اپنی زبان منتخب کریں

جمعرات، 11 فروری، 2016

فرقہ ماتریدیہ اور اہل السنۃ کے درمیان اختلاف کی کون کونسی شکلیں ہیں؟

الحمد للہ:
"ماتریدیہ"ایک بدعتی اور اہل کلام سے تعلق رکھنے والا فرقہ ہے، جو کہ ابو منصور ماتریدی کی طرف منسوب ہے، انہوں نے اسلامی عقائد اور دینی حقائق ثابت کرنے کیلئے ابتدائی طور پر معتزلی اور جہمیوں کے مقابلے میں عقلی اور کلامی دلائل پر زیادہ انحصار کیا۔
ماتریدیہ متعدد مراحل سے گزرے ہیں، اور انہیں اس نام سے اس فرقے کے مؤسس کی وفات کے بعد ہی پہچانا گیا، جیسے اشعری ابو الحسن الاشعری کی وفات کے بعد ہی مشہور ہوئے، اس فرقے کے تمام مراحل کو چار بنیادی مرحلوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
تاسیسی مرحلہ:
اس مرحلہ میں معتزلہ کے ساتھ انکے بہت ہی زیادہ مناظرے ہوئے، یہ مرحلہ ابو منصور ماتریدی پر قائم تھا، اسکا مکمل نام محمد بن محمد بن محمود ماتریدی سمرقندی، "ماتریدی"یہ نسبت جائے پیدائش کی طرف ہے، جو کہ ما وراء النہر کے علاقے میں سمرقند کے قریب ہی ایک محلے کا نام ہے۔
انہیں عقل کو مقدم کرنے والوں کا سُرخیل سمجھا جاتا ہے، اور شرعی نصوص اور آثار و روایات سے انکا بہت ہی کم لگاؤ تھا، جیسے کہ اکثر متکلمین اور اہل اصول کا حال رہا ہے۔
ابو منصور ماتریدی متعدد مسائل میں جہمی عقائد سے متاثر تھا، جن میں سے اہم ترین یہ ہیں: صفات خبریہ کی شرعی نصوص میں تاویل ، مرجئہ کی بدعات اور اقوال کا بھی قائل تھا۔
ابو منصور، ابن کلاب (متوفی 240 ہجری) سے بھی متاثر تھا، اسی ابن کلاب نے اللہ تعالی کے بارے میں "کلام نفسی" کا عقیدہ ایجاد کیا تھا، جس سے ابو منصور بھی متاثر تھا۔
تکوینی مرحلہ:
یہ دور ماتریدی کے شاگردوں اور بعد میں اس سے متاثر ہونے والے لوگوں کا تھا، اس دور میں ماتریدیہ مستقل ایک کلامی فرقہ بن چکا تھا؛ ابتدائی طور پر سمرقند میں ظہور پذیر ہوا، اور اپنے شیخ اور امام کے افکار نشر کرنے شروع کئے، اور انکا دفاع بھی کیا، اس کے لئے انہوں نے تصانیف بھی لکھیں، یہ لوگ فروع میں امام ابو حنیفہ کے مقلد تھے، اسی لئے ماتریدی عقائد انہی علاقوں میں زیادہ منتشر ہوئے۔
اس مرحلے کے قابل ذکر افراد میں ، ابو القاسم اسحاق بن محمد بن اسماعیل الحکیم سمرقندی، اور ابو محمد عبد الكريم بن موسى بن عيسى بزدوی ہیں۔
ماتریدی عقائد کیلئے اصول و قواعد اور تالیفات کا مرحلہ:
اس مرحلے میں تالیف کثرت سے ہوئی ، اور ماتریدی عقائد کیلئے دلائل جمع کئے گئے، اس لئے مذہب کی بنیاد کیلئے گذشتہ تمام مراحل سے زیادہ اہم مرحلہ یہی ہے۔
اس مرحلے کے قابل ذکر علماء میں :ابو معين نسفی، اورنجم الدين عمر نسفی شامل ہیں۔
انتشار اور مذہبی پھیلاؤ کا مرحلہ:
ماتریدیہ کیلئے انتہائی اہم ترین مرحلہ ہے، کہ اس مرحلے میں ماتریدی مذہب خوب پھیلا حتیٰ کہ اس سے زیادہ پھیلاؤ کبھی نہیں ہوا تھا؛ اسکی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے دولہ عثمانیہ کی خوب تائید کی ، اسی وجہ سے ماتریدی مذہب وہاں تک پھیلا جہاں تک دولہ عثمانیہ پھیلی، چنانچہ یہ مذہب زمین کے مشرق، مغرب، عرب ممالک ، غیر عرب ممالک، ہندوستان، ترکی، فارس، اور روم تک پھیل گیا۔
اس مرحلے میں متعدد کبار محققین نے اپنا نام پیدا کیا، جیسے: کمال بن ہمام۔
ماتریدی فرقہ کے پیروکار ہندوستان اور اسکے آس پاس کے مشرقی ممالک چین، بنگلہ دیش، پاکستان، اور افغانستان میں بہت زیادہ ہیں، اسی طرح اس فرقے کا پھیلاؤ ترکی، روم، فارس، اور ما وراء النہر کے علاقوں میں خوب ہوا، ابھی تک ان علاقوں میں اکثریت انہی کی ہے۔
دوسری بات:
ماتریدی اور اہل السنۃ کے مابین اختلافات کی شکلیں مندرجہ ذیل ہیں:
ماتریدیہ کے ہاں اصولِ دین(عقائد) کی ماخذ کے اعتبار سے دو قسمیں ہیں:
1- الٰہیات (عقلیات): یہ وہ مسائل ہیں جن کو ثابت کرنے کیلئے عقل بنیاد ی ماخذ ہے، اور نصوص شرعیہ عقل کے تابع ہیں، اس زمرے میں توحید کے تمام مسائل اور صفاتِ الٰہیہ شامل ہیں۔
2- شرعیات (سمعیات): یہ وہ مسائل ہیں جن کے امکان کے بارے میں عقل کے ذریعے جزمی فیصلہ کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کو ثابت یا رد کرنے کرنے کیلئے عقل کو کوئی چارہ نہیں ؛ جیسے: نبوّات، عذابِ قبر، احوالِ آخرت، یاد رہے! کہ کچھ ماتریدی نبوّات کوبھی عقلیات میں شمار کرتے ہیں۔
مندرجہ بالابیان میں بالکل واضح منہج اہل السنۃ والجماعۃ کی مخالفت پائی جاتی ہے؛ اس لئے کہ اہل السنۃ کے ہاں قرآن و سنت اور اجماعِ صحابہ ہی مصادر اور مآخذ ہیں، اور دین کے تمام مسائل انہی مآخذ سے لئے جاتے ہیں، کسی مسئلہ کیلئے کوئی خاص ماخذ نہیں ہے۔
پھر انہوں نے اصولِ دین کو عقلیات، اور سمعیات دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ایک نئی بدعت ایجاد کی، یہ تقسیم ایک بے بنیاد فکر پر ہے اور وہ ہے کہ عقائد ایسے اصولوں پر مبنی ہیں جنکا عقل سے ادراک ناممکن ہے، اور نہ ہی نصوص بذاتہٖ خود ثابت کر سکتی ہیں، بلکہ عقلی دلیل سے ثابت ہونے والے امور کیلئے تائید کا کام کرتی ہیں۔
- ماتریدیہ نے بھی دیگر کلامی فرقوں معتزلہ اور اشاعرہ کی طرح معرفتِ الٰہیہ کتاب وسنت سے پہلے عقل کے ذریعے حاصل کرنے کے متعلق گفتگو کی اور اسے واجب کہہ دیا، بلکہ اسے مکلف کیلئے واجب اولی بھی قرار دیا ، اس سے بڑھ کر یہاں تک کہہ دیا کہ اگر اس نے یہ نہ کیا تو اسے سزا بھی ہوگی اور اسکا کوئی بھی عذر قبول نہیں کیا جائےگا، چاہے انبیاء اور رسل کی بعثت سے پہلے ہی کیوں نہ ہو۔
یہ بات کہہ کر انہوں نے معتزلہ کی موافقت کی ،حالانکہ یہ بات واضح طور پر باطل ہے، اور کتاب و سنت کے دلائل سے متصادم بھی ہے، کیونکہ کتاب وسنت ہمیں بتلاتے ہیں کہ ثواب اور عذاب شریعت کے بعد ہی ہوتا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
(وما كنا معذبين حتى نبعث رسولاً)
ترجمہ اور ہم اس وقت تک عذاب نہیں دیا کرتے جب تک اپنا رسول نہ بھیج دیں۔ الاسراء/15
اس لئے بندوں پر سب سے پہلے واجب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کو ایک مانیں، اور اسکے دین میں داخل ہوجائیں، نا کہ اس معرفت کے پیچھے بھاگتے پھریں جو اللہ تعالی نے فطرتی طور پر ساری مخلوقات کی گھُٹّی میں ڈال دی ہے۔
- جبکہ ماتریدیہ کے ہاں توحید کا مفہوم یہ ہے کہ : اللہ تعالی کو ذات میں ایک سمجھا جائے، اسکا کوئی ہمسر نہیں، اور نہ ہی اسکا کوئی حصہ دار ہے، وہ اپنی صفات میں یکتا ہے، اسکا کوئی بھی شبیہ نہیں ہے، اور اپنے افعال میں اکیلا ہے، مخلوقات ایجاد کرنے میں اس کا کوئی بھی شراکت دار نہیں ہے۔
اسی لئے انہوں نے توحید کی اس قسم کو ثابت کرنے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا، کیونکہ ان کے ہاں "الٰہ" کا مطلب: وہ ذات ہے جو پیدا کرنے کی طاقت رکھتی ہو، اس نظریے کو مضبوط کرنے کیلئے انہوں نے معتزلہ اور جہمیہ کی ایجاد کردہ عقلی اور فلسفی قیاس آرائیوں کو استعمال کیا، یہ ایسے دلائل ہیں جن کی سلف ، ائمہ کرام، اور علمِ کلام و فلسفہ کے سُرخیل علماء نے تردید کی ، اور یہ روزِ روشن کی طرح عیاں کردیا کہ جو انداز قرآن مجید نے بیان کیا ہے وہی صحیح ترین ہے۔
- ماتریدی اللہ تعالی کی صرف آٹھ صفات کے قائل ہیں، اگرچہ ان آٹھ کی تفصیل کے بارے میں بھی انکا آپس میں اختلاف ہے، وہ آٹھ صفات یہ ہیں: حیات، قدرت، علم، ارادہ، سماعت، بصارت، کلام اور تخلیق۔
