اپنی زبان منتخب کریں

جمعرات، 14 جنوری، 2016

سورة الكهف كا اردو ترجمه ،، عبدالمومن سلفي

سورة الکهف
شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
سب تعریف الله کے لیے جس نے اپنے بندہ پر کتاب اتاری اور اس میں ذرا بھی کجی نہیں رکھی (۱) ٹھیک اتاری تاکہ اس سخت عذاب سے ڈراوے جو اس کے ہاں ہے اورایمان داروں کو خوشخبری دے جو اچھے کام کرتے ہیں کہ ان کے لیے اچھا بدلہ ہے (۲) جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے (۳) اور انہیں بھی ڈرائے جو کہتے ہیں کہ الله اولاد رکھتا ہے (۴) ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ ان کے باپ دادا کے پاس تھی کیسی سخت بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے وہ لوگ بالکل جھوٹ کہتے ہیں (۵) پھر شایدتو ان کے پیچھے افسوس سے اپنی جان ہلاک کر دے گا اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائے (۶) جو کچھ زمین پر ہے بے شک ہم نے اسے زمین کی زینت بنا دیا ہے تاکہ ہم انہیں آزمائیں کہ ان میں کون اچھے کام کرتا ہے (۷) اورجو کچھ اس پر ہے بے شک ہم سب کو چٹیل میدان کر دیں گے (۸) کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور کتبہ والے ہماری نشانیوں والے عجیب چیز تھے (۹) جب کہ چند جوان اس غار میں آ بیٹھے پھر کہا اے ہمارے رب ہم پر اپنی طرف سے رحمت نازل فرما اور ہمارے اس کام کے لیے کامیابی کا سامان کر دے (۱۰) پھر ہم نے کئی سال تک غار میں ان کے کان بند کر دیے (۱۱) پھر ہم نے انہیں اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ دونوں جماعتوں میں سے کس نے یاد رکھی ہے جتنی مدت وہ رہے (۱۲) ہم تمہیں ان کا صحیح حال سناتے ہیں بے شک وہ کئی جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے انہیں اور زيادہ ہدایت دی (۱۳) اورہم نے ان کے دل مضبوط کر دیے جب وہ یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے کہ ہمارا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے ہم اس کے سوا کسی معبود کو ہرگز نہ پکاریں گے ورنہ ہم نے بڑی ہی بیجا بات کہی (۱۴) یہ ہماری قوم ہے انہوں نے الله کے سوا اورمعبود بنا لیے ہیں ان پر کوئی کھلی دلیل کیوں نہیں لاتے پھر اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جس نے الله پر جھوٹ باندھا (۱۵) اور جب تم ان سے الگ ہو گئے ہواور الله کے سوا جنہیں وہ معبود بناتے ہیں تب غار میں چل کر پناہ لو تم پر تمہارا رب اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارے لیے تمہارےاس کام میں آرام کا سامان کر دے گا (۱۶) اور تو سورج کو دیکھے گا جب وہ نکلتا ہے تو ان کے غار کے دائیں طرف سے ہٹا ہوا رہتا ہے اور جب ڈوبتا ہے تو ان کی بائیں طرف سے کتراتا ہو گزر جاتا ہے وہ اس کے میدان میں ہیں یہ الله کی نشانیوں میں سے ہے جسے الله ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے وہ گمراہ کر دے پھر اس کے لیے تمہیں کوئی بھی کارساز پر لانے والا نہیں ملے گا (۱۷) اور تو انہیں جاگتا ہوا خیال کرے گا حالانکہ وہ سو رہے ہیں اورہم انہیں دائیں بائیں پلٹتے رہتے ہیں اور ان کا کتا چوکھٹ کی جگہ اپنے دونوں بازو پھیلائے بیٹھا ہے اگر تم انہیں جھانک کر دیکھو تو الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہو اورالبتہ تم پر ان کی دہشت چھا جائے (۱۸) اوراسی طرح ہم نے انہیں جگا دیا تاکہ ایک دوسرے سے پوچھیں ان میں سے ایک نے کہا تم کتنی دیر ٹہرے ہو انہوں نے کہا ہم ایک دن یا دن سے کم ٹھیرے ہیں کہا تمہارا رب خوب جانتا ہے جتنی دیر تم ٹھہرے ہو اب اپنے میں سے ایک کو یہ اپنا روپیہ دے کر اس شہر میں بھیجو پھر دیکھے کون سا کھانا ستھرا ہے پھر تمہارے پاس اس میں سے کھانا لائے اور نرمی سے جائے اور تمہارے متعلق کسی کو نہ بتائے (۱۹) بے شک وہ لوگ اگر تمہاری اطلاع پائیں گے تو تمہیں سنگسار کر دیں گےیا اپنے دین میں لوٹا لیں گے پھر تم کبھی فلاح نہیں پا سکو گے (۲۰) اور اسی طرح ہم نے ان کی خبر ظاہر کر دی تاکہ لوگ سمجھ لیں کہ الله کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میں کوئی شک نہیں جبکہ لوگ ان کے معاملہ میں جھگڑ رہے تھے پھر کہا ان پر ایک عمارت بنا دو انکا رب ان کا حال خوب جانتا ہے ان لوگوں نے کہا جو اپنے معاملے میں غالب آ گئے تھے کہ ہم ان پر ضرور ایک مسجد بنائیں گے (۲۱) بعض کہیں گے تین ہیں چوتھا ان کا کتا ہے اور بعض اٹکل پچو سے کہیں گے پانچ ہیں چھٹا ان کا کتا ہے اور بعض کہیں گے سات ہیں آٹھواں ان کا کتا ہے کہہ دو ان کی گنتی میرا رب ہی خوب جانتا ہے ان کا اصلی حال تو بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں سو تو ان کے بارے میں سرسری گفتگو کے سوا جھگڑا نہ کرو ان میں سے کسی سےبھی انکا حال دریافت نہ کر (۲۲) اورکسی چیز کے متعلق یہ ہر گز نہ کہو کہ میں کل اسے کر ہی دوں گا (۲۳) مگر یہ کہ الله چاہے اور اپنے رب کو یاد کر لے جب بھول جائے اور کہہ دو امید ہے کہ میرا رب مجھے اس سے بھی بہتر راستہ دکھائے (۲۴) اور وہ اپنے غار میں تین سو سے زائد نو برس رہے ہیں (۲۵) کہہ دو الله بہتر جانتا ہے کہ کتنی مدت رہے تمام آسمانوں اور زمین کا علم غیب اسی کو ہے کیا عجیب دیکھتا اور سنتا ہے ان کا الله کے سوا کوئی بھی مددگار نہیں اور نہ ہی وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک کرتا ہے (۲۶) اور اپنے رب کی کتاب سے جو تیری طرف وحی کی گئی ہے پڑھا کرو اس کی باتوں کوکوئی بدلنے والا نہیں ہے اور تو اس کے سوا کوئی پناہ کی جگہ نہیں پائے گا (۲۷) تو ان لوگو ں کی صحبت میں رہ جو صبح اور شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اسی کی رضا مندی چاہتے ہیں اور تو اپنی آنکھوں کو ان سے نہ ہٹا کہ دنیا کی زندگی کی زینت تلاش کرنے لگ جائے اور اس شخص کا کہنا نہ مان جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیاہے اور اپنی خواہش کے تابع ہو گیا ہے اور ا سکا معاملہ حد سے گزر ا ہوا ہے (۲۸) اور کہہ دو سچی بات تمہارے رب کی طرف سے ہے پھر جو چاہے مان لے اور جو چاہے انکار کر دے بے شک ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کر رکھی ہے انہیں اس کی قناتیں گھیر لیں گی اور اگر فریاد کریں گے تو ایسے پانی سے فریاد رسی کیے جائیں گے جو تانبے کی طرح پگھلا ہوا ہو گا مونہوں کو جھلس دے گا کیا ہی برا پانی ہو گا او رکیا ہی بری آرام گاہ ہو گی (۲۹) بے شک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے ہم بھی اس کا اجر ضائع نہیں کریں گے جس نے اچھے کام کیے (۳۰) وہی لوگ ہیں جن کے لیے ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی انہیں وہاں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور باریک اور موٹے ریشم کا سبز لباس پہنیں گے وہاں تختوں پر تکیے لگانے والے ہوں گے کیا ہی اچھا بدلہ ہے اور کیا ہی اچھی آرام گا ہے (۳۱) اور انہیں دو شحصوں کی مثال سنا دو ان دونوں میں سے ایک لیے ہم نے انگور کے دو باغ تیار کیے اور ان کے گرد اگرد کھجوریں لگائیں اوران دونو ں کے درمیان کھیتی بھی لگا رکھی تھی (۳۲) دونوں باغ اپنے پھل لاتے ہیں اور پھل لانے میں کچھ کمی نہیں کرتے اور ان دونوں کے درمیان ہم نے ایک نہر بھی جاری کردی ہے (۳۳) اور اسے پھل مل گیا پھر اس نے اپنے ساتھی سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ میں تجھ سے مال میں بھی زيادہ ہوں اور جماعت کے لحاظ سے بھی زیادہ معزز ہوں (۳۴) اور اپنے باغ میں داخل ہوا ایسے حال میں کہ وہ اپنی جان پر ظلم کرنے والا تھا کہا میں نہیں خیال کرتا کہ یہ باغ کبھی برباد ہو گا (۳۵) اورمیں قیامت کو ہونے والی خیال نہیں کرتا اور البتہ اگر میں اپنے رب کے ہاں لوٹایا بھی گیا تو اس سے بھی بہتر جگہ پاؤں گا (۳۶) اسے اس کے ساتھی نے گفتگو کے دوران میں کہا کیا تو اس کا منکر ہو گیا ہے جس نے تجھے مٹی سے پھر نطفہ سے بنایا پھر تجھے پورا آدمی بنا دیا (۳۷) لیکن میرا تو الله ہی رب ہے اور میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کروں گا (۳۸) اور جب تو اپنے باغ میں آیا تھا تو نے کیوں نہ کہا جو الله چاہے تو ہوتا ہے اور الله کی مدد کے سوا کوئی طاقت نہیں اگر تو مجھے دیکھتا ہے کہ میں تجھ سے مال اور اولاد میں کم ہوں (۳۹) پھر امید ہے کہ میرا رب مجھے تیرے باغ سے بہتر دے اور اس پر لو کا ایک جھونکا آسمان سے بھیج دے پھر وہ چٹیل میدان ہوجائے (۴۰) یا اس کا پانی خشک ہوجائے پھر تو اسے ہرگز تلاش کرکے نہ لاسکے گا (۴۱) اور اس کا پھل سمیٹ لیا گیا پھر وہ اپنے ہاتھ ہی ملتا رہ گیا اس پر جو اس نے اس باغ میں خرچ کیا تھا اور وہ اپنی چھتریوں پر گرا پڑا تھا اور کہا کاش میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا (۴۲) اور اس کی کوئی جماعت نہ تھی جو الله کےسوا اس کی مدد کرتے اور نہ وہ خود ہی بدلہ لے سکا (۴۳) یہاں سب اختیار الله سچے ہی کا ہے اسی کا انعام بہتر ہے اور اسی کا دیاہوا بدلہ اچھا ہے (۴۴) اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بیان کرو مثل ایک پانی کے ہے جسے ہم نے آسمان سے برسایا پھر زمین کی روئیدگی پانی کے ساتھ مل گئی پھر وہ ریزہ ریز ہ ہو گئی کہ اسے ہوا ئیں اڑاتی پھرتی ہیں اور الله ہر چیز پر قدرت رکنے والا ہے (۴۵) مال اور اولاد تو دنیا کی زندگی کی رونق ہیں اور تیرے رب کے ہاں باقی رہنے والی نیکیاں ثواب اور آخرت کی امید کے لحاظ سے بہتر ہیں (۴۶) اورجس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تو زمین کو صاف میدان دیکھے گا اور سب کو جمع کریں گے اور ان میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑیں گے (۴۷) اور سب تیرے رب کے سامنے صف باندھ کر پیش کیے جائیں گے البتہ تحقیق تم ہمارے پاس آئے ہو جیسا ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا بلکہ تم نے خیال کیا تھا کہ ہم تمہارے لیے کوئی وعدہ مقرر نہ کریں گے (۴۸) اور اعمال نامہ رکھ دیا جائے گا پھر مجرموں کو دیکھے گا اس چیز سے ڈرنے والے ہوں گے جو اس میں ہے اور کہیں گے افسوس ہم پر یہ کیسا اعمال نامہ ہے کہ اس نے کوئی چھوٹی یا بڑی بات نہیں چھوڑی مگر سب کو محفوظ کیا ہوا ہے اورجو کچھ انہوں نے کیا تھا سب کو موجود پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا (۴۹) اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو تو سوائے ابلیس کے سب نے سجدہ کیا وہ جنوں میں سے تھا سو اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی پھر کیا تم مجھے چھوڑ کر اسے اور اس کی اولاد کو کارساز بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں بے انصافوں کو برا بدل ملا (۵۰) نہ تو آسمان اور زمین کے بناتے وقت اور نہ انہیں بناتے وقت میں نے انہیں بلایا اورمیں گمراہ کرنے والوں کو اپنا مددگار بنانے والا نہ تھا (۵۱) اورجس دن فرمائے گا میرے شریکوں کو پکارو جنہیں تم مانتے تھے پھر وہ انہیں پکاریں گے سو وہ انہیں جواب نہیں دیں گے اور ہم نے ان کے درمیان ہلاکت کی جگہ بنا دی ہے (۵۲) اور گناہگار آگ کو دیکھیں گے اور سمجھیں گے کہ وہ اس میں گرنے والے ہیں اور اس سے بچنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے (۵۳) اور البتہ تحقیق ہم نے اس قرآن میں ان لوگوں کے لیے ہر ایک مثال کو کئی طرح سے بیان کیا ہے اور انسان بڑا ہی جھگڑالو ہے (۵۴) اور جب ان کے پاس ہدایت آئی تو انہیں ایمان لانے اور اپنے رب سے معافی مانگنے سے کوئی چیز مانع نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ انہیں پہلی امتوں کا سا معاملہ پیش آئے یا عذاب ان کے سامنے آجائے (۵۵) اور ہم رسولوں کو صرف خوشخبری دینے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجتے ہیں اور کافر نا حق جھگڑا کرتے ہیں تاکہ ا س سے سچی بات کو ٹلا دیں اور انہوں نے میری آیتوں کو اور جس سے انہیں ڈرایا گیا ہے مذاق بنا لیا ہے (۵۶) اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جسے اس کے رب کی آیتوں سے نصیحت کی جائے پھر ان سے منہ پھیر لے اور جو کچھ اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے بھول جائے بے شک ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں کہ اسے نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں گرانی ہے اور اگر تو انہیں ہدایت کی طرف بلائے تو بھی وہ ہر گز کبھی راہ پر نہ آئیں گے (۵۷) اور تیرا رب بڑا بخنشے والا رحمت والا ہے اگر ان کے کیے پر انہیں پکڑنا چاہتا تو فوراً ہی عذاب بھیج دیتا بلکہ ان کے لیے ایک معیاد مقرر ہے اس کے سوا کوئی پناہ کی جگہ نہیں پائیں گے (۵۸) اور یہ بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کیا ہے جب انہوں نے ظلم کیا تھا اور ہم نے ان کی ہلاکت کا بھی ایک وقت مقرر کیا تھا (۵۹) اورجب موسیٰ نے اپنے جوان سے کہا کہ میں نہ ہٹوں گا یہاں تک کہ دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ پر پہنچ جاؤں یا سالہا سال چلتا جاؤں (۶۰) پھر جب وہ دو دریاؤں کے جمع ہونے کی جگہ پر پہنچے دونوں اپنی مچھلی کو بھول گئے پھر مچھلی نے دریا میں سرنگ کی طرح کا راستہ بنا لیا (۶۱) پھر جب وہ دونوں آگے بڑھ گئے تو اپنے جوان سے کہا کہ ہمارا ناشہ لے آ۔ البتہ تحقیق ہم نے اس سفر میں تکلیف اٹھائی ہے (۶۲) کہا کیا تو نے دیکھا جب ہم اس پتھر کے پاس ٹھرے تومیں مچھلی کو وہیں بھول آیا اور مجھے شیطان ہی نے بھلایا ہے کہ اس کا ذکر کروں اور اس نے اپنی راہ سمندر میں عجیب طرح سے بنا لی (۶۳) کہا یہی ہے جو ہم چاہتے تھے پھر اپنے قدموں کے نشان دیکھتے ہی الٹے پھرے (۶۴) پھر ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ کو پایا جسے ہم نے اپنے ہاں سے رحمت دی تھی اوراسے ہم نے اپنے پاس سے ایک علم سکھایا تھا (۶۵) اسے موسیٰ نے کہا کیا میں تیرے ساتھ رہوں اس شرط پر کہ تو مجھے سکھائے اس میں سے جو تجھے ہدایت کا طریقہ سکھایا گیا ہے (۶۶) کہا بے شک تو میرے ساتھ ہر گز صبر نہیں کر سکے گا (۶۷) اورتو صبر کیسے کرے گا اس بات پر جو تیری سمجھ میں نہیں آئے گی (۶۸) کہا انشاالله تو مجھے صابر ہی پائے گا اور میں کسی بات میں بھی تیری مخالفت نہیں کروں گا (۶۹) کہا پس اگر تو میرے ساتھ رہے تو مجھ سے کسی بات کا سوال نہ کر یہاں تک کہ میں تیرے سامنے اس کا ذکر کروں پس دونوں چلے (۷۰) یہاں تک کہ جب کشتی میں سوار ہوئے تو اسے پھاڑ دیا کہا کیا تو نے اس لیے پھاڑا ہے کہ کشتی کے لوگوں کو غرق کر دے البتہ تو نے خطرناک بات کی ہے (۷۱) کہا کیا میں نے تجھے نہیں کہا تھا کہ تو میرے ساتھ صبر نہیں کر سکے گا (۷۲) کہا میرے بھول جانے پر گرفت نہ کر اورمیرے معاملہ میں سختی نہ کر (۷۳) پھر دونوں چلے یہاں تک کہ انہیں ایک لڑکا ملا تو اسے مار ڈالا کہا تو نے ایک بے گناہ کو ناحق مار ڈالا البتہ تو نے برُی بات کی (۷۴) کہا کیا میں نے تجھے نہیں کہا تھا کہ تو میرے ساتھ صبر نہیں کر سکے گا (۷۵) کہا اگراس کے بعدمیں آپ سے کسی چیز کا سوال کروں تو مجھے ساتھ نہ رکھیں آپ میری طرف سے معذوری تک پہنچ جائیں گے (۷۶) پھر ودنوں چلے یہاں تک کہ جب ایک گاؤں والوں پر گزرے توان سے کھانا مانگا انہوں نے مہمان نوازی سے انکار کر دیا پھر انہوں نے وہاں ایک دیوار پائی جو گرنےہی والی تھی تب اسے سیدھا کر دیا کہا اگر آپ چاہتے تو اس کام پر کوئی اجرت ہی لے لیتے (۷۷) کہا اب میرے اور تیرے درمیان جدائی ہے اب میں تجھے ان باتوں کا راز بتاتا ہوں جن پر تو صبر نہ کر سکا (۷۸) جو کشتی تھی سو وہ محتاج لوگوں کی تھی جو دریا میں مزدوری کرتے تھے پھر میں نے اس میں عیب کر دینا چاہا اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک کشتی کو زبردستی پکڑ رہا تھا (۷۹) اور رہا لڑکا سو اس کے ماں باپ ایمان دار تھے سو ہم ڈرے کہ انہیں بھی سر کشی اور کفر میں مبتلا نہ کرے (۸۰) پھر ہم نے چاہا کہ ان کا رب اس کے بدلہ میں انہیں ایسی اولاد دے جو پاکیزگی میں اس سے بہتر اور محبت میں اس سے بڑھ کر ہو (۸۱) اور جو دیوار تھی سو وہ اس شہر کے دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان کا خزانہ تھا اور ان کا باپ نیک آدمی تھا پس تیرے رب نے چاہا کہ وہ جوان ہو کر اپنا خزانہ تیرے رب کی مہربانی سے نکالیں اور یہ کام میں نے اپنے ارادے سے نہیں کیا یہ حقیقت ہے اس کی جس پر تو صبر نہیں کر سکا (۸۲) اور آپ سے ذوالقرنین کا حال پوچھتے ہیں کہہ دو کہ اب میں تمہیں اس کا حال سناتا ہوں (۸۳) ہم نے اسے زمین میں حکمرانی دی تھی اور اسے ہر طرح کا سازو سامان دیا تھا (۸۴) تو اس نے ایک ساز و سامان تیار کیا (۸۵) یہاں تک کہ جب سورج ڈوبنے کی جگہ پہنچا تو اسے ایک گرم چشمے میں ڈوبتا ہوا پایا اور وہاں ایک قوم بھی پائی ہم نے کہااے ذوالقرنین یا انھیں سزا دے اور یا ان سے نیک سلوک کر (۸۶) کہا جو ان میں ظالم ہے اسے تو ہم سزا ہی دیں گے پھر وہ اپنے رب کے ہاں لوٹایا جائے گا پھر وہ اسے اوربھی سخت سزا دے گا (۸۷) اور جو کوئی ایمان لائے گا اور نیکی کرے گا تو اسے نیک بدلہ ملے گا اور ہم بھی اپنے معاملے میں اسے آسان ہی حکم دیں گے (۸۸) پھر اس نے ایک ساز و سامان تیار کیا (۸۹) یہاں تک کہ جب سورج نکلنے کی جگہ پہنچا تو اس نے سورج کو ایک ایسی قوم پر نکلتے ہوئے پایا کہ جس کے لیے ہم نے سورج کے ادھر کوئی آڑ نہیں رکھی تھی (۹۰) اسی طرح ہی ہے اور اس کے حال کی پوری خبر ہمارےہی پاس ہے (۹۱) پھر اس نے ایک ساز و سامان تیار کیا (۹۲) یہاں تک کہ جب دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا ان دونوں سے اس طرف ایک ایسی قوم کو دیکھا جو بات نہیں سمجھ سکتی تھی (۹۳) انہوں نے کہا کہ اے ذوالقرنین بے شک یاجوج ماجوج اس ملک میں فساد کرنے والے ہیں پھر کیا ہم آپ کے لیے کچھ محصول مقرر کر دیں اس شرط پر کہ آپ ہمارےاور ان کے درمیان ایک دیوار بنا دیں (۹۴) کہا جو میرے رب نے قدرت دی ہے کافی ہے سو طاقت سے میری مدد کرو کہ میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنا دوں (۹۵) مجھے لوہے کے تختے لا دو یہاں تک کہ جب دونوں سروں کے بیچ کو برابر کر دیا تو کہا کہ دھونکو یہاں تک کہ جب اسے آگ کر دیا تو کہا کہ تم میرے پاس تانبا لاؤ تاکہ اس پر ڈال دوں (۹۶) پھر وہ نہ اس پر چڑھ سکتے تھے اور نہ اس میں نقب لگا سکتے تھے (۹۷) کہا یہ میرے رب کی رحمت ہے پھر جب میرے رب کا وعدہ آئے گا تو اسے ریزہ ریزہ کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ سچا ہے (۹۸) اور ہم چھوڑدیں گے بعض ان کے اس دن بعض میں گھسیں گے اور صورمیں پھونکا جائے گا پھر ہم ان سب کو جمع کر یں گے (۹۹) اور ہم دوزخ کو اس دن کافروں کے سامنے پیش کریں گے (۱۰۰) جن کی آنکھوں پر ہماری یاد سے پردہ پڑا ہوا تھا اور وہ سن بھی نہ سکتے تھے (۱۰۱) پھر کافر کیا خیال کرتے ہیں کہ میرے سوا میرےبندوں کو اپنا کارساز بنا لیں گے بے شک ہم نے کافروں کے لیے دوزخ کو مہمانی بنایاہے (۱۰۲) کہہ دو کیا میں تمہیں بتاؤں جو اعمال کے لحاظ سے بالکل خسارے میں ہیں (۱۰۳) وہ جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں کھوئی گئی اور وہ خیال کرتے ہیں کہ بے شک وہ اچھے کام کر رہے ہیں (۱۰۴) یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی نشانیوں کا اور اس کے روبرو جانے کا انکار کیا ہے پھر ان کے سارے اعمال ضائع ہو گئے سو ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن قائم نہیں کریں گے (۱۰۵) یہ سزا ا ن کی جہنم ہے ا سلیے کہ انہوں نے کفر کیا اور میری آیتوں اور میرے رسولوں کا مذاق بنایا تھا (۱۰۶) بے شک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کئے ان کی مہمانی کے لیے فردوس کے باغ ہوں گے (۱۰۷) ان میں ہمیشہ رہیں گے وہاں سے جگہ بدلنی نہ چاہیں گے (۱۰۸) کہہ دو اگر میرے رب کی باتیں لکھنےکے لئے سمندر سیاہی بن جائے تو میرے رب کی باتیں ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہو جائے اور اگرچہ اس کی مدد کے لیے ہم ایسا ہی اور سمندر لائیں (۱۰۹) کہہ دو کہ میں بھی تمہارے جیسا آدمی ہی ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے پھر جو کوئی اپنے رب سے ملنے کی امید رکھے تو اسے چاہیئے کہ اچھے کام کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے (۱۱۰)

w

زنا اور چوری کی حد کیا هین ،، ،، عبدالمومن سلفی

سوال.زنه اور چوری کا کیا حکم هین
www.mominsalafi.BlogSpot.com
جواب ..،
الحمد الله
ايسے جرائم بعض وہ افراد كرتے ہيں جن كا كوئى دين نہيں ہوتا، شريعت مطہرہ نے اس كى سزا بہت سخت ركھى ہے جو علماء كے ہاں " حد الحرابہ يا ڈاكؤوں كى حد " كے نام سے معروف ہے، اور يہ حد اللہ سبحانہ و تعالى كے درج ذيل فرمان ميں بيان كى گئى ہے:
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿ نہيں سوائے اس بات كے كہ جو لوگ اللہ تعالى اور اس كے رسول كے خلاف جنگ كرتے ہيں، اور زمين ميں فساد مچانے كى كوشش كرتے ہيں انہيں يا تو قتل كر ديا جائے، يا پھر انہيں سولى پر چڑھا ديا جائے، يا پھر ان كے الٹ ہاتھ اور پاؤں كاٹ ديے جائيں، يا انہيں جلاوطن كر ديا جائے، يہ ان كے ليے دنيا ميں ذلت ہے، اور انہيں آخرت ميں بہت زيادہ عذاب ہو گا ﴾ المآئدۃ ( 33 ).
حرمين الشريفين كى كبار علماء كميٹى نے شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كى صدارت ميں ان جرائم كے متعلق ايك فيصلہ كيا ہے جس ميں درج ہے:
" كميٹى نے پانچوں ضروريات يعنى دين، جان و مال اور عزت و عقل كى حفاظت كے وجوب اور اس كے اسباب كو صحيح سالم ركھنے كا خيال كرنے كے متعلق علماء كرام نے جو شرعى احكام بيان كيے ہيں اس كا مطالعہ كرنے كے بعد ان خطرات كا اندازہ كيا ہے جو مسلمانوں كى عزت و نفس يا ان كے اموال پر زيادتى، يا ملك ميں امن و امان كى صورت حال كو تہ و بالا كرنے كا باعث بننے والے جرائم سے جنم ليتے ہيں.
اور اللہ سبحانہ وتعالى نے لوگوں كے دين و مال اور اور ان كى جان و روح اور عزت و عقل كو محفوظ بنانے كے ليے وہ قوانين اور حدود اور سزائيں متعين كى ہيں جن كى بنا ہر خاص و عام كو امن و امان حاصل ہوتا ہے، اور آيت حرابہ كے حكم اور مقتضى اور محاربين يعنى فساديوں اور ڈاكؤوں پررسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم كے مطابق حد كى تنفيذ امن و امان اور اطمنان كى كفيل ہے، اور مسلمانوں كى عزت و مال كے خلاف زيادتى جيسے جرائم كا ارادہ كرنے والے شخص كو اس سے باز ركھنے كى ضامن ہے.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى فرماتا ہے:
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿ نہيں سوائے اس بات كے كہ جو لوگ اللہ تعالى اور اس كے رسول كے خلاف جنگ كرتے ہيں، اور زمين ميں فساد مچانے كى كوشش كرتے ہيں انہيں يا تو قتل كر ديا جائے، يا پھر انہيں سولى پر چڑھا ديا جائے، يا پھر ان كے الٹ ہاتھ اور پاؤں كاٹ ديے جائيں، يا انہيں جلاوطن كر ديا جائے، يہ ان كے ليے دنيا ميں ذلت ہے، اور انہيں آخرت ميں بہت زيادہ عذاب ہو گا ﴾ المآئدۃ ( 33 ).
اور صحيحين يعنى بخارى و مسلم شريف ميں انس رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ عكل قبيلہ سے كچھ لوگ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئے، اور وہ صفہ ميں رہتے تھے تو انہيں مدينہ كى آب و ہوا موافق نہ آئى اور وہ بيمار ہو گئے تو كہنے لگے:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہمارے ليے دودھ منگوائيں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ميرے پاس اس كے متعلق تو تمہارے ليے يہى ہو سكتا ہے كہ تم اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے اونٹوں كے پاس چلے جاؤ، تو وہ وہاں چلے گئے اور ان كا دودھ اور پيشاب پيا حتى كہ صحت ياب ہو كر موٹے ہو گئے تو چرواہوں كو قتل كر كے اونٹ ہانك كر چلتے بنے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس اس كى خبر پہنچى تو انہوں نے ان كے پيچھے آدمى روانہ كيے، ابھى دن بھى نہ چڑھا كہ انہيں پكڑ كر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس لايا گيا.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لوہے كى سلاخيں گرم كرنے كا حكم ديا اور گرم كر كے ان كى آنكھوں ميں پھيرى گئى، اور ان كى ٹانگوں اور ہاتھوں كو كاٹ ديا گيا، اور داغ لگا كر ان كا خون نہ بند كيا گيا پھر انہيں صحراء ميں پھينك ديا گيا، وہ پانى مانگتے تو انہيں پانى نہيں ديا جاتا تھا، حتى كہ وہ ہلاك ہو گئے "
ابو قلابہ كہتے ہيں انہوں نے چورى كيا اور قتل بھى كيا، اور اللہ تعالى اور اس كے رسول كے خلاف جنگ بھى كى.
مندرجہ بالا سطور ميں جو كچھ بيان ہوا ہے اس كى بنا پر كميٹى درج ذيل امور كا فيصلہ كرتى ہے:
ا - بطور تكبر سب كے سامنے علانيہ طور پر اغوا اور مسلمانوں كى حرمت و عزت و ناموس پامال كرنے كے جرائم محاربہ اور زمين ميں فساد جيسے جرائم ميں شمار ہوتے ہيں، جس كى بنا پر اس سزا كا مستحق ٹھرا جاتا ہے جسے اللہ تعالى نے سورۃ المآئدۃ كى آيت محاربہ ميں بيان كيا ہے.
چاہے يہ جرم كسى كى جان پر ہو يا مال يا عزت پر ڈاكہ ڈالا جائے، يا راہ ميں خوف پيدا كيا جائے اور ڈاكہ ڈالا جائے يہ سب كچھ برابر ہے، اور اس كا بستى يا شہر يا صحراء ميں ارتكاب كيا جانا سب برابر ہے، اس ميں كوئى فرق نہيں، جيسا كہ علماء رحمہم اللہ كى رائے ميں راجح يہى ہے.
ابن العربى رحمہ اللہ اپنے قاضى ہونے كے وقت مقدمات بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" ميرے پاس كچھ ايسے لوگ لائے گئے جو زمين ميں فساد مچاتے اور ڈاكے ڈالتے تھى ( يعنى محاربين ميں سے تھے ) وہ ايك جگہ ڈاكہ ڈالنے گئے تو وہاں سے انہوں نے مسلمانوں اور خاوند كے سامنے ايك عورت كو زبردستى اٹھا ليا.
چنانچہ انہيں كوشش كر كے پكڑ ليا گيا اور ميرے پاس لايا گيا تو ميں نے ان ميں سے ايك شخص جس كے ساتھ اللہ نے مجھے آزمائش ميں ڈالا تھا سے سوال كيا تو وہ كہنے لگے كہ ہم محاربين تو نہيں! كيونكہ محاربہ تو مال چھيننا ہے، نہ كہ فرج اور عزت پر ڈاكہ ڈالنا!
تو ميں نے انا للہ و انا اليہ راجعون پڑھتے ہوئے كہا! كيا تمہيں علم نہيں كہ كسى عورت كى عزت لوٹنى تو مال ميں ڈاكہ ڈالنے سے بھى زيادہ فحش اور گندا كام ہے؟! اور سب لوگ يہ چاہيں گے كہ تم ان سامنے سے ان كا مال چھين كر لے جاؤ، ليكن كوئى بھى شخص يہ نہيں چاہتا كہ اس كى بيوى اور بيٹى كو كچھ كہا جائے، اگر اللہ تعالى كے فرمان سے بھى كوئى زيادہ سزا ہوتى تو عزت لوٹنے والوں كو وہ سزا دى جاتى. انتہى.
ب ـ كميٹى كى رائے يہ ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى كے درج ذيل فرمان:
﴿ نہيں سوائے اس بات كے كہ جو لوگ اللہ تعالى اور اس كے رسول كے خلاف جنگ كرتے ہيں، اور زمين ميں فساد مچانے كى كوشش كرتے ہيں انہيں يا تو قتل كر ديا جائے، يا پھر انہيں سولى پر چڑھا ديا جائے، يا پھر ان كے الٹ ہاتھ اور پاؤں كاٹ ديے جائيں، يا انہيں جلاوطن كر ديا جائے، يہ ان كے ليے دنيا ميں ذلت ہے، اور انہيں آخرت ميں بہت زيادہ عذاب ہو گا ﴾ المآئدۃ ( 33 ).
ميں " او " تخيير كے ليے ہے، جيسا كہ آيت كريمہ سے ظاہر ہو رہا ہے، اور اہل علم رحمہم اللہ ميں سے اكثر محققين كا بھى يہى قول ہے.
ج ـ كميٹى كى اكثر رائے يہى ہے كہ حكمران كے جج اور قاضى جرم كى نوعيت اور اس كے حكم كو ثابت كريں، اور جب ان كے ہاں يہ ثابت ہو جائے كہ يہ اللہ تعالى اور اس كے رسول كے خلاف محاربہ اور جنگ اور زمين ميں فتنہ و فساد مچانے كى كوشش و سعى ہے، تو پھر انہيں قتل يا سولى چڑھانے، يا الٹ ہاتھ پاؤں كاٹنے، يا جلا وطن كرنے ميں سے اپنے اجتھاد كے مطابق كسى بھى حكم كو اختيار كرنے كا اختيار حاصل ہے.
اس ميں انہيں مجرم كے واقع اور جرم كى حالت اور معاشرے پر اس كى اثراندازى، اور اسلام اور مسلمانوں كے ليے حاصل ہونے والى مصلحت كا خيال ركھنا ہو.
ليكن اگر محارب شخص نے قتل بھى كيا ہو تو پھر اسے حتمى طور پر قتل كرنا ہوگا، جيسا كہ ابن العربى مالكى نے بطور اجماع بيان كيا ہے، اور حنابلہ ميں سے الانصاف كے مصنف نے كہا ہے كہ: " اس ميں كوئى نزاع و اختلاف نہيں " انتہى.
ماخوذ از: كبار علماء كرام كميٹى كى بحث بعنوان: الحكم فى السطو و الاختلاف المسكرات صفحہ نمبر ( 192 - 194 ).
واللہ اعلم .

بیوی بچدن کو کهر پر رکهکر دین کی دعوت کا کام کرنا اور کهی دینون بعد کهر آنا ،

الحمد للہ:

امت محمدیہ امت مقتصدہ اورمتوسط امت ہے تواس لحاظ سے جوبھی امت محمدیہ کی طرف منسوب ہے اسے بھی اپنی پوری زندگی میں اسی طرح توسط اورمیانہ روی اختیارکرنی چاہیے ۔
جس وقت ہم یہ سنتے ہیں کہ کچھ مسلمان اپنے اوقات اہل عیال سے دورگزارتے ہیں ، چاہے وہ دعوتی کاموں یا پھرکسی سفرکی بنا پراوریاپھر کسی مباح اورجائزامورمیں گزاریں ، اوراس کے برعکس ہم کچھ لوگوں کودیکھتے ہیں کہ وہ اپنے اہل عیال سے ہی چمٹے ہوۓ ہیں اوراپنے وقت میں سے کچھ بھی دعوتی کاموں میں صرف نہیں کرتے ۔
توجس طرح ایک گھرانے کے سربراہ پراہل عیال کے حقوق ہیں کہ ان میں وہ افراط سے کام نہ لے ، تواسی طرح گھرکے علاوہ دوسرے مسلمانوں اورغیر مسلمانوں کے بھی اس کے ذمہ کچھ حقوق ہیں جن میں ضروری ہے کہ تفریط سے کام نہ لیا جاۓ ۔
حسن رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہيں کہ عبیداللہ بن زیاد رحمہ اللہ نے معقل بن یساررضی اللہ تعالی عنہ کی مرض الموت میں تیمارداری کی تومعقل رضي اللہ تعالی کہنے لگے میں تمہیں وہ حدیث بیان کرتا ہوجومیں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ۔
میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوۓ سنا :
( اللہ تعالی نے جس شخص کے بھی ماتحت کچھ لوگ کردیے تووہ انہیں نصیحت نہیں کرتا تووہ جنت کی خوشبو بھی نہیں حاصل کرسکتا ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 6731 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 142 ) ۔
عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( تم میں سے ہرایک راعی ( سربراہ ) ہے اورہرایک سے اس کی رعایا کے متعلق سوال ہوگا ، امیرراعی ہے وہ اپنے ماتحتوں کے بارہ میں جواب دہ ہے ، اورآدمی آپنے گھر والوں پرسربراہ ہے وہ ان کے متعلق جواب دہ ہوگا ، عورت خاوند کے گھرپرراعیہ ہے اسے اس کے بارہ میں سوال ہوگا ، اور غلام اپنے مالک کے مال کا راعی ہے اسے اس کے بارہ میں سوال ہوگا ، خبردار! تم میں سے ہرایک راعی اوراورہر ایک جواب دہ ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4892 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1629 ) ۔
اوربہت ساری ایسی بیویاں ہیں جو یہ چاہتی ہيں کہ ان کا خاوند ان کے پاس سے کہيں بھی نہ جاۓ چاہے وہ نماز کےلے ہی ہو تودعوت الی اللہ کے لیے کیسے ؟
زمانہ قدیم میں کسی عورت نے کہا تھا : میرے لیے تین سوکنوں کا ہونا ( یعنی کہ میرے خاوند کی تین اوربیویاں ہوں ) خاوند کی کتابوں کی لائبریری سے آسان ہے ، اس لیے کہ اس کا خاوند لکھنے پڑھنے اورعلم میں شغف رکھتا تھا ۔
تواسی لیے بیوی کی ہر خواہش نہیں مانی جاسکتی بلکہ اس کی خواہش اورچاہت کواللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہت پر پرکھا جاۓ گا ۔
نبی صل اللہ علیہ وسلم نے بعض عبادات میں حکم دیا ہے کہ اس میں حدشرعی کوتجاوزنہ کیا جاۓ جس کے سبب سے دوسرے کے حقوق ضائع ہونے کا خدشہ ہو ، اوران میں سب سے پہلے گھروالوں کے حقوق ہیں ۔
اس سلسلےمیں کچھ احادیث کا ذکرکیا جاتا ہے :
عون ابی جحیفہ اپنے والدسے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان فارسی اورابودرداء رضي اللہ تعالی عنہما کے درمیان مؤاخات قائم کی توسلمان فارسی رضي اللہ تعالی عنہ نے ابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ کی زیارت کے لیے گۓتوام درداء رضي اللہ تعالی عنہانے کام والے میلے کچیلے کپڑے زیب تن رکھے تھے ( یہ واقعہ پردہ کے نزول سے قبل کا ہے ) سلمان فارسی رضي اللہ تعالی عنہ ام درداء رضي اللہ تعالی عنہا کوکہنے لگے اپنی حالت کیا بنا رکھی ہے ؟
تووہ جواب میں کہنے لگيں کہ آپ کے بھائ ابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ کودنیا کی ضرورت ہی نہیں ، توابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ آۓ اورکھانا پیش کیا توسلمان فارسی رضي اللہ تعلی عنہ نے انہیں کہا کہ آپ بھی کھائيں ابودرداء رضي اللہ تعالی نے کہا میرا روزہ ہے ۔
سلمان فارسی رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے میں بھی اس وقت تک نہیں کھاؤں گا جب تک آپ نہیں کھائيں گے ، توان دونوں نے کھایا اورجب رات ہوئ تو ابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ قیام کرنے لگے تو سلمان فارسی رضي اللہ تعالی عنہ نے کہا آّپ سوجائيں تووہ سو گۓ ۔
کچھ دیربعد پھر اٹھ کرقیام کرنے لگے توسلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا سوجائيں اورجب رات کا آخری پہر ہوا سلمان فارسی رضي اللہ تعالی عنہ نے کہا اب اٹھواورقیام کرو توان دونوں نے قیام کیا ۔
سلمان فارسی رضي اللہ تعالی عنہ ابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ کوکہنے لگے آپ پرآپ کے رب بھی حق ہے اوراسی طرح آپ کی جان و جسم کا بھی آپ پرحق ہے اور آپ کی بیوی بچوں کا بھی حق ہے اس طرح ہر حقدارکو اس کا حق ادا کرو، توابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آۓ اوریہ سب کچھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوبتایا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سلمان فارسی نے سچ کہا ہے ۔ صحیح بخاری حديث نمبر ( 1867 ) ۔
اس حدیث میں لفظ مبتذلۃ کا معنی میلی کچیلی حالت اورلباس والا ہے ۔
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا :
کیا مجھے یہ نہیں بتایا گيا کہ تودن کوروزہ رکھتا اوررات کوقیام کرتا ہے ؟ کیوں نہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے یہ نہ کیا کرو بلکہ روزہ رکھوبھی اورترک بھی کرو ، قیام بھی کیا کرو اورسویابھی کرو ۔
اس لیے کہ تیرے جسم کا بھی تجھ پرحق ہے اورتیری آنکھوں کا بھی تجھ پرحق ہے اورتیری بیوی کا بھی تجھ پرحق ہے ، اورتیرے مہمان کا بھی تجھ پرحق ہے آپ کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ہرمہینہ تین روزے رکھا لیا کرو ، اس لیے کہ ہر نیکی میں دس نیکیوں کا بدلہ ملتا ہے ، تواس طرح آپ کے یہ روزے مکمل سال کے روزے ہوں گے ۔
میں نے تشدد کیا تومجھ پربھی سختی کردی گئ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوکہا میں طاقت رکھتا ہوں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا کرو اللہ کے نبی داود علیہ السلام کی طرح روزے رکھا لیا کرو اوراس سے زيادہ نہيں ۔
میں نے پوچھا کہ داوود علیہ السلام کے روزے کس طرح کے تھے ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نصف زمانہ ( یعنی ایک دن روزہ اورایک دن افطار) توعبداللہ رضي اللہ تعالی عنہ جب بوڑھے ہوگۓ توکہا کرتے تھے کہ کاش میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئ رخصت پر عمل کرلیتا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1874 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1159 ) ۔
توآپ ان احادیث میں دیکھتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاسے جوکہ اپنے اہل عیال کے حقوق میں افراط سے کام لے رہا تھا کہ وہ قیام اور روزہ رکھنے اورقرآت قرآن میں کثرت سے نہیں بلکہ اعتدال سے کام لے ، اور یہ اسی لیے ہے کہ دوسرے حقوق والوں کے حق کا خیال رکھا جاۓ اوران میں اہل عیال بھی شامل ہیں ۔
اورجوبھی اپنے وقت کومرتب کرکے ہرایک حقدارکو اس کا حق دیتا ہے تواس کے بعد اس کے لیے کسی کی رضامندی اورناراضگی کوئ اہمیت نہیں رکھتی ، توآّپ دعوتی امورکو اپنی زندگی اوروقت پرمکمل طورپرنہ ٹھونسیں اورنہ ہی اپنی بیوی کے کہنے پردعوتی کام کلی طورپر ترک کردیں ۔
ان شاءاللہ اس میں چندایک معاون امور ہیں جن کا ذکر کرنا مناسب لگتا ہے ، یہ کہ آّپ اپنی بیوی کوبھی دعوتی امورمیں شامل کرنے کی کوشش کریں اوراسے کوئ کیسٹ سننے اوراس کا خلاصہ کرنے کے لیے دیں ۔
یا پھر اسے پڑھنے کے لیے پمفلٹ اوراس کے فوا‏ئد لکھنے کے لیے دیں ، یا اسے علمی حلقوں اوردروس میں جانے کا کہیں ، اوراسلامی مراکزميں عورتوں کے پروگراموں میں شریک کریں ، یا اسی طرح عورتوں کی کسی علمی مجلس جوکہ شادی وغیرہ کی مجالس میں تا کہ اسے یہ محسوس ہوکہ وہ اس کام میں آپ کے ساتھ ہے ، تا کہ وہ خاوند کے غیرموجودگی سے اکتاہٹ محسوس نہ کرے
ایک اور چيزیہ ہے کہ آپ اسے یہ سمجھانے کی کوشش کریں کہ اگروہ اس پرصبر کرے اور علم و دعوت کے لیے مناسب فضا اور ماحول تیار کرے تووہ بھی اجرو ثواب میں اس کے ساتھ برابر کی شریک ہے ۔
اوریہ کہ جب صحابی جہاد کے لیے جاتے توان کی بیویاں صحابیات رضي اللہ تعالی عنہن اپنے گھروں اوربچوں کی حفاظت کیا کرتی تھی اورجب وہ گھر واپس تشریف لاتے تواپنے خاوندکے آنے والے مہمانوں کی مہمان نوازی کیا کرتی تھیں ۔
اوراسے یہ بھی سمجھانے کی کوشش کریں کہ جب وہ گھر سے باہر طلب علم یا پھر دعوت وجہا د کے لیے جاۓ تواپنے خاوند کے گھر کی حفاظت کرے اورگھرمیں آنے والے طالب علموں اورمہمانوں کی مہمان نوازی کرے تواس کے لیے اس میں بہت زيادہ اجرو ثواب ہے ۔
اس لیے کہ ایک تیرکی بنا پراللہ تعالی صرف اکیلے تیراندازکو ہی جنت میں نہيں داخل کرے گا بلکہ اس کی وجہ سے تین اشخاص کو جنت میں لے جاۓ گا جن میں ایک توبنانے والا کاریگرجس نے اسے اچھی نیت سے بنایا اور دوسرا تیراندازکوتیر پکڑانے والا اور تیسرا خود تیرانداز ۔
بیوی کویہ موضوع سمجھانے اوراجرو ثواب کا ادراک کرانے سے خاوند کے غائب ہونے اوراس کے پاس نہ ہونے کے معاملہ میں بہت ساری تخفیف کا باعث ہوگا ۔
اورآخرمیں ہم اس عظیم عورت کے عظیم قصہ سے اس کوختم کرتے ہيں جن کاخاونددعوت و جھاد اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسلامی مملکت کے امورمیں معاونت کرتا تھا اس قصہ میں ہم دیکھیں گے کہ وہ کیا کرتی اوران کا موقف کیا تھا ۔
یہ عورت عظیم وجلیل صحابی اورخلیفہ اول ابوبکرالصدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی صاحبزادی اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہا ہیں ۔
آئيں اب ہم وہ قصہ بھی انہیں کی زبانی ہی سنیں :
اسماء بنت ابی بکررضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتی ہیں کہ زبیررضي اللہ تعالی عنہ نے مجھ سےشادی کی توان کے پاس اس دنیامیں کوئ کسی قسم کا مال ودولت نہ تھا نہ توکوئ غلام اورنہ ہی کو‏ئ چيز صرف ان ایک گھوڑا اورایک پانی لانے کے لیے اونٹ تھا ۔
میں ان کے گھوڑے کوچارہ ڈالتی اورپانی پلاتی اور اس کا ڈول وغیرہ سیتی تھی ، آٹاگوندتی لیکن اچھی طرح روٹی نہیں پکا سکتی تھی ، میری انصاری سہیلیاں جوکہ سچی اوراچھی عورتیں تھیں آ کرروٹیاں پکا دیتیں ، میں زبیررضي اللہ تعالی عنہ کی اس زمین سے جوانہيں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی سےاپنےسر پرگٹھلیاں اٹھا کرلایا کرتی تھی جوکہ ہمارے گھرسے دوثلث فرسخ کے فاصلے پرتھی ۔
میں ایک دن آرہی تھی اورمیرے سرپرگٹھلیاں تھیں توراستے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کچھ انصاری صحابیوں کے ساتھ آتےہوۓ ملے تومجھے بلایا پھرکہنے لگے اخ اخ ( یہ کلمہ اونٹ کوبٹھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے ) تا کہ مجھے اپنے پیچھے بٹھاسکیں ، لیکن میں شرما گئى کہ میں مردوں کے ساتھ چلوں مجھے زبیر رضي اللہ تعالی عنہ اوران کی غیرت یاد آگئ جو کہ بہت زياد غیرت مند تھے ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جان لیا کہ میں شرما گئى ہوں توچل پڑے ۔
میں زبیر رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس آئى اوران سے کہا مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ملے تومیرے سرپرگٹھلیاں تھیں اوران کے ساتھ کچھ انصاری صحابی رضي اللہ تعالی عنہم بھی تھے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بیٹھنے کے لیے اپنی اونٹنی بٹھائى تومجھے شرم آگئ اورمیرے ذہن میں آپ کی غیرت دوڑ گئى
زبیررضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے : اللہ تعالی کی قسم مجھ پرتیرا یہ گٹھلیاں اٹھانا تیرا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اونٹ پرسوارہونے سے بھی سخت گزرتا ہے ۔
اسماء رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں حتی کہ اس کے بعدابوبکررضي اللہ تعالی عنہ نے میرے پاس ایک غلام بھیج دیا جوکہ گھوڑے کو سنبھالتا تھا اوراس غلام نے گویا کہ مبھےآزاد کردیا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4823 ) ۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہيں کہ وہ مسلمانوں بیویوں اورخاوندوں کے ہر قسم کے حالات کی اصلاح فرماۓ آمین ۔
اوراللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پررحمتوں کا نزول کرے
واللہ اعلم .

بدھ، 13 جنوری، 2016

سوره يس كا اردو ترجمه ،. عبدالمومن سلفي

سورة یسٓ
شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
یسۤ (۱) قرآن حکمت والے کی قسم ہے (۲) بے شک آپ رسولوں میں سے ہیں (۳) سیدھے راستے پر (۴) غالب رحمت والے کا اتارا ہوا ہے (۵) تاکہ آپ اس قوم کو ڈرائیں جن کے باپ دادا نہیں ڈرائے گئے سو وہ غافل ہیں (۶) ان میں سے اکثر پر خدا کافرمان پورا ہو چکا ہے پس وہ ایمان نہیں لائیں گے (۷) بے شک ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیے ہیں پس وہ ٹھوڑیوں تک ہیں سو وہ اوپر کو سر اٹھائے ہوئے ہیں (۸) اور ہم نے ان کے سامنے ایک دیواربنادی ہے اور ان کے پیچھے بھی ایک دیوارہے پھر ہم نے انہیں ڈھانک دیا ہے کہ وہ دیکھ نہیں سکتے (۹) اور ان پر برابر ہے کیا آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے (۱۰) بے شک آپ اسی کو ڈرا سکتے ہیں جو نصیحت کی پیروی کرے اوربن دیکھے رحمان سے ڈرے پس خوشخبری دے دو اس کو بخشش اوراجر کی جو عزت والا ہے (۱۱) بے شک ہم ہی مردوں کو زندہ کریں گے اور جو انھوں نے آگے بھیجا اور جو پیچھے چھوڑا اس کو لکھتے ہیں اور ہم نے ہر چیز کو کتاب واضح (لوح محفوظ) میں محفوظ کر رکھا ہے (۱۲) اور ان سے بستی والوں کا حال مشال کے طور پر بیان کر جب کہ ان کے پاس رسول آئے (۱۳) جب ہم نے ان کے پاس دو کو بھیجا انھوں نے ان کو جھٹلایا پھر ہم نے تیسرے سے مدد کی پھر انہوں نے کہا ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں (۱۴) انہوں نے کہا تم کچھ اور نہیں ہو مگر ہماری طرح انسان ہو اور رحمان نے کوئی چیز نہیں اتاری تم اور کچھ نہیں ہو مگر جھوٹ بول رہے ہو (۱۵) انہوں نے کہا ہمارا رب جانتا ہے کہ ہم تمہاری طرف بھیجے ہوئے ہیں (۱۶) اورہمارے ذمے کھلم کھلا پہنچا دینا ہی ہے (۱۷) انہوں نے کہا ہم نے تو تمہیں منحوس سمجھا ہے اگر تم باز نہ آؤ گے توہم تمہیں سنگسار کر دیں گے اور تمہیں ہمارے ہاتھ سے ضرور دردناک عذاب پہنچے گا (۱۸) انہوں نے کہا تمہاری نحوست تو تمہارے ساتھ ہے کیا اگر تمہیں نصیحت کی جائے (تو اسے نحوست سمجھتے ہو) بلکہ تم حد سے بڑھنے والے ہو (۱۹) اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا کہا اے میری قوم رسولوں کی پیروی کرو (۲۰) ان کی پیروی کرو جو تم سےکوئی اجر نہیں مانگتے اوروہ ہدایت پانے والے ہیں (۲۱) اور میرے لیے کیا ہے کہ میں اس کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے (۲۲) کیا میں اس کے سوا اوروں کو معبود بناؤں کہ اگر رحمان مجھے تکلیف دینے کا ارادہ کرے تو ان کی سفارش کچھ بھی میرے کام نہ آئے اور نہ وہ مجھے چھڑا سکیں (۲۳) بے شک تب میں صریح گمراہی میں ہوں گا (۲۴) بے شک میں تمہارے رب پر ایمان لایا پس میری بات سنو (۲۵) کہا گیا جنت میں داخل ہو جا اس نے کہا اے کاش! میری قوم بھی جان لیتی (۲۶) کہ میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مجھے عزت والوں میں کر دیا (۲۷) اور ہم نے اس کی قوم پر اس کے بعد کوئی فوج آسمان سے نہ اتاری اور نہ ہم اتارنے والے تھے (۲۸) صرف ایک ہی چیخ تھی کہ جس سے وہ بجھ کر رہ گئے (۲۹) کیا افسوس ہے بندوں پر ان کے پاس ایساکوئی بھی رسول نہیں آیا جس سے انہوں نے ہنسی نہ کی ہو (۳۰) کیا یہ نہیں دیکھ چکے کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کر دیا وہ ان کے پاس لوٹ کر نہیں آئے (۳۱) اور سب کے سب ہمارے پاس حاضر ہیں (۳۲) اور ان کے لیے خشک زمین بھی ایک نشانی ہے جسے ہم نے زندہ کیا اور اس سے اناج نکالا جس سے وہ کھاتے ہیں (۳۳) اور اس میں ہم نے کھجوروں اور انگوروں کے باغ بنائے اور ان میں چشمے جاری کیے (۳۴) تاکہ وہ اس کے پھل کھائیں اور یہ چیزیں ان کے ہاتھوں کی بنائی ہوئی نہیں ہیں پھر کیوں شکر نہیں کرتے (۳۵) وہ ذات پاک ہے جس نے زمین سے اگنے والی چیزوں کوگوناگوں بنایا اور خود ان میں سے بھی اور ان چیزوں میں سے بھی جنہیں وہ نہیں جانتے (۳۶) اور ان کے لیے رات بھی ایک نشانی ہے کہ ہم اس کے اوپرسے دن کو اتار دیتے ہیں پھر ناگہاں وہ اندھیرے میں رہ جاتے ہیں (۳۷) اور سورج اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہتا ہے یہ زبردست خبردار کا اندازہ کیا ہوا ہے (۳۸) اور ہم نے چاند کی منزلیں مقرر کر دی ہیں یہاں تک کہ پرانی ٹہنی کی طرح ہوجاتا ہے (۳۹) نہ سورج کی مجال ہے ہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے آ سکتی ہے اور ہر ایک ایک آسمان میں تیرتا پھرتا ہے (۴۰) اور ان کے لیے یہ بھی نشانی ہے ہم نے ان کی نسل کوبھری کشتی میں سوار کیا (۴۱) اور اُن کے لیے اسی طرح کی اور بھی چیزیں بنائی ہیں جن پر وہ سوار ہوتے ہیں (۴۲) اور اگر ہم چاہتے تو انہیں ڈبو دیتے پھر نہ اُن کا کوئی فریاد رس ہوتا اور نہ وہ بچائے جاتے (۴۳) مگر یہ ہماری مہربانی ہے اور انہیں ایک مدت تک فائدہ دینا ہے (۴۴) اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ اپنے سامنے اور پیچھے آنے والے عذاب سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے (۴۵) اور اُن کے پاس اُن کے پروردگار کی کوئی نشانی نہیں آتی مگر اس سے منہ پھیر لیتے ہیں (۴۶) اور جب ان سے کہا جاتا ہےکہ الله کے رزق میں سے کچھ خرچ کیا کرو تو کافر ایمانداروں سے کہتے ہیں کیا ہم اسے کھلائیں گےکہ اگر الله چاہتا تو خود اسے کھلا سکتا تھا تم جو ہو تو صاف گمراہی میں پڑے ہوئے ہو (۴۷) اور کہتے ہیں یہ وعدہ کب ہوگا اگر تم سچے ہو (۴۸) وہ صرف ایک چیخ ہی کا انتظار کر رہے ہیں جو انہیں آ لے گی اور وہ آپس میں جھگڑ رہے ہوں گے (۴۹) پس نہ تو وہ وصیت کر سکیں گے اور نہ اپنے گھر والوں کی طرف واپس جا سکیں گے (۵۰) اور صور پھونکا جائے گا تو وہ فوراً اپنی قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف دوڑے چلے آئیں گے (۵۱) کہیں گے ہائے افسوس کس نے ہمیں ہماری خوابگاہ سے اٹھایا یہی ہے جو رحمان نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں نے سچ کہا تھا (۵۲) وہ تو صرف ایک ہی زور کی آواز ہو گی پھر وہ سب ہمارے سامنے حاضر کیے جائیں گے (۵۳) پھر اس دن کسی پرکچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا اورتم اسی کا بدلہ پاؤ گے جو کیا کرتے تھے (۵۴) بے شک بہشتی اس دن مزہ سے دل بہلا رہے ہوں گے (۵۵) وہ اوران کی بیویاں سایوں میں تختوں پر تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے ہوں گے (۵۶) اُن کے لیے وہاں میوہ ہوگا اور انہیں ملے گا جو وہ مانگیں گے (۵۷) پروردگار نہایت رحم والے کی طرف سے انہیں سلام فرمایا جاوے گا (۵۸) اے مجرمو! آج الگ ہو جاؤ (۵۹) اے آدم کی اولاد! کیا میں نے تمہیں تاکید نہ کر دی تھی کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا کیونکہ وہ تمہارا صریح دشمن ہے (۶۰) اور یہ کہ میری ہی عبادت کرنا یہ سیدھا راستہ ہے (۶۱) اور البتہ اُس نے تم میں سے بہت لوگوں کو گمراہ کیا تھا کیا پس تم نہیں سمجھتے تھے (۶۲) یہی دوزخ ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا (۶۳) آج اس میں داخل ہو جاؤ اس کے بدلے جوتم کفر کیا کرتے تھے (۶۴) آج ہم اُن کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور ہمارے ساتھ اُن کے ہاتھ بولیں گے اور اُن کے پاؤں شہادت دیں گے اِس پر جو وہ کیا کرتے تھے (۶۵) اور اگر ہم چاہیں تو اُن کی آنکھیں مٹاڈالیں پس وہ راستہ کی طرف دوڑیں پھر وہ کیوں کر دیکھ سکیں (۶۶) اور اگر ہم چاہیں تو ان کی صورتیں ان جگہوں پر مسخ کر دیں پس نہ وہ آگے چل سکیں او ر نہ ہی واپس لوٹ سکیں (۶۷) اور ہم جس کی عمر زیادہ کرتے ہیں بناوٹ میں اسے الٹا گھٹاتے چلے جاتے ہیں کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے (۶۸) اور ہم نے نبی کو شعر نہیں سکھایا اور نہ یہ اس کے مناسب ہی تھا یہ تو صرف نصیحت اور واضح قرآن ہے (۶۹) تاکہ جو زندہ ہے اسے ڈرائے اور کافروں پر الزام ثابت ہو جائے (۷۰) کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان کے لیے اپنے ہاتھوں سے چار پائے بنائے جن کے وہ مالک ہیں (۷۱) اور انہیں ان کے بس میں کر دیا ہے پھر ان میں سے کسی پر چڑھتے ہیں اور کسی کو کھاتے ہیں (۷۲) اور اُن کے لیے ان میں اور بہت سے فائدے اور پینے کی چیزیں ہیں پھر کیوں شکر نہیں کرتے (۷۳) اور الله کے سوا انہوں نے اور معبود بنا رکھے ہیں تاکہ وہ اُن کی مدد کریں (۷۴) وہ اُن کی مدد نہیں کر سکیں گے اور وہ اُن کے حق میں ایک فریق (مخالف) ہوں گے جو حاضر کیے جائیں گے (۷۵) پھر آپ ان کی بات سے غمزدہ نہ ہوں بے شک ہم جانتے ہیں جو وہ چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں (۷۶) کیا آدمی نہیں جانتاکہ ہم نے اسے منی کے ایک قطرے سے بنایا ہے پھر وہ کھلم کھلا دشمن بن کر جھگڑنے لگا (۷۷) اور ہماری نسبت باتیں بنانے لگا اور اپنا پیدا ہونا بھول گیا کہنے لگا بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کر سکتا ہے (۷۸) کہہ دوانہیں وہی زندہ کرے گا جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور وہ سب کچھ بنانا جانتا ہے (۷۹) وہ جس نے تمہارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کر دی کہ تم جھٹ پٹ اس سے آگ سلگا لیتے ہو (۸۰) کیا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو بنا دیا اس پر قاد رنہیں کہ ان جیسے اور بنائے کیوں نہیں وہ بہت کچھ بنانے ولا ماہر ہے (۸۱) اس کی تو یہ شان ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اتنا ہی فرما دیتا ہے کہ ہو سو وہ ہو جاتی ہے (۸۲) پس وہ ذات پاک ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا کامل اختیار ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے (۸۳)

 

دوران نماز رومال كا استمال كرنا

الحمد للہ:
اس حالت ميں نمازى كے ليے رومال اور ٹيشو پيپر وغيرہ استعمال كرنا جائز ہے، علماء كرام رحمہ اللہ نے ضرورت كے وقت نماز كى حالت ميں تھوڑى سى حركت كر لينے كو جائز قرار ديا ہے، جيسا كہ امام نووى رحمہ اللہ تعالى كى كتاب " المجموع " ( 4 / 94 ) ميں ہے.
اور انہوں نے بہت سى احاديث سے استدلال كيا ہے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے وارد ہيں جن ميں سے چند ايك ذيل ميں دى جاتى ہيں:
ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے صحابہ كرام كو نماز پڑھا رہے تھے كہ انہوں نے اچانك جوتے اتار كر اپنے بائيں جانب ركھ ليے، جب لوگوں نے يہ ديكھا تو انہوں نے بھى اپنے جوتے اتار ديے، اور جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز مكمل كى تو فرمانے لگے:
" تمہيں كس چيز نے جوتے اتارنے پر ابھارا ؟
تو صحابہ كرام نے عرض كيا: ہم نے آپ كو جوتے اتارتے ہوئے ديكھا تو ہم نے بھى اپنے جوتے اتار ديے"
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ نے فرمايا:
" ميرے پاس جبريل عليہ السلام تشريف لائے اور مجھے بتايا كہ ان جوتوں ميں گندگى لگى ہوئى ہے.
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم ميں كوئى مسجد ميں آئے تو وہ اپنے جوتے ديكھے اگر اس نے اپنے جوتے ميں كوئى گندگى وغيرہ ديكھى تو اسے رگڑے اور ان ميں نماز ادا كر لے"
سنن ابو داود حديث نمبر ( 650 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 605 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
خطابى رحمہ اللہ تعالى " معالم السننن " ميں كہتے ہيں:
اس حديث ميں ہے كہ عمل يسير نماز كو نہيں توڑتا. اھـ
ديكھيں: المعالم السنن ( 2 / 329 ).
اور جب نماز ميں انسان كو كھنگار اور بلغم وغيرہ تھوكنے كى ضرورت ہو مثلا جسے زكام وغيرہ لگا ہو تو وہ ٹيشو پيپر نكال كر اس ميں تھوك سكتا ہے اس ميں كوئى حرج نہيں.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دوران نماز ايسا كرنا ثابت ہے، امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح مسلم ميں ابو ہر يرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مسجد كى قبلہ رخ بلغم ديكھى تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم لوگوں كى طرف متوجہ ہوئے اور فرمايا:
" تم ميں سے كسى ايك كو كيا ہو گيا ہے كہ وہ اپنے رب كى طرف متوجہ ہو كر اپنے سامنے بلغم نكال پھينكتا ہے، كيا تم ميں سے كسى كو يہ پسند ہے كہ اس كے چہرے ميں بلغم پھينكى جائے؟
جب تم ميں سے كسى ايك كو كھنگار اور بلغم آئے تو وہ اپنے پاؤں كے نيچے تھوكے، اور اگر وہ ايسا نہ پائے تو وہ اس طرح كرے، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے كپڑے ميں تھوكا اور كپڑے كو آپس ميں مل ديا"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 855 ).
اور كيا وہ دائيں ہاتھ ميں تھوكے يا بائيں ميں؟
اس كا جواب يہ ہے كہ: اسے بائيں ہاتھ ميں تھوكنا چاہيے كيونكہ شريعت نے دائيں ہاتھ كو ان اشياء كے ليے خاص كيا ہے جو اچھى اور جن ميں تكريم ہوتى ہے، اور بائيں كو ان اشياء كے ليے جو عام طور پر گندى ہوتى ہيں.
امام بخارى اور مسلم رحمہما اللہ نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كيا ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو كنگھى كرنے، اورجوتا پہننے ميں اور طہارت كرنے بلكہ ہر كام ميں دائى طرف پسند ہوتى تھى"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 163 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 395 ).
اور ابو داود رحمہ اللہ تعالى نے بھى عائشہ رضى تعالى عنہا سے بيان كيا ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا داياں ہاتھ طہارت كرنے اور كھانا كھانے كے ليے تھا، اور ان كا باياں ہاتھ استنجا كرنے اور دوسرى گندى اشياء كے ليے تھا"
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 26 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى مسلم كى شرح ميں لكھتے ہيں:
شريعت ميں يہ مستقل قاعدہ ہے كہ: جو كام شرف اور تكريم ميں سے ہو مثلا لباس پہننا اور سلوار زيب تن كرنا اور موزے پہننا، مسجد ميں داخل ہونا، اور مسواك كرنا اور سرمہ ڈالنا، ناخن اور مونچھيں كاٹنا، بالوں كو كنگھى كرنا، بغلوں كے بال اكھاڑنا، سر منڈانا، اور نماز سے سلام پھيرنا، اور وضوء كے اعضاء دھونا، اور بيت الخلاء سے باہر نكلنا، كھانا پينا، اور مصافحہ كرنا، حجر اسود كو بوسہ دينا، اور اس معنى ميں جو كام بھى ہيں اس ميں وہ دائيں طرف سے شروع كرنا مستحب ہے.
ليكن وہ كام جو اس كے مخالف اور ضد ہيں مثلا بيت الخلاء ميں داخل ہونا، مسجد سے نكلنا، بلغم تھوكنا، استنجاء كرنا، كپڑے اتارنا، سلوار اور موزے اتارنا، اور اس كے طرح كے دوسرے كام تو اس ميں بائيں طرف سے كرنا مستحب ہے، يہ سب اس ليے كہ دائيں كى تكريم اور شرف كى بنا پر. واللہ تعالى اعلم. اھـ
ديكھيں: شرح صحيح مسلم للنوو ( 1 / 160 ).
واللہ اعلم .

قبله کی طرف باتهرم بنانا کیسا هین

الحمد للہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح حديث ميں ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے قضائے حاجت كرتے وقت قبلہ رخ ہونا اور قبلہ كى طرف پيٹھ كر كے قضائے حاجت كرنے سے منع فرمايا ہے.
جمہور علماء كرام ( جن ميں امام مالك، امام شافعى، امام احمد رحمہم اللہ شامل ہيں ) كا كہنا ہے كہ يہ نہى اس شخص كے ليے ہے جو ايسى جگہ قضائے حاجت كرے جہاں قبلہ اور اس كے مابين آڑ اور چھپاؤ نہ ہو، ليكن عمارتوں اور گھروں ميں انہوں نے قضائے حاجت ميں قبلہ رخ يا قبلہ كى طرف پشت كرنا جائز قرار ديا ہے.
اور كچھ دوسرے علماء كرام ( جن ميں امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ شامل ہيں، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ نے بھى اسے ہى اختيار كيا ہے ) قضائے حاجت كے وقت مطلقا قبلہ رخ اور پشت كرنا حرام ہے، چاہے عمارتوں ميں ہو يا كھلى جگہ پر.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 1 / 107 ) حاشيۃ ابن عابدين ( 1 / 554 ) الموسوعۃ الفقھيۃ ( 5 / 34 ).
جبكہ ابھى آپ گھر كى تعمير كے مرحلہ ميں ہيں اس ليے احتياط اسى ميں ہے اور بہتر يہى ہے كہ آپ ليٹرين كا رخ اس طرح ركھيں كہ قضائے حاجت كے وقت نہ تو قبلہ رخ ہو اور نہ ہے قبلہ كى طرف پشت، تا كہ اختلاف سے نكلا جا سكے.
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
گھروں يا كھلى جگہ ميں قضائے حاجت كے وقت قبلہ رخ ہونا يا اس كى طرف پشت كر كے قضائے حاجت كرنے كا حكم كيا ہے ؟
پھر يہ بھى بتائيں كہ اس وقت جو عمارتيں استعمال كى جا رہى ہيں اور ان ميں ليٹرين قبلہ رخ ہے يا قبلہ كى طرف پشت ہوتى ہو اور سارى ليٹرين كو گرائے بغير اس ميں تبديلى ممكن نہ ہو تو اس كا حكم كيا ہے ؟
آخر ميں يہ سوال بھى ہے كہ ہمارے پاس كچھ كالونياں ہيں جن كى ابھى تنفيذ نہيں ہوئى اور بعض ليٹرينيں قبلہ رخ ہيں يا پھر قبلہ كى طرف پشت ہوتى ہے كيا انہيں تبديل كرنا ضرورى ہے يا كہ اسے ويسے ہى رہنے ديا جائے اور اس ميں كوئى حرج نہيں ؟
كميٹى كا جواب تھا:
اول:
علماء كرام كے اقوال ميں ميں صحيح قول يہ ہے كہ قضائے حاجت كے وقت قبلہ رخ ہونا يا اس كى طرف پشت كرنا حرام ہے، ليكن گھروں اور عمارتوں كے اندر جائز ہے، يا پھر كعبہ اور اس كے قريب كوئى آڑ ہو جو كعبہ كے درميان حائل ہو تو جائز ہے، مثلا اونٹ كا كجاوہ، يا كوئى درخت يا پہاڑ اور چٹان وغيرہ.
اكثر اہل علم كا قول يہى ہے كيونكہ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى كى حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب تم ميں سے كوئى ايك قضائے حاجت كے ليے بيٹھے وہ نہ تو قبلہ رخ ہو كر بيٹھے اور نہ ہى قبلہ كى طرف پشت كرے "
اسے امام احمد اور امام مسلم نے روايت كيا ہے.
اور ابو ايوب انصارى رضى اللہ عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم قضائے حاجت كے ليے جاؤ تو قبلہ كى طرف رخ نہ كرو، اور نہ ہى اس كى طرف پيٹھ كرو، ليكن مشرق يا مغرب كى طرف اپنا رخ كيا كرو "
اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.
اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" ميں ايك روز حفصہ رضى اللہ تعالى عنہا كے گھر كى چھت پر چڑھا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو شام كى طرف رخ اور قبلہ كى طرف پيٹھ كر كے قضائے حاجت كرتے ہوئے ديكھا "
اسے بخارى اور مسلم اور سنن اربعہ نے روايت كيا ہے.
اور ابو داود اور حاكم نے روايت كيا ہے كہ مروان الاصفر رحمہ اللہ كہتے ہيں ميں نے عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كو ديكھا كہ انہوں نے اپنى اونٹنى بٹھائى اور قبلہ رخ ہو كر اونٹنى كى طرف پيشاب كيا، تو ميں نے عرض كيا:
" اے ابو عبد الرحمن كيا اس سے منع نہيں كيا گيا ؟
تو انہوں نے فرمايا: يہ كھلى جگہ اور فضاء ميں منع ہے، اگر تيرے اور قبلہ كے درميان كوئى آڑ ہو جو تجھے چھپا رہى ہو تو كوئى حرج نہيں "
ابو داود رحمہ اللہ نے اس حديث پر سكوت اختيار كيا ہے، اور حافظ ابن حجر فتح البارى ميں كہتے ہيں: اس كى سند حسن ہے.
احمد، ابو داود، ترمذى اور ابن ماجہ نے جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں پيشاب كرتے وقت قبلہ رخ ہونے سے منع فرمايا، تو ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فوت ہونے سے ايك برس قبل قبلہ رخ ديكھا "
بہت سے اہل علم دلائل كے درميان جمع اور تطبيق كرتے ہوئے يہى كہتے ہيں كہ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ وغيرہ كى حديث كو اس پر محمول كيا جائيگا كہ اگر كھلى جگہ ميں بغير كسى آڑ كے قضائے حاجت كى جائے، اور جابر بن عبد اللہ اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہم كى احاديث كو گھروں اور عمارتوں يا پھر قبلہ اور اس كے درميان آڑ اور پردہ پر محمول كيا جائيگا.
اس سے يہ علم ہوا كہ عمارتوں اور گھروں ميں قضائے حاجت كرتے ہوئے قبلہ رخ اور قبلہ كى طرف پيٹھ كرنا جائز ہے.
دوم:
اگر تو يہ كالونياں عمارتوں كے ليے ہيں اور ابھى ان كى تنفيذ نہيں ہوئى اور اس ميں قبلہ رخ يا پھر قبلہ كى طرف پشت ہونے والى ليٹرينيں ہيں تو احتياط اسى ميں ہے كہ ان ميں تبديلى كر لى جائے، تا كہ قضائے حاجت كے وقت قبلہ رخ نہ ہوا جائے اور نہ ہى قبلہ كى طرف پشت ہو، اس طرح اختلاف سے بھى بچا جا سكتا ہے، اور اگر ان ميں تبديلى نہ بھى كى جائے تو سابقہ احاديث كى روشنى ميں اس ميں كوئى گناہ نہيں " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 97 ).
واللہ اعلم .

منگل، 12 جنوری، 2016

كيا قيامت جمعه كو آيي گی سایل کا سوال اور اس کا جواب


سوال: مجھے بتلایا گیا ہے کہ قیامت جمعہ کے دن 10 محرم کو قائم ہوگی، اب سوال یہ ہے کہ سعودی عرب میں اگر جمعہ ہو تو امریکہ میں کوئی اور دن ہوگا، اس طرح 10 محرم کا دن مختلف علاقوں میں مختلف ہی ہوگا، اس اشکال کا کیا حل ہے؟

الجواب :
الحمد للہ:

کوئی بھی ایسا اثر جس میں قیامت کے دن کی تعیین کی گئی ہے وہ صرف جھوٹ کا پلندا ہے، چنانچہ قیامت کے قائم ہونے کے بارے میں صرف اللہ تعالی ہی جانتا ہے کہ کب قائم ہوگی، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ}
ترجمہ: لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ قیامت کب قائم ہوگی؟ آپ ان سے کہہ دیں:  یہ بات تو میرا پروردگار ہی جانتا ہے، وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کرے گا [الأعراف : 187]
نیز قیامت کے دن کے بارے میں نصوص صرف اتنا بتلاتی ہیں کہ یہ جمعہ کے دن ہوگی، چنانچہ  اس دن پوری کائنات کا نظام درہم برہم ہو جائے گا، دن رات، سورج چاند اور تارے سب گُل ہو جائیں گے، اور ہمیں یہ بھی علم نہیں ہے کہ اس وقت تک امریکہ موجود ہوگا بھی نہیں ؛ کیونکہ اللہ تعالی کسی بھی قوم کو یومِ قیامت سے پہلے تباہ و برباد کر سکتا ہے؛ اس لیے کہ اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔
واللہ اعلم.

محمد بن صالح المنجد