اپنی زبان منتخب کریں

منگل، 24 ستمبر، 2024

سوشل میڈیا اور ہمارا وقت

 یہاں میں آپ کو سلف صالحین کے چند اقوال پیش کرتا ہوں، جو سوشل میڈیا

سوشل میڈیا اور ہمارا وقت

یا دیگر فضولیات سے وقت بچانے اور علم و عمل کی طرف رجوع کرنے کی اہمیت کو بیان کرتے ہیں:


### 1. **امام شافعی (رحمہ اللہ) کا قول:**

**العِلمُ لا يُؤتى بالكَسل، ولا يُنالُ بالرّاحة، وإنما يُؤتى بالبذل والجِدّ والتعب.**


**ترجمہ (اردو):**

"علم کسل سے نہیں ملتا، نہ ہی آرام سے حاصل ہوتا ہے۔ بلکہ یہ جستجو، محنت اور مشقت سے حاصل کیا جاتا ہے۔"


### 2. **عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) کا قول:**

**ما ندمت على شيء كندمي على يومٍ غربت شمسه نقص فيه أجلي ولم يزد فيه عملي.**


**ترجمہ (اردو):**

"مجھے کسی چیز پر اتنی ندامت نہیں ہوئی جتنی ایک دن پر جس کی شام ہو گئی، اس میں میری عمر کم ہوئی لیکن میرا عمل نہ بڑھا۔"


### 3. **حسن بصری (رحمہ اللہ) کا قول:**

**يا ابن آدم، إنما أنت أيام، كلما ذهب يوم ذهب بعضك.**


**ترجمہ (اردو):**

"اے ابن آدم! تو تو دنوں کا مجموعہ ہے، جب بھی ایک دن جاتا ہے تو تیرے وجود کا ایک حصہ چلا جاتا ہے۔"


### 4. **امام احمد بن حنبل (رحمہ اللہ) کا قول:**

**الوقت كالسيف، إن لم تقطعه قطعك.**


**ترجمہ (اردو):**

"وقت تلوار کی مانند ہے، اگر تم نے اسے نہ کاٹا تو یہ تمہیں کاٹ ڈالے گا۔"


### 5. **ابن قیم الجوزیہ (رحمہ اللہ) کا قول:**

**إضاعة الوقت أشد من الموت، لأنّ إضاعة الوقت تقطعك عن الله والدار الآخرة، والموت يقطعك عن الدنيا وأهلها.**


**ترجمہ (اردو):**

"وقت ضائع کرنا موت سے بھی بدتر ہے، کیونکہ وقت کا ضیاع تمہیں اللہ اور آخرت سے کاٹ دیتا ہے، جبکہ موت تمہیں دنیا اور اس کے لوگوں سے کاٹ دیتی ہے۔"


### خلاصہ:

یہ اقوال ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ زندگی کا ہر لمحہ قیمتی ہے اور ہمیں علم، نیک عمل اور اللہ کی عبادت میں لگانا چاہیے۔ وقت کی بربادی کا نقصان نہ صرف دنیاوی بلکہ آخرت میں بھی پچھتاوے کا باعث بن سکتا ہے۔

اتوار، 22 ستمبر، 2024

امام بخاری کی کتاب **"خلق افعال کا خلاصہ

 امام بخاری کی کتاب **"خلق افعال العباد"** عقائد کے موضوع پر ایک اہم اور علمی تصنیف ہے جس کا محور اللہ تعالیٰ کے افعال اور ان کی تخلیق کے بارے میں فہم ہے۔ یہ کتاب امام بخاری کی اصولی اور نظریاتی بصیرت کی عکاسی کرتی ہے، جو ان کے دیگر محدثانہ اور فقہی کاموں سے تھوڑی مختلف ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے معتزلہ اور جہمیہ جیسے فرقوں کے نظریات کا رد کیا اور اہل سنت والجماعت کے عقائد کی تائید کی۔


### کتاب کا پس منظر:


**"خلق افعال العباد"** اس وقت کی علمی اور فکری فضا کا نتیجہ تھی جب مسلمانوں کے اندر مختلف عقائدی فتنوں نے جنم لیا تھا۔ ان میں سے ایک بڑا فتنا معتزلہ کا تھا جو "خلقِ قرآن" یعنی قرآن کو مخلوق ماننے کا عقیدہ رکھتے تھے۔ ان کے نظریات کے مطابق اللہ تعالیٰ کے افعال بھی مخلوق ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ نے افعال کو پیدا کیا اور پھر ان افعال کو دنیا میں وجود بخشا۔


امام بخاری رحمہ اللہ نے اس فتنے کے جواب میں یہ کتاب لکھی تاکہ وہ اہل سنت والجماعت کے عقائد کی وضاحت کر سکیں اور یہ ثابت کر سکیں کہ اللہ تعالیٰ کے افعال مخلوق نہیں ہیں۔ اس کتاب میں امام بخاری نے وضاحت کی کہ اللہ تعالیٰ کے افعال اس کی ذات کے ساتھ قائم ہیں اور ان کو مخلوق قرار دینا گمراہ کن نظریہ ہے۔


### کتاب کا بنیادی موضوع:


"خلق افعال العباد" بنیادی طور پر اس سوال کا جواب دیتی ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کے افعال مخلوق ہیں یا نہیں۔ امام بخاری نے اس موضوع پر تفصیلی بحث کی ہے اور اہل سنت والجماعت کے عقیدے کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے افعال مخلوق نہیں ہو سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور افعال اس کی ذات کے ساتھ ابدی اور ازلی ہیں۔


امام بخاری نے واضح کیا کہ مخلوقات کے افعال تو مخلوق ہو سکتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے افعال کو مخلوق کہنا غلط ہے۔ وہ قرآن کی آیات اور نبی کریم ﷺ کی احادیث سے دلائل پیش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خالق ہے اور اس کے افعال بھی خالق ہونے کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں، اور وہ مخلوقات کی طرح نہیں ہو سکتے۔


