پیر، 4 جنوری، 2016

عبادت كي كيا شرط هين ،،


اسلام میں عبادت کیلئے کیا شروط ہیں؟

الحمد للہ:

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
1-             عبادت کرنے کے اسباب شریعت کے ساتھ مطابقت رکھتے ہوں، چنانچہ  کوئی بھی انسان کسی بھی غیر شرعی سبب کی بنا پرعبادت کرے تو ایسی عبادت مردود ہوگی، کیونکہ اس کے بارے میں اللہ تعالی اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نہیں ہے، اس کی مثال:  جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ستائیس رجب  کی رات کا جشن ہے،لوگوں کا یہ گمان ہے کہ اس رات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم معراج کیلئے آسمانوں پر تشریف لے گئے تھے، یہ دونوں جشن  شریعت سے متصادم ہیں اس لیے مردود ہیں، اس کی درج ذیل وجوہات ہیں:
1.  تاریخی اعتبار سے بالکل بھی ثابت نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج  رجب کی ستائیس تاریخ کو ہوا تھا، ہمارے سامنے ذخیرہ حدیث  موجود ہے، ان میں ایک حرف بھی ایسا نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج 27 رجب کو ہوا تھا، یہ  بات سب تسلیم کرتے ہیں کہ اس کا علم ہمیں صرف صحیح سند کے ساتھ ثابت شدہ احادیث سے ہی گا، لیکن ایسی کوئی حدیث موجود نہیں ہے۔
2.  اور بفرض محال اگر یہ مان بھی  لیں کہ اسی رات کو معراج  ہوا تھا تو کیا ہمارا یہ حق بنتا ہے کہ اس دن کو جشن کا دن بنا لیں؟ بالکل نہیں، 
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے اور انصار کو دیکھا کہ وہ دو دنوں [نو روز، شہروز]میں خوشی مناتے ہیں  تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: (اللہ تعالی نے تمہیں ان دو دنوں سے بہتر دن عطا فرمائے ہیں) پھر  آپ نے انہیں عید الفطر اور عید الاضحی کے بارے میں بتلایا۔
یہاں سے ہمیں اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام میں تین عیدوں یعنی دو سالانہ عیدیں عید الفطر اور عید الاضحی اور ایک ہفت روزہ عید یعنی جمعہ کا دن  اس کے علاوہ کسی بھی دن کے منانے کو  اچھا نہیں سمجھا ہے، لہذا اگر کوئی ثابت کر  بھی دے کہ معراج کی رات 27 رجب کو ہی تھی -اگرچہ یہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے- تو پھر بھی ہمارے لئے اس رات کو شارع علیہ السلام کی اجازت کے بغیر کوئی جشن منانے کی گنجائش نہیں ہے۔
جیسے کہ میں پہلے بتلا چکا ہوں کہ بدعات کا معاملہ انتہائی سنگین ہے، اور بدعات کے دلوں پر اثرات بھی بہت گہرے ہوتے ہیں؛ اگرچہ وقتی طور پر انسان  اپنی دل میں نرمی اور رقت محسوس کرتا ہے لیکن بعد میں اس کا معاملہ الٹ ہی نکلتا ہے، کیونکہ گناہ کی وجہ سے دل میں مسرت دائمی نہیں ہو سکتی، بلکہ کچھ ہی دیر بعد دل  ملامت اور ندامت سے بھر جاتا ہے۔
بدعات کی جتنی بھی اقسام ہیں یہ حقیقت میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جد و جہد  پر قدغن ہیں؛ کیونکہ ان بدعات کا مطلب یہ بنتا ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شریعت مکمل نہیں فرمائی، حالانکہ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ:
 {اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا}
ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر کے تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا ہے۔[المائدة : 3]
یہاں قابل تعجب بات یہ بھی ہے کہ ان بدعات میں ملوّث  لوگ ان کے انعقاد کا بہت زیادہ خیال کرینگے، حالانکہ اس کے علاوہ دیگر واجب اور فرائض میں  بالکل سست روی اور کاہلی کا شکار ہونگے۔
اس لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ 27 رجب کو جشن منانا  کہ اس رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کروایا گیا تھا  یہ بدعت ہے؛ کیونکہ اس جشن کا سبب ایسا ہے جو شریعت میں نہیں بتلایا گیا۔
2-             عبادت کی نوعیت شریعت کے مطابق ہو
مثال کے طور پر کوئی انسان گھوڑے کی قربانی کرنا چاہے، تو قربانی کی یہ نوعیت شریعت سے متصادم ہوگی، کیونکہ قربانی صرف گھریلو پالتو جانوروں میں ہوتی ہے اور وہ بھی صرف اونٹ، گائے، اور بکری کی نسل سے۔
3-             عبادت کی مقدار شریعت کے مطابق ہو
مثلاً: اگر کوئی شخص ظہر کی نماز چار رکعت کی بجائے چھ رکعت پڑھے ، تو کیا اس کی عبادت شریعت کے مطابق ہوگی؟ کبھی نہیں! کیونکہ شریعت میں ظہر کی فرض نماز  چار رکعت ہے۔
اسی طرح اگر کوئی شخص نماز کے بعد "سُبحان اللَّہ" ، "الحمد للہ" اور "اللہ اکبر" 33 بار پڑھنے کی بجائے 35 بار پڑھتا ہے تو کیا اس کا یہ طریقہ درست ہوگا؟ 
اس کا جواب یہ ہے کہ: اگر وہ اللہ کی عبادت کرنا چاہتا ہے تو پھر وہ غلط کر رہا ہے، اور اگر وہ اضافی ذکر کے بارے میں نظریہ یہی رکھتا ہے کہ یہ سنت نہیں ہے، سنت 33 بار ہی ہے ، اضافی ذکر الگ سے  ہے، تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ اس نے سنت تعداد کو اضافی تعداد سے الگ کر دیا ہے۔
4-             عبادت کی کیفیت شریعت کے مطابق ہو
مثال کے طور پر اگر کوئی شخص  ایک عبادت نوعیت، تعداد، اور اسباب کے اعتبار سے  شریعت کے بالکل مطابق کر رہا ہے، لیکن اس کی کیفیت شریعت سے مطابقت نہیں رکھتی تو پھر بھی اس کی عبادت درست نہیں ہوگی، عملی مثال یوں سمجھیں کہ:  ایک شخص کا وضو ٹوٹ گیا، چنانچہ اس نے وضو کرنے کیلئے پہلے پاؤں دھوئے، پھر سر کا مسح کیا، اس کے بعد ہاتھ دھوئے، پھر چہرہ دھویا،  تو کیا اس طرح اس کا وضو  درست ہوگا؟ بالکل نہیں! کیونکہ اس نے وضو کرتے ہوئے کیفیت کا بالکل خیال نہیں رکھا۔
5-             عبادت کا وقت شریعت کے مطابق ہو
 مثال کے طور پر اگر کوئی شخص رمضان کے روزے شعبان میں رکھنا چاہے، یا شوال میں رکھنا چاہے، اسی طرح ظہر کی نماز زوال سے پہلے پڑھنے کی کوشش کرے، یا سایہ دو مثل ہونے کے بعد ظہر پڑھے تو اس کی نماز درست نہیں ہوگی، کیونکہ زوال سے پہلے والی نماز وقت شروع ہونے سے پہلے پڑھی، اور سایہ دو مثل ہونے کے بعد پڑھی ہوئی نماز وقت گزرنے کے بعد ادا کی ہے۔
اس لیے ہم یہ کہیں گے کہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر بغیر کسی شرعی عذر کے نماز چھوڑ دے تو اس کی نماز قبول نہیں ہوگی، چاہے ہزار بار ادا کر لے۔
یہاں ہم ایک اور اصول کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ: اگر کسی انسان نے کوئی بھی عبادت جان بوجھ کر اس کے مقررہ وقت  میں اد ا نہ کی اور عبادت کیلئے مقررہ وقت ضائع کر دیا تو اب اسکی عبادت قبول نہیں ہوگی، بلکہ مردود ہوگی۔
اس کی دلیل عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو کوئی شخص ایسا عمل کرے جس کے بارے میں ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ مردود ہے)
6-             عبادت کرنے کی جگہ شریعت کے مطابق ہو
مثال کے طور پر اگر کوئی شخص یوم عرفہ  کا وقوف مزدلفہ میں کرے ، تو اس کا وقوف درست نہیں ہوگا؛ کیونکہ وقوفِ عرفہ اپنی اصل جگہ پر نہیں ہوا، اسی طرح اگر انسان اپنے گھر میں ہی اعتکاف بیٹھ جائے تو یہ درست نہیں ہوگا، کیونکہ اعتکاف کی جگہ مسجد ہے؛ یہی وجہ ہے کہ عورت کا گھر میں اعتکاف درست نہیں ہوگا؛ کیونکہ گھر اعتکاف بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی ازواج مطہرات کو دیکھا کہ انہوں نے اپنے اپنے خیمے مسجد میں لگوا لیے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کے خیمے اکھڑوا دیے اور اعتکاف نہیں بیٹھے، اور  نہ ہی اپنی ازواج مطہرات کو گھروں میں اعتکاف کرنے کی رہنمائی فرمائی، اس سے معلوم ہوتا  ہے کہ عورت کیلئے  اعتکاف کی جگہ گھر نہیں ہے اور یہ شریعت سے متصادم عمل ہے۔
چنانچہ عبادت میں  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی  اور اتباع  کیلئے ان چھ چیزوں میں اتباع کا ہونا ضروری ہے:
1-             عبادت کا سبب
2-             نوعیت
3-             مقدار
4-             کیفیت
5-             وقت
6-             جگہ
واللہ اعلم.

