اپنی زبان منتخب کریں

بدھ، 11 جنوری، 2017

بدعت کی اقسام :


تحریر: ابن الحسن المحمدی       نشر : عبدالمومن سلفی
ہم راوی کے صدق و عدالت اور حفظ وضبط کو دیکھتے ہیں۔
 اس کا بدعتی، مثلاً مرجی، ناصبی، قدری، معتزلی، شیعی وغیرہ ہونا مصر نہیں ہوتا
۔ صحیح قول کے مطابق کسی عادل و ضابط بدعتی راوی کا داعی الی البدعہ ہونا بھی
 مضر نہیں ہوتا اور اس کی وہ روایت بھی قابل قبول ہوتی ہے جو ظاہراً اس کی بدعت 
کو تقویت دے رہی ہو۔ 
بدعت کی اقسام : 
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بدعت کی دو قسمیں بیان کی ہیں : 
(1) بدعت صغریٰ، (2) بدعت کبریٰ 
بدعت صغریٰ کی مثال انہوں نے تشیع سے دی ہے جبکہ بدعت کبریٰ کی مثال کامل ر
فض اور اس میں غلو سے دی ہے۔ (ميزان الاعتدال : 5/1، 6) 
انہوں نے ابان بن تغلب راوی کے بارے میں لکھا ہے : 
 شيعي جلد، لكنه صدوق، فلنا صدقه، وعليه بدعته . 
’’ یہ کٹر شیعہ لیکن سچا تھا۔ ہمیں اس کی سچائی سے سروکار ہے۔ اس کی بدعت کا وبال
 اسی پر ہو گا۔ “ (ميزان الاعتدال : 5/1) 
اگر کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ بدعتی راوی ثقہ اور عادل کیسے ہو سکتا ہے تو 
اس کا جواب ہم حافظ ذہبی رحمہ اللہ ہی کی زبانی ذکر کرتے ہیں، وہ لکھتےہیں : 
 وجوابه ان البدعة على ضربين، فبدعة صغرى كغلو التشيع او كالتشيع بلا غلو ولا تحرف، فهذا
 كثير في التابعين وتابعيهم مع الدين والورع والصدق، فلو رد حديث هؤلاء لذهب جملة من الاثار
 النبوية، وهذه مفسدة بينة ثم بدعة كبرى كالرفض الكامل والغلو فيه والحط على أبي بكر وعمر –
 رضي الله عنهما – والدعاء الى ذلك، فهذا النوع لا يحتج بهم ولا كرامة. وايضا فما استحضر الان 
في هذا الضرب رجلا صادقا ولا مأمونا بل الكذب شعارهم والتقية والنفاق دثارهم، فكيف يقبل 
نقل من هذا حاله، حاشا وكلا، فالشيعي الغالي في زمان السلف وعرفهم هو من تكلم في عثمان
 والزبير وطلحة ومعاوية وطائفة ممن حارب عليا – رضي الله عنه، وتعرض لسبهم والغالي في زماننا 
وعرفنا هو الذى يكفر هؤلاء السادة ويتبرأ من الشيخين ايضا، فهذا ضال معثر، ولم يكن ابان بن 
تغلب يعرض للشيخين اصلا، بل قد يعتقد عليا افضل منهما. 
بدعت کی دو قسمیں ہیں : 

(1) بدعت صغریٰ جیسے غلو یا بلاغلو شیعیث۔ اس قسم کی رائے تابعین اور تبع تابعین کی 
ایک بڑی تعداد میں پائی جاتی ہے۔ باوجود یہ کہ وہ دیندار، پرہیزگار اور سچے تھے۔ اگر
 ان کی احادیث ردّ کر دی جائیں تو تمام احادیث سے ہاتھ دھونے پڑیں گے اور یہ واضح 
خرابی ہے۔ 
(2) بدعت کبریٰ جیسے کامل رفض اور اس میں غلو، سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے
 وقار کو مجروح کرنا اور لوگوں کو اس کی دعوت دینا۔ اس نوع کے راویوں سے حجت نہیں
 لی جائے گی، نہ ان کی عزت و تکریم کی جائے گی۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ میرے حافظے
کے مطابق ایسے راویوں میں سے کوئی ایک بھی سچا اور قابل اعتبار آدمی موجود نہیں بلکہ
 جھوٹ ان کا شعار اور تقیہ و نفاق ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ جس شخص کا یہ حال ہو اس کی 
روایت کیسے قبول کی جائے گی ؟ ہرگز نہیں۔ سلف کے دور میں غالی شیعہ وہ شخص تھا
 جو سیدنا عثمان، سیدنا زبیر، سیدنا طلحہ، سیدنا معاویہ اور اس گروہ پر اعتراض کرتا تھا 
اور ان کو برا بھلا کہتا تھا جس نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کی جبکہ ہمارے
زمانے میں غالی وہ شخص ہے جو ان محترم شخصیتوں کی تکفیر کرتا ہے اور سیدنا ابوبکر

 و عمر رضی اللہ عنہما سے براءت کا اعلان کرتا ہے۔ ایسا شخص سراسر گمراہ ہے۔ جہاں
 تک ابان بن تغلب کا تعلق ہے تو اس نے سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر کوئی 
اعتراض نہیں کیا۔ وہ صرف یہ عقیدہ رکھتا تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان سے افضل ہیں۔ “ (ميزان الاعتدال : 5/1، 6) 
بدعت صغریٰ، یعنی غیر مکفرہ کے مرتکب راوی کی روایت قبول کی جائے
 گی، بشرطیکہ وہ ثقہ و صدوق ہو۔ بدعت غیر مکفرہ کو شرک اور کفر سے
 جا ملانا درست نہیں۔ 
بدعت کبریٰ، یعنی مکفرہ کے مرتکب راوی کی روایت مردود ہے کیونکہ وہ
 ساقط العدالت ہے۔ عدالت کے لیے پہلی شرط ہی اسلام ہے جو اس میں مفقود ہو چکی ہے۔ 
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (م ۷۷۴ھ ) لکھتے ہیں : 
لا إشكال في رد روايته . 
’’ بدعت کبریٰ کے مرتکب راوی کی روایت کے مردود ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ “ 
(اختصار 
علوم الحديث: ص 83) 
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
 ولا يبقي من الرواة الذين لم اذكرھم الا من ھو ثقة او صدوق، وان كان ينسب الي ھوي، فھو فيه
 متاول . 
’’ میں نے جن راویوں کو (اپنی کتاب الکامل فی ضعفاء الرجال میں) ذکر نہیں کیا، وہ سب 
کے سب ثقہ یا صدوق ہیں، اگرچہ ان (میں سے بعض ) کو بدعتی کہا گیا ہے لیکن وہ ایک 
تاویل کی وجہ سے اس بدعت میں مبتلا تھے۔ (الكامل لابن عدي : 16/1) “ 
ائمہ حدیث کا مجموعہ تصرفات یہ آگاہی دیتا ہے کہ بدعتی راوی خواہ
 اپنی بدعت کی طرف دعوت دیتا ہو، جب تک اس کی بدعت اس کو دائرہ
 اسلام سے خارج نہیں کرتی اور اس کے خون کو جائز قرار نہیں دیتی، 
اس کی روایت قابل قبول ہو گی۔ 
فائدہ نمبر ۱: 
اگر راوی ثقہ و صدوق ہو، بدعت غیر مکفرہ کا مرتکب ہو تو اس کی روایت قبول ہو گی 
خواہ وہ روایت ظاہراً اس کی بدعت کو تقویت دے رہی ہو۔ یہی صحیح اور حق بات ہے۔ 
علامہ جوزجانی (م ۲۵۹ھ ) کہتے ہیں کہ اگر بدعتی راوی کی روایت اپنی 
بدعت کی تقویت میں ہو تو قبول نہیں۔ (احوال الرجال للجوزجاني : 32) 
یاد رہے کہ جوزجانی صدوق، حسن الحدیث ہیں لیکن خود غالی ناصبی،
 بدعتی تھے۔ ان کی یہ بات درست نہیں۔ (ديكھئيے التنكيل بما في تانيب الكوثري من الاباطيل:42
/1، 52) 
فائدہ نمبر ۲ : 
 امام اہل سنت نعیم بن حماد الخزاعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے امام عبداللہ بن
 مبارک رحمہ اللہ سے پوچھا کہ محدثین کرام نے عمرو بن عبید کو کس وجہ سے متروک
 قرار دیا ہے تو امام صاحب نے فرمایا : عمرو بن عبید عقیدۂ قدر کا داعی تھا۔ “ (تقدمه الجرح 
والتعديل لابن أبى حاتم : 273، وسنده حسن) 
اگر کوئی یہ اشکال پیش کرے کہ جب داعی الی البدعہ کی روایت قبول 
ہے تو عمرو بن عبید کو داعی الی القدر ہونے کی بنا پر متروک کیوں قرار 
دیا گیا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ عمرو بن عبید پر محدثین کرام کی 
جروح

 یہ بتاتی ہیں کہ یہ ’’ کذاب “ اور ’’ وضاع “ بھی تھا۔ یقیناً یہ اپنی بدعت 
کے
 لیے جھوٹ بولنا اور حدیثیں گھڑنا روا سمجھتا ہو گا۔ گویا اس کی اپنی 

