اپنی زبان منتخب کریں

منگل، 12 جنوری، 2016

aids كا مرض اور اس كا اعلاج

الحمد للہ:
اول:
ايڈز كے وائرس والے شخص يا ايڈز كے مريض كے ليے كسى صحيح عورت سے يا كسى مريضہ عورت سے شادى كرنا جائز ہے ليكن شرط يہ ہے كہ جب عورت كو اس كى بيمارى كا علم ہو اور وہ علم ہونے كے بعد اسے بطور خاوند قبول كر لے، اور ان دونوں كے ليے جائز ہے كہ وہ اولاد پيدا نہ كرنے كا اتفاق كر ليں، يا پھر جماع اور ہم بسترى نہ كريں، اور خاوند كے ليے جائز ہے كہ وہ بيوى كے ہاتھ مشت زنى كروائے اس ميں كوئى حرج نہيں.
اور ايسے مريض كے ليے اس وقت تك شادى كرنا جائز نہيں جب تك وہ اپنى حالت اور بيمارى كا بتا نہ دے، كيونكہ اسے چھپانا دھوكہ اور حرام ہے، اور اگر وہ اسے چھپاتا ہے اور بعد ميں بيوى كو علم ہو جائے تو اسے نكاح فسخ كرنے كا حق حاصل ہے.
دوم:
مشت زنى كرنا حرام ہے، اس كا تفصيلي حكم سوال نمبر ( 329 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.
ليكن اگر ايڈز كا مريض شادى نہ كر سكے اور اسے زنا ميں پڑنے كا خدشہ ہو تو اس كے ليے مشت زنى كرنى جائز ہے؛ اور اس طرح وہ دو ضرر والى اشياء اور دو برائى اور شر والى اشياء ميں سے خفيف اور ہلكى كا مرتكب ٹھرےگا.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور مرد كا اپنے اختيار كے ساتھ منى خارج كرنا اور انزال كرنا وہ اس طرح كہ مشت زنى كرے تو اكثر علماء كے نزديك ايسا كرنا حرام ہے، اور امام احمد كى ايك بلكہ ظاہر روايت يہى ہے، اور ايك روايت ميں مكروہ ہے، ليكن اگر وہ اس پر مجبور ہو جائے مثلا اسے خدشہ ہو كہ اگر مشت زنى نہ كى تو وہ زنا كا مرتكب ہو جائيگا يا مرض لاحق ہو جائيگا تو اس ميں علماء كرام كے دو مشہور قول ہيں:
اس حالت ميں سلف اور خلف ميں سے كچھ لوگوں نے اجازت دى ہے، اور كچھ نے منع كيا ہے " واللہ اعلم انتہى
ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 1 / 302 ).
اور " شرح ا لمنتھى " ميں درج ہے:
" اور اگر كسى مرد يا عورت نے بغير كسى ضرورت و حاجت كے مشت زنى كى تو اس كا يہ فعل حرام ہے، اور اسے تعزير لگائى جائيگى اور سزا دى جائيگى كيونكہ يہ معصيت و نافرمانى ہے، ليكن اگر اس نے زنا يا لواطت كے خوف اور ڈر سے ايسا كيا تو اس پر كچھ نہيں، مثلا اگر كوئى شخص اپنے بدن كے خوف سے كرتا ہے تو اس پر كچھ نہيں بلكہ ايسا كرنا اولى ہے، چنانچہ مرد كے ليے اپنے ہاتھ سے مشت زنى كرنى مباح نہيں ہے، الا يہ كہ وہ نكاح كرنے كى قدرت و استطاعت نہ ركھتا ہو، كيونكہ نكاح كى قدرت و استطاعت ركھتے ہوئے اس كى كوئى ضرورت نہيں رہتى "
ديكھيں: شرح المنتھى ( 3 / 366 ).
بہر حال يہ ايك برائى ہے اس سے اجتناب كرنا چاہيے اور يہ حرام ہے، اور پھر اللہ تعالى كا فرمان ہے:
﴿ اور جو كوئى بھى اللہ تعالى پر بھروسہ اور توكل كرتا ہے اللہ اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے ﴾.
واللہ ا

پیر، 11 جنوری، 2016

سايل كا سوال. اور اس كا جواب
غير آباد رمين كو آباد كرنا
الجواب.

