بسم اللّٰه الرحمن الرحيم
اِنَّ
الْحَمْدَ لِلّٰہِ نَحْمَدُہٗ وَنَسْتَعِیْنُہٗ وَنَسْتَغْفِرُہٗ وَ نَعُوْذُ
بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ أَنْفُسِنَا وَسَیِّئَاتِ أَعْمَالِنَا،مَنْ یَّھْدِہِ
اللّٰہُ فَلَا مُضِلَّ لَہٗ وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلَا ھَادِيَ لَہٗ،وَاَشْھَدُ اَنْ
لَّا إِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُ أَ نَّ
مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔۔اَمَّا بَعْدُ!
السلام
علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
اس میں
کسی مسلمان کو ذرہ برابر بھی شک و شبہہ نہیں ہے کہ قرآنِ کریم:اللہ تعالیٰ کا کلام پاک ہے جو مصادرِ شریعت میں سے اوّلین مصدر بھی ہے۔{الٓمّٓ.ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ}[البقرۃ:۱،۲]یہ اہلِ تقویٰ کے لیے کتابِ ہدایت ہے:{ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ}[البقرۃ:۲]یہ قرآنِ کریم تمام جن وانس کے لیے خزینۂ رحمت اور شفاء و علاج ہے:{وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ
مَا ھُوَ شِفَآئٌ وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ}[الإسراء:۸۲]جو اس کے احکام پر عمل پیرا ہو اُسے اللہ تعالیٰ عروج و ترقی کی رفعتوں سے
نوازتا ہے اور اسے پسِ پشت ڈالنے والوں کو تنزّل و ادبار سے دوچار کر دیتا ہے:((اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِہَذَا الْکِتَابِ أَقْوَاماً وَیَضَعُ بِہٖ
آخَرِیْنَ))(مختصر صحیح مسلم،برقم:۲۱۰۲)قرآنِ کریم سیکھنے والے کیلئے جنت کی راہیں آسان کردی جاتی ہیں:
{وَ
الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا}[العنکبوت:۶۹]قرآنِ کریم حصولِ اجر وثواب کا ذریعہ ہے کہ اس کا صرف ایک حرف پڑھنے سے دس
نیکیاں ملتی ہیں۔(سنن الترمذي:)قرآنِ کریم زہریلے جانوروں کے زہر کا تریاق ہے۔(مصنف ابن أبي شیبۃ،مسند بزّار،طحاوي)یہ آسیب ومِرگی اور نظرِ بد زائل کرنے کا تیر بہ ہدف نسخہ اور تعویذ
گنڈوں،جادو ٹونوں اور شیطانی وساوس کا رحمانی علاج ہے۔ابلیسِ لعین سے انسان کو بچانے
کے لیے یہ قرآن محافظ(Guard)کا کام کرتا ہے(آیۃ الکرسی)۔یہ قرآنِ کریم حصولِ خیر وبرکت
کا دروازہ،اللہ سے اپنی حاجات پوری کروانے کا ذریعہ اور فراوانیِ رزق کا باعث ہے۔یہ قرآن دنیوی وبرزخی اور
اخروی زندگی کی تمام مشکلات سے نجات دہندہ ہے۔قرآنِ کریم کے اتنے فضائل وبرکات اور فوائد وثمرات ہیں کہ .سفینہ چاہیے اس بحرِ بے کراں کے لیےاللہ تعالیٰ کی توفیق اور اسی
کا فضل و احسان ہے کہ اس نے اپنے کلامِ پاک کی خدمت کے لیے بے شمار علمائِ کرام کو
منتخب فرمایا،جنھوں نے تفسیر و اعجازِ قرآن کو مختلف پہلوؤں سے بیان کیا اور خوب
علمی لعل وجواہر بکھیرے۔
عظمتِ قرآن؛
بزبانِ قرآن : قرآنِ کریم وہ عظیم کتاب ہے جس کا تذکرہ پہلی
کتابوں میں بھی موجود ہے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے اٹھائی
ہے۔چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:{إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ
لَحَافِظُوْنَ}[الحجر:۹]’’بیشک یہ’’ذِکر‘‘ ہم ہی نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کے
نگہبان ہیں۔‘‘اس کی عظمت اور شان کی ایک بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ
ہر دور میں مسلمان تو مسلمان،خود کفار بھی اس کی عظمت کے قائل رہے ہیں۔سب سے پہلے
ہم قرآن کی عظمت کلامِ الٰہی کی روشنی میں پیش کرتے ہیں،چنانچہ خود اللہ تعالیٰ
نے بہت سی آیات میں اپنی کتابِ عزیز کی تعریف بیان کی ہے جو اس کتاب کی عظمت کی
دلیل ہے۔
1۔قرآن
عظیم:اللہ تعالیٰ نے اپنی اس کتابِ مقدس کا ایک وصف یہ
بیان فرمایا ہے کہ یہ’’قرآنِ عظیم‘‘ ہے۔چنانچہ سورۃ الحجر،آیت(۸۷)میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:{وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ
الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ}’’اور ہم نے تمھیں سات(آیتیں)جو(نماز میں)دہرا کر پڑھی جاتیہیں(یعنی سورئہ
فاتحہ)اور’’عظمت والا قرآن‘‘ عطا فرمایا ہے
2۔محکم:سورہ ہود کی پہلی آیت ہی میں اس کتاب کا’’محکم‘‘
ہونا بیان فرمایا ہے،چنانچہ ارشادِ ربانی ہے:{الٓرٰ کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ
حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ}’’الٓر،یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور اللہ حکیم و خبیر کی طرف سے
بہ تفصیل بیان کر دی گئی ہیں
3۔مھیمن:اس کا ایک وصف یہ بیان فرمایا کہ یہ کتاب پچھلی
تمام الہامی کتابوں پر’’مُہَیْمِن‘‘ یعنی
نگران و محافظ ہے،جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے:{وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ
مُصَدِّقًا لِِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَ مُھَیْمِنًا
عَلَیْہِ}[المائدۃ:۴۸]‘’اور(اے پیغمبر!)ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے جو
اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان(سب)پر نگران و محافظ ہے۔‘‘گویا یہ کتابِ مقدس،سابقہ نازل شدہ تمام کتابوں کے
مقاصد کی’’مُہَیْمِن‘‘ یعنی محافظ و نگران اور ان میں درج شدہ باتوں کی
معتبر گواہ ہے،جو ان کی صحیح باتوں کی تصدیق و اثبات کرتی ہے اور(لوگوں کی طرف سے
تحریف کردہ یا بڑھائی ہوئی)غلط باتوں کی تردید وتصحیح کرتی ہے
4۔’’علي
حکیم‘‘:اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اپنی اس کتاب کا
ایک وصف’’عَلِيٌّ حَکِیْمٌ‘‘
بھی بیان فرمایا ہے۔یعنی
وہ بہت بلند،برگزیدہ اور نہایت محکم کتاب ہے،جیسا کہ سورۃ الزخرف میں ارشادِ باری
تعالیٰ ہے:{وَاِِنَّہٗ فِیْٓ اُمِّ الْکِتٰبِ لَدَیْنَا
لَعَلِیٌّ حَکِیْمٌ}[الزخرف:۴]’’اور یہ بڑی کتاب(یعنی لوحِ محفوظ)میں ہمارے
پاس(لکھی ہوئی اور)بڑی فضیلت اور حکمت والی ہے۔‘‘یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآنِ کریم اور اس کی حکمت کے بارے
میں نہایت اعلیٰ درجے کی گواہی ہے۔اور امام رازی کے بقول:بلا شبہ یہ عظمتِ قرآن
کا ایک پہلو ہے کہ یہ کتاب اپنے مقام و مرتبہ اور شرف و منزلت کے اعتبار سے نہایت