اسکے علاوہ جتنی بھی صفاتِ خبریہ صفاتِ ذاتیہ یا فعلیہ ہیں جن پر قرآن و سنت کے دلائل موجود ہیں؛عقل کے دائرہ کار میں داخل نہ ہونے کی وجہ سے ان سب کا انہوں نے انکار کردیا، اور ان کے سب دلائل میں من مانی تاویلیں کر ڈالیں۔
جبکہ اہل السنۃ والجماعۃ اسماء و صفات کے بارے میں یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ : تمام کی تمام صفات توقیفی ہیں، جن صفات کے بارے میں نصوص موجود ہیں ان کو بلا تشبیہ ثابت مانتے ہوئے ایمان لاتے ہیں، اور اللہ تعالی کو تمام صفاتِ ذمیمہ یا ایسی صفات جن سے مخلوق کے ساتھ مماثلت ہو ان تمام صفات سے پاک جانتے ہیں، اور تمام اسمائے حسنیٰ اور صفات کو بغیر تعطیل کے مانتے ہیں، جبکہ کیفیت اللہ کے سپرد کرتے ہیں، اور ان صفات کا معنی و مفہوم شانِ الٰہی کے مطابق بیان کرتے ہیں، اس لئے کہ انکی دلیل فرمانِ الہی ہے:
(ليس كمثله شيء وهو السميع البصير)
ترجمہ: کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں اور وہ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ الشوری/ 11
- ماتریدیہ کہتے ہیں کہ اللہ کی کلام حقیقت تو ہے لیکن وہ کلامِ نفسی ہے جو اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ قائم ہے، اللہ کی کلام سُنی نہیں جاسکتی، اورجو آواز سنائی دیتی ہے وہ اصل میں قدیم نفسی صفت کی تعبیر ہوتی ہے، اسی لئے انکے ہاں لوگوں کے ہاتھوں میں لکھا ہوا قرآن مجید مخلوق ہوسکتا ہے، اور اس قول کی وجہ یہ لوگ معتزلہ سے جاملے، اور اجماع ائمہ کی مخالفت کر ڈالی، حالانکہ ائمہ کرام نے اس عقیدے کو غلط قرار دیا بلکہ قرآن مجید کو مخلوق کہنے والے کو کافر بھی کہا ہے۔
- ماتریدیہ ایمان کے بارے میں کہتے ہیں کہ : ایمان صرف دل سے تصدیق کا نام ہے، لیکن بعض لوگوں نے زبان سے اقرار کو بھی ایمان کی تعریف میں شامل کیاہے، لیکن ایمان میں کمی زیادتی کا سب ماتریدی انکار کرتے ہیں، اور ماتریدی ایمان کے متعلق استثناء کی حرمت کے قائل ہیں، انکے ہاں ایمان اور اسلام دونوں ہی مترادف ہیں، ان میں کوئی فرق نہیں، اوراس قول کی وجہ سے وہ مرجئہ سے جا ملے اور اہل السنۃ والجماعۃ کی مخالفت کی اس لئے اہل السنۃ کے ہاں ایمان یہ ہے کہ:
دل سے تصدیق ، زبان سے اقرار، اور اعضاء سے عمل کا نام ایمان ہے جوکہ نیکی کرنے سے بڑھتا ہےاور نافرمانی کرنے سے کم ہوتا ہے۔
- ماتریدی آخرت میں اللہ کے دیدار کو تو مانتے ہیں لیکن کس جہت میں اللہ کا دیدار ہوگا اسکا انکارکرتے ہیں، حالانکہ یہ دونوں باتیں آپس میں ٹکراتی ہیں، کہ شروع میں تو ایک چیز کو ثابت کیا ہے لیکن بعد میں اسکی حقیقت کا انکار کردیا۔
اس بارے میں مزیدمعلومات کیلئے، دیکھیں:
- "الموسوعة الميسرة في الأديان والمذاهب والأحزاب المعاصرة" (1/ 95-106(
- "الماتريدية" ، ماسٹر لیول کا مقالہ ہے، از باحث: احمد بن عوض الله لهيبی حربی۔
- "الماتريدية وموقفهم من توحيد الأسماء والصفات" ، یہ بھی ماسٹر لیول کا مقالہ ہے ، از باحث: شمس الدین افغانی سلفی
- "منهج الماتريدية في العقيدة" از ڈاکٹر محمد بن عبد الرحمن خميس۔
- "الاستقامة" از شيخ الاسلام ابن تيميہ
- "مجموع فتاوى ورسائل العثيمين" (3/ 307-308)
تیسری بات:
ماتریدی فرقہ کے بارےمیں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ جنت میں جائےگا یا جہنم میں ، بلکہ انکا شمار دیگر مسلمانوں میں ہوگا، اگرچہ انکے کچھ اقوال بدعتی ہیں، لیکن انکے یہ اقوال کفریہ نہیں ہیں، تو ہر حالت میں یہ لوگ دیگر مسلمانوں کی طرح ہیں:
( لَيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلَا يَجِدْ لَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا * وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا )
ترجمہ: (نجات کا دارومدار) نہ تمہاری آرزؤں پر ہے اور نہ اہل کتاب کی آرزؤں پر، جو بھی برے کام کرے گا اس کی سزا پائے گا اور اللہ کے سوا کسی کو اپنا حامی و مددگار نہ پائے گا٭ اور جو کوئی اچھے کام کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ وہ ایمان لانے والا ہو تو ایسے ہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرہ بھر بھی حق تلفی نہیں کی جائے گی۔ النساء/123-124
اس لئے بدعتی ہونے کے اعتبار سے ہر فرد کا حکم علیحدہ سے ہوگا، کیونکہ جن لوگوں نے تاویل کی ، یا اجتہاد کیا توہر دو میں سے کسی کا عذر قابلِ قبول ہوگا،اور کچھ کو غلطی کی بنا پر مؤاخذے کا سامنا بھی کرنا پڑیگا، اور اسکا معاملہ اللہ کی مشیئت کے تحت ہوگا، چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو معاف کردے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اشاعرہ کے چند علماء کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"جو لوگ انکے بارے میں علم، صداقت، اور عدل و انصاف سے مطالعہ کرے تو اسے ان میں کچھ افراد ایسے بھی ملیں گے جنکی اسلام کیلئے قابل قدر اور گرانقدر خدمات ہیں، انہوں نے بہت سے مُلحد اور بدعتی لوگوں کا علمی رد کیا ہے، اور اہل السنۃ کی مدد بھی کی۔
لیکن انہوں نے معتزلہ سے جب یہ قاعدہ لیا کہ عقل ہی اصل ہےتو انہیں چاہئے تھا کہ وہ اسے مسترد کرتے اور اسکے لوازم کا بھی انکار کرتے لیکن ایسا نہ کرنے کی بنا پر ان سے ایسے اقوال صادر ہوئے جنہیں اہل علم نے یکسر مسترد کردیا۔
اور لوگ اسی وجہ سے ان کے بارے میں دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے:
انکے نیک کام اور جد وجہد دیکھ کر کچھ نے انکے بارے میں تعریفی کلمات کہے ۔
اور کچھ نے انکی گفتگو میں بدعات اور باطل اقوال دیکھ کر انکی مذمت کرڈالی۔
جبکہ بہتر یہ تھا کہ میانہ روی اختیار کی جاتی۔
میانہ روی صرف انہیں لوگوں کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ تمام اہل علم جماعتوں کے بارے میں یہی کہا جائے گا، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اپنے تمام مؤمن بندوں سے انکی نیکیاں قبول کرے، اور انکی برائیوں سے تجاوز کرے،
(رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ )
ترجمہ: اے ہمارے پروردگا ر! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں' ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے۔ اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔[الحشر/10]
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تلاشِ حق کیلئے خوب محنت کی اور اس دوران کچھ معاملات میں اس سے غلطی ہوگئی تو امید ہے کہ اللہ تعالی اسکی غلطی کو معاف کردے گا، اس لئے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی اور مؤمنین کی دعا کو قبول کیا ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے:
{ربنا لا تؤاخذنا إن نسينا أو أخطأنا}
ترجمہ: اے ہمارے پروردگار! اگر ہم سے بھول چوک اور غلطی ہو جائے تو اس پر گرفت نہ کرنا (البقرة: 286)
اور جس شخص نے اپنے وہم گمان پر اعتماد کرتے ہوئے مخالفت کرنے والے پر زبان درازی کی، حالانکہ مخالفت کرنے والے نے اجتہاد کیا تھا اور اسی کو درست سمجھتے ہوئے اسکا قائل ہوا لیکن حقیقت میں وہ غلطی پر تھا، تو زبان درازی کرنے والے کو بھی اسی زبان درازی یا اس سے بھی سخت کلمات کا سامنا ہوسکتا ہے، کیونکہ نور نبوت اور رسالت والا دور گزر چکا ہے چونکہ انہی کی وجہ سے ہدایت اور راہنمائی ملتی تھی اور دلوں سے شک وشبہات زائل ہوجاتے تھے ، چنانچہ متاخرین میں کثرت سے شبہات اور اختلافات پیدا ہوئے اور بہت ہی کم لوگ ایسے ملیں گے جو غلطی سے بچ پائے ہوں۔۔۔" انتہی
"درء تعارض العقل والنقل" (2/102-103)
و اللہ اعلم 

