اپنی زبان منتخب کریں

ہفتہ، 16 مئی، 2020

*اپنی بیٹی سے میری شادی کــردو

 

Momin Al Hashmi, [15.05.20 23:24]

_*اپنی بیٹی سے میری شادی کــردو •*_

 

جُلیبیب رضی اللہ عنہ ایک انصاری صحابی تھے۔ نہ مالدار تھے نہ کسی معروف خاندان سے تعلق تھا۔ صاحب منصب بھی نہ تھے۔ رشتہ داروں کی تعداد بھی زیادہ نہ تھی۔ رنگ بھی سانولا تھا۔ لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علی وآلہ وسلم کی محبت سے سرشار تھے۔ بھوک کی حالت میں پھٹے پرانے کپڑے پہنے اللہ کے رسول صلی اللہ علی وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے، علم سیکھتے اورصحبت سے فیض یاب ہوتے۔

ایک دن اللہ کے رسول صلی اللہ علی وآلہ وسلم نے شفقت کی نظر سے دیکھا اور ارشاد فرمایا:

 

*’یَا جُلَیْبِیبُ! أَلَا تَتَزَوَّجُ؟‘*

 

’’جُلیبیب تم شادی نہیں کرو گے؟‘‘

جُلیبیب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھ جیسے آدمی سے بھلا کون شادی کرے گا؟

اللہ کے رسول صلی اللہ علی وآلہ وسلم نے پھر فرمایا:

*’’جُلیبیب تم شادی نہیں کرو گے؟‘‘*

 

اوروہ جواباً عرض گزار ہوئے کہ اللہ کے رسول! بھلا مجھ سے شادی کون کرے گا؟ نہ مال نہ جاہ و جلال!!

اللہ کے رسول صلی اللہ علی وآلہ وسلم نے تیسری مرتبہ بھی ارشاد فرمایا: ’’جُلیبیب تم شادی نہیں کرو گے؟ جواب میں انھوں نے پھر وہی کہا: اللہ کے رسول! مجھ سے شادی کون کرے گا؟ کوئی منصب نہیں، میری شکل بھی اچھی نہیں، نہ میرا خاندان بڑا ہے اورنہ مال و دولت رکھتا ہوں۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علی وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

 

*’اِذْھَبْ إِلَی ذَاکَ الْبَیْتِ مِنَ الأَْنْصَارِ وَقُل لَّھُم: رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علی وآلہ وسلم یُبْلِّغُکُمُ السَّلَامَ وَیَقُولُ: زوِّجُونِي ابْنَتَکُمْ۔‘*

 

’’فلاں انصاری کے گھرجائو اوران سے کہو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علی وآلہ وسلم تمھیں سلام کہہ رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ اپنی بیٹی سے میری شادی کردو۔‘‘

جُلیبیب رضی اللہ عنہ خوشی خوشی اس انصاری کے گھر گئے اور اور دروازے پر دستک دی۔ گھر والوں نے پوچھا: کون؟ کہا: جُلیبیب گھرکا مالک باہر نکلا، جُلییب کھڑے تھے۔ پوچھا: کیا چاہتے ہو، کدھر سے آئے ہو؟ کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علی وآلہ وسلم نے تمھیں سلام بھجوایا ہے۔

یہ سننے کی دیر تھی کہ گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اللہ کے رسول نے ہمیں سلام کا پیغام بھجوایا ہے۔ ارے! یہ تو بہت ہی خوش بختی کا مقام ہے کہ ہمیں اللہ کے رسول نے سلام کہلا بھیجا ہے۔

جُلیبیب کہنے لگے: آگے بھی سنو! اللہ کے رسول صلی اللہ علی وآلہ وسلم نے تمھیں حکم دیا ہے کہ اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کردو۔

صاحب خانہ نے کہا: ذرا انتظار کرو، میں لڑکی کی ماں سے مشورہ کرلوں۔

اندرجاکر لڑکی کی ماں کو پیغام پہنچایا اور مشورہ پوچھا؟ وہ کہنے لگی: نانا، نانا… قسم اللہ کی! میں اپنی بیٹی کی شادی ایسے شخص سے نہیں کروں گی، نہ خاندان، نہ شہرت، نہ مال و دولت، ان کی نیک سیرت بیٹی بھی گھر میں ہونے والی گفتگو سن رہی تھی اور جان گئی تھی کہ حکم کس کا ہے؟ کس نے مشورہ دیا ہے؟ سوچنے لگی اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علی وآلہ وسلم اس رشتہ داری پرراضی ہیں تو اس میں یقینا میرے لیے بھلائی اور فائدہ ہے۔

اس نے والدین کی طرف دیکھا اور مخاطب ہوئی:

