اپنی زبان منتخب کریں

جمعرات، 24 اپریل، 2025

دہشت گردی کی مذمت اوراسلام کی دعوت

 إنَّ الحَمْدَ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا، مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلاَ هَادِيَ لَهُ. وَأَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلٰهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، أَرْسَلَهُ بِالحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ. مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا:

* يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ، وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ.* 

يَا أَيُّهَا النَّاسُ، اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ، وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا، وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ، إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا.

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا، اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا، يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا.

*اما بعد:

فَإِنَّ أَصْدَقَ الحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ، وَخَيْرَ الهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَشَرَّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ، وَكُلَّ ضَلاَلَةٍ فِي النَّارِ.

 اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰی اِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ

اَللّٰهُمّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰی اِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ [q

اے اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو، کیونکہ تقویٰ ہی وہ نور ہے جو دلوں کو منور کرتا ہے۔ آج ہم ایک ایسے موضوع پر بات کریں گے جو ہمارے دین، ہماری انسانیت، اور ہمارے معاشرے کے امن سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ جموں و کشمیر کے پاہلگام میں 22 اپریل 2025 کو ایک دل دہلا دینے والا دہشت گردانہ حملہ ہوا، جس میں 26 بے گناہ سیاح شہید ہوئے۔ یہ سیاح، جو کشمیر کی خوبصورتی دیکھنے آئے تھے، ظلم کا شکار ہوئے۔ یہ واقعہ نہ صرف انسانیت کے خلاف ہے، بلکہ اسلام کے امن و رحمت کے پیغام کی صریح خلاف ورزی ہے۔ آج ہم قرآن مجید، صحیح احادیث، اور سلف صالحین کے اقوال کی روشنی میں اس کی مذمت کریں گے اور امن کی دعوت دیں گے، تاکہ ہمارا پیغام واضح، سادہ، اور دل کو چھونے والا ہو۔ 

*اللہ اکبر!* اللہ کی عظمت ہمارے دلوں کو ہر ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت دیتی ہے۔ 

### 1. دہشت گردی اور بے گناہوں کا قتل: اسلامی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی 

اسلام امن، رحمت، اور انسانیت کا دین ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بے گناہوں کے قتل کو حرام قرار دیا اور اسے عظیم گناہوں میں شمار کیا۔ قرآن مجید میں متعدد آیات اس کی واضح مذمت کرتی ہیں: 

*قرآن:* 

*وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا* 

(سورہ الإسراء، 17:33) 

*ترجمہ:* "اور اس جان کو قتل نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا، سوائے حق کے۔ اور جو کوئی ظلماً قتل کیا جائے، ہم نے اس کے ولی کے لیے اختیار دیا۔" 

*قرآن:* 

*مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا* 

(سورہ المائدہ، 5:32) 

*ترجمہ:* "اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس نے کسی جان کو بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کے بغیر قتل کیا، گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا۔" 

یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ ایک بے گناہ کی جان لینا پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ پاہلگام میں سیاحوں پر حملہ، جو نہ کسی جنگ میں شریک تھے اور نہ ہی فساد پھیلانے والے تھے، اس آیت کی روشنی میں ناقابل معافی جرم ہے۔ 

*حدیث:* 

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

*"مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا تُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا"* 

(صحیح بخاری، حدیث: 3166) 

*ترجمہ:* "جس نے کسی معاہد (امن کے معاہدے والے) کو قتل کیا، وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھے گا، حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے پائی جاتی ہے۔" 

سیاح، جو کشمیر میں سیاحت کے لیے آئے، ایک طرح سے معاہد کی حیثیت رکھتے تھے، کیونکہ وہ امن سے رہ رہے تھے۔ ان کا قتل جنت سے دوری کا باعث ہے۔ 

*حدیث:* 

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

*"لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: النَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالْمُفَارِقُ لِدِينِهِ التَّارِكُ لِلْجَمَاعَةِ"* 

(صحیح بخاری، حدیث: 6878) 

*ترجمہ:* "کسی مسلمان کا خون حلال نہیں جو یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، سوائے تین صورتوں کے: جان کے بدلے جان، شادی شدہ زانی، اور وہ جو اپنا دین چھوڑ کر جماعت سے الگ ہو جائے۔" 

یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ کسی کی جان لینے کے لیے شرعی جواز درکار ہے، اور بے گناہ سیاحوں کا قتل اس کے بالکل برعکس ہے۔ 

*اقوال سلف:* 

حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 

*"مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ حَقٍّ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ، وَاسْتَحَقَّ غَضَبَ اللَّهِ"* 

