اپنی زبان منتخب کریں

منگل، 17 ستمبر، 2024

کتابچہ "علماء کے حقوق کا خلاصہ سمری

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

الحمدللہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ  اما بعد 

کل ہم باغ مہتاب کے ایک 

(One day workshop) پر علم کی مجلس میں اپنے استاد محترم سے درس و تدریس سماعت فرما رہے تھے کہ محترم استاد نے اس کتاب کا حوالہ دیا اور اس کو پڑھنے اور لوگوں تک پہنچانے کا ہم سے وعدہ لیا تو اس چیز کو مدنظر رکھ کر اللہ کے فضل و کرم سے اس کتاب کا خلاصہ اور{سمری} اپ کی خدمت میں حاضر کر رہا ہوں

کتابچہ "علماء کے حقوق" میں علمائے کرام کے مقام، اہمیت اور ان کے حقوق کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس کتابچہ کی بنیاد اس تصور پر رکھی گئی ہے کہ علماء، دین کے محافظ اور علم کے وارث ہیں۔ اسلامی معاشروں میں ان کی حیثیت اور کردار کو بلند مقام دیا جاتا ہے، کیونکہ وہ شریعت کی تعلیمات کو عوام تک پہنچانے، اسلامی قوانین کی تشریح کرنے اور لوگوں کو صحیح راہنمائی فراہم کرنے کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔


### علماء کا مقام اور اہمیت

کتاب میں اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ علماء کو قرآن و سنت میں ایک عظیم مقام عطا کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے علماء کو خدائی معرفت رکھنے والے اور خشیت الٰہی کے حامل افراد کے طور پر ذکر کیا ہے۔ اسی طرح احادیث میں بھی علماء کی فضیلت پر زور دیا گیا ہے، جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ "علماء انبیاء کے وارث ہیں"۔ ان کا کردار معاشرے کی روحانی اور فکری رہنمائی میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔


### علمائے کرام کے حقوق

کتاب میں علمائے کرام کے حقوق کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، جنہیں عوام الناس اور حکمرانوں کی طرف سے پورا کیا جانا چاہئے۔ ان حقوق کو چند اہم نقاط میں بیان کیا گیا ہے:


1. **احترام اور عزت**: علماء کو ان کی علمیت اور دینی خدمات کی بنیاد پر عزت اور احترام دیا جانا چاہئے۔ یہ معاشرتی طور پر ان کا حق ہے کہ ان کی بات کو غور سے سنا جائے اور ان کی تعلیمات پر عمل کیا جائے۔


2. **معاشرتی اور مالی معاونت**: علمائے کرام کا ایک اہم حق یہ ہے کہ ان کی معاشی ضروریات کا خیال رکھا جائے، تاکہ وہ بغیر کسی مالی تنگی کے دین کی خدمت کر سکیں۔ معاشرہ اور حکمران دونوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ علماء کو معاشی معاونت فراہم کریں۔


3. **آزادیٔ اظہار**: علماء کو آزادانہ طور پر دین کی تعلیمات کو بیان کرنے کا حق حاصل ہونا چاہئے، بغیر کسی خوف یا جبر کے۔ یہ ان کا حق ہے کہ وہ سچائی کو بیان کریں اور دین کے خلاف ہونے والی کسی بھی گمراہی کو روکنے کے لئے کھل کر بات کریں۔


4. **تعلیم و تدریس کے مواقع**: علماء کا حق ہے کہ ان کو علم حاصل کرنے اور دوسروں کو علم دینے کے لئے بھرپور مواقع فراہم کیے جائیں۔ مدارس، مساجد اور دیگر تعلیمی اداروں کو ان کی دسترس میں رکھا جائے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھا سکیں۔


### علماء کی ذمہ داریاں

حقوق کے ساتھ ساتھ علماء پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جنہیں کتاب میں بیان کیا گیا ہے۔ ان میں سرفہرست:


1. **اخلاص**: علماء کو اپنی نیتوں کو خالص رکھنا چاہئے اور علم کو صرف اللہ کی رضا کے لئے سیکھنا اور سکھانا چاہئے۔


2. **عمل اور کردار**: علماء کو اپنے علم کے مطابق عمل کرنا چاہئے تاکہ ان کی باتوں اور عمل میں تضاد نہ ہو۔ وہ لوگوں کے لئے نمونہ ہونے چاہئیں۔


3. **نرمی اور حکمت**: دین کی تبلیغ کرتے وقت نرمی اور حکمت سے کام لینا چاہئے۔ سختی اور شدت پسندی سے بچنا چاہئے تاکہ لوگ دین کی طرف راغب ہوں۔


### موجودہ دور میں علماء کا کردار

کتاب میں موجودہ دور کے چیلنجز کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ علماء کو کس طرح ان چیلنجز کا سامنا کرنا چاہئے۔ عصر حاضر میں دین کے خلاف اٹھنے والے مختلف نظریات اور گمراہیوں کو روکنے کے لئے علماء کو بھرپور تیاری اور آگاہی ہونی چاہئے۔ اس مقصد کے لئے انہیں جدید علوم سے بھی واقفیت حاصل کرنی چاہئے تاکہ وہ دینی مسائل کا حل عصر حاضر کی ضروریات کے مطابق پیش کر سکیں۔


### معاشرے کے لئے پیغام

آخر میں، کتاب میں عوام الناس کے لئے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ وہ علماء کے ساتھ تعاون کریں، ان کی باتوں کو سنیں اور ان کی رہنمائی میں زندگی گزاریں۔ علماء معاشرے کی اصلاح کے لئے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے بغیر معاشرے کا دینی اور اخلاقی زوال یقینی ہے۔


### خلاصہ

"علماء کے حقوق" ایک ایسی تحریر ہے جو علماء کی اہمیت، ان کے حقوق اور ان کی ذمہ داریوں کو بیان کرتی ہے۔ اس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ علماء کو معاشرتی، مالی اور تعلیمی سطح پر بھرپور معاونت فراہم کی جائے اور انہیں عزت دی جائے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے انجام دے سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ علماء کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرنا چاہئے اور اخلاص، علم اور عمل کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دینا چاہئے۔ اس طرح علماء اور عوام کے درمیان ایک مثالی تعلق قائم ہو سکتا ہے جو اسلام کے اصولوں پر مبنی معاشرہ کے قیام میں مددگار ثابت ہوگا۔

پیر، 16 ستمبر، 2024

عید میلادالنبی کا رد میں اقوال سلف صالحین

 یہاں سلف صالحین کے چند مشہور اقوال عید میلاد النبی ﷺ کے حوالے سے عربی متن اور اردو ترجمے کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں:


1. **شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ** فرماتے ہیں:  

   **عربی:**  

   "فأما اتخاذ مولد النبي ﷺ عيدًا مع اختلاف الناس فيه، فإنّه لم يفعله السلف، مع قيام المقتضى له، وعدم المانع منه، ولو كان هذا خيرًا محضًا أو راجحًا لكان السلف رضي الله عنهم أحقّ به منّا، فإنّهم كانوا أشدّ محبّة لرسول الله ﷺ وتعظيمًا له منّا، وهم على الخير أحرص."  