 

*’أَتَرُدُّونَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علی وآلہ وسلم أَمْرَہٗ؟ ادْفَعُونِی إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ’صلی اللہ علی وآلہ وسلم فَإِنَّہُ لَنْ یُضَیِّعَنِی‘۔*

 

’’کیا آپ لوگ اللہ کے رسول صلی اللہ علی وآلہ وسلم کا حکم ٹالنے کی کوشش میں ہیں؟ مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علی وآلہ وسلم کے سپرد کردیں(وہ اپنی مرضی کے مطابق جہاں چاہیں میری شادی کردیں) کیونکہ وہ ہر گزمجھے ضائع نہیں ہونے دیں گے۔‘‘

پھر لڑکی نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تلاوت کی:

 

_’’اور دیکھو! کسی مومن مرد وعورت کو اللہ اوراس کے رسول کے فیصلے کے بعد اپنے امور میں کوئی اختیار باقی نہیں رہتا۔‘‘_

(الأحزاب33: 36)

 

لڑکی کا والد اللہ کے رسول صلی اللہ علی وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کی: اللہ کے رسول! آپ کا حکم سر آنکھوں پر آپ کا مشورہ، آپ کے حکم قبول، میں شادی کے لیے راضی ہوں۔ جب رسول اکرم صلی اللہ علی وآلہ وسلم کو اس لڑکی کے پاکیزہ جواب کی خبر ہوئی تو آپ نے اس کے حق میں یہ دعا فرمائی:

 

*’اللَّھُمَّ صُبَّ الخَیْرَ عَلَیْھَا صُبًّا وَلَا تَجْعَلْ عَیْشَھَا کَدًّا۔‘*

 

_’’اے اللہ! اس بچی پر خیر اور بھلائی کے دروازے کھول دے اوراس کی زندگی کو مشقت و پریشانی سے دور رکھ۔_

 

‘‘(موارد الظمآن: 2269، و مسند أحمد: 425/4، ومجمع الزوائد: 370/9وغیرہ)

 

 

پھر جُلیبیب رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس کی شادی ہوگئی۔ مدینہ منورہ میں ایک اور گھرانہ آباد ہو گیا جس کی بنیاد تقویٰ اور پرہیز گاری پر تھی، جس کی چھت مسکنت اور محتاجی تھی، جس کی آرائش و زیبائش تکبیر و تہلیل اور تسبیح و تحمید تھی۔ اس مبارک جوڑے کی راحت نماز اور دل کا اطمینان تپتی دوپہروں کے نفلی روزوں میں تھا۔

رسول اکرم صلی اللہ علی وآلہ وسلم کی دعا کی برکت سے یہ شادی خانہ آبادی بڑی ہی برکت والی ثابت ہوئی۔ تھوڑے ہی عرصے میں ان کے مالی حالات ا

 

Momin Al Hashmi, [15.05.20 23:24]

س قدر اچھے ہوگئے کہ راوی کا بیان ہے:

 

*’فَکَانَتْ مِنْ أَکْثَرِ الأَْنْصَارِ نَفَقَۃً وَّمَالًا‘*

 

_’’انصاری گھرانوں کی عورتوں میں سب سے خر چیلا گھرانہ اسی لڑکی کا تھا۔‘‘_

 

ایک جنگ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی۔ رسول اکرم صلی اللہ علی وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام سے دریافت فرمایا:

 

*’ھَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟‘*

 

_’’دیکھو! تمھارا کوئی ساتھی بچھڑ تو نہیں گیا؟‘‘_

 

مطلب یہ تھا کہ کون کون شہید ہو گیا ہے؟

صحابہ نے عرض کیا: ہاں، فلاں فلاں حضرات موجود نہیں ہیں۔

پھر ارشاد ہوا:

 

*’ھَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟‘*

 

_’’کیا تم کسی اور کو گم پاتے ہو؟‘‘_

صحابہ نے عرض کیا: نہیں۔

آپ نے فرمایا:

 

*’لٰکِنِّي أَفْقِدُ جُلَیْبِیبًا فَاطْلُبُوہُ‘*

 

_’’لیکن مجھے جُلیبیب نظر نہیں آرہا، اس کو تلاش کرو۔‘‘_

 

چنانچہ ان کو میدان جنگ میں تلاش کیا گیا۔

وہ منظر بڑا عجیب تھا۔ میدان جنگ میں ان کے ارد گرد سات کافروں کی لاشیں تھیں۔ گویا وہ ان ساتوں سے لڑتے رہے اور پھر ساتوں کو جہنم رسید کرکے شہید ہوئے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علی وآلہ وسلم کو خبر دی گئی۔ رؤف و رحیم پیغمبر تشریف لائے۔ اپنے پیارے ساتھی کی نعش کے پاس کھڑے ہوئے۔ منظر کو دیکھا۔ پھر فرمایا:

 

*’قَتَلَ سَبْعَۃً ثُمَّ قَتَلُوہُ، ھَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْہُ، ھَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْہُ۔‘*

 

’’اس نے سات کافروں کو قتل کیا، پھر دشمنوں نے اسے قتل کردیا۔ یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔‘‘

 

*’فَوَضَعَہُ عَلَی سَاعِدَیْہِ لَیْسَ لَہُ إِلَّا سَاعِدَا النَّبِيَّ صلی اللہ علی وآلہ وسلم ‘۔*

 

’’پھر آپ نے اپنے پیارے ساتھی کو اپنے ہاتھوں میں اٹھایا اور شان یہ تھی کہ اکیلے ہی اس کو اٹھایا ہوا تھا۔ صرف آپ کو دونوں بازوئوں کا سہارا ایسے میسر تھا۔‘‘

جُلیبیب رضی اللہ عنہ کے لیے قبر کھودی گئی، پھر نبی صلی اللہ علی وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارے سے انھیں قبر میں رکھا۔

 

(صحیح مسلم: 2472)

بدھ، 29 اپریل، 2020

خمسون حديثًا صحيحًا في شهر رمضان*





*خمسون حديثًا صحيحًا في شهر رمضان*

*المرتب: محمد بن على بن جميل المطري*
نشر واشاعت بلاگ عبد المؤمن سلفئ
*أحاديث صحيحة عن الصيام.*

[1]- عن ابن عمر رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا تصوموا حتى تروا الهلال ولا تفطروا حتى تروه فإن أغمي عليكم فاقدروا له» (رواه البخاري ومسلم).

[2]- عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «لا يتقدمن أحدكم رمضان بصوم يوم أو يومين، إلا أن يكون رجل كان يصوم صومه، فليصم ذلك اليوم» (رواه البخاري ومسلم).

[3]- عن عمَّار بن ياسر قال: "من صام يوم الذي يُشك فيه، فقد عصى أبا القاسم محمدًا صلى الله عليه وسلم" (رواه أصحاب السنن أبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجه وصححه الألباني).

[4]- عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إذا جاء رمضان فتحت أبواب الجنة وغلقت أبواب النار وصفدت الشياطين» (رواه مسلم).

[5]- عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا كان أول ليلة من شهر رمضان صفدت الشياطين، ومردة الجن، وغلقت أبواب النار، فلم يفتح منها باب، وفتحت أبواب الجنة، فلم يغلق منها باب، وينادي مناد: يا باغي الخير أقبل، ويا باغي الشر أقصر، ولله عتقاء من النار، وذلك كل ليلة» (رواه الترمذي وصححه الألباني).

[6]- عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أتاكم رمضان شهر مبارك فرض الله عز وجل عليكم صيامه تفتح فيه أبواب السماء وتغلق فيه أبواب الجحيم وتغل فيه مردة الشياطين لله فيه ليلة خير من ألف شهر من حرم خيرها فقد حرم» (رواه النسائي وصححه الألباني).

[7]- عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول: «الصلوات الخمس والجمعة إلى الجمعة ورمضان إلى رمضان مكفرات ما بينهن إذا اجتنب الكبائر» (رواه البخاري ومسلم).

[8]- عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من صام رمضان إيمانًا واحتسابًا غفر له ما تقدم من ذنبه، ومن قام ليلة القدر إيمانًا واحتسابًا غفر له ما تقدم من ذنبه» (رواه البخاري ومسلم)

[9]- عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من قام رمضان إيمانًا واحتسابًا غفر له ما تقدم من ذنبه» (رواه البخاري ومسلم).

[10]- عن عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم: "صلى في المسجد ذات ليلة في رمضان فصلى بصلاته ناس ثم صلى من القابلة فكثر الناس ثم اجتمعوا من الليلة الثالثة أو الرابعة فلم يخرج إليهم رسول الله فلما أصبح قال: «قد رأيت الذي صنعتم فلم يمنعني من الخروج إليكم إلا أني خشيت أن تفرض عليكم»" (رواه البخاري ومسلم).

[11]- عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أفضل الصيام بعد شهر رمضان شهر الله المحرم، وأفضل الصلاة بعد الفريضة صلاة الليل» (رواه النسائي وصححه الألباني).

[12]- عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «بني الإسلام على خمس: شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدًا رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وحج البيت، وصوم رمضان» (رواه البخاري ومسلم).

