اپنی زبان منتخب کریں

پیر، 16 ستمبر، 2024

عید میلادالنبی کا رد میں اقوال سلف صالحین

 یہاں سلف صالحین کے چند مشہور اقوال عید میلاد النبی ﷺ کے حوالے سے عربی متن اور اردو ترجمے کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں:


1. **شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ** فرماتے ہیں:  

   **عربی:**  

   "فأما اتخاذ مولد النبي ﷺ عيدًا مع اختلاف الناس فيه، فإنّه لم يفعله السلف، مع قيام المقتضى له، وعدم المانع منه، ولو كان هذا خيرًا محضًا أو راجحًا لكان السلف رضي الله عنهم أحقّ به منّا، فإنّهم كانوا أشدّ محبّة لرسول الله ﷺ وتعظيمًا له منّا، وهم على الخير أحرص."  

   _(اقتضاء الصراط المستقیم، 2/123)_


   **اردو ترجمہ:**  

   "جہاں تک نبی ﷺ کی پیدائش کو عید کے طور پر منانے کا تعلق ہے، اس میں لوگوں کا اختلاف ہے، لیکن سلف صالحین نے ایسا نہیں کیا، حالانکہ اس کے لئے تمام اسباب موجود تھے اور کوئی رکاوٹ نہ تھی۔ اگر یہ سراسر خیر ہوتا یا اس میں کوئی بھلائی ہوتی تو سلف صالحین ہم سے زیادہ اس کے مستحق تھے، کیونکہ وہ ہم سے زیادہ نبی ﷺ سے محبت اور ان کی تعظیم کرتے تھے اور وہ ہمیشہ بھلائی کے حریص تھے۔"


2. **امام شاطبی رحمہ اللہ** فرماتے ہیں:  

   **عربی:**  

   "فكل بدعة ضلالة، وكل ضلالة في النار، كالاحتفال بالمولد، فإنه لم يكن في عهد السلف الصالح."  

   _(الاعتصام، 1/46)_


   **اردو ترجمہ:**  

   "ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جاتی ہے، جیسے میلاد منانا، کیونکہ یہ سلف صالحین کے دور میں نہیں تھا۔"


3. **شیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ رحمہ اللہ** فرماتے ہیں:  

   **عربی:**  

   "إن الاحتفال بالمولد النبوي بدعة، لأنه لم يكن موجودًا في عهد النبي ﷺ ولا في عهد الصحابة ولا التابعين."  

   _(فتاوی الشیخ محمد بن ابراہیم، 3/41)_


   **اردو ترجمہ:**  

   "میلاد النبی کا جشن منانا بدعت ہے، کیونکہ یہ نہ نبی ﷺ کے دور میں تھا، نہ صحابہ کے دور میں اور نہ ہی تابعین کے دور میں۔"


4. **علامہ ابن الحاج رحمہ اللہ** فرماتے ہیں:  

   **عربی:**  

   "ومن جملة ما أحدثوه من البدع مع اعتقادهم أن في ذلك تعظيماً للنبي ﷺ هو عمل المولد."  

   _(المدخل، 2/10)_

   **اردو ترجمہ:**  

   "ان بدعات میں سے جو انہوں نے نبی ﷺ کی تعظیم سمجھتے ہوئے ایجاد کی ہیں، ان میں میلاد منانا بھی شامل ہے۔"


یہ اقوال اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ سلف صالحین نے میلاد النبی ﷺ منانے کو بدعت قرار دیا ہے اور اسے دین میں ایک نیا اضافہ سمجھا ہے جس کی شریعت میں کوئی بنیاد نہیں۔

ہفتہ، 14 ستمبر، 2024

الرحیق المختوم کتاب کا خلاصہ {سمری}

الرحیق المختوم کتاب کا خلاصہ {سمری}



"الرحیق المختوم" سیرت النبی ﷺ پر لکھی جانے والی ایک معتبر اور معروف کتاب ہے، جسے صفی الرحمن مبارکپوری نے تحریر کیا۔ یہ کتاب 1979 میں پہلی بار شائع ہوئی اور عالمی سیرت کانفرنس میں پہلی پوزیشن حاصل کی، جس کے بعد اسے عالمی سطح پر پذیرائی ملی۔ کتاب کو خاص طور پر نبی اکرم ﷺ کی زندگی کے اہم پہلوؤں کو مختصر اور منظم انداز میں پیش کرنے کے لیے لکھا گیا تھا تاکہ مسلمانوں کو نبی کریم ﷺ کی سیرت سے رہنمائی حاصل ہو۔


### تاریخی پس منظر


کتاب کی ابتدا عرب کی جغرافیائی اور تاریخی پس منظر سے ہوتی ہے۔ مبارکپوری نے عرب کے قبائلی نظام، ان کی روایات، رسم و رواج اور معاشرتی زندگی کا ذکر کیا ہے تاکہ قارئین کو یہ سمجھنے میں آسانی ہو کہ نبی اکرم ﷺ کس قسم کے معاشرے میں پیدا ہوئے اور انہوں نے اسلام کی تبلیغ کیسے کی۔ عربوں کی اخلاقی حالت اس وقت انتہائی پستی کا شکار تھی، بت پرستی عام تھی، اور جاہلیت کے دور کا غلبہ تھا۔ اسی پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو اسلام کی روشنی پھیلانے کے لیے منتخب کیا۔


### نبی کریم ﷺ کی پیدائش اور بچپن


نبی کریم ﷺ 571ء میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ آپ ﷺ کے والد حضرت عبداللہ آپ ﷺ کی پیدائش سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے، اور آپ کی والدہ حضرت آمنہ کا سایہ بھی کم عمری میں اٹھ گیا۔ یتیمی کے عالم میں آپ ﷺ کی پرورش آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب اور بعد ازاں آپ کے چچا حضرت ابوطالب نے کی۔ نبی ﷺ نے اپنے بچپن اور جوانی میں صداقت، دیانت اور امانت کے اعلیٰ معیار قائم کیے۔ ان کی سچائی اور اخلاقی عظمت کے باعث لوگ آپ کو "امین" اور "صادق" کے القاب سے پکارتے تھے۔


### نبوت کا آغاز


نبی کریم ﷺ کی عمر جب چالیس برس ہوئی، تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو نبوت کے منصب پر فائز کیا۔ پہلی وحی غار حرا میں نازل ہوئی، جہاں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ ﷺ کو سورہ العلق کی ابتدائی آیات پڑھائیں۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے اسلام کی دعوت کا آغاز کیا، پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں کو دعوت دی اور پھر کھلے عام لوگوں کو توحید کی طرف بلانا شروع کیا۔


### مکی دور: مشکلات اور صبر


نبی کریم ﷺ کی مکی زندگی مشکلات اور تکالیف سے بھرپور تھی۔ ابتدائی سالوں میں قریش کے سرداروں نے اسلام کی تبلیغ کو روکنے کی بھرپور کوشش کی۔ نبی کریم ﷺ اور ان کے ساتھیوں پر شدید مظالم ڈھائے گئے، مگر آپ ﷺ نے صبر اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابو طالب کی وفات کے بعد یہ مشکلات مزید بڑھ گئیں، مگر نبی کریم ﷺ نے اپنی دعوت کو جاری رکھا۔


### ہجرت اور مدنی زندگی


مکہ میں مسلمانوں کی حالت زار اور قریش کی دشمنی بڑھنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا۔ ہجرت نبی کریم ﷺ کی زندگی کا ایک نیا باب تھا، جہاں آپ نے مسلمانوں کے درمیان اخوت اور محبت کے رشتے کو مضبوط کیا اور مدینہ میں ایک مضبوط اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی۔ یہاں پر آپ ﷺ نے مسجد نبوی کی تعمیر کی اور مختلف قبائل کے درمیان میثاقِ مدینہ کے ذریعے امن و امان کا قیام کیا۔


### غزوات اور اسلامی ریاست کا استحکام


مدنی زندگی کے دوران نبی کریم ﷺ کو مختلف غزوات کا سامنا کرنا پڑا، جن میں غزوہ بدر، غزوہ احد، اور غزوہ خندق اہم ہیں۔ ان غزوات میں مسلمانوں کو ابتدائی طور پر کامیابیاں اور ناکامیاں دونوں ملیں، مگر نبی کریم ﷺ کی حکمت عملی اور اللہ کی مدد سے اسلامی ریاست دن بدن مضبوط ہوتی چلی گئی۔ غزوہ بدر مسلمانوں کے لیے ایک اہم فتح ثابت ہوا جبکہ غزوہ احد میں وقتی شکست کے باوجود مسلمانوں نے ہمت نہ ہاری۔ غزوہ خندق نے مسلمانوں کو قریش کے خلاف ایک مضبوط دیوار بنا دیا۔


### صلح حدیبیہ


صلح حدیبیہ نبی کریم ﷺ کی دوراندیش قیادت کا ایک اہم واقعہ تھا۔ 6 ہجری میں نبی کریم ﷺ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ عمرہ کی نیت سے مکہ تشریف لے گئے، مگر قریش نے مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ طویل مذاکرات کے بعد صلح کا معاہدہ ہوا، جسے بظاہر مسلمانوں کے حق میں کمزور سمجھا جا رہا تھا، مگر بعد میں یہ معاہدہ مسلمانوں کے لیے فتح مکہ کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔


### فتح مکہ


صلح حدیبیہ کے بعد قریش نے معاہدے کی خلاف ورزی کی، جس کے نتیجے میں نبی کریم ﷺ نے 8 ہجری میں مکہ فتح کیا۔ مکہ کی فتح اسلامی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے، جہاں نبی کریم ﷺ نے انتقام لینے کے بجائے معافی کا اعلان کیا۔ قریش کے تمام سرداروں کو معاف کر دیا گیا، اور خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کر کے توحید کی عظمت کو بحال کیا گیا۔


### حجۃ الوداع


10 ہجری میں نبی کریم ﷺ نے اپنے آخری حج، حجۃ الوداع، کے موقع پر مسلمانوں کو ایک جامع خطبہ دیا، جس میں اسلام کے بنیادی اصولوں کو واضح کیا اور مسلمانوں کو آپس میں محبت اور بھائی چارے کی تلقین کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمام مسلمان برابر ہیں اور کسی کو کسی پر فضیلت حاصل نہیں، سوائے تقویٰ کے۔ اس خطبے کو نبی کریم ﷺ کی زندگی کا آخری اہم پیغام سمجھا جاتا ہے۔


### وفات


11 ہجری میں نبی کریم ﷺ کی طبیعت خراب ہوئی اور آپ ﷺ نے وفات سے قبل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں آخری دن گزارے۔ نبی کریم ﷺ کی وفات اسلامی تاریخ کا سب سے المناک واقعہ تھا، مگر آپ ﷺ کی تعلیمات اور سیرت مسلمانوں کے لیے ہمیشہ کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بن گئیں۔


### خلاصہ


"الرحیق المختوم" نبی کریم ﷺ کی مکمل سیرت کو جامع انداز میں بیان کرتی ہے۔ کتاب میں نبی ﷺ کی زندگی کے ہر پہلو کو سادہ اور مربوط طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ اس میں نبی کریم ﷺ کی مکی اور مدنی زندگی، مشکلات کا سامنا، صبر، اور اللہ کے دین کی تبلیغ کے لیے ان کی انتھک محنت کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ کتاب مسلمانوں کے لیے ایک عظیم رہنمائی کا ذریعہ ہے تاکہ وہ نبی کریم ﷺ کی سیرت سے سبق حاصل کر کے اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں۔

بدعت کے بارے میں بعض اہم اقوال

 



یقیناً، یہاں بدعت کے بارے میں بعض اہم اقوال عربی اور اردو ترجمے کے ساتھ دیے گئے ہیں:


1. **نبی صلی اللہ علیہ وسلم**:

   - **عربی**: "كل بدعة ضلالة، وكل ضلالة في النار."

   - **اردو**: "ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی دوزخ میں لے جاتی ہے۔" (صحیح مسلم)


2. **امام شافعی**:

   - **عربی**: "البدعة لا تكون في الدين، وما كان من الدين فليس بدعة."

   - **اردو**: "بدعت دین میں نہیں ہوتی، اور جو کچھ دین سے متعلق ہو وہ بدعت نہیں ہے۔"


3. **امام احمد بن حنبل**:

   - **عربی**: "البدعة ما لم يكن عليه الصحابة، ومن أحدث شيئا في الدين فهو من أهل البدعة."

   - **اردو**: "بدعت وہ چیز ہے جو صحابہ کرام کے دور میں نہیں تھی، اور جو شخص دین میں کوئی نئی چیز شامل کرے، وہ بدعتی ہوتا ہے۔"


4. **ابن عباس رضی اللہ عنہ**:

   - **عربی**: "اليوم يئست من الذين كفروا فلا تخشوهم واخشون، اليوم أكملت لكم دينكم."

   - **اردو**: "آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے۔" (سورۃ المائدہ، 5:3) 


یہ اقوال بدعت کی وضاحت کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ دین میں نئی چیزیں شامل کرنا ممنوع ہے۔

واللہ اعلم بالصواب 

جمعرات، 12 ستمبر، 2024

اخلاص کے بارے میں اقوال سلف صالحین

 

اخلاص (نیت کی پاکیزگی) کے بارے میں سلف صالحین کے بہترین اقوال درج ذیل ہیں:


1. **حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ:**

   - **عربی:** "مَنْ خَلَصَتْ نِيَّتُهُ كَفَاهُ اللَّهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّاسِ."

   - **اردو:** "جس کی نیت خالص ہو، اللہ اس کے اور لوگوں کے درمیان کے معاملات کو کافی کر دیتا ہے۔"

   - **حوالہ:** ابن جوزی، **"صید الخاطر"**


2. **حضرت سفیان الثوری رحمہ اللہ:**

   - **عربی:** "ما عالجت شيئاً أشد علي من نيتي؛ لأنها تتقلب علي."

   - **اردو:** "میں نے اپنی نیت سے زیادہ کسی اور چیز کا علاج نہیں کیا، کیونکہ یہ مجھ پر بار بار پلٹتی رہتی ہے۔"

   - **حوالہ:** امام ابن قیم، **"مدارج السالكين"**


3. **حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ:**

   - **عربی:** "ترك العمل من أجل الناس رياء، والعمل من أجل الناس شرك، والإخلاص أن يعافيك الله منهما."

   - **اردو:** "لوگوں کے لیے عمل چھوڑنا ریاکاری ہے، اور لوگوں کے لیے عمل کرنا شرک ہے، جبکہ اخلاص یہ ہے کہ اللہ تمہیں ان دونوں سے بچا لے۔"

   - **حوالہ:** ابن قیم، **"الفوائد"**


4. **حضرت ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ:**

   - **عربی:** "الإخلاص هو أن تكون حركاتُ العبد وسكناته لله تعالى وحده."

   - **اردو:** "اخلاص یہ ہے کہ بندے کی تمام حرکتیں اور سکون اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہوں۔"

   - **حوالہ:** امام ابن قیم، **"مدارج السالكين"**


5. **حضرت حسن بصری رحمہ اللہ:**

   - **عربی:** "إِذَا أَرَدتَ بِعَمَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ تَعَالَى، فَكُنْ مُخْفِيًا لِهُ أَشَدَّ مَا تَكُونُ ظَاهِرًا."

   - **اردو:** "اگر تم اپنے عمل میں اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہو، تو اسے اتنا چھپاؤ جتنا تم ظاہر کرتے ہو۔"

   - **حوالہ:** ابن جوزی، **"صید الخاطر"**


6. **حضرت ابن مبارک رحمہ اللہ:**

   - **عربی:** "رُبَّ عملٍ صغير تعظمه النية، ورُبَّ عملٍ كبير تصغره النية."

   - **اردو:** "کبھی ایک چھوٹا عمل نیت کی وجہ سے بڑا ہو جاتا ہے، اور کبھی ایک بڑا عمل نیت کی وجہ سے چھوٹا ہو جاتا ہے۔"

   - **حوالہ:** ابن مبارک، **"الزهد"**


یہ اقوال اخلاص کی اہمیت اور نیت کی پاکیزگی پر زور دیتے ہیں۔ نیک عمل کی قبولیت کا دارومدار خالص نیت پر ہے، اور سلف صالحین نے ہمیشہ اپنی نیت کو درست اور خالص رکھنے کی کوشش کی۔

Here are the sayings of the Salaf (pious predecessors) about sincerity (Ikhlas) with their English translations:


1. **Umar ibn al-Khattab (رضي الله عنه):**

   - **Arabic:** "مَنْ خَلَصَتْ نِيَّتُهُ كَفَاهُ اللَّهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّاسِ."

   - **English:** "Whoever purifies his intention, Allah will suffice for him in matters between him and the people."

   - **Reference:** Ibn al-Jawzi, **"Sayd al-Khatir"**


2. **Sufyan al-Thawri (رحمه الله):**

   - **Arabic:** "ما عالجت شيئاً أشد علي من نيتي؛ لأنها تتقلب علي."

   - **English:** "I have not struggled with anything more difficult than my intention, as it constantly changes on me."

   - **Reference:** Ibn al-Qayyim, **"Madarij al-Salikin"**


3. **Fudayl ibn Iyad (رحمه الله):**

   - **Arabic:** "ترك العمل من أجل الناس رياء، والعمل من أجل الناس شرك، والإخلاص أن يعافيك الله منهما."

   - **English:** "Abandoning an action for the sake of people is hypocrisy, and doing an action for the sake of people is shirk. Sincerity is when Allah protects you from both."

   - **Reference:** Ibn al-Qayyim, **"Al-Fawaid"**


4. **Ibrahim ibn Adham (رحمه الله):**

   - **Arabic:** "الإخلاص هو أن تكون حركاتُ العبد وسكناته لله تعالى وحده."

   - **English:** "Sincerity is when all of the servant's actions and stillness are solely for the sake of Allah."

   - **Reference:** Ibn al-Qayyim, **"Madarij al-Salikin"**


5. **Hasan al-Basri (رحمه الله):**

   - **Arabic:** "إِذَا أَرَدتَ بِعَمَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ تَعَالَى، فَكُنْ مُخْفِيًا لِهُ أَشَدَّ مَا تَكُونُ ظَاهِرًا."