### فرقوں کا رد:


اس کتاب کا ایک بڑا حصہ ان فرقوں کے نظریات کا رد ہے جو اللہ تعالیٰ کے افعال کو مخلوق مانتے تھے۔ ان میں معتزلہ اور جہمیہ جیسے فرقے شامل تھے جو فلسفہ اور منطق کے ذریعے اپنے عقائد کی وضاحت کرتے تھے۔ معتزلہ کا عقیدہ تھا کہ انسان اپنے افعال کا خالق ہے اور اللہ تعالیٰ صرف خالق کائنات ہے، مگر انسان کے افعال میں کوئی دخل نہیں رکھتا۔


امام بخاری نے ان کے اس نظریے کو رد کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر شے کا خالق ہے، اور انسان کے تمام افعال بھی اسی کے حکم سے انجام پاتے ہیں۔ امام بخاری نے اس عقیدے کی تردید کرتے ہوئے یہ وضاحت کی کہ انسان کے افعال کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہے، لیکن انسان کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اچھے یا برے افعال میں سے کس کا انتخاب کرے۔


### دلائل کی بنیاد:


امام بخاری نے اپنے موقف کی وضاحت کے لیے قرآن، سنت، اور صحابہ کرام کے اقوال کو بنیاد بنایا ہے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کے افعال کو ازلی اور ابدی قرار دیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بھی فعل اس کی ذات سے جدا نہیں ہو سکتا۔ اس کے افعال اس کی ذات کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں، اور انہیں مخلوق کہنا اللہ تعالیٰ کی ذات کی تنقیص ہے۔


انہوں نے سورہ بقرہ کی آیت "اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے" اور دیگر قرآنی دلائل پیش کیے جن سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل خالق ہونے کے شایان شان ہے، اور مخلوقات کے افعال یا صفات کی طرح نہیں۔


### کتاب کی علمی حیثیت:


"خلق افعال العباد" کو علماء اور محدثین نے انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ اس کتاب نے اس دور کے فتنوں کا جواب دینے میں اہم کردار ادا کیا اور امام بخاری کی اصولی بصیرت اور علمی حیثیت کو مزید مستحکم کیا۔ اس کتاب کی وجہ سے امام بخاری کا مقام صرف محدث کے طور پر ہی نہیں بلکہ ایک عظیم مفکر اور متکلم کے طور پر بھی مضبوط ہوا۔


### امام بخاری کا تحقیقی انداز:


امام بخاری نے اس کتاب میں اپنے تحقیقی اور علمی انداز کو برقرار رکھا۔ وہ ہر مسئلے کی وضاحت کے لیے قرآن و حدیث سے دلائل لاتے ہیں اور ہر بحث کو مدلل اور مضبوط طریقے سے پیش کرتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ عقائدی مسائل میں کوئی تشکیک باقی نہ رہے اور قارئین کو واضح انداز میں اہل سنت والجماعت کا موقف سمجھ آ سکے۔


### اہل سنت والجماعت کی تائید:


کتاب کے آخری حصے میں امام بخاری نے اہل سنت والجماعت کے موقف کو تفصیل سے بیان کیا اور یہ ثابت کیا کہ اللہ تعالیٰ کے افعال مخلوق نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی حکمت ہر چیز پر حاوی ہے اور اس کا کوئی بھی فعل مخلوقات کے افعال کی طرح نہیں ہو سکتا۔


### نتیجہ:


**"خلق افعال العباد"** امام بخاری کی ایک عظیم الشان علمی تصنیف ہے جو عقائد کے ایک نازک مسئلے پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس کتاب میں امام بخاری نے اللہ تعالیٰ کے افعال کو مخلوق قرار دینے والے فرقوں کا رد کیا اور اہل سنت والجماعت کے عقیدے کی وضاحت کی۔ امام بخاری کی یہ تصنیف آج بھی علماء اور محققین کے لیے ایک اہم ماخذ ہے اور اس سے عقائدی 

مسائل کی تحقیق اور فہم میں مدد ملتی ہے۔


التاریخ الکبیر** امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب کا خلاصہ

 **التاریخ الکبیر** امام بخاری رحمہ اللہ کی ایک عظیم الشان اور اہم کتاب ہے جو اسلامی تاریخ، احادیث، اور رجال (راویوں) کے حالات زندگی پر مبنی ہے۔ یہ کتاب محدثین کے لیے ایک بے پناہ علمی خزانہ ہے، جس میں احادیث کے راویوں کے حالات، ان کی ثقاہت، ان کے علم اور ان کی دینی خدمات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں امام بخاری نے روایات کی تحقیق اور راویوں کے حالات کو جمع کیا، تاکہ بعد میں آنے والے علماء ان سے استفادہ کر سکیں۔


### کتاب کا تعارف:

"التاریخ الکبیر" کا بنیادی مقصد احادیث کے راویوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنا ہے تاکہ ان کی ثقاہت اور کمزوری کو پرکھا جا سکے۔ امام بخاری نے اس کتاب میں ہزاروں راویوں کے حالات زندگی، ان کی ولادت، وفات، علمی سفر، ان کے استاد اور شاگرد، اور ان کے بارے میں محدثین کے اقوال کو جمع کیا ہے۔ یہ کتاب "اسماء الرجال" یعنی راویوں کی تحقیق اور جانچ کے علم میں ایک بنیادی ماخذ ہے۔


### کتاب کی ترتیب:

التاریخ الکبیر کو امام بخاری نے حروف تہجی کی ترتیب کے مطابق مرتب کیا ہے، جس میں ہر راوی کا نام اس کے حروف کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے۔ اس ترتیب کے ذریعے قارئین کو راویوں کی معلومات تک باآسانی رسائی ممکن ہوتی ہے۔ امام بخاری نے راویوں کے بارے میں مختصر اور جامع معلومات فراہم کی ہیں، جن میں ان کی ثقاہت یا ضعف کے بارے میں محدثین کے اقوال بھی شامل ہیں۔