[13]- عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «رغم أنف رجل ذكرت عنده فلم يصل علي، ورغم أنف رجل دخل عليه رمضان ثم انسلخ قبل أن يُغفر له، ورغم أنف رجل أدرك عنده أبواه الكبر فلم يدخلاه الجنة» (رواه الترمذي وصححه الألباني).

[14]- عن سهل بن سعد الساعدي رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن في الجنة بابًا يقال له الريان، يدخل منه الصائمون يوم القيامة، لا يدخل معهم أحد غيرهم، يقال: أين الصائمون؟ فيدخلون منه، فإذا دخل آخرهم، أغلق فلم يدخل منه أحد» (رواه البخاري ومسلم).

[15]- عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «من صام يومًا في سبيل الله، بعد الله وجهه عن النار سبعين خريفًا» (رواه البخاري ومسلم).

[16]- عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «عمرة في رمضان تعدل حجة» (رواه البخاري).

[17]- عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: "كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أجود الناس، وكان أجود ما يكون في رمضان حين يلقاه جبريل، وكان يلقاه في كل ليلة من رمضان فيدارسه القرآن، فلرسول الله صلى الله عليه وسلم أجود بالخير من الريح المرسلة" (رواه البخاري ومسلم).

[18]- عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: « قال الله عز وجل: كل عمل ابن آدم له إلا الصيام، فإنه لي وأنا أجزي به، والصيام جنة، فإذا كان يوم صوم أحدكم، فلا يرفث يومئذ ولا يصخب، فإن سابه أحد أو قاتله، فليقل: إني امرؤ صائم، والذي نفس محمد بيده، لخلوف فم الصائم أطيب عند الله، يوم القيامة، من ريح المسك» (رواه البخاري ومسلم).

[19]- عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «الصيام جُنة فلا يرفث ولا يجهل، وإن امرؤ قاتله أو شاتمه فليقل: إني صائم مرتين» (البخاري ومسلم).

[20]- عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: « رُب صائم ليس له من صيامه إلا الجوع، ورُب قائم ليس له من قيامه إلا السهر» (رواه ابن ماجه وصححه الألباني).

[21]- عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من لم يدع قول الزور والعمل به، فليس لله حاجة في أن يدع طعامه وشرابه» (رواه البخاري) .

[22]- عن حفصة رضي الله عنها عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من لم يُبيت الصيام قبل الفجر، فلا صيام له» (رواه النسائي وصححه الألباني).

[23]- عن عائشة رضي الله عنها قالت: "دخل عليَّ النبي صلى الله عليه وسلم ذات يوم فقال: «هل عندكم شيء؟» فقلنا: لا، قال: «فإني إذن صائم»، ثم أتانا يومًا آخر فقلنا: "يا رسول الله، أُهدي لنا حَيس"، فقال: « أرِينيه، فلقد أصبحت صائمًا»، فأكل". (رواه مسلم).

[24]- عن عائشة وأم سلمة رضي الله عنهما "أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يدركه الفجر وهو جنب من أهله ثم يغتسل ويصوم". (رواه البخاري ومسلم).

[25]- عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «تسحَّروا فإن في السحور بركة» (رواه البخاري ومسلم).

[26]- عن عمرو بن العاص رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «فصلُ ما بين صيامنا وصيام أهل الكتاب أكلةُ السَّحَر» (رواه مسلم).

[27]- عن زيد بن ثابت رضي الله عنه قال: "تسحَّرنا مع النبي صلى الله عليه وسلم ثم قام إلى الصلاة، قلت: "كم كان بين الأذان والسحور؟" قال: «قدر خمسين آية»" (متفق عليه).

[28]- عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: "كان لرسول الله صلى الله عليه وسلم مؤذنان بلال وابن أم مكتوم الأعمى، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن بلالًا يؤذِّن بليل، فكلوا واشربوا حتى يؤذِّن ابن أم مكتوم»، قال: ولم يكن بينهما إلا أن ينزل هذا ويرقى هذا". ( رواه البخاري ومسلم).

[29]- عن سهل بن سعد رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا يزال الناس بخير ما عجَّلوا الفطر» (رواه البخاري ومسلم).

[30]- عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا أقبل الليل من ها هنا، وأدبر النهار من ها هنا، وغربت الشمس، فقد أفطر الصائم». (رواه البخاري ومسلم).

[31]- عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: "كان النبي صلى الله عليه وسلم يفطر قبل أن يصلي على رُطَبات، فإن لم تكن رُطَبات فتُميرات، فإن لم تكن تميرات حسا حسوات من ماء". (رواه الترمذي وحسنه الألباني).