الحمدللہ
الموات : میم اور واو کے فتح کے ساتھ : موات اسے کہتے ہیں جس میں روح نہ ہو لیکن یہاں پر وہ زمین مراد ہے جس کا کوئ مالک نہ ہو ۔
فقھاء رحمہم اللہ تعالی اس کی تعریف یہ کرتے ہیں :
ایسی زمین جوکسی اختصاص اورملکیت سے عاری وخالی ہو ۔
تواس تعریف سے دوچيزیں خارج ہوجاتی ہیں :
اول :
جوکسی کافر یا مسلمان کی خرید اوریا پھر عطیہ وغیرہ کی بنا پر ملکیت بن جاۓ ۔
دوم :
جس کے ساتھ ملک معصوم کی کوئ مصلحت وابستہ ہو ، مثلا راستہ ، سیلابی پانی وغیرہ کی گزرگاہ ۔
یاپھرکسی شہرکے آباد کاروں کی اس کے ساتھ مصلحت کا تعلق ہو ، مثلا : میت دفن کرنے کیے لیے قبرستان ، یا پھر گندگی وغیرہ پھینکنے کی جگہ ، یا پھر عیدگاہ اورلکڑیاں وغیرہ کی جگہ اورچراگاہ وغیرہ ۔
تواس طرح کی زمین آباد کرنے سے بھی کسی کی ملکیت میں نہیں آسکتی
لیکن جب کسی زمین میں یہ دونوں چیزیں یعنی ملکیت معصوم اوراس کا اختصاص نہ پایا جاۓ اورکوئ شخص اسے آباد اورزندہ کرلے تووہ زمین اسی کی ملکیت میں آجاۓ گی ۔
جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جس نے بھی کوئ زمین زندہ کی تووہ اسی کی ہے ) مسند احمد اورامام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کوصحیح کہا ہے ، اسی معنی کی احادیث اوربھی وارد ہیں اورکچھ توصحیح بخاری میں بھی موجود ہیں ۔
اورعمومی فقھاء امصار کہتے ہیں کہ موات وہ بے آباد زمین کسی کے آباد کرنے سے ملکیت میں آجاتی ہے ، اگرچہ فقھاء نے شروط میں اختلاف کیا ہے ، لیکن حرم اورمیدان عرفات کی بے آباد زمین آباد کرنے سے بھی ملکیت میں نہيں آسکتی ۔
اس کا سبب یہ ہے کہ ایسا کرنے سے مناسک حج کی ادائيگي میں تنگی ہوگی اوروہاں پر لوگوں کی جگہوں پرقابض ہونا برابر ہے ۔
احیاء ارض یعنی زمین کی آبادکاری مندرجہ ذيل امور سے حاصل ہوگی :
اول :
جب کوئ زمیں کے ارد گرد چاردیواری کرلے جوکہ عادتا معروف تواس نے اسے آباد کرلیا اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا :
( جس نے زمین پر چاردیواری کرلی وہ اسی کی ہے ) مسند احمد ، سنن ابوداود ، اورابن الجارود رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح قرار دیا ہے اس کے علاوہ سمرہ رضي اللہ تعالی عنہ سے بھی اسی طرح کی حدیث مروی ہے ۔
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ چاردیواری سے ملکیت کا مستحق ہوجاتا ہے ۔
اورچاردیواری کی مقدار وہ ہوگی جولغت میں دیوار معروف ہے لیکن اگر اس نے کسی بے آباد زمین کے گرد پتھر یا پھر مٹی اکٹھی کی یا چھوٹی سی دیوار بنالی جواس سے آگے روک بھی نہ لگا سکے یا پھر کسی نے زمین کے گرد خندق کھود لی تواس سے وہ اس کی ملکیت نہیں بن سکتی ۔
لیکن اس کی وجہ سے وہ اسے آباد کرنے کا دوسروں سے زيادہ حقدار ہوگا اس لیے کہ اس نے اسے آباد کرنا شروع کردیا ہے ۔
دوم :
اگرکسی نے بے آباد زمین میں کنواں کھود لیا اورپانی نکل آیا تواس نے بھی اس زمین کوآباد کرلیا ، لیکن اگر وہ کنواں کھودتا ہے اورپانی تک نہیں پہنچتا تواس کی بنا پروہ اس کا مالک نہیں بن سکتا ، بلکہ وہ اسے اس کے احیاء کادوسروں سے زياد حقدار ہے ، اس لیے کہ اس نے احیاء کی ابتدا کرلی ہے ۔
سوم :
جب اس نے اس بے آباد زمین میں کسی چشمے یا پھر نہر کا پانی پہنچا دیا تواس نے اس کی وجہ سے اس زمین کا احیاء کرلیا ، اس لیے کہ زمین کے لیے پانی دیوار سے زيادہ نفع مند ہے ۔
چہارم :
جب کسی نے زمین میں کھڑے ہونے والے پانی کواس سے روک دیا جس پانی کے کھڑے ہونے کی بنا پر وہ کاشت کے قابل نہیں رہتی تھی ، وہ پانی وہاں سے روک دیا حتی کہ وہ کاشت کے قابل ہوگئ تواس نے زمین کا احیاء کرلیا ۔
اس لیے کہ یہ کام زمین کے لیے ملکیت کی دلیل میں مذکور دیوار سے بھی زيادہ نفع مند ہے ۔