### رجال کی تحقیق:

امام بخاری نے اس کتاب میں راویوں کی ثقاہت اور کمزوری کو پرکھنے کے لیے مختلف اصولوں کو مدنظر رکھا ہے۔ وہ راوی جو معتبر اور ثقہ تھے، ان کا ذکر مثبت انداز میں کیا، جبکہ جو راوی ضعیف یا ناقابل اعتماد تھے، ان کے بارے میں وضاحت کی کہ کیوں ان کی روایت کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ امام بخاری نے راویوں کے بارے میں دیگر محدثین کے اقوال کا بھی حوالہ دیا تاکہ ان کی ثقاہت یا ضعف کو مزید واضح کیا جا سکے۔


### ثقاہت کے اصول:

امام بخاری نے راویوں کی ثقاہت کو جانچنے کے لیے چند اہم اصول وضع کیے۔ ان میں راوی کی دیانت داری، اس کا حفظ، اس کا علم اور اس کا تقویٰ شامل ہیں۔ اگر کوئی راوی دیانت دار نہ ہو یا اس کا حفظ کمزور ہو تو اس کی روایت کو ضعیف قرار دیا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر راوی کا علم کمزور ہو یا وہ بدعت میں ملوث ہو تو اس کی روایت کو بھی رد کیا جاتا ہے۔


### راویوں کی اقسام:

امام بخاری نے التاریخ الکبیر میں راویوں کو مختلف اقسام میں تقسیم کیا ہے۔ ان میں ثقہ، ضعیف، متروک، اور مجہول راوی شامل ہیں۔ ثقہ راوی وہ ہوتا ہے جس کے بارے میں علماء نے تصدیق کی ہو کہ وہ قابل اعتماد ہے اور اس کی روایات کو قبول کیا جا سکتا ہے۔ ضعیف راوی وہ ہوتا ہے جس کی روایت میں کسی نہ کسی وجہ سے کمزوری ہو۔ متروک راوی وہ ہوتا ہے جس کی روایت کو مکمل طور پر رد کر دیا جاتا ہے، اور مجہول راوی وہ ہوتا ہے جس کے بارے میں علماء کو زیادہ معلومات نہیں ہوتیں۔


### التاریخ الکبیر کی علمی اہمیت:

التاریخ الکبیر کی علمی اہمیت کو علماء نے ہمیشہ تسلیم کیا ہے۔ یہ کتاب اسلامی تاریخ اور رجال کے علم میں ایک اہم ماخذ ہے، جس سے محدثین، فقہاء، اور مؤرخین نے استفادہ کیا ہے۔ اس کتاب نے احادیث کے راویوں کے بارے میں جامع اور مستند معلومات فراہم کی ہیں، جو بعد کے محدثین اور علماء کے لیے تحقیق میں مددگار ثابت ہوئی ہیں۔


امام بخاری نے اس کتاب میں نہ صرف محدثین کے بارے میں معلومات دی ہیں بلکہ فقہاء، تابعین، اور تبع تابعین کے حالات زندگی بھی شامل کیے ہیں۔ اس کتاب کا مواد محدثین کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے تاکہ وہ احادیث کی تحقیق اور تصدیق کر سکیں۔


### اس کتاب کی منفرد خصوصیات:

التاریخ الکبیر کی ایک منفرد خصوصیت یہ ہے کہ امام بخاری نے ہر راوی کے حالات کو مختصر لیکن جامع انداز میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے صرف ضروری معلومات فراہم کی ہیں اور غیر ضروری تفصیلات کو چھوڑ دیا ہے، تاکہ کتاب کا مواد مختصر اور مفید رہے۔ مزید برآں، امام بخاری نے راویوں کے بارے میں کسی بھی قسم کی معلومات کو پیش کرنے سے پہلے ان کی تصدیق کی اور معتبر ذرائع سے معلومات حاصل کیں۔


### امام بخاری کا تحقیقی طریقہ:

امام بخاری کا تحقیقی طریقہ انتہائی محتاط اور دقیق تھا۔ وہ ہر راوی کے بارے میں معلومات کو جمع کرتے وقت نہایت احتیاط سے کام لیتے تھے اور صرف ان معلومات کو شامل کرتے تھے جن کی تصدیق ہو چکی ہوتی۔ امام بخاری نے اپنی تحقیق میں ہمیشہ دیانت داری اور علم کی بنیاد پر کام کیا اور اپنی تحقیق میں کسی بھی قسم کی ذاتی رائے یا تعصب کو شامل نہیں کیا۔


### التاریخ الکبیر کا اثر:

التاریخ الکبیر کا اثر بعد کی صدیوں میں بھی برقرار رہا اور اس سے محدثین نے احادیث کی جانچ اور تصدیق میں بھرپور استفادہ کیا۔ امام بخاری کی یہ کتاب آج بھی علماء اور محققین کے لیے ایک اہم ماخذ سمجھی جاتی ہے اور اس سے اسلامی تاریخ اور احادیث کے علم میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا۔


### اختتامیہ:

امام بخاری کی کتاب **التاریخ الکبیر** اسلامی تاریخ اور رجال کے علم میں ایک لازوال تصنیف ہے۔ اس کتاب نے احادیث کے راویوں کے بارے میں مستند اور جامع معلومات فراہم کی ہیں اور محدثین کو احادیث کی تصدیق اور تحقیق میں مدد دی ہے۔ امام بخاری کا علمی اور تحقیقی طریقہ اس کتاب کی اہمیت کو اور بھی زیادہ بنا دیتا ہے اور یہ کتاب آج بھی علمی حلقوں میں بے پناہ قدر و منزلت رکھتی ہے۔

جلال الدین قاسمی کی کتاب **"دل"* کا خلاصہ


 جلال الدین قاسمی کی کتاب **"دل"** روحانی اور دینی نقطۂ نظر سے دل کی اہمیت اور اس کی پاکیزگی پر مبنی ایک اہم علمی تصنیف ہے۔ اس کتاب میں دل کو انسانی شخصیت اور کردار کا مرکز قرار دیا گیا ہے اور یہ وضاحت کی گئی ہے کہ دل کا کردار انسانی زندگی اور آخرت کی کامیابی میں کس طرح اہم ہے۔ قاسمی دل کی دنیاوی اور روحانی حیثیت پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہیں اور اس کو انسانی وجود کے مرکزی پہلو کے طور پر بیان کرتے ہیں۔


### دل کی اہمیت:

قاسمی کے مطابق، انسان کا دل اس کے جسم اور روح دونوں کا مرکز ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں انسان کی نیت، ارادے، خیالات، اور جذبات کا ظہور ہوتا ہے۔ دل کے ذریعے انسان خدا کی محبت، خوف، امید، اور ایمان کو محسوس کرتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے دل کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا:  

"خبردار! جسم میں ایک ٹکڑا ہے، جب وہ درست ہوتا ہے تو سارا جسم درست ہوتا ہے اور جب وہ بگڑتا ہے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ خبردار! وہ دل ہے" (صحیح بخاری)۔


یہ حدیث دل کی مرکزیت کو واضح کرتی ہے کہ اگر دل صاف اور درست ہو تو انسان کا پورا وجود خدا کی اطاعت میں ہوتا ہے، اور اگر دل بگڑ جائے تو انسان کا کردار اور اعمال بھی فساد کا شکار ہو جاتے ہیں۔


### دل اور ایمان:

کتاب میں جلال الدین قاسمی وضاحت کرتے ہیں کہ ایمان دل میں جگہ پاتا ہے۔ ایمان کا اصل مقام دل ہے، اور دل ہی وہ جگہ ہے جہاں سے انسان کے اعمال اور نیتوں کا اظہار ہوتا ہے۔ اگر دل میں ایمان پختہ ہو تو انسان کے تمام اعمال نیک اور خالص ہوتے ہیں، لیکن اگر دل میں نفاق یا کفر ہو تو یہ انسان کی زندگی کو بگاڑ دیتا ہے۔ قاسمی کے مطابق، دل کا پاک ہونا ایمان کی پختگی کی علامت ہے۔


### دل کی بیماریوں کا ذکر:

قاسمی نے اس کتاب میں دل کی روحانی بیماریوں کا بھی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ ان بیماریوں میں حسد، بغض، غرور، نفاق، اور کینہ شامل ہیں۔ ان بیماریوں کو دل کے لیے تباہ کن قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ انسان کے اندرونی سکون کو ختم کر دیتی ہیں اور اسے خدا سے دور کر دیتی ہیں۔ قاسمی نے دل کی ان بیماریوں کے اسباب اور ان سے بچنے کے طریقے بھی بیان کیے ہیں۔


#### 1. **حسد اور بغض**:

قاسمی کے مطابق حسد اور بغض دل کی سب سے بڑی بیماریوں میں سے ہیں۔ حسد ایک ایسی کیفیت ہے جس میں انسان دوسرے کی نعمتوں کو دیکھ کر جلتا ہے اور اس کی تمنا کرتا ہے کہ وہ نعمتیں اس سے چھن جائیں۔ یہ کیفیت دل کو زنگ آلود کر دیتی ہے اور انسان کو خدا کی رحمتوں سے محروم کر دیتی ہے۔


#### 2. **نفاق**:

نفاق یعنی دوغلی پالیسی اپنانا دل کی ایک بڑی بیماری ہے۔ قاسمی بیان کرتے ہیں کہ نفاق دل میں داخل ہونے والی ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کے ایمان کو تباہ کر دیتی ہے۔ منافق شخص ظاہر میں ایمان کا دعویٰ کرتا ہے لیکن اس کا دل خدا اور رسول کی محبت سے خالی ہوتا ہے۔


### دل کی صفائی اور تطہیر:

دل کی بیماریوں سے نجات پانے اور دل کی صفائی کے لیے قاسمی نے کچھ اصول اور طریقے بیان کیے ہیں۔ ان کے مطابق دل کی صفائی کے لیے ضروری ہے کہ انسان خود کا محاسبہ کرے، اپنے گناہوں سے توبہ کرے اور خدا کی طرف رجوع کرے۔ دل کو خدا کی محبت اور خوف سے بھرنا ضروری ہے تاکہ یہ تمام فتنوں اور بیماریوں سے پاک ہو جائے۔


#### 1. **ذکرِ الٰہی**:

قاسمی کے مطابق دل کی صفائی اور اس کو زندہ رکھنے کا بہترین طریقہ ذکرِ الٰہی ہے۔ اللہ کا ذکر دل کو سکون عطا کرتا ہے اور اس کے اندر روحانی زندگی کو بیدار کرتا ہے۔ قاسمی قرآن کی اس آیت کا حوالہ دیتے ہیں:  

"خبردار! اللہ کے ذکر سے دل مطمئن ہوتے ہیں" (سورہ الرعد: 28)۔


#### 2. **توبہ**:

دل کو صاف رکھنے کے لیے قاسمی توبہ کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ توبہ دل کو گناہوں سے پاک کرتی ہے اور انسان کو روحانی ترقی کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔ قاسمی کے مطابق، دل کی تطہیر کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے گناہوں پر ندامت کا اظہار کرے اور خدا سے سچے دل سے معافی طلب کرے۔


### دل اور دنیاوی معاملات:

کتاب میں قاسمی نے دنیاوی معاملات میں دل کے کردار پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ان کے مطابق، دل وہ مقام ہے جہاں سے انسان کے دنیاوی ارادے اور خواہشات پیدا ہوتی ہیں۔ اگر دل دنیاوی لذتوں اور خواہشات میں گم ہو جائے تو یہ انسان کو خدا سے دور کر دیتا ہے۔ قاسمی دنیا کی محبت کو دل کی بربادی کا سبب قرار دیتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انسان کو دنیاوی خواہشات کو دل سے نکال کر خدا کی محبت کو دل میں بسانا چاہیے۔


### دل کی حفاظت کے طریقے:

قاسمی کے مطابق دل کی حفاظت کے لیے انسان کو کچھ اصولوں پر عمل کرنا ضروری ہے۔ ان اصولوں میں ایمان کی پختگی، گناہوں سے بچنا، نیک اعمال کرنا، اور خدا کی رضا کو مقصد حیات بنانا شامل ہیں۔ دل کی حفاظت کے لیے قاسمی نے کچھ عملی اقدامات بھی بیان کیے ہیں جن میں ذکر، دعا، اور نیک صحبت اختیار کرنا شامل ہیں۔


