اپنی زبان منتخب کریں

اتوار، 29 مارچ، 2020

مہجور قرآن کی تفسیر

وقال الرسول یارب ان قومی اتخذوا ھذاالقران مھجورا۔  سورہ فرقان(مفسر قرآن شیخ جلال الدین قاسمی)

رسول کی بارگاہ الہی میں فریاد

کہ اے میرے رب۔ میری امت نے اس قران کو مھجور بنا دیا

دعوی کرنے والے رسول اللہ ہیں
جس کے  خلاف دعوی دائر ہے وہ امت ہے
جس کے بارے میں دعوی ہے وہ قران ہے
جہاں یہ دعوی دائر ہے وہ رب کی عدالت  ہے
امت کا یہ جرم اتنا بڑا ہے کہ
رحمةللعالمین مدعی ہے
اور اپ کا نام نہ ذکر کر کے اپ کا منصب ذکر کیا گیا
یعنی پیغام کو نظر انداز کرنے والا پیغام پہنچانے والے کی توہین کا مرتکب ہے
نیز رسول پر الف لام عہد خارجی کا ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور قرینہ  القران ہے کہ وہ اپ پر ہی نازل کیا گیا

نکتہ عجیبہ۔  پورے قران میں اللہ کی صفت پر حرف ندا یا
داخل ہو کر ایت کے درمیان  کہیں نہیں ایا ہے صرف اسی ایک ایت میں ایا ہے
دوسرا نکتہ۔ کون نہیں جانتا کہ قران کون سی کتاب ہے پھر ھذا اسم اشارہ لاکر ہائی لائٹ
کیا گیا
یعنی کیا یہ قران یعنی ایسی عظیم الشان کتاب مھجوربنائے
 جانے کے لائق ہے؟
تیسرا نکتہ۔ مھجور  ھجر کے مادے سے  اسم مفعول کاصیغہ  ہے مطلب ہے
چھوڑا ہوا۔
اپ نے ریلوے پلیٹ فارموں پر دیکھا ہوگا کچھ مکانات پر
Abandoned
 لکھا ہوتا ہے اس کا مطلب ہے اب اس مکان میں کام نہیں ہوتا
یعنی مکان تو موجود ہے مگر قابل عمل نہیں ہے
لفظ ھجر پر بھی غور کر لیں
اسی سے ھجرت ہے یعنی ایک جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ چلے جانا
یعنی یہ امت قران کی بستی چھوڑ کر دوسری بستی میں جا بسی ہے۔ یہ قران کی بھی توہین ہے اور قران نازل کرنے والے کی بھی
نیز یہ نکتہ بھی ملا کہ ہجرت اچھی بھی ہوتی ہے اور بری بھی
دلیل میں حدیث انماالاعمال بالنیات لے لیں

نتیجہ۔ امت نے اللہ کی سب سے بڑی نعمت قران کی ناشکری کی

اب سورہ ابراہیم کی یہ ایت پڑھ لیں۔ ولئن کفرتم ان عذابی لشدید

کتاب انزلناہ الیک مبارک (کی تفسیر)



کتاب انزلناہ الیک مبارک لیدبروا ایاتہ ولیتذکر اولوا الالباب ) تفسیر معلم الاسلام جلال الدین قاسمی)
سورہ ص

یہ کتاب ہے جسے ہم نے اپ کی طرف نازل کیا ہے برکت والی ہے تاکہ وہ اس کی ایات پر تدبر کریں اور عقل والے اس سے نصیحت  حاصل کریں

مبارک۔ برکت والی۔ یعنی
کثیر المنافع الدینیہ والدنیویہ
یعنی اس کتاب میں دینی اور دنیوی بے شمار فوائد ہیں

امام شوکانی فتح القدیر میں لکھتے ہیں
وفی الایةدلیل علی ان اللہ سبحانہ انما انزل القران للتدبر والتفکر فی معانیہ لا لمجرد التلاوة بدون تدبر
اس ایت میں دلیل ہے کہ اللہ نے  قران کو تدبر اور تفکر کے لئے نازل کیا ہے نہ کہ بغیر تدبر کے محض تلاوت کرنے کے لئے

لیدبروا۔ اصل میں لیتدبروا ہے تو لیتدبروا کے بجائے لیدبروا کیوں لایا گیا
جواب۔ دلیل علی ان الترتیل افضل من الھذ
یہ دلیل ہے کہ قران کو ترتیل یعنی ٹھہر ٹھہر کر پڑھا جائےاور ھذ نہ کیا جائے۔ اور ھذ کا مطلب ہے گھاس کاٹنا۔
اور ھذ القرآن کا مطلپ ہے اس کو اتنی تیزی سے پڑھنا کہ حروف و کلمات پوری طرح واضح نہ ہوں یہ اس لئے کی ھذ۔ کے ساتھ تدبر ہو ہی نہیں سکتا

تدبر کا مفہوم۔
ابن عثیمین لکھتے ہیں
التدبر۔ معناہ۔ تکرار اللفظ علی القلب دبرا بعد دبر حتی یتضح المعنی
دل پر باربار لفظ کو دہرانا تاکہ معنی واضح ہو جائے

