اپنی زبان منتخب کریں

ہفتہ، 4 فروری، 2017

سینے پر ہاتھ باندھنا

تحریر:حافظ زبیر علی زئی


حدیث : ((عن سھل بن سعد قال: کان الناس یؤمرون أن یضع الرجل یدہ الیمنٰی علیٰ ذراعہ الیسریٰ فی الصلوٰۃ))سہل بن سعدؓ فرماتے ہیں کہ لوگوں کو (رسول اللہ ﷺ کی طرف سے) حکم دیاجاتاتھا کہ ہر شخص نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں بازوں پر رکھے۔ (بخاری: ۱۰۲/۱ ح ۷۴۰، و موطأ امام مالک ۱۵۹/۱ ح ۳۷۷ باب وضع الیدین احداہما علی الاخریٰ فی الصلوٰۃ، وروایۃ ابن القاسم بتحقیقی: ۴۰۹)
فوائد:


۱:        اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے چاہئیں، آپ اگر اپنا دائیاں ہاتھ اپنی بائیں “ذراع” (بازو) پر رکھیں گے تو دونوں ہاتھ خودبخود سینہ پر آجائیں گے ۔ ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنا دائیاں ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی کی پشت ، رُسغ (کلائی ) اور ساعد(کلائی سے لیکر کہنی تک) پر رکھا (سنن نسائی مع حاشیۃ السندھی : ج۱ ص ۱۴۱ ح ۸۹۰، ابوداود: ج۱ ص۱۱۲ ح ۷۲۷) اسے ابن خزیمہ (۲۴۳/۱ ح ۴۸) اور ابن حبان (الاحسان : ۲۰۲/۲ ح ۴۸۵) نے صحیح کہا ہے ۔
سینے پر ہاتھ باندھنے کی تصدیق اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں آیا ہے کہ :
“یضع ھٰذہ علیٰ صدرہ…. إلخ“
آپﷺ یہ (ہاتھ) اپنے سینے پر رکھتے تھے …..إلخ
(مسند احمد ج ۵ ص ۲۲۶ ح ۲۲۳۱۳، واللفظ لہ ، التحقیق لا بن الجوزی ج ۱ ص ۲۸۳ ح ۴۷۷ و فی نسخۃ ج ۱ ص ۳۳۸ و سندہ حسن)


۲:        سنن ابی داود (ح ۷۵۶) وغیرہ میں ناف پر ہاتھ باندھنے والی جو روایت آئی ہے وہ عبدالرحمٰن بن اسحاق الکوفی کی وجہ سے ضعیف ہے، اس شخص پر جرح ، سنن ابی داود کے محولہ باب میں ہی موجود ہے ، علامہ نووی نے کہا :
“عبدالرحمٰن بن اسحاق بالاتفاق ضعیف ہے ” (نصب الرایۃ للزیلعی الحنفی۳۱۴/۱)
نیموی فرماتے ہیں: “وفیہ عبدالرحمٰن بن إسحاق الواسطي وھو ضعیف” اور اس میں عبدالرحمٰن بن اسحاق الواسطی ہے اور وہ ضعیف ہے ۔ (حاشیہ آثار السنن ح ۳۳۰)
          مزید جرح کے لئے عینی حنفی کی البنایۃ فی شرح الہدایۃ (۲۰۸/۲) وغیرہ کتابیں دیکھیں، ہدایہ اولین کے حاشیہ ۱۷، (۱۰۲/۱) میں لکھا ہوا ہے کہ یہ روایت بالاتفاق ضعیف ہے ۔


۳:       یہ مسئلہ کہ مرد ناف کے نیچے او رعورت سینے پر ہاتھ باندھیں کسی صحیح حدیث یا ضعیف حدیث سے قطعاً ثابت نہیں ہے ، یہ مرد اور عورت کی نماز میں جو فرق کیاجاتا ہے کہ مرد ناف کے نیچے ہاتھ باندھیں اور عورتیں سینے پر ، اس کے علاوہ مرد سجدے کے دوران بازو زمین سے اٹھائے رکھیں اور عورتیں بالکل زمین کے ساتھ لگ کر بازو پھیلا کر سجدہ کریں ،یہ سب اہل الرائے کی موشگافیاں ہیں۔ رسول اللہﷺ کی تعلیم سے نماز کی ہیئت ، تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک مرد و عورت کے لئے ایک ہی ہے ، صرف لباس اور پردے میں فرق ہے کہ عورت ننگے سر نماز نہیں پڑھ سکتی اور اس کے ٹخنے بھی ننگے نہیں ہونے چاہئیں۔ اہل حدیث کے نزدیک جو فرق و دلیل نص صریح سے ثابت ہوجائے تو برحق ہے ، اور بے دلیل و ضعیف باتیں مردود کے حکم میں ہیں۔


۴:       سیدنا انسؓ سے منسوب تحت السرۃ (ناف کے نیچے) والی روایت سعید بن زربی کی وجہ سے سخت ضعیف ہے ۔ حافظ ابن حجر نے کہا : منکر الحدیث (تقریب التہذیب : ۲۳۰۴)
(دیکھئے مختصر الخلافیات للبیہقی: ۳۴۲/۱، تالیف ابن فرح الاشبیلی و الخلافیات مخطوط ص ۳۷ ب و کتب اسماء الرجال)

۵: بعض لوگ مصنف ابن ابی شیبہ سے “تحت السرۃ” والی روایت پیش کرتے ہیں حالانکہ مصنف ابن ابی شیبہ کی اصل قلمی اور مطبوعہ نسخوں میں “تحت السرۃ” کے الفاظ نہیں ہیں جبکہ قاسم بن قطلوبغا (کذاب بقول البقاعی / الضوء اللامع ۱۸۶/۶) نے ان الفاظ کا اضافہ گھڑ لیا تھا۔ انور شاہ کشمیری دیوبندی فرماتے ہیں:
“پس بے شک میں نے مصنف کے تین (قلمی) نسخے دیکھے ہیں، ان میں سے ایک نسخے میں بھی یہ (تحت السرۃ والی عبارت) نہیں ہے” (فیض الباری ۲۶۷/۲)


۶:        حنبلیوں کے نزدیک مردوں اور عورتوں دونوں کو ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے چاہئیں۔ (الفقہ علی المذاہب الاربعۃ ۲۵۱/۱)!!