   _(اقتضاء الصراط المستقیم، 2/123)_


   **اردو ترجمہ:**  

   "جہاں تک نبی ﷺ کی پیدائش کو عید کے طور پر منانے کا تعلق ہے، اس میں لوگوں کا اختلاف ہے، لیکن سلف صالحین نے ایسا نہیں کیا، حالانکہ اس کے لئے تمام اسباب موجود تھے اور کوئی رکاوٹ نہ تھی۔ اگر یہ سراسر خیر ہوتا یا اس میں کوئی بھلائی ہوتی تو سلف صالحین ہم سے زیادہ اس کے مستحق تھے، کیونکہ وہ ہم سے زیادہ نبی ﷺ سے محبت اور ان کی تعظیم کرتے تھے اور وہ ہمیشہ بھلائی کے حریص تھے۔"


2. **امام شاطبی رحمہ اللہ** فرماتے ہیں:  

   **عربی:**  

   "فكل بدعة ضلالة، وكل ضلالة في النار، كالاحتفال بالمولد، فإنه لم يكن في عهد السلف الصالح."  

   _(الاعتصام، 1/46)_


   **اردو ترجمہ:**  

   "ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جاتی ہے، جیسے میلاد منانا، کیونکہ یہ سلف صالحین کے دور میں نہیں تھا۔"


3. **شیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ رحمہ اللہ** فرماتے ہیں:  

   **عربی:**  

   "إن الاحتفال بالمولد النبوي بدعة، لأنه لم يكن موجودًا في عهد النبي ﷺ ولا في عهد الصحابة ولا التابعين."  

   _(فتاوی الشیخ محمد بن ابراہیم، 3/41)_


   **اردو ترجمہ:**  

   "میلاد النبی کا جشن منانا بدعت ہے، کیونکہ یہ نہ نبی ﷺ کے دور میں تھا، نہ صحابہ کے دور میں اور نہ ہی تابعین کے دور میں۔"


4. **علامہ ابن الحاج رحمہ اللہ** فرماتے ہیں:  

   **عربی:**  

   "ومن جملة ما أحدثوه من البدع مع اعتقادهم أن في ذلك تعظيماً للنبي ﷺ هو عمل المولد."  

   _(المدخل، 2/10)_

   **اردو ترجمہ:**  

   "ان بدعات میں سے جو انہوں نے نبی ﷺ کی تعظیم سمجھتے ہوئے ایجاد کی ہیں، ان میں میلاد منانا بھی شامل ہے۔"


یہ اقوال اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ سلف صالحین نے میلاد النبی ﷺ منانے کو بدعت قرار دیا ہے اور اسے دین میں ایک نیا اضافہ سمجھا ہے جس کی شریعت میں کوئی بنیاد نہیں۔

ہفتہ، 14 ستمبر، 2024

الرحیق المختوم کتاب کا خلاصہ {سمری}

الرحیق المختوم کتاب کا خلاصہ {سمری}



"الرحیق المختوم" سیرت النبی ﷺ پر لکھی جانے والی ایک معتبر اور معروف کتاب ہے، جسے صفی الرحمن مبارکپوری نے تحریر کیا۔ یہ کتاب 1979 میں پہلی بار شائع ہوئی اور عالمی سیرت کانفرنس میں پہلی پوزیشن حاصل کی، جس کے بعد اسے عالمی سطح پر پذیرائی ملی۔ کتاب کو خاص طور پر نبی اکرم ﷺ کی زندگی کے اہم پہلوؤں کو مختصر اور منظم انداز میں پیش کرنے کے لیے لکھا گیا تھا تاکہ مسلمانوں کو نبی کریم ﷺ کی سیرت سے رہنمائی حاصل ہو۔


### تاریخی پس منظر


کتاب کی ابتدا عرب کی جغرافیائی اور تاریخی پس منظر سے ہوتی ہے۔ مبارکپوری نے عرب کے قبائلی نظام، ان کی روایات، رسم و رواج اور معاشرتی زندگی کا ذکر کیا ہے تاکہ قارئین کو یہ سمجھنے میں آسانی ہو کہ نبی اکرم ﷺ کس قسم کے معاشرے میں پیدا ہوئے اور انہوں نے اسلام کی تبلیغ کیسے کی۔ عربوں کی اخلاقی حالت اس وقت انتہائی پستی کا شکار تھی، بت پرستی عام تھی، اور جاہلیت کے دور کا غلبہ تھا۔ اسی پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو اسلام کی روشنی پھیلانے کے لیے منتخب کیا۔