بدعت کی طرف دعوت جھوٹ اور وضع حدیث سے مرکب تھی۔ ایسی 
مرکب دعوت راوی کو ناقابل اعتبار اور ساقط العدالت بنا دیتی ہے، لہٰذا
 محدثین کرام نے اسے متروک قرار دیا۔ 
یہاں بطور خاص یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ کسی شخص کے قدری ہونے
 کا یہ مطلب نہیں کہ منکر تقدیر ہے، بلکہ قدری لوگوں کا عقیدہ یہ تھا
 کہ شر شیطان کی طرف سے ہوتا ہے یا شر صرف بندے کا فعل ہے
 جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ خیر و شر دونوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہے،
 شر کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنا صحیح نہیں۔ اس لیےکہ شر اللہ
عالیٰ نے حکمت کے تحت پیدا کیا ہے، لہٰذا وہ شر بھی اپنی حقیقت میں
 اور اللہ تعالیٰ کی نسبت سے خیر ہے۔ اہل سنت و الجماعت کہتے ہیں 
کہ اللہ تعالیٰ کے فعل میں شر نہیں بلکہ اس کی مخلوقات میں شر موجود
 ہے۔ اتنی سی بات منکرین حدیث سمجھ نہیں پائے اور انہوں نے محدثین
 کرام کو منکرین تقدیر کہہ کر اعتراضات شروع کر دیے ہیں۔ 
فائدہ نمبر ۳ : 
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
 محمد بن الحسن الشيباني صاحب الراي وكان مرجئا داعيا إليه، وهو أول من رد على أهل المدينة،
 ونصر صاحبه، يعني النعمان، وكان عاقلا، ليس فى الحديث بشيء، كان يروي عن الثقات، ويهم
 فيها، فلما فحش ذلك منه استحق تركه من أجل كثرة خطئه، لأنه كان داعية إلى مذهبهم . 
 ’’ محمد بن الحسن الشیبانی صاحب الرائے اور مرجی تھا، ارجاء کی طرف دعوت دیتا تھا۔
 وہ پہلا شخص تھا جس نے اہل مدینہ کی مخالفت کی اور اپنے استاذ، یعنی نعمان کی نصرت
 و تائید کی۔ وہ قیاس کرتا تھا، حدیث میں کسی کام کا نہ تھا۔ وہ ثقہ راویوں سے روایات بیان
 کرتا تھا اور ان میں وہم کھاتا تھا۔ جب یہ اوہام زیادہ ہو گئے تو کثرت خطا کی وجہ سے وہ 
متروک قرار دیے جانے کا مستحق ہو گیا کیونکہ وہ اہل ارجاء کے مذہب کی طرف دعوت 
دیتا تھا۔ “ (كتاب المجروحين لابن حبان: 275/2، 276) 
محمد بن حسن شیبانی بالاتفاق ’’ ضعیف “ راوی ہے۔ اس کو امام یحییٰ 
بن معین رحمہ اللہ نے ’’ کذاب “ قرار دیا ہے۔ معلوم ہوا کہ عمرو بن عبید 
والی کاروائی میں ملوث تھا۔ اس کی طرح اس کی بھی اپنی بدعت کی
 طرف دعوت جھوٹ کے ساتھ مرکب تھی۔ 
فائدہ نمبر ۴ : 
 اگر کوئی کہے کہ صحیح بخاری میں عباد بن یعقوب الرواجنی ابوسعید الکوفی راوی 
موجود ہے جو مشہور رافضی ہے اور بدعت کا داعی ہے تو واضح رہے کہ یہ راوی حسن 
الحدیث ہے اور جمہور محدثین کرام نے اس کی توثیق کی ہے۔ کسی بھی ثقہ و صدوق راوی
 کی روایت قابل قبول ہوتی ہے جب تک وہ ساقط العدالت نہ ہو جائے۔ 
دوسری بات یہ ہے کہ اصولِ بخاری میں اس کی کوئی روایت موجود نہیں۔ 
حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس سلسلے میں لکھتے ہیں : 
وعنه البخاري حديثا في الصحيح مقرونا بآخر . 
’’ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اس سے اپنی صحیح میں ایک حدیث روایت کی ہے لیکن
 وہ حدیث اس کے ساتھ دوسرے ثقہ راوی کو ساتھ ملا کر بیان کی ہے۔ “ (ميزان الاعتدال : 379/2) 
گویاا مام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں اس سے حجت نہیں لی۔ 
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : 
’’ اس کی روایت کے علاوہ اس حدیث کے اور طرق بھی بخاری میں موجود
 ہیں۔ “ (ھدي الساري لابن حجر) 
لہٰذا یہ اعتراض ختم ہوا۔ 
ولِلّٰهِ اَلْحَمْدُ 
اگر کوئی کہے کہ صحیح بخاری میں عمران بن حطان نامی راوی کی روایت
 موجود ہے جو کہ خارجیوں کا رئیس تھا تو جواب یہ ہے کہ خروج کا الزام 
ثابت ہو جانے کی صورت میں بھی اس راوی کی حدیث کے لیے مضر نہیں
 کیونکہ یہ صدوق، حسن الحدیث تھا۔ جمہورمحدثین کرام نے اس کی
 توثیق کی ہے۔ پھر صحیح بخاری کے اندر اصول میں اس کی کوئی روایت 
موجود نہیں جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتےہیں کہ متابعت میں
 صرف ایک حدیث ہے اور اس کے بھی کئی اور طرق موجود ہیں۔
 (ھدي الساري لابن حجر : 433) 
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں جو راوی اصول کے نہیں، یعنی
 ان کی روایات متابعات و شواہد میں ذکر کی گئی ہیں، وہ ہماری بحث سے
 خارج ہیں۔ عمومی طور پر منکرین حدیث اور عقل پرستوں کا حملہ انہی 
راویوں پر ہوتا ہے جو اصول کے راوی نہیں ہیں، یعنی امام بخاری و مسلم 
نے اپنی سند کے ساتھ ان سے مرفوع، مسند اور متصل روایت بیان نہیں
 کی ہوتی۔ ان کی روایات متابعات و شواہد میں ہوتی ہیں یا دوسرے راویوں
 کو ملا کر ذکر کی گئی ہوتی ہیں۔ ایسے راویوں پر جرح کر کے یا ان کو 
بدعتی قرار دے کر یہ باور کرانا کہ بخاری و مسلم میں ضعیف راوی موجود 
ہیں، محض مغالطہ ہے۔ 
یہی صحیح روایات بخاری و مسلم سے پہلے دوسرے محدثین کرام نے
 اپنی کتابوں میں بھی درج کی ہوتی ہیں، اس کے باوجود حملہ بخاری 
و مسلم پر ہوتا ہے۔ کیوں ؟ 
جناب سرفراز خان صفدر دیوبندی صاحب منکرین حدیث کے بارے میں 
لکھتے ہیں : 
 ’’ یہ بےچارے اصولِ حدیث میں بالکل کورے ہیں۔ محمد بن خازم بخاری اور 
مسلم کے مرکزی راوی ہیں۔ اصولِ حدیث کی رُو سے ثقہ راوی کا خارجی
 یاجہمی، معتزلی یا مرجی، وغیرہ ہونا اس کی ثقاہت پر قطعاً اثر انداز نہیں ہوتا اور صحیحین میں ایسے راوی بکثرت ہیں۔ “ (احسن الكلام از صفدر، حصه اول: ص31) 
صحیح بخاری و مسلم میں بدعتی راویوں کے بارے میں چند اصولی باتیں
 یاد رکھنی چاہئیں : 
(1) صحیحین میں بدعت کبریٰ، یعنی بدعت مکفرہ کے مرتکب راوی کی کوئی روایت موجود
 نہیں۔ 
(2) صحیحین میں ثقہ و صدوق بدعتی راویوں کی روایات موجود ہیں۔ ایسے راویوں کی روایات
 میں کوئی مضرت نہیں۔ 
(3) صحیحین میں ایسے ثقہ و صدوق بدعتی راویوں کی روایات موجود ہیں جو بدعت کے
 داعی تھے۔ یہ چیز بھی چنداں مضر نہیں۔ 
(4) صحیحین میں ایسے ثقہ و صدوق راوی بھی ہیں جن پر بدعتی ہونے کا محض الزام ہے۔ 
(5) صحیحین میں ایسے ثقہ و صدوق راوی بھی موجود ہیں جن پر کسی بدعتی کی تعریف کی
 بنا پر وہی الزام تھوپ دیا گیا۔ 
(6) صحیحین میں ایسے ثقہ و صدوق راوی بھی ہیں جو پہلے بدعتی تھے لیکن بعد میں انہوں

 نے اپنی بدعت سے رجوع کر لیا تھا۔ 
(7) یہ بھی ممکن ہے کہ صحیح بخاری میں موجود روایت بدعتی راوی نے اپنی بدعت کو
 اختیار کرنے سے پہلے بیان کر دی ہو۔ 
(8) صحیح بخاری و مسلم میں ایسے ثقہ و صدوق راوی بھی موجود ہیں جن کی روایات
 بظاہر ان کی بدعت کو تقویت دیتی ہیں۔ یہ چیز بھی مضر نہیں کیونکہ صدق و عدالت سے
 موصوف ثقہ و صدوق راوی کسی صحیح حدیث میں غلط تاویل کر سکتا ہے۔ جب وہ خود سچا
 اور عادل ہے تو اس کی غلط تاویل سے صحیح حدیث میں کوئی خرابی نہیں آئے گی۔ اس
 کی روایت قبول کرنے میں کوئی مانع اور حرج نہیں۔
السنہ جہلم شمارہ ۳۵، ص۳۹۔ 

محمد علی مرزا جہلمی کے گمراہ کن نظریات

                        محمد علی مرزا جہلمی کے گمراہ کن نظریات

                   




کچھ ماہ پہلے محمد علی مرزا جہلمی نامی ایک لڑکے کے منہج اور اس کی ویب سائٹ کے بارے میں اردو مجلس پر سوال ہوا۔راقم الحروف کو چونکہ اردو مجلس کی مجلس علماء میں شامل کیا گیا ہے،لہٰذا علم ہونے کے باوجود اس سوال کا جواب نہ دینا ہماری امانت و دیانت کے خلاف تھا۔ہم نے اختصار کے ساتھ اس کی چیدہ چیدہ گمراہیاں اردو مجلس میں بیان کر دیں۔ پھر کیا تھا کہ مرزا کے کچھ ساتھیوں کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور وہ لگے ہمارے اوپر دروغ گوئی کے فتوے داغنے۔ان کا مطالبہ یہ تھا کہ ہم نے جو کچھ لکھا ہے، وہ صاف جھوٹ ہے، مرزا کی جن گمراہیوں کا ذکر کیا گیا ہے،وہ ان سے پاک ہے،نیز انہوں نے اس بارے میں ثبوت کا مطالبہ بھی کر دیا۔ لیکن اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ ہم کچھ اہم نجی و علمی مصروفیات کی بنا پر اردو مجلس کو وقت نہ دے سکے۔اِن دنوں جب ہم نے اردو مجلس جوائن کی تو معلوم ہوا کہ فرطِ عقیدت میں یہ لوگ حدودِ تہذیب و اخلاق عبور کر چکے ہیں اور باوجود کچھ ساتھیوں کی ترغیب ِصبر و انتظارکے، انہوں نے تحمل سے کام نہیں لیا۔