   - **English:** "If you seek Allah's pleasure through your actions, then conceal them more than you reveal them."

   - **Reference:** Ibn al-Jawzi, **"Sayd al-Khatir"**


6. **Abdullah ibn Mubarak (رحمه الله):**

   - **Arabic:** "رُبَّ عملٍ صغير تعظمه النية، ورُبَّ عملٍ كبير تصغره النية."

   - **English:** "A small deed may become great due to the intention, and a great deed may become small due to the intention."

   - **Reference:** Ibn Mubarak, **"Az-Zuhd"**


These sayings emphasize the importance of sincerity and purity of intention. The acceptance of good deeds depends on having a sincere intention, and the Salaf constantly strived to keep their intentions pure.

علم کے بارے میں اقوال سلف صالحین

 یہاں چند مزید اقوال عربی متن اور اردو ترجمے کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں، جو علم کی اہمیت اور اس پر عمل کے بارے میں ہیں:


1. **امام مالک:**

   - **عربی:** "ليس العلم بكثرة الرواية، ولكن العلم نور يجعله الله في القلب."

   - **اردو:** "علم زیادہ روایتیں جاننے کا نام نہیں، بلکہ علم وہ نور ہے جو اللہ دل میں ڈالتا ہے۔"  

   - **حوالہ:** امام ابن عبدالبر، **"جامع بيان العلم وفضله"**


2. **امام احمد بن حنبل:**

   - **عربی:** "الناس إلى العلم أحوج منهم إلى الطعام والشراب، لأن الطعام والشراب يحتاج إليه في اليوم مرتين أو ثلاثًا، والعلم يحتاج إليه في كل وقت."

   - **اردو:** "لوگ علم کے زیادہ محتاج ہیں بنسبت کھانے اور پینے کے، کیونکہ کھانے اور پینے کی ضرورت دن میں دو یا تین بار ہوتی ہے، لیکن علم کی ضرورت ہر وقت ہوتی ہے۔"

   - **حوالہ:** ابن مفلح، **"الآداب الشرعية"**


3. **امام بخاری:**

   - **عربی:** "العلم قبل القول والعمل."

   - **اردو:** "علم قول اور عمل سے پہلے آتا ہے۔"

   - **حوالہ:** امام بخاری، **"صحیح البخاری"** (کتاب العلم)


4. **عبداللہ بن مبارک:**

   - **عربی:** "رُبَّ عملٍ صغير تعظمه النية، ورُبَّ عملٍ كبير تصغره النية."

   - **اردو:** "بسا اوقات ایک چھوٹا عمل نیت کی وجہ سے بڑا ہو جاتا ہے، اور بسا اوقات ایک بڑا عمل نیت کی کمی کی وجہ سے چھوٹا ہو جاتا ہے۔"

   - **حوالہ:** ابن مبارک، **"الزهد"**


5. **امام حسن بصری:**

   - **عربی:** "العلم علمان: علم باللسان، فذاك حجة الله على ابن آدم، وعلم في القلب فذاك العلم النافع."

   - **اردو:** "علم دو قسم کا ہوتا ہے: زبان کا علم، جو کہ ابن آدم پر اللہ کی حجت ہے، اور دل کا علم، جو کہ نفع دینے والا علم ہے۔"

   - **حوالہ:** امام ابن عبدالبر، **"جامع بيان العلم وفضله"**


یہ اقوال علم کی فضیلت اور اس کے عملی پہلو پر زور دیتے ہیں، اور یہ بتاتے ہیں کہ علم کو صحیح نیت اور دل کی روشنی کے ساتھ عمل میں ڈھالنا ضروری ہے۔

جمعرات، 5 ستمبر، 2024

How to celebrate teacher's day

 اسلام میں کسی خاص دن کو منانا، جیسے کہ "استاد کا دن" (Teachers' Day)، ایک موضوع ہے جس پر علما کے درمیان مختلف رائے پائی جاتی ہے۔ بنیادی طور پر اسلام میں جشن منانے کی اجازت یا ممانعت قرآن و سنت کی تعلیمات اور شرعی اصولوں پر منحصر ہے۔


1. **بدعت کا پہلو**: بعض علما کے نزدیک ایسے دن منانا جن کی بنیاد شریعت میں نہ ہو، ایک بدعت (ایسی نئی رسم جو دین میں نہیں تھی) شمار ہوتی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ اسلام میں عیدین (عید الفطر اور عید الاضحیٰ) کے علاوہ کسی اور دن کو خاص طور پر منانا جائز نہیں۔


2. **نیت اور مقصد**: دیگر علما کا کہنا ہے کہ اگر کوئی دن استادوں کی عزت و احترام کے لیے منایا جائے اور اس کا مقصد صرف تعلیم و تدریس کے پیشے کی عظمت کو اجاگر کرنا ہو، تو یہ ایک اچھا اور جائز عمل ہو سکتا ہے، بشرطیکہ اس کے ساتھ کوئی غیر اسلامی رسوم یا حرکات شامل نہ ہوں۔


3. **شخصی اور سماجی ذمہ داری**: اسلام میں استاد کی عزت و احترام کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ "مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے" (صحیح مسلم)۔ یعنی تعلیم دینا اور علم پھیلانا پیغمبرانہ فریضہ ہے۔ اس لحاظ سے، استاد کو عزت دینا اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔


### نتیجہ:

استاد کا دن منانے کا کوئی مخصوص اسلامی حکم موجود نہیں ہے۔ البتہ، اگر اس دن کو منانے میں کوئی غیر اسلامی عناصر شامل نہ ہوں اور یہ خالصتاً استادوں کی قدر کرنے کے لیے ہو، تو بعض علما اس کو جائز سمجھ سکتے ہیں۔ تاہم، اگر اس دن کو منانا بدعت یا غیر اسلامی طریقے سے کیا جائے تو یہ ناپسندیدہ ہو سکتا ہے۔

جمعرات، 29 اگست، 2024

جمعہ کے دن کی فضیلت


 إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم   يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ [الجمعہ: 9]

ذی وقار سامعین!

