اپنی زبان منتخب کریں
جمعرات، 22 اگست، 2024
The Rising Cases of Women being Raped - Its Reasons and Solutions
پیر، 29 جولائی، 2024
اسلام میں بارش نہ ہونے کے وجوہات
اسلام میں بارش نہ ہونے کے وجوہات قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کی گئی ہیں۔ یہاں کچھ آیات اور احادیث عربی متن اور اردو ترجمے کے ساتھ پیش کی جارہی ہیں:
### قرآن مجید س
ے:
1. **سورة الأعراف، آیت 96:**
> **عربی:** وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِن كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
> **ترجمہ:** اور اگر بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے ان کو ان کے اعمال کے سبب پکڑ لیا۔
2. **سورة هود، آیت 52:**
> **عربی:** وَيَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَىٰ قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِينَ
> **ترجمہ:** اور اے میری قوم! اپنے رب سے مغفرت طلب کرو، پھر اس کی طرف توبہ کرو، وہ تم پر آسمان سے خوب بارش برسائے گا اور تمہاری قوت میں اضافہ کرے گا، اور جرم کرنے والوں کی طرح روگردانی نہ کرو۔
### احادیث مبارکہ سے:
1. **صحیح البخاری، کتاب الدعوات، حدیث نمبر 1017:**
> **عربی:** قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: إِذَا رَأَيْتُمْ الْقَحْطَ فَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ وَتُوبُوا إِلَيْهِ
> **ترجمہ:** رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم خشک سالی دیکھو تو اللہ سے مغفرت طلب کرو اور اس کی طرف توبہ کرو۔
2. **سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، حدیث نمبر 4019:**
> **عربی:** قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: لَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ حَتَّى يَحْبِسَ اللَّهُ الْقَطْرَ وَتَكْثُرَ الزَّلَازِلُ وَيَكُونَ الْمَوْتُ كَأَفْنِ النَّعَمِ
> **ترجمہ:** رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک اللہ بارش کو روک نہ دے، اور زلزلے کثرت سے نہ آئیں، اور موت جانوروں کی طرح نہ پھیل جائے۔
### خلاصہ:
اسلام میں بارش نہ ہونے کے اسباب میں سے چند اہم یہ ہیں:
1. **گناہ اور معاصی**: اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہوں کی کثرت بارش نہ ہونے کا سبب بن سکتی ہے۔
2. **استغفار کی کمی**: اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب نہ کرنا اور توبہ نہ کرنا بھی بارش نہ ہونے کی ایک وجہ ہے۔
3. **ایمان کی کمی**: اللہ تعالیٰ کی قدرت پر ایمان نہ رکھنا اور اس کے احکامات کی پیروی نہ کرنا بھی بارش روکنے کا سبب ہو سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار اور اس کے احکامات پر عمل کرنا بارش کے نزول کا سبب بن سکتا ہے۔
جمعہ، 29 دسمبر، 2023
آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت بتاۓ.... طالبہ طس بنت قیوم
الحمد للہ.
ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہوۓ کہتے ہیں :
یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث میں ہے کہ کتاب اللہ میں یہ آیت سب سے افضل آیت ہے ۔
ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےان سے سوال کیا کہ کتاب اللہ میں سب سے عظیم آیت کونسی ہے ؟ تو وہ کہنے لگے کہ اللہ اور اس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کوہی زیادہ علم ہے ، یہ سوال کئ باردھرایا اور پھر فرمانےلگے کہ وہ آیت الکرسی ہے
فرمانے لگے اے ابوالمنذر علم مبارک ہو اس ذات کی قسم جس کےھاتھ میں میری جان ہے اس آیت کی زبان اور ہونٹ ہونگے عرش کے پاۓ کے ہاں اللہ تعالی کی پاکی بیان کررہی ہوگی ۔
اور غالبا مسلم نے والذی نفسی سے آگے والے الفاظ نہیں ہیں ۔
عبداللہ بن ابی بن کعب رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد کے پاس کھجوریں رکھنے کی جگہ تھی ، عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں میرے والد اس کاخیال رکھتے تھے تو ایک دن انہوں نے اس میں کھجوریں کم دیکھیں ، وہ بیان کرتے ہيں کہ انہوں نے اس رات پہرہ دیا تورات ایک نوجوان کی شکل میں آیا میں نے اسے سلام کیا اوراس نے جواب دیا والد کہتے ہیں میں نے اسے کہا تم جن ہویا کہ انسان؟ اس نے جواب دیا کہ میں جن ہوں وہ کہتے ہیں میں نے اسے کہا اپنا ھاتھ دو اس نے اپنا ھاتھ دیا تووہ کتے کے ھاتھ کی طرح اور بالوں کی طرح تھا میں نے کہا کہ جن اسی طرح پیدا کیے گۓ ہیں ؟
وہ کہنے لگا کہ جنوں میں تومجھ سے بھی سخت قسم کے جن ہیں ، میں نے کہا کہ تجھے یہ( چوری )کرنے پر کس نے ابھارا ؟ اس نے جواب دیا کہ ہمیں یہ اطلاع ملی کہ آپ صدقہ وخیرات پسند کرتے ہیں توہم یہ پسند کیا کہ ہم تیرا غلہ حاصل کریں ۔
عبداللہ بن ابی کہتے ہیں کہ اسےمیرے والد نے کہا وہ کون سی چيز ہے جو ہمیں تم سے محفوظ رکھے ؟ اس نےجواب میں کہا یہ آیت الکرسی ہے ، پھر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گۓ اور سارا قصہ بیان کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کہ اس خبیث نے سچ کہا ہے ۔
امام احمد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں محمد بن جعفر نے عثمان بن عتب سے حدیث بیان کی کہ عتاب کہتے ہیں کہ میں نے ابوالسلیل کویہ کہتے ہوۓ سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی لوگوں کوحدیث بیان کیا کرتے تھے ، حتی کہ لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئ تووہ گھر کی چھت پر چڑھ جاتے اوریہ حدیث بیان کیا کرتے تھے کہ :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قرآن مجید میں کونسی آیت سب سے زيادہ عظمت کی حامل ہے ؟ تو ایک شخص کہنے لگا " اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم " وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ھاتھ میرے سینہ پررکھا توچھاتی پرمیں نےاس کی ٹھنڈک محسوس کی اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمانے لگے اے ابوالمنذر علم کی مبارک ہو ۔
ابوذر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا توآپ مسجدمیں تشریف فرما تھے تومیں بھی بیٹھ گيا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر کیا تو نے نماز پڑھی ہے ؟ میں نے نہیں میں جواب دیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے اٹھ کرنماز پڑھو ۔
میں نے اٹھ کرنماز ادا کی اور پھر بیٹھ گيا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : اے ابوذر انسانوں اورجنوں کے شر سے پناہ طلب کرو وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ کیا انسانوں میں بھی شیمطان ہوتے ہیں ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے جی ہاں ۔
میں نے کہا نماز کا کہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے یہ اچھا موضوع ہے جوچاہے زیادہ کرلے اورجوچاہے کم کرلے ، وہ کہتے ہیں میں نے کہا روزے کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے فرض ہے اس کا اجر دیا جاۓ گا اور اللہ تعالی کے ہاں اورزیادہ اجرملےگا ، میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ ؟ تو وہ کہنے لگے اس کا اجرڈبل سے بھی زیادہ ہوتا ہے میں نے کہا کونسا صدقہ بہتر ہے ؟
تو فرمایا قلیل اشیاء کے مالک کا صدقہ کرنا اوریا پھر فقیرکوچھپا کر دینا ، میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلا نبی کون تھا ؟ فرمانے لگے آدم علیہ السلام ، میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول کیا وہ نبی تھے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ نبی مکلم تھے اللہ تعالی کے ساتھ بات چيت کی تھی ؟ میں نے کہا اے اللہ تعالی کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم رسولوں کی تعداد کیا ہے ؟ فرمانے لگے تین سودس سے کچھ زیادہ ایک جم غفیر تھا اور ایک مرتبہ یہ فرمایا کہ تین سوپندرہ ، میں نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ جو نازل کیا گيا ہے اس میں سب سے عظیم کیا ہے ؟ فرمایا آیۃ الکرسی " اللہ لاالہ الا ھو الحی القیوم " سنن نسائ ۔
امام بخاری رحمہ اللہ الباری نے ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے رمضان کےفطرانہ کی حفاظت کرنے کوکہا رات کوایک شخص آیا اورغلہ لےجانے لگا تومیں نے اسے پکڑ کرکہا کہ میں یہ معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک لے جاؤں گا ، وہ کہنے لگا مجھے چھوڑ دو اس لیے کہ میں محتاج ہوں میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور شدید قسم کی ضرورت بھی ہے ، تومیں نے اسے چھوڑ دیا جب صبح ہوئ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ رات والے قیدی نے کیا کیا ؟
وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس نے شدید قسم کے فقروفاقہ اوراہل عیال اور شدید قسم کی ضرورت کی شکایت کی تومیں نے اس پرترس اور رحم کرتے ہوۓ چھوڑ دیا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے اس نے جھوٹ بولا ہے اور وہ دوبارہ بھی آۓ گا تومجھے علم ہوگیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مطابق وہ دوبارہ بھی لازمی آۓ گا ، تومیں نے دھیان رکھا وہ آیا اور غلہ اکٹھا کرنے لگا تومیں نے اسے پکڑ کرکہا کہ میں یہ معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک لے جاؤں گا ، وہ کہنے لگا مجھے چھوڑ دو اس لیے کہ میں محتاج ہوں میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور شدید قسم کی ضرورت بھی ہے میں دوبارہ نہیں آتا ، تومیں نے اسے چھوڑ دیا جب صبح ہوئ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ رات والے قیدی نے کیا کیا ؟
میں نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس نے شدید قسم کے فقروفاقہ اوراہل عیال اور شدید قسم کی ضرورت کی شکایت کی تومیں نے اس پرترس اور رحم کرتے ہوۓ چھوڑ دیا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے اس نے جھوٹ بولا ہے اور وہ دوبارہ بھی آۓ گا ، تومین نے تیسری مرتبہ بھی اس کا دھیان رکھا وہ آیا اور غلہ اکٹھا کرنے لگا تومیں نے اسے پکڑ کرکہا کہ میں یہ معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک لے جاؤں گا یہ تیسری اورآخری بار ہے توکہتا تھا کہ نہیں آونگا اورپھر آجاتا ہے ۔
وہ کہنے لگامجھے چھوڑ دو میں تمھیں کچھ کلمات سکھاتا ہوں جس سے اللہ تعالی تجھے فائدہ دے گا ، میں نے کہا وہ کون سے کلمات ہیں ؟ وہ کہنے لگا کہ جب تم اپنے بستر پر آؤ تو آیۃ الکرسی پڑھو ' اللہ لاالہ الا ھوالحی القیوم " یہ مکمل پڑھنے پر اللہ تعالی کی طرف سے تمہارے لیے ایک محافظ مقرر کردیا جاۓ گا اورصبح تک شیطان تمہارے قریب بھی نہیں آ سکےگا تو میں نے اسے چھوڑ دیا ،جب صبح ہوئ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ رات والے قیدی نے کیا کیا ؟
میں نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس نے مجھے کچھ کلمات سکھاۓ جن کے بارہ میں اس کا خیال یہ تھا کہ اللہ تعالی ان کلمات سے مجھے فائدہ دے گا تو میں نے اسے چھوڑ دیا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے وہ کلمات کون سے ہیں ؟ میں نے کہا کہ اس نے مجھے یہ کہا کہ جب تم اپنے بستر پر آؤ تو آیۃ الکرسی پڑھو ' اللہ لاالہ الا ھوالحی القیوم " اوراس نے مجھے یہ کہا کہ یہ مکمل پڑھنے پر اللہ تعالی کی طرف سے تمہارے لیے ایک محافظ مقرر کردیا جاۓ گا اورصبح تک شیطان تمہارے قریب بھی نہیں آ سکےگا اور صحابہ کرام تو خیروبھلائ کے کاموں میں بہت ہی زيادہ حریص تھے ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے :
تیرے ساتھ بات تو اس سچی کی ہے لیکن وہ خود جھوٹا ہے ،اے ابوھریرہ رضي اللہ تعلی عنہ تمہیں یہ علم ہے کہ تم تین راتوں سے کس کے ساتھ بات چیت کررہے تھے ؟ میں نے کہا کہ نہیں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے کہ وہ شیطان تھا ۔
اور ایک روایت میں ہے کہ :
میں نے جنوں کے ایک فقیر شخص کوپکڑلیا اور اسے چھوڑدیا پھروہ دوسری اور تیسری باربھی آيا تومیں نے اسے کہا کیا تونے میرے ساتھ یہ وعدہ نہیں کیا تھا کہ آئندہ نہیں آؤگے ؟ آج میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کرہی جاؤں گا وہ کہنے لگا ایسا نہ کرنا اگرآپ مجھے چھوڑدوگے تومیں تمہیں کچھ ایسے کلمات سکھاؤں گا آّپ جب وہ کلمات پڑھیں گے تو کوئ بھی چھوٹا یا بڑا اور مذکرومؤنث جن تمہارے قریب بھی نہیں پھٹکےگا۔
وہ اسے کہنے لگے کیا واقعی تم یہ کام کرو گے ؟اس نے جواب دیا ہاں میں کرونگا ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا وہ کون سے کملمات ہیں ؟ وہ کہنے لگا : اللہ لاالہ الا ھوالحی القیوم ، آیۃ الکرسی مکمل پڑھی تو اسے چھوڑ دیا تو وہ چلاگیا اورواپس نہ لوٹا ، توابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ قصہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ذکر کیا تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کہنا تھا :کیا تجھےعلم نہیں کہ یہ ( آیت الکرسی )اسی طرح ہے
اورامام نسائ رحمہ اللہ تعالی نے احمد بن محمد بن عبداللہ عن شعیب بن حرب عن اسماعیل بن مسلم عن المتوکل عن ابی ھریرہ رضی اللہ تعالی کے طریق سے اسی طرح کی روایت بیان کی ہے ، اور ایسا ہی واقعہ ابی بن کعب رضي اللہ تعالی عنہ سے اوپر بیان کیا چکا ہے ، لھذا یہ تین واقعات ہیں ۔
ابوعبید نے کتاب الغریب میں کہا ہے کہ :
حدثنا ابومعاویۃ عن ابی عاصم القفی عن الشعبی عن عبداللہ بن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما قال :
کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ انسانوں میں سے ایک شخص نکلاتووہ ایک جن سے ملا اور وہ اسے کہنا لگا کیا تومیرے ساتھ کشتی کا مقابلہ کرے گا ؟ اگر تونے مجھے پچھاڑ دیا تومیں تجھے ایک ایسی آیت سکھاؤں گا جب تو یہ آيت گھرمیں داخل ہوکر پڑھے گا توشیطان گھرمیں داخل نہیں ہوسکے گا ، ان دونوں نے مقابلہ کیا توانسان نے اسے پچھاڑ دیا ، وہ انسان اسے کہنے لگا میں تجھے بہت ہی کمزوراوردبلاپتلا دیکھ رہا ہوں تیرے بازو کتے کی طرح ہیں ، کیا سب جن اسی طرح ہیں یا کہ ان میں توہی ایسا ہے ؟ تواس نے کہا کہ ان میں سے ہی کمزوراور دبلا پتلا ہوں ۔
اس نے دوبارہ مقابلہ کیا توانسان نے دوبارہ اسے پچھاڑ دیا تو وہ جن کہنے لگا : تو آيۃ الکرسی پڑھا کر اس لیے کہ جوبھی گھرمیں داخل ہوتے وقت آیۃ الکرسی پڑھتا ہے اس گھرسے شیطان نکل بھاگتاہے اور نکلتے وقت اس کی آواز گدھے کے گوزمارنے کی سی آوازکی طرح ہوتی ہے ۔
ابن مسعود رضي اللہ تعالی عنہ سے کہا گیا کہ کیا وہ عمررضی اللہ عنہ تھے ؟ تو وہ کہنے لگے عمررضی اللہ تعالی عنہ کے علاوہ اور کون ہوسکتا ہے ، ابو عبید کہتے ہیں کہ الضئیل کا معنی کمزروجسم والا اور الخیخ گوزمارنے کو کہتے ہيں ( یعنی ہوا کا خارج ہونا ) ۔
ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
سورۃ البقرۃ میں ایسی آیت ہے جو کہ قرآن کی سردار ہے وہ جس گھرمیں بھی پڑھی جاۓ اس سے شیطان نکل بھاگتا ہے وہ آیۃ الکرسی ہے ۔
اوراسی طرح ایک دوسری سند زائدۃ عن جبیربن حکیم سے بھی روایت کرنے کے بعد کہاہے کہ یہ صحیح الاسناد ہے لیکن بخاری اور مسلم نے اسے روایت نہیں کیا اور امام ترمذی نے بھی زائدہ والی حدیث روایت کی ہے جس کے الفاظ ہیں کہ ہرچيزکا ایک کوہان ہوتی ہے اور قرآن کی کوہان سورۃ البقرۃ ہے جس میں ایک ایسی آیت ہے جو قرآن کی سردار ہے یعنی آیۃ الکرسی ہے ، اسے روایت کرنے کے بعد کہتےہیں کہ یہ حديث غریب ہے ہم اسے صرف حکیم بن جبیر سے ہی جانتےہیں اور اس میں شعبـۃ نے کلام کی اور اسے ضعیف قرار دیا ہے ، میں کہتا ہوں کہ اسی امام احمد اور یحی بن معین اور کئ ایک آئمہ حدیث نے بھی اسے ضعیف قراردیا ہے ابن مھدی نے اسے ترک کیا اور سعدی نے کذب قرار دیا ہے ۔
ابن عمربیان کرتے ہیں کہ ایک دن عمربن خطاب رضي اللہ تعالی لوگوں کی جانب گۓ جوکہ قطاروں میں کھڑے تھے ، عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے کون بتاۓ گا کہ قرآن کریم میں سب سے بڑی آیت کون سی ہے ؟ ابن مسعود رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے کہ جاننے والے پرآپ کی نظرپڑی ہے میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوۓ سنا : قرآن مجید میں سب سے عظيم آيت آيۃ الکرسی ہے " اللہ لاالہ الا ھوالحی القیوم " ۔
اس آيت کے اسم اعظم پرمشتمل ہونے کے متعلق امام احمد رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ : اسماء بنت یزید بن السکن کہتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوۓ سنا کہ ان دوآیتوں " اللہ لاالہ الا ھو الحی القیوم " اور" الم اللہ لا الہ الاھوالحی القیوم " میں اللہ تعالی کا اسم اعظم ہے۔
اور اسی طرح ابوداود رحمہ اللہ نےمسدد اور ترمذی رحمہ اللہ نے علی بن خشرم اور ابن ماجہ رحمہ اللہ نے ابوبکربن ابی شیبہ اوریہ تینوں عیسی بن یونس عن عبیداللہ بن ابی زياد نے بھی اسی طرح روایت کی ہے ، امام ترمذی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ یہ حديث حسن صحیح ہے ۔
اور ابوامامہ مرفوعا بیان کرتےہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی کا اسم اعظم جس کے ساتھ دعا کی جاۓ توقبول ہوتی ہے وہ تین سورتوں میں ہے : سورۃ البقرۃ اور آل عمران اور طہ
ھشام جو کہ ابن عمار خطیب دمشق ہیں کا کہنا ہے کہ سورۃ البقرۃ میں " اللہ لاالہ الا ھوالحی القیوم " اورآل عمران میں " الم اللہ لاالہ الاھوالحی القیوم " اور طہ میں " وعنت الوجوہ للحی القیوم " ہے
اور ابوامامۃ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرضی نماز کے بعدآيۃ الکرسی پڑھنے کی فضیلت میں بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس ہرفرضی نمازکے بعد آیۃ الکرسی پڑھی اسے جنت میں داخل ہونے سے صرف موت ہی روک سکتی ہے
امام نسائ رحمہ اللہ نے الیوم واللیۃ میں بھی حسن بن بشر سے اسی طرح کی روایت کی ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح ابن حبان میں محمد بن حمیر الحمصی سے روایت نقل کی ہے جو کہ بخاری کے رجال میں سے ہے اور اس کی سند بخاری کی شرط ہے ۔
واللہ تعالی اعلم .
