق ادا کر دیتا ہے تو وہ اس کے ایمان کی درستگی پر دلالت کرتی ہیں، اور اگر وہ اس پر ثابت قدم نہ ہو تو عدم ایمان یا کمزورئ ایمان پر دلالت کرتی ہیں، اور ایمان جب مطلق رکھا جائے تو اسلام اس میں داخل ہے اور اسی طرح اس کا برعکس معاملہ ہے، یہ مذہب أهل سنت وجماعت کا ہے جیساکہ الله عز وجل کا ارشاد ہے :   ﺑﮯ ﺷﻚﺍللہ ﺗﻌﺎﻟی ﻛﮯ ﻧﺰﺩﯾﻚ ﺩﯾﻦ ﺍﺳﻼﻡ ﮨﯽ ﮨﮯ۔ لہٰذا أهل سنت والجماعت کے نزدیک ایمان اس میں شامل ہے کیونکہ بغير ايمان کے کوئی اسلام نہیں ہوتا ہے، تو دین اللہ کے نزدیک اسلام ہے اور وہی ایمان ہے اور وہی ہدایت ہے اور وہی تقوی ہے اور وہی نیکی ہے. ان ناموں کے الفاظ اگرچہ جدا جدا ہیں، لیکن وہ سب ایک ہی معنی کی طرف لوٹتے ہیں اور وہ ہے اللہ تعالی اور اس کے رسولوں پر اللہ کی رہنمائی کے مطابق ایمان لانا اور اللہ کے دین پر ثابت قدم ہونا، ان سب کو کبھی بر (نیکی) اور کبھی اسلام اور کبھی ایمان اور کبھی تقوی اور کبھی ہدایت کہا جاتا ہے، اسی طرح اگر لفظ احسان کو مطلق رکھا جائے تو اس میں دونوں باتیں یعنی اسلام اور ایمان شامل ہونگے؛ کیونکہ یہ اللہ کے کامل ترین بندوں کا وصف ہے؛ لہٰذا اگر احسان مطلق ہو، تو اس میں پہلے والی دونوں باتیں یعنی اسلام اور ایمان شامل ہونگے، اور ان تینوں میں سے کوئی بھی مطلق رکھا جائے تو اس کے دونوں شریک اس میں شامل ہونگے، لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ محسنین الله تعالی کے نہایت خاص بندے ہیں، تو احسان اسلام و ایمان کے بغیر نہیں ہوگا، ارشاد باری تعالی ہے :   ﺍﻭﺭ خوب نيك عمل كرتے ہوں،الله ايسے نيکو كاروں سے محبت ركهتا ہےاور الله سبحانه وتعالى نے فرمايا ہے   ﯾﻘﯿﻦ ﻣﺎﻧﻮ ﻛﮧ ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﭘﺮﮨﯿﺰﮔﺎﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﻚ ﰷﺭﻭﮞ ﻛﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﮯ الغرض محسن تو جبھی ہوگا جب اس کے پاس ایمان و اسلام ہوگا، اور تقوی، شعائرِ اسلام اور اللہ کے حکم کا پابند ہوگا، اسی کی وجہ سے اسے محسن کہا گیا ہے، إسلام وإيمان کے بغیر تو صاحب احسان کا تصور ہی نہیں ہوسکتا ہے۔
برادرانِ عزیز ! اس طرح یہ بات واضح ہوگئی کہ لفظ مومنین میں مسلمین شامل ہونگے، میرا مطلب یہ ہے کہ مومنین کا لفظ مسلمین کے لفظ کے مقابلے میں زیادہ خصوصیت کا حامل ہے، الله تعالى نے فرمايا ہے   ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻛﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﮯ ۔ اور الله تعالى کا ارشاد ہے :   ﺍﻥ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺩﺍﺭ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﹴ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺟﻨﺘﻮﮞ ﰷ ﻭﻋﺪﮦ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﺟﻦ ﻛﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﻧﮩﺮﯾﮟ ﻟﮩﺮﯾﮟ ﻟﮯ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ آيت ۔
( جلد کا نمبر 3، صفحہ 22)