اللہ تعالٰی نے جنوّں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اور عبادت اس وقت اللہ کے دربار میں قبول ہوتی ہے جب اسے نبیﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کیا جائے۔ عبادات میں سے ایک اہم عبادت "نمازِ جمعہ” کی ادائیگی ہے۔ یہ جتنی اہم عبادت ہے آج ہم نے اسے اتنا ہی بے وقعت سمجھ لیا ہے۔ آج کے خطبہ جمعہ میں ہم جمعہ کے دن کی فضیلت ، بروقت جمعہ کی ادائیگی کی فضیلت ، جمعہ چھوڑنے کی وعید ، جمعہ کے دن کرنے والے کام اور جمعہ کے آداب سمجھیں گے۔

جمعہ کے دن کی فضیلت

 جمعہ کے دن کی بہت زیادہ اہمیت اور فضیلت ہے۔

❄عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ فِيهِ خُلِقَ آدَمُ وَفِيهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ وَفِيهِ أُخْرِجَ مِنْهَا وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ [مسلم: 1977]

ترجمہ: حضرت ابو ہریرۃ ﷜سے روایت ہے کہ نبی کریم  ﷺ  نے فر ما یا :بہترین دن جس میں سورج نکلتا ہے جمعے کا ہے اسی دن آدم ؑکو پیدا کیا گیا تھا اور اسی دن انھیں جنت میں داخل کیا گیا اور اسی میں انھیں اس سے نکا لا گیا (خلا فت ارضی سونپی گئی ) اور قیامت بھی جمعے کے دن ہی بر پاہو گی ۔”صالح مومنوں کے لیے یہ انعام عظیم حا صل کرنے کا دن ہو گا ۔

❄عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ, فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ أُهْبِطَ، وَفِيهِ تِيبَ عَلَيْهِ، وَفِيهِ مَاتَ، وَفِيهِ تَقُومُ السَّاعَةُ، وَمَا مِنْ دَابَّةٍ إِلَّا وَهِيَ مُسِيخَةٌ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، مِنْ حِينَ تُصْبِحُ، حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ شَفَقًا مِنَ السَّاعَةِ, إِلَّا الْجِنَّ وَالْإِنْسَ، وَفِيهِ سَاعَةٌ لَا يُصَادِفُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ وَهُوَ يُصَلِّي، يَسْأَلُ اللَّهَ حَاجَةً, إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهَا. [ابوداؤد: 1046 صححہ الالبانی]

ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ ﷜بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” بہترین دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے ، جمعے کا دن ہے ۔ اس میں آدم پیدا کیے گئے ، اسی میں ان کو زمین پر اتارا گیا ، اسی میں ان کی توبہ قبول کی گئی ، اسی دن ان کی وفات ہوئی اور اسی دن قیامت قائم ہو گی ۔ جمعہ کے دن صبح ہوتے ہی تمام جانور قیامت کے ڈر سے کان لگائے ہوئے ہوتے ہیں حتیٰ کہ سورج طلوع ہو جائے ، سوائے جنوں اور انسانوں کے ۔ اس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے جسے کوئی مسلمان بندہ پا لے جبکہ وہ نماز پڑھ رہا ہو اور اللہ عزوجل سے اپنی کسی ضرورت کا سوال کر رہا ہو تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور عنایت فر دیتا ہے ۔ “

❄عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نَحْنُ الْآخِرُونَ السَّابِقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بَيْدَ كُلِّ أُمَّةٍ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا وَأُوتِينَا مِنْ بَعْدِهِمْ فَهَذَا الْيَوْمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ فَغَدًا لِلْيَهُودِ وَبَعْدَ غَدٍ لِلنَّصَارَى

ترجمہ : سیدنا ابوہریرہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نےفرمایا، ہم (دنیا میں ) تمام امتوں کےآخر میں آئے لیکن (قیامت  کےدن )  تمام امتوں سے آگے ہون گے ۔صرف اتنا فرق ہےکہ انہیں پہلے  کتاب د ی گئی اورہمیں بعدمیں ملی اور یہی وہ (جمعہ  کا) دن ہے جس کےبارے میں  لوگوں نےاختلاف کیا۔ یہودیوں نےتو اسے اس کےدوسرے دن( ہفتہ کو) کرلیا اور نصاریٰ  نےتیسرے دن (اتوارکو)۔ [بخاری: 3486]

❄عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ, فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ قُبِضَ، وَفِيهِ النَّفْخَةُ، وَفِيهِ الصَّعْقَةُ، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيهِ, فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ. قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَكَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْكَ وَقَدْ أَرِمْتَ -يَقُولُونَ: بَلِيتَ؟!- فَقَالَ:إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ.

ترجمہ : سیدنا اوس بن اوس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” تمہارے افضل ایام میں سے جمعے کا دن ہے ۔ اس میں آدم پیدا کیے گئے ، اسی میں ان کی روح قبض کی گئی ، اسی میں «نفخة» ( دوسری دفعہ صور پھونکنا ) ہے اور اسی میں «صعقة» ہے ( پہلی دفعہ صور پھونکنا ، جس سے تمام بنی آدم ہلاک ہو جائیں گے ) سو اس دن میں مجھ پر زیادہ درود پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے ۔ “ صحابہ نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! ہمارا درود آپ پر کیوں کر پیش کیا جائے گا حلانکہ آپ بوسیدہ ہو چکے ہوں گے ۔ ( یعنی آپ کا جسم ) تو آپ ﷺ نے فرمایا ” اللہ عزوجل نے زمین پر انبیاء کے جسم حرام کر دیے ہیں ۔ “  [ابوداؤد: 1047 صححہ الالبانی]

بروقت جمعہ کی ادائیگی کی فضیلت

جمعہ والے دن کی اہم ترین عبادت نمازِ جمعہ کی بروقت ادائیگی ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں؛

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ [الجمعہ: 9]                                                         "اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو اور خرید وفروخت چھوڑ دو، یہ تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو۔”

عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ, قَال:َ الْجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ فِي جَمَاعَةٍ إِلَّا أَرْبَعَةً: عَبْدٌ مَمْلُوكٌ، أَوِ امْرَأَةٌ، أَوْ صَبِيٌّ، أَوْ مَرِيضٌ.