### دل کی حالت اور آخرت:

کتاب کے آخری حصے میں قاسمی دل کی حالت اور آخرت کے تعلق پر بات کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، قیامت کے دن انسان کی نجات کا دارومدار اس کے دل کی حالت پر ہو گا۔ اگر دل ایمان، تقویٰ اور نیکی سے بھرا ہو گا تو انسان کامیاب ہو گا، لیکن اگر دل گناہوں اور برائیوں سے آلودہ ہو گا تو انسان ناکام ہو گا۔ قاسمی نے قرآن کی اس آیت کا حوالہ دیا ہے:  

"جس دن نہ مال فائدہ دے گا نہ بیٹے، مگر جو اللہ کے پاس قلب سلیم کے ساتھ آئے" (سورہ الشعراء: 88-89)۔


### نتیجہ:

حافظ جلال الدین قاسمی کی کتاب **"دل"** ایک روحانی اور دینی کتاب ہے جو دل کی اہمیت، اس کی صفائی، اور اس کے بیماریوں سے نجات کے طریقوں پر روشنی ڈالتی ہے۔ قاسمی نے دل کو انسانی زندگی اور آخرت کی کامیابی کے لیے اہم قرار دیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ انسان کو اپنے دل کو ہر قسم کی برائیوں اور گناہوں سے پاک رکھنا چاہیے تاکہ وہ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو سکے۔

ذکر العالمین تفسیر کا خلاصہ

 "ذکر العالمین" جلال الدین قاسمی کی ایک اہم اور مشہور کتاب ہے، جس میں اسلامی عقائد، ذکر و اذکار کی اہمیت اور ان کے مختلف پہلوؤں پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ یہ کتاب اسلامی تصوف اور ذکر کے روحانی مقامات پر ایک گہرا مطالعہ پیش کرتی ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے قرآن و سنت کے حوالوں سے یہ واضح کیا ہے کہ ذکر الٰہی ایک مومن کی زندگی کا بنیادی حصہ ہے اور یہ عمل انسان کو اللہ کے قریب لے جاتا ہے۔


### کتاب کا پس منظر اور موضوع:

"ذکر العالمین" کا بنیادی موضوع اللہ کی یاد (ذکر) ہے، جو انسان کو دنیاوی زندگی کی مشکلات اور فتنوں سے محفوظ رکھتی ہے اور اس کی روح کو پاکیزہ بناتی ہے۔ قاسمی کے نزدیک ذکر الٰہی صرف زبانی عمل نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا روحانی سفر ہے جو انسان کو اپنے رب کی معرفت عطا کرتا ہے۔


### ذکر کی اہمیت:

جلال الدین قاسمی کے مطابق ذکر الٰہی کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ قرآن پاک میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے ذکر کرنے والوں کی فضیلت بیان کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے: 

"فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ" (سورۃ البقرة: 152)۔

یعنی "تم مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد کروں گا"۔ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مصنف بتاتے ہیں کہ اللہ کی یاد کا عمل انسان کو اللہ کے خاص قرب میں لے آتا ہے۔


### ذکر کی اقسام:

کتاب میں ذکر کی مختلف اقسام کو بیان کیا گیا ہے، جن میں سے چند اہم اقسام یہ ہیں:


1. **ذکر زبانی (لسانی)**:

یہ وہ ذکر ہے جو زبان سے کیا جاتا ہے، مثلاً تسبیح و تحمید، استغفار اور درود و سلام۔ جلال الدین قاسمی کے مطابق زبانی ذکر بہت اہم ہے، مگر اس کا اثر اس وقت زیادہ ہوتا ہے جب دل بھی اللہ کی یاد میں مشغول ہو۔


2. **ذکر قلبی (دل کا ذکر)**:

دل کا ذکر اس وقت ہوتا ہے جب انسان کی پوری توجہ اور محبت اللہ کی طرف ہو۔ یہ ذکر انسان کو دنیاوی فتنوں سے بچاتا ہے اور اسے روحانی بلندی عطا کرتا ہے۔


3. **ذکر عملی (عمل کے ذریعے ذکر)**:

یہ ذکر وہ ہوتا ہے جو انسان اپنے اعمال کے ذریعے کرتا ہے، یعنی ہر نیک عمل بھی اللہ کی یاد کا ایک ذریعہ ہے۔ نماز، روزہ، صدقہ و خیرات، اور دیگر نیک اعمال بھی ذکر کی ہی اقسام میں آتے ہیں۔


### ذکر کے فوائد:

قاسمی کے مطابق ذکر کے بے شمار روحانی اور دنیاوی فوائد ہیں۔ ان میں سے چند اہم یہ ہیں:


1. **روحانی سکون**:

ذکر کرنے سے انسان کو ایک خاص روحانی سکون حاصل ہوتا ہے۔ یہ سکون اس وقت زیادہ محسوس ہوتا ہے جب انسان مصیبتوں اور مشکلات کا سامنا کر رہا ہو۔ قرآن میں ہے: "أَلاَ بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ" (سورۃ الرعد: 28)، یعنی "یقیناً اللہ کی یاد ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے"۔


2. **گناہوں کی معافی**:

ذکر کرنے والا شخص اللہ کے قریب ہوتا ہے اور اس کی طرف سے گناہوں کی معافی کا مستحق قرار پاتا ہے۔ ذکر استغفار کے ذریعے اللہ سے معافی مانگنے کی ایک بہترین صورت ہے۔


3. **ایمان میں اضافہ**:

ذکر ایمان کی مضبوطی کا باعث بنتا ہے۔ جب انسان اللہ کا ذکر کرتا ہے تو اس کا ایمان مزید پختہ ہوتا ہے اور وہ اللہ کی راہ میں مزید آگے بڑھتا ہے۔


4. **دنیاوی مشکلات سے نجات**:

ذکر الٰہی دنیاوی مشکلات اور پریشانیوں سے نجات کا بھی ایک ذریعہ ہے۔ اللہ کے ذکر میں مشغول رہنے والا شخص دنیاوی آزمائشوں سے محفوظ رہتا ہے۔


### ذکر کی شرائط:

جلال الدین قاسمی کے نزدیک ذکر کو مؤثر اور مفید بنانے کے لیے کچھ شرائط ہیں، جن پر عمل کرنا ضروری ہے:


1. **اخلاص**:

ذکر کرتے وقت دل میں اللہ کی محبت اور اخلاص کا ہونا بہت ضروری ہے۔ دکھاوے کے لیے یا صرف رسمی طور پر کیا جانے والا ذکر فائدہ مند نہیں ہوتا۔


2. **توجہ**:

ذکر کرتے وقت پوری توجہ اللہ کی طرف ہونی چاہیے۔ دل اور دماغ میں اللہ کی عظمت کا خیال ہو، تاکہ ذکر کا اثر دل پر مرتب ہو سکے۔


3. **استقامت**:

ذکر کا عمل ایک مستقل عمل ہونا چاہیے۔ صرف کبھی کبھار ذکر کرنا کافی نہیں، بلکہ مسلسل اور مستقل مزاجی کے ساتھ ذکر کرنا ضروری ہے۔


### ذکر کے موانع:

کتاب میں ذکر کے موانع یعنی وہ چیزیں جو ذکر کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں، بھی تفصیل سے بیان کی گئی ہیں۔ قاسمی کے مطابق کچھ عام موانع درج ذیل ہیں:


1. **گناہ اور معاصی**:

گناہ ذکر کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ جو شخص گناہوں میں مبتلا ہو، اس کا دل ذکر الٰہی سے دور ہو جاتا ہے۔


2. **دنیا کی محبت**:

دنیا کی محبت اور مادی چیزوں کی حد سے زیادہ خواہش بھی ذکر میں مانع ہوتی ہے۔ دنیاوی چیزوں کی محبت دل کو اللہ کی یاد سے غافل کر دیتی ہے۔


3. **شیطان کا وسوسہ**:

شیطان انسان کو ذکر سے دور رکھنے کے لیے مختلف وسوسے ڈالتا ہے، تاکہ وہ اللہ کی یاد میں مشغول نہ ہو سکے۔


### ذکر کی فضیلت اور نتائج:

جلال الدین قاسمی نے ذکر کی فضیلت پر زور دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ذکر کرنے والا شخص نہ صرف آخرت میں کامیاب ہوگا بلکہ دنیا میں بھی اللہ کی خاص مدد اور نصرت کا مستحق ہوگا۔ ذکر کرنے والے کو دنیا میں دل کا اطمینان، روح کی پاکیزگی، اور آخرت میں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔


### نتیجہ:

"ذکر العالمین" ایک ایسی کتاب ہے جو ہر مسلمان کے لیے ایک راہنما کی حیثیت رکھتی ہے۔ جلال الدین قاسمی نے انتہائی سادہ اور موثر انداز میں ذکر کی اہمیت، اس کی اقسام، فوائد، شرائط اور موانع کو بیان کیا ہے۔ ان کے مطابق ذکر الٰہی مومن کی روحانی ترقی کا سب سے 

اہم ذریعہ ہے اور یہ اسے دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب بناتا ہے۔


عورت اور اسلام** حافظ جلال الدین کی کتاب کا خلاصہ

 **عورت اور اسلام** حافظ جلال الدین قاسمی کی ایک اہم کتاب ہے جس میں اسلام میں خواتین کے حقوق اور مقام پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ یہ کتاب اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس اہم موضوع کو زیر بحث لاتی ہے کہ خواتین کو کن حقوق اور فرائض کا حامل بنایا گیا ہے اور ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں اسلام نے ان کے لیے کیا تعلیمات فراہم کی ہیں۔


### پس منظر:

اسلام کی آمد سے قبل عرب معاشرے میں خواتین کو ناپسندیدہ اور کمزور سمجھا جاتا تھا۔ ان کے ساتھ ظلم و زیادتی عام تھی اور انہیں جائیداد کے حقوق، تعلیم اور آزادی کے مواقع سے محروم رکھا جاتا تھا۔ ایسے حالات میں اسلام ایک انقلابی پیغام لے کر آیا جس نے خواتین کو عزت و وقار بخشا اور انہیں مردوں کے برابر حقوق عطا کیے۔ جلال الدین قاسمی نے اس کتاب میں اسلامی تعلیمات کے ان پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے جو خواتین کے حقوق اور ان کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔


### اسلام میں خواتین کا مقام:

قاسمی کے مطابق، اسلام میں خواتین کا مقام انتہائی بلند ہے۔ قرآن اور حدیث میں متعدد مقامات پر خواتین کے حقوق کا ذکر کیا گیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:  

"تم میں سب سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ بہترین سلوک کرے"۔


یہ حدیث خواتین کی عزت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی اسلامی تعلیمات کا مظہر ہے۔ کتاب میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اسلام نے نہ صرف خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا بلکہ انہیں معاشرتی، معاشی اور قانونی حقوق بھی دیے ہیں۔


### خواتین کے حقوق:

کتاب میں خواتین کے مختلف حقوق کا تذکرہ کیا گیا ہے جن میں سے چند اہم یہ ہیں:


#### 1. **تعلیمی حقوق**:

قاسمی بیان کرتے ہیں کہ اسلام نے خواتین کے لیے تعلیم کو ضروری قرار دیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے:  

"علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے"۔  

یہ حدیث اس بات کی غماز ہے کہ تعلیم صرف مردوں تک محدود نہیں بلکہ خواتین کو بھی اس حق میں برابر کی حیثیت دی گئی ہے۔


#### 2. **شادی اور نکاح میں حقوق**:

اسلام نے خواتین کو شادی میں اپنی مرضی سے شریک حیات کے انتخاب کا حق دیا ہے۔ کسی بھی لڑکی کی شادی اس کی مرضی کے بغیر نہیں کی جا سکتی۔ جلال الدین قاسمی کے مطابق، یہ اسلامی تعلیمات کی ایک اہم خصوصیت ہے جس نے خواتین کو شادی کے معاملے میں مکمل اختیار دیا۔


#### 3. **وراثت میں حقوق**:

قاسمی نے وضاحت کی ہے کہ اسلام نے خواتین کو وراثت میں حصہ دیا ہے، جو کہ عرب معاشرت میں ایک انقلابی قدم تھا۔ قرآن میں واضح حکم ہے کہ مردوں اور عورتوں دونوں کو وراثت میں حق حاصل ہے۔ سورہ النساء کی آیات میں اس کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔


#### 4. **معاشرتی حقوق**:

اسلام نے خواتین کو عزت اور احترام دیا اور انہیں معاشرے میں ایک باوقار مقام عطا کیا۔ قاسمی بیان کرتے ہیں کہ اسلام نے خواتین کو پردے کی تعلیم دی تاکہ ان کی عزت و عصمت محفوظ رہے اور معاشرتی برائیوں سے بچا جا سکے۔


### عورت کے فرائض:

حقوق کے ساتھ ساتھ اسلام نے عورت کو کچھ اہم فرائض بھی سونپے ہیں۔ قاسمی کے مطابق، اسلام میں عورت کو ایک ماں، بیوی، اور بیٹی کی حیثیت سے اہم ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔


#### 1. **ماں کی حیثیت**:

اسلام میں ماں کا مقام بہت بلند ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:  

"جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے"۔  

قاسمی بیان کرتے ہیں کہ اسلام نے ماں کو ایک عظیم درجہ دیا ہے اور بچوں کی تربیت کو اس کا اہم فریضہ قرار دیا ہے۔


#### 2. **بیوی کی حیثیت**:

کتاب میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ بیوی کو اپنے شوہر کی اطاعت اور گھر کے معاملات میں معاونت کرنی چاہیے۔ تاہم، قاسمی اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ شوہر کو بھی بیوی کے ساتھ انصاف اور حسن سلوک کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔


#### 3. **بیٹی کی حیثیت**:

اسلام نے بیٹیوں کو بھی وہ عزت دی ہے جو کہ بیٹوں کو حاصل ہے۔ جاہلیت کے دور میں عرب اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے، لیکن اسلام نے اس عمل کی سختی سے مذمت کی اور بیٹیوں کو عزت اور محبت کے ساتھ پالنے کی تعلیم دی۔


### اسلام میں عورت کا سماجی اور معاشی کردار:

کتاب میں عورت کے سماجی اور معاشی کردار پر بھی بحث کی گئی ہے۔ جلال الدین قاسمی کے مطابق، اسلام نے خواتین کو معاشی معاملات میں حصہ لینے کی اجازت دی ہے۔ انہیں کاروبار کرنے، جائیداد رکھنے اور مالی امور میں آزادانہ فیصلے کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی مثال دیتے ہوئے، قاسمی بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک کامیاب کاروباری خاتون تھیں اور نبی اکرم ﷺ نے ان کے مال و دولت سے استفادہ کیا۔


### پردے کا تصور:

قاسمی کے مطابق، اسلام میں پردے کا تصور خواتین کی عزت و عصمت کی حفاظت کے لیے ہے۔ پردہ عورت کی حفاظت اور معاشرتی برائیوں سے بچاؤ کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے۔ تاہم، قاسمی نے یہ واضح کیا ہے کہ پردہ صرف جسمانی نہیں بلکہ نظری اور فکری پردہ بھی اہم ہے، تاکہ عورت کو ہر قسم کی برائی سے محفوظ رکھا جا سکے۔


### عورتوں کی عزت اور مقام:

کتاب میں جلال الدین قاسمی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسلام نے عورتوں کو بہت عزت دی ہے۔ وہ معاشرے کے ہر طبقے میں مردوں کے برابر ہیں اور انہیں کسی بھی لحاظ سے کمتر نہیں سمجھا جا سکتا۔ انہوں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ جو لوگ اسلام کو عورت مخالف مذہب سمجھتے ہیں، وہ دراصل اسلام کی اصل تعلیمات سے ناواقف ہیں۔


### نتیجہ:

"عورت اور اسلام" ایک ایسی کتاب ہے جو خواتین کے حقوق اور فرائض کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بیان کرتی ہے۔ جلال الدین قاسمی نے نہایت ہی مدلل اور واضح انداز میں یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام ایک ایسا دین ہے جو خواتین کو عزت و وقار فراہم کرتا ہے اور انہیں زندگی کے ہر پہلو میں اہمیت دیتا ہے۔ یہ کتاب اسلامی معاشرت میں خواتین کے کردار کو سمجھنے کے لیے ایک قیمتی رہنما ہے۔

حجیت حدیث** حافظ جلال الدین کی کتاب کا خلاصہ

 **حجیت حدیث** حافظ جلال الدین قاسمی کی ایک اہم کتاب ہے جس میں حدیث کی حیثیت اور اس کے دینی اور شرعی مقام پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ کتاب ان لوگوں کے شبہات کے جواب میں لکھی گئی ہے جو حدیث کی حیثیت اور اس کے قابل اعتماد ہونے پر سوال اٹھاتے ہیں۔ جلال الدین قاسمی نے کتاب میں حدیث کی اہمیت کو واضح کیا ہے اور اس کے ذریعے شریعت میں حدیث کا کیا کردار ہے، اس پر مدلل گفتگو کی ہے۔


### حدیث کی تعریف اور اہمیت:

اسلامی فقہ اور دینی تعلیمات میں حدیث قرآن مجید کے بعد دوسرا سب سے بڑا ذریعہ ہے جس کے ذریعے اسلامی احکام اور قوانین کو سمجھا اور نافذ کیا جاتا ہے۔ حدیث رسول اکرم ﷺ کے اقوال، افعال اور احوال کو بیان کرتی ہے اور اس کی حیثیت قرآن کی تشریح اور وضاحت کی ہے۔ قاسمی اپنی کتاب میں حدیث کی اس اہمیت کو واضح کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ قرآن کو درست طور پر سمجھنے کے لیے حدیث کی ضرورت کیوں ہے۔


### قرآن اور حدیث کا تعلق:

کتاب میں جلال الدین قاسمی قرآن اور حدیث کے باہمی تعلق پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ان کے مطابق، قرآن اسلامی شریعت کا بنیادی ماخذ ہے، لیکن کئی معاملات میں قرآن کے احکام مختصر یا مجمل ہیں، جن کی وضاحت حدیث کرتی ہے۔ مثلاً، قرآن میں نماز کی فرضیت کا ذکر ہے، لیکن نماز کے طریقے کی تفصیل حدیث سے ہی معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے، حدیث قرآن کی تفسیر اور اس کی تکمیل کا کام کرتی ہے۔


### حدیث کی حجیت پر شبہات:

قاسمی کتاب میں ان شبہات کا جواب دیتے ہیں جو بعض لوگ حدیث کی حجیت پر اٹھاتے ہیں۔ ان شبہات میں سے ایک عام اعتراض یہ ہے کہ احادیث کا ذخیرہ صدیوں بعد مرتب کیا گیا اور ان میں تحریف یا اضافے کا امکان ہو سکتا ہے۔ قاسمی اس اعتراض کا تفصیلی جواب دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ احادیث کی جمع و تدوین کا عمل انتہائی محتاط اور منظم طریقے سے کیا گیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ کے اقوال و افعال کو زبانی اور تحریری طور پر محفوظ کیا، اور بعد میں محدثین نے احادیث کو تحقیق اور تصدیق کے سخت معیارات کے تحت جمع کیا۔


### محدثین کی خدمات:

کتاب میں محدثین کے کردار اور ان کی خدمات کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔ قاسمی بیان کرتے ہیں کہ محدثین نے احادیث کی تصدیق کے لیے علم الرجال (راویوں کی جانچ) اور اصول حدیث جیسے اصولوں کو متعارف کروایا تاکہ احادیث کو درست اور معتبر طور پر محفوظ کیا جا سکے۔ محدثین نے ہر حدیث کے راویوں کی سند کو جانچا، ان کی سیرت، ثقاہت، اور ان کی دیگر روایات کا جائزہ لیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ حدیث قابل اعتماد ہے یا نہیں۔


### حدیث کے اقسام:

جلال الدین قاسمی نے کتاب میں احادیث کی مختلف اقسام کو بھی بیان کیا ہے، جن میں صحیح، حسن، ضعیف اور موضوع احادیث شامل ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ صحیح حدیث وہ ہے جس کی سند متصل ہو، راوی عادل اور ثقہ ہوں، اور اس میں کوئی علت یا شذوذ نہ ہو۔ حسن حدیث وہ ہے جس کی سند اور راویوں میں کچھ کمزوری ہو، لیکن وہ پھر بھی قابل قبول ہو۔ ضعیف حدیث وہ ہے جس کی سند میں کمزوری ہو اور وہ علمی استدلال کے لیے ناقابل قبول ہو۔ موضوع حدیث وہ ہے جسے جھوٹا ثابت کیا گیا ہو۔


### حجیت حدیث کے دلائل:

کتاب میں جلال الدین قاسمی قرآن و سنت کی روشنی میں حدیث کی حجیت پر دلائل پیش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، قرآن میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نبی اکرم ﷺ کی پیروی کا حکم دیا ہے۔ مثلاً، قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:  

"جو رسول تمہیں دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ" (سورہ الحشر: 7)  

یہ آیت حدیث کی اہمیت اور اس کے لازم ہونے کی ایک واضح دلیل ہے۔


اسی طرح ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:  

"اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، رسول کی اطاعت کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حکمران ہوں" (سورہ النساء: 59)  

قاسمی اس آیت سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے بغیر اسلام پر مکمل عمل ممکن نہیں، اور حدیث ہی وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے رسول اللہ ﷺ کے احکامات اور اعمال تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔


### حدیث کی مخالفت کا نقصان:

جلال الدین قاسمی کتاب میں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جو لوگ حدیث کا انکار کرتے ہیں وہ دراصل دین کی ایک بڑی بنیاد کو کھو دیتے ہیں۔ ان کے مطابق، صرف قرآن پر عمل کرنے کا دعویٰ کرنا اور حدیث کو نظر انداز کرنا دین کی ناقص تفہیم کا باعث بنتا ہے۔ مثال کے طور پر، قرآن میں نماز کا ذکر ہے، لیکن نماز کے اوقات، رکعات اور طریقہ کار کا تفصیلی بیان حدیث میں ملتا ہے۔ اگر حدیث کو نظر انداز کیا جائے تو دین کی تکمیل ممکن نہیں۔


### فقہی مسائل میں حدیث کا کردار:

قاسمی کے مطابق، فقہی مسائل میں حدیث کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ علماء کرام نے قرآن اور حدیث کی روشنی میں فقہ کے اصول وضع کیے ہیں۔ مثلاً، زکوٰۃ، روزہ، حج، اور نکاح کے مسائل میں تفصیل حدیث سے ہی معلوم ہوتی ہے۔ قاسمی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جو لوگ فقہی مسائل میں حدیث کا انکار کرتے ہیں، وہ دین کی تفصیل اور حکمت کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں۔


### نتیجہ:

جلال الدین قاسمی کی کتاب "حجیت حدیث" ایک اہم علمی کاوش ہے جو حدیث کے مقام و مرتبے اور اس کی ضرورت کو واضح کرتی ہے۔ کتاب میں احادیث کی حجیت کے دلائل، محدثین کی خدمات، احادیث کی اقسام، اور حدیث کی مخالفت کے نقصانات پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ قاسمی کا مؤقف ہے کہ قرآن اور حدیث دونوں لازم و ملزوم ہیں اور حدیث کے بغیر قرآن کی مکمل تفہیم ممکن نہیں۔ اس لیے، حدیث کو اسلامی شریعت کا ایک لازمی جزو تسلیم کرنا ضروری ہے تاکہ دین اسلام کی مکمل اور صحیح تفہیم حاصل ہو سکے۔


یہ کتاب ان لوگوں کے لیے ایک قیمتی رہنما ہے جو حدیث کی اہمیت اور اس کی دینی حیثیت کے بارے میں مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