*ترجمہ:* "جس نے بغیر حق کے کسی جان کو قتل کیا، اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی اور اللہ کے غضب کا مستحق ہوا۔" 

*اللہ اکبر!* اللہ کی عظمت ہمیں ظلم کے خلاف کھڑا ہونے کی ہمت دیتی ہے۔ 

### 2. دہشت گردی: انسانیت اور امن کے خلاف جرم 

دہشت گردی خوف، انتشار، اور نفرت پھیلاتی ہے، جو اسلام کے رحمت و امن کے پیغام کے منافی ہے۔ قرآن مجید ہمیں خیر اور رحمت کی دعوت دیتا ہے: 

*قرآن:* 

*وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ* 

(سورہ البقرہ، 2:207) 

*ترجمہ:* "اور بعض لوگ اپنی جان کو اللہ کی رضا کے حصول کے لیے بیچ دیتے ہیں، اور اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے۔" 

یہ آیت بتاتی ہے کہ اللہ کی رضا ظلم یا قتل سے نہیں، بلکہ خیر و فلاح کے کاموں سے ملتی ہے۔ پاہلگام حملے نے نہ صرف انسانی جانوں کو نقصان پہنچایا، بلکہ کشمیر کی سیاحت اور معیشت کو بھی تباہ کیا، جو کہ زمین میں فساد پھیلانے کے مترادف ہے۔ 

*قرآن:* 

*وَإِذَا تَوَلَّىٰ سَعَىٰ فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ* 

(سورہ البقرہ، 2:205) 

*ترجمہ:* "اور جب وہ پلٹتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے اور کھیتی اور نسل کو تباہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔" 

یہ آیت دہشت گردی جیسے اعمال کی مذمت کرتی ہے، جو معاشرے میں تباہی پھیلاتے ہیں۔ 

*حدیث:* 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

*"الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ"* 

(صحیح بخاری، حدیث: 10) 

*ترجمہ:* "مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، اور مہاجر وہ ہے جو اس سے دور رہے جس سے اللہ نے منع کیا۔" 

یہ حدیث ہمیں سکھاتی ہے کہ ایک مسلمان کا کردار امن اور تحفظ کا ضامن ہونا چاہیے۔ پاہلگام حملہ اس اصول کے بالکل برعکس ہے۔ 

*حدیث:* 

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

*"مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى دِمَائِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ فَهُوَ مُسْلِمٌ"* 

(مسند احمد، حدیث: 6699، صحیح) 

*ترجمہ:* "جس سے لوگ اپنی جانوں اور مالوں کے بارے میں محفوظ ہوں، وہی مسلمان ہے۔" 

*اقوال سلف:* 

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: 

*"إِنَّ الْإِسْلَامَ دِينُ السَّلَامِ، فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يَنْشُرَ الْفَوْضَى فَقَدْ خَرَجَ عَنِ الْإِسْلَامِ"* 

*ترجمہ:* "اسلام امن کا دین ہے، جو کوئی انتشار پھیلانا چاہے وہ اسلام سے خارج ہو گیا۔" 

*اللہ اکبر!* اللہ ہمیں امن کے پیغامبر بننے کی توفیق دے۔ 

### 3. دہشت گردی کی مذمت: ہر مسلمان کا دینی فریضہ 

اسلام ہمیں ظلم کے خلاف آواز اٹھانے اور عدل و انصاف کی دعوت دیتا ہے۔ پاہلگام حملے کی مذمت ہر مسلمان کا فریضہ ہے۔ 

*قرآن:* 

*وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ ۚ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ* 

(سورہ إبراهيم، 14:42) 

*ترجمہ:* "اور ہرگز یہ نہ سمجھو کہ اللہ ظالموں کے اعمال سے غافل ہے۔ وہ انہیں اس دن تک مہلت دیتا ہے جب آنکھیں پھٹی کی پٹی رہ جائیں گی۔" 

*قرآن:* 

*وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا* 

(سورہ النساء، 4:29) 

*ترجمہ:* "اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بے شک اللہ تم پر رحم کرنے والا ہے۔" 

یہ آیات ظالموں کے انجام اور بے گناہوں کی جان کی حفاظت کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں۔ 

*حدیث:* 

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

*"مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ"* 

(صحیح مسلم، حدیث: 49) 

*ترجمہ:* "تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے، اسے اپنے ہاتھ سے روکے۔ اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے اسے برا جانے، اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔" 

یہ حدیث ہمیں دہشت گردی جیسے منکر کی مذمت کرنے کی تلقین کرتی ہے۔ 

*حدیث:* 

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

*"مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى"* 

(صحیح مسلم، حدیث: 2586) 