[32]- عن عائشة رضي الله عنها قالت: "كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يُقبِّل وهو صائم، ويُباشر وهو صائم، ولكنه أملكُكُم لأَرَبه". (رواه البخاري ومسلم).

[33]- عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من نسي وهو صائم فأكل أو شرب فليتمَّ صومه؛ فإنما أطعمه الله وسقاه» (رواه البخاري ومسلم).

[34]- عن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من ذَرَعه القيء فليس عليه قضاء، ومن استقاء عمدًا فليقضِ» (رواه الترمذي وصححه الألباني).

[35]- عن لقيط بن صبرة رضي الله عنه قال: قلت: "يا رسول الله، أخبرني عن الوضوء، قال: « أسبغ الوضوء، وخلِّل بين الأصابع، وبالغ في الاستنشاق إلا أن تكون صائمًا»" (رواه أحمد وأصحاب السنن وصححه الألباني).

[36]- عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما قال: "كان رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر فرأى رجلًا قد اجتمع الناس عليه، وقد ظلل عليه، فقال: « ما له؟» قالوا: رجل صائم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ليس من البر أن تصوموا في السفر»" (رواه البخاري ومسلم).

[37]- عن حمزة بن عمرو الأسلمي رضي الله عنه أنه قال: "يا رسول الله، أجد بي قوةً على الصيام في السفر، فهل عليَّ جناح؟" فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «هي رخصة من الله، فمن أخذ بها فحسن، ومن أحبَّ أن يصوم فلا جناح عليه» (رواه البخاري في الصوم ومسلم).

[38]- عن أبي سعيد الخدري وجابر بن عبد الله رضي الله عنهما قالا: "سافرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيصوم الصائم، ويفطر المفطر، فلا يعيب بعضهم على بعض". (رواه مسلم).

[39]- عن أنس رضي الله عنه قال: "كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في السفر، فمنا الصائم ومنا المفطر، قال: فنزلنا منزلًا في يوم حارٍّ، أكثرنا ظلًا صاحب الكساء، ومنا من يتقي الشمس بيده، قال: فسقط الصُوَّام، وقام المفطرون فضربوا الأبنيةَ وسقوا الرِّكاب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ذهب المفطرون اليوم بالأجر»" (رواه البخاري ومسلم).

[40]- عن عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من مات وعليه صيام صام عنه وليه» (رواه البخاري ومسلم).

[41]- عن زيد بن خالد الجهني رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من فطَّر صائمًا كان له مثلُ أجرِه غيرَ أنه لا ينقص من أجر الصائم شيئًا» (رواه أحمد وأصحاب السنن وصححه الألباني).

[42]- عن عبد الله بن عمرو أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «الصيام والقرآن يشفعان للعبد يوم القيامة، يقول الصيام: أي رب، منعته الطعام والشهوات بالنهار فشفِّعني فيه، ويقول القرآن: منعته النوم بالليل فشفعني فيه، قال: فيُشفَّعان» (رواه أحمد وصححه الألباني).

[43]-عن عائشة رضي الله عنها قالت: "كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا دخل العشر شدَّ مئزره وأحيا ليله، وأيقظ أهله". (رواه البخاري ومسلم).

[44]- عن عائشة رضي الله عنها قالت: "كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجتهد في العشر الأواخر ما لا يجتهد في غيره". (رواه مسلم).

[45]- عن عائشة رضي الله عنها قالت: "كان النبي صلى الله عليه وسلم يعتكف في العشر الأواخر من رمضان". (رواه البخاري).

[46]- عن ابن عباس رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وسلم قال في ليلة القدر: «التمسوها في العشر الأواخر من رمضان» (رواه البخاري، ورواه مسلم عن ابن عمر رضي الله عنهما).

[47]- عن عائشة رضي الله عنها قالت: "قلت: يا رسول الله، أرأيتَ إن علمتُ أي ليلةٍ ليلةُ القدر ما أقول فيها؟" قال: «قولي: اللهم إنك عفو تحب العفو فاعف عني» (رواه أحمد وأصحاب السنن وصححه الألباني).

[48]- عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: "فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر من رمضان على الناس، صاعًا من تمر، أو صاعًا من شعير، على كل حر أو عبد، ذكر أو أنثى، من المسلمين" (رواه البخاري ومسلم).

[49]- عن أبي أيوب الأنصاري رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من صام رمضان ثم أتبعه ستا من شوال كان كصيام الدهر» (رواه مسلم).

[50]- عن أبي قتادة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «ثلاث من كل شهر، ورمضان إلى رمضان، هذا صيام الدهر كله» (رواه مسلم).



