اپنی زبان منتخب کریں

پیر، 18 اپریل، 2022

عظمت القرآن


 بسم اللّٰه الرحمن الرحيم

اِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ نَحْمَدُہٗ وَنَسْتَعِیْنُہٗ وَنَسْتَغْفِرُہٗ وَ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ أَنْفُسِنَا وَسَیِّئَاتِ أَعْمَالِنَا،مَنْ یَّھْدِہِ اللّٰہُ فَلَا مُضِلَّ لَہٗ وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلَا ھَادِيَ لَہٗ،وَاَشْھَدُ اَنْ لَّا إِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُ أَ نَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔۔اَمَّا بَعْدُ!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ  

اس میں کسی مسلمان کو ذرہ برابر بھی شک و شبہہ نہیں ہے کہ قرآنِ کریم:اللہ تعالیٰ کا کلام پاک ہے جو مصادرِ شریعت میں سے اوّلین مصدر بھی ہے۔{الٓمّٓ.ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ}[البقرۃ:۱،۲]یہ اہلِ تقویٰ کے لیے کتابِ ہدایت ہے:{ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ}[البقرۃ:۲]یہ قرآنِ کریم تمام جن وانس کے لیے خزینۂ رحمت اور شفاء و علاج ہے:{وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ھُوَ شِفَآئٌ وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ}[الإسراء:۸۲]جو اس کے احکام پر عمل پیرا ہو اُسے اللہ تعالیٰ عروج و ترقی کی رفعتوں سے نوازتا ہے اور اسے پسِ پشت ڈالنے والوں کو تنزّل و ادبار سے دوچار کر دیتا ہے:((اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِہَذَا الْکِتَابِ أَقْوَاماً وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ))(مختصر صحیح مسلم،برقم:۲۱۰۲)قرآنِ کریم سیکھنے والے کیلئے جنت کی راہیں آسان کردی جاتی ہیں:

{وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا}[العنکبوت:۶۹]قرآنِ کریم حصولِ اجر وثواب کا ذریعہ ہے کہ اس کا صرف ایک حرف پڑھنے سے دس نیکیاں ملتی ہیں۔(سنن الترمذي:)قرآنِ کریم زہریلے جانوروں کے زہر کا تریاق ہے۔(مصنف ابن أبي شیبۃ،مسند بزّار،طحاوي)یہ آسیب ومِرگی اور نظرِ بد زائل کرنے کا تیر بہ ہدف نسخہ اور تعویذ گنڈوں،جادو ٹونوں اور شیطانی وساوس کا رحمانی علاج ہے۔ابلیسِ لعین سے انسان کو بچانے کے لیے یہ قرآن محافظ(Guard)کا کام کرتا ہے(آیۃ الکرسی)۔یہ قرآنِ کریم حصولِ خیر وبرکت کا دروازہ،اللہ سے اپنی حاجات پوری کروانے کا ذریعہ اور فراوانیِ رزق کا باعث ہے۔یہ قرآن دنیوی وبرزخی اور اخروی زندگی کی تمام مشکلات سے نجات دہندہ ہے۔قرآنِ کریم کے اتنے فضائل وبرکات اور فوائد وثمرات ہیں کہ .سفینہ چاہیے اس بحرِ بے کراں کے لیےاللہ تعالیٰ کی توفیق اور اسی کا فضل و احسان ہے کہ اس نے اپنے کلامِ پاک کی خدمت کے لیے بے شمار علمائِ کرام کو منتخب فرمایا،جنھوں نے تفسیر و اعجازِ قرآن کو مختلف پہلوؤں سے بیان کیا اور خوب علمی لعل وجواہر بکھیرے۔

عظمتِ قرآن؛ بزبانِ قرآن     :                       قرآنِ کریم وہ عظیم کتاب ہے جس کا تذکرہ پہلی کتابوں میں بھی موجود ہے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے اٹھائی ہے۔چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:{إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ}[الحجر:۹]’’بیشک یہ’’ذِکر‘‘ ہم ہی نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔‘‘اس کی عظمت اور شان کی ایک بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ ہر دور میں مسلمان تو مسلمان،خود کفار بھی اس کی عظمت کے قائل رہے ہیں۔سب سے پہلے ہم قرآن کی عظمت کلامِ الٰہی کی روشنی میں پیش کرتے ہیں،چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے بہت سی آیات میں اپنی کتابِ عزیز کی تعریف بیان کی ہے جو اس کتاب کی عظمت کی دلیل ہے۔

1۔قرآن عظیم:اللہ تعالیٰ نے اپنی اس کتابِ مقدس کا ایک وصف یہ بیان فرمایا ہے کہ یہ’’قرآنِ عظیم‘‘ ہے۔چنانچہ سورۃ الحجر،آیت(۸۷)میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:{وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ}’’اور ہم نے تمھیں سات(آیتیں)جو(نماز میں)دہرا کر پڑھی جاتیہیں(یعنی سورئہ فاتحہ)اور’’عظمت والا قرآن‘‘ عطا فرمایا ہے

2۔محکم:سورہ ہود کی پہلی آیت ہی میں اس کتاب کا’’محکم‘‘ ہونا بیان فرمایا ہے،چنانچہ ارشادِ ربانی ہے:{الٓرٰ کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ}’’الٓر،یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور اللہ حکیم و خبیر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کر دی گئی ہیں

 3۔مھیمن:اس کا ایک وصف یہ بیان فرمایا کہ یہ کتاب پچھلی تمام الہامی کتابوں پر’’مُہَیْمِن‘‘ یعنی نگران و محافظ ہے،جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے:{وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَ مُھَیْمِنًا عَلَیْہِ}[المائدۃ:۴۸]‘’اور(اے پیغمبر!)ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان(سب)پر نگران و محافظ ہے۔‘‘گویا یہ کتابِ مقدس،سابقہ نازل شدہ تمام کتابوں کے مقاصد کی’’مُہَیْمِن‘‘ یعنی محافظ و نگران اور ان میں درج شدہ باتوں کی معتبر گواہ ہے،جو ان کی صحیح باتوں کی تصدیق و اثبات کرتی ہے اور(لوگوں کی طرف سے تحریف کردہ یا بڑھائی ہوئی)غلط باتوں کی تردید وتصحیح کرتی ہے

4۔’’علي حکیم‘‘:اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اپنی اس کتاب کا ایک وصف’’عَلِيٌّ حَکِیْمٌ‘‘

بھی بیان فرمایا ہے۔یعنی وہ بہت بلند،برگزیدہ اور نہایت محکم کتاب ہے،جیسا کہ سورۃ الزخرف میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:{وَاِِنَّہٗ فِیْٓ اُمِّ الْکِتٰبِ لَدَیْنَا لَعَلِیٌّ حَکِیْمٌ}[الزخرف:۴]’’اور یہ بڑی کتاب(یعنی لوحِ محفوظ)میں ہمارے پاس(لکھی ہوئی اور)بڑی فضیلت اور حکمت والی ہے۔‘‘یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآنِ کریم اور اس کی حکمت کے بارے میں نہایت اعلیٰ درجے کی گواہی ہے۔اور امام رازی کے بقول:بلا شبہ یہ عظمتِ قرآن کا ایک پہلو ہے کہ یہ کتاب اپنے مقام و مرتبہ اور شرف و منزلت کے اعتبار سے نہایت بلند پایہ ہے،اس لیے یہ تمام سابقہ آسمانی کتب پر غالب و برتر ہے،مزید اس وجہ سے بھی کہ روئے زمین پر بطورِ معجزہ برقرار ہے۔(التفسیر الکبیر:۲۷/ ۱۶۷)اور’’حکیم‘‘ کے معنی ہیں:نہایت محکم۔یعنی ایک مضبوط نظم میں پروئی ہوئی کتاب جس میں کسی بھی اعتبار سے کوئی خلل نہیں۔پس یہ کتاب بذاتِ خود حکیم ہے اور دوسروں پر حاکم و غالب ہے۔’’حکیم‘‘ کے دوسرے معنی’’حکمت والا‘‘ بھی ہیں۔اور علامہ سعدی نے بجا طور پر اپنی تفسیر میں لکھا ہے:’’قرآنِ کریم جن اوامر اور نواہی اور جن خبروں پر مشتمل ہے،ان میں کوئی حکم اور کوئی خبر حکمت اور عدل و میزان کے خلاف نہیں ہے۔‘‘(تفسیر السعدي:۴/ ۴۳۷)

5۔’’کتاب مبارک‘‘:قرآنِ کریم کی تعریف میں ایک بات یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین سورتوں میں اس کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ یہ’’کِتَابٌ مُبَارَکٌ‘‘ یعنی بڑی برکت والی کتاب ہے۔تفصیل کے طالب سورۃ الانعام،آیت(۹۲،۱۵۵)سورۃ الانبیاء،آیت(۵۰)اور سورہ صٓ،آیت(۲۹)کا ترجمہ و تفسیر ملاحظہ فرمالیں۔علاوہ ازیں قرآنِ کریم کے دیگر بے شمار اوصاف بھی ہیں جن کا احاطۂ تحریر میں لانا کارے دارد۔

قرآنِ عظیم کا نزول،بہترین زمانے میں:

قرآنِ عظیم کی عظمت کی ایک دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے سب سے بہترین زمانے یعنی رمضان المبارک میں نازل فرمایا،جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے:{شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَ الْفُرْقَانِ}[البقرۃ:۱۸۵]’’(روزوں کا مہینہ)رمضان کا مہینہ(ہے)جس میں قرآن نازل ہوا جو لوگوں کا راہنما ہے اور(جس میں)ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور(جو حق و باطل کو)الگ الگ کرنے والا ہے۔‘‘قرآن مجید کو اس مبارک مہینے کی اس رات میں نازل فرمایا گیا جو بہت بابرکت رات ہے۔اللہ تعالیٰ نے خود سورۃ الدخان کی آیت(۳،۴،۵)میں ارشاد فرمایا ہے:{اِِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ . فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ . اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا اِِنَّا کُنَّا مُرْسِلِیْنَ}’’ہم نے اس(قرآن)کو مبارک رات میں نازل فرمایا ہم تو راستہ دکھانے والے ہیں۔اسی رات میں ہمارے حکم سے تمام حکمت کے کام فیصل کیے جاتے ہیں،(یعنی)ہمارے ہاں سے حکم ہو کر،بیشک ہم ہی(پیغمبر کو)بھیجتے ہیں۔یہ برکتوں والی رات کون سی ہے؟ یہ شرف و مجد اور بلند رتبے والی وہ رات ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ القدر میں فرمایا ہے:{اِِنَّآ اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ . وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ . لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ}[القدر:۱ تا ۳]’’ہم نے اس(قرآن)کو شبِ قدر میں نازل کیا اور تمھیں کیا معلوم کہ شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینے سے بہتر ہے۔‘‘قرآن مجید کے نزول کی رات(لیلۃ القدر)میں عبادت کا ثواب ہزار ماہ(یا ۸۳ سال ۴ ماہ)کی عبادت کے ثواب سے زیادہ ہے۔لیلۃ القدر کا نام لیلۃ القدر اسی لیے رکھا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا غیر معمولی شرف و مجد اور زبردست فضیلت ہے۔اس رات کی بے مثال فضیلت اس لیے ہے کہ اس میں بہت سے ایسے اہم امور سر انجام پائے جو نہایت عظیم الشان اور بہت عالی مرتبت ہیں۔امام رازی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ دین کا درجہ دنیا کے منصب و مقام سے کہیں زیادہ اعلیٰ اور ارفع ہے،اور خود دین میں منصب و مقام کے اعتبار سے جو متاع سب سے اعلیٰ اور اشرف ہے وہ قرآنِ عظیم ہے کیونکہ اسی کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکرم کی نبوت کا اثبات ہوا،اسی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ساری کتابوں میں حق و باطل کے درمیان فرق ظاہر ہوا،اور اسی سے اہلِ سعادت کے درجات بلند ہونے اور اہلِ شقاوت کے مواخذہ و احتساب کا پتہ چلتا ہے۔اس اعتبار سے بلا شبہ قرآن سے بڑھ کر کوئی چیز عظیم القدر نہیں ہے۔ذکر میں کوئی چیز اس سے اعلیٰ ہے نہ منصب و مقام میں عظیم تر۔(التفسیر الکبیر للرازي:۲۷/ ۲۰۳۔۲۰۴)

 

حفاظتِ قرآن کا وعدۂ الٰہی:

قرآنِ کریم کی آیات یا الفاظ میں رد و بدل قیامت تک ممکن نہیں،کیونکہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے اٹھا رکھی ہے،چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:{إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ}[الحجر:۹]’’بیشک یہ’’ذِکر‘‘ ہم ہی نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔‘‘یہ اللہ ہی کی حفاظت کا نتیجہ ہے کہ قرآن کریم اب تک اپنی اصلی شکل میں باقی ہے اور ہر وہ کوشش جو اسے بدلنے کے لیے کی گئی اس طرح ناکام و نا مراد ہوئی کہ اس کا ایک حرف بھی تبدیل نہیں کیا جا سکا۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:{اِِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِالذِّکْرِ لَمَّا جَآئَ ھُمْ وَاِِنَّہٗ لَکِتٰبٌ عَزِیْزٌ . لاَّ یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَلاَ مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ}[حمٓ سجدۃ:41,42]’’ان لوگوں نے نصیحت کو نہ مانا جب وہ ان کے پاس آئی اور یہ تو ایک عالی رتبہ کتاب ہے۔اس پر جھوٹ کا دخل نہ آگے سے ہو سکتا ہے نہ پیچھے سے۔(اور)یہ دانا(اور)خوبیوں والے(اللہ)کی اتاری ہوئی ہے۔‘‘غرض قرآنِ کریم ام الکتاب میں درج اور لوحِ محفوظ میں بہ حفاظت موجود ہے۔وہ آسمانوں میں بھی ہر اس چیز سے محفوظ رہا جس سے اسے کسی نقصان کا اندیشہ ہوتا اور جو اس کی شان سے فروتر تھی۔یہ سب کچھ سراسر اللہ تعالیٰ کا کمال اور قرآن پر اس کی خصوصی عنایت و توجہ کے باعث ہے۔(عنایۃ اللّٰه و عنایۃ رسولہ بالقرآن الکریم،ص:۹۔۱۱) سورۃ الواقعہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:{اِِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ . فِیْ کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ . لاَ یَمَسُّہٗٓ اِِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ}[الواقعۃ:۷۷ تا ۷۹]’’یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے۔(جو)کتابِ محفوظ میں(لکھا ہوا)ہے۔اس کو وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہیں۔‘‘اللہ تعالیٰ نے قرآن کی صفت{مَکْنُوْنٍ} بیان فرمائی،جس کے معنی پردے میں ہونے کے ہیں،یعنی یہ کتاب لوگوں کی نظروں سے محجوب(چھپی ہوئی)ہے۔اس لحاظ سے یہ عالمِ غیب کا ایک پوشیدہ معاملہ ہے جس کی کنہ اور حقیقت اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ قرآنِ کریم جو لوگوں تک پہنچا اور جسے انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے سنا،یہ اللہ تعالیٰ کی اس مشیت کے مطابق ہے جس سے وہ لوگوں کو آگاہ کرنا چاہتا تھا کہ اس کا یہ وصف مکمل ہوجائے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اس میں کسی انسان کا قطعاً کوئی دخل نہیں۔(التحریر و التنویر:۲۷/ ۳۰۴۔مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:قرآن کی عظمتیں اور اس کے معجزات شیخ محمود الدوسری،ترجمہ پروفیسر حافظ عبد الرحمن ناصر،طبع دار السلام لاہور)

تمام کتبِ سماویہ کا جامع:

معجم طبرانی،شرح معانی الآثار طحاوی،شعب الایمان بیہقی اور مسند طیالسی میں حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:((أُعْطِیْتُ مَکَانَ التَّورَاۃِ السَّبْعَ الطِّوَالَ وَمَکَانَ الزَّبُوْرِ الْمِئِیْنَ وَمَکَانَ الْاِنْجِیْلِ الْمَثَانِیْ وَفُضِّلْتُ بِالْمُفَصَّلِ))(سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ:۱۴۸۰،صحیح الجامع الصغیر:۱۰۵۹) ’تورات کی جگہ مجھے سبع طوال سورتیں دی گئی ہیں،زبور کی جگہ مئین سورتیں دی گئی ہیں،اور انجیل کی جگہ سورہ فاتحہ دی گئی ہے اور مفصل سورتیں(زائد دے کر)مجھے فضیلت عطا کی گئی ہے۔‘‘تو گویا قرآنِ کریم تورات،انجیل اور زبور سب کا جامع اور ان پر حاوی ہے۔یہاں یہ بات بھی واضح کردیں کہ قرآن کریم کی سورتوں کو درج ذیل متعدد حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:سبع طوال سے مراد یہ سات سورتیں ہیں:سورۃ البقرہ۔سورۃ آل عمران۔سورۃ النساء۔سورۃ المائدہ۔سورۃ الانعام۔سورۃ الاعراف۔سورۃ الانفال۔مئین سے مراد وہ سورتیں ہیں جن کی آیات کی تعداد سو سے دو سو تک ہے۔ان میں سورہ یونس سے لے کر سورہ شعرآء تک سورتیں شامل ہیں۔مثانی وہ سورتیں ہیں جن کی آیات سو سے کم ہیں۔ان میں سورۃ النمل سے لے کر سورۃ الحجرات تک کی سورتیں شامل ہیں۔مفصل سورتوں میں سورہ قٓ سے لے کر سورۃ الناس تک کی تمام سورتیں شامل ہیں۔مفصل سورتیں آیات کے اعتبار سے خواہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہوں،مضامین کے اعتبار سے مکمل ہیں،لہٰذا انھیں مفصل کہا گیا ہے۔مفصل سورتوں کو مزید تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:1۔طوال مفصل:سورۂ قٓ سے لیکر سورۃ البروج تک۔2۔اوساط مفصل:سورۃ الطارق سے سورۃ البینہ تک۔3۔قصار مفصل:سورۃ الزلزال سے سورۃ الناس تک۔

قرآن کی سفارش                    :قیامت کے روز قرآنِ مجید اہلِ قرآن کی بخشش کے لیے سفارش کرے گا۔چنانچہ صحیح مسلم اور مسند احمد میں حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:((اِقْرَأُوا الْقُرْآنَ فَاِنَّہٗ یَأتِيْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ شَفِیعاً لِأَصْحَابِہٖ))(صحیح مسلم،کتاب فضائل القرآن،حدیث ۱۸۷۴) ’قرآن پڑھا کرو،قیامت کے روز یہ اپنے پڑھنے والوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا۔

پیروی میں راستی:قرآنِ کریم کی پیروی کرنے والے ہمیشہ راہ راست پر رہیں گے،جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((اَلَا وَ اِنِّيْ تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْنِ أَحَدُہُمَا کِتٰبُ اللّٰہِ،ہُوَ حَبْلُ اللّٰہِ،مَنِ اتَّبَعَہٗ کَانَ عَلَی الْہُدٰی،وَمَنْ تَرَکَہٗ کَانَ عَلٰی الضَّلَالَۃِ))(صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابہ:۶۲۲۵)’’آگاہ رہو! میں تمھارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں،ان میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے،جو اللہ کی رسی ہے۔جو اس کی پیروی کرے گا ہدایت پر رہے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ گمراہ ہوگا۔‘‘جبکہ مستدرک حاکم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((اِنِّيْ قَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمْ شَیْئَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہُمَا:کِتَابَ اللّٰہِ وَسُنَّتِي))(مستدرک الحاکم،صحیح الجامع الصغیر:۲۹۳۷،الصحیحۃ:۱۷۶۱) ’’میں تمھارے درمیان دو ایسی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر ان پر عمل کروگے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے:ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت۔‘‘اسی معنی ومفہوم کی بعض دیگر احادیث سنن ترمذی،مسند احمد اور معجم طبرانی کبیر میں بھی مروی ہیں۔(دیکھیں:صحیح الجامع:۲۴۵۷،۲۴۵۸)

دنیاوی غلبہ و عروج:قرآنِ کریم پر عمل کرنے والوں کو دنیا میں غلبہ اور عروج حاصل ہوگا۔جس کی دلیل صحیح مسلم اور سنن ابن ماجہ کی وہ حدیث ہے جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آگاہ رہو! تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:((اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِہَذَا الْکِتَابِ أَقْوَاماً،وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ))(صحیح مسلم،کتاب فضائل القرآن،صحیح الجامع:۱۸۹۶)’بیشک اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے بعض لوگوں کو غلبہ اور عروج عطا فرماتے ہیں اور بعض لوگوں کو ذلیل و رسوا کرتے ہیں۔‘‘دنیا میں عزت و عروج اور غلبہ کا وعدہ قرآن مجید کو مضبوطی سے تھامنے اور اس پر عمل کرنے سے مشروط ہے۔آج اگر ہم دنیا میں مغلوب و بے توقیر ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے قرآنِ مجید کو ترک کردیا ہے۔ہمارا معاشرہ ایمان،نیکی،تقویٰ،امانت،دیانت،صداقت اور شجاعت کی بجائے شرک،بدعات،ظلم،بے رحمی،قتل و غارت،لوٹ کھسوٹ،اغوا،شراب،زنا،جوا،فحاشی،بے حیائی،بدامنی،اور بد حالی میں مبتلا ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم نے قرآنِ مجید کو ترک کردیا ہے۔بقول حکیم الامت علامہ اقبال

وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہوکر

اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

  تحریر   الشیخ عبد المومن السلفی       قسط اول  جاری۔۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 4 دسمبر، 2021

دعا و اذکار 2


 دوسری قسم:… امر و نہی اور حلال و حرام کا ذکر اور اس کے احکام کا تذکرہ کرتا ہے۔انسان احکام پر عمل کرتاہے، اور ممنوعات کو چھوڑ دیتاہے۔ اور حرام کو حرام جانتا اورحلال کو حلال سمجھتا ہے۔( ایسا کرنا بھی ذکر الٰہی ہے)۔ پھر اس کی بھی دو قسمیں ہیں : 

٭ اس کا یہ یاد رکھنا کہ اسے ایسی باتوں کا حکم دیا گیا ہے، اور ان ان باتوں سے منع کیا گیا ہے۔ اور وہ اس چیز کو پسند کرتا ہے، اور اُس کو نا پسند کرتا ہے، اور اس پر راضی ہوتا ہے۔ ٭ اللہ تعالیٰ کا حکم آنے پر اسے یاد کرتا ہے، وہ اس کی طرف جلدی کرتا ہے، اور اس حکم کے مطابق عمل کرتا ہے۔ اور جب کوئی نہی یا ممانعت آتی ہے تو وہ اس سے دور ہوجاتا ہے اور اسے ترک کردیتا ہے۔ تیسری قسم:… اللہ تعالیٰ کی نعمتوں ،احسانات اور نوازشات کو یاد کرتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کے ذکر کی سب جلیل القدر اقسام میں سے ہے۔پھر اس کی تین اقسام ہیں : ایسا ذکر جس میں انسان کا دل اور زبان مشغول رہے۔ یہ سب سے اعلی قسم ہے۔ ٭ صرف دل میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا رہے۔ یہ دوسرے درجہ پر ہے۔ ٭ صرف زبان سے اس کا ذکر کرنا۔ یہ تیسرا درجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں دعا کا مقام :اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کو پیدا کیا اور انہیں اپنی عبادت (بندگی )کے لیے رزق عطا کیا۔ اور انہیں اپنے تمام رسولوں کی زبانی-نیکیوں کی ترغیب اور برائیوں کا خوف دلاتے ہوئے- اپنی توحید بجالانے اور اس کے احکام کی پیروی کرنے کا حکم دیا۔ ایسا اللہ تعالیٰ کی لوگوں کی طرف یاان کی عبادت میں کسی ضرورت کی وجہ سے نہیں ہے۔ بلکہ اس کی کمالِ حکمت کاتقاضا یہ ہے کہ اس کی عبادت منتخب قسم کے لوگوں کے لیے نشان منزل اور خوش بختوں کا عنوان بن جائے۔اور ایسی نشانی ہوجائے جس سے خوش بختوں اور بدبختوں کے درمیان تمیز کی جائے۔ عبادت اللہ تعالیٰ کے لیے کمال ِ محبت اور اس کے سامنے کمال ذلت و کم مائیگی کا نام ہے۔ اور ہونا یہ چاہیے کہ یہ دونوں خوبیاں پورے انکسار، وخضوع اور تسلیم و رضا کیساتھ؛ شریعت پر مکمل عمل کرتے ہوئے اور منع کردہ چیزوں سے مکمل اجتناب کرتے ہوئے اجرو ثواب کے حصول کے لیے اور عذاب الٰہی سے بچنے کے لیے ہوں ۔ دعاکو اللہ تعالیٰ نے عبادت کی جملہ اقسام میں سے خاص کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے عبادت کا نام دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ ﴾ (غافر:۶۰)’’اور تمہارے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقینا جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیلہو کر جہنم میں داخل ہو جائیں گے۔‘‘دعا کی عظمت اور شان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿ قُلْ مَا يَعْبَأُ بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ﴾ (الفرقان:۷۷)’’فرما دیجیے!اگر تمہاری دعا التجا نہ ہوتی تو میرا رب تمہاری مطلق پرواہ نہ کرتا۔‘‘(مذکورہ بالا آیت میں ) بڑے ہی بلیغ انداز میں اللہ تعالیٰ نے دعا کی عظمت کو اجاگر کیا ہے؛ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک دعا کرنے والے کا مقام و مرتبہ بیان کیا ہے۔ اس لیے کہ جب بھی کوئی دعا کرنے والا پورے اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو سنتا ہے۔ حتی کہ کفار کی دعا بھی سنتا ہے۔ خاص طور پر جب کوئی مجبور اور بے قرار ہو کر اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے ( تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبول فرماتا ہے ) فرمایا: ﴿ أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ﴾ (النمل :۶۲)’’ بھلا کون پہنچتاہے بیکس کی پکار کو جب اسکو پکارتا ہے اور وہ سختی کو دور کر دیتا ہے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ﴾ (العنکبوت:۶۵)’’پس یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ تعالی ہی کو پکارتے ہیں اس کے لیے عبادت کو خالص کرکے پھر جب وہ انہیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں ۔‘‘