ترجمہ: سیدنا طارق بن شہاب ﷜ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ” جمعہ ہر مسلمان پر جماعت کے ساتھ لازماً فرض ہے ‘ سوائے چار قسم کے لوگوں کے ۔ غلام مملوک ، عورت ، بچہ اور مریض ۔ “  [ابوداؤد: 1067 صححہ الالبانی]

جمعہ والے دن اچھی طرح غسل کرکے ، خوشبو لگا کر اور اچھے کپڑے پہن کر جلد مسجد میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لئے جانے کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت ہے۔

❄عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ اغْتَسَلَ ثُمَّ أَتَى الْجُمُعَةَ فَصَلَّى مَا قُدِّرَ لَهُ ثُمَّ أَنْصَتَ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْ خُطْبَتِهِ ثُمَّ يُصَلِّي مَعَهُ غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى وَفَضْلُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ [مسلم: 1987]

ترجمہ: حضرت ابو ہریرۃ  ﷜سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ سے روایت کہ آپ نے فرمایا:”جس نے غسل کیا،پھر جمعے کے لئے حاضر ہوا،پھر اس کے مقدر میں جتنی (نفل) نماز تھی پڑھی،پھر خاموشی  سے(خطبہ) سنتا رہا حتیٰ کہ خطیب اپنے خطبے سے فارغ ہوگیا،پھر اس کے ساتھ نماز پڑھی،اس کے اس جمعے سے لے کر ایک اور(پچھلے یا اگلے) جمعے تک کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں اور مزید تین دنوں کے بھی۔”

❄عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ غُسْلَ الْجَنَابَةِ ثُمَّ رَاحَ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَدَنَةً وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّانِيَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَقَرَةً وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّالِثَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ كَبْشًا أَقْرَنَ وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الرَّابِعَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ دَجَاجَةً وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الْخَامِسَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَيْضَةً فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ حَضَرَتْ الْمَلَائِكَةُ يَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ [بخاری: 881]

ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ ﷜سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جمعہ کے دن غسل جنابت کرکے نماز پڑھنے جائے تو گویا اس نے ایک اونٹ کی قربانی دی ( اگراول وقت مسجد میں پہنچا ) اور اگر بعد میں گیا تو گویا ایک گائے کی قربانی دی اور جو تیسرے نمبر پر گیا تو گویا اس نے ایک سینگ والے مینڈھے کی قربانی دی۔ اور جو کوئی چوتھے نمبر پر گیا تو اس نے گویا ایک مرغی کی قربانی دی اور جو کوئی پانچویں نمبر پر گیا اس نے گویا انڈا اللہ کی راہ میں دیا۔ لیکن جب امام خطبہ کے لیے باہر آجاتا ہے تو ملائکہ خطبہ سننے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔

❄عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ وَقَفَتْ الْمَلَائِكَةُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ يَكْتُبُونَ الْأَوَّلَ فَالْأَوَّلَ وَمَثَلُ الْمُهَجِّرِ كَمَثَلِ الَّذِي يُهْدِي بَدَنَةً ثُمَّ كَالَّذِي يُهْدِي بَقَرَةً ثُمَّ كَبْشًا ثُمَّ دَجَاجَةً ثُمَّ بَيْضَةً فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ طَوَوْا صُحُفَهُمْ وَيَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ [بخاری: 929]

ترجمہ: سیدنا ابو ہریرہ ﷜سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب جمعہ کا دن آتا ہے تو فرشتے جامع مسجد کے دروازے پر آنے والوں کے نام لکھتے ہیں، سب سے پہلے آنے والا اونٹ کی قربانی دینے والے کی طرح لکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد آنے والا گائے کی قربانی دینے والے کی طرح پھر مینڈھے کی قربانی کا ثواب رہتا ہے۔ اس کے بعد مرغی کا، اس کے بعد انڈے کا۔ لیکن جب امام ( خطبہ دینے کے لیے ) باہر آجاتا ہے تو یہ فرشتے اپنے دفاتر بند کر دیتے ہیں اور خطبہ سننے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔

❄عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ الثَّقَفِيِّ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:«مَنْ غَسَّلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَاغْتَسَلَ، ثُمَّ بَكَّرَ وَابْتَكَرَ، وَمَشَى وَلَمْ يَرْكَبْ، وَدَنَا مِنَ الْإِمَامِ فَاسْتَمَعَ وَلَمْ يَلْغُ كَانَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ عَمَلُ سَنَةٍ أَجْرُ صِيَامِهَا وَقِيَامِهَا» [ابوداؤد345 صححہ الالبانی]

ترجمہ:  سیدنا اوس بن اوس ثقفی ﷜ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا فرماتے تھے ” جس نے جمعہ کے روز غسل کیا اور خوب اچھی طرح کیا اور جلدی آیا اور ( خطبہ میں ) اول وقت پہنچا ، پیدل چل کے آیا اور سوار نہ ہوا ، امام سے قریب ہو کر بیٹھا اور غور سے سنا اور لغو سے بچا ، تو اس کے لیے ہر قدم پر ایک سال کے روزوں اور قیام کے عمل کا ثواب ہے ۔ “

جمعہ چھوڑنے کی وعید

 جو بندہ جان بوجھ کر جمعہ نہیں ادا کرتا ، اس کے بارے میں آقا علیہ السلام نے فرمایا ہے؛

أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ وَأَبَا هُرَيْرَةَ سَمِعَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ عَلَى أَعْوَادِ مِنْبَرِهِ لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ عَنْ وَدْعِهِمْ الْجُمُعَاتِ أَوْ لَيَخْتِمَنَّ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ ثُمَّ لَيَكُونُنَّ مِنْ الْغَافِلِينَ [مسلم: 2002]

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ ﷺ  سے سنا آپ اپنے منبر کی لکڑیوں پر (کھڑے ہو ئے) فر ما رہے تھے "لو گوں کے گروہ ہر صورت جمعہ چھوڑ دینے سے باز آجا ئیں یا اللہ تعا لیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا پھر وہ غافلوں میں سے ہو جائیں گے۔