جمعرات، 23 نومبر، 2023
وَمِنْ شَرِّحَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ
خطبۂ وَمِنْ شَرِّحَاسِدٍ اِذَا
حَسَدَ
بِسّمِ اللَّہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
إن الحمد لله نحمده ، و نستعينه ، ونستغفره ، ونعوذ
بالله من شرور أنفسنا ، ومن سيئات أعمالنا .من يهده الله فلا مضل له ، ومن يضلل
فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له .وأ شهد أ ن محمداً عبدُه
و رسولُه .
يَاأَيها الذين آ مَنُوا اتقُوا اللهَ حَق تُقَا ته
ولاتموتن إلا وأنتم مُسلمُون,يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ الَّذِي
خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا
رِجَالاً كَثِيراً وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَتَسَاءَلُونَ بِهِ
وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيباً,
يَا أ يها
الذين آ منوا اتقوا الله وقولوا قَو لاً سَديداً يُصلح لَكُم أَ عما لكم وَ يَغفر
لَكُم ذُ نُو بَكُم وَ مَن يُطع الله وَ رَسُولَهُ فَقَد فَازَ فَوزاً عَظيم أَمَّا
بَعْدُ:
فَإِنَّ أَصْدَقَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ، وَأَحْسَنَ
الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ، وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ
مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ، وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ
حسد کی تعریف
حسد کا مطلب ہے کہ ''کسی دوسرے کی خوش حالی پر جلنا اور تمنا کرنا کہ اس کی
نعمت اور خوش حالی دور ہوکر اسے مل جائے۔''
حسد ایک حقیقت ہے دلائل درج ذیل ہیں:
«أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَىٰ مَا
آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۖ فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ
وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُم مُّلْكًا عَظِيمًا
﴿٥٤﴾ »
”یا وہ
لوگوں سے حسد کرتے ہیں جو اللہ نے انھیں اپنے فضل سے دیا ہے، تو ہم نے تو آل
ابراہیم کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور ہم نے انھیں بہت بڑی سلطنت عطا فرمائی۔“ [النساء: 54]
«قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ﴿١﴾ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ
﴿٢﴾
وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ
﴿٣﴾
وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ
﴿٤﴾
وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ
﴿٥﴾ »
”تو
کہہ میں پناہ پکڑتا ہوں لوگوں کے رب کی۔ لوگوں کے بادشاہ کی۔ لوگوں کے معبود کی۔
وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے، جو ہٹ ہٹ کر آنے والا ہے۔ وہ جو لوگوں کے سینوں میں
وسوسہ ڈالتا ہے۔ جنوں اور انسانوں میں سے۔“ [الفلق: 1-5]
سیدنا
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے روایت
کرتے ہیں کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
« العين حق »
”نظر
حق ہے۔“ [صحيح البخاري 319/10 صحيح مسلم، رقم الحديث 2187]
ابلیس
نے ہمارے باپ آدم علیہ السلام سے جو حسد کیا، وہ پہلا حسد تھا اور انسانوں کے
درمیان پہلا معصیت کا کام قابیل کا اپنے بھائی ہابیل کو قتل کرنا تھا۔
اللہ
تعالیٰ کا فرمان ہے:
«وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ
بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ
يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ ۖ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ
اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ ﴿٢٧﴾ »
”اور
ان پر آدم کے دو بیٹوں کی خبر کی تلاوت حق کے ساتھ کر، جب ان دونوں نے کچھ قربانی
پیش کی تو ان میں سے ایک کی قبول کر لی گئی اور دوسرے کی قبول نہ کی گئی۔ اس نے
کہا میں تجھے ضرور ہی قتل کر دوں گا۔ اس نے کہا بےشک اللہ متقی لوگوں ہی سے قبول
کرتا ہے۔“ [المائدة: 27]
قابیل کا ہابیل سے حسد
﴿وَاتلُ عَلَيهِم نَبَأَ ابنَى ءادَمَ بِالحَقِّ إِذ قَرَّبا قُربانًا
فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِهِما وَلَم يُتَقَبَّل مِنَ الءاخَرِ قالَ
لَأَقتُلَنَّكَ ۖ قالَ إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ المُتَّقينَ ﴿٢٧﴾... سورة المائدة
''اور
ان کو آدم کے بیٹوں کا قصہ ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سنائیے جب دونوں نے قربانی پیش کی تو
ان دونوں میں سے ایک کی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہیں ہوئی۔ اُس (قابیل) نے
کہا۔ میں ضرور تمہیں قتل کردوں گا۔ اُس (ہابیل) نے کہا اللہ پرہیزگاروں سے قبول
کرتا ہے۔''
برادرانِ یوسف کا یوسف ؑسے
حسد
﴿اقتُلوا يوسُفَ أَوِ اطرَحوهُ أَرضًا يَخلُ لَكُم وَجهُ أَبيكُم
وَتَكونوا مِن بَعدِهِ قَومًا صـٰلِحينَ ٩﴾...
سورة يوسف
''مار
ڈالو یوسف کو یا کہیں پھینک آؤ تا کہ تمہارے باپ کی توجہ تمہاری طرف ہو یوسف کے
بعد تم لوگ اچھے رہو گے۔''
یہود و نصاریٰ کا اسلام اور اہل اِسلام
سے حسد
یہود
ونصاریٰ اسلام،اہل اسلام،نبی معظم اور قرآن سے دلی طور پر بغض وحسد رکھتے ہیں
﴿وَإِذا خَلَوا عَضّوا عَلَيكُمُ الأَنامِلَ مِنَ الغَيظِ ۚ
قُل موتوا بِغَيظِكُم...١١٩﴾... سورة آل عمران
''اور
جب وہ اکیلے ہوتے ہیں تو غصہ کے مارے تم پراپنی انگلیاں کاٹتے ہیں۔ آپ کہو کہ تم
اپنے غصہ میں جل مرو۔'ـ'
مشرکین مکہ کا قرآن اور اہل قرآن سے حسد
''ہمارا
اور بنی عبدمناف کا باہم مقابلہ تھا۔ انہوں نے کھانے کھلائے توہم نے بھی کھلائے،
انہوں نے لوگوں کو سواریاں دیں تو ہم نے بھی دیں، انہوں نے عطیے دیئے توہم نے بھی
دیئے،یہاں تک کہ وہ اور ہم جب عزت و شرف میں برابر کی ٹکر ہوگئے تو اب وہ کہتے ہیں
کہ ہم میں ایک نبی ہے جس پر آسمان سے وحی آتی ہے۔بھلا اس میدان میں ہم کیسے ان کا
مقابلہ کرسکتے ہیں؟ خدا کی قسم ...! ہم ہرگز نہ اس کو مانیں گے اور نہ اس کی تصدیق
کریں گے۔'' (ابن ہشام:جلد۱وّل)
سیدنا
جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
« أكثر من يموت من أمتي بعد قضاء الله
وقدره بالأنفس »
”اللہ
تعالیٰ کی قضا و قدر کے بعد کثرت اموات نظر سے ہوں گی۔‘‘ امام بخاری نے اسے
”التاریخ الکبیر“ 360/4 میں روایت کیا ہے اور امام ہیثمی نے کشف الأستار 403/3 رقم
الحدیث 3052 میں نقل کیا ہے۔
حسد
قیامت کے قائم ہونے تک امتوں کی بیماری ہے۔ حسد اور ایمان ایک دل میں جمع نہیں ہو
سکتے۔
سیدنا
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لا تقاطعوا ولا تباغضوا ولا تحاسدوا،
وكونوا عباد الله إخوانا »
”تم
قطع رحمی کرو نہ ایک دوسرے سے بغض کرو اور نہ حد کرو۔ اللہ کے بندو! بھائی بھائی
ہو جاو۔“ [صحيح مسلم، رقم الحديث 2559]
نیز
آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
«خير الناس ذو القلب المخموم، واللسان
الصادق قيل: ما القلب المخموم؟ قال: هو التقي النقي لا إثم فيه ولا بعي ولا حسد
قيل: فمن على أثره؟ قال: الذى يشنأ الدنيا ويجب الآخرة قيل: فمن على أثره؟ قال:
مؤمن فى خلق حسن»
لوگوں
میں سب سے بہتر مخموم دل اور سچی زبان والا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا
گیا: قلب مخموم کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ ایسا پرہیزگار اور
پاکیزہ دل ہے جس میں کوئی گناه، بغاوت اور حسد نہیں ہوتا۔ کہا گیا: کون اس کے اثر
پر ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جو دنیا کو برا جانتا اور آخرت
کو پسند کرتا ہے۔ کہا گیا: اس کے بعد کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”حسن اخلاق والا مومن۔“دیکھیں ! صحيح الجامع، رقم الحديث [3291]
ابوعبیدہ
نے ذکر کیا ہے کہ «النقي» سے مراد وہ ہے جس کے دل میں حسد اور کینہ نہ ہو۔ [سنن ابن ماجه، رقم الحديث 4306]
علامہ
البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
268۔ کیا حسد کے علاج کی کوئی
دلیل ہے ؟
ام
المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا :
« أمرني النبى صلى الله عليه وسلم أو أمر أن نسترقي من العين »
”مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے حکم دیا، یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نظر سے دم کروانے کا حکم
دیا۔“
[صحيح
البخاري، كتاب الطب، باب رقية العين، رقم الحديث 5738 صحيح مسلم، رقم الحديث 2195]
«اللھم لامانع لما أعطیت ولا معطي لما منعت» (صحیح بخاری:۶۶۱۵)
''اے
اللہ!اُس چیز کو کوئی نہیں روک سکتا جو تو دے، اور کوئی نہیں اس کو دے سکتا جسے تو
روک لے۔
٭ اشتعال میں نہ آئیں اور انتقام کے منصوبے نہ بنائیں۔ آپ کا
صبر ہی حسد کو ختم کرے گا۔
٭ حاسد کو معاف کردیں اس سے اس کے حسد میں کمی ہوگی۔
٭ اللہ سے تعلق مضبوط کرنے کے لیے نماز کی پابندی ضرور کریں۔
٭ صبح و شام کے اَذکار پڑھیں۔