۷:       تقلیدی مالکیوں کی غیر مستند اور مشکوک کتاب “المدونۃ” میں لکھا ہوا ہے کہ امام مالکؒ نے ہاتھ باندھنے کے بارے میں فرمایا :”مجھے فرض نماز میں اس کا ثبوت معلوم نہیں” امام مالکؒ اسے مکروہ سمجھتے تھے۔ اگرنوافل میں قیام لمبا ہوتو ہاتھ باندھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اس طرح و ہ اپنے آپ کو مدد دے سکتا ہے ۔ (دیکھئے المدونۃ ۷۶/۱) اس غیر ثابت حوالے کی تردید کے لئے موطأ امام مالک کی تبویب اور امام مالکؒ کی روایت کردہ حدیثِ سہل بن سعدؓ ہی کافی ہے ۔


۸:       جولوگ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں ان کی دلیل المعجم الکبیر للطبرانی (۷۴/۲۰ ح ۱۳۹) کی ایک روایت ہے جس کا ایک راوی خصیب بن حجدر کذاب ہے ۔ (دیکھئے مجمع الزوائد ۱۰۲/۲) معلوم ہوا کہ یہ روایت موضوع ہے لہٰذااس کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے ۔


۹:        سعید بن جبیر (تابعی) فرماتےہیں کہ نماز میں “فوق السرۃ” یعنی ناف سے اوپر (سینے پر ) ہاتھ باندھنے چاہئیں۔ (امالی عبدالرزاق / الفوائد لابن مندۃ ۲۳۴/۲ ح ۱۸۹۹ و سندہ صحیح )


۱۰:       سینے ہر ہاتھ باندھنے کے بارے میں مزید تحقیق کے لئے راقم الحروف کی کتاب “نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام”ملاحظہ فرمائیں۔ اس کتاب میں مخالفین کے اعتراضات کے مدلل جوابات دیئے گئے ہیں۔ والحمدللہ!

جمعہ، 3 فروری، 2017

ہمارے بارے میں

/
https://sites.google.com/view/kashmir-india

عالَمِ برزخ کا ایک مناظرہ


تحریر: حافظ زبیر علی زئی
وعن ابن عمر، قال : قال رسول اللہ ﷺ :((کل شئ بقدرٍ حتی العجز و الکیس۔))رواہ مسلم          (سیدنا) ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر چیز تقدیر سے ہے حتیٰ کہ عاجزی اور دانائی بھی تقدیر سے ہے ۔ (صحیح مسلم : ۲۶۵۵/۱۸ و ترقیم دارالسلام: ۶۷۵۱)
فقہ الحدیث:
۱: عقیدۂ تقدیر برحق ہے ۔
۲: ہر چیز اپنے وجود سے پہلے اپنے خالق اللہ تعالیٰ کے علم و مشیٔت میں ہے ۔
۳:ہر مخلوق کو وہی چیز حاصل ہوتی ہے جو اس کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہے۔
۴:یہ صحیح حدیث موطأ الامام مالک (روایۃ یحییٰ ۸۹۹/۲ ح ۱۷۲۸، روایۃ عبدالرحمٰن بن القاسم بتحقیقی : ۱۸۷) میں بھی موجود ہے اور امام مالکؒ کی سند سے امام مسلمؒ نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں روایت کی ہے ۔
۵:موطا ٔ امام مالک اور صحیح مسلم میں اس حدیث کے ساتھ یہ اضافہ بھی ہے کہ طاؤس الیمانیؒ نے فرمایا:”میں نے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کی ایک جماعت کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر چیز تقدیر سے ہے “
۶:عاجزی سے مراد دنیاوی عاجزی یا بقولِ بعض : نافرمانی ہے اور دانائی سے مراد دنیاوی دانائی یا اللہ و رسول کی اطاعت ہے ۔ واللہ اعلم
۷:       سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا : “العجز و الکیس بقدر
عاجزی اور دانائی تقدیر سے ہے ۔ (کتاب القدر للامام جعفر بن محمد الفریابی : ۳۰۴ و سندہ صحیح)
۸:       امام احمد بن حنبلؒ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ تقدیر کے منکر کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئے اور نہ اس کے پیچھے نماز پڑھنی چاہئے۔ (دیکھئے کتاب السنۃ للخلال : ۹۴۸ وسندہ صحیح)
۸۱:      وعن أبي ھریرۃ، قال : قال رسول اللہ ﷺ:
((احتج آدم و موسیٰ عند ربھما ، فحج آدم موسیٰ؛ قال موسیٰ: أنت آدم الذي خلقک اللہ بیدہ، ونفخ فیک من روحہ، و أسجد لک ملائکتہ، وأسکنک في جنتہ، ثم أھبطت الناس بخطیئتک إلی الأرض؟ قال آدم أنت موسی الذي اصطفاک اللہ برسالتہ و بکلامہ، و أعطاک الألواح فیھا تبیانُ کل شئ، وقربک نجیاً، فبکم و جدت اللہ کتب التوراۃ قبل أن أخلق؟ قال موسیٰ: بأربعین عاماً. قال آدم: فھل و جدت فیھا “وَعَصٰی آدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی”؟ قال: نعم، قال : أفتلو مُني علیٰ أن علمتُ عملاً کتبہ اللہ عليَّ أن أعملہ قبل أن یخلقني بأربعین سنۃ؟ قال رسول اللہ ﷺ فحجَّ آدمُ موسیٰ.)) رواہ مسلم
(سیدنا) ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدم (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب کے پاس (آسمانوں پر عالم ارواح میں) بحث و مباحثہ کیا تو آدم (علیہ السلام) موسیٰ(علیہ السلام)پر غالب ہوئے ۔ موسیٰ(علیہ السلام) نے (آدم علیہ السلام سے ) کہا : آپ وہ آدم ہیں جنہیں اللہ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور آپ میں اپنی (پیدا کردہ) روح پھونکی اور آپ کو اپنے فرشتوں سے سجدہ کروایا اور آپ کو اپنی جنت میں بسایا پھر آپ نے اپنی غلطی کی وجہ سے لوگوں کو (جنت سے ) زمین پر اتار دیا ؟
آدم(علیہ السلام) نے فرمایا: تم وہ موسیٰ ہو جسے اللہ نے اپنی رسالت اور کلام کے ساتھ چُنا اور تختیاں دیں جن میں ہر چیز کا بیان ہے اور تمہیں سر گوشی کے لئے (اللہ نے) اپنے قریب کیا، پس تمہارے نزدیک میری پیدائش سے کتنا عرصہ پہلے اللہ نے تورات لکھی؟
موسیٰ(علیہ السلام) نے جواب دیا: چالیس سال پہلے۔
آدم(علیہ السلام) نے فرمایا : کیا تم نے اس میں یہ لکھا ہوا پایا ہے کہ “اور آدم نے اپنے رب کے حکم کو ٹالا تو وہ پھسل گئے “؟
موسیٰ(علیہ السلام) نے جواب دیا : جی ہاں ، (آدم علیہ السلام نے )کہا : کیا تم مجھے اس عمل پر ملامت کرتے ہو جو میری پیدائش سے چالیس سال پہلے اللہ نے میری تقدیر میں لکھ دیا تھا؟
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پس آدم(علیہ السلام) موسیٰ(علیہ السلام) پر غالب ہوئے۔ (صحیح مسلم: ۲۶۵۲/۱۵ ۶۷۴۴)