مؤمن کو مؤمن اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے دل سے تصدیق کیا، اور اپنے اعضاء و جوارح کو اللہ وحدہ لا شریک کی اطاعت میں لگا دیا، لہٰذا مؤمنین اس لئے مومنین کہے جاتے ہیں کیونکہ وہ الله کی تصدیق کرتے ہیں اور اپنے آپ کو اس کے حوالے کرتے ہیں اور اس کے احکام بجا لاتے ہیں اور اللہ سبحانه وتعالى کے متعین کردہ حدود کے پابند رہتے ہیں، اس مفہوم کی تائید حضرت سعد بن ابی وقاص رضي الله عنه کی اس روایت سے ہوتی ہے  حضرت نبي کریم صلى الله عليه وسلم سے حضرت سعد نے پوچھا اس وقت جب حضرت نبي کریم صلى الله عليه وسلم نے کچھ لوگوں کو مال دیا اور کچھ لوگوں کو نہیں دیا : يا رسول الله ! آپ نے فلاں اور فلاں کو دیا، جبکہ فلاں کو آپ نے کچھ نہیں دیا اور میں تو اسے مؤمن سمجھتا ہوں، تو حضرت نبي کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: بلکہ مسلم کہو، تو حضرت سعد نے اپنی بات کو واپس لے ليا اور حضرت نبي کریم عليه الصلاة والسلام نے فرمایا کہ مسلم کہو۔ الغرض اسلام اور ايمان جب ایک ہی جگہ جمع ہوں تو ان کے الگ الگ معنی ہونگے، معنى خاص ومعنى عام، لہٰذا لفظ مسلم لفظ مؤمن کے مقابلہ میں زیادہ عمومی معنی کا حامل ہے، اور لفظ مؤمن لفظ مسلم کے مقابلہ میں زیادہ خاص ہے، لہذا ہر مؤمن مسلم ہے لیکن اس کا عکس نہیں، لیكن مطلق ذکر کئے جانے کے وقت ایک دوسرے میں شامل ہونگے جیساکہ بیان ہو چکا ہے .
اس کی تائید آپ صلى الله عليه وسلم کے اس ارشاد مبارک سے بھی ہوتی ہے : ایمان کے ستر سے زائد شعبے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ ایمان کی ساٹھ سے زائد شعبے ہیں، انميں سب سے افضل لا الہ الا اﷲ کا کہنا ہے اور سب سے كم تر درجہ تکلیف دہ چیز کو راستے سے دور کر دینا ہے، اور حیاء ایمان کا ایک شعبہ ہے۔ متفق عليہ ۔ اس حديث پاک میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ مطلق ايمان میں اسلام، ہدایت ، احسان، تقوی اور نیکی داخل ہے؛ اس لئے ايمان کا أعلی درجہ لا إله إلاّ الله پڑھنا ہے اور اس کا ادنی درجہ راہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے اور یہی ہمارا پورا دین ہے، اور یہی اسلام ہے اور یہی ايمان ہے۔ اس لئے ارشاد ہے : ان سب سے افضل لا الہ الا اللہ کہنا ہے
( جلد کا نمبر 3، صفحہ 23)
اور یہ تو معلوم ہے کہ لا اله الاّ الله محمد رسول الله اركان اسلام کا اولین ركن ہے، اس لئے یہاں اسے ایمان کے اعلی ترین اوصاف میں شمار کیا، اس سے پتہ چلا کہ ایمان کو مطلق رکھنے کی صورت میں اسلام اپنے تمام ترین ارکان و اعمال کے ساتھ اس میں شامل ہوگا، اسی طرح اگر صرف ايمان بالله کا اطلاق کیا جائے، یا صرف ايمان بالله اور ایمان بالرسول کا اطلاق کیا جائے، تو بھی اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے متعین کردہ سارے احکامات شامل ہونگے، جیسے نماز، روزہ، حج، فرشتوں پر ایمان، كتاب اللہ پر ایمان، نبيوں پر ایمان، آخرت پر ایمان اور اچھی بری تقدیر پر ایمان، یہ سب کے سب ايمان بالله کے مفہوم میں شامل ہونگے، کیونکہ ايمان بالله میں اس کے اسماء و صفات اور اس کے وجود پر ايمان خود بخود شامل ہے اس میں یہ ایمان بھی شامل ہے کہ اللہ سارے جہانوں کا رب ہے اور وہی عبادت کا حق دار ہے، اسی طرح اس میں اللہ سبحانه وتعالى کی خبر دی ہوئی ساری باتوں پرايمان اور اپنے بندوں کے لئے مقرر کردہ سارے احکام پر ایمان بھی شامل ہے، نیز اس میں سارے رسولوں اور سارے فرشتوں اور ساری آسمانی کتابوں اور سارے انبیاءِ کرام پر ایمان اور جو جو خبر بھی اللہ و رسول صلى الله عليه وسلم نے دی ہے وہ سب لفظ ایمان میں شامل ہیں۔