### نبی کریم ﷺ کی پیدائش اور بچپن


نبی کریم ﷺ 571ء میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ آپ ﷺ کے والد حضرت عبداللہ آپ ﷺ کی پیدائش سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے، اور آپ کی والدہ حضرت آمنہ کا سایہ بھی کم عمری میں اٹھ گیا۔ یتیمی کے عالم میں آپ ﷺ کی پرورش آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب اور بعد ازاں آپ کے چچا حضرت ابوطالب نے کی۔ نبی ﷺ نے اپنے بچپن اور جوانی میں صداقت، دیانت اور امانت کے اعلیٰ معیار قائم کیے۔ ان کی سچائی اور اخلاقی عظمت کے باعث لوگ آپ کو "امین" اور "صادق" کے القاب سے پکارتے تھے۔


### نبوت کا آغاز


نبی کریم ﷺ کی عمر جب چالیس برس ہوئی، تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو نبوت کے منصب پر فائز کیا۔ پہلی وحی غار حرا میں نازل ہوئی، جہاں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ ﷺ کو سورہ العلق کی ابتدائی آیات پڑھائیں۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے اسلام کی دعوت کا آغاز کیا، پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں کو دعوت دی اور پھر کھلے عام لوگوں کو توحید کی طرف بلانا شروع کیا۔


### مکی دور: مشکلات اور صبر


نبی کریم ﷺ کی مکی زندگی مشکلات اور تکالیف سے بھرپور تھی۔ ابتدائی سالوں میں قریش کے سرداروں نے اسلام کی تبلیغ کو روکنے کی بھرپور کوشش کی۔ نبی کریم ﷺ اور ان کے ساتھیوں پر شدید مظالم ڈھائے گئے، مگر آپ ﷺ نے صبر اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابو طالب کی وفات کے بعد یہ مشکلات مزید بڑھ گئیں، مگر نبی کریم ﷺ نے اپنی دعوت کو جاری رکھا۔


### ہجرت اور مدنی زندگی


مکہ میں مسلمانوں کی حالت زار اور قریش کی دشمنی بڑھنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا۔ ہجرت نبی کریم ﷺ کی زندگی کا ایک نیا باب تھا، جہاں آپ نے مسلمانوں کے درمیان اخوت اور محبت کے رشتے کو مضبوط کیا اور مدینہ میں ایک مضبوط اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی۔ یہاں پر آپ ﷺ نے مسجد نبوی کی تعمیر کی اور مختلف قبائل کے درمیان میثاقِ مدینہ کے ذریعے امن و امان کا قیام کیا۔


### غزوات اور اسلامی ریاست کا استحکام


مدنی زندگی کے دوران نبی کریم ﷺ کو مختلف غزوات کا سامنا کرنا پڑا، جن میں غزوہ بدر، غزوہ احد، اور غزوہ خندق اہم ہیں۔ ان غزوات میں مسلمانوں کو ابتدائی طور پر کامیابیاں اور ناکامیاں دونوں ملیں، مگر نبی کریم ﷺ کی حکمت عملی اور اللہ کی مدد سے اسلامی ریاست دن بدن مضبوط ہوتی چلی گئی۔ غزوہ بدر مسلمانوں کے لیے ایک اہم فتح ثابت ہوا جبکہ غزوہ احد میں وقتی شکست کے باوجود مسلمانوں نے ہمت نہ ہاری۔ غزوہ خندق نے مسلمانوں کو قریش کے خلاف ایک مضبوط دیوار بنا دیا۔