 عَنْ أَبِي الْجَعْدِ الضَّمْرِيِّ -وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ-، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ تَرَكَ ثَلَاثَ جُمَعٍ تَهَاوُنًا بِهَا, طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قَلْبِهِ [ابوداؤد: 1052 صححہ الالبانی]

ترجمہ: سیدنا ابو الجعد ضمری ﷜ ( صحابی ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جو شخص غفلت اور سستی سے تین جمعے چھوڑ دے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے ۔ “

جمعہ کے دن کرنے والے کام

1. نمازِ فجر میں سورۃ السجدہ اور سورۃ الدھر پرھنا:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْجُمُعَةِ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ الم تَنْزِيلُ السَّجْدَةَ وَهَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنْ الدَّهْرِ

ترجمہ: سیدنا ابو ہریرہ ﷜ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جمعہ کے دن فجر کی نماز میں الٓم تنزیل اور ھل اتی علی الانسان پڑھا کرتے تھے۔ [بخاری: 891]

2. سورۃ الکہف کی تلاوت کرنا:

جمعہ کے روز یا جمعہ کی رات سورۃ الکہف کی تلاوت کا اہتمام خصوصی طور پر کرنا چاہئے، کیونکہ احادیث مبارکہ میں اس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے ۔

حضرت ابو سعید الخدری ﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ؛

 مَنْ قَرَأَ سُوْرَۃَ الْکَہْفِ لَیْلَۃَ الْجُمُعَۃِ،أَضَائَ لَہُ مِنَ النُّوْرِ فِیْمَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ

’’ جس شخص نے جمعہ کی رات سورۃالکہف کی تلاوت کی تو اس کے سامنے اس کے اور خانہ کعبہ کے درمیان مسافت کے برابر نور آ جاتا ہے ۔ ‘‘ [صحیح الجامع :6471]

اور دوسری روایت میں ارشاد فرمایا :

مَنْ قَرَأَ سُوْرَۃَ الْکَہْفِ فِیْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ،أَضَائَ لَہُ مِنَ النُّوْرِ مَا بَیْنَ الْجُمُعَتَیْنِ

’’ جو آدمی یومِ جمعہ کو سورۃ الکہف پڑھتا ہے تو اس کیلئے اگلے جمعہ تک نور ہی نور ہو جاتا ہے ۔ ‘‘ [صحیح الجامع للألبانی:6470]

3. نبی ﷺ پر کثرت سے درود شریف پڑھنا:

سيدنا أنس بن مالك ﷜ فرماتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا ؛

أكثِروا الصَّلاةَ علي يومَ الجمُعةِ و ليلةَ الجمُعةِ ، فمَن صلَّى علي صلاةً صلَّى الله عليِه عَشرًا.

"جمعے کے دن اور جمعے کی رات مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو ؛ پس جو مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے الله اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ۔”[ صحيح الجامع : ١٢٠٩ ]

امام شافعی رحمه الله فرماتے ہیں ؛

"مجھے ہر حال میں نبی ﷺ پر کثرت سے دورد بھیجنا پسند ہے، مگر جمعہ کے دن اور رات کو بہت ہی محبوب ہے۔” [ الأم : ٢٣٩/١ ]

امام ابن حجر رحمه الله نقل کرتے ہیں ؛

"نبی ﷺ پر کثرت سے درود بھیجنا، وباؤں اور دیگر بڑی مصیبتوں کے خاتمے کا بہت بڑا سبب ہے ۔” [ بذل الماعون : ٣٣٣ ]

4. کثرت سے دعا کرنا:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ؛

فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ سَاعَةٌ لَا يُوَافِقُهَا مُسْلِمٌ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلَّى يَسْأَلُ اللهَ تَعَالَى خَيْرًا إِلَّا أَعْطَاهُ »

"جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی ہے کہ اگر کوئی مسلمان اسے حالت نماز میں پالے تو اس میں وہ جو بھی اللہ سے دعائے خیر کرے گا، وہ پوری ہوگی ۔ [ بخارى: 6400]

اور ایک دوسری حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا ؛

هِيَ مَا بَيْنَ أَنْ يَجْلِسَ الْإِمَامُ إِلَى أَنْ تُقْضَى الصَّلَاةُ

دعا کی قبولیت کا یہ وقت امام کے منبر پر بیٹھنے سے نماز کے اختتام تک ہوتا ہے۔ [مسلم: 853]

اس گھڑی سے متعلق دو احادیث اور بھی ہیں ، ابن ماجہ (۱۳۹) اور مسند احمد (۴۵۱/۵، ح: (۲۳۸۴۳) کی صحیح حدیث میں ہے: «هِی آخِرُ سَاعَاتِ النَّهَارِ » یہ دن کی آخری گھڑی ہے ۔ اور ابو داؤد (۱۰۴۸) کی صحیح حدیث میں ہے: «فَالْتَمِسُوهَا آخِرَ سَاعَةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ » اسے عصر کے بعد کی آخری گھڑی میں تلاش کرو۔

 تو ان مختلف احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ گھڑی زوال آفتاب سے لے کر غروب آفتاب کی گھڑیوں میں سے کوئی گھڑی ہے۔ (واللہ اعلم )

جمعہ کے آداب

1. غسل کرنا:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ الْجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ [بخاری: 877]

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے جب کوئی شخص جمعہ کی نماز کے لیے آنا چا ہے تو اسے غسل کر لینا چاہیے۔

بوقتِ مجبوری وضو پر بھی اکتفاء کرنا جائز ہے

عَنْ سَمُرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَوَضَّأَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَبِهَا وَنِعْمَتْ وَمَنْ اغْتَسَلَ فَهُوَ أَفْضَلُ [ابوداؤد: 354 حسنہ الالبانی]

ترجمہ: سیدنا سمرہ ﷜ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جس نے وضو کیا اس نے سنت پر عمل کیا اور یہ بہت عمدہ سنت ہے ۔ اور جس نے غسل کیا تو یہ افضل ہے ۔ “

2. اچھے کپڑے پہننا:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ مَا عَلَى أَحَدِكُمْ لَوْ اشْتَرَى ثَوْبَيْنِ لِيَوْمِ الْجُمُعَةِ سِوَى ثَوْبِ مِهْنَتِهِ.

ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن سلام ﷜ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو جمعے کے دن منبر پر (خطبے کے دوران میں) یہ فرماتے سنا: ’’کیا حرج ہے اگر تم میں سے کوئی آدمی کام کاج کے کپڑوں کے علاوہ جمعے کے دن( نماز جمعہ کی حاضری) کے لیے دو کپڑے خرید لے۔‘‘ [ابن ماجہ: 1095 صححہ الالبانی]

3. مسواک اور خوشبو:

سیدنا ابوسعید خدری ﷜ نے فرمایا تھا کہ میں گواہ ہوں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا؛

الْغُسْلُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُحْتَلِمٍ وَأَنْ يَسْتَنَّ وَأَنْ يَمَسَّ طِيبًا إِنْ وَجَدَ

ترجمہ: جمعہ کے دن ہر جوان پر غسل، مسواک اور خوشبو لگانا اگر میسر ہو، ضروری ہے۔[بخاری: 880]

4. دورانِ خطبہ دو رکعت نماز پڑھنا:

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ جَاءَ سُلَيْكٌ الْغَطَفَانِيُّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ فَجَلَسَ فَقَالَ لَهُ يَا سُلَيْكُ قُمْ فَارْكَعْ رَكْعَتَيْنِ وَتَجَوَّزْ فِيهِمَا ثُمَّ قَالَ إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ وَلْيَتَجَوَّزْ فِيهِمَا

ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ ﷜ سے  روایت ہے،انھوں نےکہا:سلیک غطفانی  ﷜ جمعے کے دن(اس وقت ) آئے جب رسول اللہ  ﷺ  خطبہ دے رہے تھے تو وہ بیٹھ گئے۔آپ نے ان سے کہا:”اے سلیک!ا ٹھ کر دو رکعتیں پڑھو اور ان میں سے اختصار برتو۔”اس کے بعد آپ  ﷺ  نے فرمایا!”جب تم میں سے کوئی جمعے کےدن آئے جبکہ امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ دو رکعتیں پڑھے اور ان میں اختصار کرے۔” [مسلم: 2024]

5. نمازیوں کی گردنیں نہ پھلانگنا:

نبی ﷺ نے فرمایا ؛

مَنْ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَمَسَّ مِنْ طِيبِ امْرَأَتِهِ إِنْ كَانَ لَهَا وَلَبِسَ مِنْ صَالِحِ ثِيَابِهِ ثُمَّ لَمْ يَتَخَطَّ رِقَابَ النَّاسِ وَلَمْ يَلْغُ عِنْدَ الْمَوْعِظَةِ كَانَتْ كَفَّارَةً لِمَا بَيْنَهُمَا وَمَنْ لَغَا وَتَخَطَّى رِقَابَ النَّاسِ كَانَتْ لَهُ ظُهْرًا

” جس نے جمعہ کے روز غسل کیا اور اپنی اہلیہ کی خوشبو استعمال کی ۔ اگر اس کے پاس ہو ، اور اپنے عمدہ کپڑے پہنے ، پھر لوگوں کی گردنیں نہ پھلانگیں اور اثنائے وعظ میں ( خطبے کے دوران میں ) کوئی لغو عمل نہ کیا ، تو یہ ( نماز ) ان دونوں ( جمعوں ) کے مابین کے لیے کفارہ ہو گی اور جس نے کوئی لغو کام کیا اور لوگوں کی گردنیں پھلانگیں تو اس کے لیے یہ ظہر ہی ہو گی ( یعنی ظہر کی نماز کا ثواب ہو گا نہ کہ جمعے کا ۔ “ [ابوداؤد: 347 حسنہ الالبانی]

6. دورانِ خطبہ گفتگو نہ کرنا:

❄أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا قُلْتَ لِصَاحِبِكَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَنْصِتْ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَقَدْ لَغَوْتَ

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب امام جمعہ کا خطبہ دے رہا ہو اور تو اپنے پاس بیٹھے ہوئے آدمی سے کہے کہ “چپ رہ” تو تو نے خود ایک لغو حرکت کی۔ [بخاری: 934]

عمرو بن شعیب اپنے والد سے ‘ وہ عبداللہ بن عمرو ؓ سے ‘ وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا؛

❄يَحْضُرُ الْجُمُعَةَ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ, رَجُلٌ حَضَرَهَا يَلْغُو وَهُوَ حَظُّهُ مِنْهَا، وَرَجُلٌ حَضَرَهَا يَدْعُو فَهُوَ رَجُلٌ دَعَا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، إِنْ شَاءَ أَعْطَاهُ، وَإِنْ شَاءَ مَنَعَهُ، وَرَجُلٌ حَضَرَهَا بِإِنْصَاتٍ وَسُكُوتٍ وَلَمْ، يَتَخَطَّ رَقَبَةَ مُسْلِمٍ وَلَمْ يُؤْذِ أَحَدًا، فَهِيَ كَفَّارَةٌ إِلَى الْجُمُعَةِ الَّتِي تَلِيهَا، وَزِيَادَةِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ, وَذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ: {مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا}[الأنعام: 160].

” جمعہ میں تین طرح کے افراد آتے ہیں ۔ ایک وہ شخص جو لغو کام کرتا ہے اس کا یہی حصہ ہے ۔ دوسرا دعا کے لیے آتا ہے ‘ یہ دعا کرتا ہے اﷲ چاہے تو عطا فرمائے اور چاہے تو محروم رکھے ۔ اور تیسرا وہ شخص جو خاموشی سے سنتا اور سکونت اختیار کرتا ہے ۔ کسی مسلمان کی گردن پھلانگتا ہے نہ کسی کو ایذا دیتا ہے ۔ اس آدمی کے لیے یہ جمعہ آیندہ جمعہ تک کے لیے اور مزید تین دن کے لیے کفارہ ہے ۔ اور یہ اس لیے کہ اللہ عزوجل نے فرمایا «من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها» جو ایک نیکی لاتا ہے اس کے لیے اس کا دس گنا ( اجر ) ہے ۔ “ [ابوداؤد: 1113 صححہ الالبانی]