اسی طرح جو بھی حدیث شریف میں اس بارے میں وارد ہے وہ بھی اس میں شامل ہے چنانچہ آپ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے:  تم کہو کہ میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر ثابت قدم رہو۔ اس میں وہ ساری باتیں شامل ہونگی جو اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے اور جو احکام شریعت میں مقرر کئے گئے ہیں، اس بارے میں اللہ تعالى کا ارشاد ہے:   ( ﻭﺍﻗﻌﯽ ) ﺟﻦ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﻛﮩﺎ ﻛﮧ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﭘﺮﻭﺭﺩﮔﺎﺭ ﺍللہ ﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﺍﺳﯽ ﭘﺮ ﻗﺎﺋﻢ ﺭﮨﮯ یعنی جنہوں نے یہ کہا کہ ہمارا معبود، ہمارا خالق، ہمارا رازق الله تعالی ہی ہے، اور اس پر اس طرح ایمان لائے جو كتاب الله وسنت رسول اللہ عليه الصلاة والسلام میں وارد ہے، اور اس پر ثبات قدمی کو بھی شامل ہے، قرآن كريم میں الله سبحانه وتعالى کا طریقہ یہ ہے کہ خبروں اور قصوں کو کہیں کہیں تفصیل سے بیان فرماتا ہے، اور کہیں کہیں انہیں مختصر انداز میں بیان فرماتا ہے؛ تاکہ ایک مؤمن اور طالب علم ان معاني کو الله سبحانه و تعالی کی كتاب میں مجمل ومفصل دونوں طریقوں سے سمجھ سکے، اور اس کے بعد مقام اختصار اور مقام تفصیل و شرح کے ساتھ اس پر مشکل نہ ہونے پائے، کہ کیوں اس کا الگ معنی ہے اور اس کا ایک الگ معنی ہے.
اسی طرح ايمان کا کئی جگہ پر اطلاق ہوتا ہے، اور کبھی کبھی اسی کے اجزاء اور اقسام کا اس پر عطف بھی کیا جاتا ہے، اور یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ یہ اس کے اہم ترین اور عظیم ترین شعبے ہیں، جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے:   ﺑﮯ ﺷﻚ ﺟﻮ ﻟﻮﮒ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻛﮯ ﺳﺎﺗﮫ (ﺳﻨﺖ ﻛﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ) ﻧﯿﻚ کاﻡ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﻧﻤﺎﺯﻭﮞ ﻛﻮ ﻗﺎﺋﻢ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺯﻛٰﻮۃ ﺍﺩﺍ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ کا ﺍﺟﺮ ﺍﻥ ﻛﮯ ﺭﺏ ﺗﻌﺎلی ﻛﮯ ﭘﺎﺱ ﮨﮯ تو اللہ تعالی کا یہ ارشاد   وہ ﻧﻤﺎﺯﻭﮞ ﻛﻮ ﻗﺎﺋﻢ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺯﻛٰﻮۃ ﺍﺩﺍ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ يہ ايمان اور نیک عمل کا جزء ہے، لیکن یہاں اسے خاص طور پر اس لئے ذکر کیا گیا، تاکہ معلوم ہوجائے کہ ان دونوں باتوں کی شان نہایت ہی عظیم تر ہے، اسی طرح الله تعالى كا یہ فرمان مبارک:   ﺳﻮ ﺗﻢ ﺍللہ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﻮﺭ ﭘﺮ ﺟﺴﮯ ﮨﻢ ﻧﮯ ﻧﺎﺯﻝ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻو
( جلد کا نمبر 3، صفحہ 2
آکر اپ کچہ اور موضوعات پھڑنا چھاتے
Www.mominsalaci.bligspot.com
Www.salafimomin.blogspot.com
Www.mominsalafi.worpress.com

عورت کا سفر۔

سوال: عورت کا۔ سفر۔ 


الحمد للہ:
متعدد فتاوی میں ہم یہ بات ثابت کر چکے ہیں کہ عورت کیلیے بغیر محرم کے سفر کرنا جائز نہیں ہے، چاہے یہ سفر عبادت یعنی حج یا عمرے کیلیے اور والدین سے ملنے کیلیے ہو یا ان کے علاوہ دیگر جائز مقاصد کیلیے ہو۔
اس بات پر نصوص اور قیاس واضح طور پر دلالت کرتے ہیں:
1-             نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (عورت صرف اپنے محرم کے ساتھ ہی سفر کرے، عورت کے پاس اجنبی شخص اسی وقت جائے جب اس کے ساتھ محرم ہو) تو ایک آدمی نے  عرض کیا: "اللہ کے رسول! میں فلاں فلاں معرکے کیلیے جانا چاہتا ہوں اور دوسری جانب میری بیوی حج پر جانا چاہتی ہے" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم اپنی بیوی کے ساتھ جاؤ)
بخاری: (1862) مسلم: (1339)
ایک اور حدیث میں ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والی خاتون  کیلیے جائز نہیں ہے کہ وہ ایک دن  کی مسافت محرم  کے بغیر کرے)
اس بارے میں اور بھی بہت سی روایات مروی ہیں جن میں عورت کو بغیر محرم کے سفر سے روکا گیا ہے، اور ان تمام احادیث میں سفر کی تمام اقسام آتی ہیں۔
2-             اور چونکہ سفر تھکاوٹ اور مشقت کا باعث ہوتا ہے، اور عورت اپنی جسمانی کمزوری کے باعث ایسے سہارے کی محتاج ہوتی ہے جو اس کے برابر کھڑا ہو اور اس کی مدد کرے، کبھی ایسا بھی ممکن ہے کہ عورت فوری ضرورت پڑنے پر درست فیصلہ نہ کر پائے اور محرم کی عدم موجودگی میں غیر معمولی صورت حال پیدا ہو جائے ، جیسے کہ یہ چیز ٹریفک اور دیگر ذرائع سفر کے حادثات میں عام ہے۔
اسی طرح عورت اکیلے سفر کرے تو یہ آج کل کی گرتی ہوئی اخلاقی صورت حال میں خواتین کو فتنوں اور گناہوں کے درپے  کرنے کے مترادف ہے، تو ایسا ممکن ہے کہ عورت کے ساتھ ایسا شخص بیٹھ جائے جو اللہ کا ڈر اور خوف دل میں نہ رکھتا ہو اور لڑکی کو حرام کام خوشنما بنا کر دکھائے؛ اس لیے حکمت  کا تقاضا یہ ہے کہ خواتین محرم کے ساتھ سفر کریں؛ کیونکہ محرم  کے ساتھ سفر کرنے کا مقصد عورت کو تحفظ دینا اور کسی بھی منفی اثرات سے بچانا اور عورت کی دیکھ بھال ہے، نیز سفر چھوٹا ہو یا لمبا دورانِ سفر ناگہانی صورت حال پیدا ہونے کا خدشہ بہت ہی قوی ہوتا ہے۔
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"خلاصہ یہ ہے کہ: جس بھی سفر کہا جائے گا اس سے عورت کو  بغیر خاوند یا محرم کے سفر کرنے سے روکا جائے گا" انتہی
متعدد اہل علم نے فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق نقل کیا ہے کہ عورت کیلیے محرم کے بغیر سفر کرنا منع ہے، ما سوائے چند مسائل کے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام بغوی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "عورت فرائض کی ادائیگی [مثلاً: فرض حج] کیلیے کئے جانے والے سفر کے علاوہ کسی بھی سفر کیلیے محرم یا خاوند کے ساتھ سفر کرے گی، اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، البتہ کوئی غیر مسلم خاتون کسی دار الحرب میں  مسلمان ہو جائے یا ان کی قید سے آزاد ہو جائے تو وہ اکیلی سفر کر سکتی ہے"  اس پر دیگر اہل علم نے اضافہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ: اگر کوئی خاتون اپنے رفقا ءسے بچھڑ جائے اور اسے کوئی قابل اعتماد شخص  ملے تو وہ ان کے ساتھ اپنے رفقاء تک پہنچ سکتی ہے" انتہی
"فتح الباری" (4/76)
اور فرض  حج کی ادائیگی کیلیے عورت کا اکیلے بغیر محرم کے سفر کرنے پر علمائے کرام کا اختلاف ہے، چنانچہ علمائے کرام کے صحیح موقف کے مطابق عورت کیلیے یہ سفر بھی اکیلے کرنا جائز نہیں ہے۔
اس لیے اس مسئلے میں اصل یہی ہے کہ عورت بغیر محرم  کے سفر نہ کرے، اور پورے سفر میں محرم کا ساتھ رہنا لازمی ہے، چنانچہ یہ کافی نہیں ہو گا کہ خاوند  بیوی کو ائیر پورٹ تک پہنچا دے اور دوسرے ملک میں والد اسے لے لے ، لیکن جہاں اس چیز کی ضرورت ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ ضرورت ناجائز امور کو جائز بنا دیتی ہے۔
اس بنا پر اگر آپ کے دوست کی اہلیہ کیلیے فرانسیسی شہریت کا حصول  بہت سی پریشانیوں کے زائل ہونے کا سبب بن سکتا ہے لیکن اس کا محرم اس کے ساتھ سفر نہیں کر سکتا تو پھر اکیلی اسی انداز سے سفر کر سکتی ہے جیسے آپ نے ذکر کیا ہے، اسی طرح اس کیلیے فرانسیسی شہریت حاصل کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کسی عذر کی بنا پر عورت کیلیے جہاز میں اکیلے  سفر  کرنے کا کیا حکم ہے؟ کہ ایک محرم عورت کو جہاز پر بیٹھا دے گا اور دوسرا محرم ائیر پورٹ سے اسے لے لے گا"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر محرم کیلیے اس میں مشقت ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، چنانچہ اگر عورت کو سفر کی اشد ضرورت ہے اور کوئی محرم اس کے ساتھ جانے والا نہیں ہے تو  اس میں ممانعت نہیں ہے، بشرطیکہ ایک محرم اسے ائیر پورٹ تک پہنچائے اور جہاز میں سوار ہونے تک  اس کے ساتھ ہی رہے، پھر جہاں انہوں نے سفر کرنا ہے وہاں پر رابطہ کرے  اور اطمینان کر لے کہ اس کے محرم اسے لینے کیلیے ائیرپورٹ پر پہنچ رہے ہیں ، انہیں پہنچنے کا وقت اور فلائٹ نمبر بتلا دے؛ کیونکہ اشد ضرورت کے وقت احکام کچھ خاص ہوتے ہیں، واللہ اعلم، اللہ تعالی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی آل اور صحابہ کرام پر درود و سلام نازل فرمائے" انتہی
ماخوذ از: "فتاوى ابن جبرين"
مزید کیلیے www.mominsalafi.blogspot.com
واللہ اعلم.

پیر، 5 دسمبر، 2016

وطن كا دفاع كرتے ہوئے مر جائے تو وہ شہيد شمار ہو گا ؟

كيا اگر كوئى غير مسلم شخص اپنے وطن كا دفاع كرتے ہوئے مر جائے تو وہ شہيد شمار ہو گا ؟ 
الحمد للہ:
جو بھى فى سبيل اللہ قتل كر ديا جائے تو وہ شہيد ہے، اور ( فى سبيل اللہ ) كا معنى يہ ہے كہ وہ اعلائے كلمۃ اللہ كے ليے لڑائى كرے، يہ معركہ ميں لڑ كر مرنے والے كى تعريف ہے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى زبان مبارك سے كى ہے.
بخارى اور مسلم رحمہما اللہ نے ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ ايك اعرابى شخص نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:
آدمى مال غنيمت حاصل كرنے كے ليے لڑتا ہے، اور ايك شخص اپنا نام بنانے كے ليے لڑے، اور ايك شخص اپنا مقام و مرتبہ دكھانے كے ليے لڑتا ہے تو ان ميں سے فى سبيل اللہ كون ہو گا ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جو شخص اللہ تعالى كا كلمہ بلند كرنے كے ليے لڑے تو وہ فى سبيل اللہ ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2126 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1904 ).
اور امام مسلم رحمہ اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دريافت كرتے ہوئے فرمايا:
" تم شہيد كسے شمار كرتے ہو ؟
تو صحابہ كرام نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم جو شخص فى سبيل اللہ قتل كر ديا جائے تو وہ شہيد ہے.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانےلگے:
پھر تو ميرى امت كے شہيد بہت ہى كم ہونگے.
صحابہ كرام نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم وہ كون لوگ ہيں ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جو فى سبيل اللہ قتل كر ديا جائے وہ شہيد ہے، اور جو فى سبيل اللہ فوت ہو جائے تو وہ شہيد ہے، اور جو شخص طاعون ميں فوت ہو جائے تو وہ شہيد ہے، اور جو شخص پيٹ كى بيمارى سے شہيد ہو جائے وہ شہيد ہے، اور جو شخص غرق ہو كر فوت ہو وہ شہيد ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1915 ).
تو اس حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے معركہ ميں شہيد ہونے والے اور جو اشخاص شہادت كى فضيلت كو پہنچتے ہيں انہيں جمع كر كے بيان كيا ہے.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
( علماء كرام كا كہنا ہے: فى سبيل اللہ قتل ہونے والے كے علاوہ باقى سب كى شہادت سے مراد يہ ہے كہ ان كے ليے آخرت ميں شہداء كا اجر و ثواب ہو گا، ليكن دنيا ميں انہيں غسل بھى ديا جائيگا، اور ان كى نماز جنازہ بھى ادا ہو گى.
اور كتاب الايمان ميں اس كا بيان ہو چكا ہے، اور شہداء كى تين اقسام ہيں، دنيا و آخرت ميں شہيد وہ شخص ہے جو كفار كے خلاف جنگ كرتا ہوا فى سبيل اللہ قتل كر ديا جائے، اور آخرت ميں شہيد وہ ہيں جو يہاں مذكور ہيں، ليكن انہيں دنياوى احكام ميں شہيد نہيں كہا جائيگا، اور دنياوى شہيد ليكن وہ آخرت ميں شہيد نہيں وہ شخص ہے جو مال غنيمت ميں خيانت كا مرتكب ہو، يا پيٹھ پھير كر بھاگتے ہوئے قتل كر ديا جائے ( يعنى ميدان جنگ سے فرار ہوتے ہوئے ) انتہى.
شہادت ايك عظيم اور على مرتبہ اور درجہ ہے جو صرف اہل ايمان ہى كو حاصل ہوتا ہے، اس كے علاوہ كسى اور كو نہيں.
اور جس شخص كو نبى كريم محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى دعوت پہنچ چكى ہو اور وہ اسے تسليم كرتے ہوئے اس پر ايمان نہ لايا ہو تو وہ اللہ كے ساتھ كفر كا مرتكب ہوا ہے، اور وہ جہنمى ہے چاہے وہ معركہ ميں قتل ہوا ہو يا پھر اپنے بستر پر ہى مرے، چاہے يہودى ہو يا عيسائى، يا كسى اور شركيہ اور كفريہ مذہب سے تعلق ركھتا ہو.
عيسائى و نصارى اس ليے كافر ہيں كہ انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو تسليم نہيں كيا اور انہيں جھٹلايا ہے، اور انہوں نے مسيح عيسى بن مريم صلى اللہ عليہ وسلم كى الوہيت كا دعوى كيا ہے، اور ان كا يہ بھى دعوى ہے كہ اللہ تعالى كى بيوى اور اولاد بھى ہے، اللہ تعالى ان كے اس قول سے بہت بلند و بالا ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿ جو لوگ اللہ تعالى اور اس كے رسولوں كے ساتھ كفر كرتے ہيں اور جو لوگ يہ چاہتے ہيں كہ اللہ تعالى اور اس كے رسولوں كے درميان فرق ركھيں، اور جو لوگ كہتے ہيں كہ بعض انبياء پر تو ہمارا ايمان ہے اور بعض پر نہيں، اور وہ چاہتے ہيں كہ اس كے اور اس كے بين بين كوئى اور راہ نكال ليں ﴾.
﴿ يقين جانيں يہ سب لوگ اصلى اور پكے كافر ہيں، اور كافروں كے ليے ہم نے اہانت آميز سزا تيار كر ركھى ہے ﴾النساء ( 150 - 151 ).
اور ايك دوسرے مقام پر اس طرح فرمايا:
﴿ اور يہودى كہتے ہيں كہ عزير عليہ السلام اللہ كا بيٹا ہے، اور نصرانى كہتے ہيں كہ مسيح اللہ كا بيٹا ہے، يہ قول صرف ان كے منہ كى بات ہے، اگلے منكروں كى بات كى يہ بھى نقل كرنے لگے ہيں، اللہ انہيں غارت كرے وہ كيسے پلٹائے جاتے ہيں ﴾التوبۃ ( 30 ).
اور ايك مقام پر اللہ سبحانہ وتعالى كا ارشاد اسطرح ہے:
﴿ بے شك وہ لوگ كافر ہوئے جن كا قول يہ ہے كہ مسيح ابن مريم ہى اللہ ہے، حالانكہ خود مسيح نے ان سے كہا تھا كہ اے بنى اسرائيل! اللہ ہى كى عبادت كرو جو ميرا اور تمہارا سب كا رب ہے، يقين جانو كہ جو شخص اللہ كے ساتھ شريك كرتا ہے اللہ تعالى نے اس پر جنت حرام كر دى ہے، اوراس كا ٹھكانہ جہنم ہى ہے، اور گنہگاروں كى مدد كرنے والا بھى كوئى نہيں ہو گا ﴾المآئدۃ ( 72 ).
اور اس سے اگلى آيت ميں فرمان ربانى كچھ اس طرح ہے:
﴿ وہ لوگ بھى قطعى اور يقنى كافر ہو گئے جنہوں نے كہا كہ: اللہ تين ميں تيسرا ہے، دراصل اللہ تعالى كے سوا كوئى بھى معبود نہيں، اگر يہ لوگ اپنے اس قول سے باز نہ آئے تو اميں سے جو كفر پر رہينگے انہيں المناك عذاب ضرور ديا جائيگا ﴾المآئدۃ ( 73 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں محمد ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى جان ہے، اس امت ميں سے كوئى يہودى اور عيسائى ميرا سن كر ميرى رسالت پر ايمان لائے بغير مر گيا تو وہ جہنمى ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 153 ).
مندرجہ بالا سابقہ كلام آخرت كے احكام كے بارہ ميں ہے اور وہ بھى اس صورت ميں جب وہ قتل كر ديا جائے، ليكن دنياوى احكام ميں يہ ہے كہ اگر كوئى غير مسلم شخص مسلمان ملك كے دفاع ميں شريك ہو اور مسلمان حق سے كسى بھى قسم كا پيچھے نہ ہٹيں تو اس غير مسلم كا شكريہ ادا كرنے اور اس كا بدلہ دينے ميں كوئى حرج نہيں.
واللہ اعلم .