بلند پایہ ہے،اس لیے یہ تمام سابقہ آسمانی کتب پر غالب و برتر ہے،مزید اس وجہ سے
بھی کہ روئے زمین پر بطورِ معجزہ برقرار ہے۔(التفسیر الکبیر:۲۷/ ۱۶۷)اور’’حکیم‘‘ کے معنی ہیں:نہایت محکم۔یعنی ایک مضبوط
نظم میں پروئی ہوئی کتاب جس میں کسی بھی اعتبار سے کوئی خلل نہیں۔پس یہ کتاب بذاتِ
خود حکیم ہے اور دوسروں پر حاکم و غالب ہے۔’’حکیم‘‘ کے دوسرے معنی’’حکمت والا‘‘
بھی ہیں۔اور علامہ سعدی نے بجا طور پر اپنی تفسیر میں لکھا ہے:’’قرآنِ کریم جن اوامر اور نواہی اور جن خبروں پر
مشتمل ہے،ان میں کوئی حکم اور کوئی خبر حکمت اور عدل و میزان کے خلاف نہیں ہے۔‘‘(تفسیر السعدي:۴/ ۴۳۷)
5۔’’کتاب مبارک‘‘:قرآنِ کریم کی تعریف میں ایک بات یہ بھی ہے کہ
اللہ تعالیٰ نے تین سورتوں میں اس کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ یہ’’کِتَابٌ مُبَارَکٌ‘‘ یعنی بڑی
برکت والی کتاب ہے۔تفصیل کے طالب سورۃ الانعام،آیت(۹۲،۱۵۵)سورۃ الانبیاء،آیت(۵۰)اور سورہ صٓ،آیت(۲۹)کا ترجمہ و تفسیر ملاحظہ فرمالیں۔علاوہ ازیں قرآنِ
کریم کے دیگر بے شمار اوصاف بھی ہیں جن کا احاطۂ تحریر میں لانا کارے دارد۔
قرآنِ عظیم کا نزول،بہترین زمانے میں:
قرآنِ عظیم کی عظمت کی
ایک دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے سب سے بہترین زمانے یعنی رمضان المبارک میں
نازل فرمایا،جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے:{شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ
الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَ
الْفُرْقَانِ}[البقرۃ:۱۸۵]’’(روزوں کا مہینہ)رمضان کا
مہینہ(ہے)جس میں قرآن نازل ہوا جو لوگوں کا راہنما ہے اور(جس میں)ہدایت کی کھلی
نشانیاں ہیں اور(جو حق و باطل کو)الگ الگ کرنے والا ہے۔‘‘قرآن مجید کو اس مبارک مہینے کی اس رات میں نازل فرمایا گیا جو
بہت بابرکت رات ہے۔اللہ تعالیٰ نے خود سورۃ الدخان کی آیت(۳،۴،۵)میں ارشاد فرمایا ہے:{اِِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِِنَّا
کُنَّا مُنْذِرِیْنَ . فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ . اَمْرًا مِّنْ
عِنْدِنَا اِِنَّا کُنَّا مُرْسِلِیْنَ}’’ہم نے اس(قرآن)کو مبارک رات میں نازل فرمایا ہم تو
راستہ دکھانے والے ہیں۔اسی رات میں ہمارے حکم سے تمام حکمت کے کام فیصل کیے جاتے
ہیں،(یعنی)ہمارے ہاں سے حکم ہو کر،بیشک ہم ہی(پیغمبر کو)بھیجتے ہیں۔‘یہ برکتوں والی رات کون سی ہے؟ یہ شرف و مجد اور
بلند رتبے والی وہ رات ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ القدر میں فرمایا ہے:{اِِنَّآ اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ . وَمَآ
اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ . لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ
شَھْرٍ}[القدر:۱ تا ۳]’’ہم نے اس(قرآن)کو شبِ قدر میں نازل کیا اور تمھیں کیا معلوم کہ
شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینے سے بہتر ہے۔‘‘قرآن مجید کے نزول کی رات(لیلۃ القدر)میں عبادت کا ثواب ہزار
ماہ(یا ۸۳ سال ۴ ماہ)کی عبادت کے ثواب سے زیادہ ہے۔لیلۃ القدر کا نام
لیلۃ القدر اسی لیے رکھا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا غیر معمولی شرف و مجد
اور زبردست فضیلت ہے۔اس رات کی بے مثال فضیلت اس لیے ہے کہ اس میں بہت سے ایسے اہم
امور سر انجام پائے جو نہایت عظیم الشان اور بہت عالی مرتبت ہیں۔امام رازی نے اپنی
تفسیر میں لکھا ہے کہ دین کا درجہ دنیا کے منصب و مقام سے کہیں زیادہ اعلیٰ اور
ارفع ہے،اور خود دین میں منصب و مقام کے اعتبار سے جو متاع سب سے اعلیٰ اور اشرف
ہے وہ قرآنِ عظیم ہے کیونکہ اسی کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکرم کی نبوت
کا اثبات ہوا،اسی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ساری کتابوں میں حق و باطل
کے درمیان فرق ظاہر ہوا،اور اسی سے اہلِ سعادت کے درجات بلند ہونے اور اہلِ شقاوت
کے مواخذہ و احتساب کا پتہ چلتا ہے۔اس اعتبار سے بلا شبہ قرآن سے بڑھ کر کوئی چیز
عظیم القدر نہیں ہے۔ذکر میں کوئی چیز اس سے اعلیٰ ہے نہ منصب و مقام میں عظیم
تر۔(التفسیر الکبیر للرازي:۲۷/ ۲۰۳۔۲۰۴)
حفاظتِ قرآن کا وعدۂ الٰہی:
قرآنِ کریم کی آیات یا
الفاظ میں رد و بدل قیامت تک ممکن نہیں،کیونکہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ
تعالیٰ نے اٹھا رکھی ہے،چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:{إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ
لَحَافِظُوْنَ}[الحجر:۹]’’بیشک یہ’’ذِکر‘‘ ہم ہی نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کے
نگہبان ہیں۔‘‘یہ اللہ ہی کی حفاظت کا نتیجہ ہے کہ قرآن کریم اب
تک اپنی اصلی شکل میں باقی ہے اور ہر وہ کوشش جو اسے بدلنے کے لیے کی گئی اس طرح
ناکام و نا مراد ہوئی کہ اس کا ایک حرف بھی تبدیل نہیں کیا جا سکا۔اللہ تعالیٰ نے
فرمایا ہے:{اِِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِالذِّکْرِ لَمَّا جَآئَ ھُمْ وَاِِنَّہٗ
لَکِتٰبٌ عَزِیْزٌ . لاَّ یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَلاَ مِنْ
خَلْفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ}[حمٓ سجدۃ:41,42]’’ان لوگوں نے نصیحت کو نہ مانا جب وہ ان کے پاس آئی اور یہ تو ایک عالی رتبہ
کتاب ہے۔اس پر جھوٹ کا دخل نہ آگے سے ہو سکتا ہے نہ پیچھے سے۔(اور)یہ
دانا(اور)خوبیوں والے(اللہ)کی اتاری ہوئی ہے۔‘‘غرض قرآنِ کریم ام الکتاب میں درج اور لوحِ محفوظ میں بہ حفاظت
موجود ہے۔وہ آسمانوں میں بھی ہر اس چیز سے محفوظ رہا جس سے اسے کسی نقصان کا
اندیشہ ہوتا اور جو اس کی شان سے فروتر تھی۔یہ سب کچھ سراسر اللہ تعالیٰ کا کمال
اور قرآن پر اس کی خصوصی عنایت و توجہ کے باعث ہے۔(عنایۃ اللّٰه و عنایۃ رسولہ بالقرآن الکریم،ص:۹۔۱۱) سورۃ الواقعہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:{اِِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ . فِیْ کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ . لاَ
یَمَسُّہٗٓ اِِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ}[الواقعۃ:۷۷ تا ۷۹]’’یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے۔(جو)کتابِ محفوظ میں(لکھا
ہوا)ہے۔اس کو وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہیں۔‘‘اللہ تعالیٰ نے قرآن کی صفت{مَکْنُوْنٍ} بیان فرمائی،جس کے معنی پردے میں ہونے کے ہیں،یعنی
یہ کتاب لوگوں کی نظروں سے محجوب(چھپی ہوئی)ہے۔اس لحاظ سے یہ عالمِ غیب کا ایک
پوشیدہ معاملہ ہے جس کی کنہ اور حقیقت اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔اس آیت
کا مفہوم یہ ہے کہ قرآنِ کریم جو لوگوں تک پہنچا اور جسے انھوں نے نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے سنا،یہ اللہ تعالیٰ کی اس مشیت کے مطابق ہے جس
سے وہ لوگوں کو آگاہ کرنا چاہتا تھا کہ اس کا یہ وصف مکمل ہوجائے کہ قرآن اللہ
تعالیٰ کا کلام ہے اور اس میں کسی انسان کا قطعاً کوئی دخل نہیں۔(التحریر و التنویر:۲۷/ ۳۰۴۔مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:قرآن کی عظمتیں اور اس
کے معجزات شیخ محمود الدوسری،ترجمہ پروفیسر حافظ عبد الرحمن ناصر،طبع دار السلام
لاہور)
تمام کتبِ سماویہ کا جامع:
معجم طبرانی،شرح معانی
الآثار طحاوی،شعب الایمان بیہقی اور مسند طیالسی میں حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ
عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:((أُعْطِیْتُ مَکَانَ التَّورَاۃِ السَّبْعَ الطِّوَالَ
وَمَکَانَ الزَّبُوْرِ الْمِئِیْنَ وَمَکَانَ الْاِنْجِیْلِ الْمَثَانِیْ
وَفُضِّلْتُ بِالْمُفَصَّلِ))(سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ:۱۴۸۰،صحیح الجامع الصغیر:۱۰۵۹) ’تورات کی جگہ مجھے سبع طوال سورتیں دی گئی ہیں،زبور کی جگہ مئین
سورتیں دی گئی ہیں،اور انجیل کی جگہ سورہ فاتحہ دی گئی ہے اور مفصل سورتیں(زائد دے
کر)مجھے فضیلت عطا کی گئی ہے۔‘‘تو گویا قرآنِ کریم تورات،انجیل اور زبور سب کا
جامع اور ان پر حاوی ہے۔یہاں یہ بات بھی واضح کردیں کہ قرآن کریم کی سورتوں کو
درج ذیل متعدد حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:سبع طوال سے مراد یہ سات سورتیں ہیں:سورۃ البقرہ۔سورۃ آل عمران۔سورۃ النساء۔سورۃ المائدہ۔سورۃ
الانعام۔سورۃ الاعراف۔سورۃ الانفال۔مئین سے مراد وہ سورتیں ہیں جن کی آیات کی
تعداد سو سے دو سو تک ہے۔ان میں سورہ یونس سے لے کر سورہ شعرآء تک سورتیں شامل
ہیں۔مثانی وہ سورتیں ہیں جن کی آیات سو سے کم ہیں۔ان میں سورۃ النمل سے لے کر
سورۃ الحجرات تک کی سورتیں شامل ہیں۔مفصل سورتوں میں سورہ قٓ سے لے کر سورۃ الناس
تک کی تمام سورتیں شامل ہیں۔مفصل سورتیں آیات کے اعتبار سے خواہ کتنی ہی چھوٹی
کیوں نہ ہوں،مضامین کے اعتبار سے مکمل ہیں،لہٰذا انھیں مفصل کہا گیا ہے۔مفصل
سورتوں کو مزید تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:1۔طوال مفصل:سورۂ قٓ سے لیکر سورۃ البروج تک۔2۔اوساط مفصل:سورۃ الطارق سے سورۃ البینہ تک۔3۔قصار مفصل:سورۃ الزلزال سے سورۃ الناس تک۔
قرآن کی سفارش :قیامت کے روز قرآنِ مجید اہلِ قرآن کی بخشش کے
لیے سفارش کرے گا۔چنانچہ صحیح مسلم اور مسند احمد میں حضرت ابوامامہ باہلی رضی
اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا
ہے:((اِقْرَأُوا الْقُرْآنَ فَاِنَّہٗ یَأتِيْ یَوْمَ
الْقِیَامَۃِ شَفِیعاً لِأَصْحَابِہٖ))(صحیح مسلم،کتاب فضائل القرآن،حدیث ۱۸۷۴) ’’قرآن
پڑھا کرو،قیامت کے روز یہ اپنے پڑھنے والوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا۔
پیروی میں راستی:قرآنِ کریم کی پیروی کرنے والے ہمیشہ راہ راست پر
رہیں گے،جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((اَلَا وَ اِنِّيْ تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْنِ
أَحَدُہُمَا کِتٰبُ اللّٰہِ،ہُوَ حَبْلُ اللّٰہِ،مَنِ اتَّبَعَہٗ کَانَ عَلَی
الْہُدٰی،وَمَنْ تَرَکَہٗ کَانَ عَلٰی الضَّلَالَۃِ))(صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابہ:۶۲۲۵)’’آگاہ رہو! میں تمھارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں،ان میں سے ایک
اللہ کی کتاب ہے،جو اللہ کی رسی ہے۔جو اس کی پیروی کرے گا ہدایت پر رہے گا اور جو
اسے چھوڑ دے گا وہ گمراہ ہوگا۔‘‘جبکہ مستدرک حاکم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((اِنِّيْ قَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمْ شَیْئَیْنِ لَنْ
تَضِلُّوْا بَعْدَہُمَا:کِتَابَ اللّٰہِ وَسُنَّتِي))(مستدرک الحاکم،صحیح الجامع الصغیر:۲۹۳۷،الصحیحۃ:۱۷۶۱) ’’میں تمھارے درمیان دو ایسی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں
کہ اگر ان پر عمل کروگے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے:ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری
سنت۔‘‘اسی معنی ومفہوم کی بعض دیگر احادیث سنن ترمذی،مسند
احمد اور معجم طبرانی کبیر میں بھی مروی ہیں۔(دیکھیں:صحیح الجامع:۲۴۵۷،۲۴۵۸)
دنیاوی غلبہ و عروج:قرآنِ کریم پر عمل کرنے والوں کو دنیا میں غلبہ
اور عروج حاصل ہوگا۔جس کی دلیل صحیح مسلم اور سنن ابن ماجہ کی وہ حدیث ہے جس میں
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آگاہ رہو! تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا ہے:((اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِہَذَا الْکِتَابِ
أَقْوَاماً،وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ))(صحیح مسلم،کتاب فضائل القرآن،صحیح الجامع:۱۸۹۶)’’بیشک
اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے بعض لوگوں کو غلبہ اور عروج عطا فرماتے ہیں اور بعض
لوگوں کو ذلیل و رسوا کرتے ہیں۔‘‘دنیا میں عزت و عروج اور غلبہ کا وعدہ قرآن مجید
کو مضبوطی سے تھامنے اور اس پر عمل کرنے سے مشروط ہے۔آج اگر ہم دنیا میں مغلوب و
بے توقیر ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے قرآنِ مجید کو ترک کردیا ہے۔ہمارا
معاشرہ ایمان،نیکی،تقویٰ،امانت،دیانت،صداقت اور شجاعت کی بجائے شرک،بدعات،ظلم،بے
رحمی،قتل و غارت،لوٹ کھسوٹ،اغوا،شراب،زنا،جوا،فحاشی،بے حیائی،بدامنی،اور بد حالی
میں مبتلا ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم نے قرآنِ مجید کو ترک کردیا ہے۔بقول
حکیم الامت علامہ اقبال
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر