اپنی زبان منتخب کریں

ہفتہ، 14 جنوری، 2017

کیا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعابعی تھے


سوال: کیا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعابعی تھے؟ اور کیا کسی صحابی سے ان کی ملاقات صحیح سند سے ثابت ہے؟
(صفدر نذیر ولد منظور الٰہی دکاندار بھکر)

الجواب: الحمد للہ رب العالمین و الصلوۃ والسلام علی رسولہ الأمین، أما بعد:
اس مسئلے میں علمائے کرام کے درمیان سخت اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تابعی تھے اور بعض کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تابعی نہیں تھے۔ ان دونوں گروہوں کے نظریات پر تبصرہ کرنے سے پہلے دو اہم ترین بنیادی باتیں پیشِ خدمت ہیں۔

اول: جس کتاب سے جو قول یا روایت بطورِ دلیل نقل کی جائے، اُس کی سند صحیح لذاتہ یا حسن لذاتہ ہو، ورنہ استدلال مردود ہوتا ہے۔
دوم: صحیح دلیل کے مقابلے میں تمام ضعیف اور غیر ثابت دلائل مردود ہوتے ہیں اگرچہ ان کی تعداد ہزاروں میں ہی کیوں نہ ہو۔

اس تمہید کے بعد فریقین کے نظریات پیش خدمت ہیں۔

فریق اول:

خطیب بغدادی رحمہ اللہ(متوفی ۴۶۳ھ) لکھتے ہیں کہ :‘‘النعمان بن ثابت أبو حنیفۃ التیمي إمام أصحاب الرأي وفقیہ أھل العراق، رأی أنس بن مالک و سمع عطاء بن أبی رباح۔۔۔’’
یعنی:نعمان بن ثابت، ابو حنیفہ التیمی، اہل الرائے کے امام اور عراقیوں کے فقیہ، اپ نے انس بن مالک(رضی اللہ عنہ) کو دیکھا ہے اور عطاء بن ابی رباح سے (روایات وغیرہ کو) سنا ہے۔ (تاریخ بغداد ۱۳؍۳۲۳ ، ۳۲۴ ت ۷۲۹۷)
بعد والے بہت سے علماء نےخطیب رحمہ اللہ کے اس قول پر اعتماد کیا ہے۔ مثلاً دیکھئے العلل المتناھیۃ لابن الجوزی (۱؍۱۲۸ح۱۹۶) بعض لوگوں نے ابن الجوزی کے قول کو دارقطنی سے منسوب کر دیا ہے، یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ دیکھئے اللمحات(۲؍۲۹۳)

فریقِ دوم:

 ابو الحسن الدار قطنی رحمہ اللہ (متوفی ۳۸۵ھ) سے پوچھا گیا کہ کیا ابو حنیفہ کا انس(بن مالک رضی اللہ عنہ) سے سماع (سننا) صحیح ہے؟  تو انہوں نے جواب دیا: ‘‘لا ولا رؤیتہ، لم یلحق أبو حنیفۃ أحداً من الصحابۃ’ نہیں، اور نہ ابو حنیفہ کا  انس (رضی اللہ عنہ)کو دیکھنا ثابت ہے بلکہ ابو حنیفہ نے تو کسی صحابی سے (بھی ) ملاقات نہیں کی ہے۔ (تاریخ بغداد ج ۴ص۲۰۸ت ۱۸۹۵و سندہ صحیح) [سوالات السہمی للدارقطنی(ص۲۶۳ت۳۸۳)، العلل المتناہیۃ فی الأحادیث الواھیۃ لا بن الجوزی(۱؍۶۵تحت ح ۷۴)]
معلوم ہوا کہ خطیب بغدادی سے بہت پہلے امام دار قطنی رحمہ اللہ اس بات کا صاف صاف اعلان کر چکے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے نہ تو سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے اور نہ ان سے ملاقات کی ہے۔

تنبیہ: جلیل القدر معتدل امام دار قطنی رحمہ اللہ کا سابق بیان علماہ سیوطی (متوفی ۹۱۱ھ) کی کتاب‘‘ تبییض الصحیفۃ فی مناقب الإمام أبی حنیفۃ’’ میں محرف و مبدل ہو کر چھپ گیا ہے۔ (ص ۱۰بتعلیق محمد عاشق الٰہی برنی دیوبندی)

یہ تحریف شدہ متن اصل مستند کتابوں کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ ذیل اللآلی وغیرہ کی عبارات  سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ غلطی بذاتِ خود علامہ سیوطی کو حافظ ابن الجوزی کا کلام نہ سمجھنے کی وجہ سے لگی ہے۔ بہر حال امام دار قطنی سے ثابت شدہ قول کے مقابلے میں سیوطی و ابن الجوزی وغیر ھما کے حوالے مردود ہیں۔

ان دونوں (خطیب و دارقطنی) کے اقوال میں متقدم و اوثق ہونے کی وجہ سے دار قطنی کے قول کو ہی ترجیح حاصل ہے۔ فریقِ اول کی معرکۃ الآراء دلیل: جو لوگ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو تابعی مانتے یا منواتے ہیں وہ ایک معرکۃ الآراء دلیل پیش کرتے ہیں۔

محمد بن سعد(کاتب الواقدی) نے (طبقات میں) کہا: ‘‘حدثنا أبو الموفق سیف بن جابر قاضي واسط قال: سمعت أبا حنیفۃ یقول : قدم أنس بن مالک الکوفۃ و نزل النخع و کان یخضب بالحمرۃ، قد رأیتہ مراراً’’
(عقود الجمان فی مناقب النعمان ص ۴۹، الباب الثالث و اللفظ لہ، تزکرۃ الحفاظ للذھبی۱؍۱۶۸ ت ۱۶۳، مناقب أبی حنیفۃ و صاحبیہ أبی یوسف و محمد بن الحسن للذھبی ص ۷، ۸)
اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ (امام ) ابو حنیفہ نے کہا کہ میں نے (سیدنا ) انس بن مالک (رضی اللہ عنہ ) کو کوفہ میں  دیکھا۔

عرض ہے کہ اس روایت کا بنیادی راوی سیف بن جابر مجہول الحال ہے۔اُس کی توثیق کسی مستند کتاب میں نہیں ملی، دیکھئے التکنیل بما فی تأ نیب الکوثری من الأباطیل للمعلمی(ج ۱ص۱۷۹ت ۳۴) تبصرۃ الناقد (ص۲۱۸ ، ۲۱۹) و اللمحات ألی مافی انوار الباری من الظلمات(ج۲ص۲۷۷)

دوسرے یہ کہ یہ روایت ابن سعد کی کتاب‘‘الطبقات’’ میں موجود نہیں ہے۔ اسے حاکم کبیر ابو احمد محمد بن محمد بن احمد بن اسحاق(متوفی ۳۷۸ھ) نے درج ذیل سند و متن سے روایت کیا ہے۔
‘‘حدثني أبو بکر بن أبی عمر و المعدل ببخاری: حدثني أبو بکر عبداللہ بن محمد بن خالد القاضي الرازي الحبال قال: حدثنی عبداللہ بن محمد بن عبید القرشي المعروف بابن أبي الدنیا: نا محمد بن سعد الھاشمي صاحب الواقدي: نا أبو الموفق سیف بن جابر قاضي واسط قال: سمعت أبا حنیفۃ یقول: قدم أنس بن مالک الکوفۃ و نزل النخع و کان یخضب بالجھر (۱) قدرأیتہ مراراً’’ (کتاب الأسامي و الکنیٰ للحاکم الکبیر۴؍۱۷۴باب أبي حنیفۃ)
اس روایت کے راوی ابو بکر بن ابی عمر و کی توثیق نامعلوم ہے لہذا معلوم ہوا کہ یہ سند نہ تو ابن سعد سے ثابت ہے اور نہ امام ابو حنیفہ سے ثابت ہے، لہذا اسے ‘‘فإنہ صح’’ کہنا غلط ہے۔
اس کے علاوہ تابعیتِ امام ابو حنیفہ ثابت کرنے والی موضوع روایات أخبار أبی حنیفہ للصیمری و جامع المسانید للخوارزمی و کتبِ مناقب میں بکثرت موجود ہیں جن کا دارو مدار احمد بن الصلت الحمانی وگیرہ جیسے کذابین و مجہولین و مجروحین پر ہی ہے۔ ان روایات پر تفصیلی جرح کے لئے التنکیل اور اللمحات کا مطالعہ کریں۔

فریقِ دوم کی معرکۃ الآراء دلیل:

امام معتدل ابو احمد بن عدی الجرجانی رحمہ اللہ(متوفی ۳۶۵ھ) فرماتے ہیں کہ :‘‘ثناہ عبداللہ بن محمد بن عبدالعزیز : حدثنی محمود بن غیلان: ثنا المقرئي: سمعت أبا حنیفۃ یقول: ما رأیت أفضل من عطاء و عامۃ ما أحدثکم خطاء’ ابو حنیفہ نے فرمایا : میں نے عطاء (بن ابی رباح، تابعی) سے زیادہ افضل کوئی (انسان ) نہیں دیکھا اور میں تمہیں عام طور پر جو حدیثیں بیان کرتا ہوں وہ غلط ہوتی ہیں۔(الکامل ۷؍۲۴۷۳ و الطبعۃ الجدیدۃ ۸؍۲۳۷و سندہ صحیح)
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ (الأسانید الصحیحۃ فی أخبار الإمام أبی حنیفہ قلمی ص۲۹۰(
عبداللہ بن محمد بن عبدالعزیز البغوی مطلقاً ثقہ ہیں ( سیر أ علام النبلاء ۱۴؍۴۵۵) جمہور محدثین نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے۔
(الأسانید الصحیحہ ص ۱۲۴)ان پر سلیمانی و ابن عدی کی جرح مردود ہے۔ محمود بن غیلان ثقہ ہیں(تقریب التہذیب: ۲۵۱۶) ابو عبدالرحمن عبداللہ بن یزید المقرئی ثقہ فاضل ہیں۔(تقریب التہذیب: ۳۷۱۵)
  اس روایت کو خطیب بغدادی نے بھی عبداللہ بن محمد البغوی سے روایت کر رکھا ہے۔(تاریخ بغداد ۱۳؍۴۶۵و سندہ صحیح)
 عبداللہ بن محمد البغوی دوسری روایت میں فرماتے ہیں کہ: ‘‘حدثنا ابن المقرئی: نا أبی قال: سمعت أبا حنیفۃ یقول: مارأیت أفضل من عطاء و عامۃ ما (أ) حدثکم بہ خطأ ’’(مسند علی بن الجعد۲؍۷۷۷ح۲۰۶۲ ، دوسرا نسخہ ۱۹۷۸و سندہ صحیح)
اس روایت کی سند بھی صحیح ہے۔
محمد بن عبداللہ بن یزید المقرئی ثقہ ہے۔(التقریب: ۶۰۵۴) عبداللہ بن یزید المقرئی ثقہ فاضل ہے جیسا کہ ابھی گزرا  ہے۔ ابو یحیی عبدالحمید بن عبدالرحمن الحمانی فرماتے ہیں کہ :‘‘سمعت أبا حنیفۃ یقول: ما رأیت أحداً أکذب من جابر الجعفی ولا أفضل من عطاء بن أبی رباح’ میں نے ابو حنیفہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ: میں نے جابر الجعفی سے زیادہ جھوٹا کوئی نہیں دیکھا اور عطاء بن ابی رباح سے زیادہ افضل کوئی نہیں دیکھا۔ (العلل الصغیر للترمذی ص ۸۹۱ وسندہ حسن، مسند علی بن الجعد، روایۃ عبداللہ البغوی ۲؍۷۷۷ ح۲۰۶۱، دوسرا نسخہ: ۱۹۷۷و سندہ حسن، الکامل لا بن عدی ۲؍۵۳۷، دوسرا نسخہ ۲؍۳۲۷و سندہ حسن، و عنہ البیہقی فی کتاب القرأت خلف الإمام ص ۱۳۴ تحت ح ۳۲۱، دوسرا نسخہ ص ۱۵۷تحت ح ۳۴۵وسندہ حسن)
ابو یحیی الحمانی صدوق الحدیث ہے۔(تحریر تقریب التہذیب ۲؍۳۰۰ت۳۷۷۱) باقی سند بالکل صحیح ہے۔

ان صحیح اسانید سے معلوم ہوا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ(صحابی رسول ) کو بالکل نہیں دیکھا، ورنہ وہ یہ کبھی نہ فرماتے کہ ‘‘ میں نے عطاء (تابعی) سے افضل کوئی نہیں دیکھا’’۔

یہ بات عام  لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ ہر صحابی ہر تابعی سے افضل ہوتا ہے۔ جب امام صاحب نے خود اعلان فرما دیا ہے کہ انہوں نے عطاء تابعی سے زیادہ افضل کوئی انسان نہیں دیکھا تو ثابت ہو گیا کہ انہوں نے کسی صحابی کو نہیں دیکھا ہے تفصیل کے لئے محقق اہلِ حدیث مولانا محمد رئیس ندوی حفظہ اللہ کی کتاب اللمحات پڑھ لیں۔

خلاصۃ التحقیق: امام ابو حنیفہ تابعی نہیں ہیں، کسی ایک صحابی سے بھی ان کی ملاقات ثابت نہیں ہے۔ اس سلسلے میں خطیب بغدادی وغیرہ کے اقوال مرجوح و غلط ہیں اور اسماء الرجال کے امام ابو الحسن الدار قطنی کا قول و تحقیق ہی راجح اور صحیح ہے۔

 محمد بن عبدالرحمن السخاوی (متوفی ۹۰۲ھ) لکھتے ہیں کہ : ‘‘ وقسم معتدل کأحمد والدار قطنی و ابن عدي’ اور محدثین کرام کا ایک گروہ معتدل ہے جیسے احمد، دار قطنی اور ابن عدی، یعنی یہ تینوں معتدل تھے۔ (المتکلمون فی الرجال ص ۱۳۷)
حافظ ذہبی فرماتے ہیں کہ: ‘وقسم کالبخاري و أحمد و أبی زرعۃ و ابن عدي معتدلون منصفون’’ اور محدثین کا ایک گروہ مثلاً بخاری، احمدبن حنبل، ابو زرعہ (رازی) اور ابن عدی معتدل و منصف تھے۔(ذکر من یعتمد قولہ فی الجرح و التعدیل ص ۱۵۹)
تنبیہ: حافظ ذہبی نے کتاب‘‘ الموقظہ’’ میں امام دار قطنی کو بعض اوقات متساہل قرار دیا ہے۔ (ص۸۳)

یہ قول خطیب بغدادی و عبدالگنی ازدی و قاضی ابو الطیب الطبری و غیر ہم کی توثیق و ثنا کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ دار قطنی، عجلی، ابن خزیمہ اور ابن الجارود کا متساہل ہونا ثابت  نہیں ہے۔وما علینا إلا البلاغ
(۲۱ربیع الثانی ۱۴۲۶ھ)

امام ابو حنیفہ، امام یحییٰ بن معین کی نظر میں

امام الجرح والتعدیل یحیٰی بن معینؒ (۲۳۳-۱۵۸ھ) سے ابوحنیفہ (۱۵۰-۱۸۰ھ) کے متعلق جو اقوال وارد ہوئے ہیں، ان پر تبصرہ پیش خدمت ہے:
۱۔ احمد بن صلت حمانی کہتے ہیں کہ جب ابو حنیفہ کے بارے میں امام یحیٰی بن معین سے پوچھا گیا کہ وہ حدیث میں ثقہ تھے تو آپ نے کہا:
نعم، ثقۃ، ثقۃ، کان واللہ أورع من أن یکذب، وھوأجل قدرامن ذلک۔
‘‘ہاں، وہ ثقہ ہیں، وہ ثقہ ہیں۔ وہ جھوٹ بولنے سے بری تھے، ان کی شان اس(جھوٹاہونا) سے بلند تھی۔’’
(تاریخ بغداد للخطیب: ۴۵۰-۴۴۹/۱۳)
تبصرہ:
یہ قول موضوع (من گھڑت) ہے۔ یہ احمد بن صلت کی کارستانی ہے، جو بالاجماع جھوٹا اور وضاع (من گھڑت روایات بیان کرنے والا) تھا۔ اس کے بارے میں امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں:

یضع الحدیث۔
‘‘یہ اپنی طرف سے حدیث گھڑتا تھا۔’’
(الضعفاءولمتروکون:۵۹)
امام ابن حبانؒ کی بھی اس بارے میں یہی رائے ہے۔ (المجروحین:۱۵۳/۱)
امام ابن عدیؒ فرماتے ہیں:

ومارأیت فی الکذّابین أقلّ حیاء منہ۔
‘‘جھوٹے لوگوں میں سے میں نے اس سے بڑھ کر کم حیا والا آدمی کوئی نہیں دیکھا۔’’
(الکامل لابن عدی:۱۹۹/۱)
امام خطیب بغدادیؒ اس کے بارے میں لکھتے ہیں

حدّث بأحادیث، أکثرھا باطلۃ ھو وضعھا، ویحکی أیضا عن بشربن الحارث ویحیٰی بن معین و علیّ ابن المدینّی أخبارا جمعھا بعد أن وضعھا فی مناقب أبی حنیفۃ۔
‘‘اس نے بہت سی ایسی احادیث بیان کی ہیں، جن میں سے اکثر اس نے خود گھڑی ہیں، نیز یہ بشر بن الحارث، امام یحیٰی بن معین اور امام علی بن المدینیؒ سے منسوب اقوال خود گھڑکر امام ابوحنیفہ کے مناقب میں بیان کرتا تھا۔’’
(تاریخ بغداد للخطیب:۳۳/۵)
۲۔ احمد بن عطیہ یعنی احمد بن صلت راوی کہتا ہے کہ امام یحیٰی بن معین نے فرمایا:

کان أبو حنیفۃ ثقۃ، صدوقا فی الحدیث و الفقۃ، مأمونا علی دین اللہ۔
‘‘امام ابو حنیفہ ثقہ تھے، حدیث اور فقہ میں صدوق تھے اور اللہ کے دین پر مامون تھے۔’’
(تاریخ بغداد للخطیب:۳۵۰/۱۳)
تبصرہ:
اس کی سند میں وہی احمد بن صلت جھوٹا اور من گھڑت احادیث واقوال بیان کرنے والا راوی موجود ہے، جس کا ذکر پیچھے ہم کر آئے ہیں۔ امام خطیبؒ یہ قول ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

أحمد بن الصّلت ھوأحمد بن عطیّۃ، وکان غیر ثقۃ۔
‘‘احمد بن صلت دراصل احمد بن عطیہ ہے اور وہ ثقہ نہیں تھا۔’’
۳۔ امام یحیٰی بن معین کہتے ہیں:

کان أبو حنیفۃ ثقۃ، لا یحدّث بالحدیث إلّا ما حفظ، ولا یحدّث بمالا یحفظ۔
‘‘امام ابو حنیفہ ثقہ تھے، صرف وہ حدیث بیان کرتے، جو یاد ہوتی اور جو یاد نہ ہوتی، وہ بیان نہ کرتے۔’’
(تاریخ بغداد للخطیب:۳۱۹/۱۳)
تبصرہ:
۱۔ اس قول کی سند ‘‘ضعیف’’ ہے۔ اس کے راوی محمد بن احمد بن عصام کے حالات نہیں مل سکے۔ نامعلوم لوگوں کی روایتیں قبول کرنا دین سے خیر خواہی نہیں۔
۲۔ اس قول کے دوسرے راوی محمد بن سعد العوفی کے بارے میں خود امام خطیبؒ فرماتے ہیں:

کان لیّنا فی الحدیث۔
‘‘وہ حدیث میں کمزور تھا۔’’
(تاریخ بغداد للخطیب:۳۲۲/۵)
امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں:

لا بأس بہ۔
‘‘اس میں کوئی حرج نہیں۔’’
(سوالات الحاکم للدارقطنی:۱۷۸)
۴۔ امام یحیٰی بن معین کہتے ہیں:

کان أبو حنیفۃ لا بأس بہ، وکان لا یکذب۔
‘‘ ابو حنیفہ میں کچھ حرج نہیں، وہ جھوٹ نہیں بولتے تھے۔’’
(تاریخ بغداد ۳۱۹/۱۳)
تبصرہ:
اس قول کی سند مردود و باطل ہے۔ اس کے راوی احمد بن محمد بن القاسم ابن محرز کی توثیق ثابت نہیں، اس کی راویت سے کسی کی توثیق کیسے ثابت ہوسکتی ہے؟
۵: نیز کہتے ہیں:

أبو حنیفۃ عندنا من أھل الصّدق، ولم یتّھم بالکذب۔
‘‘امام ابو حنیفہ ہمارے ہاں اہل صدق میں سے ہیں، جھوٹ کا الزام ان پر نہیں لگایا گیا۔’’
(سوالات ابن محرز:۲۴۰، تاریخ بغداد:۳۱۹/۱۳)
تبصرہ:
اس قول کی سند بھی مردود و باطل ہے، کیونکہ اس میں وہی علت پائی جاتی ہے، جو اس سے پہلے قول میں تھی کہ احمد بن محمد بن القاسم بن محرزراوی کی توثیق ثابت نہیں۔
۶: امام یحیٰی بن معین سے ایک آدمی نے کہا کہ کیا امام ابو حنیفہ‘‘کذاب ’’ ہے؟
تو آپ نے فرمایا:

کان أبو حنیفۃ أنبل من أن یکذب، کان صدوقا إلّا أن فی حدیثہ ما فی حدیث الشّیوخ۔
‘‘ ابو حنیفہ جھوٹ بولنے سے پاک تھے، وہ سچے تھے، مگر ان کی حدیث میں (خرابی تھی)، جو کہ (بعض) شیوخ کی حدیث میں ہوتی ہے۔’’
(تاریخ بغداد:۳۱۹/۱۳)
تبصرہ:
اس قول کی سند جھوٹی ہے۔ اس کا راوی احمد بن عبدالرحمن بن الجارود الرقی ‘‘کذاب’’ ہے، جیسا کہ خطیب بغدادیؒ اس کے بارے میں لکھتے ہیں:

فانّہ کذّاب۔
‘‘وہ سخت جھوٹا آدمی ہے۔’’
(تاریخ بغداد:۲۴۷/۲، ترجمۃ محمدبن الحسین البسطامی)
ابن طاہر کہتے ہیں:

کان یضع الحدیث، ویرکّبہ علی الأسانید المعروفۃ۔
‘‘یہ حدیث خود گھڑ کر اسے معروف سندوں سے جوڑ دیتاہے۔’’
(لسان المیزان:۲۱۳/۱)
۷: جعفر بن محمد ابی عثمان الطیالسی کہتے ہیں کہ ہم نے امام یحیٰی بن معین سے سنا اور میں نے ان سے ابویوسف اور ابوحنیفہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے کہا:

أبو یوسف أوثق منہ فی الحدیث، قلت: فکان أبو حنیفہ یکذب؟ قال: کان أنبل فی نفسہ من أن یکذب:
‘‘ابو یوسف حدیث میں ابو حنیفہ سے ثقہ ہے، میں نے عرض کیا، کیا ابوحنیفہ جھوٹ بولتے تھے؟ فرمایا، وہ جھوٹ بولنے سے پاک تھے۔’
’ (تاریخ بغداد:۱۳/، وسندہٗ صحیحٌ)
تبصرہ:
امام یحیٰی بن معین کے اس صحیح قول سے امام ابوحنیفہ کی ثقاہت ثابت نہیں ہوتی، بلکہ یہ امام یحیٰی بن معین کے نزدیک ابویوسف (ضعیف عند الجمھور) کی توثیقِ نسبی ہے۔
توثیقِ نسبی میں اصول یہ ہوتا ہے کہ جس کی نسبت سے کسی کو اوثق قرار دیا گیاہو۔ اسی امام کے نزدیک اس کا مرتبہ بھی معلوم کرلیا جاتا ہے، پھر راوی پر اس کے مطابق حکم لگایا جاتاہے۔ اب ابویوسف کی توثیقی نسبی کا مرتبہ معلوم کرنے کے لیے اصولی طور پر چاہیے کہ امام یحیٰی بن معین کے دوسرے اقوال سے امام ابو حنیفہ کا حکم معلوم کرلیا جائے، اگر وہ ثقہ ہیں تو ابو یوسف ان سے بڑھ کر ثقہ ہوں گے اور اگر وہ ‘‘ضعیف’’ہیں تو امام ابو یوسف ان سے ‘‘ضعف’’ میں کچھ کم ہوں گے۔
اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں کہ ایک راوی اسد بن عمرو ابو المنذر البجلی کے بارے میں امام یحیٰی بن معینؒ فرماتےہیں:

اسد بن عمرو أوثق من نوح بن درّاج۔
‘‘اسد بن عمرو، نوح بن دراج سے ثقہ ہے۔’’
(الجرح والتعدیل: ۳۳۷/۲،وسندہٗ صحیحٌ)
حالانکہ اہل علم جانتے ہیں کہ نوح بن دراج‘‘ کذاب ومتروک’’ راوی ہے، خود امام یحیٰی بن معین نے فرمایا ہے:

نوح بن درّاج لیس بثقۃ، کان کذّابا ضعیفا۔
‘‘نوح بن دراج ثقہ نہیں ہے، بلکہ وہ سخت جھوٹا اور ضعیف ہے۔’’
(الجرح والتعدیل: ۴۸۴/۸، وسندہٗ صحیحٌ)
لہٰذا یہاں اسد بن عمرو کو نوح بن دراج ہے اوثق کہنے سے نہ نوح بن دراج کی توثیق لازم آئی ہے اور نہ اسد بن عمرو ثقہ ہوگیاہے۔ مطلب یہ ہے کہ اسد بن عمرو کا ضعف نوح بن دراج سے کچھ کم ہے، یعنی وہ ‘‘کذاب’’ نہیں، بلکہ ‘‘ضعیف’’ ہے۔
اصولِ حدیث کے مطابق جب امام یحیٰی بن معینؒ کے دوسرے ‘‘صحیح’’ اقوال کو دیکھا جائےتو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان کے نزدیک امام ابو حنیفہ ‘‘ضعیف’’ تھے، جیساکہ ہم آئندہ سطورمیں بیان کرنے والے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر امام یحیٰی بن معین کے اس قول سے امام ابو حنیفہ کی توثیق ثابت ہو رہی تھی تو شاگرد کو یہ پوچھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ کیا امام ابو حنیفہ جھوٹ بولتے تھے؟ کیا ثقہ آدمی جھوٹ بھی بول سکتاہے؟
اب تو قارئین کرام کو بخوبی معلوم ہوگیا ہو گا کہ امام یحیٰی بن معینؒ کے اس قول سے امام ابو حنیفہ کی توثیق کشید کرنا نہایت ہی بے اصولی اور فنِ رجال سے مطلق جہالت کا شاہکار ہے۔
۸۔ حافظ مزیؒ (۷۴۲-۶۵۴ھ) لکھتے ہیں:

وقال صالح بن محمّد الأسدی (جزرۃ) (۲۹۳-۲۰۵ھ) سمعت یحیی بن معین یقول: کان أبو حنیفۃ ثقۃ فی الحدیث۔
‘‘ صالح بن محمد جزرہ نے کہا کہ میں نے امام یحیٰی بن معین کو سنا، وہ فرما رہےتھے کہ ابو حنیفہ حدیث میں ثقہ ہیں۔
(تھذیب الکمال للمزی:۱۰۵/۹)
تبصرہ:
یہ قول بے سند ہونے کی وجہ سے مردود و باطل ہے۔

اقوال تضعیف وجرح

امام الجرح و التعدیل یحیٰی بن معینؒ کی امام ابوحنیفہ پر جرح ثابت ہے۔

۱۔ لا یکتب حدیثہ۔
 ابو حنیفہ کی حدیث نہیں لکھی جائے گی۔
(الکامل لابن عدی:۶/۷، و فی نسخۃ:۲۴۷۳/۷، تاریخ بغداد للخطیب:۴۵۰/۱۳، المنتظم لابن الجوزی:۱۳۴/۸، وسندہٗ صحیحٌ)
ا۔ اس کے راوی علی بن احمد بن سلیمان المصری،المعرف بعلان(۳۱۰-۲۲۷ھ) کے بارے میں امام ابنِ یونس کہتے ہیں:

وکان ثقۃ کثیر الحدیث، وکان أحد کبراء العدول۔
‘‘آپ ثقہ کثیر الحدیث تھے اور بڑے بڑے عادل لوگوں میں سے ایک تھے۔’’
(سیراعلام النبلاء للذھبی:۴۹۶/۱۴)
خود حافظ ذہبیؒ ان کے بارے میں کہتے ہیں:

الإمام المحدّث العدل۔ ‘‘امام،محدث، عادل۔’’
(سیر اعلام النبلاء للذھبی: ۴۹۶/۱۴)
ان پر جرح کا ادنیٰ کلمہ بھی ثابت نہیں ہے۔
ب) اس کے دوسرے راوی (احمد بن سعد بن الحکم) ابن ابی مریم (م ۲۵۳ھ) کے بارے میں امام نسائیؒ فرماتے ہیں:

لابأس بہ۔ ‘‘
اس میں کچھ حرج نہیں۔’’
(تھذیب التھذیب لابن حجر:۲۹/۱)
حافظ ابن حجرؒ نے ‘‘صدوق’’ کہا ہے۔
(تقریب التھذیب لابن حجر:۳۶)
اس سے امام ابوداؤد، امام نسائی اور امام بقی بن مخلد نے روایت لی ہے، کسی نے ان پر جرح نہیں کی، لہٰذا وہ واضح طور پر  ثقہ و صدوق ہیں۔
۲۔ قال الإمام العقیلیّ:

حدّثنا محمّد بن عثمان (بن أبی شیبۃ) قال: سمعت یحیٰی بن معین وسئل عن أبی حنیفہ، قال: کان یضعّف فی الحدیث۔
‘‘محمد بن عثمان بن ابی شیبہ کہتے ہیں کہ میں نے امام یحیٰی بن معینؒ سے سنا، ان سے امام ابو حنیفہ کے بارے میں میں سوال کیا گیا توا نہوں نے فرمایا، وہ حدیث میں ضعیف قرار دئیے گئے ہیں۔’’
(الضعفاء الکبیر للعقیلی:۲۸۵/۴، تاریخ بغداد للخطیب:۴۵۰/۱۳، وسندہٗ صحیحٌ)
محمد بن عثمان بن ابی شیبہ جمہور کے نزدیک ‘‘حسن الحدیث’’ ہیں، ان پر جروح مردود ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھئے استاذِ مکرم، محدث العصر حافظ زبیر علیزئی (جزاہ اللہ عن أھل الحدیث أفضل الجزاء و جزی الحدیث عنہ کذلک) کا مضمون ‘‘ایک مظلوم محدث۔’’
(ماھنامہ الحدیث حضرو،۲۷-۲۰/۴۴)
خوب یاد رہے کہ ہمارے نزدیک ثقہ متقدمین، ائمہ محدثین کی جرح و تعدیل کے متعلق کتابیں میزان کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہر ایک راوی کو بلا استثنیٰ اس میزان پر پرکھا جائے گا، ہر قول کی سند کی تحقیق کی جائے گی۔ جو جمہور کے نزدیک ثقہ ہوا، اسی کی روایت قبول ہوگی اور جو جمہور کے نزدیک ‘‘ضعیف’’ہوگی۔ اس بات پر کوئی ناراض ہوتارہے، کیونکہ حق کو چھوڑنا ہمیں گوارانہیں۔
ایک قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ حافظ مزیؒ (۶۵۴ھ۔۷۴۲ھ)، حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸ھ)اور حافظ ابن حجرؒ (۷۷۳۔۸۵۲ھ) وغیر ہم ناقلین کی کتابوں میں مذکور بے سند اقوال کا کوئی اعتبار نہ ہوگا، جب تک اصلی معتبر کتابوں سے ان کی سندیں ثابت نہ ہو جائیں۔ ان کتابوں میں محض سہولت کے لیے راویوں کے متعلق تقریباً تمام اقوال ذکر دئیے گئے ہیں۔
ہم کہتے ہیں کہ حدیث اور راویانِ حدیث کے متعلق سنداور تحقیق سند سےپہلوتہی اختیار کرنا دین اسلام کی کوئی خدمت نہیں۔
ہردور میں سند کا مسلہ اہل حدیث علمائے کرام کے ہاتھ میں رہا۔ اس اقدام پر دیانت سے عاری سرگشتے اہل بدعت اوراہل الحاد سخت نالاں نظرآتے ہیں۔
الحاصل:
امام یحیٰی بن معین سے امام حنیفہ کی توثیق قطعاً ثابت نہیں، البتہ دو جروح باسندِ صحیح ثابت ہیں۔
والحمد للہ علی ذلک!

جمعہ، 13 جنوری، 2017

گیارہویں کی رسم

گیارہویں کی رسم​
ہر قمری مہینہ کی گیارہویں رات کو حضرت محبوب سبحانی شیخ المشائخ شاہ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کے نام پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے وہ " گیارہویں شریف " کے نام سے مشہور ہے ۔ خاص کر ربیع الآخر کی گیارہویں شب کو اسے زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔ اس سلسلہ میں چند امور لائق توجہ ہیں ۔
اول : گیارہویں کا رواج کب سے شروع ہوا ہے ؟ بڑی تحقیق کے باوجود اس کی صحیح تاریخ معلوم نہیں ہوسکی ۔ تاہم اتنی بات تو معلوم ہے کہ سیدنا شاہ عبد القادر جیلانی {نور اللہ مرقدہ}جن کے نام کی گیارہویں دی جاتی ہے ، انکی ولادت 470ھ میں ہوئی اور نوے سال کی عمر میں ان کا انتقال 561ھ میں ہوا ، ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ ، تابعین ، آئمہ دین ، خصوصاّ امام ابوحنیفہ اور خود حضرت پیران پیر اپنی گیارہویں نہیں دیتے ہوں گے ؟ اور یہ بات بھی محل نظر ہے کہ ہندو پاک کے علاوہ کسی اورخصوصا عرب دنیا میں یہ بدعت نہیں پائی جاتی، اب آپ خود ہی فیصلہ کرسکتے ہیں جس عمل سے اسلام کی کم از کم چھ صدیاں خالی ہوں کیا اسے اسلام کا جزء تصور کرنا اور اسے ایک اہم ترین عبادت کا درجہ دے ڈالنا صحیح ہوگا ؟ اور آپ اس بات پر بھی غور فرماسکتے ہیں کہ جو لوگ گیارہویں نہیں دیتے ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ ، وتابعین ، ائمہ دین ، اور خود حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ اور کے نقش قدم پہ چل رہے ہیں یا وہ لوگ جو ان اکابر کے عمل کے خلاف کررہے ہیں ؟ بعض گیارہویں دینے والے یہ دلیل دیتے ہیں کہ شیخ عبد لقادر جیلانی رحمہ اللہ ہر ماہ کی گیارہ تاریخ کو عرس رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے ، لیکن یہ بات قطعا غلط اور بے ثبوت ہے شیخ عبد القادر جیلانی کی سیرت اور آپ کی کسی کتاب میں اسکا ذکر نہیں ملتا ، یہی وجہ ہے کہ شیخ عبد الحق دہلوی رحمہ اللہ نے اسے بعد کے مشائخ کی ایجاد کرار دیا ہےچنانچہ ماثبت بالسنہ {اردو} ص168پرلکھتے ہیں اگر یہ دریافت کیا جائے کہ ہمارے ملک میں مشائخ عظام کی وفات کی تاریخ پر جو عرس کیاجاتا ہے اس کی اصلیت کیا ہے ؟ تو میرا جواب یہ ہے کہ میں نے بھی یہی سوال اپنے پیر ومرشد امام عبد الوہاب متقی مکی سے کیا تھا جس کے جواب میں فرما یا تھا کہ ہمارے مشائخ کے طور طریقے عادات و رواج اور نیت ہی گیارہویں کی ہے ،اس پر میں نے عرض کیا تھا کہ دوسری تواریخ کو ترک کرتے ہوئے گیارہویں ہی کو کیوں خاص کر لیا ہے ؟ جواب سرفراز فرمایا مہمان نوازی مطلق سنت ہے اس لئے تاریخ سے قطع نظر کرتے ہوئے غرباء کو دعوت دوا ور کھانا کھلائو ، نیز شریعت اسلامیہ میں اس کے نظائر بھی موجود ہیں یہ عام طور پر مطلق حیثیت سے سنت ہے اور کسی خاص وجہ سے خصوصیت کی بناء پر ان کا بروے کار لانا بدعت ہے ۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ بعض متاخرین نے بعض مغربی مشائخ کی زبانی بیان کیا کہ جس دن آپ نے وصال الہی کیا اس دن کولوگوں نے از خود دوسرے دنوں کہ بہ نسبت زیادہ خیروبرکت کا منوردرخشاں دن بنادیا ہے ۔ پھر تھوڑی دیر تک سرنگوں رہ کر سر اٹھایا اور فرمایا زمانہ ماضی میں یہ سب کچھ نہ تھا یہ تو صرف متاخرین کی خوشیاں اور خود کاریا ں ہیں ۔ اور اللہ تعالی ہی زیادہ جاناتا ہے ۔
دوم : اگرگیارہویں دینے سے حضرت شیخ عبد القادر جیالانی کی روح کو ثواب پہنچانا مقصود ہے تو بلا شبہ یہ مقصد بہت ہی مبارک ہے ، لیکن جس طرح یہ ایصال ثواب کیا جاتا ہے اس میں چند خرابیاں ہیں ۔
 ایک ۔ یہ کہ ثواب پہنچانے کیلئے شریعت نے کوئی دن اور وقت مقرر نہیں فرمایا ، مگر یہ حضرات گیارہویں رات کی پابندی کو کچھ ایسا ضروری سمجھتے ہیں گویا یہی خدائی شریعت ہے ۔ اور اگر اسکے بجائے کسی اور دن ایصال ثواب کرنے کو کہا جائے تو یہ حضرات اس پر کسی طرح راضی نہیں ہوں گے ۔ ان کے اس طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف ایصال ثواب مقصود نہیں ، بلکہ انکے نزدیک یہ ایک عبادت ہے جو صرف اسی تاریخ کو اداکی جاسکتی ہے ۔ جس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ۔ اسلئے اسے ضروری سمجھ لینا اللہ اور رسول کے مقابلے میں گویا اپنی شریعت بنانا ہے ۔
دوسرے ۔ گیارہویں میں اس بات کا خصوصیت سے اہتمام کیا جاتا ہے کہ کھیر ہی پکائی جائے حلانکہ اگر ایصال ثواب مقصود ہو تا تو اتنی رقم بھی صدقہ کی جاسکتی تھی ۔ اور اتنی مالیت کا غلہ یا کپڑا کسی مسکین کو چپکے سے اسطرح دیا جاسکتا تھا کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو تی ۔ اور یہ عمل نمود ونمائش اور ریا سے پاک ہونے کی وجہ سے مقبول بارگاہ الہی بھی ہوتا ، کھیر پکانے یا کھانا پکانے ہی کو ایصال ثواب کے لئے ضروری سمجھنا اور یہ خیال کرنا کہ اس کے بغیر ایصال ثواب ہی نہیں ہوگا ۔ یہ بھی مستقل شریعت سازی ہے ۔
تیسرے ۔ ایصال ثواب کیلئے دیا گیا کھانا وغلہ ایک قسم کا صدقہ ہے جو فقراء ومساکین کا حق ہے ۔ مگر گیارہویں کا کھانا پکاکر لوگ زیادہ تر خود ہی کھا پی لیتے ہیں یا اپنے عزیز و اقارب اور احباب کو کھلادیتے ہیں ، فقراء ومساکین کا حصہ اسمیں بہت کم ہوتا ہے اس کے باوجود یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جتنا کھانا پکایا گیا پورے کا ثواب پیران پیر کو پہنچ جاتا ہے ۔ یہ بھی قاعدۃ شریعت کے خلاف ہے ۔ کیونکہ شرعا ثواب تو اس چیز کا ملتا ہے جو بطور صدقہ کسی کو دے دی جائے ۔
چوتھے  ۔ بہت سے لوگ گیارہویں کے کھا نے کوتبرک سمجھتے ہیں ، حلانکہ ابھی معلوم ہوچکا کہ جو کھا نا خود کھا لیا گیا وہ اگر ایصال ثواب تھا تو وہ صدقہ تھا جسکا کھا نا بنانے والوں کےلئے جائز نہ تھا لہذا حضرت پیران پیر کے ایصال ثواب سے اس کو کوئی تعلق نہیں ہے ۔
پانچویں  ۔ بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ گیارہویں نہ دینے سے ان کے جان ومال کا {خدانخواستہ } نقصان ہوجاتا ہے یا مال میں بےبرکتی ہوجاتی ہے ، گویا نماز ،روزہ ، حج ،زکاۃ، قطعی فرائض میں کوتاہی کرنے سے کچھ نہیں بگڑتا ، مگر گیارہویں میں ذراکوتاہی ہوجائےتو جان ومال کے لالے پڑ جاتے ہیں ۔ اب آپ ہی انصاف کیجئے کہ ایک ایسی چیز جس کا شرع شریف میں اور ائمہ کے اقوال میں کوئی ثبوت نہ ہو، جب اسکا التزام فرائض شرعیہ سے بھی بڑھ کر کیا جائے اور اسکے ساتھ ایسا اعتقاد جم جائے کہ خدا تعالی کے مقرر کردہ فرائض کے ساتھ بھی ایسا اعتقاد نہ ہو تو اس کے مستقل شریعت ہونے میں کوئی شبہ رہ جاتا ہے ؟ انا للہ وانا الیہ راجعون ،
اور پھر اس پر بھی غور فرمایئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام ، تابعین عظام ، ائمہ مجتہدین اور بڑے بڑے اکا بر اولیاء اللہ میں سے کسی کے بارے میں مسلمانوں کا یہ عقیدہ نہیں کہ اگر ان اکابر کیلئے ایصال ثواب نہ کیا جائے تو جان ومال کا نقصان ہو جاتاہے ، میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر حضرت پیران پیر کی گیارہویں نہ دنے ہی سے کیوں جان ومال کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے ، ہمارے ان بھائیوں نے اگر ذرا بھی غور و فکر سے کام لیا ہوتا تو ان کیلئے یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ وہ اپنے اس غلو سے حضرت پیران پیر کی توہیں کے مرتکب ہورہے ہیں ۔
سوم  : ۔ ممکن ہے عام لوگ ایصال ثواب کی نیت ہی سے گیارہویں دیتے ہوں مگر مشاہدہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ گیارہویں حضرت پیران پیر کے ایصال ثواب کیلئے نہیں دیتے ، بلکہ اسکے پیچھے کچھ اور جذبات وعقیدے ہوتے ہیں چنانچہ ایک بزگ نے اپنے علاقہ کے گوالوں کو ایک دفعہ وعظ میں کہا کہ دیکھو بھئی ؟ گیارہویں شریف تو خیر دیا کرو ، مگر نیت یوں کیا کرو کہ ہم یہ چیز اللہ تعالی کے نام پر صدقہ کرتے ہیں اور اسکا جوثواب ہمیں ملے گا وہ حضرت پیران پیر کی روح کو پہنچانا چاہتے ہیں ، اس تلقین کا جواب انکی طرف سے یہ تھا کہ " مولوی جی ؟ اللہ تعالی کے کی چیز تو ہم نے پرسوں دی تھی ، یہ اللہ کے نام کی نہیں ، بلکہ حضرت پیران پیر کے نام کی ہے ۔
 انکے اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گیارہویں ، حضرت شیخ کے ایصال ثواب کیلئے نہیں دے رہےہیں بلکہ جسطرح صدقہ وخیرات کے ذریعہ حق تعالی کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے اسی طرح وہ خود گیارہویں کو حضرت کے دربار میں پیش کرکے آپکا تقرب حاصل کرنا چاہتے ہیں اور یہی راز ہے کہ وہ لوگ گیارہویں دینے نہ دینے کو مال وجان کی برکت اور بے برکتی میں داخل سمجھتے ہیں ،اسطرح یہ وہ عبادت ہے جو غیر اللہ کے لئے کی جارہی ہے ،
چہارم : ۔ جن لوگوں نے حضرت غوث اعظم کی غنیۃ الطالبین اور آپکے مواعظ شریفہ {فتوح الغیب }وغیرہ کا مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ حضرت شیخ ، امام احمد بن حنبل " کے پیرو تھے ۔ گویا آپکا فقہی مسلک ٹھیک وہی تھا جو آج سعودی حضرات کا ہے جن کو لوگ " نجدی اور وہابی " کے لقب سے یاد کرتے ہیں ، حضرت شیخ اور انکے مقتدا حضرت امام احمدبن حنبل کے نزدیک جو شخص نماز کاتارک ہو وہ مسلمان نہیں رہتا اور یہی چیز حضرت پیران پیر نے اپنی کتاب غنیتہ الطالبین میں لکھی ہےچناچہ وہ لکھتے ہیں: جو شخص نماز کو فرض جانتا ہے ، مگر سستی اور غفلت کے باعث اسے ادا نہیں کرتا ، اسے نماز کے لئے بلایاجائے پھر بھی نہ آئے تو اسے تلوار سے قتل کرنا جائز ہے ، ایسا شخص ان دونوں حالتوں میں مرتد ہے ، مسلمانوں کو ایسے شخص کا مال لوٹ لینا جائز ہے ، اسے بیت المال میں داخل کریں ، اسکے جنازے پر نماز نہ پڑھیں ، نہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کریں {ص538}
خلاصہ یہ کہ حضرت پیران پیر یا دوسرے اکابر کے لئے ایصال ثواب کرنا سعادت مندی ہے مگر گیارہویں کے نام سے جو کچھ کیا جاتا ہے وہ مذکورہ بالاوجوہ سے صحیح نہیں، بغیر تخصیص وقت کے جو کچھ میسر آئے اس کا صدقہ کر کے بزرگوں کو ایصال ثواب کردے
www.mominsalafi.blogspot.com
 

جمعرات، 12 جنوری، 2017

انسان کی منی پاک ناپاک

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 
انسان کی منی پاک ناپاک ہونے کی بحث منتقی مع نیل الاوطارمیں ملاحظہ کریں ۔اس میں سخت اختلاف ذکرکیاہے۔ رہا یہ سوال کہ انبیاء اس سے کس طرح پیداہوئے ۔تواس کاجوا ب یہ ہے کہ تغیرسے چیز پاک ہوجاتی ہے جیسے زمین کی کھاد سبزی بن کر پاک ہوجاتی ہے یہ جواب ان کی طرف سے ہے ۔جومنی کوناپاک کہتے ہیں اورجولوگ پاک کہتے ہیں ۔ان پرکوئی اعتراض نہیں ۔
جوپاک کہتے ہیں ۔وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ کی حدیث پیش کرتے ہیں ۔حنفیہ کے مسلمہ بزرگ امام طحاوی رحمہ اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ۔
«قال سئل النبی صلی الله علیه وسلم عن المنی یصیب الثوب فقال انماهوبمنزلة المخاط والبصاق وانمایکفیک ان تمسححه بخرته اواذخره» (نیل الاوطارجلد1ص 53)
            ’’یعنی منی کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہواکہ کپڑے کولگ جائے توکیاکرے؟  فرمایا:کہ منی نیٹ  یعنی سینڈھ اورتھوک کے بمنزلہ ہے اورتجھے صرف اسکالیر(کپڑا)یاگھاس اذخرے پونچھناکافی ہے ۔‘‘
امام طحاوی رحمہ اللہ کےعلاوہ دارقطنی اوربیہقی رحمہ اللہ نے بھی اس کوروایت کیاہے ملاحظہ ہومنتقی معہ نیل الاوطار جلد 1ص 53
وباللہ التوفیق

فتاویٰ اہلحدیث

کتاب الطہارت، پانی کا بیان، ج1ص240

بدھ، 11 جنوری، 2017

'''کھڑے ہو کر پینے کا مسئلہ

بھائ آپکے سوال کا جواب میری پوسٹ میں موجود ھے- متعلقہ موادکشیدکر کے دوبارہ پیش کئے دیتا ھوں
""ہم اِس وقت جو مسئلہ سمجھ رہے ہیں ہیں، یعنی '''کھڑے ہو کر پینے کا مسئلہ ''' اِس میں نظر آنے والے اِختلاف کا حل ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بتا دیا گیا ہے ،
 اور وہ یوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت کا سبب بیان فرما دِیا ، اور وہ سبب یہ ہے کہ جو کوئی بھی کھڑے ہو کر پیتا ہے شیطان اُس کے پینے میں شامل ہوجاتا ہے ،
 ابو ہریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو کھڑے ہو کر پیتے دیکھا تو فرمایا (قِہ ، قے کرو( یعنی جو پیا ہے اُسے اُلٹی کر کے نکال دو)) اُس نے عرض کِیا:::کیوں ؟::: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( ا یُسُرُّکَ ان یَشرِبَ مَعکَ الھِر؟ کیا تُمہیں یہ بات خوشی دے گی کہ تمہارے ساتھ بِلا پیے ؟) اُسنے کہا :::جی نہیں ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( فاِِنَّہ ُ قَد شَرِبَ مَعکَ مَن ھُوَ شَرٌّ مِنہُ ؛ الشیطان ،، بے شک (تمہارے کھڑے ہو کر پینے کی وجہ سے ) بِلے سے زیادہ شر والا تمہارے ساتھ پی چُکا ہے ، اور وہ ہے شیطان ) مُسند احمد / حدیث ٧٩٩٠ ، اِمام الالبانی نے صحیح قرار دیا ، سلسلہ الاحادیث الصحیحۃ / ضمن حدیث ١٧٥ ،
 اِس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ کھڑے ہو کر پینے والے کے ساتھ شیطان شامل ہوتا ہے اور اِسی وجہ سے کھڑے ہو کر پینے سے منع فرمایا اور شدت سے منع فرمایا ،
 کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت کا سبب جاننے کے بعد یہ دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خُود جو کھڑے ہو کر پیا ہے تو اِس کی کیا وجہ ہے ؟
 عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ما مِنکُم من اَحَدٍ اِلا وقد وُکِّلَ بِہِ قَرِینُہُ من الجِنِّ )::: قالوا وَاِِیَّاکَ یا رَسُولَ اللَّہِ ::: قال ( وَاِِیَّایَ اِلا اَنَّ اللَّہَ اَعَانَنِی علیہ فَاَسلَمَ فلا یَامُرُنِی اِلا بِخَیرٍ) ( تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کے ساتھ جنات میں سے ایک جن نہ لگا دیا گیا ہو) صحابہ نے عرض کیا کہ::: اورآپ اے اللہ کے رسول ؟ ::: تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا( ہاں میں بھی لیکن میرا معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے میری مدد کی اور میرے ساتھ جو جن لگا گیاتھا اُس نے اسلام قبول کر لیا لہذا وہ مجھ سے سوائے خیر کے اور کوئی بات نہیں کرتا ) صحیح مُسلم / حدیث ٢٨١٥ / کتاب صفۃ القیامۃ و الجنۃ النار / باب ١٦،
 اوراِسی باب میں اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے پاس سے کہیں گئے تو ( یہ سوچ کر کہ شاید وہ صلی اللہ علیہ وسلم کِسی دوسری بیگم کے پاس گئے ہیں )عائشہ رضی اللہ عنہا کو اِس پر غُصہ آیا ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی حالت دیکھ کر فرمایا (کیا ہوا عائشہ کیا تمہیں غُصہ آ رہا ہے؟) عرض کیا ::: میری جیسی کو آپ جیسے پر غُصہ کیوں نہ آئے؟::: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (کیا تمہارا شیطان آیا ہے؟) عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کِیا ::: کیا میرے ساتھ شیطان ہے ؟::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( ہاں ) عائشہ رضی اللہ عنہا نے عِرض کِیا ::: کیا ہر انسان کے ساتھ شیطان ہوتا ہے؟ ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( ہاں ) عائشہ رضی اللہ عنہا نے عِرض کِیا ::: اے اللہ کے رسول کیا آپکے ساتھ بھی؟ :::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( ہا ں میرے ساتھ بھی لیکن میرے رب نے میری مدد کی حتیٰ کہ میرے شیطان نے اسلام قبول کر لیا ) صحیح مُسلم / حدیث ٢٨١٥ / کتاب صفۃ القیامۃ و الجنۃ النار / باب ١٦،
 اِن دو احادیث سے ہمیں یہ پتہ چلا کہ (١) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی اور مخلوق نہیں تھے بلکہ آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک اِنسان تھے ، (٢) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہر اِنسان کی طرح جِنوں میں سے ایک شیطان جِن لگا یا گیا تھا لیکن اللہ کی خاص مدد سے جو کِسی بھی اور کے لیے نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیے خاص تھی ،وہ مُسلمان ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع فرمان ہو گیا ، اور اُن صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صِرف خیر والی بات کرتا تھا ، اور یہ ہی اِس بات کی دلیل ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پینے میں شامل نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہ اُن صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع فرمان ہو چکا تھا ، جبکہ کوئی بھی دوسرا اِس بات سے محفوظ نہیں کہ اُس کا شیطان اُس کے پینے میں شامل نہ ہو ، لہذا کِسی بھی دوسرے کے لیے کھڑے ہو کر پینے کی مُمانعت برقرار رہے گی