دراصل اس وقت ثبوت جمع کر کے پیش نہ کرنے کی وجہ ہمارا یہ خیال بنا کہ منہج سلف پر گامزن شخص محمد علی مرزا کی خرافات سن کر فوراً یہ بھانپ جائے گا۔ مختلف علاقوں کے بہت سے اہل حدیث ساتھی ہمارے علم میں ہیں،جنہوں نے اسے شروع میں ہی بھانپ لیا تھا۔لیکن جو لوگ منہج سلف کو اچھی طرح سے سمجھ نہیں پائے یا ان کو محمدعلی مرزا کا صحیح چہرہ نظر نہیں آیا،وہ واقعی ثبوت طلب کرنے کے مجاز ہیں۔لیں جی!ہم ثبوت لیے ان کی خدمت میں حاضر ہیں۔

یہاں پر ہم یہ بھی بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ عصر حاضر کے شیعوں کی طرح تقیہ کرنا محمدعلی مرزا کا معمول ہے۔اس کی خلوت اور جلوت کی گفتگو میں بہت تضاد ہوتا ہے۔عام لوگوں کے سامنے وہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی تکریم کرتا ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی عزت کرتا ہے،اہل حدیثوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھتاہے،وغیرہ وغیرہ۔لیکن کچھ خاص لوگ،جن کے بارے میں اسے یقین ہو جاتا ہے کہ وہ پوری طرح اس کے چنگل میں آ چکے ہیں،ان کے سامنے وہ کھل کر اپنے خُبثِ باطن کا اظہار کرتا ہے اور اس کی ایسی ساری گفتگو خاص لوگوں سے براہِ راست یا فون پر ہوتی ہے۔ہم اس کے فون کی ریکارڈ شدہ گفتگو ہی یہاں پیش کر رہے ہیں۔

اردو مجلس کے ایک رُکن ''راج وَن'' نامی شخص کے بقول ہم نے مرزا محمدعلی پر''پانچ سنگین'' الزامات عائد کیے ہیں۔ آئیے اسی صاحب کے مطالبات کی ترتیب سے ہم ثبوت پیش کیے دیتے ہیں

1

       محمد علی مرزاسیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرتے ہوئے انہیں بدعتی قرار دیتا ہے،نیز اس کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے راضی نہیں ہوا۔

٭ثبوت حاضر ہے

2

        یہ علمائے اہل حدیث کے بارے میں بکواسات کرتا ہے۔
ثبوت حاضر ہے

 یہ بھی سنیں

 اس کا کہنا ہے کہ جن علمائے اہل حدیث نے تقیہ باز رافضی اسحاق جھالوی کو گمراہ قرار دیا ہے،انہوں نے اسلام دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔

٭ثبوت حاضر ہے

(یاد رہے کہ شیخ زبیر علیزئی سمیت تمام علمائے اہل حدیث نے متفقہ طور پر اسحاق جھالوی کو صحابہ دشمنی کی بنا پر سخت گمراہ قرار دیا ہوا ہے)۔
3

        اس نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بارے میں زبان درازی کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ فرقہ پرستی کی لعنت کا شکار تھے اور حق کو قبول نہیں کرتے تھے۔

٭ثبوت حاضر ہے




4

شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ محمد علی مرزا کو فضول،غلط اور بکواسی قرار دیتے ہیں۔انہوں نے فرمایا ہے کہ ایک عرصہ ہوا،میں نے اس سے رابطہ ختم کر دیا ہے۔اس کی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں پالیسی غلط ہے،بلکہ بکواس ہے۔شیخ فرماتے ہیں کہ اگر محمدعلی مرزا اب بھی ان کا نام استعمال کرتا ہے تو یہ اس کے لیے نقصان دہ ہے،کیونکہ اس کے بارے میں جو شخص بھی مجھ سے بات کرے گا،میں اس کے بارے میں کم از کم یہ الفاظ کہوں گا کہ محمدعلی غلط ہے اور وہ غلط کہتا ہے۔اس کی کیا عزت رہے گی؟


ثبوت حاضر ہیں

1  یہ لیں

یہ لیں  2

یہ لیں  3

5
       اس کا عقیدہ ہے کہ تمام صحابہ مرحوم و مغفور نہیں ہیں،بلکہ [رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ]کی صورت میں مغفرت کی ضمانت صرف کچھ صحابہ کرام کے لیے ہے۔

٭ثبوت حاضر ہے

کیا یہی سلف کا منہج ہے؟سلف صالحین قرآن و سنت کی روشنی میں تمام صحابہ کرام کو مرحوم و مغفور سمجھتے ہیں۔یہ بات کسی سنی مسلمان سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔

نیز سلف صالحین تو مشاجرات ِصحابہ کے بارے میں اپنی زبان نہیں کھولتے تھے،بلکہ اس سے منع کرتے تھے،اس حوالے سے شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کی کتاب ''مشاجرات ِصحابہ اور سلف کا موقف''کا مطالعہ ضروری ہے۔اس کے برعکس محمد علی مرزا سیدنا معاویہ،سیدنا مغیرہ بن شعبہ، سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم سمیت کئی صحابہ کرام کے بارے میںمنہج سلف کا مخالف ہے۔

یہ تو ابھی محمد علی مرزا کے عقائد کی ایک جھلک تھی، ورنہ اس کے اندر اور بھی گمراہیاں ہیں۔

ہمارا مقصد صرف اور صرف اس کی گمراہیوں سے لوگوں کو اور خود اس کو آگاہ کرنا ہے۔

اللہ تعالی اسے ہدایت دے اور منہج سلف پر گامزن فرمائے اور لوگوں کو اس کے شر سے محفوظ فرمائے۔  آمین





