اپنی زبان منتخب کریں

ہفتہ، 18 مئی، 2019

رمضان المبارک کا استقبال کیسے کریں؟

ہم رمضان المبارک کا استقبال کیسے کریں؟
اللہ تعالیٰ نے اس ماہ مبارک کو بہت سے خصائص وفضائل کی وجہ سے دوسرے مہینوں کے مقابلے میں ایک ممتاز مقام عطا کیاہے جیسے:
ا س ماہ مبارک میں قرآن مجید کا نزول ہوا:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ (البقرہ:2/185)
اس کے عشرہ اخیر کی طاق راتوں میں ایک قدر کی رات(شب قدر) ہوتی ہے جس میں اللہ کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے:
لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ (القدر 97/3)
"شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے"
ہزار مہینے 83 سال اور 4 مہینے بنتے ہیں۔عام طور پر ایک انسان کو اتنی عمر بھی نہیں ملتی۔یہ امت مسلمہ پر اللہ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے اسے اتنی فضیلت والی رات عطا کی۔
رمضان کی ہر رات کو اللہ تعالیٰ اپنےبندوں کو جہنم سے آزادی عطا فرماتے ہیں۔
اس میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کےدروازے بند کردیئے جاتے ہیں۔
سرکش شیاطین کو جکڑ دیاجاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ روزانہ جنت کو سنوارتا اور مزین فرماتا ہے اور پھر جنت سے خطاب کرکے کہتا ہے کہ :
"میرے نیک بندے ا س ماہ میں اپنےگناہوں کی معافی مانگ کر اورمجھے راضی کرکے تیرے پاس آئیں گے۔

رمضان کی آخری رات میں روزے داروں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔اگر انہوں نے صحیح معنوں میں روزے رکھ کر ان کےتقاضوں کو پورا کیا ہوگا۔
فرشتے،جب تک روزے دار روزہ افطار نہیں کرلیتے،ان کے حق میں رحمت ومغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔
روزے دار کے منہ کی بو اللہ کے ہاں کستوری کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ اور خوشگوار ہے۔
یہ اس مہینے کی چندخصوصیات اور فضیلتیں ہیں۔اب ہمیں سوچنا ہے کہ ہم کیسے اس کا استقبال کریں؟کیا ویسے ہی جیسے ہر مہینے کا استقبال ہم اللہ کی نافرمانیوں اور غفلت سے کرتے ہیں؟یا اس اندازے سے کہ ہم اس کی خصوصیات اور فضائل سے بہرہ ور ہوسکیں؟اور جنت میں داخلے کے اور جہنم سے آزادی کے مستحق ہوسکیں؟
اللہ کے نیک بندے اس کا استقبال اس طرح کرتے ہیں کہ غفلت کے پردے چاک کردیتے ہیں اور بارگاہ الٰہی میں توبہ واستغفار کے ساتھ یہ عزم صادق کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اس ماہ مبارک کی عظمتوں اور سعادتوں سے ایک مرتبہ پھر نوازا ہے تو ہم اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے اس کی فضیلتیں حاصل کریں گے اور ا پنے اوقات کو اللہ کی عبادت کرنے ،اعمال صالحہ بجا لانے اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹنے میں صرف کریں گے۔اس لیے ضروری ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ اس مہینے کے کون سے وہ اعمال صالحہ ہیں جن کی خصوصی فضیلت اور تاکید بیان کی گئی ہے۔

رمضان المبارک ک خصوصی اعمال ووضائف:۔
1۔روزہ:۔
ان میں سب سے اہم عمل،روزہ رکھنا ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعمِائَة ضِعْفٍ ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : إِلا الصَّوْمَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ ، يدع طعامه وشهوته من أجلي ، للصائم فرحتان : فرحة عند لقاء ربه ولخلوف فم الصائم اطيب عند الله من ريح المسك (صحیح بخاری ،باب فضل الصوم،رقم 1893 مسلم باب فضل الصیام رقم 163۔165۔واللفظ لمسلم)
"انسان جو بھی نیک عمل کرتا ہے ،اس کا اجراسے دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ملتا ہے۔لیکن روزے کے بابت اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ یہ عمل(چونکہ) خالص میرے لیے ہے،اس لیے میں ہی اس کی جزادوں گا۔(کیونکہ) روزے دار صرف میر ی خاطر اپنی جنسی خواہش،کھانا ور پینا چھوڑتا ہے۔روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں:ایک خوشی اسے روزہ کھولتے وقت حاصل ہوتی ہے اور دوسری خوشی اسے اس وقت حاصل ہوگی جب وہ اپنے رب سے ملے گا اور روزے دار کے منہ کی بو اللہ کے ہاں کستوری سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے"
ایک دوسری روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (صحیح بخاری،الصوم،باب من صام رمضان ایمانا واحتسابا ونیة رقم:1901)
"جس نے رمضان کے روزےایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے(یعنی اخلاص سے)رکھے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں"
یہ فضیلت اور اجرعظیم صرف کھانا پینا چھوڑ دینے سے حاصل نہیں ہوجائے گا،بلکہ اس کا مستحق صرف وہ روزے دار ہوگا جو صحیح معنوں میں روزوں کے تقاضے بھی پورے کرے گا۔جیسے جھوٹ سے،غیبت سے،بدگوئی اورگالی گلوچ سے ،دھوکہ فریب دینے سے اور اس قسم کی تمام بے ہودگیوں اور بدعملیوں سے بھی اجتناب کرے گا۔اس لیے کہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
(من لم يدع قول الزور والعمل به فليس لله حاجة في أن يدع طعامه وشرابه(صحیح بخاری الصوم باب من لم یدع قول الزور والعمل به رقم:1903)
"جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا،تواللہ تعالیٰ کو کوئی حاجت نہیں کہ یہ شخص اپنا کھانا پینا چھوڑے"۔۔۔اور فرمایا:
"الصيام جنةوإذا كان يوم صوم أحدكم فلا يرفث، ولا يصخب فإن سابه أحد، أو قاتله فليقل: إني امرؤ صائم"
"روزہ ایک ڈھال ہے۔جب تم میں سے کسی کا روزے کا دن ہو،تو وہ نہ دل لگی کی باتیں کرے اور نہ شوروشغب۔اگر کوئی اسے گالی دے یالڑنے کی کوشش کرے تو(اس کو) کہہ دے کہ میں تو روزے دار ہوں"(بخاری رقم 1903 مسلم رقم1151 باب 29۔30)
یعنی جس طرح ڈھال کےذریعے سے انسان دشمن کے وار سے اپنا بچاؤ کرتا ہے۔اس طرح جو روزے دار روزے کی ڈھال سے اللہ کی نافرمانی اور گناہوں سے بچے گا۔گویا اس کے لیے ہی یہ روزہ جہنم سے بچاؤ کے لیے ڈھال ثابت ہوگا۔اس لیے جب ایک مسلمان روزہ رکھے،تو اس کے کانوں کا بھی روزہ ہو،اس کی آنکھ کابھی روزہ ہو،اس کی زبان کا بھی روزہ ہو،اور اسی طرح اس کے دیگراعضاء وجوارح کا بھی روزہ ہو۔یعنی اس کاکوئی بھی عضو اور جزاللہ کی نافرمانی میں استعمال نہ ہو۔اور اس کی روزے کی حالت اور غیر روزے کی حالت ایک جیسی نہ ہو بلکہ ان دونوں حالتوں اور دونوں میں فرق وامتیاز واضح اور نمایاں ہو۔

2۔قیام اللیل:۔
دوسرا عمل،قیام اللیل ہے۔یعنی راتوں کو اللہ کی عبادت اور اس کی بارگاہ میں عجزونیاز کا اظہار کرنا۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے عبادالرحمان(رحمان کے بندوں) کی جو صفات بیان فرمائی ہیں ،ان میں ایک یہ ہے:
وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّداً وَقِيَاماً(الفرقان:25/63)
"ان کی راتیں اپنے رب کے سامنے قیام وسجود میں گزرتی ہیں"
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (صحیح بخاری صلاۃ التراویح باب فضل من قام رمضان رقم 2009 مسلم صلاۃ المسافرین باب الترغیب فی قیام رمضان وھو التراویح رقم 759)
"جس نے رمضان(کی راتوں) میں قیام کیا،ایمان کی حالت میں ،ثواب کی نیت(اخلاص) سے ،تو اسکے پچھلے گناہ معاف کردیئے جائیں گے"
راتوں کا قیام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی مستقل معمول تھا ،صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ بھی اس کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے اور ہر دور کے اہل علم وصلاح اور اصحاب زہدو تقویٰ کا یہ امتیاز رہاہے۔خصوصاً رمضان المبارک میں اس کی بڑی اہمیت اور فضیلت ہے۔رات کا یہ تیسراآخری پہر اس لیے بھی بڑی اہمیت رکھتاہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ ہر روز آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور اہل دنیا سے خطاب کرکے کہتا ہے:
"کون ہے جو مجھ سے مانگے،تو میں اس کی دعا قبول کروں؟کون ہے جو مجھ سے سوال کرے،تو میں اس کو عطا کروں؟کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے ،تو میں اسے بخش دوں؟"
"يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ يَقُولُ: مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ "(البخاری ،کتاب التہجد باب الدعاء والصلاۃ من آخر اللیل رقم:1135)

3۔صدقہ وخیرات:۔
تیسرا صدقہ وخیرات کرنا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -اجود الناس وَكَانَ اجود مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْانَ، فَلَرَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -اجود بِالْخَيْرِ مِنْ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ‏. ‏ (مسلم الفضائل باب12 رقم 2208)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھلائی کے کاموں میں سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے تھے اور آپ کی سب سے زیادہ سخاوت رمضان کے مہینے میں ہوتی تھی۔۔۔اس مہینے میں(قرآن کا دور کرنے کے لیے) آپ سے جب جبرئیل علیہ السلام ملتے،تو آپ کی سخاوت اتنی زیادہ اور اس طرح عام ہوتی جیسے تیز ہوا ہوتی ہے ،بلکہ اس سے بھی زیادہ"

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک میں عام دنوں کے مقابلے میں صدقہ وخیرات کا اہتمام کرنا چاہیے۔
صدقہ و خیرات کا مطلب ہے ،اللہ کی رضا جوئی کے لیے فقراء مساکین ،یتامی وبیوگان اور معاشرے کے معذور اور بے سہارا افراد کی ضروریات پر خرچ کرنا اور ان کی خبر گیری کرنا۔بے لباسوں کو لباس پہنانا، بھوکوں کو غلہ فراہم کرنا،بیماروں کا علاج معالجہ کرنا،یتیموں اور بیواؤں کی سر پرستی کرنا،معذوروں کاسہارا بننا،مقروضوں کو قرض کے بوجھ سے نجات دلا دینا اور اس طرح کےدیگر افراد کے ساتھ تعاون وہمدردی کرنا۔

سلف صالحین میں کھانا کھلانے کا ذوق وجذبہ بڑاعام تھا،اور یہ سلسلہ بھوکوں اور تنگ دستوں کو ہی کھلانے تک محدود نہ تھا ،بلکہ دوست احباب اور نیک لوگوں کی دعوت کرنا کا بھی شوق فراواں تھا،اس لیے کہ اس سے آ پس میں پیارومحبت میں اضافہ ہوتاہے اور نیک لوگوں کی دعائیں حاصل ہوتی ہیں جن سےگھروں میں خیر وبرکت کا نزول ہوتا ہے۔

4۔روزے کھلوانا:۔
ایک عمل روزے کھلوانا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ غَيْرَ أَنَّهُ لا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شَيْئًا" (ترمذی الصوم باب ماجاء فی فضل من فطر رقم 807)
"جس نے کسی روزے دار کا روزہ کھلوایا،تو اس کو بھی روزے دار کی مثل اجر ملے گا،بغیر اس کے کہ اللہ روزے دار کے اجر میں کوئی کمی کرے"
ایک دوسری حدیث میں فرمایا:
مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا أَوْ جَهَّزَ غَازِيًا فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ (صحیح الترغیب 2901)
"جس نے کسی روزے دار کا روزہ کھلوایا یا کسی مجاہد کوتیار کیا(سامان حرب دے کر) تو اس کے لیے بھی اس کی مثل اجر ہے"