تذکر کا مفہوم۔
ابن عثیمین نے لکھاہے
التاثر فی القلب والتاثر فی الجوارح
دل اور اعضاء میں اثر لینا
دل میں اثر لینے کامطلب ہے
اس پر ایمان ہو اور دل میں۔ انابت اور توکل ہو
اور اعضاء سے اس کی اطاعت ہو

تذکر کو بعد میں کیوں لایا گیا
جواب۔  کیونکہ معنی سمجھے بغیر نصیحت کیسے حاصل کی جاسکتی ہے

نصیحت کا نتیجہ۔
جس گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں
اس کو چھوڑ کر ھدایت کے راستے پر اجانا

اولوالالباب۔ عقل والے کیوں کہا
لان صاحب العقل ھو الذی یتعظ
اما من لا عقل لہ فانہ لا ینتفع بذلک
کیونکہ عقل والا ہی قران سے نصیحت حاصل کرسکتا ہے

خلاصہ۔
قران کے نازل کئے جانے  کے تین مقاصد ہیں
برکت
تدبر
تذکر

لوگ پہلی چیز تک محدود ہیں
اور اس کے  لئے بھی  ایسے ایسے طریقے اختیار کئے ہوئے ہیں جو قران وسنت کے خلاف ہیں جیسے
حروف مقطعات کے طغرے
قرانی تعویذات
مروجہ قرآن خوانی
قبروں پر قران کی تلاوت
مرتے ہوئے ادمی کے پاس تلاوت
کھانے کی دیگوں پر فاتحہ
وغیر ذلک
تفسیر ذکر للعالمین

ہفتہ، 28 مارچ، 2020

منافق کی نشانیاں

تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظ اللہ
آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ، إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ
”منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بات کہے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ “ [صحيح بخاري/الايمان : 33]
فوائد :
نفاق کے معنی ظاہر و باطن کے اختلاف کے ہیں یہ لفظ دراصل نافقاء سے لیا گیا ہے جو چوہے کی طرح ایک جانور کے بل کے پوشیدہ دروازے کا نام ہے جو بظاہر زمین کی طرح نظر آتا ہے۔ منافق بھی بظاہر مسلمان نظر آتا ہے مگر اندرونی طور پر اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا محض دھوکہ دینے کے لئے یہ روپ اخیتار کرتا ہے۔ منافقین کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَإِذَا جَاءُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَقَد دَّخَلُوا بِالْكُفْرِ وَهُمْ قَدْ خَرَجُوا بِهِ وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا يَكْتُمُونَ
”جب وہ تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے حالانکہ وہ کفر لئے آئے تھے اور اس کفر کے ساتھ واپس ہو گئے۔ “ [5-المائدة:61 ]
دراصل نفاق، کفر کا فرد اعلیٰ ہے اس میں کفر باللہ کے ساتھ مسلمانوں کو دھوکہ دینا بھی شامل ہے۔ اسی لئے عام کفار کے مقابلہ میں ان کی سزا بھی سخت رکھی گئی ہے إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ کہ یہ دوزخ کے سب سے نیچے گڑھے میں ہوں گے۔ [4-النساء:145 ]
نفاق کی دو اقسام ہیں ایک نفاق تو ایمان و عقیدہ کا ہوتا ہے جو کفر کی بدترین قسم ہے جس کی نشاندہی صرف وحی سے ممکن ہے۔ دوسرا عمل نفاق ہے جسے سیرت و کردار کا نفاق بھی کہتے ہیں۔ حدیث بالا میں اسی قسم کے نفاق کی تین علامتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک دوسری حدیث میں نفاق کی چار علامتیں بتائی گئی ہیں۔ [صحيح بخاري/الايمان : 34]
دو علامتیں تو پہلی حدیث کی ہیں اور دو مزید ہیں اس طرح کل علامتیں پانچ ہو جاتی ہیں۔ دروغ گوئی، خیانت، وعدہ خلافی، عہد شکنی، بےہودہ گوئی۔

دور حاضر میں ہمارے اندر حرص سود

تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظ اللہ 
يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ، لَا يُبَالِي الْمَرْءُ مَا أَخَذَ مِنْهُ، أَمِنَ الْحَلَالِ أَمْ مِنَ الْحَرَامِ
” لوگوں پر ایسا وقت ضرور آئے گا کہ انسان اپنی روزی کے متعلق حلال و حرام کی پرواہ نہیں کرے گا۔ “ [صحيح بخاري/البيوع : 2059]
فوائد :
دور حاضر میں ہمارے اندر حرص، طمع اور لالچ نے اس قدر جڑیں مضبوط کر رکھی ہیں کہ ہم باہمی لین دین کے معاملات میں افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے حالات کے متعلق ہی بطور پیشین گوئی مذکورہ بالا حدیث بیان فرمائی ہے۔ چنانچہ ہمارے معاشرے کی اکثریت نے اپنی روزی کے متعلق حلال و حرام کی تمیز چھوڑ دی ہے۔ پس ایک ہی دھن سوار ہے کہ دولت کسی طرح جمع کی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کے متعلق ایک مرتبہ فرمایا تھا :
”لوگوں پر وہ وقت آنے والا ہے کہ وہ بلا دریغ سود کا استعمال کریں گے۔ عرض کیا گیا : آیا سب لوگ اس وبا میں مبتلا ہوں گے ؟ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو سود نہیں کھائے گا اسے سود کی غبار ضرور اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ “ [مسند احمد، ص : 494، ج 2]
اس حدیث کی روشنی میں جب ہم دیکھتے ہیں تو پوری دنیا کے لوگوں میں سود کچھ اس طرح سرایت کر گیا ہے جس سے ہر شخص شعوری طور پر متاثر ہو رہا ہے۔ ان حالات میں اگر کوئی مسلمان پوری نیک نیتی کے ساتھ سود سے بچنا چاہے تو اسے قدم قدم پر الجھنیں پیش آتی ہیں۔ سودی دھندا کرنے والے ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں اور انہوں نے لوگوں کو پھنسانے کے لئے ہم رنگ زمین جال پچھا رکھے ہیں۔ ان سے بچاؤ کی صورت اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے حالانکہ ارشادباری تعالیٰ ہے :
” لوگو ! زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں، انہیں کھاؤ پیو۔ “ [البقره : 168]

جمعہ، 27 مارچ، 2020

سوال : کیا بیماری ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتی ہے؟؟


سوال : کیا بیماری ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتی ہے؟؟  
جواب:
الحمدللہ والصلوات والسلام علیٰ رسول اللہ۔ اما بعد:
موجودہ وقت (کرونا وائرس) وبائی بیماری کے پھیلنے کی وجہ سے لوگ پریشانی کا شکار ہیں،اور بار بار شرعی نقطہ نگاہ دریافت کر رہے  ہیں کہ، کیا بیماری ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتی ہے یا نہیں؟؟
بعض جذباتی مولوی صاحبان یہی نظریہ لوگوں کو بتا رہے  ہیں کہ  احتیاطی تدابیر مت اختیار کریں  بیماری ایک سے دوسرے کو نہیں لگ سکتی، ساتھ میں ضد بھی کر رہے ہیں ہم مصافحہ بھی کریں گے چاہے مریض ہی ہو۔۔۔ وغیرہ۔
اور ساتھ میں لوگوں کا یہ ذہن بنا رہے  ہیں جو شخص کہتا ہے کہ بیماری ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتی ہے اس شخص کا اللہ  پہ مکمل بھروسہ نہیں۔
قارئین کرام ! یاد رکھیں بیماری اللہ کے حکم کے ساتھ ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتی ہے اور یہ بات قطعا توکل کے منافی نہیں کیونکہ اس دنیا میں سب سے بڑی توکل کرنے والی ذات  محمد رسول اللہ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے، آپ نے خود ان احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنے اور متعدی امراض والے مر یضوں سے دور رہنے کا حکم جاری فرمایا ہے۔ اس حوالے سے چند اھم دلائل ملاحظہ فرمائیں۔

دلیل نمبر ایک:
قال الرسول صلی اللہ علیہ وسلم:
وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُومِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الْأَسَدِ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جذامی ( کوڑھی )شخص سے ایسے بھاگ جیسے کہ شیر سے بھاگتا ہے۔
رواہ البخاری:
5707۔
دلیل نمبر دو:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، ح وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، وَهُشَيْمُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ فِي وَفْدِ ثَقِيفٍ رَجُلٌ مَجْذُومٌ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «إِنَّا قَدْ بَايَعْنَاكَ فَارْجِعْ»
ترجمہ:
عمرو بن شرید نے اپنے والد سے روایت کی ،کہا : ثقیف کے وفد میں کوڑھ کا ایک مریض بھی تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پیغام بھیجا :" ہم نےہم تمھاری بیعت لے لی ہے، اس لیے تم (اپنے گھر ) لوٹ جاؤ۔"
صحیح مسلم حدیث نمبر:
5822۔
وضاحت::
اس حدیث سے پتہ چلا کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے کوڑھی شخص سے ہاتھ ملائے بغیر بیعت لی جو واضح دلیل ہے کہ کچھ بیماریاں اللہ کے حکم کے ساتھ  ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتی ہیں لہذا احتیاط کرنا چاہیے اور جسے متعدی بیماری ہو اس سے دور رہنا چاہیے مصافحہ وغیرہ نہیں کرنا چاہیے۔
دلیل نمبر تین:
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«لاَ يُورِدَنَّ مُمْرِضٌ عَلَى مُصِحٍّ»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص اپنے بیمار اونٹوں کو کسی کے صحت مند اونٹوں میں نہ لے جائے.
بخارى=
5771.
دليل نمبر چار:
قال  النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «إِذَا سَمِعْتُمْ بِالطَّاعُونِ بِأَرْضٍ فَلاَ تَدْخُلُوهَا، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلاَ تَخْرُجُوا مِنْهَا» فَقُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ يُحَدِّثُ سَعْدًا، وَلاَ يُنْكِرُهُ؟ قَالَ: نَعَمْ
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم سن لو کہ کسی جگہ طاعون کی وبا پھیل رہی ہے تو وہاں مت جاؤ لیکن جب کسی جگہ یہ وبا پھوٹ پڑے اور تم وہیں موجود ہو تو اس جگہ سے نکلو بھی مت ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر:
5728۔
وضاحت: اس حدیث سے پتہ چلا کہ جس علائقے میں وبائی بیماری پھیل چکی ہے وہاں سے نکلنے اور داخل ہونے کی ممانعت اسی وجہ سے ہے کہ،  کہیں وہ بیماری اس مریض کی وجہ  سے اللہ کے حکم کے ساتھ  دوسرے علاقوں یا افراد میں منتقل نہ ہو جائے۔

اھم وضاحت::
کچھ احادیث کے اندر اس طرح  کا مفہوم موجود  ہے کہ بیماری ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل نہیں ہوتی۔ جیساکہ بخاری وغیرہ کے اندر روایت موجود ہے (لاعدوی).
تو دونوں قسم کی روایات میں تطبیق یہی ہے کہ ایک مریض  سے دوسرے مریض  میں بیماری بذات خود منتقل نہیں ہوسکتی مگر اللہ کے حکم کے بعد، جن احادیث میں ہے ہیں کہ بیماری منتقل نہیں ہو سکتی ،ان روایات میں ان لوگوں کی اصلاح کرنا مقصد  ہے جو بیماری کو ہی اصل مؤثر قرار دیتے۔
نوٹ::
جو  لوگ بیماری منتقل ہونے والے  نظریے کو توکل کے منافی قرار دے رہے ہیں وہی لوگ علاج کروانے کے قائل ہیں اور علاج کرواتے بھی ہیں حالانکہ انکے مزعومہ اصول کو دیکھا جائے تو یہ بات بھی توکل کے منافی ہے کیونکہ شفا دینے والی ذات اللہ کی ہے،وہ احباب اس اشکال کا جواب یہی دیں گے کہ شفا تو اللہ دیتا ہے لیکن دوائی اللہ کے حکم کے بعد ذریعہ اور سبب بنتی ہے !!
تو ہم بھی یہی کہتے  ہیں کہ بیماری  دینے والا  اللہ ہی ہے لیکن اللہ کے حکم کے بعد سبب اور ذریعہ دوسرے مریض بن سکتے ہیں۔

تمام مسلمان بھائیوں سے التماس :::
اولا===
اللہ رب العالمین کی طرف انابت اور رجوع کریں، نماز کو قائم کریں، استغفار کثرت سے کریں خصوصاً شرک بدعات اور نافرمانیوں سے توبہ کریں اور دعا کریں کہ اللہ اس وبا کا خاتمہ فرمائے۔
ثانیا==
کرونا کے حوالے سے حکومت اور ڈاکٹروں کی طرف سے پیش کردہ  احتیاطی تدابیر کو ضرور اختیار کریں۔
مثلاً: ماسک پہنیں ، باہر سے آنے کے بعد اپنے ہاتھ منہ کو اچھی طرح دھوئیں،بلکہ بہتر یہی ہے  وضو کریں،عوامی ہجوم والی جگہوں  پر جانے سے گریز کریں،  اور کوشش کر کے گھر سے باہر مت نکلیں ،اگر کسی کو یہ بیماری لگ گئی ہے تو فوراً علاج کروائے۔
کتبہ/ عبدالرزاق دل رحمانی۔

فقہ کا ایک قاعدہ ہے:Stay at home


Stay at home

فقہ کا ایک قاعدہ ہے:

المشقة تجلب التيسير (مصیبت آسانی لاتی ہے)
فقہا کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی دشواری یا مصیبت (مثلاً بیماری) کے رہتے ہوئے عبادت کی جائے، اور اس سے  کرنے والے کو نقصان پہنچنے کا امکان ہو، جیسے موت کا خطرہ، یا کوئی جسمانی نقصان، یا مرض میں اضافہ، یا شفایابی میں تاخیر ہو، یا تکلیف بڑھ جائے، تو ایسی صورت میں کرنے والا نقصان والے کام کی جگہ وہ کام کرے گا، جس میں اس کو نقصان نہیں پہنچے.
اس تعلق سے چند مثالیں دی جاتی ہیں. جیسے نماز کے لیے وضو کی جگہ تیمم، سفر کی حالت میں اگر کچھ نہ ملے تو مردار کھانا، وغیرہ.

اس میں معاصر مثال کے طور پر کورونا وائرس کی وبا بھی شامل ہوسکتی ہے. یعنی اس وبا کے نقصان سے بچنے کے لیے جمعہ و مسجد کی جماعت چھوڑنا، لاک ڈاؤن پر عمل کرنے کے لیے مساجد بند کرنا، وغیرہ. کیونکہ یہ بیماری بطور خاص اجتماع سے پھیلتی ہے.

جن آیات و احادیث سے یہ قاعدہ مستنبط (infer) کیا گیا ہے، ان میں سے ایک آیت یہ ہے: يُرِيدُ
ٱللَّهُ بِكُمُ ٱلْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ ٱلْعُسْرَ (2:185). یعنی خدا تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے، اور وہ تمھارے لیے سختی نہیں چاہتا.
j qasmi


بدھ، 25 مارچ، 2020

وبا میں اذان کی شرعی حیثیت

وبا میں اذان کی شرعی حیثیت

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے رویت ہے کہ حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:

"اِذَا اَذَّنَ فِیْ قَرِیَةٍ اٰمَنَھَا اللہُ مِنْ عَذَابِهٖ فِیْ ذٰلِكَ الْیَوْمِ"

جب کسی بستی میں اذان دی جائے تو اللہ تعالی اس دن اسے اپنے عذاب سے امن دے دیتا ہےـ

[المعجم الکبیر مرویات انس بن مالك، جلد 1، صفحہ257، حدیث:746، مطبوعہ المکتبة الفیصلیه بیروت]
[فتاوی رضویہ ، جلد 5 ، صفحہ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاھور]

وبا کے زمانہ میں اذان دینا ایک مستحب امر ہے کہ فقیہِ اجَلّ ، محققِ بےبدل ، صاحب العلم وبالفضل ، امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ لکھتے ہیں کہ:

”وبا کے زمانے میں اذان دینا مستحب ہے“

[فتاویٰ رضویہ ، جلد 5 ، صفحہ 370، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاجور]
[بہارِ شریعت ، جلد اول ، حصہ سوم، صفحہ 466، مطبوعہ مکتبة المدینہ کراچی]

کیونکہ اس وبا کی وجہ سے خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے جسکی وجہ سے عوام بھی پریشان ہے۔ اور گھبراہٹ کا شکار نظر آ رہی ہے۔ ان حالات میں بھی اذان سکونِ قلب اور خوف و ہراس دور کرنے کا سبب ہے۔

ابونعیم و ابن عساکر حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راویت کرتے ہیں کہ حضور سرور عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:

نَزَلَ آدَمُ بِالْھِندِ فَاسْتَوْحَشَ فَنَزَلَ جِبْرَئِیْلُ عَلَیْه الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام فَنَادیٰ بِالْاَذَاَنِ

یعنی: جب آدم علیہ الصلاۃ والسلام جنت سے ھندوستان میں اترے انہیں گھبراہٹ ہوئی تو جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام نے اتر کر اذان دی۔

[حلیة الاولیاء مرویات عمرو بن قیس الملائی ، جلد 2، صفحہ 107، رقم:299 ، مطبوعہ دارالکتاب العربیہ بیروت]

مسند الفردوس میں حضرت جناب امیرُ المومنین مولٰی المسلمین سیدنا علی مرتضی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم سے روایت ہے:
قَالَ رَایٰ النَّبِیُّ صَلّٰی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْهِ وَسَلَّم حُزِیْناً فَقَالَ یَا ابْنَ اَبِیْ طَالِبٍ اِنِّیْ اَرَاكَ حُزِیْناً فَمُرْ بَعْضَ اَھْلِكَ یُؤَذِّنُ فِیْ اُذُنِكَ فَاِنَّهٗ دَرْءُ الْھَّمِ

یعنی: مولا علی کہتے ہیں مجھے حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے غمگین دیکھا ارشاد فرمایا: اے علی! میں تجھے غمگین پاتا ہوں اپنے کسی گھر والے سے کہہ کہ تیرے کان میں اذان کہے، اذان غم وپریشانی کی دافع ہے۔

[مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوہ المصابیح باب الاذان ، جلد 2، صفحہ 149، مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان]

لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ جہاں دیگر تدابیر اختیار کر رہے ہیں وہاں اپنے اپنے گھروں میں ضرور اذانیں دیں ، گھر میں جب چاہیں اذان دے سکتے ہیں اب جبکہ علماء و مشائخ کی جانب سے اپیل کی گئی ہے تو بتاۓ وقت کیمطابق اسپر عمل کیا جاۓ اللہ کی رحمت پر پختہ یقین رکھیں ، ان شاءاللہ ہر قسم کی وبا سے حفاظت ہو گی اور خوف و گبھراہٹ دور ہونگے۔ اور اللہ کریم ﷻ امان نصیب فرمائے گا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اپنے حبیب ﷺ کے صدقے مسلمانوں کو ہر قسم کی بلا و آفت سے محفوظ رکھے آمین۔وَبا کے زمانے میں بھی اذان دینا مُسْتَحَب ہے

(بہارِ شریعت جـ1، صـ466. فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ جـ5، صـ370)

دنیا بھر کے مسلمانوں سے گزارش ہے کہ اپنے ملکوں، شہروں، گھر کی چھتوں پر بلند آواز سے اذان کا سلسلہ شروع کیا جائے۔

کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کے کان میں اذان دی جائے۔

جن جگہوں پر کرونا کی شدت ہے وہاں مساجد کے ذریعے اذان دی جائے۔

اذان ذکر خدا و رسول (عزوجل و صلی اللہ علیہ وسلم) کی بہت ہی پیاری اور پُر رحمت صورت ہے۔
جہاں کفار کے ممالک میں ذکر خدا و رسول بلند ہوگا وہیں اسکی برکات بھی ظاہر ہونگی۔

یہ سب حدیثیں بے بنیاد ہیں انکی طرف مت جانا.. اس کے رد کے بارے میں علماء کی یہ رای.. ہیں..

"کرونا کی وباء اور بعض تنبیہات" (چوتھی قسط)

✍️ تحریر: حافظ محمد طاہر بن محمد حفظه الله( تلمیز رشید شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظه الله)

"وباء کے ایام میں  بے وقت آذانیں دینے کا حکم"

کرونا کی وباء سے بچنے کے لیے بعض لوگوں نے ایک وقت مقرر کر کے گھروں اور مساجد میں آذانیں دینے کا رواج اپنایا ہے ، حالانکہ اس طرح وباء میں آذانیں دینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، سلف صالحین (صحابہ وتابعین ، ائمہ و محدثین رضی اللہ عنہم و رحمہم اللہ )سے بالکل ثابت نہیں ہیں ، لہذا یہ بدعت ہے، جس سے اجتناب کرنا لازم ہے، بعض الناس نے اپنی اس بدعت کو سہارا دینے کے لیے بعض سخت ضعیف و موضوع روایات کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں ، حالانکہ ایسی  تمام روایات ضعیف و غیر ثابت ہیں ، ذیل میں ان روایات کی تفصیل کا ذکر ہے۔

پہلی روایت :

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

«إِذَا أُذِّنَ فِي قَرْيَةٍ أَمَّنَهَا اللهُ مِنْ عَذَابِهِ ذَلِكَ الْيَوْمَ»

"جب کسی بستی میں آذان دے دی جائے تو اللہ تعالی اس دن اسے اپنے عذاب سے محفوظ رکھتے ہیں ۔"

(المعجم الکبیر للطبرانی : 1/ 257، المعجم الاوسط : 4/ 83، المعجم الصغیر : 1/ 301)

یہ روایت ثابت نہیں ۔

1۔ اس کی سند میں عبد الرحمن بن سعد بن عمار القرظ  "ضعیف" ہے۔

اس پر امام بخاری (التاریخ الکبیر : 5/ 287) اور امام یحیی بن معین (الجرح  والتعدیل لابن ابی حاتم : 5/ 238) نے جرح کر رکھی ہے ، اسی طرح اسے حافظ ذھبی (دیوان الضعفاء : 2447) نے "منکر الحدیث"  اور حافظ ابن حجر (تقریب التہذیب : 3873)نے" ضعیف" کہا ہے۔
علامہ ہیثمی رحمہ اللہ اس روایت پر جرح کرتے ہوئے  فرماتے ہیں  :
فيه عبد الرحمن بن سعد بن عمار ضعفه ابن معين۔
اس کی سند میں عبد الرحمن بن سعد بن عمار ہے، جسے یحیی بن معین نے ضعیف کہا ہے۔
(مجمع الزوائد : 1/ 328)

2۔ اسی طرح بکر بن محمد القرشی "مجہول "ہے.
حافظ ہیثمی اس کے متعلق فرماتے ہیں :
لم اعرفہ۔
"مجھے نہیں پتا یہ کون ہے۔"
(مجمع الزوائد : 3/ 242)

دوسری روایت :

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

نَزَلَ آدَمُ بِالْهِنْدِ فَاسْتَوْحَشَ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ فَنَادَى بِالْأَذَانِ۔

"جب آدم علیہ السلام ہندوستان اترے تو گھبراہٹ محسوس کی تو جبرائیل علیہ السلام نے آسمان سے نازل ہوکر آذان دی۔"

(حلیۃ الاولیاءلابی نعیم  : 5/ 17، تاریخ دمشق : 437، الفردوس بماثور الخطاب  :4/ 271)

اس کی سند میں علی بن یزید بن بہرام مجہول ہے۔

علامہ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  :
لم أجد من ترجمه۔
یعنی مجھےاس کے حالات ہی نہیں ملے۔
(مجمع الزوائد : 3/ 282)

حافظ خطیب بغدادی نے اسے بلا جرح و تعدیل ذکر کیا ہے۔(تاریخ بغداد :13/ 271)

اور مجہول راویوں کی روایت ضعیف و ناقبل ِ قبول ہوتی ہے۔

تنبیہ :

1۔ بعض احباب نے اس کی سند کے راوی محمد بن عبد اللہ بن سلیمان کو ایک دوسرا راوی سمجھ کر ان پرمیزان الاعتدال (2/ 601)وغیرہ سے امام ابن مندہ رحمہ اللہ  کی  مجہول کی جرح نقل کر دی ۔
جبکہ اس سند میں تو   ثقہ امام و محدث محمد بن عبد اللہ بن سلیمان  حضرمی کوفی مطین ہیں ۔(سیر اعلام النبلاء للذھبی : 11/ 28وٖغیرہ )اس روایت کو حلیۃ الاولیاء میں ان سے مشہور امام سلیمان بن احمد الطبرانی رحمہ اللہ روایت کر رہے ہیں اور تاریخ دمشق میں  ان سے روایت کرنے والے ان کے معروف  شاگرد ابوبکر احمد بن سلمان النجاد  ہیں۔ و اللہ اعلم

2۔ اسی طرح بعض احباب نے ابن حجر رحمہ اللہ (الاصابۃ لابن حجر:5/ 343) کے حوالے سےبالکل مختلف  سند و متن والی روایت میں سیف بن عمر کی جرح اس حدیث پر لگا دی ہےحالانکہ سیف بن عمر کا اس روایت سے کوئی دور پرے کا بھی تعلق نہیں ہے۔

تیسری روایت :

سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

أَيُّمَا قَوْمٍ نُودِيَ فِيهِمْ بِالْأَذَانِ صَبَاحًا إِلَّا كَانُوا فِي أَمَانِ اللهِ حَتَّى يُمْسُوا، وَأَيُّمَا قَوْمٍ نُودِيَ عَلَيْهِمْ بِالْأَذَانِ مَسَاءً إِلَّا كَانُوا فِي أَمَانِ اللهِ حَتَّى يُصْبِحُوا۔

"جس قوم میں صبح کے وقت آذان دے دی جائے تو شام تک وہ اللہ کی امان میں ہوتی ہے،اور جس قوم میں شام کے وقت آذان دےدی جائے وہ صبح تک اللہ کی امان میں ہوتی ہے۔"

(المعجم الکبیر للطبرانی  :20/ 215)

اس کی سند تین وجوہ کی بنا پر سخت ضعیف ہے۔

1۔ حبان بن اغلب بن تمیم ضعیف ہے۔امام ابو حاتم رحمہ اللہ (الجرح و التعدیل : 3/ 297)نے اسے ضعیف الحدیث کہا ہے۔(نیز دیکھئے  :میزان الاعتدال للذھبی : 1/ 448، لسان المیزان لابن حجر :2/ 540)

2۔اغلب بن تمیم بھی ضعیف ہے، اس پر امام بخاری (التاریخ الکبیر  :2/ 70)، امام یحیی بن معین (تاریخہ بروایۃ الدوری : 3513) ،امام نسائی (الضعفاء والمتروکون : 61) امام ابن حبان (المجروحین : 1/ 175) اور حافظ ا بن حجر  (نتائج الافکار  :2/ 426) وغیرہم رحمہم اللہ نے جرح کر رکھی ہے۔
(نیز دیکھئے : لسان المیزان لابن حجر : 2/ 215)
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں  :
فيه أغلب بن تميم وهو ضعيف.
اس کی سند میں اغلب بن تمیم ہے جو کہ ضعیف ہے۔
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد :1/ 328)

3۔ داود بن بکر تستری کے حالات نہیں مل سکے۔(الضعیفہ للالبانی  :6/ 114)

چوتھی روایت  :

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا  :

يا ابن أبي طالب أراك حزينا، فمر بعض أهلك يؤذن في أذنك فإنه دواء للهم۔

"ابن ابی طالب ! آپ مجھے غمگین لگ رہے ہیں ، اپنے گھر میں کسی سے ہیں وہ آپ کے کان میں آذان دے، یقینا یہ غموں کی دواء ہے۔"

(مسند الدیلمی بحوالہ کنز العمال  :2/ 657، المناقب الاسد الغالب لابن الجزری  :54،العجالۃ فی الحدیث المسلسلہ للفادانی :84، جامع الاحادیث للسیوطی : 30 / 364 - 365)

اس کی سند کئی وجوہ کی بنا پر ضعیف ہے۔

1۔ ابو عبد الرحمن محمد بن الحسین  السلمی صوفی  سخت ضعیف بلکہ متہم بالکذب  ہے۔ (میزان الاعتدال للذھبی  :3/ 523، لسان المیزان لابن حجر  :7/ 92)اس کے بارے یہی راجح موقف ہے۔

2۔ عبد اللہ بن موسی السلامی کے متعلق حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
في رواياته غرائب ومناكير وعجائب.(تاریخ بغداد : 11/ 383)
ایسے راوی کی متفرد روایت ہرگز مقبول نہیں ہوتی۔(نیز دیکھئے :میزان الاعتدال :  2/ 509)

3۔الفضل بن عیاش یا الفضل بن  عباس یا المفضل بن عباس الکوفی کے متعلق علم نہیں ہوسکا کہ یہ کون ہے۔واللہ اعلم

4۔ حفص بن غیاث مدلس ہیں ۔(العلل و معرفۃ الرجال لاحمد  :1941طبقات المدلسین لابن حجر : 9) ان کے سماع کی تصریح نہیں۔

پانچویں روایت  :

عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

مَا أُذِّنَ فِي قَوْمٍ بِلَيْلٍ إِلَّا أُمِنُوا الْعَذَابَ حَتَّى يُصْبِحُوا، وَلَا نَهَارًا إِلَّا أُمِنُوا الْعَذَابَ حَتَّى يُمْسُوا۔
(مصنف عبد الرزاق :1/ 487)

اس کی سند منقطع ہے۔
کیونکہ محمد بن یوسف کی روایات اپنے والد کے واسطے سے ہوتی ہیں ، لیکن یہاں وہ بلا واسطہ اپنے دادا سے بیان کر رہے ہیں، اسی طرح  محققین کے نزدیک  محمد بن یوسف نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔(نثل النبال :3/ 296) اور سیدنا عبد اللہ بن سلام سیدنا عثمان کے سات آٹھ سال بعد  43 ہجری میں وفات پائی۔معلوم ہوا کہ محمد بن یوسف یا توبہت چھوٹے تھےیا انہوں نے سرے سے اپنے دادا کا زمانہ ہی نہیں پایا، لہذا یہ سند منقطع ہے۔واللہ اعلم

تنبیہ :

محمد بن یوسف بن عبد اللہ بن سلام کی امام ترمذی نے ضمنا (3617)اور ابن حبان (الثقات  :5/ 368)رحمہما اللہ نے توثیق کر رکھی ہے۔ ان سے ایک جماعت نے روایت کی ہے۔(حاشیہ مسند احمد بتحقیق الارناؤط : 18/ 411)

چھٹی روایت :

سیدنا ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَا مِنْ قَوْمٍ يُؤَذِّنُونَ لِصَلَاةِ الْغَدَاةِ إِلَّا أَمِنُوا الْعَذَابَ إِلَى اللَّيْلِ، وَمَا مِنْ قَوْمٍ يُؤَذِّنُونَ لِصَلَاةِ الْمَغْرِبِ إِلَّا أَمِنُوا الْعَذَابَ إِلَى الصُّبْحِ۔

"جو قوم فجر کی آذان دےدیتی ہے تو وہ رات تک عذاب سے محفوظ رہتی ہے، اور جو قوم مغرب کی آذان دے دیتی ہے صبح تک عذاب سے محفوظ رہتی ہے۔"

(الامالی لابن بشران :1/ 148 ح :408)

پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ روایت کئی ایک وجوہات کی بنا پر موضوع ،من گھڑت ہے۔

1۔ محمد بن حماد بن ماہان الدباغ "ضعیف "ہے۔امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لیس بالقوی ۔(سوالات حاکم :189)

2۔ سلیمان بن عمرو ابو داود النخعی  "کذاب" ہے۔ اسے امام احمد (العلل ومعرفۃ الرجال :2/542)، امام بخاری (التاریخ الکبیر : 4/ 28)، امام یحیی ابن معین (تاریخہ بروایۃ الدوری  :2716) ، امام حاکم (سوالات السجزی : 69)، امام ابن حبان (المجروحین : 1/ 333)وغیرہم رحمہم اللہ نے اسے "کذاب" اور "احادیث گھڑنے والا" قرار دیا ہے۔بلکہ حافظ ابن الجوزی فرماتے ہیں : كَانَ وضاعا بِإِجْمَاع الْعلمَاء۔ (الموضوعات :1 /228، 2/ 153)

3۔ ابو القاسم نصر بن حریش الصامت بھی ضعیف ہے۔(تاریخ بغداد  :13/ 287، میزان الاعتدال للذہبی : 4/ 250)

4۔نصر کا استاذ سہل بن ابی مسلم الخراسانی یا ابو سہل مسلم الخراسانی ہے اس کا کوئی پتا  نہیں ۔ واللہ اعلم

5۔ شریک بن عبد اللہ القاضی مدلس ہیں ۔(طبقات المدلسین لابن حجر  :56) اور سماع کی تصریح نہیں ہے۔نیز یہ مختلط بھی ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہ روایت ثابت بھی ہو جائے تب بھی اس میں صبح اور فجر کی نماز کی آذان کا ذکر ہے جس کے بارے میں کوئی اختلاف ہی نہیں۔

بعض الناس نے "نسیم الصبا فی ان الاذان یحول الوبا"نامی رسالہ لکھ کر اسے درست قرار دینے کی کوشش کی ہے  ۔(فتاوی رضویہ : 5/ 370) اسی طرح  ذکر الہی کے متعلقہ عمومی دلائل سے اسے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔(فتاوی رضویہ : 23/ 175)حالانکہ یہ بالکل درست نہیں اور دلائل شرعیہ سے استنباط کے قواعد سے لا علمی کا نتیجہ ہے۔

خلاصہ کلام :

ایسی تمام روایات جن سے مروجہ طریقے پر آذان دینے پر استدلال کیا جاتا ہے، وہ ناقابل اعتبار و ناقابل حجت ہیں، لہذا یہ عمل بدعت ہے  اور جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ بدعت عذابِ الہی میں کمی کی بجائے اضافے کا باعث بنتی ہیں ،اور شیطان بھی ہی چاہتا ہے کہ امت ِمسلمہ مسنون اعمال چھوڑ کر ایسے بدعی اعمال کو اپنا لے۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم مسنون و مشروع اعمال کے ذریعے سے ہی اللہ تعالی کا قرب حاصل کریں اور اس کے عذابوں سے پناہ مانگیں۔

اللہ تعالی عمل کی توفیق دے۔آمین