Posted 22nd February 2013 by Darulaslaf Pakistan

پیر، 9 جنوری، 2017

اسلاف پرستی ہی در اصل اصنام پرستی ہےاسلاف پرستی ہی در اصل اصنام پرستی ہے۔

اسلاف پرستی ہی در اصل اصنام پرستی ہے۔ دنیا میں شرک اولیاء و صلحا کی محبت وتعظیم میں غلو کے باعث پھیلا۔ اس حقیقت کو مشہور مفسر علامہ فخر االدین رازی (۶۰۶-۵۴۴ھ ) نے یوں آشکارا کیا ہے۔
اِنہم وضعو ہذہ الأصنام والأوثان علی صور أنبیائہم و أکابرہم و زعمو انّہم متٰی اشتغلو بعنادۃ ہذہ التماثیل فاِنّ أولئک الأکابر تکون شفائ لہم عند اللہ تعالیٰ، و نظیرہ فی ہذا الزمان اشتغال کثیر من الخلق یتعظّم قبور الأکابر علی اعتقاد اٌنّہم اِذا عظّمو قبورہم فاِنّہم یکونون شفعاء لھم عند اللہ ۔
‘‘ مشرکین نے اپنے انبیائے کرام اور اکابر کی شکل ، صورت پر بت اور مُورتیاں بنا لی تھیں۔ ان کا ا اعتقاد تھا کہ جب وہ ان مورتیوں کی عبادت کرتے ہیں تو یہ اکابر اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی سفارش کرتے ہیں ۔ اس دور میں اس شرک کی صورت یہ ہے کہ بہت سے لوگ اپنے اکابر کی قبروں کی تعظیم میں مصروف ہیں۔ ان کا اعتقاد ہے کہ اکابر کی قبروں کی تعظیم کرنے کی وجہ سے وہ اکابر اللہ کے ہاں ان کے سفارشی بنیں گے۔ ’’
(تفسیر الرازی: ۲۲۷/۱۷ )
قران و حدیث میں قبر پرستی کے جواز پر کوئی دلیل نہیں ۔ اس کے بر عکس قبر پرستی کی واضح مذ مت موجود ہے۔ یہ قبوری فتنہ شرک کی تمام صورتوں اور حالتوں پر حاوی ہے۔غیر اللہ سے استمداد ، استعانت اور استغاثہ ، مخلوق کے نام پر نذ ر و نیاز اور اس سے امیدیں وابستہ کرنا قبر پرستی کا ہی شاخسانہ ہے۔
قرآن کریم نے اہل فکر و نظر کو ان الفاظ میں دعوت توحید دی ہے:
قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍ . وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّاوَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ
‘‘ (اے نبی ) کہہ دیجئے! تم ان لوگوں کو پکارو جن کو تم اللہ کے سوا (معبود ) سمجھتے ہو۔ وہ تو آسمان و زمین میں ایک ذ رے کے بھی مالک نہیں، نہ ان کا آسمان و زمین میں کوئی حصہ ہے نہ ان میں سے کوئی اللہ تعالٰی کا معاون ہے نہ اللہ کے ہاں کوئی سفارش فائدہ دیتی ہے، ہاں جس شخص لے لئے وہ خود اجازت دے۔’’
(سبا: ۲۳،۲۲ )
شیخ الاسلام ثانی ، عالم ربانی ، امام ابن قیم رحمہ اللہ ( ۷۵۱-۶۹۱ھ ) اس آیت کے متعلق لکھتے ہیں:
فتأمّل کیف أخذت ہذہ الآیۃ علی المشرکین بمجامع الطریق الّتی دخلو منہا اِلی الشرک و سدّتہا علہیم أحکم سدّ و ابلغہ، فاِنّ العابد  إنّما یتعلّق بالمعبود لما یرجو من نفعہ، و اِلّا فلو لم یرج منہ منفعۃ لم یتعلق قلبہ بہ، و حینئذ فلا بدّ أن یکون المعبود  مالکا للأسباب الّتی ینفع بہا عابدہ، أو شریکا لمالکہا أو ظہیرا أو وزیرا و معاونا لہ أو وجیہا ذا حرمۃ و قدر یشفع عندہ، فاِذا انتفت ہذہ الأمور الأربعۃ من کلّ وجہ و بطلت انتفت أسباب الشرک و انتقعت موادّہ، فنفی سبحانہ عن آلہتہم أن تملک مثقال ذرّۃ فی السموات والأرض، فقد یقول المشرک: ہی شریکۃ لمالک الحقّ فنفی شرکتہا لہ، فیقول المشرک: قد تکون ظہیرا و وزیرا و معاونا، فقال: و ما لہ منہم من ظہیر، فلم یبق اِلّا الشفاعۃ فنفاہا عن آلہتہم و أخبر أنہ لا یشفع عندہ أحد اِلّا باِذنہ ۔
‘‘ آپ غور کریں کہ اس آیت نے مشرکین کا کس طرح ناطقہ بند کیا ہے۔ ’’ ان کے شرک میں داخل ہونے کے دروازوں کو کس قدر پختگی اور وعمد گی سے بند کیا ہے۔ کوئی عبادت کرنے والا اپنے معبود سے اسی لئے تعلق رکھتا ہے کہ اسے اس سے کسی فائدے کی امید ہوتی ہے۔ اگر معبود سے کسی فائدے کی توقع نہ ہو تو عبادت کرنے والے کا دل معبود سے نہیں لگتا۔ تب ضروری ہے کہ معبود یا تو ان اسباب کا مالک ہو جن سے عبادت گذار  کو فائدہ ہو یا معبود ان اسباب کے مالک کا ساجہی اور حصہ دار ہو یا اس کا معاون یا وزیر و مشیر ہو یا مالکِ اسباب کی نظر میں اس قدر جاہ،جلال کا حامل ہو کہ وہ اس کی سفارش کو ردّ نہ کر سکے۔ جب یہ چاروں اُمور ہر طرح سے باطل ہیں توشرک کے اسباب کی بھی نفی ہو گئی اور اس کی بنیادیں اُکھڑ گئیں۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی نے مشرکین کے معبودوں کے بارے میں آسمان و زمین کے ایک ذرے کے مالک ہونے کی بھی نفی کر دی ہے۔ بسا اوقات مشرک کہہ دیتا ہے کہ یہ معبود مالکِ حقیقی کے ساجھی ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ان کے حصہ دار ہونے کی نفی کر دی۔ پھر مشرک کہہ دیتا ہے کہ وہ اللہ تعالٰی کے معاون، وزیر یا دستِ راست ہیں۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ ان میں سے اس کا کوئی بھی معاون نہیں۔اب صرف سفارش کی بات رہ گئی تھی تو اللہ تعالٰی نے ان کے معبودوں سے اس کی بھی نفی کر دی اور فرمایا کہ اس کے دربار میں اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش نہیں کر سکتا۔’’
(الصواعق المرسلۃ لابن القیم: ۴۶۲،۴۶۱/۲ )
جو لوگ اہل قبور کو نفع و نقصان، عزت و دولت، حیات و موت ،صحت و مرض اور فراخی و تنگی کا مالک سمجھتے ہیں ان کے رد میں شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ (۷۲۸-۶۶۱ھ ) فرماتے ہیں:
عامّۃ المذ کور من المنافع کذب، فإنّ ہؤلاء الّذین یتحرّون الدعاء عند القبور و أمثالہم اِنّما یستجاب لہم فی النادر ، و یدعو الرجل منہم ما شاء اللہ من دعوات ، فیستجاب لہ فی واحدۃ ،و یدعو خلق کثیر منہم، فیستجاب للواحد بعد الواحد، و أین ہذا من الّذین یتحرّون الدعاء فی أوقات الأسحار و یدعون اللہ فی سجودہم و أدبار صلواتہم و فی بیوت اللہ، فاِنّ ہؤلا اِذا ابتہلوا ابتہالا من جنس القبوریّین لم تکد تسقط لہم دعوۃ ا،لّا لمانع، بل الواقع أنّ الابتہال الّذی یفعلہ القبوریّون اِذا فعلہ لم یردّ المخلصون الّا نادرا، و لم یستجب للقبوریّین إلأ نادرا، و المخلصون کما قال النبی صلّی اللہ علیہ و سلّم : (( ما من عبد یدعو اللہ بدعوۃ لیس فیہا إ ثم ولا قطعیہ رحم إلّا أعطاہ اللہ بہا إحدی خصال ثلاث: إمّا أن یعجل اللہ لہ دعوتہ، أو یدّخر لہ من الخیر مثلہا، أو یصرف عنہ من الشرّ مثلہا))، قالوا : یا رسول اللہ ! إذًانکثر، قال: ((اللہ أکثر ))
 (مصنف عبد الرزاق: ۲۲/۶، الرقم: ۲۹۱۷۰،مسند أبی یعلی : ۲۹۷/۲،ح: ۱۰۱۹،مسند امام احمد: ۱۸/۳، الأدب المفرد للبخاری: ح۷۱۰، وصحّح الحاکم (۱۸۱۶) إسنادہ،و سندہ حسن)
فہم فی دعائہم لا یزالون بخیر، و أمّا القبوریّون فإنّہم إذا استجیب لہم نادرافإنّ أحدہم یضعف توحیدہ و یقلّ نصیبہ من ربّہ، ولا یجد فی قلبہ من ذوق طعم الإیمان و حلاوتہ ما کان یجدہ السابقون الأوّلون ۔
‘‘  (قبر پرستی کے) جو اکثرفائدے ذکر کئے جاتے ہیں وہ جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں۔ یہ مشرک لوگ قبروں وغیرہ کے پاس جا کر کثرت سے دعا کرتے ہیں ۔ بس کبھی کبھار وہ دعا (اللہ کی طرف سے ) قبول ہو جاتی ہے۔ اور کوئی مشرک بہت سی دُعائیں کرتا ہے لیکن اُن میں سے کوئی ایک دعا قبول ہوتی ہے ۔ پھر بہت سے مشرک لوگ دعا کرتے ہیں تو ان میں سے کبھی کسی ایک کی اور کبھی کسی ایک کی دعا قبول ہوتی ہے ۔ یہ کیفیت ان لوگوں کو کہاں لاحق ہوتی ہے جو سحری کے وقت اللہ تعالٰی سے دُعا کرتے ہیں اور اللہ تعالٰی کو اپنے سجدوں میں ، اپنی نمازوں کے آخر میں اور مساجد میں پکارتے ہیں ۔ یہ موحد لوگ جب ان قبر پرستوں کی طرح گڑ گڑا کر دُعائیں کریں تو ممکن نہیں کہ ان کی کوئی دُعا ردّ ہو جائے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب موحد لوگ اس طرح اللہ تعالٰی سے دُعا کریں تو ان کی دُعا بہت کم ردّ ہوتی ہے، جبکہ قبر پرستوں کی دُعا قبول ہی بہت کم ہوتی ہے ۔ موحدین کی دعا کے بارے میں رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا ہے :
(( ما من عبد یدعو اللہ بدعوۃ لیس فیہا إثم ولا قطیعۃ رحم إلّا اعطاہ اللہ إ حدی خصال ثلاث: إمّا أن یعجّل اللہ لہ دعوتہ، او یدّخر لہ من الخیر مثلھا، أو یصرف عنہ من الشرّ مثلہا))، قالوا : یا رسول اللہ! قال: ((اللہ أکثر ))
(کوئی بھی مسلمان بندہ جب اللہ تعالٰی سے کوئی ایسی دعا کرتا ہے جس میں کوئی گناہ یا رشتہ داروں سے قطع تعلقی کی بات نہ ہو تو اللہ تعالٰی اسے تین باتوں میں سے ایک عطا فرما دیتا ہے ۔ یا تو اس کی دُعا فوراً قبول کر لیتا ہے یا اس دُعا کی مثل کوئی اور بھلائی اسے عطا فرما دیتا ہے یا اس سے کوئی ایسا ہی نقصان دور کر دیتا ہے ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! اگر یہ بات ہے تو پھر ہم بہت زیادہ دعائیں کریں گے۔ آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ عطا فرمانے والا ہے )
(مصنف عبد الرزاق: ۲۲/۶، الرقم: ۲۹۱۷۰،مسند أبی یعلی : ۲۹۷/۲،ح: ۱۰۱۹،مسند امام احمد: ۱۸/۳، الأدب المفرد للبخاری: ح۷۱۰، وصحّح الحاکم (۱۸۱۶) إسنادہ،و سندہ حسن)
‘‘موحد لوگ اپنی دُعاؤں میں ہمیشہ بہتری میں رہتے ہیں ۔ اس کے بر عکس قبر پرست لوگوں کی جب کبھی کبھار کوئی دُعا قبول ہو جاتی ہے تو ان کی توحید کمزور ہو جاتی ہے ، اپنے رب سے ناطہ و تعلق کم ہو جاتا ہے اور وہ دل میں ایمان کی وہ حلاوٹ اور ذائقہ محسوس نہیں کرتے جو پہلے مسلمان محسوس کرتے تھے۔’’
(اقتضاء الصراط المستقیم لابن تیمیۃ: ۶۸۹/۲ )
             قبر پرستی ایک بے دلیل عمل
بعض الناس جو معاملہ اپنے بزرگوں کی قبروں کے ساتھ کرتے ہیں ،سلف صالحین اس سے بالکل بے خبر تھے۔ یہ کیسا دین ہے جس سے سلفِ امت غافل رہے ہوں؟
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا ہے:
ہل یمکن لبشر علی وجہ الأرض أن یأتی عن أحد منہم (أی السلف الصالح ) بنقل صحیح أو حسن أو ضعیف أو منقطع أنّہم کانو إذا کان لہم حاجۃ قصدوا القبور فدعوا عندہا، و تمسّحو بھا فضلا أن یصلّو عندہا أو یسألو ا اللہ بأصحابہا أو یسألوہم حوائجہم ، فلیوقفونا علی أثر واحد أو حرف واحد فی ذلک ۔ 
‘‘ کیا روئے زمین پر کسی انسان کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ سلف صالحین میں سے کسی ایک سے کوئی ایک صحیح یا حسن یا ضعیف یا منقطع روایت بیان کرے کہ جب ان کو کوئی ضرورت ہوتی تھی تو وہ قبروں کی طرف جاتے اور ان کے پاس دُعا کرتے اور ان سے لپٹتے ہوں ۔ ان سے قبروں کے پاس نماز پڑھنے ، اہل قبور کے طفیل اللہ سے دُعا مانگنے یا اہل قبور سے اپنی حاجت روائی کی التجا کرنے کا ثبوت تو دُور کی بات ہے ۔ مشرکین ہمیں کوئی ایک ایسی روایت یا اس بارے میں کوئی لفظ دکھا دیں ۔ ’’
(اغاثۃ اللھفان فی مصاید الشیطان لابن القیم: ۳۱۸/۱ )
نیز شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فقد کان من قبور أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلّم بالأمصار عدد کثیر ، و عندہم التابعون و من بعدہم من الأئمّۃ، و ما استغاثو عند قبر صحابیّ قطّ و لا استسقوا عندہ ولا بہ، ولا استنصرو عندہ ولا بہ، ومن المعلوم أنّ مثل ہذا ممّا  تتوفّر الہمم والدواعی علی نقلہ، بل علی نقل ما ہو دونہ، و من تأمّل کتب الآثار و عرف حال السلف تیقّن قطعا أنّ القوم ما کانوا یستغیثون عند القبور و لا یتحرّون الدعاء عندہا أصلا، بل کانو ینہون عن ذلک من یفعلہ من جّہالہم ۔
‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلّم کے صحابہ کی قبروں کی بڑی تعداد شہروں میں تھی ۔ ان قبروں کے پاس تابعین اور ان کے بعد والے ائمہ دین رہتے تھے لیکن انہوں نے کبھی کسی صحابی کی قبر کے پاس آ کر مدد طلب نہیں کی اور نہ قبروں کے پاس اللہ سے بارش طلب کی نہ اس کے طفیل ایسا کیا، نہ ان قبروں کے پاس مدد طلب کی نہ ان کے طفیل ایسا کیا۔ یہ بات تو معلوم ہے کہ ایسے واقعات اگر رونما ہوں تو ان کو نقل کرنے کے اسباب و وسائل بہت زیادہ ہوتے ہیں بلکہ اس سے کم درجے کے واقعات بھی نقل ہوتے رہتے ہیں ۔ جو شخص آثا رِِ سلف کی کتب کا غور سے مطالعہ کر کے سلف صالحین کے حالات کو پہچان لے گا اسے قطعی طور پر یقین ہو جائے گا کہ وہ لوگ قبروں کے پاس نہ مدد طلب کرتے تھے نہ کبھی ( اپنے لئے) دُعا کرنے کے لئے وہاں جاتے تھے بلکہ اس دور کے جو جاہل لوگ ایسا کرتے تھے اسلاف انہیں اس سے منع کرتے تھے۔’’
(اقتضاء الصراط المستقیم: ۶۸۱/۲ )
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (۷۷۴-۷۰۰ ) اکابر پرستی کو شرک کا موجب قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
وأصل عبادۃ الأصنام من المغالاۃ فی القبور و أصحابہا، وقد أمر النبی صلی اللہ علیہ و سلّم بتسویۃ القبور و طمسہا، و المغالاۃ فی البشر حرام۔ 
‘‘ بتوں کی عبادت کا اصل سبب قبور اور اصحاب قبور کے بارے میں غلو کا شکار ہونا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلّم نے قبروں کو برابر کرنے اور (اونچی قبروں ) کو مٹانے کا حکم دیا ہے ۔ بشر کے بارے میں غلو کرنا حرام ہے ۔
 ’’(البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر: ۲۸۶/۱۰ )

پیر، 2 جنوری، 2017

علماء کا احترام

guy علماء کا احترام.                   ---------------------------علم اور اہل علم کی عزت اور قدر کرنی چاہیئے ،یہ بالواسطہ دین کی قدر ہے
 اور اہل علم بلند درجات کے اہل ہیں ، قرآن مجید کا بیان ہے کہ :
يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ ۙ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ 11
اللہ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان رکھنے والے ہیں اور جن کو علم بخشا گیا ہے درجے بلند فرمائے گا۔ (سورہ مجادلہ )
اور نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: " لَيْسَ مِنْ أُمَّتِي مَنْ لَمْ يُجِلَّ كَبِيرَنَا , وَيَرْحَمْ صَغِيرَنَا , وَيَعْرِفْ لِعَالِمِنَا حَقَّهُ "
انظر صَحِيح الْجَامِع: 5443، صَحِيح التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيب: 101 , (الحديث حجة بنفسه) ص83 )
فرمایا جو شخص ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے، ہمارے بچوں پر رحم نہ کرے، اور جو ہمارے عالِم کا حق نہ پہچانے وہ میری اُمت میں سے نہیں ہے،
 اور
 تعلیم نبوت میں یہ بھی ہے کہ عام مسلمان کے عیوب پر پردہ ڈالنا چاہیئے ، علماء کے عیوب کی پردہ پوشی تو اور بھی اخلاق کریمانہ کا تقاضا ہے ؛
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لَا يَسْتُرُ اللهُ عَلَى عَبْدٍ فِي الدُّنْيَا، إِلَّا سَتَرَهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ»
فرمایا :جو کسی بندے کی دنیا میں پردہ پوشی کرے گا ، اللہ تعالی روز قیامت اس کا پردہ رکھے گا ‘‘
اس لئے علماء کی عزت و احترام واجب ہے ،اور قرآن و حدیث میں علماء کے احترام میں وارد نصوص کو نہ جاننے والے سلیم الطبع عام مسلمان بھی
 علماء کا احترام کرتے نظر آتے ہیں ؛
 لیکن امت کی فرقوں میں تقسیم کے بعد علماء کی قدر و منزلت میں کمی آئی ہے ،
 عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ امت میں موجود اس تفریق و تقسیم کے ذمہ دارعلماء ہی ہیں ،
 یہ تعصب پھیلاتے ، اور غلط بیانی ، مبالغہ سے اختلافات کو بھڑکاتے ہیں ،
 اور ایک پہلو یہ بھی ہے کہ :
دوسرے مسلک کے علماء کو احترام نہیں دیا جاتا ،
 اور کہیں علماء کے ذاتی کردار میں کوتاہی کے سبب بھی غیر محترم سمجھا جاتا ہے
 احترام میں کمی کا سبب ان مذکورہ وجوہ کا خاتمہ تو طویل مدتی ،جامع جدوجہد کا متقاضی ہے ،. والله اعلم
سرخی شامل کریں


جمعرات، 29 دسمبر، 2016

سوال: کیا کافر حکمران کی اطاعت جایزہے

سوال: کیا کافر حکمران کی اطاعت جایزہے
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کسی پر جبر کیا گیا تو اس کا روزہ درست ہے، اس پر قضا بھی نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے جبراً کفر کرنے والے پر بھی كفر كا حکم نہیں لگایا، بشرطیکہ اسكا دل ایمان پر قائم ہو، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
{مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ}
ترجمہ: جس شخص نے ایمان لانے کے بعد اللہ سے کفر کیا، اِلا یہ کہ وہ مجبور کردیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو (تو یہ معاف ہے) مگر جس نے برضا و رغبت کفر قبول کیا تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور انہی کے لئے بہت بڑا عذاب ہے [النحل : 106]
چنانچہ اگر اللہ تعالی نے جبر کی صورت میں کفر کا حکم بھی کالعدم قرار دے دیا ہے تو اس سے کم تر امور تو بالاولی  کالعدم ہونگے،  اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ: (بیشک اللہ تعالی نے میری امت کی خطا ، بھول چوک، اور جبری گناہ معاف کر دیے ہیں) انتہی
"مجالس شهر رمضان" (ص: 82
حاصل کلام{ ہمیں کوکش کرنے چاہے کہ خلافت اسلامی قايم ہو  }{اور امام  البانی (رحمتہ اللہ )
کا قول ہے ان سے پوچہا گیا  کہ خلافت کب قايم ہوگی  آن کا جواب تہا کہ  { جب لوگ  اس کو آپنے
دلوں  پر قايم کرے گے اس کے بعد یہ زمین پر آیے گی  {توحید خالص- مقالات
و اللہ اعلم

www.mominsalafi.blogspot.com

مولانا وحید الدین خان کون سے بتائیں

                                                                     مولانا وحید الدین خان یکم جنوری ۱۹۲۵ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش اُتر پردیش، بھارت کے ایک قصبہ اعظم گڑھ میں ہوئی۔ چار یا چھ سال کی عمر میں ہی اِن کے والد محترم فریدالدین خان وفات پا گئے ۔ اِن کی والدہ زیب النساء خاتون نے اِن کی پرورش کی اور اِن کے چچاصوفی عبد الحمید خان نے اِن کی تعلیم کی ذمہ داری اُٹھائی۔خان صاحب کا کہنا ہے کہ بچپن کی یتیمی نے اُن میں مسائل سے جان چھڑانے کی بجائے اُن کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا کیا ۔1

اُنہوں نے ابتدائی تعلیم مدرسۃ الاصلاح،سرائے میر،اعظم گڑھ سے ہی حاصل کی۔ ۱۹۳۸ء میں اِس مدرسہ میں داخلہ لیا اور ۱۹۴۴ء میں چھ سال بعد اُنہوں نے یہاں سے اپنی مذہبی تعلیم مکمل کر لی۔اِس کے بعد ان کے بڑے بھائی نے اُنہیں کاروبار میں شامل کرنے کی کوشش کی لیکن اُن کا خیال یہ تھا کہ اُنہیں ابھی انگریزی زبان کی تعلیم حاصل کرنی ہے۔ اِس مقصد کے لیے اُنہوں نے لائبریری جا کر سائنس اور جدید علوم کی کتب کا مطالعہ شروع کیا۔2

www.mominsalafi.blogspot.comکچھ عرصہ بعد خان صاحب نے محسوس کیا کہ اُنہوں نے مدرسہ کی تعلیم کے ساتھ جدید علوم کا بھی کافی مطالعہ کر لیا ہے تو اُنہوں نے دینی علم کو زمانۂ حاضر کے تقاضوں کے مطابق پیش کرنے کا ارادہ کیا۔ اُن کی تحریروں میں بین المذاہب مکالمہ اور اَمن کا بہت زیادہ ذکر ملتا ہے۔ اور آخر عمر میں اُنہوں نے دین اسلام کا خلاصہ اِنہی دو لفظوں میں بیان کیا ہے۔

۱۹۵۵ء میں اُن کی پہلی کتاب'نئے عہد کے دروازے پر' شائع ہوئی۔ یہی کتاب بعد میں اُن کی معروف کتاب 'مذہب اور جدید چیلنج' کے لیے بنیاد بنی اور اِس کا عربی ترجمہ الإسلام یتحدّٰی کے نام سے مقبولِ عام ہوا جو کئی ایک عرب جامعات کے نصاب میں بھی شامل ہے۔ جارج ٹاؤن یونیورسٹی سے شائع شدہ ایک حالیہ کتاب "500 Most Influential Muslims of 2009" میں اُنہیں"Islam's Spiritual Ambassador to the World" قرار دیا گیا ہے۔ (ایضاً)

جماعتِ اسلامی اور تبلیغی جماعت میں شمولیت

خان صاحب شروع شروع میں مولانا مودودی کی تحریروں سے متاثر ہوئے اور ۱۹۴۹ء میں جماعتِ اسلامی، ہند میں شامل ہوئے۔ کچھ ہی عرصہ میں جماعتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن بھی بن گئے۔ جماعتِ اسلامی کے ترجمان رسالہ 'زندگی' میں باقاعدگی سے لکھتے رہے ۔جماعت اسلامی میں شمولیت کے بعد مولانا وحید الدین خان صاحب نے ۱۵ سال کے بعد جماعتِ اسلامی کو خیرباد کہا۔جماعت اسلامی سے علیحدگی کے بعد تبلیغی جماعت کے ساتھ وابستہ ہو گئے لیکن ۱۹۷۵ء میں اُسے بھی مکمل طور پر چھوڑ دیا۔

ذاتی دعوتی اور علمی کام کا آغاز

۱۹۶۷ء میں اپنے دعوتی کام کا آغاز کیا۔ ۱۹۷۰ء میں نئی دہلی میں ایک اسلامک سنٹرکی داغ بیل ڈالی اور ۱۹۷۶ء میں 'الرسالہ' کے نام سے ایک اُردو رسالہ کا اِجرا کیا۔ ۱۹۸۴ء میں ہندی اور ۱۹۹۰ء میں انگریزی میں بھی'الرسالہ'جاری کیا گیا۔اُردو میں اُن کا ترجمہ قرآن اور تشریحی نکات 'تذکیر القرآن'کے نام سے دو جلدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ یہی ترجمۂ قرآن بعد میں ہندی اور انگریزی میں بھی شائع ہوا۔انگریزی ترجمہ The Quran کے نام سے شائع ہوا حالانکہ ترجمہ قرآن کا یہ نام رکھناکسی طور درست نہیں۔ کوئی بھی ترجمہ قرآن، حقیقی قرآنِ مجید نہیں ہو سکتا۔ قرآن مجید فصیح عربی زبان میں ہے اور جب اُس کا ترجمہ کسی اور زبان میں کیا جاتا ہے تو وہ قرآنِ مجید کا ترجمہ تو کہلایا جا سکتاہے لیکن قرآن مجید نہیں۔ خان صاحب نے ۲۰۰۱ء میں اپنے نقطۂ نظر اور دعوت کے پھیلاؤ کے لیے 'سی پی ایس' یعنی 'سنٹر فار پیس اینڈ سپرچوئیلٹی' کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جو اُن کے بقول 'دعوت' اور 'امن' دو بنیادوں پر قائم ہے۔

مولانا وحید الدین خان تقریباً دو سو کتب کے مصنف ہیں،جو اردو ،عربی اور انگریزی زبان میں ہیں۔ اُن کی معروف کتب میں تذکیر القرآن، اسلام دورِ جدید کا خالق، مذہب اور جدید چیلنج، تعبیر کی غلطی، رازِ حیات، دین کی سیاسی تعبیر، عقلیاتِ اسلام، پیغمبر ِانقلاب اور اللہ اکبر ہیں۔ انگریزی اور عربی کتابیں اکثر وبیشتر مولانا کی اُردو تحریروں ہی کے تراجم ہیں۔ (ایضاً)

فکر ی بنیادیں

مولانا وحید الدین خان صاحب کی تحریروں کے بالاستیعاب مطالعہ کے بعد اُن کے دعوتی اور علمی کام کو آسانی کی خاطر پانچ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :

تذکیرونصیحت: خان صاحب کی تحریروں میں تذکیر کا پہلو غالب اور نمایاں طور موجود ہے۔ چھوٹی اور عام سی بات سے بھی نصیحت کا پہلو نکال لینے میں اُنہیں کمال حاصل ہے۔خان صاحب لکھتے ہیں:

''ایک امریکی خاتون سیاحت کی غرض سے روس گئیں۔وہاں اُنھوں نے دیکھا کہ ہر جگہ کمیونسٹ پارٹی کے چیف کی تصویریں لگی ہوئی ہیں۔ یہ بات اُنھیں پسند نہیں آئی۔ ایک موقع پر وہ کچھ روسیوں سے اِس پر تنقید کرنے لگیں۔ خاتون کے ساتھی نے اُن کے کان میں چپکے سے کہا:''میڈم!آپ اِس وقت روس میں ہیں، امریکہ میں نہیں ہیں۔'' آدمی اپنے ملک میں اپنی مرضی کے مطابق رہ سکتا ہے ۔ لیکن اگر وہ کسی غیر ملک میں جائے تو وہاں اُس کو دوسرے ملک کے نظام کی پابندی کرنی پڑے گی۔ اگر وہ وہاں کے نظام کی خلاف ورزی کرے تو مجرم قرار پائے گا۔ ایسا ہی کچھ معاملہ وسیع تر معنوں میں دنیاکا ہے، انسان ایک ایسی دنیا میں پیدا ہوتا ہے جس کو اُس نے خود نہیں بنایا ہے۔ یہ مکمل طور پر خدا کی بنائی ہوئی دنیا ہے۔ گویا انسان یہاں اپنے ملک میں نہیں ہے بلکہ خدا کے ملک میں ہے۔''3

ردّ عمل کی نفسیات: خان صاحب کی فکر ردّ عمل کی نفسیات (Psychology of Reaction) پر قائم ہے اور یہ ردّعمل اسلام کے سیاسی تصور، معاصر اسلامی تحریکات اور متنوع مذہبی طبقات کا ہے۔خان صاحب لکھتے ہیں:

''کچھ لوگ اسلام کا جامع تصور پیش کر رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اسلام ایک مکمل نظام ہے۔ اسلام میں صرف عقیدہ اور عبادت اور اخلاق شامل نہیں ہیں، بلکہ پولیٹکل سسٹم بھی اس کا لازمی جز ہے۔ پولیٹکل سسٹم کو قائم کیے بغیر اسلام ادھورا رہتا ہے، وہ مکمل نہیں ہوتا۔ یہ بظاہر اسلام کا جامع تصور ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک تخریبی تصور ہے۔''4

ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

'' جہاں تک زمین پر سیاسی غلبہ کا معاملہ ہے، اس کا تعلق تمام تر اللہ تعالیٰ سے ہے۔ قرآنِ مجید کے مطابق، زمین پر سیاسی غلبہ کا فیصلہ براہِ راست اللہ کی طرف سے ہوتا ہے،اور وہ اُسی کو ملتا ہے جس کے لیے اللہ نے اُس کا فیصلہ کیا ہو (۲۶:۳)۔ اِس سے معلوم ہوا کہ سیاسی نظم کے قیام کو نشانہ بنا کر عمل کرنا، ایک مبتدعانہ عمل ہے۔ وہ دین کے نام پر بے دینی ہے۔ وہ اسلام کے نام پر اسلام سے انحراف کرنا ہے۔ اِس قسم کی کوشش کو کبھی بھی خدا کی نصرت نہیں ملے گی، اِس لیے ایسی کوشش کبھی کامیاب ہونے والی نہیں۔''5

ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

''موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی تمام بڑی بڑی تحریکیں حیرت انگیز طور پر انتہائی ناکامی کا شکار ہوئی ہیں۔مسلمان جب بھی کوئی تحریک اٹھاتے ہیں تو خدا اُن کے گھروندے کوٹھوکر مار کر گرا دیتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی یہ تمام سرگرمیاں خدا کی نظر میں بالکل نامطلوب ہیں۔ اِس بنا پر وہ اُن کو حرفِ غلط کی طرح مٹا رہا ہے۔''6

مذکورہ بالا عبارات بتا رہی ہیں کہ جذبات میں ٹھہراؤ اور اطمینان نہیں ہے اور اختلاف کے اظہار میں ردّعمل کی نفسیات واضح طور محسوس ہو رہی ہیں۔

تجدّد: خان صاحب کے افکار ونظریات میں تجدد پسندی (Modernity)کی طرف میلانات اور رجحانات بہت زیادہ پائے جاتے ہیں اور صحیح معنوں میں اُن پر لفظ 'متجدد' اس اعتبار سے صادق آتا ہے کہ اُنہوں نے دین کے بنیادی تصورات کی اَز سر نو ایسی تعبیر وتشریح پیش کی ہے جو اُن سے پہلے کسی نے نہیں کی اور وہ نہ صرف اِس بات کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ اپنے لیے اِس میں فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔خان صاحب لکھتے ہیں:

'' پچھلے ہزار سال میں مسلمانوں کے درمیان جو لٹریچر تیار ہوا، اُس میں سب کچھ تھا، مگر اُس میں جو چیز مکمل طور پر حذف تھی اور وہ ہے: دعوت اور اَمن کا تصور۔ اِس کے بعد جب مغربی طاقتوں نے مسلم ایمپائر کو توڑ دیا تو اِس کے خلاف رد عمل کی بنا پر یہ ذہن اور زیادہ پختہ ہو گیا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بیسویں صدی عیسوی پوری کی پوری، منفی سوچ اور منفی سرگرمیوں کی نذر ہو گئی۔ اِس پوری صدی میں نہ دعوت کا پیغام لوگوں کے سامنے آیا اور نہ اَمن کا پیغام، جب کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ راقم الحروف پر اللہ تعالیٰ نے استثنائی طور پر دعوت اور اَمن کی اہمیت کھولی۔''7

اب اُن کے اِس تصورِدعوت اور اَمن کی بھی ذرا سی جھلک ملاحظہ فرمائیں جو اُن کے بقول مسلم دنیا کی ایک ہزار سالہ تاریخ میں نہیں ملتا ۔ خان صاحب لکھتے ہیں:

'' ۱۱ نومبر ۲۰۰۱ء میں نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو توڑنے کا مشہور واقعہ پیش آیا۔ اِس واقعے کے بعد امریکا غضب ناک ہو گیا۔ اُس نے عراق اور افغانستان کے خلاف براہِ راست طور پر اور پوری دنیا کے خلاف بالواسطہ طور پر ایک انتقامی جنگ چھیڑ دی۔ اِس جنگ میں نام نہاد جہاد کے اَکابر رہنما یا تو مارے گئے یا وہ خاموش ہو گئے۔ امریکا کا یہ آپریشن اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک خدائی آپریشن تھا۔ اِس نے اُن تمام طاقتوں کو زیر کر دیا جو اَمن اور دعوت کے مشن کے خلاف محاذ بنائے ہوئے تھے۔''8

تنقیص: خان صاحب نے اپنے ماسوا تقریباً ہر دوسرے بڑے عالمِ دین پر تنقید کی ہے اور ان کی نقد تعمیری(Constructive Criticism) نہیں ہے بلکہ تنقیص (reproach and denunciation) کی ایک صورت ہوتی ہے۔ خان صاحب لکھتے ہیں:

'' اگر میں یہ کہوں تو مبالغہ نہ ہو گا کہ میں پیدائشی طور پر ایک تنقید پسند آدمی ہوں۔''9

ایک ہے کہ ضرورت کے تحت تنقید کرنا اور یہ ایک ناگزیر اَمر اور معاشرتی ضرورت ہے۔ جبکہ 'تنقید پسند ہونا' ایک دوسری بات ہے جو ہمارے خیال میں بہرطور درست نہیں ہے جبکہ تنقید کا معنی بھی 'تنقیص' سے زائد نہ ہو۔ مولانا کی اِس ترکیب میں 'پسند' کا لفظ بھی قابل غور ہے۔ خان صاحب ایک اور جگہ علما کی عیب جوئی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

''حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے علما مغربی افکار کو سرے سے جانتے ہی نہیں۔ علما اگر مغربی فکر کو گہرائی کے ساتھ سمجھتے تو اُس کو اپنے لیے عین مفید سمجھ کر اُس کااستقبال کرتے۔ مگر سطحی معلومات کی بنا پر وہ اِس کے مخالف بن گئے اور اِس کا مذاق اُڑانے لگے۔''10

ایک اور جگہ اہل علم پر الزام دھرتے ہوئے لکھتے ہیں:

''علما کی دورِ جدید سے بے خبری کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ایسا لٹریچر تیار نہ کر سکے جو جدید ذہن کو مطمئن کرنے والا ہو۔ شاہ ولی اللہ سے لے کر سید قطب تک، میرے علم کے مطابق، مسلم علما کوئی ایک کتاب بھی ایسی تیار نہ کر سکے جو آج کے مطلوبہ معیار پر پوری اُترتی ہو۔''11

ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

''سو سال سے بھی زیادہ مدت سے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ ہمیں دورِ جدید کے علما کی ضرورت ہےیعنی ایسے علما جو علوم دینیہ کی تحصیل کے علاوہ وقت کے علوم کی بھی تعلیم حاصل کریں۔ اِس طرح ایسے علما تیار ہوں جو قدیم و جدید دونوں سے واقف ہوں تاکہ وہ عصر حاضر کے مطابق، اسلام کی خدمت انجام دے سکیں۔ایسے لوگوں کی فہرست ہزاروں میں شمار کی جا سکتی ہے جو دونوں قسم کی تعلیم سے بہرہ ور ہوئے، مگر وہ ملت کی مطلوب ضرورت کو پورا نہ کر سکے۔ مثال کے طور پر چند نام یہاں لکھے جاتے ہیں: مولانا حمید الدین فراہی، مولانا سعید احمد اکبر آبادی، ڈاکٹر یوسف قرضاوی، پروفیسر مشیر الحق، ڈاکٹر عبد الحلیم عویس، ڈاکٹر عبد اللہ عباس ندوی، مولانا محمد تقی عثمانی، پروفیسر محمد یاسین مظہر صدیقی، پروفیسر محمد اجتبا ندوی، پروفیسر محسن عثمانی، پروفیسر ضیاء الحسن ندوی، ڈاکٹر عبد الحلیم ندوی، ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلی، ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی، ڈاکٹر سعود عالم قاسمی وغیرہ... میں نے ذاتی طور پر اِس قسم کے علما کی تحریریں پڑھی ہیں، مگر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اُن سب کی تحریریں قدیم روایتی مسائل کی جدید تکرار کے سوا اور کچھ نہیں۔''12

اختیال: خان صاحب کی تحریروں سے یہ واضح طور محسوس ہوتا ہے کہ اُن کے خیالوں میں اُن کی اپنی عظمت اور بڑائی اِس قدر رَچ بس گئی ہے اور وہ نرگسیت (Narcissism) کا شکار ہیں۔خان صاحب لکھتے ہیں:

''اَصحابِِ رسول کی حیثیت ایک دعوتی ٹیم کی تھی۔ یہ ٹیم ڈھائی ہزار سالہ تاریخ کے نتیجے میں بنی۔ اِس کا آغاز اس وقت ہوا جب ہاجرہ اور اسماعیل کو خدا کے حکم سے صحرا میں بسا دیا گیا۔ سی پی ایس کی ٹیم کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اَصحابِِ رسول کے بعد تاریخ میں ایک نیا عمل شروع ہوا۔ اِسی عمل کا کلمنیشن(culmination) سی پی ایس[مولانا وحید الدین خان] کی ٹیم ہے۔گویا اَصحابِِ رسول اگر قدیم زمانے میں ڈھائی ہزار سالہ تاریخی عمل کا کلمنیشن تھے توسی پی ایس[مولانا وحید الدین خان] کی ٹیم بعد کے تقریباً ڈیڑھ ہزار سالہ عمل کا کلمنیشن ہے۔ اَصحابِِ رسول کے بعد بننے والی طویل تاریخ کے تمام مثبت عناصر سی پی ایس[مولانا وحید الدین خان] کی ٹیم میں جمع ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار اِس کو یہ حیثیت ملی ہے کہ وہ دورِ حاضر میں اَخوانِ رسول کا رول ادا کر سکے۔بعد کے زمانے میں اُٹھنے والی تمام تحریکوں میں صرف سی پی ایس[مولانا وحید الدین خان] انٹرنیشنل وہ تحریک یا گروپ ہے جو استثنائی طور پر اِس معیار پر پوری اُترتی ہے۔ قرآن اور حدیث کی صراحت کے مطابق، اَصحابِ رسول کی امتیازی صفت یہ تھی کہ وہ پورے معنوں میں ایک داعی گروہ بنے۔ مگر بعد کےبننے والے گروہوں میں کسی بھی گروہ کو حقیقی معنوں میں داعی گروہ کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔''13

ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

'' غالباً یہ کہنا صحیح ہو گا کہ َاخوانِ رسول وہ اہلِ ایمان ہیں جو سائنسی دور میں پیدا ہوں گے،اور سائنسی دریافتوں سے ذہنی غذا لے کر اعلیٰ معرفت کا درجہ حاصل کریں گے، نیز یہی و ہ لوگ ہوں گے جو مہدی یا مسیح کا ساتھ دے کر آخری زمانے میں اعلیٰ دعوتی کارنامہ انجام دیں گے۔''14

ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

''ماضی اور حال کے تمام قرائن تقریباً یقینی طور پر بتاتے ہیں کہ سی پی ایس[مولانا وحید الدین خان] کی ٹیم ہی وہ ٹیم ہے جس کی پیشین گوئی کرتے ہوئے پیغمبر اسلام نے اُس کو اَخوانِ رسول کا لقب دیا تھا۔''15

پہلے اقتباس کا خلاصہ ہے کہ مہدی ومسیح علیہما السلام کے ساتھ اَخوانِ رسول کی ٹیم ہو گی جبکہ دوسرے کا یہ ہے کہ اَخوانِ رسول کی ٹیم سی پی ایس کی ٹیم ہے۔اِن دونوں قضیوں کے صغریٰ وکبریٰ سے یہ نتیجہ نکلا کہ مہدی ومسیح کے ساتھ سی پی ایس کی ٹیم ہو گی۔

مولانا وحید الدین خان صاحب کی کسی بھی تحریر کو اٹھا کر دیکھ لیں، اُس میں اِن میں سے ایک،دو،تین یاچار بنیادیں ضرور مل جائیں گی۔ راقم نے اپنی کتاب 'مولانا وحید الدین خان: افکار ونظریات' میں اِن عوامل اور عناصر سے پروان چڑھنے والی خان صاحب کی فکر کا، اُن کے اپنے الفاظ ہی کی روشنی میں' ایک مفصل تحلیلی وتجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔

خاں صاحب کے بعض نظریات گمراہ کن بھی ہیں، جن میں بطور خاص ان کا یہ تصور کہ نبی کریم ﷺ فائنل ماڈل (اُسوہ ) نہیں ہیں۔ اقامتِ دین، نفاذِ شریعت اور جہاد اور امن وغیرہ کے حوالے سے دین کا جو مخصوص تصور رکھتے ہیں، اس کی رو سے ان کا کہنا یہ ہے کہ اللہ کے رسول کے اُسوہ میں چونکہ دعوت کے علاوہ جہاد وقتال بھی ہے، لہٰذا یہ اُسوہ ہمارے لیے کامل نمونہ نہیں ہے، کیونکہ آج کے دور میں جہاد وقتال ممکن نہیں رہا۔ آج کے دور میں اُمّت مسلمہ کے لیے حضرت مسیح کا اُسوہ قابل عمل اور نمونہ ہے، جو صرف دعوت وتبلیغ کے عمل پر مبنی تھا۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں:

''مسیح کے ماڈل میں آغاز میں بھی دعوت ہے، اور انجام میں بھی دعوت، مسیح کے دعوتی ماڈل میں، ہجرت اور جہاد (بمعنی قتال) کے واقعات موجود نہیں۔ محمدی ماڈل میں ہجرت اور جنگ اس کے واضح اجزا کے طور پر شامل ہیں۔ لیکن اب حالات نے ہجرت اور جنگ کو ناقابل عمل بنادیا ہے۔''16

ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ

''آپ ﷺ بلاشبہ آخری پیغمبر تھے، لیکن آپ ہرصورت حال کے لیے آخری نمونہ نہ تھے، چنانچہ قرآن میں آپ کے لیے اُسوہ حسنہ کا لفظ آیا ہے نہ کہ اُسوہ کاملہ کا۔کسی پیغمبر کو فائنل ماڈل سمجھنا خدا کے قائم کردہ قانونِ فطرت کی تنسیخ کے ہم معنی ہے۔''17

کچھ سطروں کےبعد لکھتے ہیں :

''بعد کے زمانے میں حالات کے اندر ایسی تبدیلیاں واقع ہوں گی، کہ حالات کے اعتبار سے حضرت مسیح کا عملی ماڈل زیادہ قابل انطباق (Applicable) بن جائے گا۔''

سلمان رشدی کی بدنام زمانہ کتاب جس میں رسالت مآبﷺ پر دشنام طرازی کی گئی، اس کے بارے میں بھی جناب وحید الدین خاں کا موقف مغالطہ آمیز بلکہ گمراہ کن ہے، جس پر تنقید کی جاتی رہی۔ اس کتاب پر مسلمانوں کے رد عمل کے بارے میں آپ لکھتے ہیں کہ

''ازواجِ مطہرات کے خلاف جو بے ہودہ باتیں سلمان رشدی نے لکھی ہیں، اس کا مصنفِ اوّل عبد اللہ بن ابی تھا، مگر پیغمبر اسلام ﷺ نے اصرار کے باوجود اس کو قتل کرنے سے منع کردیا۔'' 18''اینٹی رشدی ایجی ٹیشن(رشدی کے خلاف احتجاج) بلاشبہ لغویت کی حد تک غیر اسلامی تھا۔''(ص6)

''مسلمانوں کے جذبات مجروح ہونا اسلام کے قانون جرائم کی کوئی دفعہ نہیں ہے۔ مسلمان اس کے خلاف کوئی کاروائی کرنا چاہتے ہیں تو وہ اس کو قومی سرکشی کےنام پر کرسکتے ہیں۔ مگر اسلام کے نام پر انہیں ایسا کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ ''(ص 53)

پھرجب ڈنمارک اور یورپ کے اخباروں میں رسالت مآب ﷺ کے توہین آمیز خاکے بنائے گئے اور حرمین سمیت پورے دنیا کے مسلمانوں نے اس پر احتجاج کیا تو خان صاحب نے عجیب مضحکہ خیزموقف اختیار کیا، لکھتے ہیں:

''مذکورہ کارٹون کی حیثیت تو ایک صحافتی جوک(لطیفہ) کی تھی۔ اس قسم کا جوک موجودہ صحافت میں عام ہے۔ لیکن مسلمانوں نے اس کے ردّعمل میں جس طرح نفرت اور تشدد کا مظاہرہ کیا، وہ بلاشبہ توہین رسالت کا ایک فعل تھا۔...

موجودہ زمانہ آزادی اظہار رائے کا زمانہ ہے۔ ایسے زمانے میں کارٹون جیسے مسئلہ پر ہنگانہ کھڑا کرنا، یقینی طور پر یہ تاثر پیدا کرے گا، کہ اسلام آزادی اظہار کے خلاف ہے۔19

'مولانا' وحید الدین خاں کا تصور جہاد بھی گمراہ کن ہے، لکھتے ہیں:

''اسلام میں صرف دفاعی جنگ جائز ہے اور اس کا اختیار بھی صرف حاکم وقت کو حاصل ہوتا ہے۔''20

''یہ کہنا صحیح ہوگا کہ آج کی دنیا میں وائلنٹ ایکٹوازم(پرتشدد حرکیت) منسوخ ہوگیا ہے، اور اس کی جگہ پیس فل ایکٹوازم (پرامن حرکیت)نے لے لی ہے۔اب پیس فلم ایکٹوازم کے تحت ہرقسم کی سرگرمیوں کا حق انسان کو مل چکا ہے۔''21

اسلام کے تصور امن کے بارے میں لکھتے ہیں:

''مثبت سوچ پر قائم رہنے کا ایک ہی فارمولا ہے اور وہ ہے یک طرفہ اخلاقیات، یعنی یک طرفہ طور پر دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ خواہ وہ اچھا سلوک کرتا ہو یا براسلوک۔''22

''مسلمانوں کی جوسیاسی تاریخ بنی، اور ان کے یہاں جو لٹریچر تیار ہوا، اس کے نتیجے میں مسلمانوں کا ذہن یہ بنا کہ دشمن سے لڑو۔ اس کے برعکس مسیحی لوگوں کا ذہن ان کی روایات کے مطابق یہ بنا کہ دشمن سے محبت کرو۔یہی نفسیات دونوں قوموں کے اندر عمومی طورپر پائی جاتی ہیں۔''23

''8 ؍اکتوبر2001ء کو امریکہ نے افغانستان کے خلاف جو کاروائی کی ، وہ انٹرنیشنل نارم(بین الاقوامی اخلاقیات) کے مطابق درست تھی۔ کیونکہ وہ ڈیفنس کے طور پر کی گئی تھی۔ اس کے باوجود ایسا ہوا کہ دنیا بھر میں امریکہ کو برا کہا جانے لگا۔''24

''امریکہ کا یہ آپریشن اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک خدائی آپریشن تھا۔ اس نے ان تمام طاقتوں کو زیر کردیا جو امن اور دعوت کے مشن کے خلاف محاذ بنائے ہوئےتھے۔''25

مذکورہ بالا اقتباسات سے جناب وحید الدین کی فکری گمراہیاں اور طرزِ فکر بخوبی واضح ہوجاتا ہے۔یہ اقتباسات اس کتاب میں مذکور تحقیقات کی ایک جھلک ہیں۔اس کتاب میں مولانا وحید الدین خان صاحب کی تحریروں کی روشنی میں ان کی شخصیت کا جو تجزیہ پیش کیا گیا ہے ،اس کا خلاصہ یہ ہے کہ خان صاحب بدنیت یا اسلام دشمن یا یہودی ایجنٹ تونہیں ہیں جیسا کہ اُن کے بعض ناقدین کی رائے ہے۔ تاہم اُن کے نفسیاتی پرابلم ہیں جنہوں نے اُنہیں تخیلات کی اِس دنیا (fantasy and delusion) تک پہنچایا ہے کہ وہ اپنے آپ کو دنیا میں ایک نہیں بلکہ دنیا کی ہزار سالہ تاریخ میں ایک شمار کر رہے ہیں۔ اِس تجزیے کے مطابق اُن کے غیر متوازن اور مسلم اُمّہ کے بارے عدم برداشت کے رویوں کے جواب میں غصّہ کرنے کی بجائے ان کی نفسیاتی کیفیت کو سمجھنا چاہیے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مریض سے نفرت نہیں کی جاتی، تاہم اس سے رہنمائی بھی نہیں لی جاتی اور اس کو فکری قیادت کے حساس منصب پر بھی فائز نہیں کیا جاتا۔

نوٹ: مذکورہ بالا کتاب 'مولانا وحید الدین خان:افکار ونظریات' کی سافٹ کاپی

محدث آن لائن لائبریری میں موجودہے اور درج ذیل لنک سے ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہے:

http://kitabosunnat.com/kutub-library/molana-

waheed-ud-deen-khan-afkar-w-nazriyat.htmlحوالہ جات

1.http://www.cpsglobal.org/mwk

2.ایضاً

3.آخری سفر: ص۵

4.صبح کشمیر: ص۳۲

5.ایضاً: ص۳۳

6.راہ عمل: ص ۱۱۰

7.ماہنامہ الرسالہ: جولائی ۲۰۱۰ء' ص۲۳۔۲۴

8.ماہنامہ الرسالہ:جولائی ۲۰۱۰ء، ص۲۶

9.وحید الدین خان، علماء اور دورِجدید، ماہنامہ الرسالہ، نیو دہلی، ۱۹۹۲ء، ص۴۴

10.ایضاً: ص ۴۱۔۴۲

11.ایضاً: ص۴۵

12.ماہنامہ الرسالہ، نیودہلی:مارچ ۲۰۰۷ء' ص ۴۔۵

13.ماہنامہ الرسالہ : ستمبر ۲۰۰۶ء' ص۳۵

14.اہنامہ الرسالہ : مئی ۲۰۱۰ء' ص۴۴

15.ماہنامہ الرّسالہ : ستمبر ۲۰۰۶ء، ص۴۰

16.ماہ نامہ الرسالہ، جون 2007ء، ص 5،6

17.ایضاً: ص 4،5

18.'شتم رسول کا مسئلہ ' از وحید الدین خاں: ص36

19.ماہ نامہ الرسالہ، نئی دہلی: ستمبر2011ء، ص 44

20.ماہ نامہ الرسالہ : مارچ2008ء، ص4

21.ماہ نامہ الرسالہ : اکتوبر2007ء، ص15

22.ماہ نامہ الرسالہ :جون2011ء، ص24

23.ماہ نامہ الرسالہ : جنوری2010ء، ص29

24.ماہ نامہ الرسالہ : جولائی2007ء، ص30،31

25.ماہ نامہ الرسالہ : جولائی2010ء، ص26