### صلح حدیبیہ


صلح حدیبیہ نبی کریم ﷺ کی دوراندیش قیادت کا ایک اہم واقعہ تھا۔ 6 ہجری میں نبی کریم ﷺ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ عمرہ کی نیت سے مکہ تشریف لے گئے، مگر قریش نے مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ طویل مذاکرات کے بعد صلح کا معاہدہ ہوا، جسے بظاہر مسلمانوں کے حق میں کمزور سمجھا جا رہا تھا، مگر بعد میں یہ معاہدہ مسلمانوں کے لیے فتح مکہ کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔


### فتح مکہ


صلح حدیبیہ کے بعد قریش نے معاہدے کی خلاف ورزی کی، جس کے نتیجے میں نبی کریم ﷺ نے 8 ہجری میں مکہ فتح کیا۔ مکہ کی فتح اسلامی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے، جہاں نبی کریم ﷺ نے انتقام لینے کے بجائے معافی کا اعلان کیا۔ قریش کے تمام سرداروں کو معاف کر دیا گیا، اور خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کر کے توحید کی عظمت کو بحال کیا گیا۔


### حجۃ الوداع


10 ہجری میں نبی کریم ﷺ نے اپنے آخری حج، حجۃ الوداع، کے موقع پر مسلمانوں کو ایک جامع خطبہ دیا، جس میں اسلام کے بنیادی اصولوں کو واضح کیا اور مسلمانوں کو آپس میں محبت اور بھائی چارے کی تلقین کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمام مسلمان برابر ہیں اور کسی کو کسی پر فضیلت حاصل نہیں، سوائے تقویٰ کے۔ اس خطبے کو نبی کریم ﷺ کی زندگی کا آخری اہم پیغام سمجھا جاتا ہے۔


### وفات


11 ہجری میں نبی کریم ﷺ کی طبیعت خراب ہوئی اور آپ ﷺ نے وفات سے قبل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں آخری دن گزارے۔ نبی کریم ﷺ کی وفات اسلامی تاریخ کا سب سے المناک واقعہ تھا، مگر آپ ﷺ کی تعلیمات اور سیرت مسلمانوں کے لیے ہمیشہ کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بن گئیں۔


### خلاصہ


"الرحیق المختوم" نبی کریم ﷺ کی مکمل سیرت کو جامع انداز میں بیان کرتی ہے۔ کتاب میں نبی ﷺ کی زندگی کے ہر پہلو کو سادہ اور مربوط طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ اس میں نبی کریم ﷺ کی مکی اور مدنی زندگی، مشکلات کا سامنا، صبر، اور اللہ کے دین کی تبلیغ کے لیے ان کی انتھک محنت کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ کتاب مسلمانوں کے لیے ایک عظیم رہنمائی کا ذریعہ ہے تاکہ وہ نبی کریم ﷺ کی سیرت سے سبق حاصل کر کے اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں۔

بدعت کے بارے میں بعض اہم اقوال

 



یقیناً، یہاں بدعت کے بارے میں بعض اہم اقوال عربی اور اردو ترجمے کے ساتھ دیے گئے ہیں:


1. **نبی صلی اللہ علیہ وسلم**:

   - **عربی**: "كل بدعة ضلالة، وكل ضلالة في النار."

   - **اردو**: "ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی دوزخ میں لے جاتی ہے۔" (صحیح مسلم)


2. **امام شافعی**:

   - **عربی**: "البدعة لا تكون في الدين، وما كان من الدين فليس بدعة."

   - **اردو**: "بدعت دین میں نہیں ہوتی، اور جو کچھ دین سے متعلق ہو وہ بدعت نہیں ہے۔"


3. **امام احمد بن حنبل**:

   - **عربی**: "البدعة ما لم يكن عليه الصحابة، ومن أحدث شيئا في الدين فهو من أهل البدعة."

   - **اردو**: "بدعت وہ چیز ہے جو صحابہ کرام کے دور میں نہیں تھی، اور جو شخص دین میں کوئی نئی چیز شامل کرے، وہ بدعتی ہوتا ہے۔"


4. **ابن عباس رضی اللہ عنہ**:

   - **عربی**: "اليوم يئست من الذين كفروا فلا تخشوهم واخشون، اليوم أكملت لكم دينكم."