اتوار، 3 جنوری، 2016

47 آدميون كي موت سعودي كو انسانيت كي فكر


السلام عليكم
تحقيق ،، عبدالمومن سلفي.
www.mominsalafi.simplesite.com
الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ
  •



•شیئر کریں




رابط مختصر  
العربیہ ڈاٹ نیٹ، ایجنسیاں

سعودی عرب کے مفتی اعظم اور علماء بورڈ کے چیئرمین الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ نے 47 دہشت گردوں کو دی گئی موت کی سزاؤں کو اسلامی شرعی قصاص قرار دیتے ہوئے کتاب وسنت کے مطابق مبنی برحق قرار دیا ہے۔ دوسری جانب مصر کی سب سے بڑی دینی درسگاہ جامعہ الازھر کے علماء نے بھی سعودی عرب میں دی گئی سزاؤں کی حمایت کرتے ہوئے انہیں حدود اللہ کا نفاذ قرار دیا۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق اپنے ایک ٹی وی بیان میں مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ آل الشیخ نے کہا کہ دہشت گردوں کو دی گئی موت کی سزائیں عین شریعت کے مطابق اور قصاص فی الاسلام کے تحت آتی ہیں۔ قصاص اللہ کے بندوں کے لیے باعث رحمت ہے کیونکہ اس سزا کے نفاذ سے ملک میں افراتفری، انارکی اور فساد فی الارض کی روک تھام میں مدد ملتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عالم اسلام اس وقت دہشت گردی کے بدترین دور سے گذر رہا ہے۔ ایسے میں ہم سب کی اولین خواہش مسلم امہ میں امن واستحکام کے ساتھ ساتھ افراد کی زندگیوں، ان کی عزت و ناموس و اموال کا تحفظ ہے۔ لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے والوں کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
مفتی اعظم نے قرآن وسنت، آئمہ مجتہدین اور علماء سلف کی آراء کی روشنی میں دہشت گردوں کی موت کی سزاؤں کو سند جواز فراہم کرتے ہوئے ثابت کیا کہ سعودی عرب میں گذشتہ روز دہ گئی موت کی سزائیں شریعت مطہرہ کی رو سے نہ صرف درست ہیں بلکہ ہراعتبار سے مبنی پرحق ہیں۔


درایں ثناء مصر کی جامعہ الازھر کے سرکردہ علماء نے بھی سعودی عرب میں سینتالیس شدت پسندوں کو دی گئی سزاؤں کو شرعاً درست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ریاض حکومت نے حدود اللہ کا شرعی نفاذ کیا ہے۔ علماء الازھر نے ’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کی حکومت نے ایک اہم شرعی فریضہ ادا کرتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی تعمیل کی ہے۔ دہشت گردی، قتل وغارت گری، لوٹ مار اور فساد فی الارض کی سزا صرف موت ہے۔
خیال رہے کہ کل ہفتے کے روز سعودی عرب کی حکومت نے 47 دہشت گردوں دہشت گردی کے مختلف واقعات کی پاداش میں سنائی گئی موت کی سزاؤں پرعمل درآمد کر دیا گیا تھا۔

سلفيت كا مختصر تعارف ،،،،، ، عبدالمومن سلفي

السلام عليكم
موضوع،،،،،،، سلفيت كا مختصر تعارف
www.mominsalafi.simplesite.com
الحمد الله

الحمد للہ:

"سلفیت" ہی حقیقت میں منہجِ نبوی و منہجِ صحابہ کی اتباع کا نام ہے؛ کیونکہ وہی ہمارے سلف ہیں، اور ہم سے آگے ہیں، چنانچہ انکے نقشِ قدم پر چلنا ہی "سلفیت" کہلاتا ہے۔
جبکہ "سلفیت"  کو کوئی انسان اپنا خاص منہج بنا کر اس منہج کی مخالفت کرنے والے مسلمانوں کو گمراہ قرار  دے، چاہے وہ حق پر ہی کیوں نہ ہوں، اور سلفیت کو  گروہ بندی و فرقہ واریت  کا ذریعہ بنانا ، بلاشبہ یہ عمل سلفیت کے خلاف ہے، کیونکہ سلف صالحین سب کے سب سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتفاق و اتحاد کیساتھ قائم رہنے کی دعوت دیتے آئے ہیں، وہ کسی شخص کو بنا بر تاویل  مخالفانہ  رائے رکھنے کی وجہ سے گمراہ نہیں کہتے تھے، ہاں البتہ  عقائد کے بارے میں  سلف صالحین  مخالف رائے رکھنے والے  کو گمراہ کہتے آئے ہیں، جبکہ فقہی اور عملی مسائل میں  سلف صالحین  نرمی برتتے تھے۔
لیکن ہمارے اس دور میں سلفیت اپنانے والے کچھ لوگ اپنے ہر مخالف  کو گمراہ  قرار دیتے ہیں، چاہے مخالف حق بات بھی کرے تب بھی  اسے گمراہ کہتے ہیں، جبکہ کچھ لوگوں نے سلفیت کو دھڑے بندی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے ، جیسے اسلام کی طرف منسوب دیگر فرقوں اور جماعتوں  کا طریقہ کار ہے۔
یہ بات کسی صورت میں بھی قابل قبول نہیں ہے، اسے کسی انداز سے بھی تسلیم نہیں کیا جاسکتا،  بلکہ انہیں کہا جائے گا کہ: سلف صالحین کے موقف اور تعامل کو دیکھیں وہ کیا عمل کرتے تھے؟ ان کی ایسے مسائل میں وسعتِ ظرفی دیکھیں جہاں اجتہاد کی گنجائش نکلتی ہے، بلکہ سلف صالحین کا بڑے بڑے مسائل میں  اختلاف ہو جاتا تھا، اور عقدی اور فقہی مسائل میں بھی انکا  اختلاف ہوتا تھا، مثال کے طور پر کچھ اہل علم اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا، جبکہ کچھ کہتے ہیں کہ آپ نے اللہ تعالی کو دیکھا ہے، اسی طرح کچھ کہتے ہیں کہ قیامت کے دن اعمال کا وز ن ہوگا، اور کچھ کہتے ہیں کہ اعمال نامے کا وزن کیا جائے گا، اسی طرح آپ سلف صالحین کا فقہی مسائل میں بہت زیادہ اختلاف پاؤ گے، نکاح، وراثت، خرید و فروخت سمیت دیگر مسائل میں  مختلف آراء ملیں گی، لیکن اس کے باوجود ان میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کو گمراہ نہیں کہتا۔
چنانچہ سلفیت کا یہ مفہوم  کہ یہ ایک مخصوص خدو خال والی جماعت ہو، اور اپنے علاوہ ہر کسی کو گمراہ کہتی ہو، تو ایسے لوگوں کا سلفیت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔
البتہ  عقدی، قولی اورفعلی اعتبار سے  سلف صالحین کے منہج کی اتباع، باہمی انس، پیار و محبت، اور اتحاد و اختلاف پر مشتمل  منہج سلف  کی پیروی ہی حقیقی سلفیت ہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (مؤمنین کے باہمی پیار، انس، شفقت، اور محبت کی مثال ایک جسم کی مانند ہے، جب اس میں سے ایک عضو درد محسوس کرے تو پورا جسم  بے خوابی اور بخار کی سی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے)" انتہی
فضیلۃ الشیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ.

"لقاءات الباب المفتوح" (3/246)

پانی مین پهوک مار نا یا دم کرنا

السلام عليكم
سايل مدثر احمد
www.mominsalafi.simplesite.com
عبدالمومن سلفي.
ًًًًًًًًًًًًًً

پانی میں پھونک مار کر دم کرنا

کچھ لوگ جادو اورجنوں وغیرہ اورمرگی کےعلاج کے لیے پانی پر پڑھنے کے بعد پھونکتے ہیں اورمریض کوکہتے ہیں کہ وہ اس پانی سے غسل کرے ، اس عمل کا حکم کیا ہے ؟