5۔کثرت تلاوت:۔
قرآن کریم کا نزول رمضان المبارک میں ہوا،اس لیے قرآن کریم کا نہایت گہراتعلق رمضان المبارک سے ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس ماہ مبارک میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کریم کادور فرمایا کرتے تھے اور صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہ بھی اس ماہ میں کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کااہتمام کرتے تھے،ان میں سے کوئی دس دن میں،کوئی سات دن اور کوئی تین دن میں قرآن ختم کرلیا کرتا تھا اور بعض کی بابت آتا ہے کہ وہ اس سے بھی کم مدت میں قرآن ختم کرلیتے تھے۔
بعض علماء نے کہا ہے کہ:
حدیث میں تین دن سے کم میں قرآن کریم ختم کرنے کی جو ممانعت ہے، اس کا تعلق عام حالات وایام سے ہے ۔فضیلت والے اوقات اور فضیلت والے مقامات اس سے مستثنیٰ ہیں۔یعنی ان اوقات اور مقامات میں تین دن سے کم میں قرآن مجید ختم کرنا جائز ہے۔جیسے رمضان المبارک کےشب وروز ،بالخصوص شب قدر ہے۔یا جیسے مکہ ہے جہاں حج یا عمرے کی نیت سے کوئی گیا ہو۔ان اوقات اور جگہوں میں چونکہ انسان ذکر وعبادت کا کثرت سے اہتمام کرتاہے،اس لیے کثرت تلاوت بھی مستحب ہے۔"

تاہم حدیث کے عموم کو ملحوظ رکھنا اور کسی بھی وقت یا جگہ کو اس سے مستثنیٰ نہ کرنا ،زیادہ صحیح ہے،توجہ اور اہتمام سے روزانہ دس پاروں کی تلاوت بھی کافی ہے،باقی اوقات میں انسان دوسری عبارات کا اہتمام کرسکتاہے یا قرآن کریم کے مطالب ومعانی کے سمجھنے میں صرف کرسکتا ہے۔کیونکہ جس طرح تلاوت مستحب ومطلوب ہے،اسی طرح قرآن میں تدبر کرنا اور اس کے مطالب ومعانی کو سمجھنا بھی پسندیدہ اور امر موکد ہے۔

6۔تلاوت قرآن میں خوف وبکاء کی مطلوبیت:۔
قرآن کریم کو پڑھتے اور سنتے وقت انسان پر خوف اور رقت کی کیفیت بھی طاری ہونی چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب پڑھنے اور سننے والے مطالب ومعانی سے بھی واقف ہوں۔اسی لیے قرآن کو شعروں کی سی تیزی اور روانی سے پڑھنے کی ممانعت ہے ،جس کا مطلب یہی ہے کہ قرآن کومحض تاریخ وقصص کی کتاب نہ سمجھا جائے بلکہ اسے کتاب وہدایت سمجھ کر پڑھا جائے،آیات وعد ووعید اور انذار وتبیشیر پر غور کیا جائے،
جہاں اللہ کی رحمت ومغفرت اور اس کی بشارتوں اور نعمتوں کا بیان ہے وہاں اللہ سے ان کا سوال کیا جائے اور جہاں اس کے انذار وتخویف اور عذاب ووعید کاتذکرہ ہو،وہاں ان سے پناہ مانگی جائے۔ہمارے اسلاف اس طرح غوروتدبر سے قرآن پڑھتے تو ان بعض دفعہ ایسی کیفیت اور رقت طاری ہوتی کہ بار بار وہ ان آیتوں کی تلاوت کرتے اور خوب بارگاہ الٰہی میں گڑگڑاتے ۔اگر سننے والے بھی غوروتدبر سے سنیں تو ان پر بھی یہی کیفیت طاری ہوتی ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:"اقرا علي " مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ"حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا:"اقرا عليك وعليك انزل"میں آپ کو پڑھ کر سناؤں؟حالانکہ آپ پرتو قرآن نازل ہواہے"آپ نے فرمایا:"اني احب ان اسمعه من غيري"میں اپنے علاوہ کسی اور سے سننا چاہتا ہوں"چنانچہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورہ نساء پڑھنی شروع کردی۔جب وہ اس آیت پر پہنچے:
"فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَٰؤُلَاءِ شَهِيدًا "
"اس وقت کیا حال ہوگاجب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ حاضر کریں گے اور(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !) ان سب پر آپ کو گواہ بنائیں گے۔"(النساء 4/41)
تو آپ نے فرمایا:"حسبك"بس کرو"حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا تو آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔(صحیح بخاری،تفسیر سورۃالنساء ،رقم الحدیث ،4582)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح غوروتدبر سے قرآن پڑھتے اور اس سے اثر پذیر ہوتے کہ جن سورتوں میں قیامت کی ہولناکیوں کابیان ہے آپ فرماتے ہیں کہ انہوں نے مجھے بڑھاپے سے پہلے بوڑھا کردیا ہے:
شيبتني هود و أخواتها قبل المشيب (طبرانی کبیر بحوالہ الصحیحۃ رقم 955)
دوسری روایت میں ہے:
شَيَّبَتْنِى هُودٌ وَالْوَاقِعَةُ وَالْمُرْسَلاَتُ وَ (عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ) 
مجھے سورہ ہود(اور اس جیسی دوسری سورتوں) سورہ واقعہ ،مرسلات اور(عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ) نے بوڑھا کردیاہے"(ترمذی بحوالہ صحیح الجامع الصغیر 1/692)
اللہ کے خوف سے ڈرنا اور رونا،اللہ کو بہت محبوب ہے۔ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"سات آدمیوں کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا،ان میں ایک وہ شخص ہوگا جس کی آنکھوں سے تنہائی میں اللہ کے ذکر اور اس کی عظمیت وہیبت کے تصور سے آنسو جاری ہوجائیں۔
"رجل ذكر الله خاليا ففاضت عيناه" (صحیح بخاری الاذان،باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلاۃ۔رقم 660 ورقم 6479)
ایک واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ:
"پچھلی امتوں میں ایک شخص تھا ،اللہ نے اس کومال ودولت سے نوازاتھا،لیکن وہ سمجھتا تھا کہ میں نے اس کا حق ادا نہیں کیا اور بہت گناہ کیے ہیں۔چنانچہ موت کے وقت اس نے اپنے بیٹوں کو بلا کروصیت کی کہ میری لاش جلا کر اس کی راکھ تیز ہوا میں اڑادینا(بعض روایات میں ہے کہ سمندر میں پھینک دینا)چنانچہ اس کے بیٹوں نے ایسا ہی کیا۔اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم سے اس کے اجزاء کوجمع کیا اور اس سے پوچھا:" تو نے ایسا کیوں کیا؟"اس نے کہا صرف تیرے خوف نے مجھے ایسا کرنے پرآمادہ کیا۔تو اللہ تعالیٰ نے اسے معاف فرمادیا۔"(صحیح بخاری الرقاق رقم 6481۔الانبیاءرقم :3452۔3478۔3479)
بہرحال اللہ کا خوف اپنے دل میں پیدا کرنے کی سعی کرنی چاہیے اور اس کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت غوروتدبر سے کی جائے اور اس کے معانی ومطالب کو سمجھا جائے اور اللہ کی عظمت وجلالت کوقلب وذہن میں مستحضر کیاجائے۔

7۔اعتکاف:۔
رمضان کی ایک خصوصی عبادت اعتکاف ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کابھی خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔رمضان کے آخری دس دن ،رات دن مسجد کے ایک گوشے میں گزارتے اور دنیوی معمولات اور تعلقات ختم فرمادیتے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اتنی پابندی سے اعتکاف فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ آپ اعتکاف نہ بیٹھ سکے،تو آپ نے شوال کے آخری دس دن اعتکاف فرمایا:(صحیح بخاری) اور جس سال آپ کی وفات ہوئی،اس سال آپ نے رمضان میں دس دن کی بجائے 20 دن اعتکاف فرمایا:(صحیح بخاری ،الاعتکاف،رقم 2044)
اعتکاف کے معنی ہیں"جھک کر یکسوئی سے بیٹھ رہنا"اس عبادت میں انسان صحیح معنوں میں سب سے کٹ کر اللہ کے گھر میں یکسو ہوکر بیٹھ جاتا ہے۔اس کی ساری توجہ اس امر پر مرکوز رہتی ہے کہ اللہ مجھ سے راضی ہوجائے۔چنانچہ وہ اس گوشہ خلوت میں بیٹھ کر توبہ واستغفار کرتاہے۔نوافل پڑھتا ہے ،ذکر وتلاوت کرتاہے۔دعاء التجا کرتاہے اور یہ سارے ہی کام عبادات ہیں۔اس اعتبار سے اعتکاف گویا مجموعہ عبادات ہے۔اس موقع پر اعتکاف کے ضروری مسائل میں بھی سمجھ لینے مناسب ہیں:
اس کا آغاز 20 رمضان المبارک کی شام سے ہوتا ہے۔معتکف مغرب سے پہلے مسجد میں آجائے اور صبح فجر کی نماز پڑھ کر معتکف (جائے اعتکاف) میں داخل ہو۔
اس میں بلا ضرورت مسجد سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔
بیمار کی مزاج پرسی،جنازے میں شرکت اور اس قسم کے دیگر رفاہی اور معاشرتی امور میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔
البتہ بیوی آکر مل سکتی ہے ،خاوند کے بالوں میں کنگھی وغیرہ کرسکتی ہے۔خاوند بھی اسے چھوڑنے کے لیے گھر تک جاسکتاہے۔اسی طرح کوئی انتظام نہ ہو اور گھر بھی قریب ہو تو اپنی ضروریات زندگی لینے کے لیے گھر جاسکتا ہے۔
غسل کرنے اور چارپائی استعمال کرنے کی بھی اجازت ہے۔
اعتکاف جامع مسجد میں کیاجائے،یعنی جہاں جمعہ کی نماز ہوتی ہو۔
عورتیں بھی اعتکاف بیٹھ سکتی ہیں،لیکن ان کے لیے اعتکاف بیٹھنے کی جگہ مساجد ہی ہیں نہ کہ گھر۔جیسا کہ بعض مذہبی حلقوں میں گھروں میں اعتکاف بیٹھنے کا سلسلہ ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی اعتکاف بیٹھتی رہی ہیں اور ان کے خیمے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی لگتے تھے،جیسا کہ صحیح بخاری میں وضاحت موجود ہے اور قرآن کریم کی آیت:
وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ (البقرہ:187) سے بھی واضح ہے۔
اس لیے عورتوں کا گھروں میں اعتکاف بیٹھنے کا رواج بے اصل اور قرآن وحدیث کی تصریحات کے خلاف ہے۔تاہم چونکہ یہ نفلی عبادت ہے بنا بریں جب تک کسی مسجد میں عورتوں کے لیے الگ مستقل جگہ نہ ہو،جہاں مردوں کی آمدورفت کا سلسلہ بالکل نہ ہو،اس وقت تک عورتوں کی مسجدوں میں اعتکاف نہیں بیٹھنا چاہیے۔
ایک فقہی اصول ہے:دراالمفاسد اولي من جلب المصالح یعنی خرابیوں سے بچنا اور ان کے امکانات کو ٹالنا مصالح حاصل کرنے کے بہ نسبت ،زیادہ ضروری ہے۔"اس لیے جب تک کسی مسجدمیں عورت کی عزت وآبرو محفوظ نہ ہو،وہاں اس کے لیے اعتکاف بیٹھنا مناسب نہیں۔
لیلۃ القدر کی تلاش:۔
لیلۃ القدر جس کی فضیلت یہ ہے کہ ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے ،یہ بھی رمضان کے آخری عشرے کی پانچ طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہوتی ہے۔اور اسے مخفی رکھنے میں بھی یہی حکمت معلوم ہوتی ہے کہ ایک مومن اس کی فضیلت حاصل کرنے کے لیے پانچوں راتوں میں اللہ کی خوب عبادت کرے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی فضیلت میں بیان فرمایا ہے:
مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ "جس نے شب قدر میں قیام کیا(یعنی اللہ کی عبادت کی) اسکے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے"(صحیح بخاری،باب فضل لیلۃ القدر،باب رقم 1،رقم :2014)
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تلاش کرنے کی تاکید بھی فرمائی ہے۔فرمایا:
"إنّي رأيت ليلة القدر ثم أُنسيتها أو نسيتها فالتمسوها في العشر الأواخر في الوتر "
(صحیح مسلم،الصیام باب فضل لیلۃ القدر والحث علی علیھا۔۔۔رقم:1167)
"مجھے لیلۃ القدر دکھائی گئی تھی،لیکن(اب) اسے بھول گیا(یامجھے بھلا دیاگیا) پس تم اسے رمضان کے آخری دنوں کی طاق راتوں میں تلاش کرو"
یعنی ان طاق راتوں میں خوب اللہ کی عبادت کرو،تاکہ لیلۃ القدر کی فضیلت پاسکو۔
لیلۃ القدر کی خصوصی دعا:۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا،اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ یہ لیلۃ القدر ہے ،تومیں کیا پڑھوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ دعا پڑھو:
"اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ كَرِيمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي"
(ترمذی ،الدعوات باب 88 ،رقم:313)
"اے اللہ! توبہت معاف کرنے والا ہے ،معاف کرنا تجھے پسند ہے،پس تو مجھے معاف فرمادے"
آخری عشرے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول:۔
یہ بات واضح ہے کہ رمضان کے آخری عشرے میں ہی اعتکاف کیا جاتاہے اور اسی عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات لیلۃ القدر بھی ہے،جس کی تلاش وجستجو ان راتوں کو قیام کرنے اور ذکر وعبارت میں رات گزارنے کی تاکید ہے۔یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس عشرہ اخیر میں عبادت کے لیے خود بھی کمر کس لیتے اور اپنے گھر والوں کو بھی حکم دیتے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:
"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا دخل العشر أحيا الليل وأيقظ أهله وجد وشد المئزر "
(صحیح مسلم الصیام الاعتکاف باب الاجتہاد فی العشر الاواخر من رمضان رقم 1174)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتاتو رات کا بیشتر حصہ جاگ کر گزارتے اور اپنے گھروالوں کو بھی بیدار کرتے اور(عبادت میں) خوب محنت کرتے اور کمر کس لیتے"
ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:
"كَانَ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم يَجْتَهِدُ فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ -أي: من رمضان- مَا لاَ يَجْتَهِدُ فِي غَيْرِهِ"
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرے میں جتنی محنت کرتے تھے،اور دنوں میں اتنی محنت نہیں کرتے تھے"(حوالہ مذکور)
اس محنت اور کوشش سے مراد ،ذکر وعبادت کی محنت اور کوشش ہے۔اس لیے ہمیں بھی ان آخری دس دنوں میں اللہ کو راضی کرنے کے لیے ذکر وعبادت اور توبہ واستغفار کا خوب خوب اہتمام کرنا چاہیے۔
رمضان المبارک میں عمرہ کرنا:۔
رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کی بھی بڑی فضیلت ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت سے فرمایا:
"فإذا كان رمضان اعتمري فيه ، فإن عمرة في رمضان حجة "
(صحیح بخاری الحج کتاب المعمرۃ باب عمرۃ فی رمضان رقم1782)
اور بخاری کی دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں:
"حجة معي"
(بخاری فضائل المدینہ رقم:18263)
اس مقام پر اس عورت کا نام بھی ام سنان انصاریہ یہ بیان کیا گیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:
"جب رمضان آئے تو اس میں عمرہ کرنا،اس لیے کہ رمضان میں عمرہ کرناحج کے یامیرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے"
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معمول یہ بھی تھا کہ آپ اکثر فجر کی نماز پڑھ کر اپنے مصلےٰ پر تشریف رکھتے یہاں تک کہ سورج خوب چڑھ آتا۔
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا صَلَّى الْفَجْرَ جَلَسَ فِي مُصَلَّاهُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ حسناً (صحیح مسلم کتاب المساجد باب فضل الجلوس فی مصلاہ بعد الصبح وفضل المساجد 7رقم:680)
ایک اور حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
من صلى الفجر في جماعة، ثم قعد يذكر الله حتى تطلع الشمس، ثم صلى ركعتين، كانت له أجر حجة و عمرة تامة، تامة؟
(رواہ الترمذی حسنہ الالبانی فی تعلیق المشکوۃ 1/306 باب الذکر بعد الصلوۃ)
"جس نے فجر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی،پھر(مسجد میں) بیٹھا اللہ کا ذکر کرتارہا،یہاں تک کہ سورج نکل آیا،پھر اس نے دو رکعت نماز پڑھی ،تو اس کو ایک حج اور عمرے کی مثل اجر ملے گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:پورے حج وعمرے کا حج وعمرے کا،پورے حج وعمرے کا"
یہ فضیلت عام ہے،رمضان اور غیر رمضان دونوں حالت میں مذکورہ دو رکعتوں کی وہ فضیلت ہےجو اس میں بیان کی گئی ہے۔اسے اعمال رمضان میں بیان کرنے کامقصد یہ ہے کہ عام دنوں میں تو ہر مسلمان کے لیے اس فضیلت کا حاصل کرنا مشکل ہے۔تاہم رمضان میں ،جب کہ نیکی کرنے کا جذبہ زیادہ قوی اور ثواب کمانے کاشوق فراواں ہوتا ہے،اس لیے رمضان میں تو یہ فضیلت حاصل کرنے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔

کثرت دعا کی ضرورت:۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کے احکام ومسائل کے درمیان دعا کی ترغیب بیان فرمائی ہے:
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي (البقرہ:2/186)
"جب میرے بندے آپ سے میری بابت پوچھیں،تو میں قریب ہوں،پکارنے و الے کی پکار کو قبول کرتا ہوں جب بھی وہ مجھ کو پکارے ،لوگوں کو چاہیے کہ وہ بھی میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں"
اس سے علماء اور مفسرین نے استدلال کیا ہے کہ اس انداز بیان سے اللہ تعالیٰ کی یہ منشا معلوم ہوتی ہے کہ رمضان المبارک میں دعاؤں کا بھی خصوصی اہتمام کیاجائے،کیونکہ روزہ ایک تو اخلاص عمل بہترین نمونہ ہے،دوسرے ،روزے کی حالت میں انسان نیکیاں بھی زیادہ سے زیادہ کرتا ہے،راتوں کو اٹھ کر اللہ کی عبادت کرتا اور توبہ واستغفار بھی کرتاہے اور یہ سارے عمل انسان کو اللہ کے قریب کرنے والے ہیں۔
اس لیے اس مہینے میں اللہ تعالیٰ سے دعائیں بھی خوب کی جائیں،خصوصاً افطاری کے وقت اور رات کے آخری پہر میں،جب اللہ تعالیٰ خودآسمان دنیا پر نزول فرما کر لوگوں سے کہتاہے کہ مجھ سے مانگو،میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔تاہم قبولیت دعا کے لیے ضروری ہے کہ دعا کے آداب وشرائط کا بھی اہتمام کیا جائے جیسے:
1۔اللہ کی حمد وثنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ورود کا اہتمام۔
2۔حضور قلب اور خشوع کا اظہار۔
3۔اللہ کی ذات پر اعتماد ویقین۔
4۔تسلسل وتکرار سے دعا کرنا اور جلد بازی سے گریز۔
5۔صرف حلال کمائی پر قناعت اورحرام کمائی سے اجتناب وغیرہ۔
اس سلسلے میں چند ارشادات ملاحظہ ہوں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ادْعُوا اللَّهَ وَأَنْتُمْ مُوقِنُونَ بِالْإِجَابَةِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَجِيبُ دُعَاءً مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاهٍ". (ترمذی)
"اللہ سے اس طرح دعاکرو کہ تمھیں یہ یقین ہوکہ وہ ضرور دعا قبول فرمائے گا اور یہ بھی جان لو کہ اللہ تعالیٰ غافل ،بے پروا دل سے نکلی ہوئی دعا قبول نہیں فرماتا"
ایک اور حدیث میں فرمایا:
"لا يقولنَّ أحدكم: اللهمَّ اغفر لي إن شئت، اللهم ارحمني إن شئت. ليعزم في الدعاء؛ فإنَّ الله صانع ما شاء لا مكره له"
(صحیح بخاری الدعوات رقم:6339۔۔۔مسلم،کتاب الذکر والدعاء رقم:2679)
"جب تم میں سے کوئی دعا کرے ،تو اس طرح دعا نہ کرے:"اے اللہ اگر تو چاہے تو مجھے معاف کردے،اگر تو چاہے تو رحم فرما"بلکہ پورے یقین،اذعان اورالحاح واصرار سے دعا کرے،اس لیے کہ اسے کوئی مجبور کرنے والا نہیں"
ایک اور حدیث میں فرمایا:
"لا يَزالُ يُسْتَجَابُ لِلعَبْدِ مَا لَمْ يَدْعُ بإثْمٍ، أَوْ قَطيعَةِ رحِمٍ، مَا لَمْ يَسْتَعْجِلْ" قيل: يَا رسولَ اللهِ مَا الاستعجال؟ قَالَ: "يقول: قَدْ دَعوْتُ، وَقَدْ دَعَوْتُ، فَلَمْ أرَ يسْتَجِبُ لي، " فَيَسْتَحْسِرُ عِنْدَ ذَلِكَ وَيَدَعُ الدُّعَاءَ"
صحیح بخاری الدعوات باب12 رقم:634۔صحیح مسلم الذکر والدعاء باب25 رقم 2735 والفظ لمسلم)
"بندے کی دعا ہمیشہ قبول ہوتی ہے ،جب تک وہ گنا یاقطع رحمی کی دعا نہ ہو اور جلد بازی بھی نہ کی جائے۔پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جلد بازی کا مطلب کیاہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کہتا ہے ،میں نے دعاکی اور بار بار دعا کی۔لیکن ایسا نظر آتا ہے کہ میری دعا قبول نہیں ہوئی۔چنانچہ اس کے نتیجے میں وہ سست اور مایوس ہوجاتا اور دعا کرنا چھوڑ بیٹھتا ہے"
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر کرتا ہے ،پراگندہ حال،گردوغبار میں اٹا ہوا اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرتا اور کہتا ہے :
يا رَبُّ.. يا رَبُّ، وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُهُ حَرَامِ، وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَغُذِّيَ بِالْحَرَامَ، فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لَهُ؟ (صحیح مسلم الزکاۃ باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتھا رقم:1015)
"اے رب! اے رب! کرتے ہوئے دعا کرتاہے ،حالانکہ اس کا کھاناحرام کا ہے،اس کا پینا حرام کاہے اور اس کا لباس بھی حرام کا ہے،حرام کی غذا ہی اس کی خوراک ہے ،تو ایسے شخص کی دعا کیونکر قبول ہوسکتی ہے؟"
مذکورہ احادیث سے ان آداب وشرائط کی وضاحت ہوجاتی ہے جو اس عنوان کے آغاز میں بیان کئے گئے ہیں۔ان آداب وشرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے دعا کی جائے تو یقیناً وہ دعا قبول ہوتی ہے یا اس کے عوض کچھ اورفوائد انسان کو حاصل ہوجاتے ہیں۔جیسے ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ النَّبِيَّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ : (ما مِنْ مُسْلِمٍ يَدْعُو بِدَعْوَةٍ لَيْسَ فِيهَا إِثْمٌ وَلاَ قَطِيعَةُ رَحِمٍ إِلاَّ أَعْطَاهُ اللَّهُ بِهَا إِحْدَى ثَلاَثٍ إِمَّا أَنْ تُعَجَّلَ لَهُ دَعْوَتُهُ وَإِمَّا أَنْ يَدَّخِرَهَا لَهُ فِى الآخِرَةِ وَإِمَّا أَنُْ يَصْرِفَ عَنْهُ مِنَ السُّوءِ مِثْلَهَا ). قَالُوا: إِذاً نُكْثِرُ. قَالَ: اللَّهُ أَكْثَرُ (رواہ احمد)
"جو مسلمان بھی کوئی دعا کرتاہے۔بشرط یہ کہ وہ گناہ اور قطعی رحمی کی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے دعا کی وہ سے تین چیزوں میں سے ایک چیز ضرور عطا کر تا ہے،یاتو فی الفور اس کی دعا قبول کرلی جاتی ہے،یا اس کو اس کے لیے ذ خیرہ آخرت بنادیا جاتاہے۔یا اس سے اس کی مثل اس کو پہنچنے والی برائی کو دور کردیا جاتاہے۔یہ سن کر صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا تب تو ہم خوب دعائیں کیا کریں گے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے پاس بھی بہت خزانے ہیں"
ایک دوسرے کے حق میں غائبانہ دعا کی فضیلت:۔
انسان کو صرف اپنے لیے ہی دعا نہیں کرنی چاہیے بلکہ اپنے دوست احباب اور خویش واقارب کے حق میں پرخلوص دعائیں کرنی چاہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
دَعْوَةُ الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ لأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ مُسْتَجَابَةٌ، عِنْدَ رَأْسِهِ مَلَكٌ مُوَكَّلٌ كُلَّمَا دَعَا لأَخِيهِ بِخَيْرٍ، قَالَ الْمَلَكُ الْمُوَكَّلُ بِهِ: آمِينَ وَلَكَ بِمِثْلٍ»". (مسلم کتاب الذکر والدعاء۔۔۔باب فضل الدعاء بظھر الغیب رقم:2733)
"مسلمان کی اپنے(مسلمان) بھائی کے حق میں غائبانہ دعا قبول ہوتی ہے۔اس کے سر پر ایک مقروضہ فرشتہ ہوتا ہے،جب بھی وہ اپنے بھائی کے لیے دعائے خیر کرتاہے،تو اس پر مقررہ فرشتہ کہتاہے:"آمین(اے اللہ! اس کی دعا قبول فرمالے) اور اللہ تجھے بھی اس کی مثل دے"
بد دعا دینے سے اجتناب کیا جائے!
انسان فطرۃ کمزور اور جلد باز ہے ،اس لیے جب وہ کسی سے تنگ آجاتاہے توفوراً بددعائیں دینی شروع کردیتا ہے حتیٰ کہ اپنی اولاد کو اور اپنے آپ کو بھی بددعائیں دینے سے گریز نہیں کرتا۔اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" لا تَدْعُوا على أنْفُسِكُمْ، وَلا تَدْعُوا على أوْلادِكُمْ، وَلا تَدْعُوا على خَدَمِكمْ، ولا تَدْعُوا على أمْوَالِكُمْ، لا تُوافِقُوا مِنَ اللَّهِ ساعَةً نِيْلَ فيها عَطاءٌ فَيُسْتَجابَ مِنْكُمْ "
"اپنے لیے بددعا نہ کرو، اپنی اولاد کے لیے بددعا نہ کرو،اپنے مال وکاربار کےلیے بددعانہ کرو،کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری بددعا ایسی گھڑی کے موافق ہوجائے جس میں اللہ تعالیٰ انسان کو وہ کچھ عطا فرمادیتا ہے جس کا وہ سوال کرتاہے،اور یوں وہ تمہاری بددعائیں تمہاری ہی حق میں قبول کرلی جائیں"(صحیح مسلم کتاب الذھد والرقائق رقم3009)
مظلوم کی آہ سے بچو!
یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان ،دوسرے مسلمان بلکہ کسی بھی انسان پر ظلم نہ کرے۔اس لیے کہ مظلوم کی بددعا فوراً عرش پر پہنچتی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اتق دعوة المظلوم فان ليس بينها وبين الله حجاب, (بخاری،الذکاۃ،باب اخذ الصدقۃ من الاغنیاء رقم :1496 مسلم رقم29)
"مظلوم کی بد دعا سے بچو ،اس لیے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی آڑ نہیں ہوتی"
حق تلفیوں کا ازالہ اور گناہوں سےاجتناب کریں!
یہ مہینہ تو بہ واستغفار اور اللہ کی رحمت ومغفرت کا مہینہ ہے۔یعنی اس میں ایک مسلمان کثرت سے توبہ واستغفار کرتا ہے،اور توبہ واستغفار سے حقوق اللہ میں روا رکھی گئی کوہتاہیاں تو شاید اللہ معاف فرمادے لیکن حقوق العباد سے متعلق کوتاہیاں اس وقت تک معاف نہیں ہوں گی،جب تک دنیا میں ان کا ازالہ نہ کرلیا جائے۔مثلا کسی کاحق غصب کیا ہے تواسے واپس کیاجائے۔کسی کو سب وشتم یا الزام وبہتان کانشانہ بنایا ہے۔تو اس سے معافی مانگ کراسے راضی کیا جائے،کسی کی زمین یا کوئی اور جائیداد ہتھیائی ہے تو وہ اسے لوٹا دے۔جب تک ایک مسلمان اس طرح تلافی اور ازالہ نہیں کرے گا، اس کی توبہ کی کوئی حیثیت نہیں۔اسی طرح وہ کسی اور معاملے میں اللہ کی نافرمانیوں کا ارتکاب کررہا ہے۔مثلا رشوت لیتا ہے ،سود کھاتاہے،حرام اور ناجائز چیزوں کا کاروبار کرتا ہے،یا کاروربار میں جھوٹ اور دھوکے سے کام لیتا ہے،تو جب تک ان گناہوں اور حرکتوں سے بھی انسان باز نہیں آئے گا،اس کی توبہ بے معنی اور مذاق ہے ۔
اسی طرح اس مہینے میں یقیناً اللہ کی رحمت ومغفرت عام ہوتی ہے۔لیکن اس کے مستحق وہی مومن قرار پاتے ہیں جنھوں نے گناہوں کو ترک کرکے اور حقوق العباد ادا کرکے خالص توبہ کرلی ہوتی ہے۔دوسرے لوگ تو اس مہینے میں بھی رحمت ومغفرت الٰہی سے محروم رہ سکتے ہیں۔
اپنے دلوں کی باہمی بغض وعناد سے پاک کریں!
اللہ کی ر حمت ومغفرت کا مستحق بننے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم آپس میں اپنے دلوں کو ایک د و سرے کی بابت بغض وعنادسے پاک کریں،قطع رحمی سے اجتناب کریں اور اگر ایک دوسرے سے دنیوی معاملات کی وجہ سے بول چال بند کی ہوئی ہے تو آپس میں تعلقات بحال کریں،ورنہ یہ قطع رحمی ،ترک تعلق اور باہمی بغض وعناد بھی مغفرت الٰہی سے محرومی کا باعث بن سکتاہے۔حدیث میں آتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تُفْتَحُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ فَيُغْفَرُ لِكُلِّ عَبْدٍ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا إِلَّا رَجُلًا كَانَتْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَخِيهِ شَحْنَاءُ فَيُقَالُ أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا "
(صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والاداب،باب النھی عن الشحناء والتھاجر)
"پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ اور ہر اس بندے کو معاف کردیا جاتا ہے جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا،سوائے اس آدمی کے کہ اس کے اور اس کے بھائی کے درمیان دشمنی اوربغض ہو۔ان کی بابت کہا جاتاہے کہ جب تک یہ باہم صلح نہ کرلیں اس وقت تک ان کی مغفرت کے معاملے کو موخر کردو۔صلح کرنے تک ان کے معاملے کوموخر کردو۔ان کے باہم صلح کرنے تک ان کے معاملے کو موخر کردو"
اس حدیث سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ آپس میں بغض وعناد اور ترک تعلق کتنا بڑا جرم ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن سےزیادہ بول چال بند رکھنے اور تعلق ترک کئے رکھنے کی اجازت نہیں دی ہے۔چنانچہ ایک حدیث میں فرمایا:
"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثٍ ، فَمَنْ هَجَرَ فَوْقَ ثَلَاثٍ فَمَاتَ دَخَلَ النَّارَ " 
(رواہ احمد وابوداود وقال البانی اسنادہ صحیح تعلیق المشکوۃ 3/1400)
"کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ تعلق منقطع کئے رکھے اورجس نے تین دن سے زیادہ تعلق توڑے رکھا اور اسی حال میں اس کو موت آگئی،تو وہ جہنمی ہے"
اسی طرح قطع رحمی کاجرم ہے یعنی رشتے داروں سے رشتے ناطے توڑ لینا،ان سے بدسلوکی کرنا اور ان سے تعلق قائم نہ رکھنا۔ایسے شخص کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لا يدخل الجنة قاطع رحم"
(صحیح مسلم البر والصلۃ باب صلۃ الرحم۔۔۔رقم:2556)
اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام اعمال سے بچائے جو جنت میں جانے سے رکاوٹ بن سکتے ہیں اور ایسے اعمال کرنے کی توفیق سے نوازے جو ہمیں رحمت ومغفرت الٰہی کامستحق بنادیں۔آمین!
مزید تفصیل کے لئے درج ذیل لنک پر کلک کریں:
http://forum.mohaddis.com/threads/رمضان-المبارک-کے-بعض-احکام-و-مسائل-از-مقبول-احمد-سلفی.33165/

ہفتہ، 1 دسمبر، 2018

مشہور سلفی علماء کی سایٹس ہیں،

اسلام علیکم،


مندرجہ ذیل مشہور سلفی علماء کی سایٹس ہیں، یہ عربی ہیں، ان سے بہت سا علم حاصل کیا جا سکتا ہے۔

شیخ عبدالعزیز بن باز (رحمہ اللہ) کی سایٹ
الصفحة الرئيسية | الموقع الرسمي لسماحة الشيخ عبدالعزيز بن باز

شیخ محمد بن صالح العثیمین (رحمہ اللہ) کی سایٹ
binothaimeen.com - 

شیخ صالح الفوزان (رحمہ اللہ) کی سایٹ
1

شیخ محمد ناصر الدین الالبانی (رحمہ اللہ) کی سایٹ
http://alalbany.net/

شیخ ربیع بن ہادی (رحمہ اللہ) کی سایٹ
موقع الشيخ ربيع بن هادي المدخلي

شیخ محمد صالح المنجد (رحمہ اللہ) کی سایٹ
موقع الإسلام سؤال وجواب
یہ سایٹ اردو اور English میں بھی دستیاب ہے، لیکن عربی حصہ میں زیادہ فتوے ہیں۔

شیخ یوسف القرداوی (رحمہ اللہ) کی سایٹ 
موقع القرضاوي - الصفحة الرئيسية

شیخ افیفی (رحمہ اللہ)
موقع العلامةالشيخ عبد الرزاق عفيفى

شیخ سدلان (رحمہ اللہ)
alsadlan.net - 

شیخ سحیمی (رحمہ اللہ)
alsoheemy.net - alsoheemy Resources and Information. This website is for sale!

شیخ صالح آل الشیخ (رحمہ اللہ)
http://www.salehalshaikh.com/

شیخ النجمی (رحمہ اللہ)
http://www.njza.net/

شیخ رجہی
http://shrajhi.com/ 

شیخ عبد المحسن العباد
الشيخ العلامة عبد المحسن العباد - Jeeran Blogs

شیخ اُبیکان 


شیخ رسلان
::: 

شیخ محمد الامام
http://www.sh-emam.com/

شیخ یحیی الحجوری
http://www.sh-yahia.net/

شیخ برجس
http://www.burjes.com/

شیخ خالد الزافری
http://www.aldhafiri.net/

شیخ عتیبی
http://www.otiby.net/

شیخ فلاح اسماعیل
.:: 

شیخ عبدالرزاق البدر
الموقع الرسمي عبدالرزاق بن عبدالمحسن البدر

شیخ علی الحدادی
http://www.haddady.com/

شیخ ابو ملک عبد الحمید جہینی
الموقع الرسمي لفضيلة الشيخ عبد الحميد الرفاعي الجهني | الصفحة الرئيسية

شیخ سعد الحسین
موقع الشيخ سعد الحصين

شیخ عمر الحرکان
http://www.tasel.net/

شیخ عبداللہ القرآوی


شیخ تقی الدین الحلالی المغربی
http://www.alhilali.net/

شیخ عبید الجابری
g-olamaa.com

شیخ البراعی
http://www.alburaaie.com/

شیخ سلطان العید


شیخ عبد اللہ عبیلان
Jobs Riyadh | Cash Advance | Debt Consolidation | Insurance | Free Credit Report at Obailan.com

شیخ سالم التاویل
الصفحة الرئيسة - الشيخ سالم الطويل

شیخ محمد آدم الایتھیوپی
http://www.alsonah.org/index.php

شیخ السعدی
http://www.binsaadi.com/index.php

شیخ سعد بن ناصر
http://www.abuhabib.com/

شیخ عبدالعزیز بن محمد آل عبد اللطیف
http://www.alabdulltif.net

شیخ خالد بن محمدعثمان المصری
موقع أبي عبد الأعلى خالد بن محمد بن عثمان ا&#1

شیخ مقبل
http://www.muqbl.com/

شیخ خالد بن عبدالرحمٰن المصری
الصفحة الرئيسية::موقع الشيخ خالد بن عبد الرحمن بن زكي المصري 

شیخ عبداللہ سوان الغامدی
http://www.abouasem.net/

شیخ عبدالعزیز آل الشیخ
adv | موقع سماحة الشيخ عبدالعزيز آل الشيخ

شیخ محمد امان الجامی
http://www.amanjamy.net 

شیخ علی رزا
منتديات البيضاء العلمية

شیخ بدر بن علی التامی العتیبی
bintamme.com - bint amme Resources and Information. This website is for sale!

شیخ ماہر القہتانی
http://www.al-sunan.org/

شیخ سالم الاجمی
|| 

شیخ محمد عمر بزمول
صفحتي 

رحمہم اللہ

English Websites:

Shaykh Rabee Ibn Hadi Al Madkhali - Shaykh Rabee
Shaykh al-Albani - Shaykh Albani
Shaykh Abdul Aziz Bin Baz - Shaykh Ibn Baaz
Shaykh Ibn Uthaymin - Shaykh Ibn Uthaymeen
Shaykh Salih al-Fawzan - Shaykh Fawzaan
Shaykh Rabee bin Haadee - Shaykh Rabee
Shaykh Muqbil - Shaykh Muqbil
Shaykh Ubayd al-Jaabiree - Shaykh Ubayd
Understand Islam - Dr. Saleh as-Saleh

بدھ، 12 ستمبر، 2018

نئے سال کی مبارک باد دینا جائز ہے یا نہیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ
فضیلۃ الشیخ نئے سال کی آمد آمد ہے اور بعض لوگ آپس میں مبارکبادیوں کا تبادلہ کررہے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ ’’كل عام وأنتم بخير‘‘ (آپ ہرسال یا صدا بخیر رہیں)، اس مبارکبادی کا شرعی حکم کیا ہے؟
جواب:بسم الله الرحمن الرحيم الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على عبده ورسوله، وخيرته من خلقه، وأمينه على وحيه، نبينا وإمامنا وسيدنا محمد بن عبد الله وعلى آله وأصحابه ومن سلك سبيله، واهتدى بهداه إلى يوم الدين. أما بعد:
نئے سال کی مبارکباد دینے کی ہم سلف صالحین سے کوئی اصل نہیں جانتے، اور نہ ہی سنت نبوی یا کتاب عزیز اس کی مشروعیت پر دلالت کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی آپ سے اس کی پہل کرے تو اس کے جواب میں خیرمبارک کہہ دینے میں کوئی حرج نہیں۔ اگرکوئی آپ سے کہے کہ ’’کل عام وأنت بخیر‘‘ یا  ’’فی کل عام وأنت بخیر‘‘ کہے تو کوئی مانع نہیں کہ آپ بھی اسے ’’وأنت کذلک‘‘ (آپ  بھی ہرسال بخیر رہیں) اور ہم اللہ تعالی سے ہر بھلائی کے اپنے اور آپ کے لئے دعاءگو ہیں یا اسی سے ملتا جلتا کوئی کلمہ کہہ دے۔ البتہ خود اس میں پہل کرنے کے بارے میں مجھے کوئی اصل بنیاد (دلیل) نہیں معلوم۔
(نور علی الدرب فتوی متن نمبر 10042 شیخ رحمہ اللہ کی آفیشل ویب سائٹ سے ماخوذ)
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ
کتاب ’’الضياء اللامع‘‘  ص 702 میں فرماتے ہیں:
یہ سنت میں سے نہیں کہ ہم نئے ہجری سال کی آمد پر عید منائیں یا مبارکبادیوں کا تبادلہ کریں۔
بعض دوسرے مواقع پر بھی شیخ رحمہ اللہ سے یہی سوال کیا گیا:
سوال: فضیلۃ الشیخ! آپ نے نئے سال کا ذکر فرمایا، ذرا یہ بھی بتادیجئے کہ نئے ہجری سال پر مبارکباد دینے کا کیا حکم ہے؟ اور مبارکباد دینے والوں سے کیسا سلوک کرنا واجب ہے؟
جواب: اگر کوئی آپ کو مبارکباد دے تو اس کا جواب دے دیجئے، لیکن خود کبھی پہل نہ کریں۔ یہی اس مسئلہ میں صواب مؤقف ہے۔ اگر کوئی شخص مثلاً  آپ کو کہے، آپ کو نیا سال مبارک ہو تو آپ جواباً کہیں کہ آپ کو بھی مبارک ہو اور اللہ تعالی آپ کے اس سال کو خیر وبرکت والا بنادے۔ لیکن آپ خود سے اس کی ابتداء نہ کیجئے، کیونکہ مجھے سلف صالحین سے یہ بات نہیں ملی کہ وہ نئے سال پر ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہوں۔بلکہ یہ بات بھی معلوم ہونی چاہیے کہ سلف تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور سے قبل محرم الحرام کو نئے سال کا پہلا مہینہ ہی تصور نہیں کرتے تھے۔
(اللقاء الشھري: 44، سن 1417ھ کے آخر میں)
سوال: فضیلۃ الشیخ آپ کی کیا رائے ہے نئے ہجری سال کی مبارکبادیوں کے تبادلے کے بارے میں؟
جواب: میری رائے میں نئے سال کی مبارکباد دینے میں کوئی حرج نہیں البتہ یہ شریعت سے ثابت نہیں۔ یعنی ہم لوگوں سے یہ نہیں کہیں گے کہ آپ کے لئے یہ سنت ہے کہ نئے سال کی ایک دوسرے کو مبارکباد دیں، لیکن اگر کوئی ایسا کرلے تو کوئی حرج نہیں۔ اور چاہیے کہ جب کوئی نیا سال مبارک کہہ دے تو وہ اسے اچھا جواب دے یعنی اللہ تعالی آپ کے اس سال کو خیروبرکت والا بنادے۔ ہماری اس مسئلے میں یہی رائے ہے، اور یہ امورِ عادیہ (عام عادات) میں شمار ہوتے ہیں ناکہ امورِ تعبدیہ (عبادت) میں۔
(لقاء الباب المفتوح: 93، بروز جمعرات 25 ذی الحجۃ سن 1415ھ)
سوال: کیا نئے سال کی مبارکباد دینا جائز ہے؟
جواب: نئے سال کی مبارکباد دینے کی سلف صالحین سے کوئی اصل ثابت نہیں۔ اسی لئے آپ اس کی ابتداء نہ کریں، لیکن اگر کوئی آپ کو مبارکباد کہہ دے تو اس کا جواب دے دیجئے۔ کیونکہ فی زمانہ یہ بہت عام رواج ہوچکا ہے، اگرچہ اب اس میں کچھ کمی آرہی ہے الحمدللہ کیونکہ لوگوں کے پاس علم آنے لگا ہے، حالانکہ اس سے قبل تو نئے سال کی مبارکبادی والے کارڈوں
(new year greetings card) کا تبادلہ ہوا کرتا تھا۔
سائل: وہ کون سا صیغہ یا الفاظ ہیں کہ جس کے ساتھ لوگ نئے سال کی مبارکبادی دیتے ہیں؟
جواب: اگر وہ ایسے کہیں کہ نیا سال مبارک ہو، اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ آپ کے گزشتہ برس کے گناہوں سے درگزر فرمائے اور آئندہ برس میں آپ کی مدد فرمائے، یا اس جیسا کوئی کلمہ۔
سائل: کیا یہ کہا جائے ’’كل عام وأنتم بخير‘‘؟
جواب: نہیں ’’كل عام وأنتم بخير‘‘ نہیں کہنا چاہیے، نہ عیدالاضحی میں، نہ عیدالفطر میں اور نہ ہی اس موقع پر۔
(لقاء الباب المفتوح: 202 بروز جمعرات 6 محرم الحرام سن 1420ھ)
اللجنۃ الدائمۃ  للبحوث العلمیۃ والافتاء
(دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات وفتوی نویسی، سعودی عرب)
نئے ہجری سال کی مبارکباد دینا جائز نہیں کیونکہ اس کی مبارکباد دینا غیرمشروع ہے۔
(فتوی نمبر 20795)
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
سوال: اگر کوئی شخص کہے ’’کل عام وأنتم بخیر‘‘ (عرف عام میں: سال نو مبارک یا happy new year)، تو کیا ایسا کہنا مشروع (شرعاً جائز) ہے؟
جواب: نہیں یہ مشروع نہیں اور نہ ہی ایسا کہنا جائز ہے
(کتاب ’’الإجابات المهمة‘‘  ص 230 

جمعرات، 5 جولائی، 2018

اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم دخول جنت کی بنیادی شرط

اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم دخول جنت کی بنیادی شرط !

یاد رکھیں ! کتاب و سنت ( قرآن کریم اور صحیح آحادیث رسول ﷺ ) کے اتباع کے علاوہ دوسرے تمام شخصی طریقے، مذاھب و مسالک کی تقلید کرنا انسان کو ھلاکت کے گڑھے میں پہنچا دیتا ھے۔ جب کہ قرآن کریم اور صحیح آحادیث رسول ﷺ کو کامل و مکمل جان کر اس کی اتباع انسان کو کامیابی اور نجات کی راستے تک پہنچا دیتا ھے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ>>> ہر متبع سنت بہن بھائی اس پوسٹ کو پڑھ کر آگے share کریں اور کتاب وسنت کی صحیح دعوت اور نشر واشاعت میں خالص لوجه الله اپنا کردار ادا کریں۔

یاد رکھیں ! جس نے اپنے محبوب نبی محمد کریم ﷺ کے علاوہ کسی امتی شخص کو شریعت کا امام اعظم جانا اور نبی کریم ﷺ کی اتباع کو چھوڑ کر کسی امتی شخص کو اپنا امام جان کر اس کی تقلید کی تو وہ شخص ہلاک اور تباہ ھوا۔ اپنے رسول ﷺ کی سنت ( صحیح آحادیث ) پر کسی امتی شخص کی بات و قول کو ترجیح دینے والے شخص کا سارا عمل و مشقت ضائع و برباد ھے، اور وہ دنیا اور آخرت میں ذلیل اور خاب و خاسر رھے گا۔

کتاب و سنت ( قرآن و صحیح آحادیث رسول ﷺ) کی اتباع کے بجائے اپنے خود ساختہ بزرگوں اور آئمہ کی اندھی تقلید کرنے والوں کو اگر یقین نہیں آتا تو پڑھیئے الله تعالی کا ارشاد جب قیامت کے دن ہر ظالم یعنی کافر، مشرک، منافق اور مبتدع وغیرہ اپنے انجام کو دیکھ کر دنیاوی زندگی میں مخالفت رسول ﷺ پر افسوس کا اظہار کرکےاپنے ہاتھوں کو اپنے دانتوں سے ہی کاٹ کر کہے گا:

﴿ وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا﴿ ٢٧﴾ يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا﴿٢٨﴾ لَّقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي ۗ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا (﴿ ٢٩﴾ وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴿٣٠﴾ وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِينَ ۗ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ هَادِيًا وَنَصِيرًا ﴿٣١﴾" [ الفرقان : سورۃ رقم ٢۵]

"اور اس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا ہائے کاش کہ میں نے رسول ﷺ کی راە اختیار کی ھوتی۔ ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ھوتا۔ اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراە کر دیا کہ نصیحت میرے پاس آ پہنچی تھی اور شیطان تو انسان کو ( وقت پر ) دغا دینے ولا ھے۔ اور رسول ( ﷺ ) کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔ اور اسی طرح ھم نے ہر نبی کے دشمن بعض گناە گاروں کو بنا دیا ھے، اور تیرا رب ہی ہدایت کرنے والا اور مدد کرنے والا کافی ھے۔"

الله تعالی نے تمام مسلمانوں پر اپنےاٴحکام کی پابندی اور اطاعت کے ساتھ ساتھ رسول الله ﷺ کے اٴحکام و اٴوامر کی اتباع کو ضروری قرار دیا ھے۔ اس کے متعلق چند قرآنی آیات درج ذیل ہیں :

1- ﴿ من یطع الرسول فقد اٴطاع الله ﴾ (النساۂ آیت 80 )

"جس نے رسول کی اطاعت کی بے شک اس نے الله کی اطاعت کی۔"

2- ﴿ اٴطیعوا الله واٴطیعوا الرسول ﴾ (النساۂ آیت 59)

"الله کی اطاعت کرو اور رسول الله ﷺ کا کہا مانو۔"

3- ﴿... وما آتاکم الرسول فخذوە وما نہاکم عنە فانتہوا،...﴾ (الحشر آیت 7)

"اور رسول تمہیں جو حکم دے اسے لے لو اور جس چیز سے وە منع کرے اس سے رک جاوٴ"

4- ﴿ لقد کان لکم فی رسول الله اٴسوة حسنة ﴾ ( الاَحزاب آیت 21 )

"بے شک تمہارے لۓ الله کے رسول میں بہترین نمونہ ھے"

5- ﴿ قل ان کنتم تحبون الله فاتبعونی یحببکم الله ویغفر لکم ذنوبکم ﴿31﴾ قل أطيعوا الله والرسول، فإن تولوا فإن الله لا يحب الكافرين ﴿32﴾ [ آل عمران ]

"آپ کہہ دیں اگر تم الله تعالی کو محبوب رکھنا چاھتے ھو تو میری اتباع کرو اس وقت الله تعالی تمہیں محبوب رکھے گا اور تمہارےگناھوں کو بخش دے گا۔" کہہ دیجئے! کہ الله تعالی اور رسول کی اطاعت کرو، اگر یہ منہ موڑ پھیر لیں تو بے شک الله تعالی کافروں سے محبت نہیں کرتا۔"

یعنی اس آیت کریمہ آل عمران (31) میں الله تعالی نے واضح فرمایا ھے کہ اتباع رسول ﷺ کی وجہ سے صرف تمہارے گناہ ہی معاف نہیں ھوں گے بلکہ تم محب سے محبوب بن جاوٴگے۔ اور یہ کتنا اونچا مقام ھے بارگاہ الہی میں ایک انسان کو محبوبیت کا مقام مل جائے۔

اس آیت کریمہ آل عمران (32) میں الله تعالی کی اطاعت کے ساتھ اطاعت رسول ﷺ کی پھر تاکید کرکے واضح کر دیا کہ اب نجات اگر ھے تو صرف اطاعت محمدی میں ھے اور اس سے انحراف کفر ھے اور ایسے کافروں کو الله تعالی پسند نہیں فرماتا۔ چاھے وہ الله تعالی کی محبت و قرب کے کتنے ہی دعوے دار ھوں۔ اور اس آیت میں حجیت حدیث کے منکرین اور اتباع رسول ﷺ سے گریز کرنے والوں دونوں کے لئے سخت وعید ھے کیونکہ دونوں ہی اپنے اپنے انداز سے ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں جسے یہاں کفر سے تعبیر کیا گیا ھے۔ اٴغاذنا الله منە۔

باقی دنیا میں ہر صاحب عقل وبصیرت مرد و عورت کو اپنے بساط کے مطابق سعی و تحقیق کرکے حق وباطل میں فرق و پہچان کرنا چاہیۓ اور پھر حق کو دل ہی سے قبول کرکے اس کی اتباع کرنا چاہیۓ۔ " اللهم أرنا الحق حقًا وارزقنا إتباعه، اللهم أرنا الباطل باطلًا وارزقنا إجتنابە۔

الله تعالی سے دعاگو ھوں کہ ھم سب کو حق قبول کرنے اور پھر اس پر چلنے کی توفیق عطا فرماۓ۔ امین یا رب العالمین-

( إن أريد إلا الإصلاح ما استطعت )
وصلى الله وسلم وبارك على نبينا محمد وعلى آله وأصحابه أجمعين۔

( والله تعالی اٴعلم )
x

بدھ، 23 مئی، 2018

آٹھ رکعات تراویح کی دلیل چاہے طابہط ارالھدیٰ منگلورہ تحصیل کنزر ٹنگمرگ

آٹھ رکعات تراویح کی دلیل چاہے   طابہط 
ارالھدیٰ منگلورہ تحصیل کنزر ٹنگمرگ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آٹھ رکعت نماز ترایح ہی سنت ہے، جیسا کہ :
◈ دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی لکھتے ہیں :
”یہ تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح آٹھ رکعات تھی اور کسی ایک روایت سے بھی ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں تہجد اور تراویح الگ الگ پڑھی ہوں۔ “ [العرف الشذي : 166/1]
◈ جناب خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی (م1346ھ) لکھتے ہیں :
”ابن ہمام (نے) آٹھ کو سنت اور زائد کو مستحب لکھا ہے، سو یہ قول قابل طعن نہیں۔“ [براهين فاطعه : 18]
◈ مزید لکھتے ہیں : ”سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو باتفاق ہے، اگر خلاف ہے تو بارہ میں۔“ [براهين فاطعه : 195]
◈ جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی (1362-1280 ھ) کہتے ہیں :
بیماروں کو تو کہ دیتا ہوں کہ تراویح آٹھ پڑھو، مگر تندرستوں کو نہیں کہتا۔ [الكلام الحسن : 89/2]
◈ جناب عبد الشکور فاروقی لکھنوی دیوبندی (م 1381ھ) لکھتے ہیں :
”اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ تراویح مسنون ہے اور ایک ضعیف روایت میں ابن عباس سے بیس رکعت بھی۔“ [علم الفقه از عبد الشكور ديوبندي : 198]
◈ یہی بات :
◈ امام احناف ابن ہمام حنفی [فتح القدير : 468/1] ،
◈ امام عینی حنفی [عمدة القاري : 177/7] ،
◈ امام ابن نجیم حنفی [البحر الرائق : 66/2] ،
◈ ابن عابدین شامی حنفی [ردالمحتار : 521/1] ،
◈ ابوالحسن شرنیلانی حنفی [مرافي الفلاح : 224] ،
◈ طحطاوی حنفی [حاشية الطحطاوي على الدر المحتار : 521/1 : 18] وغیرہم نے پیش کی ہے۔
حنفی و دیوبندی ”علماء وفقہاء“ کے آٹھ رکعت مسنون تراویح کے فیصلے کے بعد اب ہم انتہائی اختصار کے ساتھ آٹھ رکعت نماز تراویح کے سنت ہونے پر دلائل ذکر کرتے ہیں :
آٹھ رکعت نماز تراویح کے سنت ہونے پر دلائل
دلیل نمبر ➊
ابوسلمہ بن عبد الرحمٰن نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سوال کیا کہ رمضان المبار ک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز (تراویح) کی کیا کیفیت ہوتی تھی ؟ تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
ماكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد فى رمضان ولا فى غيره على احدي عشرة ركعة۔
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان ہو تا یا غیر رمضان، گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔“ [صحيح بخاري154/1، ح : 1147، ح : 2013 صحيح مسلم 254/1 : 738] .
↰ جمہور علماء ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے آٹھ رکعت تراویح ثابت کرتے ہیں، جیسا کہ :
◈ امام ابوالعباس احمد بن عمر بن ابراہیم القرطبی (م 656ھ) لکھتے ہیں :
ثم اختلف فى المختار من عدد القيام۔۔۔۔۔ وقال كثير من أهل العلم : احدي عشرة ركعة، أخذا بحديث عائشة المتقدم۔
”پھر قیام کے عدد مختار میں اختلاف کیا گیا ہے، کثیر علمائے کرام نے کہا ہے کہ یہ گیارہ رکعت ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ والی اس حدیث سے دلیل لیتے ہوئے جو گزر چکی ہے۔“ [المفهم لمااشكل من تلخيص كتاب مسلم : 389/2ـ 390]
اس حدیث کی شرح میں :
◈ جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی لکھتے ہیں :
هذا الرواية رواية الصحيحين، وفي الصحاح صلاة تراويحة عليه السلام ثماني ركعات وفي السنن الكبريٰ وغيره بسند ضعيف من جانب أبى شيبة، فانه ضعيف اتفاقا، عشرون ركعة، الآن انما هو سنة خلفاء الراشدين، ويكون مرفوعا حكماوان لم نجد اسناده قويا۔
”یہ صحیح بخاری وصحیح مسلم کی روایت ہے اور صحیح احادیث سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازتراویح آٹھ رکعت ثابت ہے اور سنن کبریٰ میں بیس رکعتوں والی روایت ضعیف سند کے ساتھ ابوشیبہ سے آئی ہے، جوکہ باتفاق ضعیف ہے اور بیس رکعتیں خلفائے راشدین کی سنت ہے اور مرفوع کے حکم میں ہے، اگرچہ اس کی قوی سند ہمیں نہیں ملی۔“ [العرف الشذي : 101/1]
↰ دیکھے ! شاہ صاحب کس طرح آٹھ رکعت تراویح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح مسلم میں ثابت کر رہے ہیں اور ساتھ ہی حنفی مذہب کی کمزوری و معذوری میں پیش کر رہے ہیں کہ ہم بیس رکعت تراویح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قوی سند کے ساتھ نہیں پا سکے، آپ خود اندازہ فرمائیں کہ ایک مسئلہ جو قوی سند کے ساتھ ثابت بھی نہ ہو، پھر صحیح بخاری و صحیح مسلم کی متفق علیہ حدیث کے خلاف بھی ہو، اس کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے ؟
↰ ہم کہتے ہیں کہ خلفائے راشدین سے کسی وضع (من گھڑت) روایت سے بھی بیس رکعت ناز تراویح پڑھنا ثابت نہیں ہے، لہٰذا بیس رکعت تراویح کو خلفائے راشدین کی سنت قرار دینا صریح غلطی ہے۔
جناب انور شاہ کاشمیری دیوبندی کے علاوہ متعدد حنفی فقہا ء نے بھی اس حدیث عائشہ رضی اللہ عنہ کو آٹھ رکعت تراویح کی دلیل بنایا ہے اور تسلیم کیا ہے کہ نماز تراویح اور تہجد میں کوئی فرق نہیں ہے، یہ ایک ہی نماز کے دو مختلف نام ہیں۔ [تفصيل كيلئے ديكهيں فيض الباري : 420/2 وغيره]
——————
دلیل نمبر ➋
سیدنا جابر بن رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :
صلٰي بنا رسول الله صلٰي الله عليه وسلم فى شهر رمضان ثمان ركعات و‍أوتر۔
”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ماہ رمضان میں آٹھ رکعت نماز تراویح اور وتر پڑھائے۔“ [مسند ابي يعليٰ : 326/2، المعجم الصغير للطبراني : 190/1، فتح الباري : 12/3، وسنده حسن]
↰ اس روایت کے راوی عیسیٰ بن جاریہ، جمہورمحد ثین کے نزدیک ”موثق، حسن الحدیث“ ہیں۔
اس حدیث کو امام ابن خذیمہ [1070] اور امام ابن حبان [2409] رحمہ اللہ نے ”صحیح ”کہا ہے۔
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : واسنادہ وسط ”اس کی سنداچھی ہے۔“ [ميزان الا عتدال : 311/3]
◈ امام عینی حنفی [عمد ة القاري7 /177] اور دیگر فقہا ء نے اس حدیث کو آٹھ رکعت نماز تراویح پر دلیل بنا یا ہے۔
——————
دلیل نمبر ➌
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی، اے اللہ کے رسول ! آج رات مجھ سے ایک کام ہوا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ کیا اے ابی ؟ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کی، میرے گھر کی عورتوں نے مجھے کہا : ہم قرآن کریم پڑھی ہوئی نہیں، اس لیے ہم آپ کے ساتھ نماز پڑھیں گی :
فصليت بهن ثمان ركعات، ثم أوترت، فكانت سنة الرضا، ولم يقل شيئا۔
”میں نے انہیں آٹھ رکعت تراویح پڑھائیں، پھر وتر پڑھائے، اس بات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رضامندی اظہار فرمایا اور کچھ نہیں کہا۔“ [مسند ابي يعليٰ : 362/2، زوائد مسند الامام احمد : 115/5، المعجم الا وسط للطبراني 141/4، قيام الليل للمروزي : 217، وسنده حسن]
↰ اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ [2550] نے ”صحیح“ کہا  ہے، حافط ہیثمی نے اس کی سند کو ”حسن“ کہا ہے۔ [مجمع الزوائد : 742]
——————
دلیل نمبر ➍
صحابی رسول سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیا ن فرماتے ہیں :
أمر عمربن الخطاب أبى بن كعب وتميما الداري أن يقوما للناس باحدي عشرة ركعة
”سیدنا عمر خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت نماز تراویح (مع وتر) پڑھایا کریں۔“ [ موطا امام مالك : 138، شرح معاني الآ ثار للطحاوي : 293/1، السنن الكبري للبهيقي : 496/2، مشكاة المصابيح : 1/407، وسنده صحيح]
↰ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا یہ حکم صحیح بخاری و صحیح مسلم والی حدیث عائشہ رضی اللہ عنہ کے موافق ہے، سیدنا امیر المومنین، شہید محراب کا حکم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے عین مطابق ہے، اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں آٹھ رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا تھا اور اس سے بیس رکعت تراویح کے قائلین و عاملین کا رد ہوتا ہے اور ان کا یہ قول کہ وہ بیس رکعت نماز تراویح اس لیے پڑھتے ہیں کہ سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیس پڑھی تھیں، یہ بات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر بہتان اور سراسر جھوٹ ہے، کسی وضعی (من گھڑت) روایت سے بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بیس رکعت تراویح پڑھنا ثابت نہیں ہے۔
↰ ثابت ہوا کہ عہد فاروقی میں آٹھ رکعت تراویح پر صحابہ کرام کا اجماع تھا۔
——————
دلیل نمبر ➎
سیدنا سائب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
ان عمر جمع الناس على أبى وتييم، فكانا يصليان احدي عشرة ركعة۔ 
”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ پر جمع کر دیا، وہ دونوں گیارہ رکعت نماز تراویح پڑھاتے تھے۔“ [مصنف ابن ابي شيبة : 392-391/2، تاريخ المدينة للامام عمر بن شيبه : 713/2 وسندة صحيح]
——————
دلیل نمبر ➏
سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
كنا نقوم فى زمان عمر بن الخطاب باحدي عشرة ركعة۔۔۔۔۔
”ہم (صحابہ) سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں گیارہ رکعت (نماز تراویح) پڑھتے تھے۔“ [سنن سعيد بن منصور بحواله الحاوي للفتاوي للسيوطي : 349/1، حاشية آثار السنن للنيسوي : 250 وسنده صحيح]
◈ علامہ سبکی لکھتے ہیں : اسنادۂ فى غاية الصحة ”اس کی سندا انتہا درجہ کی صحیح ہے۔“ [ شرح المنهاج بحواله الحاوي للفتاوي : 350/1]
↰ مذکور ہ بالا دلائل سے ثابت ہوا کہ آٹھ رکعت نماز تراویح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابی بن کعب و سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ کو وتر سمیت گیارہ رکعت نماز تراویح پڑھانے کا حکم دیا اور انہوں نے آپ کے حکم کی تعمیل و تکمیل میں گیارہ رکعت نماز تراویح پرھائی اور صحابہ کرام نے پڑھی۔
↰ دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں بھی سنت پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !
بیس رکعت تراویح کے دلائل کا جائزہ
اب ہم ان لوگوں کے دلائل کا علمی وتحقیقی، مختصر، مگر جامع جائزہ پیش کرتے ہیں جو بیس رکعت نماز تراویح کو ”سنت مؤکدہ“ کہتے ہیں۔
دلیل نمبر  ➊
”سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبار ک میں بیس رکعتیں اور وتر پڑ ھا کرتے تھے۔“ [مصنف ابن بي شيبة : 294/2، السنن الكبري للبيهقي : 496/2، المعجم الكبير للطبراني : 393/11، وغيره هم]
تبصرہ : 
یہ جھوٹی روایت ہے،
اس کی سند میں ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان راوی ”متروک الحدیث“ اور ”کذاب“ ہے، جمہورنے اس کی ”تضعیف“ کر رکھی ہے۔
◈ امام زیلعی حنفی لکھتے ہیں :
وهو معلو ل بأبي شيبة ابراهيم بن عثمان، جد الامام أبى بكر بن أبى شيبة، وهو متفق عليٰ ضعفة، الينة ابن عدي فى الكامل، ثم مخالف للحديث الصحيح عن أبى سلمة بن عبد الرحمٰن أنه سأل عائشة : كيف كانت صلاٰ رسول صلى الله عليه وسلم فى رمضان ؟ قالت : ماكان يزيد فى رمضان ولا فى غيره على ٰ احديٰ عشرة ركعة۔۔۔۔۔
”یہ روایت ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان راوی کی وجہ سے معلول (ضعیف) ہے، جو کہ امام ابوبکر بن ابی شیبہ کے دادا ہیں، ان کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے، امام ابن عدی نے بھی الکامل میں ان کو کمزور قرار دیا ہے، پھر یہ اس صحیح حدیث کے مخالف بھی ہے، جس میں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں نماز کے بارے میں سوال کیا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان یا غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔۔۔۔۔“ [نصب الراية للزيلعي : 153/2]
① جناب انور شاہ کشمیری دیو بندی لکھتے ہیں :
أما النبى صلى الله عليه وسلم فصح عنه ثمان ركعات وأ ما عشرون ركعة فهو عنه عليه السلام بسند ضعيف وعلي ضعفه اتفاق۔ 
”آٹھ رکعات نماز تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہیں اور جو بیس رکعت کی روایت ہے، وہ ضعیف ہے اور اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔“ [العرف الشذي : 166/1]
بالاتفاق ”ضعیف“ راوی کی روایت وہی پیش کر سکتا ہے جو خود اس کی طرح بالا تفاق ”ضعیف“ ہو۔
② جناب عبدالشکور فاروقی دیوبندی نے بھی اس کو ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔ [ علم الفقة : ص 198]
③ ابن عابدین شامی حنفی (م 1252) لکھتے ہیں :
فضعيف بأبي شيبة، متفق على ضعفه مع مخالفة للصحيح۔
”یہ حدیث ضعیف ہے، کیونکہ اس میں راوی ابوشیبہ (ابراہیم بن عثمان) بالاتفاق ضعیف ہے، ساتھ ساتھ یہ حدیث (صحیح بخاری و صحیح مسلم کی) صحیح (حدیث عائشہ رضی اللہ عنہ) کے بھی خلاف ہے۔“ [منحة الخالق : 66/2]
یہی بات :
◈ امام ابن ہمام حنفی [فتح القدير : 468/1] ،
◈ امام عینی حنفی [عمدة القاري : 128/11] نے بھی کہی ہے۔
◈ علامہ سیوطی (911-849ھ) لکھتے ہیں :
هذا الحديث ضعيف جد ا، لاتقوم به حجة
”یہ حدیث سخت ترین ضعیف ہے، اس سے حجت و دلیل قائم نہیں ہو سکتی۔“ [المصابيح فى صلاة التراويح : 17]
تنبیہ : امام بریلویت احمد یار خان گجراتی ( 1391-13244ھ) اپنی کتاب [جاء الحق ص243/2] میں  ”نماز جنازہ میں الحمد شریف تلاوت نہ کرو“ کی بحث میں امام ترمذی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں : ”ابراہیم بن عثمان ابوشیبہ منکر حدیث ہے۔“
لیکن اپنی اسی کتاب [ 447/1] کے  ضمیمہ میں مندرج رسالہ لمعات المصابیح علی رکعات التراویح میں اس کی حدیث کو بطور حجت پیش کرتے ہیں، دراصل انصاف کو ان سے شکایت ہے کہ وہ اس کا ساتھ نہیں دیتے، ایسے بدیانت اور جاہل، بلکہ اجہل لوگوں سے خیر کی کیا توقع رکھی جا سکتی ہے جو اس طرح کی واہی تباہی مچاتے ہیں ؟
قارئین کرام !  بعض الناس کی یہ  کل کائنات تھی جس کا حشر آپ نے دیکھ لیا ہے، نہ معلوم اس کے باوجود ان لوگوں کو بیس رکعات نماز تراویح کو ”سنت مؤکدہ“ کہتے ہوئے شرم کیوں نہیں آتی ؟
——————
دلیل نمبر  ➋
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رمضان المبارک میں ایک رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور صحابہ کرام کو چوبیس رکعتیں پڑھائیں اور تین رکعات وتر پڑھے۔ [ تاريخ جرجان لابي قاسم حمزة بن يوسف السهي المتوفي767، من الهجرية : ص 275]
تبصرہ : 
یہ روایت جھوٹ کا پلندا ہے،
اس میں دو راوی عمر بن یارون البلخی اور محمد بن حمید الرازی ”متروک و کذاب“، نیز ایک غیر معروف راوی بھی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ بیس تراویح کے سنت مؤکدہ ہونے کا راگ الاپنے والے اس چوبیس والی حدیث کو کس منہ سے پیش کرتے ہیں ؟
——————
دلیل نمبر  ➌
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں حکم دیا کہ وہ رمضان میں رات کو لوگوں کو نماز پڑ ھایا کریں، آپ نے فرمایا، لوگ دن میں روزہ رکھتے ہیں، لیکن اچھی طرح قراءت نہیں کر سکتے، اگر تم رات کو ان پر قرآن پڑ ھا کرو تو اچھا ہو، سیدنا ابی بن کعب نے عرض کی، اے امیر المؤمنین ! پہلے ایسا نہیں ہوا تو آپ نے فرمایا، مجھے بھی معلوم ہے، تاہم یہ ایک اچھی چیز ہے، چنانچہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بیس رکعات پڑھائیں۔ [كنز العمال : 4098]
تبصرہ : 
”کنز العمال“ میں اس کی سند مذکور نہیں،
دین سند کا نام ہے، بے سند روایات وہی پیش کرتے ہیں، جن کی اپنی کوئی ”سند“ نہ ہو۔
——————
دلیل نمبر  ➍
عن الحسن أن عمر بن الخطاب رضى الله عنه جمع الناس على أبيبن كعب، فكان يصلي لهم عشر ين ركعة۔ 
”حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ پر اکٹھا کیا، وہ انہیں بیس رکعات پڑ ھاتے تھے۔“ [سنن ابي داؤد، سير اعلام النبلاء : 400/10، جامع المسانيد والسنن للحافظ ابن كثير : 55/1]
تبصرہ : 
عشر ين ركعة کے الفاظ دیوبندی تحریف ہے،
محمود الحسن دیوبندی (1268-1339ھ) نے یہ تحریف کی ہے، عشر ين ليلة ”بیس راتیں“ کی بجائے عشر ين ركعة ”بیس  رکعتیں“ کر دیا ہے۔ جبکہ سنن ابی داؤد کے کسی نسخہ میں عشرين ركعة نہیں ہے، تمام نسخوں میں عشرين ليلة ہی  ہے، حال ہی میں محمد عوامہ کی تحقیق سے جو سنن ابی داؤد کا نسخہ چھپا ہے، جس میں سات آٹھ نسخوں کو سامنے رکھا گیا ہے، اس میں بھی عشر ين ليلة ہی ہے، محمد عوامہ لکھتے ہیں : من الأ صول كلها۔ 
”سارے کے سارے بنیادی نسخوں میں یہی الفاظ ہیں۔“ [سنن ابي داؤد بتحقيق محمد عوامه : 256/2]
عشر ين ركعة کے الفاظ محرف ہونے پر ایک زبردست دلیل یہ بھی ہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ [السنن الكبري : 498/6] نے یہی روایت امام ابوداؤد رحمہ اللہ کی سند سے ذکر کی ہے اور اس میں عشر ين ليلة کے الفاظ ہیں۔ یہی الفاظ حنفی فقہاء اپنی اپنی کتابوں میں ذکر کرتے رہے ہیں۔ رہا مسئلہ ”سیر اعلام النبلاء“ اور ”جامع المسانیدو والسنن“ میں عشر ين ركعة کے الفاظ کا پایا جانا تو یہ ناسخین کی غلطی ہے، کیونکہ سنن ابی داؤد کے کسی نسخے میں یہ الفاظ نہیں ہیں، یہاں تک کہ امام عینی حنفی (855ھ) نے شرح أبی داؤد [343/5] میں عشرين ليلة کے الفاظ ذکر کر کیے ہیں، نسخوں کا اختلا ف ذکر نہیں کیا، اگر ركعة کے الفاظ کسی  نسخے میں ہوتے تو امام عینی حنفی ضرور بالضر ور نقل کرتے، اسی لیے غالی حنفی نیموی (م1322ھ) نے بھی اس کو بیس رکعت تراویح کی دلیلوں میں ذکر نہیں کیا ہے۔
② اگر مقلدین کی بات کو صحیح تسلیم کر بھی لیا جائے تو پھر بھی یہ روایت ان کی دلیل نہیں بن سکتی، جیسا کہ :
◈ خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی صاحب (1346-1269ھ) لکھتے ہیں :
”ایک عبارت بعض نسخوں میں ہوا اور بعض میں نہ ہو تو وہ مشکوک ہوتی ہے۔“ [ بزل المجهود : 471/4، بيروت]
لہٰذا اس دیوبندی اصول سے بھی یہ روایت مشکوک ہوئی۔
تنبیہ :  امام بریلوت احمد یار خان نعیمی گجراتی (1391-13244ھ) نے عشر ين ليلة کے الفاظ ذکر کیے ہیں۔ [ جاء الحق : 95/6] بحث ”قنوت نازلہ پڑھنا منع ہے۔“
◈ جناب سرفراز خان صفدر دیوبندی ایک دوسری روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :
”جب عام اور متداول نسخوں میں یہ عبارت نہیں تو شاذ اور غیر مطبوعہ نسخوں کا کیا اعتبار ہو سکتا ہے ؟“ [ خزائن السنن : 97/2]
مقلدین کے اصول کے مطابق اس روایت کا کوئی اعتبار نہیں۔
◈ امام زیلعی حنفی (م 762ھ) اور امام عینی حنفی لکھتے ہیں :
لم يد رك عمر بن الخطاب۔
”اس روایت کے راوی امام حسن بصری رحمہ اللہ نے سیدنا عمر بن خطاب کا زمانہ نہیں پایا۔“ [ نصب الراية : 126/2، شرح ابي داؤد از عيني حنفي : 343/5]
لہٰذا یہ روایت ”منقطع“ ہوئی، کیا شریعت ”منقطع“ روایات کا نام ہے ؟
④ امام عینی حنفی نے اس کو ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔ [ شرح سنن ابي داؤد از ع۔ ني حنفي : 343/5]
⑤ اس روایت کو حافظ رحمہ اللہ نے بھی ”ضعیف“ کہا ہے۔ [ خلاصة الا حكام للنووي : 565/1]
⑥ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا گیارہ رکعت تراویح بمع وتر کا حکم دینا ثابت ہے۔ [ موطا امام مالک : 138، السنن الکبری للبھقی : 496/2، شرح معانی الآثار للطحاوی : 293/1، معرفۃ السنن والآ ثار للبیھقی : 42/4، فضائل الاوقات للبیھقی : 274 : قیام اللیل للمروزی : 220، مشکاۃ المصابیح : 407 وسندہ صحیح]
امام طحاوی حنفی (321-239ھ) نے اس حدیث سے حجت پکڑی ہے۔
——————
دلیل نمبر  ➍
یزید بن رومان کہتے ہیں کہ لوگ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں رمضان میں تیس رکعات پڑ ھا کرتے تھے۔ [ موطا امام مالك : 97/1، السنن الكبر ي للبيهقي : 494/2]
تبصرہ : 
یہ روایت ”انقطاع“ کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
راوی یزید بن رومان نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا زمانہ ہی نہیں پایا،
◈ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يزيد بن رومان لم يد رك عمر بن الخطاب۔
”یزید بن رومان نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔“ [نصب الراية للز يلعي : 163/2]
لہٰذا یہ روایت ”منقطع“ ہوئی، جبکہ مؤطا امام مالک میں اس ”منقطع“ روایت سے متصل پہلے ہی ”صحیح ومتصل“ سند کے ساتھ ثابت ہے کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے گیارہ رکعت کا حکم دیا تھا۔
◈ جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی لکھتے ہیں :
ترجیح المسصل علی المنقطع.
”ضابطہ یہ ہے کہ متصل کو منقطع پر ترجیح حاصل ہوتی ہے۔“ [العرف الشذي : 11]
↰ ہم کہتے ہیں کہ یہاں بے ضابطگیاں کیوں ؟
◈ جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :
”روایت مؤطا مالک منقطع ہے۔“ [اشرف الجواب : 182]
صحیح احادیث کے مقابلہ میں ”منقطع“ روایت سے حجت پکڑنا انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہے۔
——————
دلیل نمبر  ➎
یحیٰ بن سعید سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعات پڑحائے۔ [مصنف ابن ابي شيبة : 393/2]
تبصرہ : 
یہ روایت ”منقطع“ ہونے کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے،
◈ نیموی حنفی لکھتے ہیں :
يحيي بن سعيد لم يدرك عمر۔ 
”یحیٰ بن سعید الانصاری نے سید نا عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔“ [ التعلیق الحسن از نیموی حنفی : 253]
——————
دلیل نمبر  ➏
”عبدالعزیز بن رفیع فرماتے ہیں کہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رمضان میں لوگوں کو مدینہ میں بیس رکعات پڑھاتے تھے اور وتر تین رکعات۔“ [ مصنف ابن ابي شيبة : 393/2]
تبصرہ : 
یہ رویات بھی ”انقطاع“ کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے، :
◈ نیموی حنفی لکھتے ہیں :
عبد العزيز بن رفيع لم يدرك أ بي بن كعب۔
”عبدالعزیز بن رفیع نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا۔“ [التعليق الحسن : 253]
——————
دلیل نمبر  ➐
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں رمضان میں بیس رکعتیں پڑھتے تھے۔ [ مسند على بن الجعد : 2725، السنن الكبري للبيهقي : 496/2، وسنده صحيح]
تبصرہ : 
یہ بیس رکعتیں پڑھنے والے لوگ صحابہ کرام کے علاوہ اور لوگ تھے، کیونکہ :
◈ صحابی رسول سیدنا سائب بن یزید خود فرما تے ہیں :
كنا (أي الصحابة) نقوم فى عهد عمر بن الخظاب با حدٰ ي عشرة ركعة۔۔۔ 
”ہم (صحابہ) سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں گیارہ رکعات (نماز تراویح بمع وتر) پڑھتے۔“ [حاشية آثار السنن : 25، وسنده صحيح]
↰ صحابہ کرام کے علاوہ دوسرے لوگوں کا عمل حجت نہیں، یہ کہاں ہے کہ یہ نامعلوم لوگ بیس کو سنت مؤکدہ سمجھ کر پڑھتے تھے، اگر کوئی آٹھ کو سنت، رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور بارہ کو زائد نفل سمجھ کر پڑھے تو صحیح ہے، یہ لوگ بھی ایسا ہی کرتے ہوں گے۔
◈ جناب خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی (م 1346ھ) لکھتے ہیں :
”ابن ہمام (نے) آٹھ رکعات کو سنت اور زائد کو مستحب لکھا ہے، سو یہ قول قابل طعن کے نہیں۔“ [ براهين قاطعة : 18]
مزید لکھتے ہیں : ”سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو باتفاق ہے، اگر خلاف ہے تو بارہ میں۔“ [ براهين قاطعه : 195]
——————
دلیل نمبر  ➑
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بیس رکعات تراویح اور وتر پڑ ھا کرتے تھے۔ [ معرفة السفن والآثار للبيهقي : 42/4]
تبصرہ : 
یہ روایت ”شاذ“ ہے،
امام مالک، ا امام یحیٰ بن سعید القطان اور امام الدراوردی وغیرہم رحمہ اللہ کے مخالف ہونے کی وجہ سے اس میں ”شذوذ“ ہے،
اگرچہ خالد بن مخلد ”ثقہ“ راوی ہے، لیکن کبار ثقات کی مخالفت کرنے کی وجہ سے اس کی روایت قبول نہ ہو گی، اسی روایت میں کبار ثقافت گیارہ رکعات بیان کر رہے ہیں۔
——————
دلیل نمبر  ➒
ابوعبد الرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے رمضان میں قراء کو بلا یا اور ان کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعات تراویح پڑھائیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ انہیں وتر پڑھاتے تھے۔ [ السنن الكبري للبيهقي : 496/2]
تبصرہ : 
① یہ روایت ”ضعیف“ ہے،
اس کی سند میں حماد بن شعیب راوی ”ضعیف“ ہے، اس کو :
◈ امام یحیٰ بن معین، امام ابوززرعہ، امام نسائی اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ”ضعیف“ کہا ہے۔
② دوسری وجہ ضعیف یہ ہے کہ عطاء بن السائب ”مختلط“ راوی ہے، حماد بن شعیب ان لوگوں میں سے نہیں، جنہوں نے اس سے قبل الاختالط سنا ہے۔
——————
دلیل نمبر  ➓
”ابوالحسناء سے رویات ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو پانچ تراویح، یعنی بیس رکعات تراویح پڑ ھایا کرے۔“ [ مصنف ابن ابي شيبة : 393/2]
تبصرہ : 
اس روایت کی سند ”ضعیف“ ہے،
اس کی سند میں ابوالحسنا ء راوی ”مجہول“ ہے۔
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : لايعرف۔ ”یہ غیر معروف راوی ہے۔“ [ ميزان الاعتدال : 515/4]
اللہ تعالیٰ نے ہمیں غیر معروف راویوں کی روایات کا مکلف نہیں ٹھہرایا۔
——————
دلیل نمبر  ⓫
”اعمش کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیس رکعات تراویح پڑھا کرتے تھے۔“ [ مختصر قيام الليل للمروزي : 157]
تبصرہ : 
اس کی سند ”ضعیف“ ہے،
عمدۃ القاری [ 128/11] میں یہ  حفص بن غیاث عن الأعمش کے طریق سے ہے، جبکہ حفص بن غیاث اور اعمش دونوں زبردست ”مدلس“ ہیں اور ”عن“ سے بیان کر رہے ہیں، لہٰذا سند ”ضعیف“ ہے۔
باقی امام عطاء امام ابن ابی ملیکہ، امام سوید بن غفلہ وغیرہم کا بیس رکعت پڑھنا بعض الناس کو مفید نہیں، وہ یہ بتائیں کہ وہ امام ابوحنیفہ کے مقلد ہیں یا امام عطاء بن ابی رباح وغیرہ کے ؟ اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ بیس رکعت کو سنت مؤکدہ سمجھ کر پڑھتے تھے۔
آل تقلید پر لازم ہے کہ وہ باسند صحیح اپنے امام ابوحنیفہ سے بیس رکعت تراویح کا جواز یا سنت مؤکدہ ہونا ثابت کریں، ورنہ مانیں کہ وہ اندھی تقلید میں سر گرداں ہیں۔
——————
الحاصل : 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابی سے بیس رکعت نماز تراویح پڑھنا قطعاً ثابت نہیں ہے، سنت صرف آٹھ رکعات ہیں۔
دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں حق سمجھنے والا اور اس پر ڈٹ جانے والا بنائے۔ آمين !
تحریر: غلام مصطفے ٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ


محفوظ الرحمٰن یوپی انڈیاسے