الكاتب:محمد بن على بن جميل المطري

ہفتہ، 25 اپریل، 2020

سخاوت اور خیر

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سخاوت اور خیر کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی تھی جب جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان میں ملتے، جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان شریف کی ہر رات میں ملتے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جبرائیل علیہ السلام سے قرآن کا دور کرتے تھے، جب جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے لگتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہو جایا کرتے تھے۔
بخاری 1902

جمعرات، 16 اپریل، 2020

سورۃ الجن تفسیر


سورۃ الجن 

آیت نمبر: 27 

إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا 

ترجمہ:
سوائے اس رسول کے جسے اس نے غیب کا علم دینے کے لیے پسند کرلیا ہو۔ وہ اس کے آگے اور پیچھے محافظ لگا دیتا ہے 

تفسیر:
٢٧۔ ١ یعنی نزول وحی کے وقت پیغمبر کے آگے پیچھے فرشتے ہوتے ہیں اور شیاطین اور جنات کو وحی کی باتیں سننے نہیں دیتے۔ 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ العَلاَءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَثَلُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ مِنَ الهُدَى وَالعِلْمِ، كَمَثَلِ الغَيْثِ الكَثِيرِ أَصَابَ أَرْضًا، فَكَانَ مِنْهَا نَقِيَّةٌ، قَبِلَتِ المَاءَ، فَأَنْبَتَتِ الكَلَأَ وَالعُشْبَ الكَثِيرَ، وَكَانَتْ مِنْهَا أَجَادِبُ، أَمْسَكَتِ المَاءَ، فَنَفَعَ اللَّهُ بِهَا النَّاسَ، فَشَرِبُوا وَسَقَوْا وَزَرَعُوا، وَأَصَابَتْ مِنْهَا طَائِفَةً أُخْرَى، إِنَّمَا هِيَ قِيعَانٌ لاَ تُمْسِكُ مَاءً وَلاَ تُنْبِتُ كَلَأً، فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ فَقُهَ فِي دِينِ اللَّهِ، وَنَفَعَهُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ، وَمَثَلُ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ بِذَلِكَ رَأْسًا، وَلَمْ يَقْبَلْ هُدَى اللَّهِ الَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ» قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: قَالَ إِسْحَاقُ: وَكَانَ مِنْهَا طَائِفَةٌ قَيَّلَتِ المَاءَ، قَاعٌ يَعْلُوهُ المَاءُ، وَالصَّفْصَفُ المُسْتَوِي مِنَ الأَرْضِ

ترجمہ:
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، ان سے حماد بن اسامہ نے برید بن عبداللہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابی بردہ سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت ابوموسیٰ سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جس علم و ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے اس کی مثال زبردست بارش کی سی ہے جو زمین پر ( خوب ) برسے۔ بعض زمین جو صاف ہوتی ہے وہ پانی کو پی لیتی ہے اور بہت بہت سبزہ اور گھاس اگاتی ہے اور بعض زمین جو سخت ہوتی ہے وہ پانی کو روک لیتی ہے اس سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ وہ اس سے سیراب ہوتے ہیں اور سیراب کرتے ہیں۔ اور کچھ زمین کے بعض خطوں پر پانی پڑتا ہے جو بالکل چٹیل میدان ہوتے ہیں۔ نہ پانی روکتے ہیں اور نہ ہی سبزہ اگاتے ہیں۔ تو یہ اس شخص کی مثال ہے جو دین میں سمجھ پیدا کرے اور نفع دے، اس کو وہ چیز جس کے ساتھ میں مبعوث کیا گیا ہوں۔ اس نے علم دین سیکھا اور سکھایا اور اس شخص کی مثال جس نے سر نہیں اٹھایا ( یعنی توجہ نہیں کی ) اور جو ہدایت دے کر میں بھیجا گیا ہوں اسے قبول نہیں کیا۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابن اسحاق نے ابواسامہ کی روایت سے “ قبلت الماء ” کا لفظ نقل کیا ہے۔ قاع اس خطہ زمین کو کہتے ہیں جس پر پانی چڑھ جائے ( مگر ٹھہرے نہیں ) اور صفصف اس زمین کو کہتے ہیں جو بالکل ہموار ہو۔
تشریح:
حدیث ( 78 ) سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ حضرت موسیٰ نے علم حاصل کرنے کے لیے کتنا بڑا سفر کیا۔ جن لوگوں نے یہ حکایت نقل کی ہے کہ حضرت خضرعلیہ السلام نے فقہ حنفی سیکھی اور پھر قشیری کو سکھائی یہ سارا قصہ محض جھوٹ ہے۔ اسی طرح بعضوں کا یہ خیال کہ حضرت عیسیٰ یا امام مہدی حنفی مذہب کے مقلد ہوں گے محض بے اصل اور خلاف قیاس ہے۔ حضرت ملاعلی قاری نے اس کا خوب رد کیا ہے۔ حضرت امام مہدی خالص کتاب وسنت کے علم بردار پختہ اہل حدیث ہوں گے۔
صحیح بخاری حدیث نمبر: 79
کتاب: علم کے بیان میں
باب:پڑھنے اور پڑھانے کی فضیلت
حکم: صحيح
صحیح بخاری - حدیث 79
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، ان سے حماد بن اسامہ نے برید بن عبداللہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابی بردہ سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت ابوموسیٰ سے اور وہ
کِتَابُ الِاسْتِسْقَاءِ

بَابُ مَا قِيلَ فِي الزَّلاَزِلِ وَالآيَاتِ

1036صحيححَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ قَالَ أَخْبَرَنَا أَبُو الزِّنَادِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقْبَضَ الْعِلْمُ وَتَكْثُرَ الزَّلَازِلُ وَيَتَقَارَبَ الزَّمَانُ وَتَظْهَرَ الْفِتَنُ وَيَكْثُرَ الْهَرْجُ وَهُوَ الْقَتْلُ الْقَتْلُ حَتَّى يَكْثُرَ فِيكُمْ الْمَالُ فَيَفِيضَ

کتاب: استسقاء یعنی پانی مانگنے کا بیان

باب: زلزلہ اور قیامت کی نشانیاں

ترجمہ : ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، کہا کہ ہم سے ابوالزناد ( عبد اللہ بن ذکوان ) نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن ہرمز اعرج نے اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک علم دین نہ اٹھ جائے گا اور زلزلوں کی کثرت نہ ہو جائے گی اور زمانہ جلدی جلدی نہ گزر ے گا اور فتنے فساد پھوٹ پڑیں گے اور “ ہرج ” کی کثرت ہو جائے گی اور ہرج سے مراد قتل ہے۔ قتل اور ہارے درمیان دولت ومال کی اتنی کثرت ہوگی کہ وہ ابل پڑے گا۔

تشریح : سخت آندھی کا ذکر آیا توا س کے ساتھ بھونچال کا بھی ذکر کر دیا، دونوں آفتیں ہیں۔ بھونچال یا گرج یا آندھی یا زمین دھنسنے میں ہر شخص کو دعا اوراستغفار کرنا چاہیے اور زلزلے میں نماز بھی پڑھنا بہتر ہے۔ لیکن اکیلے اکیلے۔ جماعت اس میں مسنون نہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ زلزلے میں انہوں نے جماعت سے نماز پڑھی تو یہ صحیح نہیں ہے ( مولانا وحید الزماں مرحوم )

كِتَابُ المُحَارِبِينَ مِنْ أَهْلِ الكُفْرِ وَالرِّدَّةِ
بَابُ إِثْمِ الزُّنَاةِ
6808صحيحأَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ شَبِيبٍ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ أَخْبَرَنَا أَنَسٌ قَالَ لَأُحَدِّثَنَّكُمْ حَدِيثًا لَا يُحَدِّثُكُمُوهُ أَحَدٌ بَعْدِي سَمِعْتُهُ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ وَإِمَّا قَالَ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ وَيَظْهَرَ الْجَهْلُ وَيُشْرَبَ الْخَمْرُ وَيَظْهَرَ الزِّنَا وَيَقِلَّ الرِّجَالُ وَيَكْثُرَ النِّسَاءُ حَتَّى يَكُونَ لِلْخَمْسِينَ امْرَأَةً الْقَيِّمُ الْوَاحِدُ
کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمان سے لڑتے ہیں
باب : زنا کے گناہ کا بیان
ترجمہ : ہمیں داؤد بن شبیب نے خبردی، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، کہا ہم کو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے خبردی ہے کہ میں تم سے ایک ایسی حدیث بیان کروں گا کہ میرے بعد کوئی اسے نہیں بیان کرے گا۔ میں نے یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی یا یوں فرمایا کہ قیامت کی نشانیوںمیں سے یہ ہے کہ علم دین دنیا سے اٹھ جائے گا اور جہالت پھیل جائے گی، شراب بکثرت پی جانے لگے گی اور زنا پھیل جائے گا۔ مرد کم ہوجائیں گے اور عورتوں کی کثرت ہوگی۔ حالت یہاں تک پہنچ جائے گی کہ پچاس عورتوں پر ایک ہی خبر لینے والا مرد رہ جائے گا۔
تشریح : حدیث میں ذکر کردہ نشانیاں بہت سی ظاہر ہوچکی ہیں وماامر الساعۃ الا کلمح البصرۃ۔
:
أَبْوَابُ الْعِلْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
بَاب مَا جَاءَ فِي كِتْمَانِ الْعِلْمِ