جمعہ، 2 دسمبر، 2016

میلاد

سوال: کچھ لوگ ماہِ ربیع الاول کے آتے ہی ایک حدیث نشر کرنا شروع کر دیتے ہیں: (جو بھی اس فضیلت والے ماہ کی مبارک باد دے گا، اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جائے گی) کیا یہ حدیث صحیح ہے۔

Published Date: 2016/Dec/02

الحمد للہ:

ذکر شدہ حدیث  کی ہمیں کوئی سند نہیں ملی، اور خود ساختہ  ہونے کی علامات اس حدیث پر بالکل واضح ہیں، اس لئے اس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ آپ کے بارے میں جھوٹ باندھنے  کے زمرے میں آتا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر جھوٹ باندھنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے: (جس شخص نے میری طرف منسوب کوئی حدیث بیان کی، اور وہ خدشہ بھی رکھتا تھا  یہ جھوٹ ہے، تو بیان کرنے والا بھی دو جھوٹوں میں سے ایک ہے) مسلم نے اسے اپنی صحیح مسلم کے مقدمہ میں بیان کیا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
"اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  پر جھوٹ  بولنے کی سنگینی بیان کی گئی ہے، اور جس شخص کو اپنے ظنِ غالب کے مطابق  کوئی حدیث  جھوٹی لگی لیکن پھر بھی وہ آگے بیان کر دے تو وہ بھی جھوٹا ہوگا،  جھوٹا کیوں نہ ہو؟!  وہ ایسی بات کہہ رہا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نہیں فرمائی" انتہی
" شرح صحيح مسلم " (1/65)

اور اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے کہ ماہِ ربیع الاول  کی جس شخص نے مبارکباد دی تو صرف اسی عمل سے اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جائے گی، یہ بات حد سے تجاوز، اور مبالغہ آرائی پر مشتمل ہے، جو کہ اس حدیث کے باطل اور خود ساختہ ہونے کی علامت ہے۔
چنانچہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
"خود ساختہ احادیث میں اندھا پن ، بے ڈھب  الفاظ، اور حد سے زیادہ تجاوز ہوتا ہے، جو ببانگ دہل  ان احادیث کے خود ساختہ ہونے کا اعلان کرتا ہے، کہ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   کے نام پر خود گھڑی گئی ہے" انتہی

" المنار المنيف " (ص 50)

Www.mominsalafi.blogspot.com