خوارج كي ايك نيي شكل ، Isis

السلام عليكم.
يه تحرير :شيخ عبدالمعيد المدني حفظ الله
نشر و اشاعت : عبدالمومن سلفي
يه تحرير ان web sites  پر موجود هین
--------------------------------------------
Www.mominsalafi.blogspot.com
Www.talashhaq.blogspot.com
-------------------------------------------م
جدید خوارج کی ایک شکل
شیخ عبد المعید مدنی حفظہ اللہ
 ایک فتنہ جو اس وقت جگہ جگہ موجود ہے۔ وہ سیکولر تعلیم یافتہ حضرات کا ہی ہے۔ یہ لوگ فکر و خیال کی انتہا پسندی کے اس عروج پر ہیں کہ ان کے نزدیک ہندوستان میں ایک بھی عالم نہیں ہے جس سے وہ استفادہ کر سکیں۔ یہ گروہ انتہائی درجہ کا سطحی،دین سے بے خبر، اجڈ اور خوش فہم ہے۔ یہ لوگ شخصیت پرست، ا نٹر نیٹ پرست، ٹی وی پرست ہیں۔ ان کے نزدیک نہ دین کی اہمیت ہے نہ علم کی نہ علماء کی۔ یہ [سفہاء الاحلام احداث الاسنان] کی ٹیم ہے۔ یہ اتنے جاہل ہیں کہ ان کو کوئی بھی عیار دین کے نام پر فریب دے سکتا ہے اور دے رہا ہے۔ ان کا کل دین، ایمان، علم [ربیعی سروری] مناقشے ہیں۔
ربیعی اور سروری مناقشے کیا ہیں؟ اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
ڈاکٹرربیع المدخلی ایک معتبر محدث عالم اور مصنف ہیں۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ میں انھوں نے تعلیم حاصل کی۔ چند سال انھوں نے جامعہ سلفیہ بنارس میں پڑھایا اور بقیہ عمر جامعہ اسلامیہ میں گذار دی۔ کلیۃ الحدیث کے استاذ سے لے کر الدراسات العلیاء کے صدر تک رہے اور ایک بہترین استاذ، صالح اور مخلص سلفی عالم کی حیثیت سے ان کی پہچان بنی۔ علامہ البانی، شیخ ابن باز، شیخ ابن عثیمین رحمہم اللہ اور شیخ صالح فوزان نے ان کی دعوتی اور تحریری کاموں کی بھر پور تائید و توثیق کی۔
شیخ سرور زین العابدین ایک شامی سلفی عالم ہیں۔ انھوں نے بھی جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ میں تدریس کا کام کیا ہے۔ ان دونوں علماء کے درمیان عقیدہ و منہج پر کافی قلمی مباحثے ہوئے ہیں۔ جانا یہ جاتا ہے کہ شیخ سرور اخوانی تحریکیت کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں اور خاص اخوانی حاکمیت کے نظریے کے وہ حامل ہیں۔ اس مناقشے نے اتنا طول کھینچا کہ موافقت مخالفت میں ربیعی اور سروری دو گروپ بن گئے۔ اس مناقشے نے طول یوں بھی پکڑا کہ سید قطب سارے عالم عرب میں چھائے ہوئے تھے۔ ہر حلقے میں ان کی تحریروں کی طوطی بولتی تھی۔ شیخ ربیع نے سب سے پہلے تفصیل کے ساتھ ان کی تحریروں کا جائزہ لیا اور ان کی اندر موجود کمیوں کو آشکارا کیا خاص کر ان کمیوں کا جن کا تعلق دین کے اصولی اور منہجی امور سے تھا۔ اس پر اخوانی تحریکی اور وہ سلفی جنھوں نے اخوانیت کی شراب محبت پی رکھی تھی اور ان کی تحریکیت کو قبول کر رکھا تھا اتنے سیخ پا ہوئے کہ ان کے خلاف اندر باہر ایک محاذ کھول دیا اور انھیں مطعون اور مسترد کرنے کے سارے علمی غیر علمی حربے استعمال کر ڈالے۔ اس طرح مناقشے نے مستقلاً ایک طویل مناقشت اور منافست میں بدل گئے۔ یہ مناقشہ تقریباً تیس سالوں سے چل رہا ہے اور دونوں کے طرف دار بن گئے ہیں اور کتاب، پمفلٹ، رسائل، ویب سائٹ اور انٹر نیٹ کے ذریعے یہ مناقشہ جاری ہے۔ یہ مناقشہ در اصل علماء کے درمیان تھا لیکن اسے عوامی بنا دیا گیا۔ اسے عوامی بنانے میں فتنہ پروری کا ہاتھ ہے۔ یہی مناقشہ لوگوں کے سلفی ہونے نہ ہونے کا معیار بن گیا ہے۔ جن نادانوں نے اسے معیار بنا دیا ہے اب اس معیار کے مطابق ہندوستان میں شاید کوئی سلفی عالم نہیں رہ گیا ہے۔ جہلاء، خارجی سوچ کے سفہاء الأحلام احداث الأسنان ربیعی تلوار لیے سارے اہل حدیث علماء کا سر قلم کر رہے ہیں۔
بات تو اصولی طور پر شیخ ربیع ہی کی صحیح تھی لیکن مناقشات جب طول پکڑتے ہیں اور دونوں فریق بن کر اپنے لیے طرف دار بٹور لیتے ہیں تو معاملہ [دھت تیری کی] کی بن جاتی ہے اور بات ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے تک پہونچتی ہے اور کم سے کم مناقشت میں آلودگی آجانے سے وہ عام حق و باطل کے پرکھ کا معیار نہیں رہ جاتی ہے اسے ایک خاص دائرے سے نکال کر عام معیار نہیں بنا سکتے۔ اصلا صحیح مناقشت سے صرف باطل کی صفائی مقصود ہوتی ہے۔ اس کا کام بس یہیں ختم ہو جاتا ہے۔ اس کا ایک خاص دائرہ ہوتا ہے، خاص ماحول اور خاص بو اور مزا ہوتا ہے۔ بڑی نادانی ہوگی کہ جھاڑو کو قلم بنایا جائے اور تیزاب کو شربت کہا جائے۔
خارجی ذہنیت کے حامل جو اپنی خاص پہچان بنانا چاہتے ہیں وہ ان مناقشات کو [تصنیف الناس] کا اصول بنائے ہوئے ہیں اور کم عقل بیٹھ بیٹھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ کون عالم ہے کون نہیں ہے؟ کون مسترد ہے کون مقبول ہے؟ کون اہل حدیث ہے کون اہل حدیث نہیں ہے؟ان کے لیے دین کی تعلیمات بس اتنی ہیں کہ سروری ربیعی مناقشات کو پڑھیں اور آنکھ کان بند کر لیں نہ کسی کی سننے کی ضرورت ہے نہ مزید پڑھنے کی ضرورت ہے۔ یہ سفہاء الاحلام تمام دنیا کے مسلمانوں کے متعلق حکم لگانے کا پورا پورا حق رکھتے ہیں اور اگر ان کی سوچ رویے اور حماقتوں پر کوئی خارجیت کا حکم لگا دے تو مرنے لگتے ہیں۔ اپنے بارے میں چھوئی موئی اور دوسروں کے متعلق صرف کانٹا ہی کانٹا۔ اگر یہ اتنے جری ہیں کہ دوسروں کے علم و عمل اور عقیدے کو زیرو بنا رہے ہیں تو اپنے متعلق بھی حکم سننے کا یارا رکھیں۔
جس وقت یہ مناقشہ شروع ہوا تھا شیخ ابو بکر زید نے اپنی کتاب [تصنیف الناس] لکھی۔ جس وقت یہ کتاب لکھی گئی اسی وقت یہ شکایت ان سے تھی کہ انھوں نے تخاذل اختیار کیا ہے۔ اخوانیوں نے اس کتاب کو اپنے حق میں خوب استعمال کیا لیکن اب جس طرح کم عقل ربیعی سروری مناقشے کو استعمال کر رہے ہیں کسی کو اہل حدیث کسی کو غیر اہل حدیث، کسی کو جاہل اور کسی کو عالم، کسی کو مستند کسی کو غیر مستند بنائے پھرتے ہیں اب اس کتاب کی بات حقیقت بن رہی ہے اور جہلاء اس مناقشے کو معیار بنا کر علماء کے متعلق اپنا فیصلہ فرما رہے ہیں۔ یہ رویہ اختیار کر کے ایسے لوگ خارجیت کی کئی علامتیں اپنے اندر پیدا کر چکے ہیں۔
1⃣۔ عموما اس فتنے میں مبتلا سیکولر تعلیم یافتہ ہیں یعنی دینی اصول و مبادی سے بے خبر ہیں۔ یعنی سفہاء الاحلام میں ان کا شمار ہے۔
2⃣۔ ان کی اکثریت أحداث الأسنان کی ہے یعنی کم عمر الھڑ لڑکوں کی ہے۔
3⃣۔ ان کو اپنی جانکاری پر خوش فہمی ہے یہ فتوی بازی کرنے میں بڑی تیزی دکھلاتے ہیں۔
4⃣۔ انھیں اپنے تقوی پر بھی بڑا غرور ہے۔ یہ بڑے پاکباز بنتے ہیں۔
5⃣۔ یہ بے مسئلہ کو مسئلہ بناتے ہیں۔
6⃣۔ یہ دین کی تعلیمات کے بجائے علماء کے مناقشات کی تبلیغ کرتے ہیں۔
7⃣۔ یہ فساد پھیلانے میں بڑے تیز ہیں۔ اور خاص دینی دعوت و تبلیغ میں زبردست رکاوٹ ہیں۔

ان کے اندر خارجیت کی یہ سات علامتیں موجود ہیں۔ انھیں اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہیے اور فتنہ پروری سے باز آجانا چاہیے۔ ان کے لیے بہتر ہے کہ اپنے آس پاس کے مستند علماء سے جڑ کے رہیں اور کسی کم عقل کے بھٹکانے سے بھٹکیں نہیں۔
اور سوشل میڈیا کے ذریعہ اگر ہماری یہ آواز شیخ ربیع حفظہ اللہ تک پہونچے تو ان سے گذارش ہے کہ ان کے نام سے دکان لگانے فتنہ پھیلانے اور خارجیت کی ضلالت میں پڑے لوگوں کو نصیحت کریں کہ وہ ان حرکتوں سے باز آجائیں اور فقط دین سیکھیں اور عمل کریں اور اللہ تعالی سے توبہ کریں اور مسلمانوں کو اپنی گمراہیوں اور فتنوں سے بچائیں۔
در اصل اس دور میں کم عمروں اور کم عقلوں کا مزاج ہڑ بونگی ہوتا ہے عموماً یہ سیاست بازی جتھہ بندی نیتائی اور شہرت کے رسیا ہوتے ہیں۔ ان کے اندر سنجیدگی اور وقار نام کی نہیں ہوتی۔ اس لیے سماجی اور اجتماعی نزاکتوں اور دینی ذمہ داریوں کو نظر انداز کرکے الگ ڈھرا الگ شناخت بنانے میں بڑا لطف اٹھاتے ہیں۔ اور فتنہ پھیلانے میں انھیں بڑا مزا آتا ہے۔
یہ اپنے رویہ سے دین، علم، علماء، شرافت و مروت اور حیا سب کی پامالی کرتے ہیں اور اچھا نوجوان بھی چھچھورا بن کر رہ جاتا ہے۔ یا پھر انحراف اور انعزال اس کا مقدر بن جاتا ہے اور جو خود کو نیتا بنائے پھرتا ہے وہ کم سنوں اور کم فہموں کی زندگی میں زہر بھر دیتا ہے۔ جو ان کا نیتا بنتے ہیں وہ اپنے رویے سے انتہائی درجے کے مجرم بن جاتے ہیں۔ ایسے ہی کم فہم کم عقل نیتا ہمیشہ نوجوانوں کی گمراہی اور بربادی کا سبب بنتے ہیں۔ شیخ ربیع کے نام پر سارے سفہاء الاحلام اور أحداث الأسنان سلفیت کے نادان دوست ہیں اور عقل و شرافت انھیں راست نہیں آئی. اور اپنی نیتائی کی دکان کھولے ہوئے ہیں۔ اور صرف لوگوں کے بھٹکنے کا سبب بنتے ہیں
والسلام علیکم ورحمة الله وبركاته

