اپنی زبان منتخب کریں

بدھ، 27 جنوری، 2016

اويس كرني كي حلات زندگی

اویس قرنی:  آپکی کنیت ابو عمرو، اور مکمل نام و نسب  یہ ہے:  اویس بن عامر بن جزء بن مالک قرنی، مرادی، یمنی۔
 آپ کا شمار کبار تابعین  اور نیک اولیاء میں ہوتا ہے، آپ نے عہد نبوی  پایا ہے، لیکن ان کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات نہیں ہوسکی،  اور حافظ ابو نعیم  رحمہ اللہ  نے " حلية الأولياء " (2/87) میں  اصبغ بن زید سے  نقل کیا ہے کہ : اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی والدہ کا خیال  رکھنے کی وجہ سے سفر نہیں کر سکتے تھے،  لہذا اویس قرنی رحمہ اللہ تابعی ہیں، صحابی نہیں ہیں۔
آپکی پیدائش و پرورش یمن ہی میں ہوئی ہے۔
آپ کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ  " سير أعلام النبلاء " (4/19) میں کہتے ہیں:
 "آپ متقی و زاہداور بہترین قدوہ تھے، اپنے وقت میں تابعین  کے سربراہ تھے، آپکا شمار  متقی اولیاء اللہ اور اللہ کے مخلص بندوں میں ہوتا تھا"
دوم:
امام نووی رحمہ اللہ نے  شرح صحیح مسلم  میں  آپکے فضائل میں ایک باب قائم کیا ہے، اور اس کے تحت امام مسلم کی روایت کردہ  احادیث  میں سے ایک حدیث: (2542) بھی ذکر کی:
 "اسیر بن جابر کہتے ہیں: " جب بھی یمن  کے حلیف قبائل  عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آتے تو عمران سے دریافت کرتے: "کیا تم میں اویس بن عامر ہے؟" ایک دن اویس بن عامر کو پا ہی لیا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا:  "تم اویس بن عامر  ہو؟" انہوں نے کہا: "ہاں"
پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا:  "قرن قبیلے کی شاخ مراد سے ہوں؟" انہوں نے کہا: "ہاں"
پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا:  "تمہیں برص کی بیماری لاحق تھی، جو اب ختم ہوچکی ہے، صرف ایک درہم  کے برابر جگہ باقی ہے؟" انہوں نے کہا: "ہاں"
پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا:  "تمہاری والدہ ہے؟" انہوں نے کہا: "ہاں"
پھر عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں حدیث نبوی  سنائی: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: (تمہارے پاس  یمن کے حلیف قبائل کے ساتھ  اویس بن عامر آئے گا، اس کا تعلق قرن قبیلے کی شاخ مراد سے ہوگا، اسے برص کی بیماری لاحق تھی، جو کہ ختم ہو چکی ہے، صرف ایک درہم  کے برابر باقی ہے،  وہ اپنی والدہ کیساتھ نہایت نیک سلوک کرتا ہے، اگر اللہ تعالی پر  قسم  بھی ڈال دے تو اللہ تعالی اس کی قسم پوری فرما دے گا، چنانچہ اگر  تم اس سے اپنے لیے استغفار کروا سکو ،تو  لازمی کروانا) لہذا اب آپ میرے لیے مغفرت کی دعا کر یں، تو انہوں نے  عمر رضی اللہ عنہ کیلئے مغفرت کی دعا فرمائی۔
 پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا: "آپ کہاں جانا چاہتے ہیں؟"
انہوں نے کہا: "میں کوفہ جانا چاہتا ہوں"
عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: "کیا کوفہ کے گورنر کے نام خط نہ لکھ دو؟ [آپ اسی کی مہمان نوازی میں رہو گے]"
تو انہوں نے کہا: "میں گم نام  رہوں  تو مجھے زیادہ اچھا لگے گا"
راوی کہتے ہیں: جب آئندہ سال  حج کے موقع پر  انکے قبیلے کا سربراہ ملا ، اور اس کی ملاقات عمر رضی اللہ عنہ سے ہوئی ، تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے اویس قرنی کے بارے میں استفسار کیا، تو اس نے جواب دیا کہ:  "میں اسے کسمپرسی اور ناداری کی حالت میں چھوڑ کر آیا ہوں"
تو عمر رضی اللہ عنہ نے اسے بھی حدیث نبوی  سنائی: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: (تمہارے پاس  یمن کے حلیف قبائل کے ساتھ  اویس بن عامر آئے گا، اس کا تعلق قرن قبیلے کی شاخ مراد سے ہوگا، اسے برص کی بیماری لاحق تھی، جو کہ ختم ہو چکی ہے، صرف ایک درہم  کے برابر باقی ہے،  وہ اپنی والدہ کیساتھ نہایت نیک سلوک کرتا ہے، اگر اللہ تعالی پر  قسم  بھی ڈال دے تو اللہ تعالی اس کی قسم پوری فرما دے گا، چنانچہ اگر  تم اس سے اپنے لیے استغفار کروا سکو ،تو  لازمی کروانا)
یہ آدمی بھی واپس جب اویس قرنی کے پاس آیا تو کہا: "میرے لیے دعائے استغفار کر دو"
اویس قرنی نے کہا: "تم  ابھی نیک سفر سے آئے ہو تم میرے لیے استغفار کرو"
اس نے پھر کہا: "میرے لیے  استغفار کرو"
اویس قرنی نے پھر وہی جواب دیا: "تم  ابھی نیک سفر سے آئے ہو تم میرے لیے استغفار کرو"
اور مزید یہ بھی کہا کہ: "کہیں تمہاری ملاقات عمر رضی اللہ عنہ سے تو نہیں ہوئی؟"
آدمی نے کہا: "ہاں میری ملاقات عمر رضی اللہ عنہ سے ہوئی ہے"
تو  اویس قرنی نے  ان کیلئے استغفار کر دیا، اور پھر لوگوں کو اویس قرنی کے بارے میں معلوم ہونا شروع ہوگیا، تو اویس قرنی  اپنا علاقہ چھوڑ کر چلے گئے۔
اس قصے کے راوی اسیر کہتے ہیں:  "میں نے انہیں ایک [خوبصورت]لباس دیا، تو جب بھی کوئی شخص انکا لباس دیکھتا تو کہتا: "اویس کے پاس یہ لباس کہاں سے آگیا!"
اسی طرح امام حاکم نے بھی " المستدرك " (3/455) میں  اویس قرنی کے فضائل  میں ایک عنوان قائم کیا ہے، اور ان کے بارے میں لکھاہے:
 "اویس اس امت کا راہب ہے" انتہی
عین ممکن ہے کہ اویس قرنی رحمہ اللہ کے فضائل  کے متعلق سب سے عظیم حدیث وہ ہو جس میں امت محمدیہ  میں سے ایک شخص کو لوگوں کی ایک بڑی تعداد کیلئے شفاعت کرنے کا   ذکر ہے، اور اس بات کا تذکرہ متعدد روایات میں ہے، ان میں سے صحیح ترین روایت  عبد اللہ بن ابی جدعاء کی مرفوع روایت ہے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (میری امت کے لوگوں میں سے ایک شخص ایسا بھی ہوگا  جس کی شفاعت کے ذریعے بنی تمیم سے بھی زیادہ  لوگ جنت میں داخل ہونگے) ترمذی: (2438) نے اسے روایت کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ حدیث "حسن صحیح" ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
اور اس شفاعت کرنے والے اس شخص کے بارے میں حسن بصری رحمہ اللہ سے صحیح ثابت ہے کہ حدیث میں شافع سے مراد اویس قرنی ہی ہے، اس بات کا ذکر دیگر مرفوع احادیث میں بھی ہوا ہے، لیکن وہ تمام کی تمام ضعیف ہیں۔
اویس قرنی رحمہ اللہ کے بارے میں مزید ضعیف روایات  ذکر ہوئی ہیں، جن میں ایک لمبی حدیث ہے، جس میں ہے کہ: (تمہارے پاس صبح کے وقت جنتیوں میں سے ایک شخص نماز پڑھے گا۔۔۔ وہ اویس قرنی ہے۔۔۔) الخ، اس حدیث میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ  کے مابین لمبا مکالمہ بھی ہے۔
 اس لمبی حدیث کو  أبو نعيم نے " حلیۃ الأولياء " (2/81) میں نقل کیا ہے، اور اس کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ بھی کیاہے ، جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے " سلسلہ ضعیفہ"  میں حدیث نمبر: (6276)  کے تحت کہا ہے کہ یہ حدیث "منكر جدا" یعنی سخت  ضعیف ہے۔
ابن جوزی رحمہ اللہ اپنی کتاب "الموضوعات" میں اویس قرنی کے بارے میں عنوان قائم کرنے کے بعد کہتے ہیں:
 "احادیث میں اویس قرنی کے بارے میں چند ایک  جملے صحیح ثابت ہیں، جو کہ اویس قرنی  رحمہ اللہ اور عمر رضی اللہ عنہ  کی باہمی گفتگو پر مشتمل ہیں، پھراس میں عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ سنائی تھی کہ : (تمہارے پاس  اویس  آئے گا، چنانچہ اگر تم   ان سے اپنے لیے استغفار کروا سکو ،تو  ضرور کروانا) لیکن قصہ گو لوگوں نے اس  حدیث کو  اتنا لمبا چوڑا کر کے بیان کیا جس کی تفصیل میں جانے کا کوئی فائدہ ہی نہیں " انتہی مختصراً
" الموضوعات " (2/44)
سوم:
علمائے کرام نے  آپ کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے کچھ قصص ذکر کیے ہیں جن سے آپ کی نیکی تقوی، اور زہد  عیاں  ہوتا ہے، چنانچہ ان  میں سے مشہور ترین  قصہ  حافظ ابو نعيم نے اپنی عظیم کتاب: " حلیۃ الأولياء "  (2/79) میں اپنی سند سے ذکر کیا ہے کہ:
 "ابو نضرہ، اسیر بن جابر سے بیان کرتے ہیں کہ: "ایک محدث کوفہ میں ہمیں حدیث بیان کر رہے تھے، جب حدیث بیان  کرنے سے فارغ ہوئے تو انہوں نے [سب کو ]کہا: "اب تم  یہاں سے چلے جاؤ"، تاہم کچھ  لوگ  باقی بچ گئے،  اور ان میں ایک شخص گفتگو کر رہا تھا، میں نے اس جیسی گفتگو پہلے نہیں سنی تھی، وہ شخص مجھے اچھا لگنے لگا، ایک دن وہ مجلس میں نہ آیا، تو میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا: تم جانتے ہو ایک شخص ہمیں اچھی اچھی باتیں بتلایا کرتا تھا؟ تو ایک شخص نے کہا:  ہاں میں جانتا ہوں، اس کا نام اویس قرنی ہے،  تو میں نے کہا: تو کیا تم اس کا مکان جانتے ہو؟ ، تو اس نے کہا: ہاں جانتا ہوں، تو ہم  اکٹھے ان کے کمرے تک پہنچے، ہمارے پہنچنے پر اویس باہر آئے، تو میں نے استفسار کیا: "بھائی! آپ آج کیوں نہیں آئے؟" تو  انہوں نے کہا: "میرے پاس آج پہننے کیلئے کپڑے نہیں تھے" اسیر کہتے ہیں کہ: "لوگ ان کے ساتھ مذاق  بہت کرتے تھے، اور اذیت پہنچاتے تھے" اسیر کہتے ہیں: میں نے ان سے کہا: "یہ لباس لے لو، اور پہن لو" اویس نے کہا: "ایسے مت کرو،  اگر انہوں نے یہ لباس پہنے مجھے دیکھ لیا تو اور زیادہ تکلیف دیں گے"، تاہم میرے اصرار پر انہوں نے وہ لباس پہن  ہی لیا، اور اپنے ساتھیوں کے پاس چلے گئے، وہ ابھی ان کے پاس پہنچے ہی تھے کہ  ان کے ساتھیوں نے  کہا: کسے دھوکہ دینے کیلئے اپنا یہ لباس پہنا ہے؟ یہ سن کر وہ واپس آئے، اور لباس اتار دیا، اور کہا: "دیکھ لیا؟!"
یہ معاملہ دیکھ کر میں لوگوں کے پاس آیا اور انہیں کہا: "تم  اس شخص سے آخر چاہتے کیا ہو؟! تم نے اسے سخت تکلیف میں مبتلا کیا ہوا ہے، کپڑے نہ ہوں تب بھی، اور کپڑے پہن لے تب بھی! "اسیر کہتے ہیں : "میں نے انہیں سخت ڈانٹ پلائی " انتہی
چہارم:
اویس قرنی رحمہ اللہ سے بہت سے زریں اقوال منقول ہیں، جن سے حکمت و دانائی چھلکتی ہے:
سفیان ثوری رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
 "اویس قرنی کی ایک چادر تھی، جو زمین پر بیٹھے ہوئے زمین پر لگتی تھی، اس پر وہ کہا کرتے تھے:
 "یا اللہ!  میں  ہر ذی روح  کے بھوکے اور ننگے ہونے پر تجھ سے معذرت چاہتا ہوں، میرے پاس میری پشت پر موجود کپڑا ، اور  پیٹ میں موجود خوراک ہی ہے"انتہی
 حاكم نے اسے " المستدرك " (3/458) میں روایت کیا ہے۔
خوف الہی اور ہمیشہ اللہ تعالی کو اپنا نگہبان سمجھنے کے بارے میں اویس قرنی رحمہ اللہ کا قول ہے:
 "اللہ کے عذاب سے ایسے ڈرو، کہ گویا تم نے سب لوگوں کا خون کیا ہوا ہے" انتہی
 حاكم نے اسے " المستدرك " (3/458) میں روایت کیا ہے۔
اصبغ بن زید کہتے ہیں:
 " کسی دن شام ہوتی تو اویس قرنی  کہتے: "آج کی رات رکوع کی رات ہے" تو صبح تک رکوع کرتے ، اور کبھی شام کے وقت کہتے: "آج کی رات سجدے کی رات ہے" تو صبح تک سجدے میں پڑے رہتے، اور بسا اوقات شام کے وقت اپنے گھر میں موجود اضافی کھانا پینا، لباس سب کچھ صدقہ کر دیتے، اور پھر کہتے: "یا اللہ! اگر کوئی بھوک سے مر گیا تو میرا مواخذہ مت کرنا، اور اگر کوئی ننگا فوت ہوگیا تو میرا مواخذہ مت کرنا" انتہی
اسی طرح ابو نعیم "حلیۃ الاولیاء"(2/87) میں کہتے ہیں:
 "صبح تک رکوع کرتے۔۔۔ صبح تک  سجدے میں پڑے رہتے"  کا مطلب یہ ہے کہ نماز میں رکوع اتنا لمبا کرتے تھے کہ صبح ہو جاتی، اور پھر دوسری رات میں سجدہ اتنا لمبا کرتے کہ صبح ہو جاتی تھی"
شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
 "مراد قبیلے کا ایک شخص اویس قرنی کے پاس سے گزرا، اور استفسار کیا:
 "  صبح کیسے ہوئی؟" تو اویس نے کہا:  "الحمد للہ  کہتے ہوئے میں نے صبح کی ہے"
اس نے کہا: "زندگی کیسے گزر رہی ہے؟"
انہوں نے کہا: "ایسے شخص کی کیا زندگی  جو صبح ہو جائے تو سمجھتا ہے کہ آج شام نہیں ہوگی، اور اگر شام ہو جائے تو سمجھتا ہے کہ صبح نہیں ہوگی، پھر [مرنے کے بعد ] جنت کی خوشخبری دی جائے گی، یا پھر جہنم کی۔
 قبیلہ مراد کے فرد! موت کی یاد کسی مؤمن کیلئے خوشی  باقی نہیں رہنے دیتی، اور اگر مؤمن کو اپنے اوپر واجب حقوق الہی  معلوم ہو جائیں تو اپنے مال میں سونا چاندی کچھ بھی نہ چھوڑے، [سارا صدقہ کر دے] اور اگر حق کے ساتھ کھڑا ہو جائے تو اس کا کوئی دوست بھی باقی نہ رہے" انتہی
" حلیۃ الأولياء " (2/83) اور حاکم نے اسے " المستدرك " (3/458) میں  بھی نقل کیا ہے۔
پنجم:
اکثر اہل علم  اس موقف پر ہیں کہ انکی وفات جنگ صفین   میں سن 37 ہجری میں ہوئی ہے، کہ انہوں نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر جنگ لڑی اور وہیں پر آپ شہید ہوئے، اس موقف کو حاکم رحمہ اللہ نے "مستدرک"(3/460) میں  شریک بن عبد اللہ، اور  عبد الرحمن بن ابی لیلی وغیرہ سے با سند بیان کیا ہے۔
جبکہ کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ انہوں نے آذربائیجان  کی جنگوں میں شرکت کی اور وہیں پر شہید ہوئے، دیکھیں: " حلیۃ الأولياء " (2/83 )
تاہم پہلے موقف کے اکثر اہل علم  قائل ہیں۔
واللہ اعلم.

استہزاء بالدین کی خطرناکی

استہزاء بالدین کی خطرناکی – شیخ صالح بن سعد السحیمی


The dangers of mockery of the religion – Shaykh Saaleh bin Sa'ad As-Suhaimee
استہزاء بالدین کی خطرناکی  
فضیلۃ الشیخ صالح بن سعد السحیمی حفظہ اللہ
(مدرس مسجد نبوی، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
نشرو اشاعت: عبدالمومن سلفي.
-----------------------------------------
mominsalafi.blogspot.com.
-----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(وہ شخص بھی دین اسلام سے خارج ہوجاتا ہے ) جو دین ِرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا اللہ کے ثواب([1]) یا اس کے عقاب کااستہزاء کرے(مذاق اڑائے)، اس کی دلیل یہ فرمان الہی ہے:
﴿قُلْ اَبِاللّٰهِ وَاٰيٰتِهٖ وَرَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُ وْنَ، لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ﴾  (التوبۃ: 65-66)
(کہہ دیں کیا تم اللہ اور اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ مذاق کر رہے تھے؟ بہانے مت بناؤ، یقیناً تم نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا)۔
اس کی شرح کرتے ہوئے شیخ صالح السحیمی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ مسئلہ بہت ہی زیادہ خطرناک ہے کیوں کہ ہمارے درمیان ایسے بہت سے لوگ رہتے ہیں جو اس پر عمل پیرا ہیں یعنی ’’الاستهزاء بالدين‘‘ دین کا مذاق اڑاتے ہیں، یا مسلمانوں کا ان کے دین پر عمل کرنے کی وجہ سے، یا پھر سنت پر چلنے کی وجہ سے ان کا مذاق اڑاتے ہیں، یا جو علماء ہیں امت کے ان کا مذاق اڑاتے ہیں تو یہ بہت خطرناک معاملہ ہے بلکہ یہ کفر ہے اگر کسی کا استہزاء مذاق اس کے دین کی  ہی وجہ سے اڑایا جائے تو یہ کفر ہے۔ اگر کسی شخص کا مذاق اڑایا جائے اور وہ یہ جانتا ہےاس کو یہ علم بھی دیا گیا ہے  جو  مذاق اڑا رہا ہے اور اس کو تنبیہ کی گئی اس کو نصیحت دی گئی پھر بھی وہ اس میں لگا رہتا ہے اور ’’الاستهزاء بالدين‘‘  کرتا ہے، اور اہل دین کا مذاق اڑاتا ہے،  یا سنت نبویہ کا مذاق اڑاتا ہے، یا جو سنت پر عمل کرتے ہیں ان کا، یا جو سنت کی طرف دعوت دیتے ہیں تو پھر ایسے شخص کے کفر میں کوئی شک نہیں ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ایسے شخص کا جو اس قسم کا  استہزاء اور مذاق کرتا ہے   اس سے بھی کم درجے کی بات کی تھی تو اس کو کافر قرار دیا ہے  ان آیات میں۔ حالانکہ وہ اس قسم کی بات تھی جو عام طور پر زبانوں  پر آ جاتی ہے لوگوں کے،  اس کے باوجود اتنی سخت ان کے لیے وعید  ہے اور یہ بات ثابت ہے کہ غزوۂ تبوک میں ایک شخص نے   یہ کہہ دیا تھا کہ:
’’مَا رَأَيْنَا مِثْلَ قُرَّائِنَا هَؤُلاءِ، أَرْغَبَ بُطُونًا، وَلا أَكْذَبَ ألسنًا، وَلا أَجْبَنَ عِنْدَ اللِّقَاءِ‘‘ (تفسیر الطبری)
( ہم نے اپنے ان  قاری  لوگوں  جیسے بڑے پیٹ والے، اور جھوٹی زبان والے، اور لڑائی کے وقت بزدلی دکھانے والے نہیں دیکھے)۔
اس کی مراد اس سے  نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے  تو سورۃ التوبہ کی یہ آیت نازل ہوئی جس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان کا  بھانڈا پھوڑ دیا ،جس طرح منافقین کا اللہ  سبحانہ و تعالیٰ نے راز فاش کر دیا  اور ان کو رسوا کیا ، اور صحیح بات یہ ہے کہ وہ شخص منافق نہیں تھا بلکہ اس کلمہ کی وجہ سے کافر ہوا تھا کیوں کہ اگر وہ پہلے ہی منافق ہوتا تو اس کا کفر تو ظاہر ہے منافق کا لیکن جس بات پر محقق علمائے کرام ہیں  وہ یہ ہے کہ وہ پہلے منافق نہیں تھا لیکن اس بات کی وجہ سے وہ کافر ہوا اور بعض روایات میں ہے اس نے  بعد میں  ان تمام چیزوں سے توبہ کر لی تھی لیکن شروع میں یہ کچھ ہوا اور اللہ تعالیٰ نے  اس کا  بھانڈا پھوڑ دیا  اپنے اس قول سے کہ:
﴿وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ قُلْ اَبِاللّٰهِ وَاٰيٰتِهٖ وَرَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ﴾ (التوبۃ: 65)
(اگر آپ اس سے پوچھیں جو  یہ بات انہوں نے کہی ہے تو وہ کہیں گے کہ یقیناً ہم تو محض کھیل کود میں اور دل لگی کے لیے ٹائم پاس کرنے کے لیے ایسی باتیں کر رہے تھے (تو اللہ تعالیٰ نےہی  جواب دیا) کہو کہ اللہ تعالیٰ اس کی آیات اور اس کا رسول ہی رہ گئے ہیں تمہارے مذاق اڑانے کے لیے! اب تم عذر  لنگ  مت تراشو، یقیناً تم کافر ہو چکے ہواپنے  ایمان کے بعد )۔
حالانکہ اس شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی کی لگام بھی پکڑی ہوئی تھی اور یہی کہتا جا رہا تھا  کہ: ’’إنما كنا نخوض ونلعب‘‘ (ہم تو محض ہنسی کھیل میں یہ بات کر رہے تھے) ’’ونقصِّرُ الطريق‘‘ (راستہ کاٹنے کے لیے) ٹائم پاس کے لیے ایسی بات کر رہے تھے جس طرح لوگ کرتے ہیں ،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی بار بار یہی آیت پڑھتے جاتے تھے:
﴿قُلْ اَبِاللّٰهِ وَاٰيٰتِهٖ وَرَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ،لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ﴾ (التوبۃ: 65-66)۔
لہذا ہمیں اس بات سے احتیاط کرنی چاہیے اور ڈرنا چاہیے یہ بہت خطرناک معاملہ ہے ، بعض لوگ مسلمانوں کا کبھی کبھار مذاق اڑاتے ہیں اس وجہ سے کہ وہ دین پر عمل کرتے ہیں  یا دین کی  کسی چیز پر سختی سے عمل پیرا ہوتے ہیں اور نہیں چھوڑتے ، کبھی ان کی داڑھی کی وجہ سے، یا ان کے مسواک کی وجہ، یا کپڑے ٹخنے سے اوپر رکھنے کی وجہ سے، سنت کی پیروی کرنے کی وجہ سے ان کا مذاق اڑاتے ہیں اگر اس کے مذاق اڑانے سے مقصود یہ دینی شعائر ہیں جس پر وہ عمل پیرا ہے اس وجہ سے وہ  محض اس کا مذاق اڑاتا ہے تو اس کے کفر میں کوئی شک نہیں ہے ۔ چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے ایسے لوگوں کو جو اس قسم کے  کلمات زبان سے لاپرواہی  سے نکال دیتے ہیں ،اور اس بارے میں سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں ،اور اس میں کوئی احتیاط نہیں برتتے انہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے ۔
پھر ان لوگوں کا کیا حال ہے جو اس امت کے علماء اور اللہ تعالیٰ کے اولیاء کو یہ کہتے ہیں کہ وہ علماء صرف حیض و نفاس کے علماء ہیں اور حکمرانوں کے علماء ہیں اور سلاطین  کے، یا انہیں کچھ بھی نہیں معلوم  سوائے جو شلوار کے اندر ہے بس اس سے باہر نہیں نکلتے،  یا پھر بالکل سادہ لوح قسم کے یہ علماء ہیں، اور وہ  احکام سوائے فلاں فلاں کے احکام  کے کوئی اور بات نہیں جانتے۔ چنانچہ اکثر لوگ جو اس قسم کی باتیں کرتے ہیں مختلف حزبی گروہوں اور تنظیوں میں سے وہ دین اور اس کے اہل کا مذاق اڑاتے ہیں۔
  اور موجودہ دور کے معاصر قلم کاروں رائٹروں  میں سے لوگوں نے جب یہ حدیث سنی کہ:
’’ضِرْسُ الْكَافِرِ أَوْ نَابُ الْكَافِرِ مِثْلُ أُحُدٍ وَغِلَظُ جِلْدِهِ مَسِيرَةُ ثَلَاثٍ‘‘ (صحیح مسلم 2853)
( قیامت کے دن کافر کی جو داڑھ ہےیا جونوکیلے دانت ہوتے ہیں وہ اُحد پہاڑ کے برابر ہوں گے اور اس کی جو جلد کی موٹائی ہے وہ تین رات کی مسافت کے برابر ہو گی )۔
تو وہ پھر بھی  احادیث  پر استہزاء مذاق  کرتے ہیں  جب کہ حدیث صحیح ہے تو اس نے ایک خطرناک کلمہ کہا جسے بیان کرنے والے کا دل کانپ اٹھے اور اس شخص کا کیا حال ہو گا جس نے یہ کہا ہے یا سنا ہے براہ راست تو اس شخص نے یہ بُری بات کی کہ جب اس کے دانت کا یہ حال ہے تو اس کا جو آلہ تناسل ہے اس کا حجم اور اس کی لمبائی  کتنی ہو گی نعوذ باللہ!  اور اسی طریقے سے بعض لکھنے والے جو یہ کہلاتے ہیں کہ ہم اسلامی رائٹر ہیں اور  اسلامی قلمکار ہیں وہ بھی بہت ساری سنتوں کا  اس طریقے سے مذاق اڑاتے ہیں۔ اور ان ہی میں سے ایک نے اپنی کتاب’’فقه البدوي‘‘ میں یہ کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو یہ فرمان ہے، حالانکہ صحیح حدیث ہے صحیح بخاری  وغیرہ میں  موجود ہے کہ:
’’لَنْ يُفْلَحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمُ امْرَأَةً‘‘ (صحیح بخاری 4425)
(وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جو اپنی حکومت اور فیصلے عورت کے ہاتھ میں دے دے )۔
تو اس نے اس بات کو گویا کہ غلط بتاتے ہوئے یہ کہا کہ پھر  حالانکہ ہم یہ دیکھتے ہیں(وہ کہہ رہا ہے) کہ اندراگاندھی تھی یا گولڈ میئرتھی  اسی طرح مارگریٹ تھیچر تھی اور اس کے ساتھ ملکہ بلقیس کو بھی جوڑ لیا اس نے اور اس قسم کی باتیں کرنے لگا ۔ ہم اس کو یہی کہیں گے جس طرح عربی میں شعر ہے کہ جس کی رہنمائی کوا کرتا ہو تو وہ اسے وہیں پر لے جا کر چھوڑے گا جہاں پر کتوں کی گلی سڑی لاشیں وغیرہ پڑی ہوں ،گند ہو، جہاں پر تعفن ہو ۔ تو جس کی رہنمائی ایسے ہو وہ اس کو وہیں پر پہنچا کر دم لے گا ۔ آخر وہ شخص کیا بتانا چاہتا ہے  کیا یہ عورتیں کامیاب تھیں؟ اور کون سی کامیابی ان کو حاصل ہوئی جس کو شرعی طور پر کامیابی کہا جاتا ہے؟ یہاں تک کہ جو ملکہ بلقیس رحمہا اللہ تھی وہ اسلام لے کر آ گئی تھیں ۔لیکن اسلام سے پہلے کیا وہ فلاح یاب تھیں  اور کامیاب تھیں؟اور جب وہ اسلام لائیں تو انہوں نے وہ مملکت اور وہ بادشاہت ان کی حکمرانی  چھوڑ دی تھی ۔ چنانچہ بعض لوگ ہر اس شخص کا  مذاق اڑاتے ہیں جو سنت کی تطبیق کرتا ہے اس پر عمل کرتا ہے،  ایسے شخص پر اگر حجت تمام ہو جائے اور اس پر مصر رہے تو وہ اپنی اس گھٹیا حرکت کی وجہ سے کافر ہو جاتا ہے العیاذ باللہ۔


[1] لفظ ’’أو ثواب الله‘‘ (یا اللہ کے ثواب)  اس طبع میں سے ہے جو کہ ام القری نے شائع کی جس میں اس لفظ کی وضاحت ہے جو کہ دیگر طبعات میں وارد ہے یعنی ’’أو ثوابه‘‘ (یا اس کے ثواب)۔

منگل، 26 جنوری، 2016

کتاب: "فضائل اعمال" از محمد زکریا کاندھلوی کا رد

الحمد للہ:

کتاب "فضائل  اعمال"  سب سے پہلے "تبلیغی نصاب" کے نام سے طبع ہوئی، یہ  محمد زکریا کاندھلوی کی تالیف ہے، جو کہ فضائل اعمال کے متنوع  ابواب پر مشتمل ہے، کتاب کے مؤلف نے اسے اپنی "تبلیغی جماعت" کیلئے معتبر کتاب کے طور پر تالیف کیا، چنانچہ یہ کتاب اس جماعت  کی معتمد بنیادی کتاب ہے، تبلیغی جماعت والے اسے اپنی مجالس، مدارس، اور مساجد میں پڑھتے اور پڑھاتے ہیں، یہ کتاب اصل میں اردو زبان میں لکھی گئی ہے، اسی وجہ سے عرب ممالک میں یہ کتاب مشہور نہیں ہے، بلکہ ہندوستان، پاکستان، اور افغانستان جیسے جن ممالک میں تبلیغی جماعت  مشہور ہے وہیں پر یہ کتاب بھی بہت مشہور ہے۔
شیخ حمود تویجری "القول البليغ" (ص/11) میں رقمطراز ہیں کہ:
 "تبلیغی لوگوں کے ہاں اہم ترین کتاب "تبلیغی نصاب "ہے، جسے تبلیغی جماعت کے کسی سربراہ نے لکھا ہے، جسکا نام "محمد زکریا کاندھلوی"ہے، تبلیغی جماعت والے اس کتاب کا خوب اہتمام کرتے ہیں، چنانچہ یہ لوگ اس طرح سے اس کتاب کی تعظیم کرتے ہیں جیسے اہل سنت "صحیح بخاری و مسلم " وغیرہ دیگر کتب احادیث کی کرتے ہیں۔
تبلیغی جماعت نے اس کتاب کو ہندوستانی اور دیگر غیر عرب اپنے چاہنے  والوں کیلئے معتمد و مستند  قرار دیا ہے، حالانکہ اس کتاب میں شرک و بدعات و خرافات کیساتھ ساتھ خود ساختہ اور ضعیف روایات کی بھر مارہے، چنانچہ حقیقت میں یہ گمراہی، فتنہ، اور کتابِ شر ہے" انتہی
شیخ شمس الدین افغانی اپنی کتاب "جهود علماء الحنفية في إبطال عقائد القبورية" (2/776) میں لکھتے ہیں:
 "بڑے دیوبندی علمائے کرام کی تالیفات کو دیوبندی  مقدس سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ کتب قبر پرستی، اور صوفی بت پرستی سے بھر پور ہیں، جیسے کہ ان کتابوں میں [متعدد کتابیں ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اس کتاب کا بھی ذکر کیا]"تبلیغی نصاب"ہے، اس کتاب کے نام کا مطلب ہے: نصابِ تبلیغ، اور منہجِ تبلیغ  ہے، اور ان دیوبندیوں نے ان کتب سے براءت کا اظہار نہیں کیا، نہ کبھی ان سے خبردار کیا ہے، ان کتابوں کی طباعت بھی بند نہیں کی، ان کتابوں کی خرید وفروخت سے منع نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان وغیرہ کے بازاروں میں ان کتابوں کی بھر مار ہے"انتہی
اور ایسے ہی "فتاوى اللجنة الدائمة" دوسرا ایڈیشن: (2/97) میں ہے کہ:
 " میں برطانیہ میں مقیم ایک مسلمان ہوں، میری چاہت ہے کہ زندگی کے تمام امور میں اہل سنت والجماعت کےمنہج کی اتباع کروں، اس بنا پرمیں نے بہت ساری دینی کتابیں اردو زبان میں پڑھیں، ان میں سے بعض کتابیں  جو ديوبندی تبلیغی جماعت سے منسوب مشہور ہندوستانی عالم ،شیخ الحدیث : محمد زکریا کاندھلوی کی لکھی ہوئی ہیں، کا مطالعہ کیا، انکی کتاب " تبلیغی نصاب" کے صفحہ نمبر : 113  پر پانچویں فصل میں ایک قصہ "رونق المجالس" نامی کتاب سے نقل کیا گيا ہے، جس میں ایک تاجرکا قصہ ہے جس نے اپنی وفات کے بعد وراثت کا مال بیٹوں کے مابین تقسیم کردیا، متوفی نے بہت سارے مال کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کا بال مبارک بھی ترکے میں چھوڑا تھا، چنانچہ چھوٹے بیٹے نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بال مبارک لے لیا، اوراسکےعوض باپ کی وراثت سے بڑے بھائی کے حق میں دستبردار  ہوگیا، پھریہ ہوا کہ جس نے مال لیا تھا کچھ دنوں کے بعد محتاج ہوگیا، اورجس نے بال مبارک لیا تھا وہ مالدار ہوگيا، اور جس چھوٹے بھائی نے بال مبارک لیا تھا جب اسکی وفات ہوگئی، توایک بزرگ نے اپنے خواب میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے فرما رہے ہیں کہ : "جسے کوئی ضرورت ہو وہ اس چھوٹے بھائی کی قبر کے پاس جائے، اور اللہ سے دعاکرے تاکہ اللہ اسکی دعاقبول فرمائے" (بحوالہ تبلیغی نصاب) ۔
 اسی طرح سے میں نے ایک دوسری کتاب ( تاریخ مشائخ چشت ) مذکورہ سابقہ مؤلف شیخ محمد زکریا کی ہے، اس کتاب کےصفحہ نمبر 232 پرایک جگہ شیخ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے بارے میں لکھا ہے کہ انکے مرض الموت کے وقت انکے ایک مرید نے ان کی عيادت کی، اور انکی حالت پرغم اور تکلیف کا اظہار کیا، تو شیخ انکےغم کو سمجھ گئے اور کہا: "غم نہ کرو کیونکہ زاہد وعابد کی موت نہیں ہوتی، بلکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجاتا ہے، اور وہ قبر ميں رہ کر لوگوں کی ضروریات پوری کرتا ہے، جس طرح سے اپنی زندگی میں لوگوں کی ضرورت پوری کیا کرتا تھا" ( بحوالہ کتاب تاریخ مشائخ چشت )
میں مذکورہ اشخاص کے بارے میں آپکی رائے سننا چاہتا ہوں، اوردرج ذیل سوالوں کا جواب مطلوب ہے:
الف- کیا مؤلف اور قصہ بیان کرنے والے کا یہ عقیدہ جو انکی کتابوں سے معلوم ہوا، اس کی بنا پر وہ مسلمان باقی رہے یا نہیں؟ کتاب وسنت کے دلائل سے واضح فرمائيں۔
ب- اگرمسلمان نہیں رہے تو کتاب وسنت کے حوالہ سے ملت اسلامیہ سے انکے نکلنے کی کیا دلیل ہے؟"
تو انکا جواب تھا:
" اس کتاب کے حوالے سے سوال میں مذکور چیزیں بدعت وخرافات پرمشتمل ہیں جس کی کوئی شرعی حقیقت نہیں ہے، اور اسکی کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی اصل نہیں ملتی، اس طرح کی باتیں کہنے والا یا اعتقاد رکھنے والا وہی ہوسکتا ہے جسکی فطرت بگڑچکی ہو ،  بصیرت ختم ہوچکی ہو، اور راہ راست سے بھٹک گیا ہو۔
 اور یہ دعوی کرنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بال ابھی تک موجود ہے اور اسے حاصل کرنے والے کے لئے مالداری اورخوشحالی کے اسباب مہیا ہوتے ہیں، نیز خواب میں نبی کريم صلی اللہ عليہ وسلم کو ديکھنے کا دعوی کرنا اور يہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں اس شخص کی قبر کے پاس جاکر دعا کرنے کی وصیت فرما رہے ہیں، یہ ساری باتيں جھوٹ اور فریب ہیں جسکی کوئی دلیل نہیں ہے۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:  (یقیناً شیطان میری شکل اختیار نہیں کرسکتا ہے ) [متفق علیہ]
لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو قبروں کے پاس جاکر اللہ سے دعاکرنے کا حکم کیسے دے سکتے ہیں؟ حالانکہ  خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں اس سے امت کو منع کیا ، اور سختی کے ساتھ اس سے اجتناب کرنے کا حکم دیا ہے، اور انبیاء و نیک لوگوں کے بارے میں غلو اور انکی موت کے بعد انکو وسیلہ بنانے سے منع فرمایا ۔
جس  وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تواللہ تعالی نے آپکے ذریعے سے دین اور نعمت مکمل کردی تھی ، چنانچہ اب شریعت میں کمی یا بیشی نہیں کی جاسکتی۔
 اوریہ اعتقاد رکھنا کہ قبروں کے پاس دعا قبول ہوتی ہے بے بنیاد بدعت ہےجسکی شریعت مطہرہ میں کوئی گنجائش نہیں ہے، اگر وہ اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو ، یا اللہ کے ساتھ صاحب قبر کو بھی پکارے، یا مدفون شخص کو  نفع و نقصان کا مالک سمجھے، تو یہ عمل صاحبِ بدعت کو شرک اکبرتک پہنچا سکتا ہے، کیونکہ نفع ونقصان دینے والا صرف اللہ سبحانہ وتعالی  ہی ہے۔
اسی طرح سے یہ اعتقاد رکھنا کہ زاہد وعابد کی موت نہیں ہوتی بلکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجاتا ہے، اوروہ  اپنی قبر سے لوگوں کی ضروریات اسی طرح پوری کرتا ہےجیسے وہ اپنی زندگی میں انکی ضروریات پوری کرتا تھا ، یہ غلط اعتقاد گمراہ اور صوفیوں کے فاسد عقائد ميں سے ہے، جس کی کوئی دلیل بھی نہیں ہے۔
بلکہ آیات وصحيح احادیث میں واضح طور پر اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ اس دنیا میں ہرانسان نے مرنا ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
    ( إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ )
ترجمہ: بلاشبہ آپکو بھی موت آئے گی، اور وہ بھی مر جائیں گے۔  الزمر/30
اور ایسے ہی فرمایا: ( وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ )
ترجمہ: ہم نے آپ سے پہلے کسی بھی بشر کو سرمدی زندگی نہیں بخشی، اگر آپ فوت ہوگئے تو کیا وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے؟!۔  الأنبياء/34
( كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ )
ترجمہ: ہر جان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔الأنبياء/35
اسی طرح صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان مرجاتا ہے تو تین چیزوں کے علاوہ اسکے سارے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں، 1) علم ، جس سے لوگ مستفید ہو رہے ہوں، 2) نیک اولاد جو والدین کے لئےدعا کرے، 3) صدقہ جاریہ۔
قبر میں میت اپنے لئے نفع ونقصان کے مالک نہیں ہيں، لہذا جسکی یہ کیفیت ہو وہ بدرجہ اولی کسی اورکو نفع ونقصان نہیں پہنچا سکتا، اور ایسی ضروریات پورا کرنے کا مطالبہ غیر اللہ سے کرنا جنہیں صرف اللہ تعالی ہی پوری کرسکتا ہے، انکا مطالبہ میت سے کرنا شرک اکبرہے، اور اس سے متصادم عقیدہ رکھنے والا شخص کفر اکبر کا مرتکب ہے جو اسے –نعوذ باللہ-ملت سے خارج  کرسکتا ہے۔
کیونکہ اس نے قرآن و حدیث کے دلائل کا انکار کیا ہے، اس پر اللہ تعالی سے خالص توبہ کرنا واجب ہے، اوراسطرح کے اعمال ِبد کا ارتکاب نہ کرنے کا عزم کرنا ضروری ہے، اور اللہ کی خوشنودی کا حصول اورجنت کی کامیابی اورجہنم سے نجات حاصل کرنے کے لئے اہل سنت والجماعت اورسلف صالحین کے منہج کی اتباع کرنا ضروری ہے۔"انتہی
ایسے ہی "الموسوعة الميسرة فی الأديان والمذاهب والأحزاب المعاصرة" (1/322) میں ہے کہ:
 " [تبلیغی جماعت والے] عرب ممالک میں اپنے اجتماعات میں "ریاض الصالحین" پڑھتے ہیں، اور غیر عرب ممالک میں "حیاتِ صحابہ"اور "تبلیغی نصاب" پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں، مؤخر الذکر کتاب خرافات، اور ضعیف احادیث سے بھر پور ہے "انتہی
خلاصہ کلام یہ ہے کہ: اہل علم مسلسل "تبلیغی نصاب" کتاب سے بچنے کی تلقین کرتے آئے ہیں، اسی کتاب کا دوسرا نام: "فضائل اعمال" ہے، چنانچہ عوام الناس کو یہ کتاب نہیں پڑھنی چاہئے، بلکہ انہیں احادیث کی صحیح کتب پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے، ان کتابوں کو پڑھیں جن کے مؤلفین نے اہل سنت و الجماعت  کے منہج پر اپنی کتابیں تحریر کی ہیں، لیکن ایسی کتابیں جو خرافات اور جھوٹ پر مشتمل ہوں  ایسی کتابوں کیلئے ایک مسلمان کے دل و دماغ میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے۔
واللہ اعلم

اتوار، 24 جنوری، 2016

امام ابو خنيفه كي معلومات

امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ فقيہ ملت اور عراق كے عالم دين تھے، ان كا نام نعمان بن ثابت التيمى الكوفى اور كنيت ابو حنيفہ تھى، صغار صحابہ كى زندگى ( 80 ) ہجرى ميں پيدا ہوئے اور انہوں نے انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ جب كوفہ آئے تو انہيں ديكھا تھا، اور انہوں نے عطاء بن ابى رباح سے روايت كى ہے اور يہ ان كے سب سے بڑے شيخ اوراستاد تھے، اور شعبى وغيرہ بہت ساروں سے روايت كرتے ہيں.
امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ نے طلب آثار كا بہت اہتمام كيا اور اس كے ليے سفر بھى كيے، رہا فقہ اور رائے كى تدقيق اور اس كى گہرائى كا مسئلہ تو اس ميں ان كا كوئى ثانى نہيں جيسا كہ امام ذہبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ان كى سيرت كے ليے دو جلديں دركار ہيں "
ابو حنيفہ فصيح اللسان تھے اور بڑى ميٹھى زبان ركھتے تھے، حتى كہ ان كے شاگرد ابو يوسف رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" سب لوگوں سے زيادہ بہتر بات كرنے والے اور سب سے ميٹھى زبان كے مالك تھے "
ورع و تقوى كےمالك، اور اللہ تعالى كى محرمات كا سب سے زيادہ خيال ركھنے والے تھے، ان كے سامنے دنيا كا مال و متاع پيش كيا گيا تو انہوں نے اس كىطرف توجہ ہى نہ دى، حتى كہ قضاء كا منصب قبول كرنے كے ليے انہيں كوڑے بھى مارے گئے يا بيت المال كا منصب لينے كے ليے ليكن انہوں نے انكار كر ديا "
بہت سارے لوگوں نے آپ سے بيان كيا ہے، آپ كى وفات ايك سو پچاس ہجرى ميں ہوئى اس وقت آپ كى عمر ستر برس تھى.
ديكھيں: سير اعلام النبلاء ( 16 / 390 - 403 ) اور اصول الدين عند ابى حنيفۃ ( 63 ).
رہا حنفى مسلك تو يہ مشہور مذاہب اربعہ ميں شامل ہوتا ہے، جو كہ سب سے پہلا فقہى مذہب ہے، حتى كہ يہ كہا جاتا ہے: " فقہ ميں لوگ ابو حنيفہ كے محتاج ہيں "
حنفى اور باقى مسلك كے يہ امام ـ ميرى مراد ابو حنيفہ مالك، شافعى اور احمد رحمہم اللہ ـ يہ سب قرآن و سنت كے دلائل سمجھنے كے ليے جتھاد كرتے، اور لوگوں كو اس دليل كے مطابق فتوى ديتے جو ان تك پہنچى تھى، پھر ان كے پيروكاروں نے اماموں كے فتاوى جات لے كر پھيلا ديے اور ان پر قياس كيا، اور ان كے ليے اصول و قواعد اور ضوابط وضع كيے، حتى كہ مذہب فقھى كى تكوين ہوئى، تو اس طرح حنفى، شافعى، مالكى اور حنبلى اور دوسرے مسلك بن گئے مثلا مذہب اوزاعى اور سفيان ليكن ان كا مسلك تواتر كےساتھ لكھا نہ گيا.
جيسا كہ آپ ديكھتے ہيں كہ ان فقھى مذاہب كى اساس كتاب و سنت كى اتباع پر مبنى تھى.
رہا رائے اور قياس كا مسئلہ جس سے امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ اخذ كرتے ہيں تو اس سے خواہشات و ھوى مراد نہيں، بلكہ يہ وہ رائے ہے جو دليل يا قرائن يا عام شريعت كے اصولوں كى متابعت پر مبنى ہے، سلف رحمہ اللہ مشكل مسائل ميں اجتھاد پر " رائے " كا اطلاق كرتے تھے، جيسا كہ اوپر بيان ہوا ہے اس سے مراد خواہش نہيں.
امام ابو حنيفہ نے حدود اور كفارات اور تقديرات شرعيۃ كے علاوہ ميں رائے اور قياس سے اخذ كرنے ميں وسعت اختيار كى اس كا سبب يہ تھا كہ امام ابو حنيفہ حديث كى روايت ميں دوسرے آئمہ كرام سے بہت كم ہيں ان سے احاديث مروى نہيں كيونكہ ان كا دور باقى آئمہ كے ادوار سے بہت پہلے كا ہے، ابو حنيفہ كے دور ميں عراق ميں فتنہ اور جھوٹ بكثرت تھا اس كے ساتھ روايت حديث ميں تشدد كى بنا پر احاديث كى روايت بہت كم كى.
يہاں ايك چيز كى طرف متنبہ رہنا چاہيے كہ جو حنفى مذہب امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كى طرف منسوب ہے وہ سارے اقوال اور آراء نہيں ہيں جو ابو حنيفہ كے كلام ميں سے ہيں، يا پھر ان كا امام ابو حنيفہ كى طرف منسوب كرنا صحيح ہے.
ان اقوال ميں سے بہت سارے ايسے ہيں جو امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كى نص كے خلاف ہيں، انہيں اس ليے ان كا مذہب بنا ديا گيا ہے كہ امام كى دوسرى نصوص سے استنباط كيا گيا ہے، اسى طرح حنفى مسلك بعض اوقات ان كے شاگردوں مثلا ابو يوسف اور محمد كى رائے پر اعتماد كرتا ہے، اس كے ساتھ شاگردوں كے بعض اجتھادات پر بھى، جو بعد ميں مسلك اور مذہب بن گيا، اور يہ صرف امام ابو حنيفہ كے مسلك كے ساتھ خاص نہيں، بلكہ آپ سارے مشہور مسلكوں ميں يہى بات كہہ سكتے ہيں.
اگر كوئى يہ كہے:
اگر مذاہب اربعہ كا مرجع اصل ميں كتاب و سنت ہے، تو پھر فقھى آراء ميں ان كا ايك دوسرے سے اختلاف كيوں پاتے ہيں ؟
اس كا جواب يہ ہے:
ہر امام اس كے مطابق فتوى ديتا تھا جو اس كے پاس دليل پہنچى ہوتى، ہو سكتا ہے امام مالك رحمہ اللہ كے پاس ايك حديث پہنچى ہو وہ اس كے مطابق فتوى ديں، اور وہ حديث امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كے پاس نہ پہنچى تو وہ اس كے خلاف فتوى ديں، اور اس كے برعكس بھى صحيح ہے.
اسى طرح ہو سكتا ہے امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كے پاس كوئى صحيح سند سے حديث پہنچے تو وہ اس كے مطابق فتوى دے ديں، ليكن وہى حديث امام شافعى رحمہ اللہ كے پاس كسى دوسرى سند سے پہنچے جو ضعيف ہو تو اس كا فتوى نہ ديں، بلكہ وہ حديث كے مخالف اپنے اجتھاد كى بنا پر دوسرا فتوى ديں، اس وجہ سے آئمہ كرام كے مابين اختلاف ہوا ہے ـ يہ اختصار كے ساتھ بيان كيا گيا ہے ـ ليكن ان سب كے ليے آخرى مرجع و ماخذ كتاب و سنت ہے.
پھر امام ابو حنيفہ اور دوسرے اماموں نے حقيقت ميں كتاب و سنت كى نصوص سے اخذ كيا ہے، اگرچہ انہوں نے اس كا فتوى نہيں ديا، اس كى وضاحت اور بيان اس طرح ہے كہ چاروں اماموں نے يہ بات واضح طور پر بيان كى ہے كہ اگر كوئى بھى حديث صحيح ہو تو ان كا مذہب وہى ہے، اور وہ اسى صحيح حديث كو لينگے، اور اس كا فتوى دينگے، اور وہ اس پر عمل كرينگے.
امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كا قول ہے: " جب حديث صحيح ہو تو وہى ميرا مذہب ہے "
اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:
" كسى شخص كے ليے حلال نہيں كہ وہ ہمارے قول كو لے اور اسے علم ہى نہ ہو كہ ہم نے وہ قول كہاں سے ليا ہے "
اور ايك روايت ميں ان كا قول ہے:
" جو شخص ميرى دليل كا علم نہ ركھتا
 ہو اس كے ليے ميرى كلام كا فتوى دينا حرام ہے "
ايك دوسرى روايت ميں اضافہ ہے:
" يقينا ہم بشر ہيں "
اور ايك روايت ميں ہے:
" آج ہم ايك قول كہتے ہيں، اور كل اس سے رجوع كر لينگے "
اور رحمہ اللہ كا قول ہے:
" اگر ميں كوئى ايسا قول كہوں جو كتاب اللہ اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث كے مخالف ہو تو ميرا قول چھوڑ دو "
اور امام مالك رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ميں تو ايك انسان اور بشر ہوں، غلطى بھى كر سكتا ہوں اور نہيں بھى، ميرى رائے كو ديكھو جو بھى كتاب و سنت كے موافق ہو اسے لے لو، اور جو كتاب و سنت كے موافق نہ ہو اسے چھوڑ دو "
اور ان كا يہ بھى قول ہے:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بعد ہر ايك شخص كا قول رد بھى كيا جا سكتا ہے، اور قبول بھى كيا جا سكتا ہے، صرف نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا قول رد نہيں ہو سكتا صرف قبول ہو گا "
اور امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ميں نے جو كوئى بھى قول كہا ہے، يا كوئى اصول بنايا ہے اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ميرے قول كے خلاف حديث ہو تو جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا قول ہے وہى ميرا قول ہے "
اور امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نہ تو ميرى تقليد كرو، اور نہ مالك اور شافعى اور اوزاعى اور ثورى كى، تم وہاں سے لے جہاں سے انہوں نے ليا ہے "
اور ان كا يہ بھى قول ہے:
" امام مالك، اور امام اوزاعى اور ابو حنيفہ كى رائے يہ سب رائے ہى ہے، اور يہ ميرے نزديك برابر ہے، صرف حجت اور دليل آثار ـ يعنى شرعى دلائل ـ ہيں "
امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كى سيرت اور ان كے مسلك كے متعلق يہ مختصر سا نوٹ تھا، آخر ميں ہم يہ كہتے ہيں كہ:
ہر مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ ان اماموں كى فضيلت اور مقام و مرتبہ كو پہچانے، كہ ان لوگوں نے اس كى دعوت نہيں دى كہ ان كے قول كو كتاب اور صحيح حديث سے بھى مقدم ركھا جائے، كيونكہ اصل ميں تو كتاب اللہ اور سنت رسول اللہ كى اتباع ہے نہ كہ لوگوں كے اقوال.
اس ليے كہ ہر ايك شخص كا قول ليا بھى جا سكتا ہے، اور اسے رد بھى كيا جا سكتا ہے، ليكن رسول صلى اللہ عليہ وسلم اكيلے ايسے ہيں جن كا قول رد نہيں كيا جا سكتا، ان كے قول كو قبول كيے بغير كوئى چارہ نہيں، جيسا كہ امام مالك رحمہ اللہ كہا كرتے تھے

ہفتہ، 23 جنوری، 2016

سورة التكوير ، كا اردو ترجمه ، عبدالمومن سلفي

سورة التّکویر
شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
جب سورج کی روشنی لپیٹی جائے (۱) اور جب ستارے گر جائیں (۲) اور جب پہاڑ چلائے جائیں (۳) اور جب دس مہینے کی گابھن اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں (۴) اور جب جنگلی جانور اکھٹے ہوجائیں (۵) اور جب سمندر جوش دیئے جائیں (۶) اور جب جانیں جسموں سے ملائی جائیں (۷) اور جب زندہ درگور لڑکی سے پوچھا جائے (۸) کہ کس گناہ پر ماری گئی تھی (۹) اور جب اعمال نامے کھل جائیں (۱۰) اور آسمان کا پوست اتارا جائے (۱۱) اورجب دوزخ دھکائی جائے (۱۲) اورجب جنت قریب لائی جائے (۱۳) تو ہر شخص جان لے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے (۱۴) پس میں قسم کھاتا ہوں پیچھے ہٹنے والے (۱۵) سیدھے چلنے والے غیب ہو جانے والے ستارو ں کی (۱۶) اور قسم ہے رات کی جب وہ جانے لگے (۱۷) اور قسم ہے صبح کی جب وہ آنے لگے (۱۸) بے شک یہ قرآن ایک معزز رسول کا لایا ہوا ہے (۱۹) جو بڑا طاقتور ہے عرش کے مالک کے نزدیک بڑے رتبہ والا ہے (۲۰) وہاں کا سردار امانت دار ہے (۲۱) اور تمہارا رفیق کوئی دیوانہ نہیں ہے (۲۲) اور اس نے اس کو کُھلے کنارے پر دیکھا بھی ہے (۲۳) اور وہ غیب کی باتوں پر بخیل نہیں ہے (۲۴) اور وہ کسی شیطان مردود کا قول نہیں ہے (۲۵) پس تم کہاں چلے جا رہے ہو (۲۶) یہ تو جہان بھرکے لیے نصیحت ہی نصیحت ہے (۲۷) اس کے لیے جو تم میں سے سیدھا چلنا چاہے (۲۸) اور تم توجب ہی چاہو گے کہ جب الله چاہے گا جو تمام جہان کا رب ہے (۲۹)

 

بدھ، 20 جنوری، 2016

امام بخاري كا مختصر تعارف

امام بخاری رحمہ اللہ اور صحیح بخاری کا مختصر تعارف  
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مرتب ،،عبدالمومن سلفي
بسم اللہ الرحمن الرحیم
صحیح بخاری
اس کتاب کا نام مؤلف نے ’’الجامع الصحیح‘‘([1])رکھا ہے اور چھ لاکھ احادیث  میں سے چن کر اس مجموعے کو تیار فرمایا۔ آپ رحمہ اللہ نے اس کی تنقیح وتہذیب میں بہت محنت ومشقت فرما‏ئی اور ان کی صحت کا بار بار  اچھی طرح سے جائزہ لیا۔ یہاں تک کہ کوئی بھی حدیث اس وقت تک اس میں نہ لکھتے جب تک غسل کرکے دو رکعات نہ پڑھتے، پھر اس حدیث کو اس کتاب میں شامل کرنے کے بارے میں اللہ تعالی سے استخارہ فرماتے۔ آپ اس میں کوئی بھی مسند روایت نہیں لائے ہیں مگر وہ رسول اللہ e سے صحیح طور  پر متصل سند کے ساتھ ثابت ہےکہ جس میں رجال کی عدالت وضبط کی شرائط مکمل طور پر پائی جاتی ہیں۔
آپ نے اس کی تکمیل سولہ سال  میں مکمل فرمائی۔ پھر اسے امام احمد، یحیی بن معین اور علی بن المدینی رحمہم اللہ وغیرہ پر پیش فرمایا تو انہوں نے اس کی تعریف فرمائی اور اس کی صحت کی گواہی دی۔
ہر دور کے علماء نے اسے تلقی بالقبول کے شرف سے نوازا۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’هو أجل كتب الإسلام، وأفضلها بعد كتاب الله تعالى‘‘
(اسلام کی کتابوں میں سے سب سے بہترین کتاب ہے ، اوراللہ کی کتاب کے بعد  سب سے افضل ترین کتاب ہے)۔
 صحیح بخاری کی احادیث کی تعداد مکرر کے ساتھ 7397 ہیں۔ اور اگر مکرر کو حذف کردیا جائے تو 2602 احادیث ہیں۔  جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تحقیق کرکے بیان فرمایا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ
آپ أبو عبد الله محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة بن بردزبه([2]) ہیں، الجعفي ہیں جو کہ ان کے مولٰی تھے (یعنی ان کے پردادا مغیرہ نے  الجعفی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا) اور آپ فارسی الاصل تھے۔
آپ شہربخاریٰ میں شوال سن194ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ یتیمی کی حالت میں اپنی والدہ کی گود میں پروان چڑھے۔  طلب حدیث کے لیے رحلہ (سفر) کا آغاز آپ نے سن 210ھ میں کیا۔ اور مختلف شہروں میں طلب حدیث کے لیے منتقل ہوتے گئے۔ چھ سال تک حجاز میں اقامت اختیار فرمائی۔ اور الشام ومصر والجزيرة والبصرة والكوفة وبغدادگئے۔ آپ "حافظے کے غایت درجے پر فائز تھے۔ان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ کسی بھی کتاب کو ایک مرتبہ دیکھتے اور ایک  ہی نظر میں اسے حفظ کرلیتے۔
آپ زہد وورع کی زندگی گزارتے اور حکمرانوں وامراء سےدور رہتے(یعنی کسی لالچ میں ان کے پاس نہ جاتے)۔ ساتھ ہی آپ بہادر اور سخی بھی تھے۔
ان کی تعریف ان کے ہم عصر علماء اوران کے بعد میں آنے والوں نے بھی کی ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ما أخرجت خراسان مثله‘‘
(خراسان نے ایسا شخص کبھی پیدا نہیں کیا)۔
 امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ما تحت أديم السماء أعلم بحديث رسول الله صلّى الله عليه وسلّم، ولا أحفظ من محمد بن إسماعيل البخاري‘‘
(آسمان کے چھت کے نیچے حدیث رسول e کا محمد بن اسماعیل البخاری "سے بڑھ کر علم رکھنے والا اور حفظ کرنے والا کوئی نہیں)۔
فقہ میں بھی مجتہد تھے۔ اور حدیث سے مسائل کا استنباط کرنے میں آپ کی عجیب باریک بینی تھی۔ اس بات پر گواہ ان کے وہ تراجم (باندھے گئے باب) ہيں جو انہوں نے اپنی صحیح بخاری میں قائم کیے ہیں۔
آپ رحمہ اللہ کی وفات 13 دن کم 62 سال کی عمر میں عید الفطر کی رات سن256ھ  میں خَرْتَنْك کے مقام پر ہوئی جو کہ سمرقند  سے دو فرسخ کے فاصلے پر ایک علاقہ ہے۔ اور اپنی تالیفات میں آپ نے بہت سا علمی ذخیرہ چھوڑا ہے۔ اللہ تعالی آپ پر رحم ‌فرمائے اور مسلمانوں کی طرف سے انہیں جزائے خیر عطاء فرمائے۔


[1] صحیح بخاری کا مکمل نام کچھ یوں ہے: ’’الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه‘‘۔

منگل، 19 جنوری، 2016

سلفی دعوت کے اصول – شیخ محمد ناصر الدین البانی

سلفی دعوت کے اصول – شیخ محمد ناصر الدین البانی


Principles of Salafee Da'awah – Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen Al-Albaanee
شیح محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ فرماتے ہیں:
وہ سب سے اچھی بات جس سے ہم اپنا کلام شروع کرسکتے ہیں وہ ارشاد باری تعالی ہے کہ:
﴿وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا  ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ﴾ (التوبۃ: 100)
(اور مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے سب سے پہلے لوگ اور وہ لوگ جنہوں نے بطور احسن ان کی اتباع کی، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے اور ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ابدالآباد۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے)
اس آیت میں سے ہر مسلمان وہ صحیح منہج اخذ کرسکتا ہے جس پر وہ دعوت گامزن ہے جسے بعض قدیم وجدید علماء نے سلفی دعوت کا نام دیا ہے، اور بعض نے اسے  انصار السنة المحمدیة نام دیا ، جبکہ بعض نے دعوت اہلحدیث کا نام دیا۔ اور یہ تمام اسماء ایک معنی کی طرف دلالت کرتے ہیں اور یہ وہ معنی ہے جس سے قدیم وجدید مسلمانوں کی جماعتوں کی جماعتیں غافل ہیں اس پر متنبہ نہیں ہوئی یا ہوئی تو ہیں مگر اس کی کماحقہ رعایت نہیں کی۔۔۔