الحمدللہ
پانی پر پھونک مارنے کی دو قسمیں ہيں :
پہلی قسم :
اگر تواس پھونک مارنے سے پھونک مارنے والے کا تبرک حاصل کرنا مراد ہو توبلاشک یہ حرام ہے اورشرک کی ایک قسم ہے ، کیونکہ انسان کی تھوک نہ تو شفا کا سبب ہے اور نہ ہی برکت کے لیے ، اورنہ ہی کسی شخص کے آثار سے تبرک حاصل کیا جاسکتا ہے ، صرف اورصرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی تبرک حاصل ہوسکتا ہے ان کے علاوہ کسی اورسے نہیں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اوران کی موت کے بعد ان کے آثار سے تبرک حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ اگر واقعی وہ اپنی اصلی حالت میں موجود ہوں تو پھر جیسا کہ ام المومنین ام سلمہ رضي اللہ تعالی عنہا کے پاس گنھگھرو جیسا چاندی کا ایک چھوٹا سا برتن تھا جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ بال تھے جن سے مریض شفا حاصل کرتے تھے ، جب کوئي مریض آتا تو ام سلمہ رضي اللہ تعالی ان بالوں پر پانی ڈال کرہلاتیں اوراس مریض کو دیتی تھیں ۔
لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اورکی تھوک ، یا پسینہ یا کپڑے وغیرہ سے تبرک حاصل کرنا جائز نہیں ہے بلکہ ایسا کرنا حرام اورشرک کی ایک قسم ہے ، تواس لیے جب پانی میں تبرک کےلیے پھونک ماری جائےاور اوراس سے پھونک مارنے والے کی تھوک کا تبرک حاصل کرنا مقصود ہو تو ایسا کرناحرام اورشرک ہے ۔
اس لیے کہ جس نے بھی کسی چيز کے لیے کوئی غیرشرعی اورغیرحسی سبب ثابت کیا اس نے شرک کی ایک قسم کا ارتکاب کیا کیونکہ اس نے اپنے آپ کو اللہ تعالی کے ساتھ مسبب قرار دیا ہے ، اورمسبب کے لیے اسباب کا ثبوت توصرف شریعت کی جانب سے ہوتا ہے اوروہیں سے لیا جاسکتا ہے ۔
تواس لیے جس نے بھی ایسا سبب پکڑا جسے اللہ تعالی نے نہ تو حسی طور پر اورنہ ہی شرعی طور پر سبب بنایا ہو اس نے شرک کی ایک قسم کاارتکاب کیا ۔
دوسری قسم :
یہ کہ کوئی انسان قرآن مجید پڑھ کر دم کرے اورپھونک مارے ، مثلا سورۃ الفاتحہ پڑھے ، اورسورۃ الفاتحہ تو ایک دم ہے جس کے ناموں میں رقیہ بھی شامل ہے اوریہ ایسی سورۃ ہے جو مریض کے لیے سب سے بڑا دم ہے ، تواس لیے اگر سورۃ الفاتحہ پڑھ کرپانی میں پھونک ماری جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ، بعض سلف صالحین بھی ایسا کیا کرتے تھے ۔
ایسا کرنا مجرب ہے اوراللہ تعالی کے حکم سے نافع بھی ہے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سوتے وقت یہ عمل ہوتا تھا کہ آپ سورۃ قل ھو اللہ احد ، قل اعوذ برب الفلق ، قل اعوذ برب الناس پڑھ کراپنے دونوں ہاتھوں پر پھونکتےاوراپنے چہرے اورجہاں تک ہاتھ پہنچتا جسم پر اپنے ہاتھ پھیرتے تھے ۔
اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔
واللہ اعلم .

فتاوی الشيخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ تعالی ( 1 /
ا
اپ کا دست107


 )

ہفتہ، 2 جنوری، 2016

جادو كا اعلاج ، از عبدالمومن سلفي

السلام عليكم.
سايل ، عبدالجبار كشمير.
سوال،، ،، ،

جادو کے علاج کا کیا طریقہ ہے؟

 الحمد للہ
 جو جادو کی بیماری میں ہو تو وہ اس کا علاج جادو سے نہ کرے کیونکہ شر برائی کے ساتھ ختم نہیں ہوتی اور نہ کفر کفر کے ساتھ ختم ہوتا ہے بلکہ شر اور برائی خیر اور بھلائی سے ختم ہوتی ہے۔
تو اسی لئے جب نبیصلی اللہ علیہ وسلم سے نشرہ یعنی جادو کے خاتمہ کے لئے منتر وغیرہ پڑھنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا (یہ شیطانی عمل ہے) اور حدیث میں جس نشرہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ جادو والے مریض سے جادو کو جادو کے ذریعے ختم کرنے کو کہتے ہیں۔
لیکن اگر یہ علاج قرآن کریم اور جائز دواؤں اور شرعی اور اچھے دم کے ساتھ کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور اگر جادو سے ہو تو یہ جائز نہیں جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کیونکہ جادو شیطانوں کی عبادت ہے۔ تو جادوگر اس وقت تک جادو نہ تو کرسکتا ہے اور نہ ہی اسے سیکھ سکتا ہے جب تک وہ انکی عبادت نہ کرے اور شیطانوں کی خدمت نہ کر لے اور ان چیزوں کے ساتھ انکا تقرب حاصل نہ کرلے جو وہ چاہتے ہیں تو اسکے بعد اسے وہ اشیاء سکھاتے ہیں جس سے جادو ہوتا ہے۔
لیکن الحمدللہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ جادو کیے گئے شخص کا علاج قرات قرآن اور شرعی تعویذات (یعنی شرعی دم وغیرہ جن میں پناہ کا ذکر ہے) اور جائز دواؤوں کے ساتھ کیا جائے جس طرح کہ ڈاکٹر دوسرے امراض کے مریضوں کا علاج کرتے ہیں تو اس سے یہ لازم نہیں کہ شفا لازمی ملے کیونکہ ہر مریض کو شفا نہیں ملتی۔
اگر مریض کی موت نہ آئی ہو تو اس کا علاج ہوتا ہے اور اسے شفا نصیب ہوتی ہے۔ اور بعض اوقات وہ اسی مرض میں فوت ہوجاتا ہے اگرچہ اسے کسی ماہر سے ماہر اور کسی سپیشلیسٹ ڈاکٹر کے پاس ہی کیوں نہ لے جائیں تو جب موت آچکی ہو نہ تو علاج کام آتا ہے اور نہ ہی دوا کسی کام آتی ہے۔
فرمان ربانی ہے:
"اور جب کسی کا وقت مقررہ آجاتا ہے تو اسے اللہ تعالی ہر گز مہلت نہیں دیتا" المنافقون11
دوا اور علاج تو اس وقت کام آتا ہے جب موت نہ آئی ہو اور اللہ تعالی نے بندے کے مقدر میں شفا کی ہو تو ایسے ہو یہ جسے جادو کیا گیا ہے بعض اوقات اللہ تعالی نے اس کے لئے شفا لکھی ہوتی ہے اور بعض اوقات نہیں لکھی ہوتی تاکہ اسے آزمائے اور اس کا امتحان لے اور بعض اوقات کسی اور سبب کی بنا پر جسے اللہ عزوجل جانتا ہے: ہوسکتا ہے جس نے اس کا علاج کیا ہو اسکے پاس اس بیماری کا مناسب علاج نہ ہو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح طور پر یہ ثابت ہے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
(ہر بیماری کی دوا ہے تو اگر بیماری کی دوا صحیح مل جائے تو اللہ تعالی کے حکم سے اس بیماری سے نجات مل جاتی ہے۔)
اور فرمان نبویصلی اللہ علیہ وسلم ہے
(اللہ تعالی نے کوئی بیماری نہیں اتاری مگر اس کی دوا بھی اتاری ہے تو اسے جس نے معلوم کرلیا اسے علم ہوگیا اور جو اس سے جاہل رہا وہ اس سے جاہل ہے۔)
اور جادو کے شرعی علاج میں سے یہ بھی ہے کہ اس کا علاج قرآن پڑھ کر کیا جائے۔
جادو والے مریض پر قرآن کی سب سے عظیم سورت فاتحہ بار بار پڑھی جائے۔ تو اگر پڑھنے والا صالح اور مومن اور جانتا ہو کہ ہر چیز اللہ تعالی کے فیصلے اور تقدیر سے ہوتی ہے اور اللہ سبحانہ وتعالی سب معاملات کو چلانے والا ہے اور جب وہ کسی چیز کو کہتا ہے کہ ہوجا تو ہوجاتی ہے تو اگر یہ قرآت ایمان تقوی اور اخلاص کے ساتھ پڑھی جائے اور قاری اسے بار بار پڑھے تو جادو زائل ہوجائے گا اور مریض اللہ تعالی کے حکم سے شفایاب ہوگا۔
اور صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم ایک دیہات کے پاس سے گذرے تو دیہات کے شیخ یعنی ان کے امیر کو کسی چیز نے ڈس لیا تو انہوں نے سب کچھ کر کے دیکھ لیا لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا تو انہوں نے صحابہ اکرام میں سے کسی کو کہا تم میں کوئی دم کرنے والا ہے؟ تو صحابہ نے کہا جی ہاں۔ تو ان میں سے ایک نے اس پر سورت فاتحہ پڑھی تو وہ اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ گویا کہ ابھی اسے کھولا گیا ہو۔ اور اللہ تعالی نے اسے سانپ کے ڈسنے کے شر سے عافیت دی۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
(اس دم کے کرنے سے کوئی حرج نہیں جبکہ وہ شرک نہ ہو) اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دم کیا گیا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی دم کیا تو دم کے اندر بہت زیادہ خیر اور بہت عظیم نفع ہے۔ تو جادو کۓ گۓ شخص پر سورت فاتحہ اور آیۃ الکرسی اور (قل ہو اللہ احد) اور معوذتین (یعنی قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس) اور اسکے علاوہ آیات اور اچھی اچھی دعائیں جو کہ احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں مثلا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول جب آپ نے کسی مریض کو دم کیا :
{اللهم رب الناس اذهب الباس واشف انت الشافي لا شفاء الا شفاؤک شفاء لا يغادر سقما} تین بار یہ دعا پڑھے
(اے اللہ لوگوں کے رب تکلیف دور کردے اور شفایابی سے نواز تو ہی شفا دینے والا ہے تیری شفا کے علاوہ کوئی شفا نہیں ایسی شفا نصیب فرما کہ جو کسی قسم کی بیماری نہ چھوڑے) تو اسے تین یا اس سے زیادہ بار پڑھے۔
اور ایسے ہی یہ بھی ثابت ہے کہ جبرا‏‎ئیل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دعا کے ساتھ دم کیا تھا۔
{ بسم الله أرقيك ، من كل شيء يؤذيك ، ومن شر كل نفس أو عين حاسد الله يشفيك ، بسم الله أرقيك }
"میں اللہ کے نام سے تجھے ہر اس چیز سے دم کرتا ہوں جو کہ تکلیف دینے والی ہے اور ہر نفس کے شر سے یا حاسد آنکھ سے اللہ آپ کو شفا دے میں اللہ کے نام سے آپ کو دم کرتا ہوں"
اسے بھی تین بار پڑھے اور بہت ہی عظیم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ دم ہے جس کے ساتھ ڈسے ہوئے اور جادو کئے گئے اور مریض کو دم کرنا مشروع ہے۔
اور اچھی دعاؤں کے ساتھ ڈسے ہوئے اور مریض اور جادو والے کو دم کرنے میں کوئی حرج نہیں اگر اس میں کوئی شرعی مخالفت نہ ہو اگرچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہ ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے عموم پر اعتبار کرتے ہوئے۔ (دم کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ وہ شرک نہ ہو۔)
اور بعض اوقات اللہ تعالی مریض اور جادو کئے گئے شخص وغیرہ کو بغیر کسی انسانی سبب سے شفا نصیب کردیتا ہے۔ کیونکہ وہ سبحانہ وتعالی ہر چیز پر قادر ہے اور ہر چیز میں اسکی بلیغ حکمت چمک رہی ہے۔
اور اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی کتاب عزیز میں ارشاد فرمایا ہے :
"وہ جب بھی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے اسے اتنا فرما دینا (کافی ہے) کہ ہو جا وہ اسی وقت ہو جاتی ہے" یسین/82
تو اس اللہ سبحانہ وتعالی کی حمد وتعریف اور شکر ہے جو وہ فیصلے کرتا اور تقدیر بناتا ہے اور ہر چیز میں بلیغ حکمت پائی جاتی ہے۔
اور بعض اوقات مریض کو شفا نہیں ہوتی کیونکہ اس کا وقت پورا ہوچکا ہوتا ہے اور اس مرض سے اسکی موت مقدر میں ہوتی ہے۔
اور جو دم میں استعمال کیا جاتا ہے ان میں وہ آیات بھی ہیں جن میں جادو کا ذکر ہے وہ پانی پر پڑھی جائیں۔
اور سورت اعراف میں جادو والی آیات۔
فرمان باری تعالی ہے:
{ ( وأوحينا إلى موسى أن ألق عصاك فإذا هي تلقف ما يأفكون فوقع الحق وبطل ما كانوا يعملون فغلبوا هنالك وانقلبوا صاغرين) } الاعراف117۔119
"اور ہم نے موسی (علیہ السلام ) کو حکم دیا کہ اپنی لاٹھی ڈال دیجئے سو اس کا ڈالنا تھا کہ اس نے انکے سارے بنے بنائے کھیل کو نگھلنا شروع کردیا پس حق ظاہر ہوگیا اور انہوں نے جو کچھ بنایا تھا سب کچھ جاتا رہا پس وہ لوگ موقع پر ہار گئے اور خوب ذلیل ہوکر پھرے" الاعراف117۔119
اور سورہ یونس میں اللہ تعالی کا یہ فرمان:
{ وقال فرعون ائتوني بکل ساحر عليم فلما جاء السحرة قال لهم القوا ما انتم ملقون فلما القوا قال موسى ما جئتم به السحر ان الله سيبطله ان الله لا يصلح عمل المفسدين ويحق الحق بکلماته ولو کره المجرمون } یونس/ 79۔82
(اور فرعون نے کہا کہ میرے پاس تمام جادو گروں کو حاضر کرو پھر جب جادو گر آئے تو موسی (علیہ السلام) نے ان سے کہا ڈالو جو کچھ تم ڈالنے والے ہو سو جب انہوں نے ڈالا تو موسی (علیہ السلام )نے فرمایا کہ یہ جو کچھ تم لائے ہو جادو ہے یقینی بات یہ ہے اللہ تعالی اس کو ابھی درہم برہم کیے دیتا ہے اللہ تعالی ایسے فسادیوں کا کام نہیں بننے دیتا)
اور ایسے ہی سورہ طہ کی مندرجہ ذیل آیات فرمان ربانی ہے:
{ قالوا يا موسى اما ان تلقي واما ان نکون اول من القى قال بل القوا فاذا حبالهم وعصيهم بخيل اليه من سحرهم انها تسعى فاوجس في نفسه خيفة موسى قلنا لا تخف انک انت الاعلى والق ما في يمينک تلقف ما صنعوا انما صنعوا کيد ساحر ولا يفلح الساحر حيث اتى } طہ65۔59
"کہنے لگے اے موسی یا تو تو پہلے ڈال یا ہم پہلے ڈالنے والے بن جائیں جواب دیا کہ نہیں تم ہی پھلے ڈالو اب تو موسی (علیہ السلام) کو یہ خیال گزرنے لگا کہ انکی رسیاں اور لکڑیاں ان کے جادو کے زور سے بھاگ رہیں ہیں پس موسی نے اپنے دل میں ڈر محسوس کیا تو ہم نے فرمایا خوف نہ کر یقینا تو ہی غالب اور برتر رہے گا اور تیرے دائیں ہاتھ میں جو ہے اسے ڈال دے کہ انکی تمام کاریگری کو وہ نگل جائے انہوں نے جو کچھ بنایا ہے صرف یہ جادو گروں کے کرتب ہیں اور جادو گر کہیں سے بھی آئے کامیاب نہیں ہوتا" طہ65۔69
تو ایسی آیات ہیں جن سے جادو کے دم میں ان شاء اللہ تعالی فائدہ دے گا۔ تو بیشک یہ آیات اور اسکے ساتھ سورہ فاتحہ اور سورہ (قل ہو اللہ احد) اور آیۃ الکرسی اور معوذتین (قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس) اگر قاری پانی میں پڑھے اور اس پانی کو جس کے متعلق یہ خیال ہو کہ اسے جادو ہے یا جو اپنی بیوی سے روک دیا گیا ہے اس پر بھادیا جائے (یعنی غسل کرے از مترجم) تو اسے اللہ کے حکم سے شفا یابی نصیب ہوگی۔
اور اگر اس پانی میں سبز بیری کے سات پتے کوٹنے کے بعد رکھ لئے جائیں تو یہ بہت مناسب ہوگا جیسا کہ شیخ عبدالرحمن بن حسن رحمہ اللہ نے اپنی کتاب (فتح المجید) میں بعض اہل علم سے باب (منتر کے متعلق باب) میں ذکر کیا ہے اور افضل یہ ہے کہ تینوں سورتیں (قل ہو اللہ احد) (قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس) تین تین بار دہرائی جائیں۔
مقصد یہ ہے کہ یہ اور ایسی ہی دوسری وہ دوائیں ہیں جو کہ مجرب ہیں اور ان سے اس بیماری (جادو) کا علاج کیا جاتا ہے اور ایسے ہی جسے اپنی بیوی سے روک دیا گیا ہو اسکا بھی علاج ہے جسکا تجربہ کیا گیا اور اللہ تعالی نے اس سے نفع دیا۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صرف سورہ سے علاج کیا جائے تو شفایابی ہو اور اسی طرح (قل ہو اللہ احد) اور معوذتین سے علاج کیا جائے تو شفا مل جائے۔
سب سے اہم یہ ہے کہ علاج کرنے والا اور علاج کروانے والا دونوں کا صدق ایمان ہونا اور اللہ تعالی پر بھروسہ ہونا ضروری ہے اور انہیں اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ اللہ سبحانہ وتعالی سب کاموں کا متصرف ہے اور وہ جب کسی چیز کو چاہتا ہے تو وہ ہوتی ہے اور جب نہیں چاہتا تو نہیں ہوتی تو معاملہ اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے جو وہ چاہے وہ ہوگا اور جو نہ چاہے وہ نہیں ہوگا۔ تو پڑھنے والے اور جس پر پڑھا جارہا ہے انکے اللہ تعالی پر ایمان اور صدق کی بنا پر اللہ تعالی کے حکم سے مرض زائل ہوگا اور اتنا ہی جلدی ہوگا جتنا ایمان ہے۔ اور پھر معنوی اور حسی دوائیں بھی کام کریں گی۔
ہم اللہ تعالی سے دعاگو ہیں کہ وہ ہم سب کو وہ عمل کرنے کی توفیق دے جو اسے راضی کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ بیشک وہ سننے والا اور قریب ہے۔  .

دیکھیں کتاب: مجموع فتاوی ومقالات متنوعۃ: تالیف: فضیلۃ الشیخ علامہ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ ص/70 
والله اعلم
اپ کا. دوست.
عبدالمومن سلف
8494090342,,

غسل جنابت كا صحيح طريقه ، عبدالمومن سلفي

السلام عليكم.
سوال كا جواب.
سايل ، كا سوال

غسل جنابت كا طريقہ كيا ہے ؟

الحمد للہ:
غسل جنابت كے دو طريقے ہيں:
كفائت كرنے والا طريقہ:
مكمل طريقہ:
كفائت كرنے والا طريق غسل يہ ہے كہ: كلى كر كے اور ناك ميں پانى ڈال كر سارے بدن پر پانى ڈال ليا جائے، چاہے ايك بار ہے، اور اگر گہرے پانى ميں غوطہ لگائے تو بھى ٹھيك ہے.
غسل كا مكمل طريقہ يہ ہے كہ:
اپنى شرمگاہ اور جہاں جہاں نجاست لگى ہو اسے دھوئے، اور پھر مكمل وضوء كرنے كے بعد اپنے سر پر تين چلو پانى بہائے حتى كہ بالوں تك سر تر ہو جائے، اور پھر اپنے جسم كى دائيں جانب اور پھر بائيں جانب دھوئے.

ديكھيں: اعلام المسافرين ببعض آداب و احكام السفر و ما يخص الملاحين الجويين، تاليف فضيلۃ الشيخ محمد بن صالح العثيمين صفحہ ( 11 ).

Featured Post

آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت بتاۓ.... طالبہ طس بنت قیوم

 الحمد للہ. ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں : یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ...