سرخی شامل کریں |
سلامی سال کا قربانیوں والا مہینہ آیا تو فورا خیال آیا کہ اسلام سال تو شروع ہی شہادتوں سے ہوتا جن میں سے ایک سرکارِ دو عالم محمد مصطفیٰ ﷺ کے ایک انتہائی پیارے، عشرہ مبشرہ میں سے ایک صحابی اور اسلام کے جاہ و جلال سے دنیا کے22/25 لاکھ مربع میل کے رقبے پہ حکومت کرنے والے خلیفہ دوم سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں۔ جنکی حکومت، عدل وانصاف، جاہ و جلال،سادہ طبیعت، پرہیزگاری کو نا صرف مسلمانوں نے مانا بلکہ کفار اور یہاں تک کے دریاؤں تک نے مانا ہے ،انکی شہادت سے ہی اسلام کا سال شروع ہوتا۔ سوچا کہ ایسے جلیل القدر صحابی کا تھوڑا تذکرہ کرنے کی سعادت حاصل کروں۔۔لہذا اس سلسلے میں کافی کتب کو پڑھا اور سب کو ملا کہ جو اخذ کیا وہ بیان کروں گا انشااللہ۔ لبیک!
نام و نسب:
آپ کا نام عمر کنیت ابو حفص اور لقب آپکو سرورِ کائنات محمد ﷺ سے ملا جو کے فاروقِ ہے۔اسی نسبت سے آپکو فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جسکے معنی حق کو باطل سے جدا کرنے والا ہیں۔ آپکا سلسلہ نسب کچھ اس طرح سے ہے:
عمر بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزیٰ بن رباح بن عبداللہ بن زراح بن عدی بن کعب بن لوئی
کعب کے دو بیٹے تھے ایک عدی دوسرا مرہ، اور مرہ نبی کریم ﷺ کے آباؤ اجداد میں سے ہیں لہذا اسطرح آپکا سلسلہ نسب آٹھویں پشت میں نبی کریم ﷺ سے جا ملتا ہے۔آپ ہجرتِ نبوی سے چالیس سال پہلے پیدا ہوئے۔
اسی طرح آپ رضی اللہ عنہ اشرافِ قریش میں سے تھے اور آپکا خاندان سفارت سے منسوب تھا جب بھی قریش کی کسی قبیلے سے لڑائی ہوتی آپ کے قبیلے کے بزرگوں کو معاملات سنبھالنے کے لئیے بھیجا جاتا تھا۔
آپکی والدہ ابوجہل کی بہن تھیں اس طرح ابوجہل آپکے ماموں تھے۔
علم ، پیشہ ،شوق و شجاعت:
آپ رضی اللہ عنہ کو لڑکپن میں اونٹوں کے چرانے کا شوق تھا۔جوان ہوئے تو عرب کے دستور کے مطابق سپہ سالاری، شہسواری، نسب کی تعلیم، پہلوانی کی تعلیم حاصل کی۔ نبی کریم کی بعثت کے وقت قریش میں صرف سترہ آدمی پڑھنا لکھنا جانتے تھے جن میں سے ایک آپ تھے۔ پہلوانی کا شوق تھا اور اتنی مہارت تھی کے آپ عرب کے بڑے پہلوانوں میں سے تھے۔ پورے عرب میں آپکا رعب اور دبدبا اتنا تھا کے بڑے بڑے دلیر انسان کانپنے لگتے تھے آپکے ساتھ مقابلے پہ آنے پہ ۔ گھڑ سواری میں بھی کمال حاصل تھا۔ جاہلیت کے دور میں اور اس کے بعد بھی تجارت کا پیشہ جاری رکھا۔539 احادیث آپ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں ۔
حلیہ اور فضائل:
آپکی رنگت سفید تھی لیکن سرخی اس پہ غالب تھی۔ قد نہایت لمبا تھا۔رخساروں پہ گوشت کم تھا داڑھی گھنی تھی۔ اور صحت ماشااللہ بہت بہترین تھی۔