2649صحيححَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بُدَيْلِ بْنِ قُرَيْشٍ الْيَامِيُّ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ زَاذَانَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَهُ ثُمَّ كَتَمَهُ أُلْجِمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ
کتاب: علم اور فہم دین کے بیان میں
علم چھپانے کی مذمت

ترجمہ : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:' جس سے علم دین کی کوئی ایسی بات پوچھی جائے جسے وہ جانتا ہے ، پھر وہ اسے چھپائے تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی '
۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں جابر اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
:
أَبْوَابُ الْعِلْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
بَاب مَا جَاءَ فِي الاِسْتِيصَاءِ بِمَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ

2650ضعيفحَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي هَارُونَ الْعَبْدِيِّ قَالَ كُنَّا نَأْتِي أَبَا سَعِيدٍ فَيَقُولُ مَرْحَبًا بِوَصِيَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ النَّاسَ لَكُمْ تَبَعٌ وَإِنَّ رِجَالًا يَأْتُونَكُمْ مِنْ أَقْطَارِ الْأَرَضِينَ يَتَفَقَّهُونَ فِي الدِّينِ فَإِذَا أَتَوْكُمْ فَاسْتَوْصُوا بِهِمْ خَيْرًا قَالَ أَبُو عِيسَى قَالَ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ كَانَ شُعْبَةُ يُضَعِّفُ أَبَا هَارُونَ الْعَبْدِيَّ قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ مَا زَالَ ابْنُ عَوْنٍ يَرْوِي عَنْ أَبِي هَارُونَ الْعَبْدِيِّ حَتَّى مَاتَ وَأَبُو هَارُونَ اسْمُهُ عُمَارَةُ بْنُ جُوَيْنٍ
کتاب: علم اور فہم دین کے بیان میں
علم (دین)حاصل کرنے والوں کے ساتھ خیر خواہی کرنے کابیان

ترجمہ : ابوہارون کہتے ہیں کہ ہم ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کے پاس (علم دین حاصل کرنے کے لیے )آتے، تو وہ کہتے: اللہ کے رسول ﷺ کی وصیت کے مطابق تمہیں خوش آمدید، رسول اللہﷺ نے فرمایا:'لوگ تمہارے پیچھے ہیں
۱؎ کچھ لوگ تمہارے پاس زمین کے گوشہ گوشہ سے علم دین حاصل کرنے کے لیے آئیں گے تو جب وہ تمہارے پاس آئیں توتم ان کے ساتھ بھلائی کرنا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- علی بن عبداللہ بن المدینی نے کہا: یحییٰ بن سعید کہتے تھے: شعبہ ابوہارون عبدی کو ضعیف قراردیتے تھے، ۲- یحییٰ بن سعید کہتے ہیں: ابن عون جب تک زندہ رہے ہمیشہ ابوہارون عبدی سے روایت کرتے رہے، ۳- ابوہارون کانام عمارہ بن جوین ہے۔


منگل، 14 اپریل، 2020

رمضان المبارک میں قیام اللیل کی فضیلت

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں قیام کرنے کی رغبت دلایا کرتے اورانہيں پختہ عزم کے ساتھ قیام کا حکم دیا کرتے اورفرمایا کرتے تھے :
جس نے ایمان اوراجروثواب کی نیت سے رمضان المبارک میں قیام کیا اس کے پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں ۔
جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئي تو معاملہ اسی طرح چل رہا تھا ( یعنی بغیر جماعت تروایح ادا کی جاتی تھیں ) اورپھرابوبکررضي اللہ تعالی عنہ کی خلافت اورعمرفاروق رضي اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے ابتدائي ایام میں بھی اسی طرح معاملہ چلتا رہا ۔
اورعمرو بن مرۃ جھنی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ قضاعہ قبیلہ کا ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگا : اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  ! مجھے یہ بتائيں کہ :
اگر میں لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھ لوں اوریہ گواہی دوں کہ اللہ تعالی کےعلاوہ کوئي معبود برحق نہيں اورآپ اللہ تعالی کے رسول ہیں ، اورپانج نمازوں کی ادائیگي کروں ، اوررمضان المبارک کے روزے رکھوں ، اور رمضان المبارک میں قیام اللیل کروں اورزکوۃ بھی ادا کروں تومجھے کیا ملے گا ؟
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جسے اس حالت میں موت آئے وہ صدیقوں اورشھداء میں سے ہے ۔