*ترجمہ:* "مومنوں کی مثال ان کے باہمی پیار، رحم، اور ہمدردی میں ایک جسم کی طرح ہے۔ جب جسم کا کوئی حصہ تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔" 

 

یہ حدیث ہمیں شہیدوں کے خاندانوں سے ہمدردی اور ان کے لیے دعا کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ 

*اقوال سلف:* 

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 

*"الظُّلْمُ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَالْمُؤْمِنُ يَدْعُو إِلَى الْعَدْلِ وَالسَّلَامِ"* 

*ترجمہ:* "ظلم قیامت کے دن اندھیرا ہے، اور مومن عدل و امن کی دعوت دیتا ہے۔" 

*اللہ اکبر!* اللہ ہمیں ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی توفیق دے۔ 

### 4. مہمان نوازی اور سیاحوں کی حفاظت: اسلامی اصول 

اسلام مہمان نوازی کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ سیاح، جو کسی خطے میں امن سے گھومنے آتے ہیں، مہمانوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی حفاظت ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ 

*قرآن:* 

*وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا* 

(سورہ البقرہ، 2:83) 

*ترجمہ:* "اور لوگوں سے اچھا بولو۔" 

*قرآن:* 

*وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ* 

(سورہ البقرہ، 2:195) 

*ترجمہ:* "اور احسان کرو، بے شک اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔" 

یہ آیات ہمیں ہر انسان کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کی تعلیم دیتی ہیں، خواہ وہ ہمارے مہمان ہوں یا اجنبی۔ 

*حدیث:* 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

*"مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ"* 

(صحیح بخاری، حدیث: 6018) 

*ترجمہ:* "جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔" 

*حدیث:* 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

*"إِنَّ اللَّهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ، وَيُعْطِي عَلَى الرِّفْقِ مَا لَا يُعْطِي عَلَى الْعُنْفِ"* 

(صحیح مسلم، حدیث: 2593) 

*ترجمہ:* "بے شک اللہ نرمی کرنے والا ہے، وہ نرمی کو پسند کرتا ہے اور نرمی پر وہ عطا کرتا ہے جو سختی پر نہیں دیتا۔" 

پاہلگام حملے نے سیاحوں کو، جو مہمان تھے، نشانہ بنایا، جو اسلامی مہمان نوازی کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ 

*اقوال سلف:* 

حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 

*"إِكْرَامُ الضَّيْفِ مِنْ أَخْلَاقِ الْأَنْبِيَاءِ، وَمَنْ آذَى ضَيْفًا فَقَدْ آذَى اللَّهَ"* 

*ترجمہ:* "مہمان کی عزت کرنا انبیاء کے اخلاق میں سے ہے، اور جو مہمان کو ایذاء دے اس نے اللہ کو ایذاء دی۔" 

*اللہ اکبر!* اللہ ہمیں مہمان نوازی کے اسلامی اصول پر عمل کی توفیق دے۔ 

### 5. امن کی دعوت اور امت کی ذمہ داری 

ہماری امت کو امن کی دعوت دینی چاہیے اور ظلم کے خلاف متحد ہونا چاہیے۔ قرآن مجید ہمیں خیر کی دعوت اور منکر سے روکنے کا حکم دیتا ہے: 

*قرآن:* 

*كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ* 

(سورہ آل عمران، 3:110) 

*ترجمہ:* "تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے نکالی گئی، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔" 

*قرآن:* 

*وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ* 

(سورہ المائدہ، 5:2) 

*ترجمہ:* "اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرو، اور گناہ اور ظلم میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔" 

یہ آیات ہمیں امن، عدل، اور خیر کی دعوت دینے کی ترغیب دیتی ہیں۔ پاہلگام حملے کی مذمت اور شہیدوں کے لیے دعا ہمارا دینی فریضہ ہے۔ 

*حدیث:* 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

*"دِينُ النَّصِيحَةِ"* 

(صحیح مسلم، حدیث: 55) 

*ترجمہ:* "دین خیرخواہی ہے۔" 

یہ حدیث ہمیں خیرخواہی اور امن کی دعوت دینے کی تلقین کرتی ہے۔ 

*حدیث:* 

حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

*"مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ"* 

(صحیح مسلم، حدیث: 1017) 

*ترجمہ:* "جس نے اسلام میں کوئی اچھی سنت جاری کی، اسے اس کا اجر ملے گا اور اس کے بعد اس پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی ملے گا، بغیر اس کے کہ ان کے اجروں میں کوئی کمی ہو۔" 

یہ حدیث ہمیں امن اور خیر کی دعوت دینے کی ترغیب دیتی ہے۔ 

*اقوال سلف:* 

امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 

*"السَّلَامُ هُوَ أَسَاسُ الدِّينِ، وَمَنْ دَعَا إِلَى الْفِتْنَةِ فَقَدْ هَدَمَ أَرْكَانَ الْإِسْلَامِ"* 

*ترجمہ:* "امن دین کی بنیاد ہے، اور جو فتنہ کی دعوت دے اس نے اسلام کے ستونوں کو مسمار کر دیا۔" 

*اللہ اکبر!* اللہ ہمیں امن کی دعوت دینے والوں میں شامل کرے۔ 

نتیجہ اور دعا 

اے اللہ کے بندو! پاہلگام حملہ ایک سنگین جرم ہے، جو اسلام کے رحمت و امن کے پیغام، انسانیت، اور مہمان نوازی کے اصولوں کے خلاف ہے۔ ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں اور شہیدوں کے لیے مغفرت، ان کے خاندانوں کے لیے صبر، اور زخمیوں کے لیے شفا کی دعا مانگتے ہیں۔ آئیے، ہم اپنے کردار سے دنیا کو دکھائیں کہ اسلام امن، رحمت، اور انسانیت کا دین ہے۔ 

*دعا:* 

*اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ الْأَمْنَ وَالْأَمَانَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَاغْفِرْ لِلْمَظْلُومِينَ الَّذِينَ قُتِلُوا بِغَيْرِ حَقٍّ، وَارْزُقْ أَهْلَهُمْ الصَّبْرَ وَالسَّلَامَ، وَاجْعَلْنَا مِنَ الدَّاعِينَ إِلَى الْخَيْرِ وَالسَّلَامِ* 

*ترجمہ:* "اے اللہ! ہم تیری بارگاہ میں دنیا اور آخرت میں امن و امان مانگتے ہیں۔ ان مظلوموں کو بخش دے جو بغیر حق کے قتل ہوئے، ان کے اہل خانہ کو صبر اور سلامتی عطا فرما، اور ہمیں خیر و امن کی دعوت دینے والوں میں شامل کر۔" 

*آخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔* 

حوالہ جات 

- *قرآن مجید:* سورہ الإسراء (17:33)، المائدہ (5:2, 5:32)، البقرہ (2:83, 2:195, 2:205, 2:207)، إبراهيم (14:42)، النساء (4:29)، آل عمران (3:110) 

- *صحیح بخاری:* حدیث نمبر 10, 3166, 6018, 6878 

- *صحیح مسلم:* حدیث نمبر 49, 55, 1017, 2586, 2593 

- *مسند احمد:* حدیث نمبر 6699 

- *پاہلگام حملے کی تفصیلات:* [Al Jazeera](https://www.aljazeera.com/news/2025/4/22/gunmen-open-fire-on-tourists-in-indian-administered-kashmir), [The Guardian](https://www.theguardian.com/world/2025/apr/22/tourists-killed-by-suspected-militants-in-kashmir-attack), [Hindustan Times](https://www.hindustantimes.com/india-news/antiterror-message-at-5-5-lakh-mosques-muslim-bodies-condemn-pahalgam-terror-attack-101745413851055.html)


اتوار، 20 اپریل، 2025

تفسیر از امام قرطبی سورۃ الفاتحہ

 

📖 سورۃ الفاتحہ کی تفسیر از امام قرطبی

(الجامع لأحکام القرآن، جلد 1، سورۃ الفاتحہ)

🔹 حصہ 1: مقدمہ اور سورۃ الفاتحہ کا تعارف

عربی متن سے اردو خلاصہ:

اس ٹیکسٹ میں مختصراً یہ بیان کیا گیا ہے کہ:

امام قرطبی رحمہ اللہ نے سورۃ الفاتحہ کی تفسیر سے قبل قرآن مجید کی فضیلت، تفسیر کی اہمیت، اور علمِ تفسیر کے قواعد و ضوابط پر گفتگو کی ہے۔ قرآن کو اللہ کا معجزہ، ہدایت کا سرچشمہ، اور عربی زبان کا اعلیٰ ترین کلام قرار دیا۔ انہوں نے علمائے سلف کی آراء نقل کی ہیں کہ تفسیر کرنے والے کے لیے تقویٰ، لغتِ عرب، علمِ نحو، فقہ، اصول فقہ، اور حدیث سے واقف ہونا لازم ہے۔


🔹 حصہ 2: سورۃ الفاتحہ کے نام اور فضائل

اس ٹیکسٹ میں مختصراً یہ بیان کیا گیا ہے کہ:

سورۃ الفاتحہ کو کئی ناموں سے یاد کیا گیا ہے، جیسے:

  • الفاتحة

  • أمّ الكتاب

  • السبع المثاني

  • القرآن العظيم

  • الشفاء

  • الرقية

یہ سورہ مکی ہے، اور اس میں اللہ تعالیٰ کی حمد، ربوبیت، رحمت، یومِ جزا، عبادت اور دعا کی تعلیم دی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس جیسی سورۃ نہ تو تورات میں ہے، نہ انجیل میں، نہ زبور میں۔


🔹 حصہ 3: ﴿بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ﴾ کی تفسیر

اس ٹیکسٹ میں مختصراً یہ بیان کیا گیا ہے کہ:

"بسم اللہ" کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کے تین عظیم اوصاف شامل ہیں:

  • اسم اللہ: جو تمام صفات کا جامع ہے

  • الرحمٰن: خاص مہربانی

  • الرحیم: مسلسل اور دائمی رحمت

علمائے کرام نے بحث کی ہے کہ "بسم اللہ" قرآن کی آیت ہے یا نہیں۔ جمہور کے نزدیک یہ سورۃ الفاتحہ کی ایک مستقل آیت ہے۔


🔹 حصہ 4: ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ کی تفسیر

اس ٹیکسٹ میں مختصراً یہ بیان کیا گیا ہے کہ:

"الحمد" کا مطلب ہے تمام عمدہ صفات اور تعریفیں صرف اللہ کے لیے ہیں۔
"رب" کے معنی: پیدا کرنے والا، پالنے والا، تربیت دینے والا۔
"العالمین" سے مراد تمام مخلوقات ہیں، انسان، جن، فرشتے وغیرہ۔

امام قرطبی نے لغوی اور نحوی تفصیل کے ساتھ ساتھ اقوالِ سلف کو بھی بیان کیا۔


🔹 حصہ 5: ﴿الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ﴾ دوبارہ ذکر

اس ٹیکسٹ میں مختصراً یہ بیان کیا گیا ہے کہ:

یہ دو صفات دوبارہ ذکر کی گئی ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت پر زور دیا جائے۔ "رحمٰن" عمومی رحمت کا اظہار ہے، جب کہ "رحیم" مومنوں پر خاص رحمت کا۔ امام قرطبی نے یہ فرق احادیث اور لغت کی روشنی میں واضح کیا ہے۔


🔹 حصہ 6: ﴿مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ﴾ کی تفسیر

اس ٹیکسٹ میں مختصراً یہ بیان کیا گیا ہے کہ:

"مالک" کے معنی ہیں اختیار رکھنے والا، اور "یوم الدین" سے مراد قیامت کا دن ہے۔ یہ آیت اللہ تعالیٰ کی عدالت اور جزا و سزا پر ایمان کی تلقین کرتی ہے۔ امام قرطبی نے "مالک" اور "ملک" دونوں قراءتوں کو بیان کیا ہے اور ان کے معانی میں باریک فرق واضح کیا۔


🔹 حصہ 7: ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ کی تفسیر

اس ٹیکسٹ میں مختصراً یہ بیان کیا گیا ہے کہ:

یہ آیت بندے اور رب کے درمیان ایک عہد ہے۔ صرف اللہ کی عبادت اور اسی سے مدد مانگنے کا اقرار کیا گیا ہے۔ "نعبد" میں اخلاص، خشوع، اور اطاعت شامل ہیں، جب کہ "نستعین" میں عاجزی، دعا اور اللہ پر اعتماد مراد ہے۔


🔹 حصہ 8: ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ﴾ تا آخر السورۃ

اس ٹیکسٹ میں مختصراً یہ بیان کیا گیا ہے کہ:

یہ دعا قرآن کی سب سے اہم دعاؤں میں سے ہے۔ "صراط المستقیم" سے مراد دینِ اسلام، توحید، سنت، اور وہ راستہ ہے جو نبیوں، صدیقین اور صالحین کا ہے۔ "غیر المغضوب علیهم" سے مراد یہود، اور "ولا الضالین" سے مراد نصاریٰ ہیں۔

جمعرات، 17 اپریل، 2025

نماز سے غفلت اور دین سے دوری – تباہی کی اصل جڑ

 

خطبہ جمعہ: موضوع: نماز سے غفلت اور دین سے دوری – تباہی کی اصل جڑ

إنَّ الحَمْدَ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا، مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلاَ هَادِيَ لَهُ. وَأَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلٰهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، أَرْسَلَهُ بِالحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ. مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا:

*يَا أَيُّهَا النَّاسُ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ، وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ.* 

يَا أَيُّهَا النَّاسُ، اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ، وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا، وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ، إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا.

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا، اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا، يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا.

*اما بعد:

فَإِنَّ أَصْدَقَ الحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ، وَخَيْرَ الهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَشَرَّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ، وَكُلَّ ضَلاَلَةٍ فِي النَّارِ.

 اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰی اِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ

اَللّٰهُمّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰی اِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ [q

1. رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي، رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاء

2. رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ، وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ، وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي، إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ

3. اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا، وَفِي لِسَانِي نُورًا، وَفِي سَمْعِي نُورًا، وَفِي بَصَرِي نُورًا

4. اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ، وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ

5. رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا، وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً، إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ

6. اللَّهُمَّ اجْعَلْ صَلَاتِي نُورًا لِي فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ

7. اللَّهُمَّ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ

8. اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْفِتَنِ، مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ

9. اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْإِيمَانَ وَزَيِّنْهُ فِي قُلُوبِنَا، وَكَرِّهْ إِلَيْنَا الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ

10. اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْهُدَى، وَالتُّقَى، وَالْعَفَافَ، وَالْغِنَى
۔ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ وَالْهَرَمِ وَالْقَسْوَةِ وَالْغَفْلَةِ وَالْعَيْلَةِ وَالذِّلَّةِ وَالْمَسْكَنَةِ،
وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْفَقْرِ وَالْكُفْرِ وَالشِّرْكِ وَالْفُسُوقِ وَالشِّقَاقِ وَالنِّفَاقِ وَالسُّمْعَةِ وَالرِّيَاءِ.
وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الصَّمَمِ وَالْبَكَمِ وَالْجُنُونِ وَالْجُذَامِ وَالْبَرَصِ وَسَيِّئِ الْأَسْقَامِ.
وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ غَلَبَةِ الدَّيْنِ وَقَهْرِ الرِّجَالِ
، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ وَتَحَوُّلِ عَافِيَتِكَ وَفُجَاءَةِ نِقْمَتِكَ وَجَمِيعِ سَخَطِكَ.
وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ جَحْدِ الْبَلَاءِ وَدَرَكِ الشَّقَاءِ وَسُوءِ الْقَضَاءِ وَشَمَاتَةِ الْأَعْدَاءِ.
وَصَلَّى اللَّهُ وَسَلَّمَ وَبَارَكَ عَلَى نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ

نکتہ نمبر 1: نماز سے غفلت تباہی کا سبب ہے

فَخَلَفَ مِنۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَٱتَّبَعُوا۟ ٱلشَّهَوَٰتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا۔

(سورہ مریم: 59)

ترجمہ: پھر ان کے بعد ایسے ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشات کی پیروی کی، سو عنقریب وہ گمراہی میں جا پڑیں گے۔

یہ آیت ان قوموں کے بارے میں ہے جنہوں نے دین کے ظاہری احکام چھوڑ دیے، خصوصاً نماز کو ضائع کیا، جس کا نتیجہ تباہی اور ضلالت کی شکل میں آیا۔

قَالَ رَسُولُ ٱللَّهِ ﷺ:

الْعَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلَاةُ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ۔

(سنن الترمذی، حدیث: 2621، صحیح)

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہمارے اور ان (کافروں) کے درمیان عہد نماز ہے، جس نے اسے ترک کیا اُس نے کفر کیا۔

یہ حدیث نماز کو ایمان و اسلام کی علامت قرار دیتی ہے، اور اس کی ترک کو کفر کے مترادف بتاتی ہے۔

أَوَّلُ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عَمَلِهِ: الصَّلَاةُ، فَإِنْ صَلَحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ، وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ۔

(سنن الترمذی، حدیث: 413، صحیح)

ترجمہ: بندے سے قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے بارے میں پوچھا جائے گا، اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب و فلاح یافتہ ہوگا، اور اگر خراب ہوئی تو ناکام و خسارہ پائے گا۔

قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ:     مَن ضَيَّعَ الصَّلاةَ فَهُوَ لِغَيْرِهَا أَضْيَعُ۔   (مصنف عبد الرزاق، رقم: 3920)

ترجمہ: جس نے نماز کو ضائع کیا، وہ دیگر احکامِ دین کو اس سے بھی زیادہ ضائع کرے گا۔

یہ قول بتاتا ہے کہ نماز دین کا ستون ہے، اس کے بغیر باقی اعمال کی حفاظت ممکن نہیں۔

نکتہ نمبر 2: نماز ترک کرنا ایمان کے زوال کی علامت ہے

قَالُوا۟ مَا سَلَكَكُمْ فِى سَقَرَ۝٤٢ قَالُوا۟ لَمْ نَكُ مِنَ ٱلْمُصَلِّينَ۝٤٣      (المدثر: 42-43)

ترجمہ: (دوزخیوں سے پوچھا جائے گا:) تمہیں جہنم میں کس چیز نے ڈالا؟ وہ کہیں گے: ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے۔

یہ آیت واضح طور پر بیان کرتی ہے کہ ترکِ نماز انسان کو جہنم تک پہنچا دیتا ہے، جو ایمان کے شدید زوال کی نشانی ہے۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ   بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ وَالشِّرْكِ تَرْكُ الصَّلَاةِ۔(صحیح مسلم، حدیث: 82)

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: انسان اور کفر و شرک کے درمیان فرق نماز ہے، جس نے نماز ترک کی وہ (کفر کے قریب) ہو گیا۔

یہ حدیث نماز کو ایمان و کفر کے درمیان حد فاصل بتاتی ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:       كَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ ﷺ لَا يَرَوْنَ شَيْئًا مِنَ الْأَعْمَالِ تَرْكُهُ كُفْرٌ غَيْرَ الصَّلَاةِ۔

(سنن الترمذی، حدیث: 2622، حسن صحیح)

ترجمہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کسی عمل کو ترک کرنے کو کفر نہیں سمجھتے تھے سوائے نماز کے۔

قَالَ إِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ رَحِمَهُ اللهُ:     مَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ فَقَدْ كَفَرَ، وَلَوْ تَرَكَ جَمِيعَ أَعْمَالِ الدِّينِ مَا خَلَا الصَّلَاةَ مَا كَفَرَ۔

(مصنف ابن أبی شیبہ، رقم: 6254)

ترجمہ: جس نے نماز ترک کی، اُس نے کفر کیا۔ اگر کوئی شخص تمام اعمالِ دین چھوڑ دے لیکن نماز قائم رکھے تو وہ کافر نہیں کہلائے گا۔

سلف کی نظر میں نماز ایمان کا ایسا معیار ہے کہ اس کے بغیر دیگر اعمال بھی ناقابلِ قبول ہو سکتے ہیں۔

نکتہ نمبر 3: نماز ترک کرنے سے بندہ اللہ کی رحمت سے دور ہو جاتا ہے

فَخَلَفَ مِنۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَٱتَّبَعُوا ٱلشَّهَوَٰتِۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا۔       (سورہ مریم: 59)

ترجمہ: پھر ان کے بعد ایسے نا خلف لوگ آئے جنہوں نے نماز کو ضائع کر دیا اور خواہشات کے پیچھے لگ گئے، تو وہ عنقریب گمراہی (اور عذاب) میں جا پڑیں گے۔

نماز کو ضائع کرنا اللہ کی رحمت سے محرومی اور گمراہی کا سبب بنتا ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:     قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:أَوَّلُ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عَمَلِهِ الصَّلَاةُ، فَإِنْ صَلَحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ، وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ۔       (سنن الترمذی، حدیث: 413، حسن صحیح)

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا، اگر نماز درست ہوئی تو بندہ کامیاب اور نجات یافتہ ہوگا، اور اگر نماز خراب ہوئی تو وہ ناکام اور خسارے میں ہوگا۔

عَنْ جُنْدُبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:    قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:   مَن صَلَّى الصُّبْحَ فَهُوَ فِي ذِمَّةِ اللَّهِ۔   (صحیح مسلم، حدیث: 657)

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص فجر کی نماز پڑھتا ہے، وہ اللہ کی حفاظت میں آ جاتا ہے۔

نماز اللہ کی حفاظت، رحمت اور قرب کا ذریعہ ہے، اور اس کا ترک اللہ کی ذمے داری سے نکلنے کے مترادف ہے۔

قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ رَحِمَهُ اللَّهُ:  إِذَا ضَيَّعَ الْعَبْدُ صَلَاتَهُ، فَقَدْ ضَيَّعَ دِينَهُ۔   (الزهد، لأحمد بن حنبل: 363)

ترجمہ: جب بندہ اپنی نماز کو ضائع کر دیتا ہے، تو وہ اپنے دین کو ضائع کر دیتا ہے۔

سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے نماز کے ترک کو دین کی تباہی قرار دیا، جو اللہ کی رحمت سے دوری کی علامت ہے۔

نکتہ نمبر 4: نماز ترک کرنا دل کی سختی اور گناہوں میں جری ہونے کی علامت ہے

كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ۔(سورۃ المطففین: 14)

ترجمہ: ہرگز نہیں! بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کماتے تھے۔

نماز ترک کرنا دل پر زنگ چڑھنے کا سبب ہے، جو سختی اور اللہ کی یاد سے غفلت کا نتیجہ ہے۔

عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: 

سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ:بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ۔    (صحیح مسلم، حدیث: 82)

ترجمہ: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: آدمی اور کفر و شرک کے درمیان فرق نماز کا ہے، جو اسے چھوڑ دے، وہ کفر کے قریب ہو گیا۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ:b إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَذْنَبَ ذَنْبًا، نُكِتَتْ فِي قَلْبِهِ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ۔

(سنن الترمذی، حدیث: 3334، حسن صحیح)

ترجمہ: بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ لگا دیا جاتا ہے۔

نماز ترک کرنا کبیرہ گناہ ہے، اور گناہ دل پر سیاہی اور سختی کا سبب بنتے ہیں۔

مَا ضَيَّعَ أَحَدٌ الصَّلَاةَ إِلَّا لِأَنَّهُ اسْتَخَفَّهُ اللَّهُ، وَلَوْ عَزَّهُ اللَّهُ مَا أَهَانَ دِينَهُ۔(الزهد، للإمام أحمد: 291)

ترجمہ: حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا: جس نے نماز کو ضائع کیا، وہ اس لیے کہ اللہ نے اسے ہلکا جانا، اگر اللہ نے اس کی قدر کی ہوتی تو وہ اپنے دین کو ذلیل نہ کرتا۔

نماز کی بے قدری دل کی سختی اور اللہ کے نزدیک ذلت کی علامت ہے۔

نکتہ نمبر 5: نماز ایمان، ہدایت، اور جنت کی کنجی ہے

قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ، الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ۔(سورۃ المؤمنون: 1-2)

خشوع والی نماز مومن کی علامت ہے، اور یہی فلاح و کامیابی کا ذریعہ ہے۔

قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:

أَوَّلُ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ يَوْمَ القِيَامَةِ الصَّلَاةُ، فَإِنْ صَلَحَتْ، صَلَحَ سَائِرُ عَمَلِهِ، وَإِنْ فَسَدَتْ، فَسَدَ سَائِرُ عَمَلِهِ۔

(سنن الترمذی، حدیث: 413، صحیح)

قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلا حساب نماز کا ہوگا، اگر نماز درست ہوئی تو باقی اعمال بھی درست ہوں گے، اور اگر نماز خراب ہوئی تو باقی اعمال بھی برباد ہوں گے۔

مَنْ صَلَّى الْبَرْدَيْنِ دَخَلَ الْجَنَّةَ۔(صحیح البخاری، حدیث: 574)

نماز صرف فرض کی ادائیگی نہیں، بلکہ جنت کا راستہ اور ایمان کی علامت بھی ہے۔

قَالَ ابن القيم رحمه الله: 

وَلَا يَزَالُ الشَّيْطَانُ بِالْعَبْدِ حَتَّى يُضَيِّعَ عَلَيْهِ صَلَاتَهُ، فَإِذَا فَعَلَ ذَلِكَ سَلَبَهُ الإِيمَانَ۔   (الوابل الصيب، لابن القيم: ص 17)

ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: شیطان بندے کے پیچھے لگا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اس سے نماز چھین لیتا ہے، اور جب نماز چھن گئی تو گویا ایمان بھی سلب کر لیا گیا۔

خلاصہ:

نماز ایمان کی بنیاد ہے، جس نے نماز کی حفاظت کی، اس نے ایمان، اعمال اور جنت کی ضمانت حاصل کی۔

 

الخُطبَةُ الثَّانِيَةُ

اَلْـحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ، وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا، مَنْ يَهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ.

وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدًا عبده ورسوله.

أُوصِيكُمْ عِبَادَ اللهِ وَنَفْسِيَ الْخَاطِئَةَ بِتَقْوَى اللهِ، فَإِنَّهَا وَصِيَّةُ اللّٰهِ لِلْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ.

عباد الله!

الصلاةُ رأسُ العبادات، مَن أضاعها فقد أضاعَ دينَه، ومَن حافظ عليها فقد نجا.

{وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ} [الروم: 31]

اللَّهُمَّ اجْعَلْنَا مِنَ الْخَاشِعِينَ فِي صَلَاتِهِمْ، وَثَبِّتْنَا عَلَيْهَا حَتَّى نَلْقَاكَ.

اللهم لا تجعلنا من الغافلين، ولا من التاركين للصلاة.

اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميد مجيد.إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (النحل: 90)
فَاذْكُرُوا اللَّهَ يَذْكُرْكُمْ، وَاشْكُرُوهُ عَلَى نِعَمِهِ يَزِدْكُمْ، وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ۔
وَصَلَّى اللَّهُ وَسَلَّمَ وَبَارَكَ عَلَى نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