آپ رضی اللہ عنہ بعض روایات کے مطابق چالیس مردوں اور گیارہ عورتوں کے بعد اسلام لائے بعض کے مطابق انتالیس مردوں اور تینتیس عورتوں اور بعض کے مطابق پینتالیس مردوں اور گیارہ عورتوں کے بعد ایمان لائے (واللہ علم) آپ سابقین اور عشرہ مبشرہ میں سے ہیں جسکی حدیث روایت کا آگے آحادیث کے حصے میں بیان کروں گا (انشااللہ) ۔آپ نبی کریم ﷺ کے خسر ہیں آپکا شمار نبی کریم ﷺ کے زمانے سے ہی نہایت جید علما میں ہوتا تھا۔ قرآ ن میں پردہ کا حکم بھی آیا تو اس پہ آپ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے درخواست کی تھی۔ آپ نہایت غیرت مند اور دلیر تھے۔ اسلام پہ سختی سے خود عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے آپ کے دبدبے کے بارے میں صحیح بخاری میں حدیث نقل کی ہے جس میں نبی پاک ﷺ نے کہا کے آپکو دیکھ کے تو شیطان بھی رستہ بدل لیتا ہے (آگے تفصیلا ذکر آئے گا انشا اللہ)۔ آپ رضی اللہ عنہ کو اس لئیے بھی فضیلت حاصل کہ آپکی ہدایت کے لئے رسول اکرم ﷺ نے خود خاص الخاص دعا فرمائی کہ دونوں عمر (ابوجہل اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ)میں سے ایک کو ہدایت دے اور آپ کے حق میں اللہ نے دعا قبول کی اور آپکو مشرف بااسلام کیا ۔ ابن مسعود روایت کرتے کہ آپکا اسلام لانا تھا کہ اس کے بعد اسلام عزت ہی پاتا گیا۔ گویا کے آپکا اسلام فتح تھی آپ کی ہجرت نصرت تھی اور آپ کی امامت رحمت۔ جب آپ رضی اللہ عنہ ایمان لائے تو مسلمانوں نے کھلے عام نماز پڑھنا شروع کیا اور کسی کفارِ مکہ میں اتنی جرائت نا تھی کہ کچھ کہتا۔ اس لئیے کہتے آپ کے ایمان لانے پہ کفار نہ کہا کے مسلمانوں نے ہم سے سارا بدلہ لے لیا۔ ایک آپ کے دبدے کی جھللک پیشِ خدمت کے جب عمر رضی اللہ عنہ نے ہجرت کا قصد کیا تو آپ برہنہ تلوار لائے دوسرے ہاتھ میں تیر اور پشت پہ کمان کو لگا کر خانہ کعبہ میں آئے تلوار کو زمیں میں گاڑا سات مر تبہ طواف کیا اور دو رکعت مقامِ ابراہیم کے پاس کھڑے ہو کے پڑھیں ، بھر قریش کے سرداروں کو (ابو سفیان اور ابو جہل خصوصاً)مخاطب کر کے کہا جو قرب و جوار میں تھے کہ جو شخص اپنی ماں کو بے فرزند اور بیوی کو بیوہ کرنا چاہتا ہو، جسکو میری عبادت کرنے پہ اعتراض ہو وہ مجھ سے آکے مدمقابل ہو۔ لیکن ان شیطان کے چیلوں کو کیا ہمت ہوتی جو جذبہ ایمان سے خالی تھے کسی میں چوں چراں کرنے کی بھی ہمت نہیں ہوئی۔ ہیی نہیں آپ رضی اللہ عنہ کا مشرکین پہ اتنا رعب و دبدبا تھا کہ مسلمانوں تک کو مشرکین کو نماز پڑھنے کی اجازت دینا پڑی۔
احادیث میں فضائل:
مندرجہ بالہ حصہ میں صحیح بخاری اردو ترجمعہ از مولانا محمد داؤد راز سے آحادیث نقل کی جا رہی ہیں باب ہے فضائلِ اصحاب النبی ، بیان حضرت ابوحفص عمر بن خطاب قرشی عدوی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان صفحہ 140 سے اور آگے۔
جنت اور شہادت کی بشا رتیں:
حدیث 3679:
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ میں نے (خواب میں) دیکھا کہ میں جنت میں گیا ہوں، کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں ابوطلحہ کی بیوی رمیصاء (ام سلیم سیدنا انس کی والدہ) موجود ہیں اور میں نے پاؤں کی آہٹ سنی تو پوچھا کہ کون ہے؟ کسی نے کہا کہ یہ بلال ہیں اور میں نے ایک محل دیکھا اور اس کے ایک طرف ایک لڑکی وضو کر رہی تھی، میں نے پوچھا کہ یہ کس کا محل ہے؟ کسی نے کہا کہ عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) کا۔ میں نے چاہا کہ اس محل کے اندر داخل ہوں اور اسے دیکھوں لیکن (اے عمر!) تمہاری غیرت مجھے یاد آ گئی۔” سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، کیا میں آپ پر غیرت کروں گا؟
حدیث 3686:
انس بن مالک نے بیان کیا کہ نبی کریم احد پہاڑ پر چڑھے تو آپ کے ساتھ ابو بکر، عمر اور عثمان بھی تھے۔پہاڑ لرزنے لگا تو آنحضرت نے اپنے پاؤں سے اسے مارا اور فرمایا احد! ٹھہر رہ کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہی تو ہیں۔(مراد عمر اور عثمان)
حدیث 3693:
حضرت ابو موسیٰ اشعری نے بیاں کیا کہ میں مدینہ کے ایک باغ میں رسول اللہ کے ساتھ تھاایک صاحب نے آکر دروازہ کھلوایا۔آنحضرت نے ان کے آنے پہ فرمایا کہ ان کے لئیے دروازہ کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو۔ میں نے دروازہ کھولا تو حضرت ابو بکر تھے۔میں نے انہیں نبی کریم کے فرمانے کے مطابق جنت کی خوشخبری سنائی تو انہوں نے اس پہ اللہ کی حمد کی بھر ایک اور صاحب آئے اور دروازہ کھلوایا۔حضور نے اس موقع پر بھی یہی فرمایا کہ دروازہ ان کے لئیے کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو میں نے دروازہ کھولا تو عمر تھے انہیں بھی جب حضور کے ارشاد کی اطلاع سنائی تو انہوں نے بھی اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر تیسرے اور صاحب نے دروازہ کھلوایا۔ ان کے لئیے بھی حضور اکرم نے فرمایا کہ دروازہ کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو ان مصائب اور آزمائشوں کے بعد جن سے انہیں واسطہ پڑے گا۔ وہ حضرت عثمان تھے۔ جب میں نے انکو حضور کے ارشاد کی اطلاع دی تو آپ نے حمدوثنا کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی مدد کرنے والا ہے۔
تقویٰ، زہد، علم اور نبی پاک کے خواب:
حدیث 3681:
عبداللہ بن عمر نے رسول اللہ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا میں نے خواب میں دودھ پیا، اتنا کہ میں دودھ کی تازگی دیکھنے لگا جو میرے ناخن یا ناخنوں پہ بہ رہی ہے۔پھر میں نے پیالہ عمر کو دے دیا' صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے آپ نے فرمایا اسکی تعبیر علم ہے۔ (مطلب عمر کا علم کا بیان جو اللہ نے نبی پاک کی بدولت انہیں عطا کیا)
حدیث 3682:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک کنویں سے ایک اچھا بڑا ڈول کھینچ رہا ہوں ، جس پر ” لکڑی کا چرخ “ لگا ہوا ہے ، پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے بھی ایک یا دو ڈول کھینچے مگر کمزوری کے ساتھ اور اللہ ان کی مغفرت کرے ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے اور ان کے ہاتھ میں وہ ڈول ایک بہت بڑے ڈول کی صورت اختیار کرگیا ۔ میں نے ان جیسا مضبوط اور باعظمت شخص نہیں دیکھا جو اتنی مضبوطی کے ساتھ کام کرسکتاہو ۔ انہوں نے اتنا کھینچا کہ لوگ سیراب ہوگئے اور اپنے اونٹوں کو پلاکر ان کے ٹھکانوں پر لے گئے ۔ ابن جبیر نے کہا کہ عبقری کا معنی عمدہ اور زرابی اور عبقری سردار کو بھی کہتے ہیں ( حدیث میں عبقری سے یہی مراد ہے ) یحییٰ بن زیاد فری نے کہا ، زرابی ان بچھونوں کوکہتے ہیں جن کے حاشیے باریک ، پھیلے ہوئے بہت کثرت سے ہوتے ہیں ۔
(یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جب حدیث میں لفظ ” بکرۃ “ بفتح با اور کاف ہو یعنی وہ گول لکڑی جس سے ڈول لٹکادیتے ہیں ، اگر ” بکرۃ “ سکون کاف کے ساتھ ہوتو ترجمہ یوں ہوگا، وہ ڈول جس سے جو ان اونٹنی کو پانی پلاتے ہیں۔)
حدیث 3683:
محمد بن سعدبن ابی وقاص نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت چاہی ۔ اس وقت آپ کے پاس قریش کی چند عورتیں ( امہات المومین میں سے ) بیٹھی باتیں کررہی تھیں اور آپ کی آوازپر اپنی آواز اونچی کرتے ہوئے آپ سے نان ونفقہ میں زیادتی کا مطالبہ کررہی تھیں ، جوں ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی تو وہ تمام کھڑی ہوکر پردے کے پیچھے جلدی سے بھاگ کھڑی ہوئیں ۔ آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی اوروہ داخل ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسکرارہے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یارسول اللہ ! اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے ۔ آپ نے فرمایا : مجھے ان عورتوں پرہنسی آرہی ہے جو ابھی میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں ، لیکن تمہاری آواز سنتے ہی سب پردے کے پیچھے بھاگ گئیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یارسول اللہ ! ڈرناتو انہیں آپ سے چاہیے تھا ۔ پھرانہوں نے ( عورتوں سے ) کہا اے اپنی جانوں کی دشمنو ! تم مجھ سے تو ڈرتی ہو اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتیں ، عورتوں نے کہاکہ ہاں ، آپ ٹھیک کہتے ہیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں آپ کہیں زیادہ سخت ہیں ۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے ابن خطاب ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اگر شیطان تمہیں کسی راستے پر چلتا دیکھتا ہے تو اسے چھوڑ کر وہ کسی دوسرے راستے پر چل پڑتا ہے۔
حدیث 3687:
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے عمر بن محمد نے بیان کیا ، ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھ سے اپنے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعض حالات پوچھے ، جو میں نے انہیں بتادیئے تو انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد میں نے کسی شخص کودین میں اتنی زیادہ کوشش کرنے والا اور اتنا زیادہ سخی نہیں دیکھا اور یہ خصائل حضرت عمر بن خطاب پر ختم ہوگئے ۔
حدیث 3689:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلے بنی اسرائیل کی امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہواکرتے تھے کہ نبی نہیں ہوتے تھے اور اس کے باوجود فرشتے ان سے کلام کیاکرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہوسکتا ہے تو وہ حضرت عمر ہیں ۔
حدیث 3691:
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ کچھ لوگ میرے سامنے پیش کئے گئے جو قمیص پہنے ہوئے تھے ان میں سے بعض کی قمیص صرف سینے تک تھی اور بعض کی اس سے بھی چھوٹی اور میرے سامنے عمر پیش کئے گئے تو وہ اتنی بڑی قمیص پہنے ہوئے تھے کہ چلتے ہوئے گھسٹتی تھی ، صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ نے اس کی تعبیر کیالی ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دین مراد ہے ۔
(معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دین وایمان بہت قوی تھا۔ اس سے ان کی فضیلت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پرلازم نہیں آتی کیونکہ اس حدیث میں ان کا ذکر نہیں ہے۔)
فاروقی دور کی خدمات اور فتوحات:
حضرتِ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات اور خلافت میں آنے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے دو سال کہ عرصے میں ہی اپنی قابلیت کا سکہ جمادیا حالانکہ پہلے آپ ایک انتہائی رعب و دبدبا اور عضے کے تیز شخص مانے جاتے تھے ۔ابو بکر نے اپنی وفات سے پہلے ہی انکے ہاتھ پہ بیعت لے لی تھی عمر پہ محمد حسین ہیکل کی کتاب عم فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ میں نقل کرتے ہیں باب چہارم صفحہ 112-113:
اسکی (عمر) سختی میری نرمی کی بدولت تھی جب خلافت کا بوجھ ان کے کندھوں پہ پڑے گا وہ سخت نہیں رہیں گے۔اگر اللہ پاک مجھ سے پوچھتے کہ میں کس کو اپنا جانشین مقرر کیا، تو میں انہیں بتاتا کہ آپ میں سے بہترین آدمی کو مقرر کیا۔
اور یارِ نبی رضی اللہ عنہ کا اندازہ بلکل درست رہا۔ عمر رضی اللہ عنہ خلافت میں آتے ہی وہ نرم رویہ اختیار کیا کہ جسکی بدولت نا صرف مسلمان بلکہ کافر آج تک داد و تحسین پیش کرتے ہیں۔
آپ کہ عہد فاروقی نے دین و دنیا میں جو جو خدمات پیش کی اسکی مثال آج تک نہیں مل پائے چند ایک کا تذکرہ مندرجہ بالا نقات میں لکھ دیتا کیوں کہ بیان کرنے پے تو ہر ایک پہ کتب کی کتب بھی کم پڑیں گی۔
- بیت المال کا قیام
- مالی تجاویز و ایجاد
- معاشرتی نظام کی تجاویز
- سیاسی کابینہ کا قیام
- سنہ ہجری کا قیام
- امیرالمومنین کا لقب
- فوج کے اور مختلف حکومتی شعبہ جات کے با قاعدہ دفاتر کا قیام
- رضا کاروں کی تنخواؤں کا تقرر
- ملک کی حدود کا قاعدہ۔
- مردم شماری
- نہریں کھدوانا
- راستے میں مسافروں کے لئیے کنوئیں اور سرائے کا انتظام
- راستوں کو ڈاکوؤں سے محفوظ کروانا
- رات کو رعایا کی خبر گیری اور حفاظتی گشت کا قیام
- شہر آباد کروانا مثلا کوفہ، بصرہ، جزیرہ فساط (قاہرہ)،رصا مشررک
- خانہ کعبہ کے صحن کی توسیع
- صوبہ داری کا نظام اور اسکے حکام کا تقرر
- جیل خانہ کا قیام
- پولیس کا باقاعدہ محکمہ
- مفلوک الحال عیسائیوں اور یہودئیوں کے روزینے کا تقرر
- نماز تراویح با جماعت پڑھانے کا اہتمام
- تجارت کے گھوڑوں پہ زکواۃ کا تقرر
- نمازِ جنازہ میں چار تکبیروں کا اجماع
- بیرونی تجارت کی اجازت (جسے امپورٹ ایکسپوٹ کہتے آجکل)
- پرچہ اور قانونی دستاویزات کے نویس مقرر کرنا
- درہ کا استعمال
یہ چند ایک خصوصیات بتائیں ساروں کا آحاطہ کرنا بہت مشکل ہے یہی نہیں آپ ک دور میں فتوحات کا وہ سلسلہ شروع ہوا کہ 22 لاکھ اور کچھ کے مطابق 25 لاکھ مربع میل تک اسلام کی دعوت اور آپ کی خلافت پہنچی۔ ان میں فارس و عراق جزیرہ خراسان و بلوچستان و شام و فلسطین و مصر و آرمینیا۔ پھر آپ نے 220 ہجری میں اسلامی سلطنت کے جو صوبے بنائے تھے و کچھ یوں تھے، مکہ ،مدینہ،شام ،مصر(بالائی مصر ،زیریں مصر)،فلسطین(ایلیا و رملا)،خراسان،آذربئجان،فارس،عراق(،بصرہ،کوفہ)،دجلہ کا بالائی حصہ (جزیرہ ،فرات)۔ ان میں بعض ایسے صوبے تھے جو دو دو صوبوں کے برابر سمجھے جاتے اور دو دو صدرمقام تھے ۔ ہر صوبے میں ایک کاتب، منشی،صاحب الخراج یا کلیکٹر،ایک پولیس کا افسر،افسر خزانہ اور ایک قاضی ضرور ہوتا۔
طرزِ زندگی:
جب اس عظیم سلطنت اور جاہ و جلال کا تذکرہ آتا ہے تو ایک لمحے کو سوچ آتی انسانی فطرت میں کے ایسے بندے کی تو زندگی انتہائی شاہانہ ہوگی۔ جسکو دین میں بھی ذہد حاصل، جنت کی بشارت، محمد مصطفیٰ ﷺ کی محبت اور خدا کا راضی نامہ بھی ملا ہو تو وہ شخص تو شاید خوابوں کی شاہانہ زندگی کا نمونہ ہو۔۔۔ایسی ہی سوچ لے کے دوسری سلطنتوں کے ایلچی بھی آیا کرتے تھے کے شاید وہ عالیشان دربار میں بٹھائے جائیں گے لیکن سب کا سب دھرا رہ جاتا جب وہ اس جاہ و جلال کے پیکر کو درخت کے نیچے بلا خوف و خطر کسی حفاظتی انتظامات کے بغیر پتھر پہ سر رکھے پھٹے پرانے اور پیوندوں سے بھرے ہوئے کپڑوں میں دیکھتے۔ اور اعلیٰ درجہ کی خوراک کا تصور بھی خاک میں مل جاتا جب انہیں انتہائی سادہ خوراک یا کئی دنوں کے فاقوں کے مارے دیکھتے۔ وہ حیران ہی نہیں مبہوت ہو کے رہ جاتے کے یہی وہ امیرالمومنین رضی اللہ عنہ ہے ؟ جو اتنی وسیع سلطنت کا مالک؟۔۔۔۔اور یقینا پکار اٹھتے ہوں گے کہ جس نبی ﷺ نے ایسے جانشین چھوڑے وہ خود نبی ﷺ کی عظمت کا کیا حال ہوگا۔۔۔۔۔ایسے خلیفہ جو راتوں کو محلوں اور گلیوں میں رعایا کی خیروخبر گیری کے لئیے گھوما کرتے اور حتیٰ امکاں مدد کرتے۔
انساں تو انساں آپ تو جانوروں کے معاملے میں بھی خدا سے ڈرا کرتے ایک دن اپنے ایک زخمی اونٹ کا وزن دھو رہے تھے اور کہتے جاتے کہ مجھے خدا کا خوف کہ کہیں قیامت کے دن اس بابت بھی سوال نا ہو جائے۔
غرضیکہ انہوں نے خلیفہ ہونے کی وہ زندہ مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک آباد رہے گی انشااللہ اور حکمرانوں کے لئیے ایک مشعلِ راہ رہے گی انشااللہ۔
شہادت:
مدینہ منورہ میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا ایک مجوسی علام فیروز تھا جو کے ابو لولو کی کنیت سے مشہور تھا۔ ایک دن وہ مغیرہ رضی اللہ عنہ کی شکایت لے کے آیا کہ میرا مالک مجھے سے زیادہ محصول لیتا ہے آپ کم کرائیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے رقم دریافت کی تو اس نے جواب دیا دو درم روزانہ۔ آپنے اسکا پیشہ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ آہنگری اور نقاشی کا کام کرتا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر تو یہ رقم زیادہ نہیں۔ ابو لولو یہ سن کے بہت غصے میں آیا اور وہاں سے چل دیا۔
دوسرے دن جب فجر کی نماز کی امامت شروع کی آپ نے تو اس ملعون نے آگے بڑھ کے خنجر سے تابڑ توڑ 6 وار کئیے۔ جس میں سے ایک وار ناف کو چیرتا ہوا گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فورا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو کھینچ کے آگے امامت میں کردیا اور خود زخموں کی شدت سے بے ہوش ہو کے گر پڑے۔
ملعون ابو لولو مسجدِ نبوی سے بھاگا لوگوں نے اسے پکڑنے کی کوشش کی جس میں بہت صحابی زخمی اور ایک صحابی کلیب بن ابی بکیر رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔ اس سے پہلے کے گرفتار ہوتا اس نے خود کشی کر لی اور یوں نامراد ٹھرا۔
فورا نماز ختم ہوتے ہی طبیب کو بلایا آپ رضی اللہ عنہ جیسے ہی ہوش میں آئے تھوڑے تو عظمت دیکھیں کہ یہ پوچھا کی کسی مسلمان نے تو حملہ نہیں کیا۔ بتلایا گیا نہیں ملعون مجوسی ابو لولو نے کیا تو فورا کہا الحمد اللہ مجھے کسی مسلمان نے نہیں مارا۔
زخموں کی شدت کچھ ایسی تھی کے جب کچھ کھلایا پلایا جاتا تو ناف والے زخم سے خوراک انتڑیوں سے باہر نکل جاتی اس طرح کی حالت دیکھ کے لوگ غمزدہ ہو گئے اور ساتھ ہی آپ سے اپنا جانشین مقرر کرنے کو بھی کہا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے عبدالرحٰمن بن عوف رضی اللہ عنہ ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ، زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ ، طلحہ رضی اللہ عنہ ، علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو طلب کر کے یہ ذمہ داری ان پہ سونپی اور اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کے ہاں پیغام بھجوایا کہ ان سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن ہونے کی اجازت طلب کرو۔کیا مقام کیا عزت تھی انکی نبی پاک ﷺ کے گھرانے کے لئیے کہ اجازت مانگ رہے دفن کے لئیے بھی۔ اماں عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ جگہ میں نے اپنے لئیے رکھی تھی لیکن میں فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو اپنی ذات پہ ترجیح دیتی ہوں ۔یہ خبر سن کے آپ رضی اللہ عنہ نے اللہ کا شکر ادا کیا کے ان کی خواہش پوری ہوئی اور آخر یکم محرم الحرام اور بعض کے مطابق دوم محرم کو آپ شہادت کا جام نوش کرتے ہوے اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے اور ہمیشہ کے لئے حیات ہو گئے۔ آپکی نمازِ جنازہ صہیب رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ ، علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے قبرِ مبارک میں اتارا۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ آپکے درجات کو اور بلند فرمائے جنت الفردوس میں، اور ہمارے دل میں آپکی عظمت اور آپکی سیرت پہ عمل کرنے کا بیج بو دے۔اللہ ہم سب کے گناہوں کو معاف فرمائے۔اور اگر کوئی غلطی، کمی کوتاہی ہو گئی مجھ سے تو معاف فرمائے۔ اور ہمیں ایسا بنادے کے ہم اسے پسند آ جائیں۔ اور نبی پاک روحِ مقدس پیر کامل محمد مصطفیٰ ﷺ پہ ،تمام اصحاب پہ تمام امت پہ اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے۔
آمین ثم آمین یا رب العالمین