اورکچھ علماء کرام کہتے ہیں کہ بنجر زمین کا احياء صرف انہی امور پر موقوف نہیں بلکہ اس میں عرف کا اعتبار ہوگا جسے عرف عام میں لوگ احیاء شمار کریں گے اس کی بنا پروہ زمین کا مالک بھی بنے گا ۔
آئمہ حنابلہ اور دوسروں نے یہی مسلک اختیار کیا ہے اس لیے کہ شرع نے ملکیت کی تعلیق لگائ ہے اوراسے بیان نہیں کیا تو اس طرح عرف عام میں جسے احیاء کہا جاۓ اسی کی طرف رجوع ہو گا ۔
مسلمانوں کے امام اورامیر یا خلیفہ کویہ حق حاصل ہے کہ وہ بنجر زمین کسی کو دے دے تا کہ وہ اسے آباد کرے ، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بلال بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ کوعقیق میں جاگیر عطا کی تھی اوروائل بن حجر رضي اللہ تعالی عنہ کوحضرموت میں عطا کی اوراسی طرح عمر اورعثمان اوربہت سے دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کوعطا کی تھی ۔
لیکن صرف جاگیر مل جانے سے ہی وہ مالک نہیں بن جاۓ گا بلکہ وہ اس دوسرے سے زيادہ حقدار ہے لیکن جب اسے آباد اوراسکا احیاء کرے گا وہ اس کی ملکیت بن جاۓ گی اوراگر وہ اس کا احياء اوراسے آباد نہ کرسکا توخلیفہ یا امیرالمسلمین کویہ حق حاصل ہے کہ وہ اس سے واپس لے لے اورکسی دوسرے کوعطا کردے جو اسے آباد کرنے کی طاقت رکھتا ہو ۔
اس لیے کہ عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ نے ان لوگوں سے جاگير واپس لے لی تھی جو اسے آباد نہیں کرسکے تھے ۔
اورجوکوئ بنجر زمین کے علاوہ کسی اورغیرمملوک چيز کی طرف سبقت لے جاۓ اورپہلے پہنچے مثلا شکار یا جلانے والی لکڑي تووہ اس کا زيادہ حقدار ہے ۔
اوراگرکسی کی زمین سے غیر ملکیتی پانی گزرتا ہو مثلا نہر یا وادی کا پانی توسب سے اوپر والے یعنی پہلے کوحق حاصل ہے کہ وہ پہلے اپنی زمین کوسیراب کرے اوراس میں ٹخنوں تک پانی کھڑا کرے پھر اپنے بعد والے کوپانی بھیجے ۔۔۔۔ اوراسی طرح درجہ بدرجہ ۔
اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( اے زبیر ( رضي اللہ تعالی عنہ ) تم اپنی زمین سیراب کرو اورپھر پانی کودیوار ( وہ رکاوٹ جوکھیتوں کے کنارے بنائ جاتی ہے ) تک روکو ) صحیح بخاری اورصحیح مسلم ۔
اورعبدالرزاق نے معمر اورزھری رحمہم اللہ سے ذکر کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ( پھر تم پانی کوروکو حتی کہ وہ دیواروں تک آ جاۓ ) کا اندازہ لگایا اوراسے ماپا تو وہ ٹخنوں تک تھا ۔
یعنی جوکچھ قصہ میں بیان ہوا ہے اس کوماپا توانہوں نے وہ پانی ٹخنوں تک پہنچتے ہوۓ پایا ، توانہوں نے اسے معیار بنا دیا کہ پہلے کا اتنا ہی حق ہے اورپھر اس کے بعد والے کا بھی اتنا ہی ۔
عمرو بن شعیب بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیل مھزور میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ ( سیل مھزورمدینہ کی ایک وادی کا نام ہے ) :
سب سے پہلے والا پانی کو ٹخنوں تک روکے اورپھر اپنے بعد والے کی زمین میں چھوڑ دے ) سنن ابو داود وغیرہ
لیکن اگرپانی ملکیتی ہو تو پھر ان سب مشترکین کے درمیان ان کی املاک کے حساب سے تقسیم ہوگا اورہر ایک اپنے حصہ میں جوچاہے تصرف کرسکتا ہے ۔
اورامام المسلمین کو حق حاصل ہے کہ وہ مسلمانوں کے بیت المال مواشیوں کے لیے ایک چراگاہ مقرر کرلے جس میں کوئ اورنہ چراۓ مثلا جہاد کے لیے تیار گھوڑ ے ، اورصدقہ زکاۃ کے اونٹ وغیرہ ، اگرمسلمانوں کواس سے تنگی نہ ہوتی ہو ۔
ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
( نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے النقیع نامی چراگاہ کومسلمانوں کے گھوڑوں کے لیے مقرر اورخاص کیا تھا ) ۔
اورامام المسلمین کے لیے جائز ہے کہ وہ بے آباد زمین کی گھاس کوزکاۃ کے اونٹوں اورمجاھدین کے گھوڑوں اورجزیہ کے جانوروں کے لیے خاص کردے اگر اس کی ضرورت محسوس ہو اورمسلمانوں کو اس میں تنگ نہ کرے ۔ .

دیکھیں کتاب : الملخص الفقھی تالیف شیخ صالح الفوزان ۔

سوره الحاقة ،، ترجمه عبدالمومن سلفي

سورة الحَاقَّة
شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
قیامت (۱) قیامت کیا چیز ہے (۲) اور تمہیں کس چیز نے بتایا کہ قیامت کیا ہے (۳) ثمود اور عاد نے قیامت کو جھٹلایا تھا (۴) سو ثمود تو سخت ہیبت ناک چیخ سے ہلاک کیے گئے (۵) اور لیکن قوم عاد سو وہ ایک سخت آندھی سے ہلاک کیے گئے (۶) وہ ان پر سات راتیں اور آٹھ دن لگاتار چلتی رہی (اگر تو موجود ہوتا) اس قوم کو اس طرح گرا ہوا دیکھتا کہ گویا کہ گھری ہوئی کھجوروں کے تنے ہیں (۷) سو کیا تمہیں ان کا کوئی بچا ہوا نظر آتا ہے (۸) اور فرعون اس سے پہلے کے لوگ اور الٹی ہوئی بستیوں والے گناہ کے مرتکب ہوئے (۹) پس انہوں نے اپنے رب کے رسول کی نافرمانی کی تو الله نے انہیں سخت پکڑ لیا (۱۰) بے شک ہم نے جب پانی حد سے گزر گیا تھا تو تمہیں کشتی میں سوار کر لیا تھا (۱۱) تاکہ ہم اسے تمہارے لیے ایک یادگار بنائیں اور اس کو کان یا د رکھنے والے یاد رکھیں (۱۲) پھر جب صور میں پھونکا جائے گا ایک بار پھونکا جانا (۱۳) اور زمین اور پہاڑ اٹھائے جائیں گے پس وہ دونوں ریزہ ریزہ کر دیئے جائیں گے (۱۴) پس اس دن قیامت ہو گی (۱۵) اور آسمان پھٹ جائے گا اوروہ اس دن بودا ہوگا (۱۶) اور اس کے کنارے پر فرشتے ہوں گے اور عرشِ الہیٰ کو اپنے اوپر اس دن آٹھ فرشتے اٹھائیں گے (۱۷) اس دن تم پیش کیے جاؤ گے تمہارا کوئی راز مخفی نہ رہے گا (۱۸) جس کو اس کا اعمال نامہ اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا سو وہ کہے گا لو میرا اعمال نامہ پڑھو (۱۹) بے شک میں سمجھتا تھا کہ میں اپنا حساب دیکھوں گا (۲۰) سووہ دل پسند عیش میں ہو گا (۲۱) بلند بہشت میں (۲۲) جس کے میوے جھکے ہوں گے (۲۳) کھاؤ اور پیئو ان کاموں کے بدلے میں جو تم نے گزشتہ دنوں میں آگے بھیجے تھے (۲۴) اور جس کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں دیا گیا تو کہے گا اے کاش میرا اعمال نامہ نہ ملتا (۲۵) اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے (۲۶) کاش وہ (موت) خاتمہ کرنے والی ہوتی (۲۷) میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا (۲۸) مجھ سے میری حکومت بھی جاتی رہی (۲۹) اسے پکڑو اسے طوق پہنا دو (۳۰) پھر اسے دوزخ میں ڈال دو (۳۱) پھر ایک زنجیر میں جس کا طول ستر گز ہے اسے جکڑ دو (۳۲) بے شک وہ الله پر یقین نہیں رکھتا تھا جو عظمت والا ہے (۳۳) اور نہ وہ مسکین کے کھانا کھلانے کی رغبت دیتا تھا (۳۴) سو آج اس کا یہاں کوئی دوست نہیں (۳۵) اور نہ کھانا ہے مگر زخموں کا دھون (۳۶) اسے سوائے گناہگاروں کے کوئی نہیں کھائے گا (۳۷) سو میں ان چیزوں کی قسم کھاتا ہوں جو تم دیکھتے ہو (۳۸) اوران کی جو تم نہیں دیکھتے (۳۹) کہ بے شک یہ (قرآن) رسول کریم کی زبان سے نکلا ہے (۴۰) اور وہ کسی شاعر کا قول نہیں (مگر) تم بہت ہی کم یقین کرتے ہو (۴۱) اور نہ ہی کسی جادوگر کا قول ہے تم بہت ہی کم غور کرتے ہو (۴۲) وہ پرودگار عالم کا نازل کیا ہوا ہے (۴۳) اور اگر وہ کوئی بناوٹی بات ہمارے ذمہ لگاتا (۴۴) تو ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے (۴۵) پھر ہم اس کی رگِ گردن کاٹ ڈالتے (۴۶) پھر تم میں سے کوئی بھی اس سے روکنے والا نہ ہوتا (۴۷) اور بے شک وہ تو پرہیزگاروں کے لیے ایک نصیحت ہے (۴۸) اور بے شک ہم جانتے ہیں کہ بعض تم میں سے جھٹلانے والے ہیں (۴۹) اور بے شک وہ کفار پر باعث حسرت ہے (۵۰) اور بے شک وہ یقین کرنے کے قابل ہے (۵۱) پس اپنے رب کے نام کی تسبیح کر جو بڑا عظمت والا ہے (۵۲)

سوره،، اقيامة ،،عبدالمومن سلفي

سورة القِیَامَة
شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
قیامت کے دن کی قسم ہے (۱) اور پشیمان ہونے والے شخص کی قسم ہے (۲) کیا انسان سمجھتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہ کریں گے (۳) ہاں ہم تو اس پر قادر ہیں کہ اس کی پور پور درست کر دیں (۴) بلکہ انسان تو چاہتا ہے کہ آئندہ بھی نافرمانی کرتا رہے (۵) پوچھتا ہےکہ قیامت کا دن کب ہو گا (۶) پس جب آنکھیں چندھیا جائیں گی (۷) اور چاند بے نور ہو جائے گا (۸) اور سورج اور چاند اکھٹے کیے جائیں گے (۹) اس دن انسان کہے گا کہ بھاگنے کی جگہ کہاں ہے (۱۰) ہر گز نہیں کہیں پناہ نہیں (۱۱) اس دن آپ کے رب ہی کی طرف ٹھکانہ ہے (۱۲) اس دن انسان کو بتا دیا جائے گا کہ وہ کیا لایا اور کیا چھوڑ آیا (۱۳) بلکہ انسان اپنے اوپر خود شاہد ہے (۱۴) گو وہ کتنے ہی بہانے پیش کرے (۱۵) آپ (وحی ختم ہونے سے پہلے) قرآن پراپنی زبان نہ ہلایا کیجیئے تاکہ آپ اسے جلدی جلدی لیں (۱۶) بے شک اس کا جمع کرنا اور پڑھا دینا ہمارے ذمہ ہے (۱۷) پھر جب ہم ا سکی قرأت کر چکیں تو اس کی قرأت کا اتباع کیجیئے (۱۸) پھر بے شک اس کا کھول کر بیان کرنا ہمارے ذمہ ہے (۱۹) ہر گز نہیں بلکہ تم تو دنیا کو چاہتے ہو (۲۰) اور آخرت کو چھوڑتے ہو (۲۱) کئی چہرے اس دن تر و تازہ ہو ں گے (۲۲) اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے (۲۳) اور کتنے چہرے اس دن اداس ہو ں گے (۲۴) خیال کر رہے ہوں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ دینے والی سختی کی جائے گی (۲۵) نہیں نہیں جب کہ جان گلے تک پہنچ جائے گی (۲۶) اورلوگ کہیں گے کوئی جھاڑنے والا ہے (۲۷) اور وہ خیال کرے گا کہ یہ وقت جدائی کا ہے (۲۸) اور ایک پنڈلی دوسری پنڈلی سے لپٹ جائے گی (۲۹) تیرے رب کی طرف اس دن چلنا ہوگا (۳۰) پھر نہ تو اس نے تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی (۳۱) بلکہ جھٹلایا اورمنہ موڑا (۳۲) پھر اپنے گھر والوں کی طرف اکڑتا ہوا چلا گیا (۳۳) (اے انسان) تیرے لیے افسوس پرافسوس ہے (۳۴) پھر تیرے لیے افسوس پر افسوس ہے (۳۵) کیاانسان یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا (۳۶) کیا وہ ٹپکتی منی کی ایک بوند نہ تھا (۳۷) پھر وہ لوتھڑا بنا پھر الله نے اسے بنا کر ٹھیک کیا (۳۸) پھر اس نے مرد و عورت کا جوڑا بنایا (۳۹) پھر کیا وہ الله مردے زندہ کردینے پر قادر نہیں (۴۰)

اتوار، 10 جنوری، 2016

فقه اور دعوت سلف

الجواب :
الحمد للہ:

سلف صالحین کے منہج پر کار فرما اور کتاب و سنت کو دلیل بنانے کی دعوت دینے والے کسی بھی  فقہی مذہب سے تعصب رکھنے کی دعوت نہیں دیتے، اور نہ ہی فقہی مذاہب کی کتب کو پڑھنے سے منع کرتے ہیں، اور نہ ہی اہل علم کی علمی آراء و اجتہادات کو عدم توجہ کا نشانہ بناتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ان کی دعوت  کو سمجھنے کیلئے  متعدد بنیادی باتیں ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
1-             فقہی مذاہب کے اہل علم اور ائمہ کرام بذاتہ خود دلیل نہیں ہیں، اور اس بات پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہے۔
چنانچہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
  کتاب و سنت سے واقف تمام  اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہر شخص کی بات قبول بھی کی جا سکتی ہے اور رد بھی کی جاسکتی ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ہر خبر کی تصدیق، اور ہر حکم کی تعمیل کرنا ضروری ہے، کیونکہ آپ ہی وہ شخصیت ہیں کہ جو بھی آپ کی زبان سے لفظ نکلتا ہے وہ خواہش پرستی نہیں ہوتی بلکہ وہ وحی ہوتی ہے" انتہی
" منهاج السنة " ( 6 / 190 – 191 )
 2-             حق بات مذاہب اربعہ میں محصور نہیں ہے، بلکہ حق بات وہی ہے جس پر شرعی نصوص ہوں۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
 "اہل سنت میں سے کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ ائمہ اربعہ کا اجماع حجت اور غلطی سے پاک ہے، بلکہ کسی نے یہ بھی نہیں کہا کہ حق بات انہی  چار مذاہب میں ہے، چنانچہ جو ان چاروں کی مخالفت کریگا وہ باطل ہے، لہذا اگر کوئی فقیہ جو ان چاروں ائمہ کرام کے پیرو کاروں میں سے نہیں ہے مثلاً: سفیان  ثوری، اوزاعی، لیث بن سعد، یا ان سے پہلے اور بعد کا کوئی مجتہد ائمہ اربعہ کی مخالفت میں کوئی بات کہہ دے تو اس بات کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کی روشنی میں دیکھا جائے گا، اس لیے راجح صرف وہی بات ہوگی جو دلیل کی بنیاد پر کہی جائے گی" انتہی
" منهاج السنة " (3 / 412)
 3-             کسی بھی مسئلہ کے بارے میں دلیل کا مطالبہ کرنا  کتاب و سنت کے دلائل سمجھنے کی استطاعت رکھنے والے کیلئے ضروری ہے، تاہم جو شخص کتاب و سنت کی نصوص  کو خود بخود  نہیں سمجھ سکتا تو وہ ان مذاہب  میں سے کسی مذہب کے عالم کی بات کو دلیل مانگے بغیر  قبول کر سکتا ہے، شرط یہ ہے کہ وہ اس عالم کے علم اور دینی حیثیت پر مکمل اعتماد کر سکتا ہو، لہذا عامی شخص کیلئے یہی واجب ہے، کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
 ( فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ )
ترجمہ: حسب استطاعت اللہ تعالی سے ڈرو۔[التغابن:16]
اسی طرح فرمایا:  ( لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا )
ترجمہ: اللہ تعالی کسی کو اس کی طاقت سے بڑھ کر کسی چیز کا مکلف نہیں بناتا۔[البقرة :286]
شیخ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
 "اندھی تقلید کیلئے حقیقی طور پر مجبور شخص  یعنی  جو  خود سے کوئی بات قرآن و سنت کی سمجھ نہیں سکتا، کیونکہ سمجھنے کیلئے اس کے پاس وسائل[عربی زبان وغیرہ] نہیں ہیں، یا  سمجھ تو سکتا ہے لیکن سخت مجبوریوں کی وجہ سے شرعی علوم حاصل نہیں کر سکا، یا  پھر ابھی ابتدائی تعلیمی  مراحل بتدریج عبور کر رہا ہے، تو ایسا شخص مذکورہ تقلید کر سکتا ہے، کیونکہ کوئی بھی شخص بیک وقت سارا علم حاصل نہیں کر سکتا،  چنانچہ ضرورت کی بنا پر اندھی تقلید کیلئے اسے معذور سمجھا جائے گا، کیونکہ اس کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔
 لیکن علم حاصل کرنے کی استطاعت رکھنے ولا  شخص اور امتی کے نظریے کو علم وحی پر فوقیت دینے والا شخص  معذور نہیں ہے" انتہی
" أضواء البيان " (7 / 588)
 4-             اہل علم اور تشنگان علم کیلئے فقہی مذاہب کو بھی پڑھنا چاہیے، اس کی درج ذیل وجوہات ہیں:
-        فقہی مذاہب  کے اقوال  اور دلائل پر نظر نہ رکھنے سے متفقہ اور اختلافی نکات  معلوم نہیں ہونگے، اور اس طرح ایسے مسائل میں اختلاف پیدا ہوگا جن کے بارے میں پہلے ہی مسلمانوں کا اتفاق ہے، جس کی وجہ سے سبیل المؤمنین  کی اتباع بھی  جاتی رہے گی۔
سیوطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
 "اجتہاد کی شرط یہ ہے کہ : صحابہ اور بعد میں آنے والے اہل علم کے اقوال کا علم ہو، متفقہ اور اختلافی نکات سے آگہی ہو، تا کہ اپنا کوئی  موقف اپناتے ہوئے سابقہ اجماع کی مخالفت نہ ہو" انتہی
" صون المنطق " ( ص 47 )
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
 "جو لوگ براہِ راست احادیث سے مسائل اخذ کرتے ہیں علمائے کرام کی شرعی مسائل سے متعلق گفتگو کو سامنے نہیں رکھتے۔۔۔ ان کے ہاں عجیب و غریب مسائل ہوتے ہیں، جن کے بارے میں آپ وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ اجماع کے خلاف ہیں، یا کم از کم آپ کے ذہن میں غالب گمان یہی رہے گا کہ یہ اجماع کے خلاف ہیں، اس لیے انسان کو چاہیے کہ اپنی فہم و فراست  کو فقہائے کرام کی تحریروں  کیساتھ منسلک کرے، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ آپ فقہائے کرام کو  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا درجہ دے دیں کہ صرف انہی کے موقف کو اپنایا جائے دوسروں کو رد کر دیا جائے" انتہی
" مجموع فتاوى ابن عثیمین " (26 / 177)
-        تمام اہل علم کی رائے جاننا بہت ہی ضروری چیز ہے؛ تا کہ کسی مسئلے اور فہم نص کے متعلق کوئی انوکھا موقف  نہ اپنا لے جو اس سے پہلے کسی نے نہ کہا ہو، اس طرح وہ سلف کے فہم کی مخالفت میں پڑ جائے گا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
 "ہر ایسی بات جو کسی بعد میں آنے والے شخص نے کہی ہو جو پہلے کسی نے نہیں کہی، تو یہ غلط ہوگا، جیسے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اپنے آپ کو کسی مسئلے کے بارے میں  ایسا موقف اپنانے سے دور ہی رکھنا جس کے بارے میں آپ کو سلف کی تائید حاصل نہ ہو" انتہی
" مجموع الفتاوى " (21 / 291)
-        فقہی مسائل میں بہت سے ایسے مسائل ہیں جن کے بارے میں کتاب و سنت سے واضح دلیل موجود ہے، تاہم  کسی عالم کیلئے پورے ذخیرہ احادیث  کو ازبر کرنا مشکل ہے، پھر بھی بفرض محال  اگر کوئی یاد کر بھی لے تو پورے ذخیرہ حدیث کو کسی بھی مسئلہ کی تلاش کے دوران حاضر دماغ رکھنا بہت ہی مشکل ہے، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ احکام سے متعلقہ احادیث معتاد جگہوں سے ہٹ کر کسی اور جگہ بھی پائی جا سکتی ہیں ، اس لیے فقہی مذاہب کی کسی مسئلہ کے بارے میں آراء پر نظر دوڑانے سے ، اور ان کے دلائل کا مطالعہ اور ان کی محنتوں سے استفادہ کرنے پر ہزاروں سالوں کی محنت کا خلاصہ آپ کے سامنے آجائے گا، اور اس مسئلے سے متعلق تمام دلائل بھی یکجا جمع ہو جائیں گے، اسی طرح آپ کو آراء کے مابین مقارنہ ، موازنہ اور ترجیح دینے میں بھی آسانی ہوگی، اور اسی کو "فقہ المقارن" کہتے ہیں۔
اور بہت سے فقہی جزوی مسائل ہیں جن کے بارے میں صریح نصوص موجود نہیں ہیں، چنانچہ ان کے لئے اجماع، قیاس، اور استصحاب کے ذریعے دلائل اخذ کیے جاتے ہیں، چنانچہ اگر کوئی انسان ذاتی رائے پر اکتفا کرے، اور فقہی مذاہب کی کتب سے استفادہ نہ کرے ، ان کے دلائل پر نظر نہ رکھے ، اور راجح موقف تلاش کرنے کیلئے جتنی بھی محنت کر لے پھر بھی ایک مجتہد  معرفتِ حق کیلئے تگ و دو کا حق ادا نہیں کرسکتا۔
شیخ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
 "ایسے مسائل جن کے بارے میں نص نہیں ہے تو درست بات یہی ہے کہ اس بارے میں فقہی مذاہب کے ائمہ کرام کے اجتہادات کو دیکھیں، اور یہ عین ممکن ہے کہ ان کا اجتہاد ہمارے اجتہاد سے بہتر ہو کیونکہ ان کے پاس ہم سے زیادہ علم اور تقوی تھا" انتہی
" أضواء البيان " (7 / 589)
واللہ اعلم.

موبايل كاring tune قرآن يا دعا ركهنا

الحمد للہ:

دعا کے الفاظ کو موبائل میں بطور گھنٹی استعمال کرنا مناسب نہیں ہے؛ کیونکہ دعا قرب الہی حاصل کرنے کا  ذریعہ اور عبادت ہے، اور عبادت کی تعظیم کرنا ضروری ہے، اس طرح سے اہانت کرنا درست نہیں ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 (وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ)
ترجمہ: جو بھی اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے تو یہ دلوں میں تقوی کا باعث ہے۔[الحج :32]
چنانچہ بہتر یہ ہے کہ موبائل میں ایسی گھنٹی استعمال کی جائے جس میں اللہ کا ذکر نہ ہو تا کہ ذکر الہی کی اہانت کا خدشہ باقی نہ رہے اور  نہ ہی موسیقی پر مشتمل کوئی حرام گھنٹی ہو ۔
شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
 "آج کل ہر کسی کے پاس موبائل ہے، تو کیا موبائل میں بطور گھنٹی  تلاوت، اذان، یا  تکبیر  کو استعمال کیا جا سکتا ہے، اس طرح جب بھی موبائل پر کال آتی ہے تو بیت الخلا ، مارکیٹ، اور گھر میں کہیں بھی تلاوت یا اذان وغیرہ کی آواز آنے لگتی ہے، اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
 "اذکار اور خصوصی طور پر قرآنی تلاوت کو موبائل میں بطور گھنٹی  استعمال کرنے کے لئے نہیں رکھنا چاہیے، اس کیلئے ایسی گھنٹی استعمال کریں جس میں موسیقی بھی نہ ہو، مثال کے طور پر الارم کی گھنٹی استعمال کرے یا ہلکی آواز والی کوئی بھی ٹون استعمال کرے، مگر موبائل میں قرآنی تلاوت یا اذکار کو بطور گھنٹی استعمال کرنا  بالکل بھی درست نہیں ہے، بلکہ یہ قرآن مجید اور اذکار کی توہین شمار ہوگا" انتہی
 http://www.alfawzan.ws/AlFawzan/sounds/00057-03.ra

ہفتہ، 9 جنوری، 2016

سوره القلم ،، ترجمه عبدالمومن سلفي

سورة القَلَم
شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
نۤ قلم کی قسم ہے اور اس کی جو اس سے لکھتے ہیں (۱) آپ الله کے فضل سے دیوانہ نہیں ہیں (۲) اور آپ کے لیے تو بے شمار اجر ہے (۳) اور بے شک آپ تو بڑے ہی خوش خلق ہیں (۴) پس عنقریب آپ بھی دیکھ لیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے (۵) کہ تم میں سے کون دیوانہ ہے (۶) بے شک آپ کا رب ہی خوب جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بہکا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے (۷) پس آپ جھٹلانےوالوں کا کہا نہ مانیں (۸) وہ تو چاہتے ہیں کہ کہیں آپ نرمی کریں تو وہ بھی نرمی کریں (۹) اور ہر قسمیں کھانے والے ذلیل کا کہا نہ مان (۱۰) جو طعنے دینے والا چغلی کھانے والا ہے (۱۱) نیکی سے روکنے والا حد سے بڑھاہوا گناہگار ہے (۱۲) بڑا اجڈ اس کے بعد بد اصل بھی ہے (۱۳) اس لئے کہ وہ مال اور اولاد والا ہے (۱۴) جب اس پر ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہتا ہے پہلوں کی کہانیاں ہیں (۱۵) عنقریب ہم اس کی ناک پر داغ لگائیں گے (۱۶) بے شک ہم نے ان کو آزمایا ہے جیسا کہ ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا جب انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ ضرور صبح ہوتے ہی اس کا پھل توڑ لیں گے (۱۷) اور انشاالله بھی نہ کہا تھا (۱۸) پھر تو اس پر رات ہی میں آپ کے رب کی طرف سے ایک جھونکا چل گیا درآنحالیکہ وہ سونے والے تھے (۱۹) پھر وہ کٹی ہوئی کھیتی کی طرح ہو گیا (۲۰) پھر وہ صبح کو پکارنے لگے (۲۱) کہ اپنے کھیت پر سویرے چلو اگر تم نے پھل توڑنا ہے (۲۲) پھر وہ آپس میں چپکے چپکے یہ کہتے ہوئے چلے (۲۳) کہ تمہارے باغ میں آج کوئی محتاج نہ آنے پائے (۲۴) اور وہ سویرے ہی بڑے اہتمام سے پھل توڑنے کی قدرت کا خیال کر کے چل پڑے (۲۵) پس جب انہوں نے اسے دیکھا تو کہنے لگےکہ ہم تو راہ بھول گئے ہیں (۲۶) بلکہ ہم تو بدنصیب ہیں (۲۷) پھر ان میں سے اچھے آدمی نے کہا کیامیں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ تم کس لیے تسبیح نہیں کرتے (۲۸) انہوں نے کہا ہمارا رب پاک ہے بے شک ہم ظالم تھے (۲۹) پھر ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر آپس میں ملامت کرنے لگے (۳۰) انہوں نے کہا ہائے افسوس بے شک ہم سرکش تھے (۳۱) شاید ہمارا رب ہمارے لیے اس سے بہتر باغ بدل دے بے شک ہم اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والے ہیں (۳۲) عذاب یونہی ہوا کرتا ہے اور البتہ آخرت کا عذاب تو کہیں بڑھ کر ہے کاش وہ جانتے (۳۳) بے شک پرہیزگاروں کے لیے ان کے رب کے ہاں نعمت کے باغ ہیں (۳۴) پس کیا ہم فرمانبرداروں کو مجرموں کی طرح کر دیں گے (۳۵) تمہیں کیا ہوگیا کیسا فیصلہ کر رہے ہو (۳۶) کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم پڑھتے ہو (۳۷) کہ بے شک تمہیں آخرت میں ملے گا جو تم پسند کرتے ہو (۳۸) کیا تمہارے لیے ہم نے قسمیں کھا لی ہیں جو قیامت تک چلی جائيں گی کہ بے شک تمہیں وہی ملے گا جو تم حکم کرو گے (۳۹) ان سے پوچھیئے کون سا ان میں اس بات کا ذمہ دار ہے (۴۰) کیا ان کے معبود ہیں پھر اپنے معبودوں کو لے آئيں اگر وہ سچے ہیں (۴۱) جس دن پنڈلی کھولی جائے گی اور وہ سجدہ کرنے کو بلائے جائیں گے تو وہ نہ کر سکیں گے (۴۲) ان کی آنکھیں جھکی ہوں گی ان پر ذلت چھا رہی ہو گی اوروہ پہلے (دنیا میں) سجدہ کے لیے بلائے جاتے تھے حالانکہ وہ صحیح سالم ہوتے تھے (۴۳) پس مجھے اور اس کلام کے جھٹلانے والوں کو چھوڑ دو ہم انہیں بتدریج (جہنم کی طرف) لے جائے گے اس طور پر کہ انہیں خبر بھی نہیں ہو گی (۴۴) اور ہم انکو ڈھیل دیتے ہیں بے شک ہماری تدبیر زبردست ہے (۴۵) کیا آپ ان سے کچھ اجرت مانگتے ہیں کہ جس کا تاوان کا ان پر بوجھ پڑ رہا ہے (۴۶) یا ان کے پاس غیب کی خبر ہے کہ وہ اسے لکھ لیتے ہیں (۴۷) پھر آپ اپنے رب کے حکم کا انتظار کریں اور مچھلی والے جیسے نہ ہوجائیں جب کہ اس نے اپنے رب کو پکارا اور وہ بہت ہی غمگین تھا (۴۸) اگر اس کے رب کی رحمت اسے نہ سنبھال لیتی تو وہ برے حال سے چٹیل میدان میں پھینکا جاتا (۴۹) پس اسے اس کے رب نے نوازا پھر اسے نیک بختو ں میں کر دیا (۵۰) اور بالکل قریب تھا کہ کافر آپ کو اپنی تیز نگاہوں سے پھسلا دیں جب کہ انہوں نے قرآن سنا اور کہتے ہیں کہ یہ تو دیوانہ ہے (۵۱) اور حالانکہ یہ قرآن تمام دنیا کے لیے صرف نصیحت ہے (۵۲)