پیر، 8 فروری، 2016

کیانوح علیہ السلام کی کشتی مل چکی ہے


الحمد للہ
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ ان سے پہلے قوم نوح نے بھی ہمارے بندوں کوجھٹلایا تھا اور دیوانہ بتلا کرجھڑک دیا تھا ، تواس نے اپنے رب سے دعا کی کہ میں بے بس ہوں تومیری مدد کر، پس ہم نے آسمان کے دروازے زور کے مینہ سے کھول دیا ، اورزمین سے چشموں کو جاری کردیا تو پانی اس کام کے لیے جمع ہوگیا جومقدر کیا گيا تھا ، اورہم نے اسے تختوں اور کیلوں والی ( کشتی ) پر سوار کرلیا ، جوہماری نظروں کے سامنے چل رہی تھی یہ اس کا کی طرف سے بدلہ تھا جس کا کفر کیا گیا ، اور بلاشبہ ہم نے اس واقعہ کو نشانی بنا کر باقی رکھا کوئ‏ ہے نصیحت حاصل کرنے والا بتاؤ میرا عذاب اور میری ڈرانے والی باتیں کیسی رہیں ؟ } القمر ( 9-16 )۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی اس کی تفسیر میں کہتے ہیں :
فرمان باری تعالی ہے { ، اور بلاشبہ ہم نے اس واقعہ کو نشانی بنا کر باقی رکھا کوئ‏ ہے نصیحت حاصل کرنے والا }
اس سے مراد عبرت ہے ، اوریہ بھی کہا گيا ہے کہ اس سے کشتی مراد ہے کہ اسے بطور نشانی چھوڑ دیا کہ نوح علیہ السلام کے بعدآنے والی قوم اس سے عبرت حاصل کرے اوررسولوں کی تکذيب نہ کریں ۔
قتادہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں کہ اللہ تعالی نے اس کشتی کوجزیرہ میں ایک باقردی نامی جگہ میں بطورعبرت اورنشانی ( عراق میں ایک جگہ کا نام ہے ) چھوڑ دیا حتی کہ اس امت کے پہلے لوگوں نے اسے دیکھا ، حالانکہ اس کے بعد کتنی کشتیاں تھیں جو کہ مٹی اورریت بن چکیں ہيں ۔
اورظاہریہی ہے کہ اس سے جنس سفن (کشتی ) مراد ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :
{ اور ان کے لیے ایک نشانی ( یہ بھی ) ہے کہ ہم نے ان کی نسل کوبھری ہوۓ کشتی میں سوار کیا ، اور ان کے لیے اس جیسی اورچيزيں پیدا کیں جن پریہ سوارہوتے ہيں } یس ( 41 - 42 ) ۔
اوراللہ سبحانہ وتعالی کے فرمان کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :
{ جب پانی میں طغیانی آگئ تواس وقت ہم نے تمہیں کشتی میں چڑھا لیا تا کہ اسے تمہارے لیے نصیحت اوریادگار بنا دیں اور ( تاکہ ) یادرکھنے والے کان اسے یاد رکھیں } الحاقۃ ( 11 - 12 ) ۔
تواس لیے یہاں کہاں کہ (کوئ‏ ہے نصیحت حاصل کرنے والا ) یعنی کوئ ایسا ہے جو نصیحت اورعبرت حاصل کرے ۔ انتھی ۔
تواس طرح حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی کی اس آیت ( ولقد ترکناھا ) کی تفسیر تین اقوال پرمشتمل ہے :
اول :
یہ اس سے مراد یہ ہو کہ ہم نے آنے والوں کے لیے یہ قصہ عبرت اورنصیحت کے چھوڑا ۔
دوم :
یہ اس سے مراد یہ ہو کہ ہم نے نوح علیہ السلام کی کشتی کوباقی رکھا تا کہ آنے والی قومیں اسے دیکھ کر نصیحت حاصل کریں اورعبرت پکڑیں کہ اللہ تعالی مومنوں کونجات اورکافروں کوھلاک کرتا ہے ۔
سوم :
یہ کہ اس سے مراد یہ ہو ہم نے جنس سفن ( کشتی ) کوزمین میں چھوڑا اور انسان کوسکھایا تاکہ وہ عبرت حاصل کرے کہ اس پر کس طرح اللہ تعالی کی نعمتیں ہیں ، اور کس طرح نوح علیہ السلام اورمومنوں کوان موجود اورمعروف کشتیوں کی مثل سے نجات دینے کے بعد ان کی اولاد باقی رکھی ۔
بہرحال نوح علیہ السلام کی کشتی کا مل جانا اوراسے نوح علیہ السلام کے بعدآنے والی قوموں کا دیکھ لینا تا کہ یہ کشتی ان کے لیے باعث عبرت اورنصیحت ہو نہ توخلاف شرع ہے اورنہ ہی خلاف عقل ۔
لیکن کشتی کے ثبوت کی کیفیت میں ہرملنے والی کشتی کے بارہ میں کہنا کہ یہ نوح علیہ السلام کی کشتی ہے توجوبھی پرانی کشتی پاۓ اوروہ یہ دعوی کردے کہ یہ کشتی نوح ہے اور اس کے اس دعوی کو مان لیا جاۓ ۔
واللہ تعالی اعلم 


کم از کم کفن کی مقدار

م.


مرد کیلئے تین کپڑوں میں اور عورت کو پانچ کپڑوں میں کفن دینا افضل ہے۔
دوم:
جبکہ میت کو کفن دینے کیلئے کم از کم کفن کی مقدار جس سے تکفین کا فریضہ ادا ہوجائے وہ یہ ہے کہ ایک اتنا بڑا کپڑا ہو جس سے سارا جسم ڈھکا جاسکے، یہ موقف ابو حنیفہ، احمدکا ہے، جبکہ  امام مالک کی دو میں سے ایک روایت اسی کے موافق ہے۔
دیکھیں: "حاشيہ ابن عابدين" (3/98) ، "المغنی" (3/386) اور "مواہب الجليل" (2/266)
انہوں نے اس موقف کیلئے دلیل بخاری: (4047) اور مسلم : (940) کی روایت کو بنایا ہے، جسے خباب بن ارت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: "جب مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا، تو انکو کفن دینے کیلئے صرف ایک چادر تھی، جب ہم انکا سر ڈھکتے تو پاؤں باہر ہوجاتے، اور جب پاؤں ڈھکتے تو سر ننگا ہو جاتا" تو ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (چادر سے انکا سر ڈھک دو، اور پاؤں پر "اذخر " بوٹی  ڈال دو)
زیلعی کہتے ہیں کہ: "یہ اس بات کی دلیل ہے کہ میت کی صرف شرمگاہ ڈھانپنا کافی نہیں ہوگا"انتہی
"حاشيہ ابن عابدين" (3/98)
اور شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اور اگر میت کو مکمل طور پر ڈھک دینے والے لفافےمیں کفن دیا جائے تو یہ مرد و عورت کیلئے یکساں طور پر جائز ہے، اس معاملے میں وسعت  ہے"
"مجموع فتاوى ابن باز" (13/127)
اور شیخ بسّام "توضيح الأحكام" (2/39) میں کہتے ہیں کہ: "میت [کے کفن ]کیلئے مطلقاً طور پر یہ واجب ہے کہ ایک اتنا بڑا کپڑا ہو جس سے سارا بدن ڈھک جائے، چاہے میت چھوٹی ہو یا بڑی، مرد ہو یا عورت"
اور شافعی مذہب یہ ہے کہ: "کم از کم کفن کی مقدار یہ ہے کہ جس سے شرمگاہ ڈھکی جا سکے، جبکہ عورت کیلئے ہتھیلیوں اور چہرے کے علاوہ سارے جسم کو ڈھکنے والا کپڑا کم از کم کفن ہے، مالکی فقہائے کرام کے ہاں یہی دوسرا قول ہے"
دیکھیں: "المجموع" (5/162) ، "مواہب الجليل" (2/266)
اور اِنہوں نے بھی حدیث مصعب کو دلیل بنایا ہے۔
چنانچہ نووی رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
"اگر پورے بدن کو ڈھانپنا لازمی ہوتا تو انکے ترکے یعنی اسلحہ وغیرہ کے بدلے میں کفن خریدتے، اور اگر ترکے کا مال نہ  ہو تو مسلمانوں کے بیت المال سےکرتے، اور اگر بیت المال بھی نہ ہو تو مسلمان اپنی طرف سے بندو بست کرتے"
"المجموع" (5/150-151)
امام نووی کی اس بات کا جواب یوں دیا جاسکتا ہے کہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپکے صحابہ کرام کے پاس کوئی ایسی چیز تھی ہی نہیں جن میں شہدائے احد کو دفنایا جاتا، بلکہ [صورت حال یہ تھی کہ] دو شہداء کو ایک کپڑےمیں دفنایا جاتا تھا، جیسے کہ بخاری: (1343) میں جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہدائے احد میں سے دو ، دو افراد کو ایک ہی کفن میں جمع فرماتے، اور پھر پوچھتے: (ان دونوں میں سے قرآن کس کو زیاد ہ یاد ہے؟) تو جب ان دونوں میں سے کسی کے بارے میں اشارہ کیا جاتا تو اسے قبر میں پہلے داخل فرماتے"
تو ایسی حالت میں کفن کہاں سے خریدتے، کیونکہ انکے پاس شہداء کو کفن دینے کیلئے کچھ تھا ہی نہیں!؟
اور اگر کفن اس سے بھی کم مقدار میں ہو ، اور اسکے علاوہ کوئی چیز نہ ہو جس سے میت کو ڈھانپا جا سکے تو پھر سر سے نیچے جہاں تک کفن پہنچے ڈھک دیا جائے گا، اور بقیہ  جسم پر اذخر، یا کوئی اور گھاس پھوس ڈال دیا جائے گا، اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے مصعب بن عمیر  کے متعلق فرمایا تھا: (کفن  سے انکا سر ڈھک دو، اور قدموں پر اذخر ڈال دو)متفق علیہ
شیخ ابن عثیمین  " الشرح الممتع" (5/225) میں فرماتے ہیں:
"اس بات کی دلیل کہ کفن دیتے ہوئے میت کے مکمل جسم کو ڈھانپنا واجب ہے، یہ ہے کہ: جن صحابہ کرام کیلئے کفن   کے کپڑے کم تھے انکے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم   نے سر سے تکفین شروع کرنے کا حکم دیا، کہ سر کوڈھک دیں، اورقدموں پر اذخر ڈال دیں" اذخر : [گھاس پھوس کی طرح ایک پودا ہے جو اہل حجاز] کے ہاں معروف ہے۔
اور اگر کوئی چیز بھی دستیاب نہ ہو، مثلاً: آگ میں جلنے کی وجہ سے اسکے کپڑے تک جل جائیں، اور اسکے علاوہ کوئی  کپڑا بھی میسر نہ ہو تو ایسی میت پر گھاس وغیرہ ڈال کر اسے کسی چیز  سے باندھ دیا جائے، اور اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو اسے ویسے ہی دفن کردیا جائے؛ کیونکہ فرمان باری تعالی : ( فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ) اپنی استطاعت کے مطابق اللہ [کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے] ڈرو۔ [التغابن: 16]" انتہی


اپنا شريك حيات خود تلاش كرنا

سرخی شامل کریں
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ميں باپرد ہو كر اور حجاب پہن كر مسلسل اپنا دوست تلاش كرنے كا اہتمام كرتى ہوں، ميرے خيال ميں مجھے پردہ اور حجاب اپنے ليے كوئى مناسب شريك حيات تلاش كرنے سے نہيں روكتا، اور جب مجھے كوئى مناسب شخص مل جائے تو ميں اپنے والدين سے اس كے ساتھ رشتہ كرنے كا مطالبہ كرونگى اور اس كے متعلق ان كى رائے لونگى.
ليكن بعض لوگ كہتے ہيں كہ جو كچھ ميں كر رہى ہوں اس سے تو بہتر ہے كہ تم پردہ ہى نہ كرو، تو كيا ميں حق پر ہوں كہ اسلام كسى بھى لڑكى كو اپنے ليے مناسب شريك حيات تلاش كرنے سے منع نہيں كرتا، اور اس ميں پردہ كرنے كا كوئى دخل نہيں

---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
مسلمان عورت كے ليے جاننا ضرورى ہے كہ اس پر شرعى پردہ كرنا فرض ہے، اور وہ ہر وقت شرعى پردہ كرنے كا التزام كرے، اور عورت كے ليے بےپردگى جائز نہيں، اور پھر پردہ نہ كرنا كبيرہ گناہ ہے جو اللہ كے عذاب اور سزا كا مستحق ٹھراتا ہے اور عورت كو ايك قيمتى جوہر ہے جيسا كہا جاتا ہے يہ ايك قيمتى ہيرا ہے جب بھى يہ لوگوں كے سامنے آ جائے اور بےپردہ ہو جائے تو وہ اپنى قيمت كھو بيٹھتا ہے.
لہذا ميں سوال كرنے والى اور ہر مسلمان عورت كو شرعى پردہ كرنے كى نصيحت كرتا ہوں، كيونكہ اسى ميں اللہ كى رضا اور خوشنودى ہے اور اس كى اطاعت و فرمانبردارى ہے، اور اللہ كى جانب سے بندے كے امور ميں آسانى و سہولت اور توفيق كا سبب ہے.
دوم:
رہا شادى كا مسئلہ تو يہ اس وقت فرض اور واجب ہو جاتى ہے جب مرد اور عورت شادى كى استطاعت و قدرت ركھتا ہو، اور انہيں فحاشى و بدكارى ميں پڑنے كا خدشہ ہو، اور پھر شادى انبياء عليہم السلام كى سنت اور طريقہ بھى ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور البتہ تحقيق ہم نے آپ سے قبل بھى رسول بھيجے اور ان كى بيوياں بنائى }الرعد ( 38 ).
سوم:
يہاں ايك فرق پايا جاتا ہے كہ ايك مسلمان عورت خود خاوند تلاش كرے اور اس سلسلہ ميں مردوں سے ميل جول كرے يا پھر وہ اچانك كسى سے مل پڑے، پہلا طريقہ تو شرم و حياء كے منافى ہے، كيونكہ عورت كو شرم و حياء جيسے اخلاق سے مزين ہو كر حياء كا مظاہرہ كرنا چاہيے، اور يہ چيز عورت كے جمال و خوبصورتى اور زينت ميں شمار ہوتى ہے، اور پھر كنوارى كے ليے تو يہ مثال پيش كى جاتى ہے جيسا كہ درج ذيل حديث ميں وارد ہے:
ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايك كنوارى لڑكى جو اپنے پردہ والے كمرہ ہو سے بھى زيادہ شرم و حياء والے تھے، اور جب كسى چيز كو ناپسند كرتے تو يہ ان كے چہرہ سے پہچانى جاتى تھى "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5751 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2320 ).
عورت اس سے بھى بہتر طريقہ استعمال كر سكتى ہے وہ وہ يہ كہ اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا كرے كہ اس كے ليے كوئى نيك و صالح شخص كے حصول ميں آسانى پيدا فرمائے، اور دعا ايك ايسا اسلحہ ہے جو مسلمان كے ليے سب سے افضل اسلحہ ہے جس سے مسلمان شخص اپنى ضروريات و حاجات بوقت ضرورت حاصل كر سكتا ہے.
اور عورت يہ بھى كر سكتى ہے كہ وہ اپنى بعض مسلمان سہيليوں سے بات چيت كرے جن پر انہيں بھروسہ ہو اور وہ امانتدار ہوں كہ وہ كسى ايسے شخص كا بتائيں جو كسى مسلمان لڑكى كو شادى كے ليے تلاش كر رہا ہو، تو يہ اس چيز سے افضل ہے كہ كوئى ايسا كام كيا جائے جو شرم و حياء كے منافى ہو.
چہارم:
جس نے آپ كو يہ نصيحت كى ہے كہ پردہ نہ كرنا پردہ كرنے سے افضل ہے بلاشك و شبہ وہ غلطى پر ہے، يہ كيسے ہو سكتا ہے كہ ايك عورت اپنا پردہ اور دين چھوڑ كر اللہ كے حكم سے روگردانى كرتى پھرے كيونكہ اس كو ترك كرنا اللہ كى ناراضگى كا باعث ہے اور سزا كا مستوجب ہے اور عدم توفيق كا باعث؟
اس ليے مسلمان عورت كو چاہيے كہ وہ اس شرف و فضيلت كو تھام كر ركھے جسے اكثر مسلمان عورتيں ترك كر چكى ہيں اور پھر يہ پردہ تو مسلمان عورت كا شعار ہے، اور اس كے صدق ايمان اور تقوى كى دليل.
اس ليے ميں سوال كرنے والى بہن كو نصيحت كرتا ہوں كہ وہ پردہ نہ چھوڑيں بلكہ اس كا التزام كرتى رہے، اللہ تعالى اس كو ايسے خاوند سے نوازے گا جو اس كى زندگى كے معاملات ميں آسانى لائيگا، اللہ تعالى ہى مددگار ہے.
واللہ اعلم 

جمعہ، 5 فروری، 2016

نشید (نظم) یا طیبہ یا طیبہ/یامکہ یا مکہ پڑھنے وسننے کا حکم

نشید (نظم) یا طیبہ یا طیبہ/یامکہ یا مکہ پڑھنے وسننے کا حکم   
فضیلۃ الشیخ صالح بن سعد السحیمی حفظہ اللہ
ترجمہ: طارق علی بروہی
نشر و اشاعت : عبدالمومن سلفی
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
سوال: سوال ہے کہ ایک اسلامی نشید (نظم/ترانہ/گیت) کہ یہ الفاظ ہیں کہ ’’ألا يا الله بنظرة من العين الرحيمة تداوي كل ما بي من أمراض سقيمة‘‘ (اے اللہ! اپنے آنکھ کی ایسی نظر رحمت بھیج جو میرے تمام امراض کا علاج بن جائے) کیا ان الفاظ میں کوئی مضائقہ ہے؟
جواب: مجھے نہیں معلوم کہ ’’من عین رحیمۃ‘‘ (رحمت والی آنکھ سے) اس کی کیا مراد ہے، آیا وہ اللہ کو پکار رہا ہے کہ وہ اس کے لئے اپنی مخلوقات میں سے کسی کو مسخر کردے یا پھر اس سے مراد اللہ تعالی کو پکارنا ہے۔ بہرحال اگرچہ اس کی مراد اللہ تعالی ہی کو پکارنا کیوں نہ ہو پھر بھی اس قسم کی عبارات سے تعبیر کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالی کی صفات کو نہیں پکارا جاتا (بلکہ اس کی ذات کو پکارا جاتا ہے)۔ ہم جانتے اور مانتے ہیں کہ اللہ تعالی کی دو آنکھیں ہیں جیسا کہ اس کی شان وعظمت کے لائق ہیں، لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یا عین اللہ (اے اللہ تعالی کی آنکھ) بلکہ بعض علماء تو یہاں تک کہتے ہيں کہ اگر صفات الہیہ کو پکارا تو یہ کفر ہے۔ یعنی اگر کہا یا قدرۃ اللہ (اے اللہ تعالی کی قدرت)، يا رحمة الله (اے اللہ تعالی کی رحمت) يا يدالله (اے اللہ تعالی کے ہاتھ) يا نعمة الله (اے اللہ تعالی کی نعمت) تو یہ کفر ہے اور یہ بہت سے علماء کرام کی رائے ہے۔
مگر میرے بھائی تمہیں چاہیے کہ کتاب وسنت سے ثابت شدہ صریح دعائوں کے ساتھ دعاء کرو کیوں ان موہوم قسم کے الفاظ کو استعمال کرتے ہو، جو ہوسکتا ہے کہ تمہیں بدعت یا شرک میں مبتلا کردیں۔ ان تمام باتوں سے اجتناب کرو اور ہر لفظ کو کتاب وسنت پر پیش کرو اور ہر اناشید جیسا کہ وہ اس کے لئے اصطلاح استعمال کرتے ہیں (اسے بھی کتاب وسنت پر پیش کرو)۔
بلکہ میں آپ کو اس سے بھی خطرناک چیز پر تنبیہ کرتا ہوں جس کا ابھی ابھی مجھے خیال آیا کہ آجکل حرم کے برابر ہی میں ’’یا طیبہ ! یا طیبہ!‘‘ (اے مدینہ ! اے مدینہ!) کیسٹیں فروخت ہوتی ہیں، حالانکہ یہ شرک ہے، یہ بعینہ شرک ہے۔ کیا طیبہ کو اللہ کے علاوہ پکارا جارہا ہے! آگے کہتے ہیں ’’يا دوى العيان!‘‘ (یعنی شفاء طلب کی جارہی ہے) کون مریضوں کو شفاء دیتا ہے اللہ تعالی یا طیبہ!؟ اگر آپ طیبہ کو پکاریں کہ وہ آپ کو شفاء دے تو آپ مشرک ہیں۔ یہ نشید ونظم تو ہر جگہ اتنی عام ہوچکی ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچے تک اپنے موبائلوں میں لئے لئے پھرتے ہیں۔ یا طیبہ !یا طیبہ! کی آوازیں گونجتی رہتی ہیں ریکارڈنگ سینٹروں میں خود یہاں حرم کے بغل تک میں۔ اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنے نفس کو چوکس وخبردار رکھو کہ بہت سے الفاظ جو لوگ دہراتے وگنگناتے رہتے ہیں کفر ہوتے ہیں لیکن انہیں شعور ہی نہیں ہوتا۔ وہ نہ اس کا شعور رکھتے ہیں اور نہ جانتے ہیں کہ یہ کفر ہے۔ اب اللہ تعالی کے یہاں یہ لوگ معذور ہیں یا نہیں ؟ ہم نہیں جانتے مگر یہ الفاظ بہرحال شرک ہیں اور کہنے والا مشرک ہے، پس ہوشیار رہیں۔ میرے پاس ایک کیسٹ ہے کہ جس میں سینکڑوں ایسے جملے ہیں جو لوگ دہراتے یا گنگناتے رہتے ہیں خصوصاً عرب ممالک میں، پس اس بارے میں چوکنا رہیے۔
| الشیخ صالح بن سعد السحیمی, |
 
 
 

فرقہ ناجیہ کونسا ہے؟

الحمد للہ:

پہلی بات:
اختلاف اور تفرقہ اس امت میں ہوکر رہے گا اس بات کی گواہ تاریخ بھی ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین بھی اسکا ثبوت ہیں۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو میرے بعد زندہ رہے گا ، وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا) أبو داود ( 4067 ) البانی نے اسے " صحيح أبی داود "میں صحیح کہا ہے۔
چنانچہ جیسے سیاسی زندگی میں بھی اختلاف پایا گیا، اسی طرح عقائد اور نظریات میں بھی پایا گیا، اور یہ فرقے عہد خلفائے راشدین کے آخری زمانے میں نمودار ہوئے ، جیسے مرجئہ، شیعہ، اور خوارج۔
یہ اللہ تعالی کا فضل وکرم ہے کہ اس نے سچے مسلمانوں کے بعد ہی اختلاف اور فرقے بنائے، پہلے عقائد درست تھے بعد میں اس میں خرابیاں پیدا ہوئیں، ان کے نام بھی اہل السنۃ سے علیحدہ ہی تھے، اور کبھی بھی یہ خرابیاں اہل السنۃ و الجماعۃ کے عقائد میں خلط ملط نہیں ہوئیں، عام مسلمانوں کا عقیدہ اور گمراہ لوگوں کے عقائد یکسر مختلف رہے، حتی کہ آپس میں دوری کا یہ عالم تھا کہ کسی بھی گمراہ فرقے نے اپنے آپ کو اہل السنۃ والجماعۃ سے موسوم نہیں کیا، بلکہ اپنی ایجاد کردہ بدعت کی طرف ہی منسوب رہے، یا اس فرقہ کے بانی کی طرف انکی نسبت رہی، آپ اس بات کو تمام گمراہ فرقوں کے ناموں میں بالکل واضح پاؤ گے۔
اور وہ مشہور حدیث جس میں امت کے 73 فرقوں کا ذکر ہے ؛ اس بات پر شاہد ہے۔
چنانچہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور کہا: (تم سے پہلے اہل کتاب 72 فرقوں میں تقسیم ہوئے، اور یہ امت 73 فرقوں میں تقسیم ہوگی، 72 ان میں سے جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں اور وہ ہے جماعت)
ابو داود ( 4597 ) وغيرہ نے اسے روایت کیا ہےاور اسے امام حاكم نے صحیح قرار دیا ( 1 / 128 ) بلکہ انہوں نے کہا: عقائد میں یہ بہت ہی عظیم حدیث ہے، ابن حجر نے " تخريج الكشاف " ( 63 ) میں اسے حسن قرار دیا، اور ابن تيمیہ " مجموع الفتاوى " ( 3 / 345 ) میں اسے صحیح کہا، اور شاطبی نے " الاعتصام " ( 1 / 430 ) ، اور عراقی نے" تخريج الإحياء " ( 3 / 199 ) میں اسے صحیح کہا ہے ، اہل علم نے اس روایت کو کتب احادیث میں کثرت سے بیان کیا ہےاور اس سے استدلال بھی کیا ہے، جبکہ متعدد صحابہ کرام سے یہ روایت مروی ہے، جن میں سے صحیح ترین اور اکثر احادیث 73 فرقوں والی بات پر متفق ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روایت میں فرقہ ناجیہ کی صفت بیان کی کہ وہ "جماعت" ہے، جسکا مطلب ہے جس بات پر مسلمان علماء کا اجماع ہو، جیسے کہ کچھ روایات میں "سوادِ اعظم"کا وصف آیا ہے، جیسے کہ ابو امامہ کی روایت ابن ابی عاصم کی کتاب " السنَّة " ( 1 / 34 ) اور طبرانی کی " المعجم الكبير " ( 8 / 321 ) میں حسن لغیرہ سند کے ساتھ موجود ہے۔
ایسے ہی ایک حدیث میں انکی صفات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ یوں بیان فرمائی: (میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہوگی سب کےسب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک ملت )سب نے کہا: اللہ کے رسول وہ کون سی ملت ہے؟ آپ نے فرمایا: (جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں)
یہ روایت ترمذی ( 2641 )نے عبد اللہ بن عمرو سے روایت کی ہے اور اسے حسن بھی قرار دیا، ایسے ہی ابن العربی نے " أحكام القرآن " ( 3 / 432 )میں ، اورعراقی نے " تخريج الإحياء " ( 3 / 284 ) ، اور البانی نے" صحيح الترمذی " میں اسے حسن کہاہے۔
چنانچہ یہ ایک واضح ترین علامت ہے جس سے مسلمان فرقہ ناجیہ کے بارے میں استدلال کر سکتا ہے، لہذا اس راستے پر چلے جہاں ساری امت کے علماء چل رہے ہوں، جن علماء کے بارے میں تمام لوگ امانت اور دیانت داری کی گواہی دیتے ہوں، اور ان لوگوں کے نقش قدم پر چلے جو پہلے گزر چکے ہیں جیسے کہ صحابہ کرام ، تابعین، اور ائمہ اربعہ اور دیگر اہل علم ، اور ہر ایسے گروہ اور جماعت سے بچے جو مسلمانوں سے کسی بدعت کی بنیاد پر علیحدہ ہونے کی کوشش کرے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل بدعت کی علامت ہے کہ سلف کی اتباع سے بھاگتے ہیں" انتہی " مجموع الفتاوى " ( 4 / 155 )
ایک اور جگہ (3/346) کہا:" ان فرقوں کی علامت یہ ہے کہ یہ لوگ-یعنی اہل السنۃ و الجماعۃ کے مخالف72 فرقے- کتاب و سنت اور اجماع کو ٹھکرادینگے، جو کوئی بھی کتاب وسنت اور اجماع کی بات کرے وہ اہل السنۃ و الجماعۃ سے ہے"
لہذا اب کسی کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ یہ تصور کرے کہ شیعہ یا گمراہ صوفی ، یا خوارج اور احباش فرقہ ناجیہ میں سے ہیں، بلکہ یہ تمام نئے فرقے ہیں ، انکے افکار نئے ایجاد شدہ ہیں، اہل علم اور تمام مسلمان انہیں یکسر مسترد کرتے ہیں، بلکہ انکے دلوں میں انکے بارے میں نفرت بھی پائی جاتی ہے، انکے گمراہ کن افکار کبھی بھی ابو بکر، عمر، عثمان، یا علی رضی اللہ عنہم کے عقائد میں شامل نہیں تھے، اور نہ ہی یہ عقائد ابو حنیفہ ، مالک، شافعی، اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے عقائد میں شامل تھے۔
تو کیا کوئی عقل مند یہ سوچ سکتا ہے کہ سچا عقیدہ ان علماء سے مخفی رہ گیا اور انہیں پتہ ہی نہیں چلا؟!
محترم بھائی میرے خیال میں اہل السنۃ و الجماعۃ (فرقہ ناجیہ)اور دیگر گمراہ فرقوں کے مابین جو واضح ترین فرق ہے ؛ وہ واضح ہوچکا ہے۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اسی لئے فرقہ ناجیہ کا وصف ہے کہ وہ اہل السنۃ و الجماعۃ ہیں، اور یہی لوگ سب سے زیادہ تعداد میں ہیں، جبکہ باقی فرقے شاذ و نادر ہیں اور بدعات و خواہش پرست ہیں، ان تمام فرقوں میں سے کوئی ایک فرقہ بھی ناجی فرقہ کے قریب تک نہیں پھڑکتا، ان کے برابر ہونا تو دور کی بات ہے، بلکہ یہ ہوسکتا ہے کہ کچھ فرقوں کے ماننے والے انتہائی قلیل مقدار میں ہوں، ان فرقوں کی علامت کتاب وسنت اور اجماع کی مخالفت ہے، چنانچہ جو شخص بھی کتاب وسنت اور اجماع کا قائل ہو گا وہ اہل السنۃ و الجماعہ میں سے ہوگا"" مجموع الفتاوى " ( 3 / 346 )
گمراہ فرقوں کی علامات کے بارے میں شاطبی رحمہ اللہ نے " الاعتصام " ( 1 / 453 – 460 ) میں بہت کھل کر بحث کی ہے۔
دوسری بات:
علمائے اہل السنۃ والجماعۃ نے اپنی کتب میں اس بات کا تذکرہ کیا ہےکہ انکے علاوہ دیگر فرقے ہی گمراہ ، بدعتی اور ہلاک ہونے والے ہیں، اللہ کے دین میں نامناسب باتیں اور بدعات ایجاد کرنے کی وجہ سے انکا ٹھکانا جہنم ہے، لیکن ان میں سے اکثر کو کافر نہیں کہا جاسکتا، بلکہ انہیں اسلامی فرقوں میں ہی شمار کیا جائے گا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایسے ہی تمام کے تمام بہتّر فرقےہیں، ان میں سے کچھ منافق ہیں، جو کہ باطنی طور پر کافر ہوتے ہیں، اور کچھ منافق نہیں ہیں، بلکہ باطنی طور پر اللہ اور اسکے رسول پر ایمان رکھتے ہیں ان میں سے بعض باطنی طور پر کافر نہیں ہیں، چاہے تاویل کرتے ہوئےکتنی ہی گھناؤنی غلطی کر بیٹھے، ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں میں نفاق کی کچھ جزئیات پائی جائیں، لیکن ایسا نفاق ان میں نہیں ہے جسکی وجہ سے انسان جہنم کے آخری گڑھے میں جاگرے۔
اور جو شخص ان بہتّر فرقوں کے بارے میں کفر کا حکم لگائے تو یقینا اس نے قرآن، حدیث اور اجماع ِصحابہ کرام کی مخالفت کی، بلکہ ائمہ اربعہ اور دیگر ائمہ کے اجماع کی بھی مخالفت کی؛ اس لئے کہ ان میں سے کسی نے بھی ان تمام بہتّر فرقوں کی تکفیر نہیں کی، ہاں کچھ فرقے آپس میں ایک دوسرے کو بعض نظریات کی بنا پر کافر قرار دیتے ہیں" انتہی، "مجموع الفتاوی" (7/218)
اور اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں جو فرقہ بھی اسلام کی طرف منسوب ہو وہ مسلمان ہے، بلکہ اسلام کی طرف نسبت رکھنے والا فرقہ بھی کافر اور مرتد ہو سکتا ہےجیسے کہ غالی قسم کے شیعہ اور صوفی ، اسی طرح باطنی فرقے دروز، نصیری وغیرہ، کچھ علماء نے جہمی فرقہ کو بھی انہیں میں شامل کیا ہے، تو یہ سب کے سب ملتِ اسلامیہ سے خارج ہیں، اور انہیں حدیث میں وارد فرقوں میں شمار نہیں کیا جائے گا۔
تیسری بات:
حدیث مبارکہ میں مذکور فرقوں کے مابین اختلاف کی وجہ عقائد عامہ اور دین کے مسائلِ کلّیہ میں اختلاف ہے، فقہی اختلافات اسکی وجہ نہیں ہیں، شاطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"گمراہ فرقے ، فرقہ ناجیہ سے شرعی قواعد یا دین کے کلی مسائل میں اختلاف کی وجہ سے جُدا ہوتے ہیں، جزئی مسائل میں اختلاف کی وجہ سے علیحدہ نہیں ہوتے، اس لئے کہ جزئی اور فرعی شذوذ کی وجہ سے اس طرح کا اختلاف ہرگز پیدا نہیں ہوتا کہ جس سے تفرقہ پیدا ہو جائے، بلکہ تفرقہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کلی مسائل میں مخالفت پائی جائے، اس لئے کہ کلّی مسائل کے تحت غیر معمولی تعداد میں جزئی مسائل آتے ہیں، اور ان میں سے شاذ کا تعلق کسی مسئلہ سے ہوتا ہے اور کسی سے نہیں ہوتا"
" الاعتصام " ( 1 / 439 )
چنانچہ اگر کچھ اسلامی جماعتیں دیگر جماعتوں سے دعوتی طور طریقے یا اسلام کیلئے کام کرنے کے انداز میں امتیاز رکھتی ہیں، اور انکے عقائد اہل السنۃ و الجماعۃ کے عقائد سے مخالفت نہیں رکھتے، تو انہیں گمراہ فرقہ تصور نہیں کیا جائے گا، بلکہ انہیں ان شاء اللہ فرقہ ناجیہ ہی میں سے شمار کیا جائے گا، بشرطیکہ عقیدہ اور عبادات میں صحابہ کرام اور تابعین عظام کے منہج پر چلتے ہوں۔
تحرير،، شيخ الصالح المنجد
ترجمه، و اشاعت، عبدالمومن سلفي