دعا و اذکار 1


دعا اور ذکر کی تعریف:لغوی معنی:… دعا لغت میں پکار اور طلب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ شرعی معنی: … اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اور اس سے امید رکھتے ہوئے کسی ضرورت کے لیے سوال کرنا؛ (مثلاً) عمل کے قبول ہونے کے لیے، یا بخشش کے لیے؛ یا فائدہ کے حصول کے لیے؛ یا برائی کے ختم ہونے کے لیے ؛ یا خطرات سے بچنے کے لیے؛ یا عذاب دور کرنے کے لیے؛ یا دنیا و آخرت میں اجر کے حصول کے لیے۔ دعا کی حقیقت:اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی کم مائیگی اور ضرورت مندی کا اظہار؛ ہر قسم کی ذاتی قوت و طاقت سے برأت عبودیت کی نشانی ہے۔اور انسان کا اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی پستی کا شعور ؛ اس کی حمد و ثنا اور سخاوت و کریمی کا اظہار یہ حقیقت میں دعا ہے۔ ذکرکا مفہوم: غفلت اور نسیان سے گلو خلاصی۔ غفلت:… انسان کے کسی چیز کو اپنے ارادہ اور اختیار سے چھوڑ دینے کو کہتے ہیں ۔نسیان:… انسان کے کسی چیز کو بغیر ارادہ و اختیار کے چھوڑ دینے کو کہتے ہیں ۔
دعا اور ذکر کی تعریف:لغوی معنی:… دعا لغت میں پکار اور طلب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ شرعی معنی: … اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اور اس سے امید رکھتے ہوئے کسی ضرورت کے لیے سوال کرنا؛ (مثلاً) عمل کے قبول ہونے کے لیے، یا بخشش کے لیے؛ یا فائدہ کے حصول کے لیے؛ یا برائی کے ختم ہونے کے لیے ؛ یا خطرات سے بچنے کے لیے؛ یا عذاب دور کرنے کے لیے؛ یا دنیا و آخرت میں اجر کے حصول کے لیے۔ دعا کی حقیقت:اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی کم مائیگی اور ضرورت مندی کا اظہار؛ ہر قسم کی ذاتی قوت و طاقت سے برأت عبودیت کی نشانی ہے۔اور انسان کا اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی پستی کا شعور ؛ اس کی حمد و ثنا اور سخاوت و کریمی کا اظہار یہ حقیقت میں دعا ہے۔ ذکرکا مفہوم: غفلت اور نسیان سے گلو خلاصی۔ غفلت:… انسان کے کسی چیز کو اپنے ارادہ اور اختیار سے چھوڑ دینے کو کہتے ہیں ۔نسیان:… انسان کے کسی چیز کو بغیر ارادہ و اختیار کے چھوڑ دینے کو کہتے ہیں ۔
رکھنا، اورہر اس چیز سے اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا جو کہ اس کے لائق نہیں ہے۔ پھر اس کی بھی دو قسمیں ہیں :اوّل:… ذکر کرنے والا اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف کوبیان کرے۔ ذکر کی یہ قسم احادیث میں مذکور ہے جیسے : سبحان اللهِ، والحمدُ للّٰه ، لا إله إلا اللّٰه ، واللّٰهُ أكبرُدوم:… اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور ان کے احکام کی خبر ہونا۔ جیسا کہ : اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ اپنے بندے کی توبہ سے خوش ہوتا ہے جو کہ گم سواری ملنے پر خوش ہوتا ہے۔ وہ اپنے بندوں کی آوازوں کو سنتاہے۔اور ان کی حرکتوں کو دیکھتاہے۔اور ان کے اعمال میں سے کوئی چھپی ہوئی چیز بھی اللہ تعالیٰ پر مخفی نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ان کے والدین سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ [یہ بحث کچھ تصرف کے ساتھ کتاب ’’شروط الدعا وموانع الإجابۃ‘‘ اورشیخ سعید قحطانی کی کتاب ’’ الدعاء من الکتاب و السنۃ ‘‘ سے استفادہ کرتے ہوئے لکھی گئی ہے۔

 

ہفتہ، 13 فروری، 2021

اسلام اور ایمان میں فرق

 اسلام اور ایمان میں کیا فرق ہے؟ اس بارے میں علمائے کرام نے عقائد کی کتب میں بہت تفصیلات ذکر کی ہیں، ان تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب یہ لفظ الگ الگ ذکر ہوں تو پھر ہر ایک کا مطلب پورا دین اسلام  ہوتا ہے، تو اس وقت لفظ اسلام ہو یا ایمان ان میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔

اور اگر یہ دونوں الفاظ ایک ہی سیاق  اور جملے میں مذکور ہوں تو پھر ایمان سے  باطنی یا روحانی اعمال مراد لیے جاتے ہیں، جیسے کہ قلبی عبادات، مثلاً: اللہ تعالی پر ایمان، اللہ تعالی سے محبت، خوف، امید، اور اللہ تعالی کے لیے اخلاص وغیرہ۔

اور اسلام سے مراد ظاہری اعمال ہوتے ہیں   کہ  بسا اوقات جن کے ساتھ قلبی ایمان کبھی ہوتا ہے، اور کبھی نہیں ہوتا،تو  دوسری صورت میں  ان ظاہری اعمال کو کرنے والا یا تو منافق ہوتا ہے یا پھر منافق تو نہیں ہوتا لیکن اس کا ایمان کمزور  ہوتا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"لفظ "ایمان" کو بسا اوقات اسلام یا عمل صالح کے ساتھ ملا کر ذکر نہیں کیا جاتا  بلکہ وہ بالکل الگ تھلگ ہوتا ہے، اور بسا اوقات لفظ "ایمان" کو اسلام کے ساتھ ملا کر ذکر کیا جاتا ہے جیسے کہ حدیث جبریل علیہ السلام میں ہے کہ: (اسلام کیا ہے؟۔۔۔ اور ایمان کیا ہے؟۔۔۔) اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ)
ترجمہ: بیشک مسلمان مرد   اور مسلمان خواتین، اور مومن مرد اور مومن خواتین [الأحزاب:35]

اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا:
(قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ)
ترجمہ: خانہ بدوشوں نے کہا: ہم ایمان لے آئے، آپ کہہ دیں کہ: تم ایمان نہیں لائے، تاہم تم کہو: ہم اسلام  لے آئے ہیں، ابھی تو ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔ [الحجرات:14]

نیز فرمایا:
(فَأَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ . فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ)
ترجمہ: تو ہم نے ان میں سے جو بھی مومن تھے انہیں وہاں سے نکال دیا، تو ہمیں اس میں مسلمانوں کے ایک گھرانے کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ [الذاريات:36]

تو ان آیات میں جب ایمان کو اسلام کے ساتھ ذکر فرمایا  تو :

اسلام سے مراد ظاہری اعمال لیے، مثلاً: شہادتین کا اقرار، نماز، زکاۃ، روزہ، حج وغیرہ

اور ایمان سے مراد قلبی امور لیے ، مثلاً: اللہ تعالی پر ایمان، فرشتوں، کتابوں، رسولوں اور آخرت کے دن پر ایمان۔

تاہم جب ایمان کا لفظ اکیلا ذکر کیا جائے تو اس میں اسلام اور اعمال صالحہ سب شامل ہوتے ہیں، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ایمان کے درجات بیان کرنے والی حدیث میں فرمان ہے: (ایمان کے ستر سے زائد درجات ہیں، ان میں سب سے اعلی درجہ لا الہ الا اللہ کہنا، اور سب سے چھوٹا درجہ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ہے)

تو یہی طریقہ کار دیگر تمام احادیث کے ساتھ اپنایا جائے گا جن میں نیکی کے کاموں کو ایمان کا حصہ بتلایا گیا ہے" اختصار کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا
"مجموع الفتاوى" (7/13-15)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جب [لفظ ایمان اور اسلام] دونوں اکٹھے  ذکر ہوں تو پھر اسلام سے مراد  ظاہری اعمال مراد لیے جاتے ہیں جس میں زبان سے ادا ہونے والے کلمات، اور اعضا سے ہونے والے اعمال شامل ہیں اور یہ کلمات اور اعمال کامل ایمان والا مومن یا کمزور ایمان والا مومن  بھی کر سکتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
(قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ)
ترجمہ: خانہ بدوشوں نے کہا: ہم ایمان لے آئے، آپ کہہ دیں کہ: تم ایمان نہیں لائے، تاہم تم کہو: ہم اسلام  لے آئے ہیں، ابھی تو ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔ [الحجرات:14]

اور اسی طرح منافق  شخص ہے کہ اسے ظاہری طور پر تو مسلمان کہا جاتا ہے لیکن وہ باطنی طور پر کافر ہے۔

اور ایمان سے مراد باطنی  یا قلبی امور لیے جاتے ہیں اور یہ کام صرف وہی شخص کرتا ہے جو حقیقی مومن ہو، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (2) الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (3) أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ
ترجمہ: حقیقی مومن تو وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات پڑھی جائیں تو انہیں ایمان میں بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب ہی پر بھروسا رکھتے ہیں۔ [2] وہ لوگ جو نماز قائم کرتے ہیں اور اس میں سے جو ہم نے انہیں دیا، خرچ کرتے ہیں  [3] یہی لوگ سچے مومن ہیں، انہی کے لیے ان کے رب کے پاس بہت سے درجے اور بڑی بخشش اور با عزت رزق ہے۔ [الأنفال: 2 - 4]
تو اس اعتبار سے ایمان کا درجہ اعلی ہو گا، لہذا ہر مومن مسلمان ہے لیکن ہر مسلمان مومن نہیں ہے" ختم شد
"مجموع فتاوى ورسائل ابن عثیمین" (4/92)

اب سوال میں مذکور آیت کا مفہوم اس توجیہ کے موافق ہے کہ لوط علیہ السلام کے گھر والوں کو ایک بار ایمان سے موصوف کیا گیا تو دوسری بار اسلام سے ۔

تو یہاں پر اسلام سے مراد ظاہری امور مراد ہیں اور ایمان سے مراد قلبی اور حقیقی ایمان مراد ہے، لہذا جب اللہ تعالی نے لوط علیہ السلام کے تمام گھرانے والوں کا ذکر کیا تو انہیں ظاہری اعتبار سے اسلام کے ساتھ موصوف فرمایا ؛ کیونکہ لوط علیہ السلام کی بیوی بھی آپ کے گھرانے میں شامل تھی اور وہ ظاہری طور پر مسلمان تھی، لیکن حقیقت میں کافر تھی، اسی وجہ سے جب اللہ تعالی نے عذاب سے بچنے والے اور نجات پا جانے والے لوگوں کا ذکر فرمایا تو انہیں ایمان سے موصوف فرمایا اور کہا:
(فَأَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ . فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ)
ترجمہ: تو ہم نے ان میں سے جو بھی مومن تھے انہیں وہاں سے نکال دیا، تو ہمیں اس میں مسلمانوں کے ایک گھرانے کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ [الذاريات:36]

اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"لوط علیہ السلام کی بیوی باطنی طور پر منافق اور کافر تھی، تاہم اپنے خاوند کے ساتھ ظاہری طور پر مسلمان تھی، یہی وجہ ہے کہ اسے بھی قوم لوط کے ساتھ عذاب سے دوچار کیا گیا، تو یہی حال  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ موجود منافقین کا ہے کہ وہ ظاہری طور پر آپ تو صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مسلمان تھے  لیکن باطن میں مومن نہیں تھے" ختم شد
"جامع المسائل" (6/221)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ مزید کہتے ہیں کہ:
"کچھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ ایمان اور اسلام دونوں ایک ہی چیزیں ہیں، اور ان آیتوں کو باہمی طور پر متعارض قرار دیا۔

حالانکہ معاملہ ایسے نہیں ہے، بلکہ یہ آیت پہلی آیت کے ساتھ موافقت رکھتی ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے یہ بتلایا کہ اللہ تعالی نے وہاں پر جو بھی مومن تھا اسے نکال لیا اور مسلمانوں کا وہاں ایک ہی گھر پایا؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوط علیہ السلام کی بیوی لوط علیہ السلام کے گھرانے میں موجود تھی لیکن وہ ان لوگوں میں شامل نہیں جنہیں نکال لیا گیا اور نجات پا گئے تھے، بلکہ وہ عذاب میں مبتلا ہونے والے اور پیچھے رہ جانے والوں میں شامل تھی۔ لوط علیہ السلام کی بیوی ظاہری طور پر تو اپنے خاوند کے ساتھ تھی لیکن باطنی طور پر وہ اپنی قوم کے دین پر تھی، اور اپنے خاوند کو دھوکا دے رہی  تھی کہ اس نے اپنی قوم کو آنیوالے مہمانوں کے بارے میں مطلع کر دیا، جیسے کہ اس چیز کا ذکر اللہ تعالی نے یوں فرمایا کہ:
( ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا )
ترجمہ:  [ التحريم:10]

اور جس خیانت کا ذکر اللہ تعالی نے فرمایا ہے یہ ان دونوں عورتوں کی جانب سے دینی خیانت تھی پاکدامنی سے متعلق نہیں تھی۔ بہ ہر حال مقصود یہ ہے کہ لوط علیہ السلام کی بیوی مومن نہیں تھی، نہ ہی وہ ان لوگوں میں شامل تھی جنہیں عذاب سے نکال کر نجات دے دی گئی، لہذا وہ اللہ تعالی کے اس فرمان : (فَأَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ)  تو ہم نے ان میں سے جو بھی مومن تھے انہیں وہاں سے نکال دیا [الذاريات:36]میں شامل نہیں ہے، اور چونکہ وہ ظاہری طور پر مسلمان تھی اس لیے وہ  اللہ تعالی کے فرمان : (فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ) تو ہمیں اس میں مسلمانوں کے ایک گھرانے کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ [الذاريات:36]  میں شامل ہے۔

یہاں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ  قرآن کریم کسی بھی چیز کو بیان کرنے میں انتہائی باریکی اختیار کرتا ہے کہ جب لوگوں کو عذاب سے بچانے کا ذکر  کیا تو وہاں پر مومنین کا لفظ بولا،  لیکن جب وجود اور عدم وجود کی بات آئی تو وہاں مسلمین کا لفظ بولا" ختم شد
"مجموع الفتاوى " (7/472-474)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے لوط علیہ السلام کے واقعے میں فرمایا:
(فَأَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ . فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ)
ترجمہ: تو ہم نے ان میں سے جو بھی مومن تھے انہیں وہاں سے نکال دیا، تو ہمیں اس میں کوئی ایک گھر کے سوا  مسلمانوں کا کوئی گھر نہ ملا۔ [الذاريات:36]
اللہ تعالی نے یہاں پر مومنین اور مسلمین میں فرق کیا ہے؛ کیونکہ اس بستی میں ظاہری طور پر یہی ایک گھرانہ تھا جو اسلامی تھا[مکمل ایمانی نہیں تھا]؛ کیونکہ اس گھرانے میں لوط علیہ السلام کی بیوی بھی تھی جس نے لوط علیہ السلام کو ظاہری اسلام دکھا کر دھوکا دیا ہوا تھا، حالانکہ وہ اندر سے کافر تھی، چنانچہ جن لوگوں کو نکالا گیا اور نجات دی گئی تو وہ لوگ ہی حقیقی مومن تھے کہ جن کے دلوں میں حقیقی طور پر ایمان داخل ہو چکا تھا۔" ختم شد
"مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین" (1/47-49)
واللہ اعلم.