فقہ الحدیث:
۱:آدم(علیہ السلام) اور موسیٰ(علیہ السلام) کے درمیان یہ بحث و مباحثہ اور مناظرہ عالم برزخ میں آسمانوں پر ہواتھا۔ ایک دفعہ محدث ابومعاویہ محمد بن خازم الضریر (متوفی ۱۹۵؁ھ) نے اس مناظرے والی ایک حدیث بیان کی تو ایک آدمی نے پوچھا: آدم او رموسیٰ علیہما السلام کی ملاقات کہاں ہوئی تھی ؟ یہ سن کر عباسی خلیفہ ہارون الرشیدؒ سخت ناراض ہوئے اور اس شخص کو قید کردیا۔ وہ اس شخص کے کلام کو ملحدین اور زنادقہ کا کلام سمجھتے تھے۔ (دیکھئے کتاب المعرفۃ و التاریخ للامام یعقوب بن سفیان الفارسی ۱۸۱/۲ ، ۱۸۲ و سندہ صحیح ، تاریخ بغداد ۲۴۳/۵ و سندہ صحیح)
معلوم ہوا کہ حدیث کا مذاق اڑانا ملحدین اور زنادقہ کا کام ہے ۔
۲:        اللہ تعالیٰ نے آدم(علیہ السلام) کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا فرمایا (دیکھئے سورۃ صٓ : ۷۵) جیسا کہ اس کی شان و جلالت کے لائق ہے ۔
          اللہ کا ہاتھ اس کی صفت ہے جس پر ایمان لانا ضروری ہے ۔ یہاں ہاتھ سے مراد قدرت لینا سلف صالحین کے فہم کے خلاف ہونے کی وجہ باطل و مردود ہے ۔
امام ابوحنیفہؒ کی طرف منسوب، غیر ثابت کتاب “الفقہ الاکبر” میں لکھا ہوا ہے کہ
          “فما ذکرہ اللہ تعالیٰ فی القرآن من ذکر الوجہ والید والنفس فھولہ صفات بلا کیف و لا یقال إن یدہ قدرتہ أو نعمتہ لأن فیہ إبطال الصفۃوھو قول أھل القدر و الإعتزال ولکن یدہ صفتہ بلا کیف“اور اس کے لئے ہاتھ منہ اور نفس ہے جیساکہ  قرآن کریم میں آتا ہے لیکن ان کی کیفیت معلوم نہیں ہے اور یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ید سے قدرت اور نعمت مراد ہے کیونکہ ایسا کہنے سے اس کی صفت کا ابطال لازم آتا ہے اور یہ منکرینِ تقدیراور معتزلہ کا مذہب ہے ، بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ ہاتھ اس کی مجہول الکیفیت صفت ہے “ (الفقہ الاکبر مع شرح ملا علی قاری ص ۳۷،۳۶ ، البیان الازہر ، اردو ترجمہ صوفی عبدالحمید سواتی دیوبندی ص ۳۲)

مجہول الکیفیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں ہے ۔
   تنبیہ:    یہ حوالہ اس لئے پیش کیا گیا ہے کہ حنفی و غیر حنفی علماء کا ایک گروہ اس کتاب کو امام ابوحنیفہؒ کی تصنیف مانتا ہے ۔ دیکھئے مقدمۃ البیان الازہر از قلم محمد سرفراز خان صفدر دیوبندی (ص ۱۶ تا ۲۳)
سرفراز خان صفدر صاحب لکھتے ہیں:“غرضیکہ فقہ اکبر حضرت امام ابوحنیفہؒ ہی کی تصنیف ہے لَا رَیْبَ فِیْہِ” (مقدمۃ البیان الازہر ص ۲۳)
اس دیوبندی “لَارَیْبَ فِیْہِ” کتاب کا راوی ابو مطیع الحکم بن عبداللہ البلخی جمہور محدثین کے نزدیک مجروح ہے ۔ اس کے بارے میں امام اہل سنت امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا: “لا ینبغي أن یروی عنہ…. ‎شئ” اس سے کوئی چیز بھی روایت نہیں کرنی چاہئے ۔ (کتاب العلل ۲۵۸/۲ ت ۱۸۶۴)
          اسماء الرجال کے جلیل القدر امام یحییٰ بن معینؒ نے فرمایا:          “وأبو مطیع الخراساني لیس بشيءٍ” اور ابو مطیع الخراسانی کچھ چیز نہیں ہے ۔ (تاریخ ابن معین روایۃ الدوری : ۴۷۶۰)
ان کے علاوہ دوسرے محدثین مثلاً امام نسائی، ابوحاتم الرازی اور حافظ ابن حبان وغیرہم نے اس پر جرح کی ہے ۔ متاخرین میں سے حافظ ذہبی ایک حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:فھذا وضعہ أبو مطیع علیٰ حماد” پس اس کو ابومطیع نے حماد (بن سلمہ) پر گھڑا ہے  ۔ (میزان الاعتدال۴۲/۳)
          معلوم ہواکہ حافظ ذہبی کے نزدیک ابو مطیع مذکورو ضاع (جھوٹا ، حدیثیں گھڑنے والا) تھا۔ اس جرح کے باوجود بعض الناس کا “الفقہ الأکبر” نامی رسالے کو “لَارَیْبَ فِیْہِ” کہنا انتہائی عجیب و غریب ہے ۔
۳:       تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے ۔

۴:       جو لوگ کہتے ہیں کہ “ابھی تک جنت پیدا نہیں ہوئی” ان کا قول باطل و مردود ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو جنت میں رکھا تھا۔ اہل سنت کے نزدیک جنت اور جہنم دونوں پیداشدہ ہیں اور دونوں ہمیشہ رہیں گی اور یہی عقیدہ حق ہے ۔

۵:       غلطی اور گناہ کرنے والوں کی دو قسمیں ہیں:
اول:     جوغلطی اور گناہ کرنے کے بعد بھی اسی پر ڈٹے رہتے ہیں، توبہ نہیں کرتے اور نہ نادم و پشیمان ہوتے ہیں اور نہ صلاح کی کوشش کرتے ہیں۔
اول الذکر کےلئے تقدیر سے استدلال کرنا جائز ہے اور ثانی الذکر کے لئے تقدیر سے استدلال کرنا جائز نہیں ہے ۔ تفصیل کے لئے دیکھئے شفاء العلیل لابن القیم (ص ۳۵، ۳۶) و شرح حدیث جبریل (عربی ص ۶۵۔۶۷، اردو ص ۱۰۴ تا ۱۰۷)
        دوم: جو شخص گناہ اور کفر کرنے کے بعد توبہ نہیں کرتا اور پھر تقدیر سے استدلال کرتا ہے تو یہ طریقہ مشرکین و کفار کا ہے ۔ دیکھئے سورۃ الانعام (آیت: ۱۴۸) اور سورۃ النحل (آیت : ۳۵)

۶:        صحیح مسلم والی یہ حدیث صحیح بخاری میں بھی مختصراً موجود ہے ۔ (ح ۳۴۰۹، ۴۷۳۶، ۷۵۱۵)

۷:       بحث و مباحثہ میں فریق مخالف کے خلاف وہ دلیل پیش کرنا جسے وہ صحیح برحق تسلیم کرتا ہے ، بالکل صحیح ہے ۔ 

اہل السنت والجماعت کے 35 عقائد


امام ابو محمد عبدالرحمٰن بن حاتم الرازی رحمہ اللہ (المتوفی327 ہجری) نے فرمایا کہ: میں نے اپنے والد (ابو حاتم الرازی) اور ابو زرعہ (الرازی) رحمہااللہ سے اصول دین میں مذاہب اہل سنت کے بارے میں پوچھا اور یہ کہ انہوں نے تمام شہروں میں علماء کو کس عقیدے پر پایا اور آپ دونوں کا کیا عقیدہ ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: ہم نے حجاز، عراق، مصر، شام اور یمن کے تمام شہروں میں علماء کو اس (درج زیل) مذہب پر پایا کہ:
  1. بے شک ایمان قول و عمل کا نام ہے اور اس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔
  2. قرآن ہر لحاظ سے اللہ کا کلام ہے مخلوق نہیں ہے۔
  3. اچھی اور بری تقدیر اللہ کی طرٖف سے ہے۔
  4. نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت میں سب سے بہتر ابوبکر صدیق ہیں، بھر عمربن خطاب، پھر عثمان بن عفان اور پھر علی ابن طالب رضی اللہ عنھم اور یہی خلفاء راشدین مھدین ہیں۔
  5. عشرہ مبشرہ جن کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنتی ہونے کی گواہی دی ہے وہ ہمارے نزدیک جنتی ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ علیہ وسلم) کی بات حق ہے۔
  6. محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ کے بارے میں رحمت کی دعا مانگنی چاہئے اور ان کے درمیان جو اختلافات تھے ان کے بارے میں سکوت (خاموشی) اختیار کرنا چاہئے۔
  7. اللہ تعالٰی اپنے عرش پر (بغیر سوال کیفیت مستوی)  ہے، اپنی مخلوق سے (بلحاظ ذات) جدا ہے جیسا کہ اس نے اپنی کتاب (قرآن مجید) میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر بیان فرمایا ہے، اس نے ہر چیز کو علم سے گھیر رکھا ہے، اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سننے اور دیکھنے والا ہے۔
  8. اللہ تعالٰی آخرت میں نظر آئے گا، جنتی لوگ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے (اسی کا) کلام ہے جیسے چاہے اور جب چاہے۔
  9. جنت حق ہے، جہنم حق ہے اور یہ دونوں مخلوق ہیں کبھی فنا نہ ہوں گی، اللہ کے دوستوں کے لئے جنت کا بدلہ ہے اور اس کے نافرمانوں کے لئے جہنم کا عذاب ہے سوائے ان کے جن پر وہ (اللہ) رحم فرمائے۔
  10. پل صراط حق ہے۔
  11. میزان (ترازو) کے دو پلڑے ہیں جن میں بندوں کے اچھے اور برے اعمال تولے جائیں گے۔
  12. نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حوض کوثر حق ہے اور شفاعت حق ہے۔
  13. اہل توحید (مسلمانوں) میں سے (بعض) لوگوں کا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ) شفاعت کے زریعے (جہنم کی) آگ سے نکلنا حق ہے۔
  14. عذاب قبر حق ہے۔
  15. منکر و نکیر (قبرمیں سوال و جواب والے فرشتے) حق ہیں۔
  16. کراما کاتبین (اعمال لکھنے والے فرشتے) حق ہیں۔
  17. موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونا حق ہے۔
  18. کبیرہ گناہ کرنے والوں کا معاملہ اللہ کی مشئیت (اور ارادے) پر ہے (چاہے تو عذاب دے چاہے تو بخش دے) ہم اہل قبلہ (مسلمانوں) کے گناہوں کی وجہ سے ان کی تکفیر نہیں کرتے، ہم ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔
  19. ہر زمانے (اور علاقے) میں ہم مسلمان حکمرانوں کے ساتھ جہاد اور حج کی فرضیت پر عمل پیرا ہیں۔
  20. ہم مسلمان حکمرانوں کے خلاف بغاوت کے قائل نہیں ہیں اور نہ فتنے (کے دور) میں (ایک دوسرے سے) قتال کے قائل ہیں۔
  21. اللہ نے جسے ہمارا حاکم بنایا ہے، ہم اس کی سنتے ہیں اور اطاعت کرتے ہیں اور اطاعت سے اپنا ہاتھ نہیں نکالتے۔
  22. ہم اہل سنت والجماعت (کے اجماع) کی پیروی کرتے ہیں اور شذوذ، اختلاف اور فرقہ بازی سے اجتناب کرتے ہیں۔
  23. جب سے اللہ تعالٰی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو (نبی و رسول بنا کر) مبعوث فرمایا ہے، مسلمان حکمرانوں کے ساتھ ملکر (کافروں کے خلاف) جہاد جاری رہے گا اسے کوئی چیز باطل نہیں کرے گی (یعنی جہاد ہمیشہ جاری رہے گا)۔
  24. اور یہی معاملہ حج کا (بھی) ہے۔
  25. مسلمان حکمرانوں کے پاس جانوروں (اور دیگر اموال) کے صدقات (زکوۃ، عشر) جمع کرائے جائیں گے۔
  26. لوگ اپنے احکامات اور وراثت میں مومن ہیں، اور اللہ کے ہاں ان کا کیا مقام ہے معلوم نہیں، جو شخص اپنے بارے میں کہتا ہے کہ وہ یقینا مومن ہے تو وہ شخص یقینن بدعتی ہے، اور جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اللہ کے ہاں (بھی) مومن ہے تو ایسا شخص جھوٹوں میں سے ہے، اور جو کہتا ہے کہ: میں اللہ کے ساتھ مومن (یعنی اللہ پر ایمان رکھتا) ہوں تو یہ شخص (صحیح اور) مصیب ہے۔
  27. مرجئہ (فرقے کے لوگ) بدعتی گمراہ ہیں۔
  28. قدریہ (تقدیر کا انکار کرنے والے) بدعتی گمراہ ہیں اور ان میں سے جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ اللہ تعالٰی کسی کام کے ہونے سے پہلے اس کا علم نہیں رکھتا تو ایسا شخص کافر ہے۔
  29. جہمیہ کفار ہیں۔
  30. رافضیوں (شعیوں) نے اسلام چھوڑ دیا ہے۔
  31. خوارج (دین سے) نکلے ہوئے ہیں۔
  32. جو شخص یہ کہتا ہے کہ قرآن مخلوق ہے تو وہ کافر ہے، ملت (اسلامیہ) سے خارج ہے۔ اور جو شخص سوجھ بوجھ (اور اقامت و حجت) کے باوجود اس شخص کے کفر میں شک کرے تو وہ (بھی) کافر ہے۔
  33. جو شخص اللہ کے کلام کے بارے میں شک کرتے ہوئے توقف کرے اور کہے کہ: مجھے پتہ نہیں کہ (قرآن) مخلوق ہے یا غیر مخلوق تو ایسا شخص جہمی (فرقے سے تعلق رکھتا) ہے۔
  34. جو جاہل شخص قرآن کے بارے میں توقف کرے تو اسے سمجھایا جائے گا۔
  35. جو شخص لفظی بالقرآن (میرے الفاظ جن سے میں قرآن پڑھتا ہوں) یاالقرآن بلفظی (قرآن میرے الفاظ کے ساتھ) مخلوق کہے تو وہ جہمی (گمراہ) ہے۔
امام ابو حاتم الرازی نے فرمایا: اہل بدعت کی یہ علامت ہے کہ وہ اہل اثر (اہل حدیث) پر حملہ کرتے ہیں۔ زنادقہ کی علامت یہ ہے کہ وہ اہل حدیث کو حشویہ (ظاہر پرست فرقہ) کہتے ہیں، ان کا اس سے مقصد احادیث کا انکار ہوتا ہے۔ جہمیہ کی علامت یہ ہے کہ وہ اہل سنت کو مشبہہ کہتے ہیں۔ قدریہ کی علامت یہ ہے کہ وہ اہل سنت کو مجبرہ کہتے ہیں۔ مرجئہ کی  (ایک) علامت یہ ہے کہ وہ اہل سنت کو مخالفہ اور نقصانیہ کہتے ہیں۔ رافضہ (شعیوں) کی یہ علامت ہے کہ وہ اہل سنت کو ثانیہ (نابتہ، ناصبیہ یعنی علی رضی اللہ عنہ کا دشمن) کہتے ہیں۔ ان تمام برے ناموں کی بنیاد (بدعات پر) تعصب اور معصیت ہے، اہل سنت کا ایک ہی نام ہے اور یہ محال ہے کہ ان کے بہت سے (خود ساختہ) نام اکٹھے ہو جائیں۔
ابو حاتم اور ابو زرعہ دونوں گمراہوں اور بدعتیوں سے ھجر (لاتعلقی) کرتے تھے اور ان (غلط) آراء کا شدید رد کیا کرتے تھے۔ احادیث کے بغیر رائے والی کتابیں لکھنے پر سختی سے انکار کرتے تھے، اہل کلام ( منطق و فلسفے والوں) کی مجلس اور متکلمین کی کتابیں دیکھنے سے منع کرتے تھے اور کہتے کہ: صاحب کلام کبھی فلاح نہیں پاتا (الا یہ کہ مرنے سے پہلے توبہ کرلے)۔
[یہ مضمون امام ابو محمد عبدالرحمٰن ابی حاتم الرازی رحمہ اللہ کی کتاب “اصل السنۃ و اعتقاد الدین” سے لیا گیا ہے۔ آپ کا شمار حدیث کے عظیم اماموں میں ہوتا ہے اور آپ کی ثقاہت اور بزرگی کے بارے میں اہل سنت کے تمام گروہوں کا ہر دور میں اتفاق رہا ہے، آپ نے 327 ہجری میں وفات پائی۔ ]

جمعرات، 2 فروری، 2017

کلمه گو مشرک

ہماری شرکیہ پکار:


1)    بھر دو جھولی میری یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم
2)    کچھ بھی مانگنا ہے در مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگ
3)    سارے نبی تیرے در کے سوالی، شاہ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم
قرآن کی وضاحت: نبی صلی اللہ علیہ وسلم مختارکل نہیں تھے، یہ صرف اللہ کی صفت ہے


يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (سورۃ الفاطر آیت 15)


ترجمہ: لوگو تم (سب) اللہ کے محتاج ہو اور اللہ بےپروا، سزاوار (حمد وثنا) ہے۔


قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي ضَرًّا وَلَا نَفْعًا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ إِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ (سورۃ یونس 49)


ترجمہ: (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دو کہ میں تو اپنے نقصان اور فائدے کا بھی کچھ اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا (پہنچانا) چاہے۔ ہر ایک امت کے لیے (موت کا) ایک وقت مقرر ہے۔ جب وہ وقت آجاتا ہے تو ایک گھڑی بھی دیر نہیں کرسکتے اور نہ جلدی کرسکتے ہیں۔


إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (سورۃ القصص 56)


ترجمہ: (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) تم جس کو دوست رکھتے ہو اُسے ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ خدا ہی جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور وہ ہدایت پانیوالوں کو خوب جانتا ہے۔


لَيْسَ لَكَ مِنَ الأمر شيء أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظالِمُونَ (سورۃ ال عمران 128)


ترجمہ: (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) اس کام میں آپ کا کچھ اختیار نہیں کہ اللہ ان پر مہربانی فرمائے یا عذاب دے کہ یہ لوگ ظالم ہیں۔


ہماری شرکیہ پکار


4)    شہباز کرے پرواز تے جانے رازدلاں دے
قرآن کی وضاحت: دلوں کے حال جاننا صرف اللہ کی صفت ہے


وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (آل عمران 154)


ترجمہ: اور اللہ دلوں کے حال تک جانتا ہے۔


ہماری شرکیہ پکار


5) رکھ لاج میری لج پال، بچالے مینوں غم توں قلندرلال


قرآن کی وضاحت: عزت اور زلت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے


قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (سورۃ آل عمران 26)


ترجمہ: کہو کہ اے خدا (اے) بادشاہی کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہی بخشے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے اور بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔


مَن كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا (سورۃ فاطر 10)
ترجمہ:جو شخص عزت کا طلب گار ہے تو (جان لو کہ) عزت صرف اللہ ہی کی ہے۔
ہماری شرکیہ پکار

6)    نورانی نور ہے، ہربلا دورہے

قرآن کی وضاحت: بلائیں دور کرنا فوت شدہ بزرگوں کے اختیار میں نہیں بلکہ اس کی قدرت صرف ہی اللہ کو حاصل ہے۔


وَاتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً لَّا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَاةً وَلَا نُشُورًا (الفرقان 03)


ترجمہ: اور (لوگوں نے) اس کے سوا اور معبود بنا لئے ہیں جو کوئی چیز بھی پیدا نہیں کرسکتے اور خود پیدا کئے گئے ہیں۔ اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اُٹھ کھڑے ہونا۔


أُولَٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ ۚ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 57)


ترجمہ: یہ لوگ جن کو (خدا کے سوا) پکارتے ہیں وہ خود اپنے پروردگار کے ہاں ذریعہ (تقرب) تلاش کرتے رہتے ہیں کہ کون ان میں (خدا کا) زیادہ مقرب ہوتا ہے اور اس کی رحمت کے امیدوار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں۔ بےشک تمہارے پروردگار کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے۔


ہماری شرکیہ پکار:


7)    بری بری امام بری، میری کھوٹی قسمت کرو کھری
قرآن کی وضاحت: صرف اللہ کی زات ہی کھوٹی قسمتیں کھری کرنے پر قادر ہے


وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (سورۃ الانعام آیت 17)


ترجمہ: اور اگر خدا تم کو کوئی سختی پہنچائے تو اس کے سوا اس کو کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر نعمت (وراحت) عطا کرے تو (کوئی اس کو روکنے والا نہیں) وہ ہر چیز پر قادر ہے۔


ہماری شرکیہ پکار:


8)     اے مولا علی اے شیر خدا، میری کشتی پار لگا دینا
قرآن کی وضاحت: سابقہ اقوام کے مشریکین تک یہ بات جانتے تھے کہ اللہ کے سوا کوئی اس بات پر قادر نہیں کے ہماری کشتی کو پار لگا دے، تف ہے آج کے کلمہ گو مشریکین کی عقل پر۔


فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ (سورۃ العنکبوت آیت 65)


ترجمہ: پھر جب یہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو خدا کو پکارتے (اور) خالص اُسی کی عبادت کرتے ہیں۔ لیکن جب وہ اُن کو نجات دے کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو جھٹ شرک کرنے لگے جاتے ہیں۔


ہماری شرکیہ پکار:


9)    بابا شاہ جمال، پتردے دے رتا لال
قرآن کی وضاحت: اولاد دینا اللہ کے سوا کسی کے اختیار میں نہیں


لِّلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ، أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا ۖ وَيَجْعَلُ مَن يَشَاءُ عَقِيمًا ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ۔ (سورۃ الشوری آیات 49-50)


ترجمہ: (تمام) بادشاہت خدا ہی کی ہے آسمانوں کی بھی اور زمین کی بھی۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے بخشتا ہے۔ یا ان کو بیٹے اور بیٹیاں دونوں عنایت فرماتا ہے۔ اور جس کو چاہتا ہے بےاولاد رکھتا ہے۔ وہ تو جاننے والا (اور) قدرت والا ہے۔


کتاب و سنت میں شرک سے بچنے کی تاکید


إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاءُ (سورۃالنساء آیت 48)
ترجمہ: بے شک اللہ شرک کرنے والوں کو معاف نہیں کرتا، اسکے علاوہ جن گناہوں کو چاہے گا معاف کر دے گا۔


سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا:


أَيُّهَا النَّاسُ، اتَّقُوا هَذَا الشِّرْكَ، فَإِنَّهُ أَخْفَى مِنْ دَبِيبِ النَّمْلِ


’’اے لوگو!شرک سے بچ جاؤ کیونکہ یہ چیونٹی کے چلنے کی آواز سےبھی زیادہ پوشیدہ ہے‘‘


(مسند احمد،ج:۴/ص:۴۰۳)


اے اللہ بلاشبہ ہر طرح کی تعریف صرف تیرے ہی لیئے ہے ہم دل کی گہرائیوں سے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کے تیرا کوئی شریک نہیں، نہ زات میں نہ صفات میں اور نہ عبادات میں۔ اے اللہ ہمارے گناہوں سے درگز فرما، ہمارے اور ہمارے گناہوں کے درمیان اتنی دوری ڈال دے جتنی مشرق و مغرب کے درمیان ہے۔ اے اللہ ہمیں ہدایت دے بے شک جسے تو ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے تو گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا، یا اللہ ہمیں آگ سے بچا بلاشبہ جسے تو نے آگ سے بچا لیا وہ کامیاب ہو گیا۔ اے اللہ ہمارا خاتمہ توحید پر، ایمان پر اور ہدایت پر کرنا۔ آمین یا رب العالمین۔

منگل، 31 جنوری، 2017

ضعیف احادیث. اور سوره یسین

ضعیف احادیث.   اور سوره یسین  ()()()()()()()(()()()()()()()()(()()()()()().         روایت سنن الدارمی(ج۲ص۴۵۷ح۳۴۲۱وطبعۃ محققۃ ح ۳۴۶۱) میں ‘‘عطاء بن ابی رباح ( تابعی) قال: بلغنی ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال’’ کی سند سے موجود ہے اور دارمی ہی سے صاحبِ مشکوۃ نے (ح ۲۱۷۷ بتحقیقی) نقل کی ہے۔


یہ روایت مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے اور ‘‘بلغني’’ کا فاعل نامعلوم ہے۔


سورۃ یٰس کی فضیلت میں درج زیل مرفوع روایات بھی ضعیف و مردود ہیں۔

۱: ‘‘إن لکل شئ قلباً و قلب القرآن یٰس و من قرأ یٰس کتب اللہ لہ بقرأ تھا قراء ۃ القرآن عشر مرات’’ (جامع ترمذی ح ۲۸۸۷من حدیث قتادہ عن انس رضی اللہ عنہ و تبلیغی نصاب ص ۲۹۲ فضائل قرآن ص ۵۸)امام ترمذی  اس روایت کے ایک راوی ہارون  ابو محمد کے بارے  میں فرماتے ہیں‘‘شیخ مجہول’’ لہذا یہ روایت ہارون مزکور کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے موضوع قرار دیا  ہے۔ (الضعیفۃ ج ۱ص۲۰۲ح ۱۶۹)
امام ابو حاتم الرازی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس حدیث کا راوی: مقاتل بن سلیمان (کذاب) ہے (علل الحدیث ج۲ص ۵۶ح ۱۶۵۲)جبکہ سنن ترمذی و سنن الدارمی(ج۲ص۴۵۶ح۳۴۱۹) تاریخ بغداد(ج۴ص۱۶۷)میں مقاتل بن حیان (صدوق) ہے۔ واللہ اعلم درج بالا روایت کا ترجمہ جناب زکریا صاحب تبلیغی دیوبندی نے درج ذیل الفاظ میں لکھا ہے۔

‘‘ہر چیز کے لئے ایک دل ہوا کرتا ہے۔ قرآن شریف کا دل سورۃ یٰس ہے جو شخص سورۃ یٰس پڑھتا ہے حق تعالیٰ شانہ، اس کے لئے دس قرآنوں کا ثواب لکھتا ہے’’۔

۲:اس باب میں سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ والی روایت کے بارے میں امام ترمذی نے لکھا ہے کہ ‘‘ ولا یصح من قبل إسنادہ و إسنادہ ضعیف’’[ترمذی:۲۲۸۸۷]

۳: ‘‘إن لکل شئي قلباً و قلب القرآن یٰس’’ (کشف الاستار عن زوائد البزارج ۳ص۸۷ح۲۳۰۴من حدیث عطاء عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ)
اس حدیث کے بارے میں شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

‘‘وحمید ھذا مجھول کما قال الحافظ فی التقریب و عبدالرحمن بن الفضل شیخ البزارلم أعرفہ ’’ (الضعیفہ ج۱ص۲۰۴)
یعنی اس کا (بنیادی) راوی حمید( المکی مولیٰ آل علقمۃ /تفسیر ابن کثیر ۳؍۵۷۰) مجہول ہے جیسا کہ حافظ (ابن حجر) نے تقریب التھذیب میں کہا ہے اور بزار کے استاد: عبدالرحمن بن الفضل کو میں نے نہیں پہچانا۔

۴: ‘‘ من قرأ یٰس فی لیلۃ أصبح مغفوراًلہ۔۔’’ الخ
(مسند ابی یعلی ج ۱۱ص ۹۳ ، ۹۴ح ۶۳۲۴وغیرہ من طریق ھشام بن زیاد عن الحسن قال: سمعت اباھریرۃ بہ)
اس روایت کی سند سخت ضعیف ہے۔ ہشام بن زیاد متروک ہے (تقریب ص ۳۶۴ت:۷۲۹۲)


۵:‘‘من قرأ یٰس فی لیلۃ ابتغاء وجہ اللہ غفر لہ فی تلک اللیلۃ’’ (الدارمی ح ۳۴۲۰وغیرہ)
اس روایت کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔ حسن بصری کی سیدنا ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ مدلس ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں۔


۶۔‘‘من قرأ یٰس فی لیلۃ ابتغاء وجہ اللہ غفر لہ’’
(صحیح ابن حبان: موارد الظمآن ح ۶۶۵وغیرہ عن الحسن (البصری) عن جندب رضی اللہ عنہ بہ)
اس روایت کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ابو حاتم رازی نے کہا:‘‘ لم یصح للحسن سماع من جندب’’ (المراسیل ص۴۲) نیز دیکھئے حدیث سابق:۵


۷۔‘‘من قرأیٰس ابتغاء وجہ اللہ تعالیٰ غفرلہ ما تقدم من ذنبہ فاقرؤ و ھا عند موتاکم ’’ (البیہقی فی شعب الایمان ح ۲۴۵۸من حدیث معقل بن یسار رضی اللہ عنہ)
اس کی سند ایک مجہول راوی: ابو عثمان غیر النہدی اور اس کے باپ کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے۔
یہ روایت مختصراً مسند احمد(۵؍۲۶ ، ۲۷) مستدرک الحاکم ۱؍۵۶۵) اور صحیح ابن حبان(الاحسان۷؍۲۶۹ح ۲۹۹۱ و نسخہ محققہ ح ۳۰۰۲) و سنن ابی داؤد(۳۱۲۱)و سنن ابن ماجہ (۱۴۴۸) میں موجود ہے، اس حدیث کو امام دار قطنی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ مسند احمد (۴؍۱۰۵) میں اس کا ایک ضعیف شاہد بھی ہے۔


     ۸۔‘‘من قرأیٰس فی لیلۃ أصبح مغفوراً لہ’’ (حلیۃ الاولیاء۴/۱۳۰من حدیث عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) اس کی سند ابو مریم عبدالغفار بن القاسم الکوفی کی وجہ سے موضوع ہے۔ ابو مریم مذکور کذاب وضاع تھا۔ دیکھئے لسان المیزان(ج۴ص۵۰ ، ۵۱)


۹۔‘‘من قرأ یٰس عدلت لہ عشرین حجۃ ومن کتابھا ثم شربھا أدخلت جوفہ ألف یقین و ألف رحمۃ و نزعت منہ کل غل    وداء’’ (حلیۃ الاولیاءج۷ص۱۳۶) من حدیث الحارث(الأعور) عن علي بہ’’ یہ روایت حارث اعور کے شدید ضعف (مع تدلیس أبی اسحاق) کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔


۱۰۔‘‘لوددت إنھا في قلب کل إنسان من أمتي یعنی یٰس’’
(البزار: کشف الاستار۳؍۸۷ح۲۳۰۵من حدیث ابن عباس)
اس کا راوی ابراھیم بن الحکم بن ابان ضعیف ہے۔ (تقریب:۱۶۶(


۱۱۔ ‘‘من قرأ سورۃ یس وھو فی سکرات الموت أو قریب عندہ جاء ہ خازن الجنۃ بشربۃ من شراب الجنۃ فسقاھا إیاہ وھو علی فراشہ فیشرب فیموت ریان ویبعث ریان ولا یحتاج إلی حوض من حیاض الأنبیاء’’ (الوسیط للواحدی۳؍۵۰۹)
یہ روایت موضوع ہے۔ یوسف بن عطیہ الصفار متروک (دیکھئے تقریب التہذیب:۷۸۷۲) اور ہارون بن کثیر مجہول ہے دیکھئے لسان المیزان(ج۶ص۲۱۸)


۱۲:‘‘من قرأیس فکأنما قرأ القرآن عشر مرات’’ (شعب الایمان للبیھقی ح۲۴۵۹)
یہ روایت حسان بن عطیہ کی وجہ سے مرسل ہے، اسماعیل بن عیاش مدلس ہے۔ (طبقات المدلسین:۶۸ ؍۳)


۱۳:‘‘سورۃ یٰس تدعی فی التوراۃ المنعمۃ۔۔۔’’ الخ
(شعب الایمان ح۲۴۶۵ و الضعفاء للعقیلی ج ۲ص۱۴۳، الامالی للشجری ج ۱ص۱۱۸تاریخ بغداد للخطیب ج ۲ص۳۸۷ ، ۳۸۸و الموضوعات لابن الجوزی ص۳۴۷ج او تبلیغی نصاب ص۲۹۲ ، ۲۹۳ فضائل قرآن ص ۵۸ ، ۵۹)
اس روایت کی سند موضوع ہے محمد بن عبدالرحمن بن ابی بکر الجد عانی متروک الحدیث ہے اور دوسرے کئی راوی مجہول ہیں امام بیہقی فرماتے ہیں‘‘ وھو منکر’’ امام عقیلی نے بھی اسے منکر قرار دیا ہے۔ اس کی ایک دوسری سند تاریخ بغداد اور الموضوعات لابن الجوزی میں ہے۔ اس کا راوی محمد بن عبد بن عامر السمر قندی کذاب اور چور تھا۔


۱۴:‘‘إنی فرضت علی أمتی قراء ۃ یس کل لیلۃ فمن دام علی قراء تھا کل لیلۃ ثم مات مات شھیداً’’ (الأ مالی للشجری ج ۱ص۱۱۸)
یہ روایت موضوع ہے۔ اس کے کئی راویوں  مثلاً عمر بن سعد الوقاصی ، ابو حمض بن عمر بن حفص اور ابو عا مر محمد بن عبدالرحیم کی عدالت نامعلوم ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ سورت یا سین کی فضیلت کی تمام مرفوع روایات ضعیف و مردود ہیں۔


 امام دارمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : ‘‘حدثنا عمر و بن زرارۃ : حدثنا عبدالوھاب: حدثنا راشد أبو محمد الحماني عن شھر  بن حوشب قال: قال ابن عباس: من قرأ یٰس حین یصبح، أعطي یسر یومہ حتی یمسي، ومن قرأھا فی صدر لیلۃ أعطي یسر لیلتہ حتی یصبح’’
ہمیں عمر و بن زرارہ نے حدیث بیان کی: ہمیں عبدالوہاب الثقفی نے حدیث بیان کی: ہمیں راشد ابو محمد الحمانی نے حدیث بیان کی، وہ شہر بن حوشب سے بیان کرتے ہیں کہ (سیدنا) ابن عباس (رضی اللہ عنہما) نے فرمایا: جو شخص صبح کے وقت یاسین پڑھے تو اسے شام تک آسانی عطا ہو گی اور جو شخص رات کے وقت یاسین پرھے تو اسے صبح تک آسانی عطا ہو گی۔ (یعنی اس کے دن و رات آرام و راحت سے گزریں گے) [سنن الدارمی۱؍۴۵۷ح ۳۴۲۲دوسرا نسخہ: ۳۴۶۲و سندہ حسن]


اس روایت کے راویوں کا مختصر تعارف درج ذیل ہے۔


۱: عمر و بن زرارہ: ثقۃ ثبت [تقریب التہزیب : ۵۰۳۲]
۲: عبدالوھاب الثقفی: ثقۃ تغیر قبل موتہ بثلاث سنین[التقریب:۴۲۶۱]لکنہ ما ضر تغیرہ حدیثہ فإنہ ماحدث بحدیث فی زمن التغیر[میزان الاعتدال ۲؍۶۸۱]
۳:راشد بن نجیح الحمانی: صدوق ربما أخطأ[تقریب التہذیب: ۱۸۵۷]وحسن لہ البوصیري [زوائد ابن ماجہ:۳۳۷۱]یہ حسن الحدیث راوی ہے۔

۴:شہر بن حوشب مختلف فیہ راوی ہے، جمہور محدثین نے اس کی توثیق کی ہے(کما حققتہ في کتابي:تخریج النھایۃ فی الفتن و الملاحمص۱۱۹ ، ۱۲۰) حافظ ابن کثیر اس کی ایک روایت کو حسن کہتے ہیں(مسند الفاروق ج ۱ص ۲۲۸لہذا ہماری تحقیق کے مطابق یہ راوی حسن الحدیث ہے۔ واللہ اعلم خلاصہ یہ کہ یہ سند حسن لذاتہ ہے۔ مزید  تحقیقی   مقلاا ت             www.mominsalafi.blogspot.com