اپنی زبان منتخب کریں

بدھ، 6 جنوری، 2016

مسلملنون مين اختلاف كيون هوا


الحمد للہ
 سب لوگ توحید پر ایک ہی امت تھے لیکن بعد میں اختلاف کا شکار ہوگۓ ، ان میں سے کچھ توایمان لاۓ اورکچھ نے کفرکا ارتکاب کرنا شروع کردیا لھذا اللہ تعالی نے انبیاء کوخوشخبری دینے اورڈرانے والے بنا کر مبعوث کیا ، اب جو بھی ایمان لاۓ گا وہ جنت میں داخل ہوگا اورجوبھی کفرکا ارتکاب کرے اسے جہنم کے داخلے سے دوچار ہونا پڑے گا ۔
شروع سے لیکر اب تک ایمان وکفراور حق وباطل کے درمیان مقابلہ جاری ہے اورروز قیامت تک یہ جاری رہے گا حتی کہ اللہ تعالی زمین اوراس پررہنے والوں کا وارث بن جاۓ ۔
اوراسلام سب لوگوں کا دین ہے جس کی سب لوگوں تک تبلیغ کا اللہ تعالی نے حکم دیا جوکہ قوت وطاقت کے بغیر مکمل نہيں ہوگی اورقوت کا انحصار ایمان و اتحاد پر ہے اسی لیے اللہ تعالی نے مومنوں کوحکم دیا ہے کہ وہ اپنے دین کومضبوطی سے تھامیں اوراس پر عمل پیرا ہوں اوراتحاد اورعدم تفرق کا مظاہرہ کریں ۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے اس حکم کا ذکر کرتے ہوۓ فرمایا :
{ تم سب کے سب اللہ تعالی کی رسی کومضبوطی سے تھامے رکھواورآپس میں تفرقہ کا شکارنہ ہونا } آل عمران ( 103 ) ۔
لھذا تفریق واختلاف ، اورتنازع امت کی شکست وھزیمت اوراس کے زوال کا سبب ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان بھی ہے :
{ اوراللہ تعالی اوراس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت وفرمانبرداری کرتے رہو ، اورآپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جاۓ گی اورصبرکرتے رہو یقینا اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے } الانفال ( 46 ) ۔
اجتماعیت اوروحدت دین اسلامی کے اصول میں سے ایک اصول ہے ، شریعت اسلامیہ میں وحدت واجتماعیت کے مظاہر بہت زيادہ ہیں تودیکھیں اللہ رب العالمین ایک ہے اورکتاب اللہ بھی ایک اورنبی بھی ایک تودین بھی ایک اورقبلہ بھی ایک اورامت بھی ایک ہے ۔
امت کی وحدت واجتماعیت کی تحقیق اوراسے ثابت کرنے کے لیے اسلام نے جماعت کے ساتھ رہنے کولازم قرار دیا ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہے کہ جماعت پراللہ تعالی کا ہاتھ ہوتا ہے اورجو بھی جماعت کو چھوڑ کرعلیحدہ ہوگا وہ آگ میں ڈالا جاۓ گا ۔
اوراسی وحدت واجتماعیت کو ثابت کرنے کےلیے سب عبادات اسلامیہ میں بھی اجتماعیت کومشروع کیا گيا ہے اوراللہ تعالی نے امت کوسب احکامات میں جماعت کے لفظ کے ساتھ مخاطب کیا ہے جس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ سب ایک امت جوکہ ایک جسم کی طرح ہیں ، ان میں کوئ فرق نہیں ان سب کوحکم دیا جاتا ہے اورسب کوہی منع کیا جاتا ہے ۔
عبادت کے مقام پر اللہ تعالی کافرمان ہے :
{ اوراللہ تعالی کی عبادت کرو اوراس اس کے ساتھ کسی کوبھی شریک نہ ٹھراؤ } النساء ( 36 ) ۔
اللہ تعالی نےان سب کونماز کی پابندی کرنے کا حکم دیتے ہوۓ فرمایا :
{ نمازوں کی حفاظت وپابندی کرو ، اورخاص کر درمیان والی نماز کی اوراللہ تعالی کے لیے باادب کھڑے رہا کرو } البقرۃ ( 238 ) ۔
اورزکاۃ کے بارہ میں بھی ان سب کومخاطب کرتے ہوۓ حکم دیا گیا :
{ اورنماز کی پابندی کرو اورزکاۃ ادا کرتے رہو } البقرۃ ( 43 ) ۔
اوراللہ تعالی نے رمضان کے روزوں کے بارہ میں فرمایا :
{ اے ایمان والو ! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کيے گۓ تھے ، تا کہ تم تقوی اختیار کرو } البقرۃ ( 183 ) ۔
اورحج کے بارہ میں حکم دیتے ہوۓ اللہ تعالی نے فرمایا :
{ اوراللہ تعالی نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف جانے کی استطاعت رکھتے ہوں حج فرض کردیا ہے } البقرۃ ( 97 ) ۔
اورجہاد فی سبیل اللہ کے بارہ میں اللہ تعالی نے کچھ اس طرح حکم دیا :
{ اوراللہ تعالی کے راستے میں اس طرح جہاد کروکہ جس طرح جہاد کرنے کا حق ہے } الحج ( 78 ) ۔
اسلام اللہ تعالی کی شریعت کے سامنے سب لوگوں کوبرابر قرار دیتا ہے چاہے وہ کالا ہو یا گورا ، عربی ہویا عجمی ، مرد ہویاعورت ، مالدارہو یا غنی ، فقیر ہویا تنگدست ، اسلام ان سب کوجمع کرتا ہے سب کو حکم دیا جاتا ہے اورسب کوہی منع کیا جاتا ہے ۔
جوبھی اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے وہ جنت میں داخل ہوں گے اورجوبھی اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی اورمعصیت کرے تواسے آگ میں داخل کیا جاۓ گا ۔
جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے اس فرمان میں ذکرکیا ہے :
{ جوشخص نیک اورصالح عمل کرے گا وہ اپنے نفع کے لیے اورجوبرا کام کرے گا اس کا وبال بھی اسی پر ہے اورآپ کا رب بندوں ظلم کرنےوالا نہیں } فصلت ( 46 ) ۔
واللہ اعلم .

یہ مضمون شیخ محمد بن ابراھیم التویجری کی کتاب اصول الدین الاسلامی سے لیا گيا

منگل، 5 جنوری، 2016

عصب كرنا ، ،،،نا حق مال كها نا ،


الحمدللہ
غصب کی لغوی تعریف :
کسی چيز کوظلم وزیادتی سے لینا ۔
فقھاء کی اصطلاح میں غصب کی تعریف :
کسی کے حق پر زبردستی اورناحق قبضہ کرنے کوغصب کہا جاتا ہے ۔
غصب کے حرام ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے ۔
اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ اورتم آپس میں اپنے مالوں کوباطل طریقوں سے نہ کھاؤ } ۔
اورغصب باطل طریقے سے مال کھانے سے بھی بڑا ظلم ہے ۔
اورپھر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی ہے :
( یقینا تمہارے خون اورتہمارے مال ودولت اورتمہاری عزتیں تم پر حرام ہیں ) ۔
اوردوسری حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( کسی مسلمان کا مال اس کی اجازت اوررضامندی کےبغیر حلال نہیں )
اورغصب کی گئي چيز یاتو جائداد ہوگی یا پھر منتقل ہونے والی چيز اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :
( جس کسی نے بھی ایک بالشت زمین ظلم زیادتی سے حاصل کی اسے ساتوں زمینوں کا طوق پہنایا جاۓ گا ) ۔
غاصب پرضروری اورلازم ہے کہ وہ اللہ تعالی کےہاں توبہ کرے اور غصب کی ہوئ چیز کو اس کےمالک کوواپس لوٹاۓ اوراس سے معافی و درگزر طلب کرے ، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی کی طرف راہنمائ کی ہے ۔
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
( جس نے بھی اپنے کسی بھائ پر ظلم وزیادتی کی ہے اسے آج ہی اس کا کفارہ ادا کردے قبل اس کے کہ اس کے پاس درھم ودینا نہ ہوں ( یعنی قیامت کے دن ) اگر اس کی نیکیاں ہوں گی تووہ مظلوم کو دی جائيں گي اوراگرنیکیاں نہ ہوئيں تو مظلوم کے گناہ لے کے اس کے پر ڈال دیۓ جائيں گے اورپھر اسے جہنم میں ڈال دیا جاۓ گا ) او کما قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔
اگر غصب کردہ چيز اس کے پاس موجود ہے تو وہ اسی طرح اس کومالک تک پہنچا دے اوراگر ضائع ہوچکی ہے تواس کا بدلہ دینا چاہیے ۔
امام مؤفق رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
( علماء کرام کا اجماع ہے کہ اگر غصب شدہ چيز اپنی حالت میں موجود ہے اوراس میں کوئ تبدیلی نہیں ہوئ تواس کا واپس کرنا واجب ہے ) انتہی ۔
اوراسی طرح غصب شدہ چيز کی زیادتی بھی واپس کرنی لازم ہے چاہے وہ زیادہ شدہ اس کے ساتھ متصل ہویا منفصل ، اس لیے کہ وہ غصب شدہ چيز کی پیداوار ہے اوروہ بھی اصلی مالک کی ہوگي ۔
اوراگر غاصب نے غصب کردہ زمین میں کوئ عمارت تعمیر کرلی یا پھر اس میں کوئ چيز کاشت کرلی تومالک کے مطالبہ پر اس اکھیڑنا ضروری ہے ۔
اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( ظالم کے پیسنے کا کوئ حق نہیں ) سنن ترمذي وغیرہ امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کوحسن قرار دیا ہے ۔
اوراگر اس چيز کےمنھدم کرنے یا اکھيڑنے سے زمین کونقصان ہوتوغاصب پر اس نقصان کا بھی جرمانہ ہوگا اوراسی طرح اسے کاشت کے آثار بھی ختم کرنے لازم ہیں تا کہ زمین کے مالک کو زمین صحیح سالم واپس ہوسکے ۔
اوراسی طرح غاصب کے ذمہ غصب کےوقت سے لیکر مالک کوواپس کرنے تک کا کرایہ بھی ادا کرنا ہوگا یعنی اس کراۓ کی مثل ادا کرے گا ، اس لیے کہ اس نے زمین کےمالک کواس مدت میں نفع حاصل کرنے سے ناحق روک رکھا تھا ۔
اوراگر کسی نے چيز غصب کرکے روکے رکھی تو اس کی قیمت میں کمی واقع ہوگئي توصحیح یہ ہے کہ وہ اس نقص کا ذمہ دار ہوگا ۔
اوراگر غصب کردہ چيز کسی ایسی چیز میں مل گئي جس میں تمیيز کرنا ممکن ہو مثلا گندم جومیں مل جاۓ ، توغاصب اسے علیحدہ کرکے واپس کرنے گا ۔
اوراگر ایسی چيز میں مل جاۓ جس کی تمیز کرنی مشکل ہو مثلا گندم گندم میں ہی مل جاۓ توغاصب اسی طرح کی گندم اوراتنی غیرملاوٹ شدہ واپس کرے گا ۔
اوراگر وہ اسی طرح کی چيز میں یا پھر اس سے بھی بہتر اوراچھی قسم میں یا پھر کسی اورجنس میں مل جاۓ جس کی تمیز کرنا مشکل ہو تو اس ملی ہوئ کوفروخت کر کے دونوں کو ان کے حصوں کے مطابق قیمت ادا کردی جاۓ گی ۔
اوراگر اس صورت میں جس کی چيز غصب کی گئي ہواسےقیمت کم ملے توغاصب باقی نقصان کا ذمہ دار ہوگا ۔
اوراس باب میں یہ قول بھی ذکرکیا ہے :
اورغاصب کے ہاتھوں سے جس جس کے پاس بھی غصب کی ہوئ چيز جاۓ گی وہ سب ضامن ہوں گے ۔
اس کا معنی یہ ہے کہ جن کی طرف بھی غصب شدہ چیز منتقل ہوگي اگروہ ضائع ہوجاۓ تووہ سب اس کا نقصان پورا کریں گے ۔
اوریہ سب دس قسم کے ہاتھ شمار ہوتے ہیں :
خریدار اورجو اس کے معنی میں ہو ، اجرت پر حاصل کرنے والے کے ہاتھ ، بغیر عوض کے قبضہ کرنے والےکا ہاتھ مثلا چھین لینے والا ، مصلحت دافعہ کی بناپر قبضہ کرنے والا جیسا کہ وکیل ہے ، عاریتا لینے والا ، غصب کرنے والا ، مال میں تصرف کرنے والا ، مثلا مضاربت پرشراکت کرنے والا ، غصب شدہ عورت کی شادی کرنے والا ، بغیر فروخت کے عوض میں قبضہ کرنے والے کے ہاتھ ، غاصب کی نیابت کرتے ہوۓ غصب شدہ چيز کوضائع کرنے والا ۔
توان سب صورتوں میں جب دوسرے کوحقیقت حال کا علم ہوجاۓ کہ اسے دی جانے والی چيز غصب شدہ ہے تواس پراس چيز میں زيادتی کی بنا پر ضمان ہوگی اس لیے کہ اسے علم تھا کہ مالک کی جانب سے اس میں تصرف کی اجازت نہيں ہے ۔
اوراگر اسے حقیقت حال کا علم نہیں توپھر پہلے غاصب پر ہی ضمانت ہوگي اورنقصان وہی ادا کرے گا ۔
اوراگر کوئ ایسی چيز غصب کرلی جاۓ جوعادتا کرایہ پرلی جاتی ہے توغاصب مالک کواتنی مدت کا کرایہ بھی لازمی ادا کرے گا اس لیے کہ نفع بھی ایک قیمتی مال ہے لھذا اصلی چيز کی طرح منافع کی بھی ضمان ہوگی ۔
غاصب کے جتنے بھی حکمی تصرفات ہیں وہ سب کے سب باطل ہيں اس لیے کہ وہ سب مالک کی اجازت کے بغیر ہیں ۔
اور اگر کوئ چیز غصب کرلی اوراس کے مالک کا علم نہ رہا اوراسے واپس کرنا بھی ممکن نہ ہوسکے تو وہ حاکم کے سپرد کردی جاۓ جو اسے صحیح جگہ پراستعمال کرے گا اوریا پھر اس کے مالک کی جانب سے صدقہ کردی جاۓ اوراگر اسے صدقہ کیا جاۓ تو اس کا اجرو ثواب مالک کوہو گا نہ کہ غاصب کواورغاصب اس سے خلاصی حاصل کرلے گا ۔
غصب یہی نہیں کہ کسی چيز پرطاقت کے بل بوتے قبضہ کرلیا جاۓ بلکہ یہ بھی غصب میں ہی شامل ہے کہ کسی باطل طریقے اورجھوٹی اورفاجرہ قسم کے ذریعہ سے کسی چيز پر قبضہ کرلیا جاۓ ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ اورایک دوسرے کا مال ناحق و باطل طریقے سے نہ کھایا کرو ، اورنہ ہی حاکموں کو رشوت پہنچا کرکسی کا کچھ مال ظلم وستم سے اپنا کرلیا کرو ، حالانکہ تم جانتے ہو } البقرۃ ( 188 ) ۔
لھذا یہ معاملہ بہت ہی سخت ہے اورحساب وکتاب بھی بہت مشکل ہے توفکرکریں ۔
اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :
( جس نے بھی ایک بالشت زمین غصب کی تواسے ساتوں زمینوں کا طوق پہنایا جاۓ گا ) ۔
اورایک دوسری حديث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( میں نے جس کے لیے بھی اس کے بھائ کے حق میں سے فیصلہ کردیا تواسے وہ نہیں لینا چاہیے ، بلکہ میں تو اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں ) ۔ .

دیکھیں : الملخص الفقھی تالیف : شیخ صالح الفوزان ص ( 130 )
اپ کا خادم. عبدالمومن سلفی
www.mominsalafi.wordpress.c
Www.salafimomin.wordpress.com
www.mominsalafi.simplesite.com

www

امام كي سلام بعد بعقي نماز

امام کیساتھ  تاخیر سے ملنے والے نمازی کی  راجح موقف کے مطابق  وہی اس کی نماز کا پہلا حصہ  ہے، یہ موقف امام شافعی رحمہ اللہ کا ؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جب تم اقامت سنو تو نماز کیلئے چلتے ہوئے  پروقار، اور سکون سے چلو، دوڑ مت لگاؤ، چنانچہ جتنی جماعت پا لو، اسے پڑھ لو، اور جو رہ جائے  اسے پوری کر لو ) بخاری: (636) مسلم: (602)
نووی رحمہ اللہ  "المجموع" (4/118) میں کہتے ہیں:
 "ہم پہلے یہ ذکر کر چکے ہیں کہ مسبوق [نماز باجماعت میں تاخیر سے ملنے والا نمازی] امام کیساتھ جو نماز ادا کریگا وہی اس کی پہلی  رکعت ہے، اور سلام کے بعد جو پوری کریگا وہی اس کی آخری نماز  ہوگی، اس موقف کے قائلین میں سعید بن مسیب، حسن بصری، عطاء، عمر بن عبد العزیز، مکحول، زہری، اوزاعی، سعید بن عبد العزیز، اور اسحاق شامل ہیں،  ان تمام کے موقف کو ابن المنذر نے  نقل کرنے کے بعد  کہا: "میں بھی اسی کا قائل ہوں" پھر انہوں نے کہا: "یہی موقف  عمر، علی، ابو درداء سے بھی منقول ہے، لیکن پایۂِ ثبوت تک نہیں  پہنچتا" یہی موقف مالک رحمہ اللہ سے مروی ہے، اور داؤد بھی اسی کے قائل ہیں۔
جبکہ ابو حنیفہ ، مالک، ثوری، اور احمد وغیرہ  اس بات کے قائل ہیں کہ جو نماز مسبوق نمازی نے پائی ہے وہ [اس کی آخری یعنی]امام والی نماز ہی ہے، اور جو سلام پھیرنے کے بعد  مکمل کریگا وہ اس کی ابتدائی نماز  ہے،  یہ موقف  ابن المنذر  نے ابن عمر، مجاہد، اور ابن سیرین  سے نقل کیا ہے، اور  انکی دلیل  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان  ہے: (جو نماز تم پا لو  اسے پڑھ لو، اور جو رہ جائے اس کی قضا  دے دو) بخاری و مسلم
ہمارے فقہائے کرام  کی دلیل  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان : (جو نماز تم پا لو  اسے پڑھ لو، اور جو رہ جائے اسے پورا کر لو) اس روایت کو  بخاری و مسلم نے متعدد طرق کیساتھ  روایت کیا ہے۔
بیہقی   کہتے ہیں کہ:
 "جن راویوں نے  "اسے پورا کر لو" کے الفاظ نقل کیے ہیں  ان کی تعداد زیادہ ہے، اور انہوں نے راوی الحدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کیساتھ  زیادہ وقت گزارا ہے، نیز  انکا حافظہ  دوسرے راویوں کے مقابلے میں زیادہ  تیز تھا ، اس لیے ان کی روایت کو ترجیح حاصل ہوگی"
شیخ ابو حامد، اور ماوردی کہتے ہیں:
 "کسی چیز کو پورا اسی وقت کیا جاتا ہے جب  اس کا ابتدائی حصہ  شروع ہو چکا ہوں، اور آخری حصہ  ابھی باقی ہو، نیز ہمارے موقف کے مطابق بیہقی نے عمر بن خطاب، علی، ابو درداء، ابن مسیب، حسن، عطاء، ابن سیرین، اور ابو قلابہ رضی اللہ عنہم سے نقل کیا ہے"
جبکہ  " جو رہ جائے اس کی قضا  دے دو " والی روایت کا جواب دو انداز سے دیا جا سکتا ہے:
1-              "اسے پورا کر لو"  والی روایت کے راویوں کی تعداد زیادہ اور انکا حافظہ فریق ثانی کے راویوں سے زیادہ تیز ہے۔
2-             " اس کی قضا  دے دو " قضا کا لفظ  کسی کام کے مکمل کرنے پر  محمول کیا جائے گا،  نہ کہ فقہاء کی اصطلاح میں مشہور قضا پر ، کیونکہ  قضا کا عرف عام کا معنی متاخرین فقہاء کی  اصطلاح ہے، اور عرب  قضا کا لفظ کسی چیز کے مکمل کرنے پر بھی بولتے ہیں، اس کیلئے شواہد قرآن مجید میں ہیں: فرمانِ باری تعالی ہے: ( فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ ) [یعنی جب تم اپنے حج کے ارکان مکمل کرلو]اور اسی طرح ( فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلاةُ )[یعنی: جب نماز مکمل کر لی جائے]
شیخ ابو حامد  کہتے ہیں:
 "اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جو  تمہاری اپنی  نماز میں کمی رہ گئی ہے[اسے پورا کر لو] یہاں امام کیساتھ تمہاری  باقیماندہ نماز مراد نہیں ہے، اور یہ بات یقینی ہے کہ مقتدی کی اپنی نماز آخر سے رہی ہے، ابتدا سے نہیں رہی"۔واللہ اعلم" انتہی
مندرجہ بالا تفصیل کی بنا پر :
اگر آپ  امام کیساتھ  چار رکعت والی نماز  کے پہلے تشہد میں شامل ہوں تو امام کی تیسری رکعت آپ کیلئے پہلی رکعت شمار ہوگی، اور جب امام سلام پھیر دے تو آپ اپنی  بقیہ نماز مکمل کرنے  کیلئے کھڑے ہونگے ، لہذا آپکی سلام کے بعد والی رکعت تیسری ہوگی۔
اور جس وقت  آپ امام کیساتھ آخری رکعت میں شامل ہوں ، تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد یہ آپکی دوسری رکعت ہوگی۔

رفع الدين اور احناف كا موقوف ،،،عبدالمومن سلفي

الحمد للہ:

احناف  کا یہ موقف ہے کہ  صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہی  رفع الیدین  کرنا نماز کی سنن میں سے ہے، جبکہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ تمام تکبیرات میں  رفع الیدین  کو شرعی عمل قرار نہیں دیتے۔
چنانچہ " المبسوط " از: سرخسی (1 / 23)  میں ہے:
 "نماز میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ کسی بھی تکبیر پر رفع الیدین نہ کرے" انتہی
اسی طرح "بدائع الصنائع " (1 / 207) میں ہے کہ:
 "فرض نمازوں میں تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ  تکبیرات کے وقت رفع الیدین کرنا ہمارے نزدیک سنت نہیں ہے" انتہی
اپنے اس موقف کیلئے  ابو حنیفہ  رحمہ اللہ سے مروی  روایت کو دلیل بناتے ہیں، وہ کہتے ہیں: مجھے حماد نے ابراہیم نخعی  سے انہوں نے علقمہ سے اور انہوں نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت  کی کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم  تکبیرِ تحریمہ  کے وقت  رفع الیدین کرتے اور پھر دوبارہ ہاتھ  نہ اٹھاتے" انتہی
" المبسوط " از سرخسی:(1 / 24)
جبکہ  تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ دیگر تکبیرات کیساتھ رفع الیدین سے متعلق مجموعہ  احادیث کو  احناف منسوخ سمجھتے ہیں، اور یہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  رفع الیدین آخری عمر میں ترک کر دیا تھا، شروع میں آپ رفع الیدین کرتے رہے ہیں۔
چنانچہ " بدائع الصنائع " (1 / 208) میں ہے  کہ:
 "یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ ابتدا میں رفع الیدین کرتے تھے، پھر  آپ نے رفع الیدین ترک کردیا، اس کی دلیل ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، کہ انہوں نے کہا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع الیدین کیا ہم نے بھی کیا، پھر آپ نے ترک کر دیا تو ہم نے بھی ترک کر دیا"" انتہی
 یہ احناف کا موقف ہے۔
جبکہ راجح یہی ہے کہ نمازی  کیلئے چار جگہوں میں رفع الیدین  کرنا  احادیث سے ثابت ہے، اور وہ چار مقامات یہ ہیں: تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع جاتے ہوئے، رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے، اور تیسری رکعت کیلئے کھڑے ہونے کے بعد، اس موقف کا بیان  احادیث کی روشنی میں  فتوی نمبر: (3267) میں گزر چکا ہے۔
اور جن احادیث کو  احناف نے اس بات کیلئے دلیل کے طور پر پیش کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ دیگر تمام تکبیرات  کیساتھ رفع الیدین نہیں فرمایا، تو وہ سب احادیث ضعیف ہیں، ان میں سے کوئی بھی حدیث  صحیح نہیں ہے۔
چنانچہ ابن قیم رحمہ اللہ  " زاد المعاد في هدي خير العباد " (1 / 219) میں رفع الیدین کی احادیث ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:
 "رفع الیدین نہ کرنے کی احادیث  کے مقابلے میں  رفع الیدین کرنے  کی احادیث  کی تعداد بہت زیادہ ہیں،  یہ احادیث ثابت شدہ،  واضح صریح ہیں، اور عمل بھی انہی پر کیا جاتا ہے" انتہی
 انہوں نے اسی مسئلہ کے بارے میں یہ بھی کہا ہے کہ:
 "آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس دنیا سے کوچ کر جانے تک یہی عمل تھا[یعنی رفع الیدین کرتے تھے]" انتہی
" زاد المعاد في هدي خير العباد " (1 / 219)
اور خلفائے راشدین  کے متعلق کسی ایک خلیفہ راشد سے یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے رفع الیدین نہ کیا ہو، بلکہ  ان سے رفع الیدین کرنا ثابت ہے، حتی کہ امام بخاری رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
 "کسی بھی صحابی سے رفع الیدین نہ کرنا ثابت نہیں ہے

پیر، 4 جنوری، 2016

ترجمه سوره الطور ،، عبدالمومن سلفي

سورة الطُّور
شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
قسم ہے طور کی (۱) اور اس کتاب کی جو لکھی گئی ہے (۲) کشادہ ورقوں میں (۳) اور آباد گھر کی قسم ہے (۴) اور اونچی چھت کی (۵) اور جوش مارتے ہوئے سمندر کی (۶) بے شک آپ کے رب کا عذاب واقع ہوکر رہے گا (۷) اسے کوئی ٹالنے والا نہیں ہے (۸) جس دن آسمان تھرتھرا کر لرزنے لگے گا (۹) اور پہاڑ تیزی سے چلنے لگیں گے (۱۰) پس اس دن جھٹلانے والوں کے لیے ہلاکت ہے (۱۱) جو جھوٹی باتوں میں لگے ہوئے کھیل رہے ہیں (۱۲) جس دن وہ دوزخ کی آگ کی طرف بری طرح سے دھکیلے جائیں گے (۱۳) یہی وہ آگ ہے جسے تم دنیا میں جھٹلاتے تھے (۱۴) پس کیایہ جادو ہے یا تم دیکھتے نہیں (۱۵) اس میں داخل ہو جاؤ پس تم صبر کرو یا نہ کرو تم پر برابر ہے تمہیں تو ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا جیسا تم کرتے تھے (۱۶) بے شک پرہیز گار باغوں اور نعمتوں میں ہوں گے (۱۷) محظوظ ہو رہے ہوں گے اس سے جو انہیں ان کے رب نے عطا کی ہے اور ان کو ان کے رب نے عذاب دوزخ سے بچا دیا ہے (۱۸) مزے سے کھاؤ اور پیو بدلے ان (اعمال) کے جو تم کیا کرتے تھے (۱۹) تختوں پر تکیہ لگائے ہوئے جو قطاروں میں بچھے ہوئے ہیں اور ہم ان کا نکاح بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے کر دیں گے (۲۰) اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان میں ان کی پیروی کی ہم ان کے ساتھ ان کی اولاد کو بھی (جنت) میں ملا دیں گے اور ان کے عمل میں سے کچھ بھی کم نہ کریں گے ہر شخص اپنے عمل کے ساتھ وابستہ ہے (۲۱) اور ہم انہیں اور زیادہ میوے دیں گے اور گوشت جو وہ چاہیں گے (۲۲) وہاں ایک دوسرے سے شراب کا پیالہ لیں گے جس میں نہ بکواس ہو گی نہ گناہ کا کام (۲۳) اور ان کے پاس لڑکے ان کی خدمت کے لیے پھر رہے ہوں گے گویا وہ غلافوں میں رکھے ہوئے موتی ہیں (۲۴) اورایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر آپس میں پوچھیں گے (۲۵) کہیں گے ہم تو اس سے پہلے اپنے گھروں میں ڈرا کرتے تھے (۲۶) پس الله نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں لُو کے عذاب سے بچا لیا (۲۷) بے شک ہم اس سے پہلے اسے پکارا کرتے تھے بے شک وہ بڑا ہی احسان کرنے والا نہایت رحم والا ہے (۲۸) پس نصیحت کرتے رہئے آپ اپنے رب کے فضل سے نہ کاہن ہیں نہ دیوانہ ہیں (۲۹) کیا وہ کہتے ہیں کہ وہ شاعر ہے ہم اس پر گردشِ زمانہ کا انتظار کر رہے ہیں (۳۰) کہہ دو تم انتظار کرتے رہو بے شک میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں (۳۱) کیا ان کی عقلیں انہیں اس بات کا حکم دیتی ہیں یا وہ خود ہی سرکش ہیں (۳۲) یا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے خود بنا لیا ہے بلکہ وہ ایمان ہی نہیں لاتے (۳۳) پس کوئی کلام اس جیسا لے آئيں اگر وہ سچے ہیں (۳۴) کیا وہ بغیر کسی خالق کے پیدا ہو گئے ہیں یا وہ خود خالق ہیں (۳۵) یا انہوں نے آسمانوں اور زمین کوبنایا ہے نہیں بلکہ وہ یقین ہی نہیں کرتے (۳۶) کیا ان کے پاس آپ کے رب کے خزانے ہیں یا وہ داروغہ ہیں (۳۷) کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے کہ وہ اس پر چڑھ کر سن آتے ہیں تو لے آئے ان میں سے سننے والا کوئی دلیل واضح (۳۸) کیا اس کے لیے توبیٹیاں ہیں اور تمہارے لیے بیٹے (۳۹) کیا آپ ان سے کوئی صلہ مانگتے ہیں کہ وہ تاوان سے دبے جا رہے ہیں (۴۰) یا ان کے پاس علم غیب ہے کہ وہ اسے لکھتے رہتے ہیں (۴۱) کیا وہ کوئی داؤ کرنا چاہتے ہیں پس جو منکر ہیں وہی داؤ میں آئے ہوئے ہیں (۴۲) کیا سوائے الله کے ان کا کوئی اور معبود ہے الله اس سےپاک ہے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں (۴۳) اگر وہ ایک ٹکڑا آسمان سے گرتا ہوا دیکھ لیں تو کہہ دیں کہ تہ بہ تہ جما ہوا بادل ہے (۴۴) پس آپ انہیں چھوڑ دیجیئے یہاں تک کہ وہ اپنا وہ دن دیکھ لیں جس میں وہ بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے (۴۵) جس دن ان کا داؤ ان کے کچھ بھی کام نہ آئے گا اور نہ انہیں مدد دی جائے گی (۴۶) اوربے شک ان ظالموں کو علاوہ اس کے ایک عذاب (دنیا میں) ہوگا لیکن اکثر ان میں سے نہیں جانتے (۴۷) اور اپنے رب کا حکم آنے تک صبر کر کیوں کہ بےشک آپ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجیئے جب آپ اٹھا کریں (۴۸) اور (کچھ حصہ رات میں بھی) اس کی تسبیح کیا کیجیئے اور ستاروں کے غروب ہونے کے بعد بھی (۴۹)

الله تعالي كي رحمت بندون پر ،، عبدالمومن سلفی

الحمد للہ :
اللہ سبحانہ وتعالي بڑا مہربان اور نہائت رحم كرنےوالا ہے، اور وہ سب رحم كرنےوالوں سےزيادہ رحم كرنےوالا ارحم الراحمين ہے، جس كي رحمت ہر چيز پر وسيع ہے.
اللہ سبحانہ وتعالي كا فرمان ہے:
{اورميري رحمت ہر چيز كو وسيع ہے} الاعراف ( 156 ).
اور صحي مسلم ميں ابوہريرہ رضي اللہ تعالي عنہ سےحديث مروي ہے كہ: رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:
( اللہ كےلئےسورحمتيں ہيں ان ميں سےايك رحمت نازل فرمائي ہے جس كےساتھ جن وانس اور جانور اور چوپائے اور كيڑے مكوڑے ايك دوسرے پر رحم اور نرمي كرتےہيں، اور اللہ تعالي نے ننانويں رحمتيں اپنےلئےركھيں جن كےساتھ وہ روز قيامت اپنےبندوں پر رحم كرےگا ) صحيح مسلم ( 6908 ) .
اور عمر بن خطاب رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتےہيں كہ:
( رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كےپاس كچھ قيدي لائےگئے اور ان قيديوں ميں سےايك عورت كچھ تلاش كررہي تھي كہ اس نے قيديوں ميں بچہ پايا تواسے لےكر اپنے سينے سےچمٹايا اور دودھ پلانےلگي، تو رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےہميں فرمايا: كيا تمہارےخيال ميں يہ عورت اپنےبيٹے كو آگ ميں ڈال دےگي؟ تو ہم نے عرض كيا اللہ كي قسم نہيں، وہ اس پر قادر ہے كہ اسے آگ ميں نہيں ڈالے، تو رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:
اللہ تعالي اپنےبندوں كےساتھ اس عورت كےاپنےبيٹےپررحم كرنےسےبھي زيادہ رحم كرنےوالا ہے ) صحيح بخاري ( 5653 ) صحيح مسلم ( 69121 ) .
اور اللہ تعالي كي اپنےبندوں پر رحمت ہي ہےكہ اس نے رسول مبعوث كئے اور كتابيں اور شريعتيں نازل فرمائيں تاكہ ان كي زندگي سنور سكےاور وہ تنگي وتكليف اور گمراہي سے رشد وہدايت كي طرف نكل آئيں.
فرمان باري تعالي ہے:
{اور ہم نےآپ كو سب جہانوں كےلئےرحمت بنا كر بھيجا ہے}الانبياء ( 107 ) .
اوراللہ تعالي كي رحمت ہي روز قيامت اس كےمومن بندوں كو جنت ميں داخل كرے گي، كوئي شخص بھي اپنےاعمال كي بنا پر جنت ميں داخل نہيں ہوگاجيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےفرماياہے:
( كسي شخص كوبھي اس كا عمل جنت ميں داخل نہيں كرےگا، صحابہ كرام نےعرض كيا اے اللہ كےرسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ بھي نہيں؟ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:
ميں بھي نہيں الا يہ كہ اللہ تعالى مجھے اپنےفضل اور رحمت سے ڈھانپ لے، لھذا درميانہ راہ اختيار كرواور افراط وتفريط سےبچو، اور تم ميں سے كوئي بھي موت كي تمنا نہ كرے اگر تووہ نيكي كرنےوالا ہے تو خيروبھلائي زيادہ كرے گا اوراگر گنہگار ہے تو ہوسكتا ہے توبہ كرلے ). صحيح بخاري حديث نمبر ( 5349 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 7042 ) .
اور مومن شخص كو چاہئےكہ وہ اللہ تعالي سےاس كي رحمت اميد اور اس كےعذاب كا خوف ركھےاسےان دونوں كےمابين رہنا چاہئے، كيونكہ اللہ تعالي كا فرمان ہے:
{ميرے بندوں كو بتا دو كہ ميں بخشنےوالا اور رحم كرنےوالا ہوں، اور ميرا ساتھ ہي ميرا عذاب ہي دردناك عذاب ہے} الحجر ( 49 - 50 ).
اور آپ كا يہ كہنا كہ " اللہ تعالي ہمارے ساتھ ايك ماں كا اپنےبچے سے محبت كرنےسےسترگناسےبھي زيادہ محبت كرتا ہے" اس كےبارہ ميں اللہ ہي زيادہ علم ركھتا ہے، ہمارےلئےاتنا ہي جاننا كافي ہے كہ اللہ تعالي كي رحمت ہر چيز كو وسيع ہے، اے اللہ اپني رحمت كےساتھ ہم پر رحم فرما تو سب رحم كرنے والوں سےزيادہ رحم كرنےوالا ہے.
واللہ اعلم
www.mominsalafiblog.worldpress.com
www.salafimomin.worldpress.com
www.mominsalafi.simplesite.com
 

فرقه بريلوي ، عبدالمومن سلفي

الحمد للہ:

ہندوستان میں بریلوی فرقہ برطانوی قبضہ کے دنوں میں پیدا ہواہے اور یہ صوفی فرقہ ہے، اس فرقہ کے پیروکار اپنے آپ کو اولیاء کرام اور انبیاء کرام کے متعلق عمومی طور پر اور ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں خاص طور پر حد سے بھی تجاوز کرنے والا سمجھتے ہیں۔
اس فرقے کے بانی کا نام احمد رضا خان بن تقی علی خان ہے جسکی پیدائش 1272 ہجری بمطابق 1851 عیسوی میں ہوئی، اور اس نے اپنے آپکو "عبد المصفی"کے نام سے موسوم کیا۔
پیدائش اتر پردیش کے شہر بریلی میں ہوئی، یہ مرزا غلام قادر بیگ کا شاگرد تھا، جو کہ قادیانیت کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی کا بھائی تھا۔
وہ قد کے اعتبارچھوٹا تھا لیکن اسکے ساتھ ساتھ ذہانت ، شاطری اور سخت گوئی میں معروف بھی تھا، اسی طرح بد زبانی، سریع الغضب، اور تیز طبیعت کا مالک تھا، اسے کچھ دائمی امراض کا بھی سامنا تھا، جسکی وجہ سے دائمی سر درد، اور کمر کی تکلیف سے شکایت رہتی تھی۔
1295 ہجری بمطابق 1874 عیسوی کو مکہ کی زیارت کی اور وہاں کے کچھ علماء کے ہاں شاگردی بھی اختیار کی۔
انکی مشہور کتابوں میں "أنباء المصطفى" اور "خالص الاعتقاد" شامل ہیں۔
اس فرقے کے عقائد میں یہ بھی شامل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، اور دیگر اولیاء مخلوقات کے حال و مستقبل کے بارے میں مختارِ کل ہیں۔
اس فرقہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں بہت ہی زیادہ غلو سے کام لیا، اور یہاں تک پہنچ گئے کہ آپکی عبادت ہی کرنے لگ جائیں، چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں، اور آپ بشر نہیں تھے، بلکہ آپ نور تھے، کیونکہ آپ ہی اللہ کے نور ہیں،یہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اولیاء سے دستگیری، اور حاجت روائی کوجائز سمجھتے ہیں، اس کے علاوہ بھی انکے بہت سے باطل عقائد ہیں
والله اعلم.
اپ کا خادم عبدالمومن سلفی
www.mominsalafi.simplesite.com
wwwnumansalafi
.BlogSpot.com