٭ صبح و شام دم کریں۔ نظر بد سے بچاؤ کی دعائیں پڑھیں اوراپنے
آپ کو اللہ کی پناہ میں دے دیں،کیونکہ اللہ کی پناہ کے علاوہ حاسد سے بچنے کا اور
کوئی چارا نہیں ہے۔ حسد سے بچاؤ کا سب سے مضبوط قلعہ اللہ کی پناہ میں آنا ہے۔
٭ حاسد نے جو کچھ آپ کے ساتھ کیا وہ اس کے علم اور ظرف کے
مطابق تھا۔ آپ اپنے علم اور ظرف کے مطابق جوابی رد عمل ظاہر کردیں۔ خیر خواہی کے
علاوہ کچھ نہ چاہیں۔
٭ حسد کی وجہ تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ پھر حکمت کے ساتھ حاسد
کا سامنا کریں۔
٭ حاسد سے کم کم ملیں۔
٭ حاسد کی ہدایت کے لیے دعائے خیر کریں۔
٭ خوف ِ خدا اور تقویٰ کی روش پر قائم رہیں۔
٭ جب کبھی موقع ملے تو حاسد کے ساتھ احسان یا بھلائی کا
معاملہ کریں۔ قطع نظر اس کے کہ اس سے حاسد کے حسد میں کمی ہورہی ہے یا نہیں؟
٭کچھ معاملات میں رازداری سے کام لیں۔ کام کرنے سے پہلے اس کا
ڈھنڈورا نہ پیٹنا شروع کردیں۔
٭حسد کے جواب میں حسد کرنا یا غیر شرعی طریقے اختیار کرنا جائز
نہیں ہے۔ رسول اللہﷺسے کچھ دعائیں ثابت ہیں جو حسد سے اور نظر ِ بد سے بچاؤ کے لیے
ہر مسلمان کو پڑھنی چاہئیں۔ مثلاً :
. معوذتین پڑھیں:
عبداللہ
بن عابس الجہنی کی روایت نسائی، بیہقی، بغوی اور ابن سعد نے نقل کی ہے کہ حضورﷺ نے
مجھ سے فرمایا: ''ابن عابس، کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ پناہ مانگنے والوں نے جتنی
چیزوں کے ذریعے سے اللہ کی پناہ مانگی ہے ان میں سب سے افضل کون سی چیزیں ہیں؟میں
نے عرض کیا ضرور یارسول اللہﷺ! فرمایا:﴿قُل أَعوذُ بِرَبِّ الفَلَقِ ١ ﴾... سورة الفلق" اور ﴿قُل أَعوذُ بِرَبِّ
النّاسِ ١﴾... سورة الناس"یہ دونوں سورتیں۔'' (سنن
نسائی:۸۶۳)
2. ابن
عباسؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ پر یہ دُعا پڑھتے تھے۔
«أعیذکما
بکلمات اﷲ التامة من کل شیطان وھامة ومن کل عین لامة»
''میں تم کو اللہ کے بے عیب
کلمات کی پناہ میں دیتا ہوں ہر شیطان اور موذی سے اور ہر نظر بد سے۔'' (صحیح بخاری:۳۳۷۱)
3. مسلم
میں ابوسعید خدریؓ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبیﷺ بیمار ہوئے تو جبریل ؑ نے آکر
پوچھا: ''اے محمدؐ! کیا آپ بیمار ہوگئے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں! انہوں نے کہا:
«باسم
اﷲ أرقیك من کل شيء یؤذیك من شر کل نفس أو عین حاسد اﷲ یشفیك باسم اﷲ أرقیك» (رقم الحدیث:۲۱۸۶)
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو
صراط مستقیم پر ثابت قدمی سے
جمعہ، 22 ستمبر، 2023
سورہ الاعراف ، آیت نمبر 133
السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،،،
تفسیر القرآن الکریم
فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللّٰہ
سورہ الاعراف ، آیت نمبر 133
أَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیم
فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ آيَاتٍ مُفَصَّلَاتٍ فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا مُجْرِمِينَ
تو ہم نے ان پر طوفان بھیجا اور ٹڈیاں اور جوئیں اور مینڈک اور خون، جو الگ الگ نشانیاں تھیں، پھر بھی انھوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم لوگ تھے۔
(آیت 133تا136) فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوْفَانَ … : جب وہ قحط سالی اور پھلوں کی کمی کی گرفت کے باوجود کفر اور سرکشی پر ڈٹ گئے اور اس مصیبت کو موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر مزید سختیاں نازل ہونا شروع ہوئیں جو فرعون اور اس کی فوجوں کے مکمل خاتمے اور غرق ہونے کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔ قحط سالیوں کے بعد ’’ الطُّوْفَانَ ‘‘ یعنی سخت بارش اور سیلاب شروع ہوا جس سے ان کی زندگی دشوار ہو گئی تو انھوں نے موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی کہ تمھارا اپنے رب سے جو عہد اور معاملہ ہے اسے پیش کرکے اس سے ہمارے لیے یہ عذاب دور کرنے کی دعا کریں، اگر تم نے ہم سے یہ عذاب دور کروا دیا تو ہم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تم پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو تمھارے ساتھ بھیج دیں گے۔ (لام تاکید اور نون ثقیلہ عربی میں قسم کا مفہوم رکھتا ہے) ظالم اب بھی اپنے اور ساری کائنات کے رب کو موسیٰ علیہ السلام کا رب ہی کہہ رہے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے یہ عذاب ٹلا تو مدت کی سوکھی زمین نے پانی کی فراوانی کی وجہ سے بے حساب چارا اور غلہ پیدا کیا، یہ ان کی خوش حالی کے ساتھ آزمائش تھی، جس سے وہ سب عہد و پیمان بھول کر کہنے لگے کہ یہ سیلاب تو ہمارے لیے نعمت تھا۔ اب اللہ تعالیٰ نے ان پر ’’ الْجَرَادَ ‘‘ (ٹڈیوں) کا عذاب بھیجا جو ان کے درخت، چارے اور لکڑیاں تک چٹ کر گئیں۔ انھوں نے پھر موسیٰ علیہ السلام سے انھی الفاظ میں عذاب ٹالنے کی دعا کی درخواست کی جو اوپر ذکر ہوئے ہیں۔ یہ عذاب دور ہوا تو پھر خوش حالی کا ایک وقفہ آیا کہ بچی فصل سے بھی بے شمار غلہ پیدا ہوا، جسے کاٹ کر انھوں نے اپنے گھروں میں محفوظ کر لیا اور اپنے خیال میں کم از کم سال بھر کے لیے بے فکر ہو گئے اور موسیٰ علیہ السلام سے کیا ہوا عہد و پیمان پھر بھول گئے۔ اب ان پر ’’ الْقُمَّلَ ‘‘ کا عذاب نازل ہوا، یعنی جوئیں، چچڑیاں، چھوٹے چھوٹے کالے کیڑے، گھن کے کیڑے، پسو وغیرہ، ان سب پر ’’ الْقُمَّلَ ‘‘ کا لفظ بولاجاتا ہے۔ انسانوں اور جانوروں کے جسموں، کپڑوں اور بستروں پر جوؤں، پسوؤں اور کھٹملوں کی یلغار ہو گئی۔ غلے کو گھن لگ گیا، پسوانے کے لیے بوریاں لے جاتے تو آٹے کا فقط ایک تھیلا نکلتا، پھر مجبور ہو کر انھوں نے موسیٰ علیہ السلام سے اسی طرح دعا کی درخواست کی۔ جب ان کی دعا سے وہ بلا ٹلی اور راحت و آرام کا وقفہ آیا تو اپنے عہد سے پہلے کی طرح پھر گئے، اب ان پر ’’ الضَّفَادِعَ ‘‘ یعنی ’’مینڈکوں‘‘ کا عذاب آیا اور وہ اس کثرت سے پھیل گئے کہ ہر چیز اور برتن میں مینڈک ہی مینڈک نظر آنے لگے، کھانا کھاتے ہوئے لقمے کی جگہ اچھل کر منہ میں مینڈک جا پڑتا، لیٹتے تو بستر اور جسم مینڈکوں سے بھر جاتا۔ مجبور ہو کر انھوں نے پھر موسیٰ علیہ السلام سے یہ عذاب ٹالنے کے لیے دعا کی درخواست انھی وعدوں کے ساتھ کی، مگر جب عافیت ملی تو پھر ایمان لانے اور بنی اسرائیل کو آزادی دینے سے انکار کر دیا۔ اب ان پر خون کا عذاب آیا، کھانے یا پینے کی جو چیز رکھتے خون میں بدل جاتی، پانی کے برتنوں اور ذخیروں نے خون کی صورت اختیار کر لی۔ بعض مفسرین نے خون کے عذاب میں نکسیر کی وبا کا ذکر بھی فرمایا ہے۔ ان کے رجوع اور درخواست پر موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے یہ عذاب ٹلا تو پھر اپنے کیے ہوئے عہد سے پھر گئے۔ اب اللہ تعالیٰ کے انتقام کا وقت آ گیا اور ان سب کو اللہ کی آیات و معجزات جھٹلانے اور ان سے جان بوجھ کر غفلت اختیار کرنے کی پاداش میں سمندر میں غرق کر دیا گیا۔ یہاں اس غرق کی تفصیلات بیان نہیں ہوئیں، وہ سورۂ یونس، شعراء اور طہ وغیرہ میں بیان ہوئی ہیں، کیونکہ یہاں اصل مقصد کفار کو سختی اور خوش حالی کی آزمائش کی پروا نہ کرتے ہوئے کفر پر اصرار کے انجام سے ڈرانا ہے۔ ’’ اٰيٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ ‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب اور عافیت کے یہ وقفے یکے بعد دیگرے آئے۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ فرعون اور موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ اس بات پر چالیس برس رہا کہ وہ بنی اسرائیل کو اپنے وطن جانے دے اور آخر میں یہ عذاب ایک ایک ہفتے کے وقفے سے آئے۔ (موضح) تفسیر طبری میں تابعین کی بعض روایات میں عذاب کا عرصہ ایک ہفتہ اور درمیانی عافیت کا عرصہ ایک ماہ لکھا ہے، مگر ہمارے پاس ان میں سے کسی قول کی تصدیق یا تردید کا کوئی صحیح ذریعہ نہیں۔ نصیحت کے لیے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے وہی کافی ہے۔