   - **اردو**: "آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے۔" (سورۃ المائدہ، 5:3) 


یہ اقوال بدعت کی وضاحت کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ دین میں نئی چیزیں شامل کرنا ممنوع ہے۔

واللہ اعلم بالصواب 

جمعرات، 12 ستمبر، 2024

اخلاص کے بارے میں اقوال سلف صالحین

 

اخلاص (نیت کی پاکیزگی) کے بارے میں سلف صالحین کے بہترین اقوال درج ذیل ہیں:


1. **حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ:**

   - **عربی:** "مَنْ خَلَصَتْ نِيَّتُهُ كَفَاهُ اللَّهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّاسِ."

   - **اردو:** "جس کی نیت خالص ہو، اللہ اس کے اور لوگوں کے درمیان کے معاملات کو کافی کر دیتا ہے۔"

   - **حوالہ:** ابن جوزی، **"صید الخاطر"**


2. **حضرت سفیان الثوری رحمہ اللہ:**

   - **عربی:** "ما عالجت شيئاً أشد علي من نيتي؛ لأنها تتقلب علي."

   - **اردو:** "میں نے اپنی نیت سے زیادہ کسی اور چیز کا علاج نہیں کیا، کیونکہ یہ مجھ پر بار بار پلٹتی رہتی ہے۔"

   - **حوالہ:** امام ابن قیم، **"مدارج السالكين"**


3. **حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ:**

   - **عربی:** "ترك العمل من أجل الناس رياء، والعمل من أجل الناس شرك، والإخلاص أن يعافيك الله منهما."

   - **اردو:** "لوگوں کے لیے عمل چھوڑنا ریاکاری ہے، اور لوگوں کے لیے عمل کرنا شرک ہے، جبکہ اخلاص یہ ہے کہ اللہ تمہیں ان دونوں سے بچا لے۔"

   - **حوالہ:** ابن قیم، **"الفوائد"**


4. **حضرت ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ:**

   - **عربی:** "الإخلاص هو أن تكون حركاتُ العبد وسكناته لله تعالى وحده."

   - **اردو:** "اخلاص یہ ہے کہ بندے کی تمام حرکتیں اور سکون اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہوں۔"

   - **حوالہ:** امام ابن قیم، **"مدارج السالكين"**


5. **حضرت حسن بصری رحمہ اللہ:**

   - **عربی:** "إِذَا أَرَدتَ بِعَمَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ تَعَالَى، فَكُنْ مُخْفِيًا لِهُ أَشَدَّ مَا تَكُونُ ظَاهِرًا."

   - **اردو:** "اگر تم اپنے عمل میں اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہو، تو اسے اتنا چھپاؤ جتنا تم ظاہر کرتے ہو۔"

   - **حوالہ:** ابن جوزی، **"صید الخاطر"**


6. **حضرت ابن مبارک رحمہ اللہ:**

   - **عربی:** "رُبَّ عملٍ صغير تعظمه النية، ورُبَّ عملٍ كبير تصغره النية."

   - **اردو:** "کبھی ایک چھوٹا عمل نیت کی وجہ سے بڑا ہو جاتا ہے، اور کبھی ایک بڑا عمل نیت کی وجہ سے چھوٹا ہو جاتا ہے۔"

   - **حوالہ:** ابن مبارک، **"الزهد"**


یہ اقوال اخلاص کی اہمیت اور نیت کی پاکیزگی پر زور دیتے ہیں۔ نیک عمل کی قبولیت کا دارومدار خالص نیت پر ہے، اور سلف صالحین نے ہمیشہ اپنی نیت کو درست اور خالص رکھنے کی کوشش کی۔

Here are the sayings of the Salaf (pious predecessors) about sincerity (Ikhlas) with their English translations:


1. **Umar ibn al-Khattab (رضي الله عنه):**

   - **Arabic:** "مَنْ خَلَصَتْ نِيَّتُهُ كَفَاهُ اللَّهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّاسِ."

   - **English:** "Whoever purifies his intention, Allah will suffice for him in matters between him and the people."

   - **Reference:** Ibn al-Jawzi, **"Sayd al-Khatir"**


2. **Sufyan al-Thawri (رحمه الله):**

   - **Arabic:** "ما عالجت شيئاً أشد علي من نيتي؛ لأنها تتقلب علي."

   - **English:** "I have not struggled with anything more difficult than my intention, as it constantly changes on me."

   - **Reference:** Ibn al-Qayyim, **"Madarij al-Salikin"**


3. **Fudayl ibn Iyad (رحمه الله):**

   - **Arabic:** "ترك العمل من أجل الناس رياء، والعمل من أجل الناس شرك، والإخلاص أن يعافيك الله منهما."

   - **English:** "Abandoning an action for the sake of people is hypocrisy, and doing an action for the sake of people is shirk. Sincerity is when Allah protects you from both."

   - **Reference:** Ibn al-Qayyim, **"Al-Fawaid"**


4. **Ibrahim ibn Adham (رحمه الله):**

   - **Arabic:** "الإخلاص هو أن تكون حركاتُ العبد وسكناته لله تعالى وحده."

   - **English:** "Sincerity is when all of the servant's actions and stillness are solely for the sake of Allah."

   - **Reference:** Ibn al-Qayyim, **"Madarij al-Salikin"**


5. **Hasan al-Basri (رحمه الله):**

   - **Arabic:** "إِذَا أَرَدتَ بِعَمَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ تَعَالَى، فَكُنْ مُخْفِيًا لِهُ أَشَدَّ مَا تَكُونُ ظَاهِرًا."

   - **English:** "If you seek Allah's pleasure through your actions, then conceal them more than you reveal them."

   - **Reference:** Ibn al-Jawzi, **"Sayd al-Khatir"**


6. **Abdullah ibn Mubarak (رحمه الله):**

   - **Arabic:** "رُبَّ عملٍ صغير تعظمه النية، ورُبَّ عملٍ كبير تصغره النية."

   - **English:** "A small deed may become great due to the intention, and a great deed may become small due to the intention."

   - **Reference:** Ibn Mubarak, **"Az-Zuhd"**


These sayings emphasize the importance of sincerity and purity of intention. The acceptance of good deeds depends on having a sincere intention, and the Salaf constantly strived to keep their intentions pure.

علم کے بارے میں اقوال سلف صالحین

 یہاں چند مزید اقوال عربی متن اور اردو ترجمے کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں، جو علم کی اہمیت اور اس پر عمل کے بارے میں ہیں:


1. **امام مالک:**

   - **عربی:** "ليس العلم بكثرة الرواية، ولكن العلم نور يجعله الله في القلب."

   - **اردو:** "علم زیادہ روایتیں جاننے کا نام نہیں، بلکہ علم وہ نور ہے جو اللہ دل میں ڈالتا ہے۔"  

   - **حوالہ:** امام ابن عبدالبر، **"جامع بيان العلم وفضله"**


2. **امام احمد بن حنبل:**

   - **عربی:** "الناس إلى العلم أحوج منهم إلى الطعام والشراب، لأن الطعام والشراب يحتاج إليه في اليوم مرتين أو ثلاثًا، والعلم يحتاج إليه في كل وقت."

   - **اردو:** "لوگ علم کے زیادہ محتاج ہیں بنسبت کھانے اور پینے کے، کیونکہ کھانے اور پینے کی ضرورت دن میں دو یا تین بار ہوتی ہے، لیکن علم کی ضرورت ہر وقت ہوتی ہے۔"

   - **حوالہ:** ابن مفلح، **"الآداب الشرعية"**


3. **امام بخاری:**

   - **عربی:** "العلم قبل القول والعمل."

   - **اردو:** "علم قول اور عمل سے پہلے آتا ہے۔"

   - **حوالہ:** امام بخاری، **"صحیح البخاری"** (کتاب العلم)


4. **عبداللہ بن مبارک:**

   - **عربی:** "رُبَّ عملٍ صغير تعظمه النية، ورُبَّ عملٍ كبير تصغره النية."

   - **اردو:** "بسا اوقات ایک چھوٹا عمل نیت کی وجہ سے بڑا ہو جاتا ہے، اور بسا اوقات ایک بڑا عمل نیت کی کمی کی وجہ سے چھوٹا ہو جاتا ہے۔"

   - **حوالہ:** ابن مبارک، **"الزهد"**


5. **امام حسن بصری:**

   - **عربی:** "العلم علمان: علم باللسان، فذاك حجة الله على ابن آدم، وعلم في القلب فذاك العلم النافع."

   - **اردو:** "علم دو قسم کا ہوتا ہے: زبان کا علم، جو کہ ابن آدم پر اللہ کی حجت ہے، اور دل کا علم، جو کہ نفع دینے والا علم ہے۔"

   - **حوالہ:** امام ابن عبدالبر، **"جامع بيان العلم وفضله"**


یہ اقوال علم کی فضیلت اور اس کے عملی پہلو پر زور دیتے ہیں، اور یہ بتاتے ہیں کہ علم کو صحیح نیت اور دل کی روشنی کے ساتھ عمل میں ڈھالنا ضروری ہے۔

جمعرات، 5 ستمبر، 2024

How to celebrate teacher's day

 اسلام میں کسی خاص دن کو منانا، جیسے کہ "استاد کا دن" (Teachers' Day)، ایک موضوع ہے جس پر علما کے درمیان مختلف رائے پائی جاتی ہے۔ بنیادی طور پر اسلام میں جشن منانے کی اجازت یا ممانعت قرآن و سنت کی تعلیمات اور شرعی اصولوں پر منحصر ہے۔


1. **بدعت کا پہلو**: بعض علما کے نزدیک ایسے دن منانا جن کی بنیاد شریعت میں نہ ہو، ایک بدعت (ایسی نئی رسم جو دین میں نہیں تھی) شمار ہوتی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ اسلام میں عیدین (عید الفطر اور عید الاضحیٰ) کے علاوہ کسی اور دن کو خاص طور پر منانا جائز نہیں۔


2. **نیت اور مقصد**: دیگر علما کا کہنا ہے کہ اگر کوئی دن استادوں کی عزت و احترام کے لیے منایا جائے اور اس کا مقصد صرف تعلیم و تدریس کے پیشے کی عظمت کو اجاگر کرنا ہو، تو یہ ایک اچھا اور جائز عمل ہو سکتا ہے، بشرطیکہ اس کے ساتھ کوئی غیر اسلامی رسوم یا حرکات شامل نہ ہوں۔


3. **شخصی اور سماجی ذمہ داری**: اسلام میں استاد کی عزت و احترام کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ "مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے" (صحیح مسلم)۔ یعنی تعلیم دینا اور علم پھیلانا پیغمبرانہ فریضہ ہے۔ اس لحاظ سے، استاد کو عزت دینا اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔


### نتیجہ:

استاد کا دن منانے کا کوئی مخصوص اسلامی حکم موجود نہیں ہے۔ البتہ، اگر اس دن کو منانے میں کوئی غیر اسلامی عناصر شامل نہ ہوں اور یہ خالصتاً استادوں کی قدر کرنے کے لیے ہو، تو بعض علما اس کو جائز سمجھ سکتے ہیں۔ تاہم، اگر اس دن کو منانا بدعت یا غیر اسلامی طریقے سے کیا جائے تو یہ ناپسندیدہ ہو سکتا ہے۔